Tag: جولائی وفات

  • منگولوں کو جنگِ عین جالوت میں‌ بدترین شکست دینے والے سلطان بیبرس کا تذکرہ

    منگولوں کو جنگِ عین جالوت میں‌ بدترین شکست دینے والے سلطان بیبرس کا تذکرہ

    تاریخ کے کئی واقعات ایسے ہیں‌ جن کے بعد دنیا کی عظیم سلطنتوں کا نقشہ بدل گیا اور کئی تخت الٹ گئے۔ ان واقعات نے یکایک تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ جنگِ عین جالوت انہی میں سے ایک ہے جس میں طاقت اور فتوحات کے نشے میں دھت منگولوں نے رکن الدّین بیبرس کے ہاتھوں بدترین شکست کھائی اور مسلمانوں کی خلافت اور ہاتھ سے جاتے ہوئے کئی علاقے محفوظ ہوگئے۔

    جنگِ عین جالوت 1260ء میں مملوک افواج اور منگولوں کے درمیان لڑی گئی تھی جس میں مملوک شاہ سیف الدّین قطز اور اس کے مشہور جرنیل رکن الدّین بیبرس کو کام یابی ملی اور یہ فتح دراصل عالمِ اسلام کی فتح تھی۔ یہ جنگ فلسطین کے مقام عین جالوت پر لڑی گئی۔ اس فتح کے نتیجے میں مصر، شام اور یورپ کے کئی علاقے بھی منگولوں کے ہاتھوں بربادی سے بچ گئے۔ جنگ میں ایل خانی حکومت کے منگول بانی ہلاکو خان کا مشہور سپہ سالار کتبغا مارا گیا۔ یہی نہیں‌ بلکہ اس جنگ نے منگولوں کی طاقت کا غرور اور ان کی فتوحات کا طلسم بھی توڑ کر رکھ دیا۔ بیبرس کو اسی جنگ نے مسلمانوں‌ کا ہیرو بنایا، لیکن اس سپہ سالار کا کارنامہ شام کے ساحل پر قابض یورپی حکومتوں کا زور توڑنا اور صلیبی لشکر کو شکست سے دوچار کرنا بھی ہے۔

    1277 میں آج ہی کے دن بیبرس کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس عظیم سپہ سالار نے معرکۂ عین جالوت میں‌ فتح کے بعد میں مصر و شام کا تخت سنبھالا تھا۔ بیبرس کے حالاتِ زندگی اور کئی واقعات محققین کی نظروں سے اوجھل رہے ہیں یا ان میں‌ اختلاف ہے، لیکن دست یاب معلومات کے مطابق 1223 میں اس نے خوارزم شاہ کے ایک درباری کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ اس کا نام البند قداری تھا اور وہ رکن الدّین بیبرس مشہور ہوا۔ وقت کی گردش نے اسے غلام بنا کر مختلف ہاتھوں میں فروخت کے بعد مصر کے بازار تک پہنچایا۔ وہ ایک غلام کے طور پر یہاں ایک نیک خصلت خاتون کے گھر آگیا۔ خاتون نے اپنے مرحوم بیٹے کے نام پر اسے بیبرس پکارنا شروع کردیا اور اپنا بیٹا بنا لیا۔ اسی عورت کا ایک بھائی مصر کے سلطان کے دربار سے منسلک تھا جو غلام بیبرس کو اپنے ساتھ دربار میں لے گیا اور کسی طرح اسے سلطان کی کفالت نصیب ہوگئی۔ وہاں اسے رہائش اور کھانا پینا ہی نہیں‌ بہترین تربیت اور اس زمانے کے رائج ہنر اور حربی علوم بھی سکھائے گئے۔ بیبرس نے اپنی ذہانت اور لگن سے خود کو بہترین سپاہی اور بعد میں‌ فوج کی قیادت کا اہل بھی ثابت کیا۔

    مؤرخین کے مطابق وہ مصری افواج کے ان کمان داروں میں سے ایک تھا جس نے فرانس کے بادشاہ لوئس نہم کو ساتویں صلیبی جنگ میں شکست دی۔ بعد میں بیبرس مملوک سلطنت کا ایک نام ور حکم ران بنا اور 1260ء سے 1277ء تک مصر اور شام پر حکومت کی۔ وہ ہلاکو خان اور دہلی کے غیاث الدّین بلبن کا ہمعصر تھا۔ وہ نسلاً ایک قپچاق ترک تھا جسے غلام بنا کر فروخت کر دیا گیا تھا۔

    جنگ عین جالوت اسی سپہ سالار کا وہ کارنامہ ہے جس پر عالمِ اسلام میں آج بھی وہ بیبرس کے نام سے زندہ ہے۔ یوں تو منگول ایک عرصے سے قتل و غارت گری اور اقوام کو زیر کرنے کے لیے جنگیں کررہے تھے لیکن یہ تیرہویں صدی عیسوی کے وسط کی بات ہے جب منگول وسطی ایشیا سے نکل کر چاروں طرف پھیل گئے تھے اور ہر طرف ان کی قتل و غارت گری جاری تھی۔ ہلاکو خان اپنے لشکر کے ساتھ عراق، شام، فلسطین کے شہروں کو فتح کر کے مصر پر حملہ آور ہوا تو یہ کہا جانے لگا کہ منگول اگر اس علاقے پر قابض ہوگئے تو پھر انھیں حجاز کی مقدس سرزمین کی جانب بڑھنے سے روکنا مشکل ہو گا۔

    اس پر سلطان مصر سیف الدین قطز اور رکن الدین بیبرس کے درمیان معاہدہ طے پایا تھا کہ وہ فوج کے ساتھ منگولوں کا مقابلہ کرے اور مسلمانوں کی فتح کے بعد شام میں حلب اور اس کے اطراف کے علاقے بیبرس کے تصرف میں دے دیے جائیں گے۔ بغداد کو تباہ کرنے کے بعد جب ہلاکو کی فوجیں شام کی طرف بڑھیں تو بیبرس اور مملوک سردار سیف الدین قطز نے مل کر 1260ء میں عین جالوت کے مقام پر ان کو فیصلہ کن شکست دی اور شام سے منگول فوجوں کو نکال باہر کیا۔

    عین جالوت کی جنگ میں تاتاریوں کی شکست کی خبر شام اور فلسطین اور دنیا بھر میں منگول مقبوضات میں پھیل گئی جس نے مسلمانوں کو حوصلہ دیا اور وہ منگول حاکموں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور تاتاریوں کا مقابلہ کر کے اپنے شہر واپس لینے شروع کر دیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے شام اور فلسطین کے اکثر مقبوضات منگول تسلط سے آزاد ہوگئے۔ یوں عین جالوت کے میدان میں‌ رکن الدّین بیبرس نے گویا منگول آندھی کو ہمیشہ کے لیے زمین کی گہرائیوں‌ میں قید کردیا۔

    بعد میں سیف الدین قطز اپنے وعدے یا اس معاہدے سے مکر گیا جو اس نے بیبرس کے ساتھ جنگ سے قبل کیا تھا اور اس طرح ان کے درمیان رنجش پیدا ہوگئی اور معرکۂ عین جالوت کے چند دنوں بعد پُراسرار طور پر سلطان قطز کا قتل ہوگیا۔ اس وقت چوں کہ رکن الدّین بیبرس وہاں کے مسلمانوں کی نظر میں‌ دلیر اور ہیرو تھا، اس لیے امرا نے متفقہ طور پر اسے سلطانِ مصر تسلیم کر لیا۔

    ایک انگریز مصنّف ہیریلڈیم نے لکھا ہے کہ بیبرس متعدد زبانیں‌ جانتا تھا اور بعض‌ مؤرخین کے مطابق وہ بھیس بدل کر فوج اور عوام کے انتظامات اور حالات پر نظر رکھتا تھا۔

    عالمِ اسلام کے اس عظیم سپاہی کو دمشق کے المکتبۃُ الظّاہریہ میں‌ دفن کیا گیا تھا۔

  • سَر راس مسعود: مسلمانوں کی تعلیمی اور تہذیبی زندگی کا ایک روشن باب

    سَر راس مسعود: مسلمانوں کی تعلیمی اور تہذیبی زندگی کا ایک روشن باب

    راس مسعود اردو کے فاضل ادیب اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ وہ برصغیر کے مسلمانوں کے عظیم خیر خواہ اور مصلح و راہ بَر سرسیّد احمد خان پوتے تھے۔ راس مسعود 30 جولائی 1938ء کو دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    سیّد محمود کے گھر 15 فروری 1889ء کو آنکھ کھولنے والے راس مسعود نے گھر پر مذہبی تعلیم کے ساتھ ابتدائی کتب کی مدد سے لکھنا پڑھنا سیکھا اور پانچ سال کی عمر میں اسکول جانے لگے۔ بعد میں راس مسعود کو علی گڑھ کالج کے پرنسپل مسٹر موریسن اور ان کی بیگم کی نگرانی میں دے دیا گیا جنھوں نے ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا اور کچھ عرصے بعد راس مسعود کو انگریزی وظیفے پر مزید تعلیم کے لیے آکسفورڈ بھیج دیا گیا۔

    راس مسعود 1929ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر منتخب ہوئے۔ راس مسعود انجمن ترقیِ اردو کے بھی صدر تھے۔ انھوں نے تحریکِ آزادی کے حوالے سے تحریر و تقریر اور جلسوں میں شرکت کی اور ان کی چند تحریر اور تالیف کردہ کتب میں انتخابِ زرین، سرسیّد کے خطوط، اردو کے مستند نمونے شامل ہیں۔ انھوں نے حیدرآباد دکن میں بھی ملازمت کی اور بھوپال میں بھی وقت گزارا تھا۔

    شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کے دوستوں اور احباب کا حلقہ خاصا وسیع تھا، لیکن جن لوگوں سے اُنھیں ایک گہرا اور دلی تعلق خاطر تھا، وہ گنے چُنے ہی تھے اور ان میں سر راس مسعود کا نام سر فہرست ہے۔ 1933ء میں آپ افغانستان کے دورہ میں اقبال کے ہمراہ تھے۔ اقبال نے ان کی اچانک وفات پر "مسعود مرحوم” کے عنوان سے نظم بھی لکھی۔

    راس مسعود کا انتقال ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی اور تہذیبی زندگی کا ایک الم ناک سانحہ تھا۔

  • اردو کے ممتاز رومانوی شاعر عندلیب شادانی کی برسی

    اردو کے ممتاز رومانوی شاعر عندلیب شادانی کی برسی

    اردو کے نام وَر شاعر، ادیب، نقّاد، محقّق اور مترجم ڈاکٹر عندلیب شادانی 1969ء میں آج ہی دن وفات پاگئے تھے۔ حکومتِ پاکستان نے ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر انھیں ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔

    عندلیب شادانی کا شمار اردو کے ممتاز رومانی شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل بہت مقبول ہوئی جس کا یہ شعر آپ کے ذہن کے کسی گوشے میں بھی محفوظ ہوگا۔

    دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
    آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو

    عندلیب شادانی نے شاعری کے علاوہ کہانیاں اور تنقیدی و سوانحی مضامین بھی لکھے۔

    وہ یکم مارچ 1904ء کو سنبھل ضلع مراد آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی سے فارسی ادبیات میں ایم اے کیا اور 1934ء میں لندن یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ کچھ عرصے تک ہندو کالج دہلی میں اردو اور فارسی کے لیکچرر رہے اور اس کے بعد ڈھاکہ یونیورسٹی میں لیکچرر مقرر ہوئے۔ وہیں ان کا انتقال ہوا اور ڈھاکہ میں ہی تدفین ہوئی۔

    ’نشاط رفتہ‘ کے نام سے ان کا شعری مجموعہ شائع ہوا جسے بہت پذیرائی ملی۔ دیگر تصانیف نقش بدیع، اردو غزل گوئی اور دورِ حاضر، سرودِ رفتہ، سچی کہانیاں، نوش و نیش تحقیق کی روشنی میں، جدید فارسی زبان پر فرانسیسی کے اثرات کے نام سے منظرِ عام پر آئیں۔

    عندلیب شادانی کا یہ شعر بھی زباں زدِ عام ہے۔

    جھوٹ ہے سب تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے
    اچھا میرا خوابِ جوانی تھوڑا سا دہرائے تو

  • زبان و ادب: نادرِ روزگار شخصیت ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کا تذکرہ

    زبان و ادب: نادرِ روزگار شخصیت ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کا تذکرہ

    ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کو ایک یگانہ روزگار، ہمہ جہت اور عالم فاضل شخصیت مانا جاتا ہے جنھوں‌ نے زبان و ادب کے لیے ناقابلِ فراموش خدمات انجام دیں۔ وہ 28 جولائی 1972ء کو الہٰ آباد(بھارت) میں وفات پاگئے تھے۔

    ڈاکٹر عبدالستار صدیقی جدید لسانیات کے ماہر، املا انشا، الفاظ کے مآخذ، تحقیق اور تاریخ کے عالم تھے اور متعدد زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ وہ عربی، فارسی، اردو، ہندی، سنسکرت، انگریزی، لاطینی، جرمن، پہلوی یا درمیانے عہد کی فارسی کے علاوہ عبرانی اور سریانی زبانوں سے بھی واقف تھے۔

    ان کا متعدد زبانوں کی تاریخ اور الفاظ کے مآخذ کا علم حیرت انگیز تھا۔ ہندوستان کی جیّد اور عالم فاضل شخصیات مختلف علمی و تحقیقی کاموں کے حوالے سے ان سے رجوع کرتی تھیں۔

    ڈاکٹر صاحب نے ایسے فارسی الفاظ پر تحقیق کی جو اسلام کی آمد سے قبل کلاسیکل عربی کا حصّہ رہے۔ ان کے مضامین اردو جرائد میں شائع ہوتے تھے، لیکن ان بہت کم کام کتابی شکل میں‌ منظرِ‌عام پر آسکا۔ کیوں کہ انھوں نے بہت کم لکھا اور زیادہ تر تحقیق اور مطالعے میں‌ وقت گزارا۔

    ان کی ایک قابلِ قدر تحقیقی کاوش ان کی وفات کے 30 برس بعد مشفق خواجہ کی کوشش سے ‘مرابت رشیدی’ کی صورت میں‌ شایع ہوئی تھی۔ اس ان عربی الفاظ پر بحث کی گئی ہے جو دیگر زبانوں خصوصاً فارسی سے داخل ہوئے۔ ان کی دو لغات کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔

    عبدالستار صدیقی 26 دسمبر 1885ء کو یو پی کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ریاست دکن میں‌ ملازم تھے، چنانچہ ڈاکٹر صدیقی نے اپنی ابتدائی تعلیم گلبرگہ اور حیدرآباد دکن میں حاصل کی۔ بی اے اور ایم اے کی ڈگری لینے کے بعد وہ اسکالر شپ پر جرمنی میں تعلیم حاصل کرنے چلے گئے اور وہاں جدید فارسی، لاطینی، سریانی، عبرانی اور سنسکرت زبانوں کو سیکھا، 1917ء میں انھیں عربی گرائمر پر تحقیق کے لیے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی۔

    وہ 1919ء میں ہندوستان واپس لوٹے اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ بعد ازاں حیدر آباد دکن میں عثمانیہ یونیورسٹی میں مدرس مقرر ہوگئے، اسی عرصے میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں عربی اور اسلامیات کے شعبے کا سربراہ بنادیا گیا۔

  • یومِ وفات: ترک حکم راں سلیم ثالث کو معزولی کے ایک سال بعد قتل کیوں کیا گیا؟

    یومِ وفات: ترک حکم راں سلیم ثالث کو معزولی کے ایک سال بعد قتل کیوں کیا گیا؟

    سلطنتِ عثمانیہ میں سلیم ثالث اپنے فہم و فراست اور سیاسی تدبّر کی وجہ سے قابلِ ذکر اور مثالی سلطانوں میں سرِفہرست ہیں۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ سلطنتِ عثمانیہ کے حکم رانوں کا رعب و دبدہ اپنی جگہ، لیکن وہ علم و ہنر کے قدر داں تھے جن میں سے ایک سلیم ثالث ہیں جو اس عظیم سلطنت کے 28 ویں سلطان تھے۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ سلطنتِ عثمانیہ 1299ء سے 1922ء تک قائم رہی جس کے حکم راں ترک مسلمان تھے۔ اس سلطنت میں 1789ء سے 1807ء تک سلیم ثالث کا دورِ حکم رانی رہا جنھیں معزول کر کے قتل کردیا گیا۔

    سلیم ثالث 1761ء میں‌ پیدا ہوئے اور 1808ء میں‌ آج ہی کے دن روح نے ان کے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ وہ 46 سال کی عمر میں‌ دنیا سے رخصت ہوئے۔

    سلطنتِ عثمانیہ اپنے عروج کے زمانے میں تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا کا بیش تَر حصّہ اس کے زیرِ نگیں تھا۔ اس کے صوبہ جات اور باج گزار علاقے الگ تھے۔

    سلیم ثالث کے بارے میں‌ مؤرخین لکھتے ہیں کہ انھوں نے سلطنتِ عثمانیہ کا زوال روکنے اور اسے ترقّی دینے کے لیے قابلِ قدر کوششیں کیں۔ وہ علم و ادب کا رسیا، فنونِ لطیفہ کا شائق و شیدا تھا اور مذہب پسند بھی جس نے اپنے دور میں تعلیم عام کرتے ہوئے جدید علوم کی سرپرستی کی۔ اس عہد میں فنِ‌ حرب کو بھی بہت اہمیت دی گئی۔ سلیم ثالث نے عسکری معاملات پر توجہ دیتے ہوئے افواج کو نئے سرے سے منظّم کیا اور جدید خطوط پر ترقّی دی۔

    سلیم ثالث نے ملک میں اصلاحات پر زور دیا اور جاگیر داری نظام کو اس راہ میں بڑی رکاوٹ پاکر اس حکم راں نے مخالفت کے باوجود جاگیر داری نظام کو ختم کیا، لیکن یہی کوششیں‌ اس کے خلاف گئیں سلیم کو ان اصلاحات کے باوجود خاص کام یابی نہ مل سکی۔ سماج اور مختلف اداروں بالخصوص فوج کو جدید خطوط پر منظّم کرتے ہوئے طاقت وَر بنانے کے لیے اس کے بعض اقدامات کو کفّار کی تقلید یا ان سے مشابہت قرار دے کر جذبات کو بھڑکایا گیا اور اس حکم راں کو معزولی کے ایک سال بعد قتل کردیا گیا۔

  • یومِ وفات:‌ حقیقی زندگی میں ساغر و مینا سے بیزار ریاض خیرآبادی ‘شاعرِ خمریات’ مشہور ہوئے

    یومِ وفات:‌ حقیقی زندگی میں ساغر و مینا سے بیزار ریاض خیرآبادی ‘شاعرِ خمریات’ مشہور ہوئے

    ریاض خیرآبادی کو خیّامِ ہند کہا جاتا ہے۔ وہ 28 جولائی 1934ء کو دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    کہتے ہیں انھوں نے نہایت سادہ اور پاکیزہ زندگی بسر کی، لیکن ان کے کلام میں شراب و شباب، رندی و سَرشاری کے مضامین کی کثرت ہے اور اسی لیے وہ شاعرِ خمریات بھی مشہور ہیں۔

    ان کا اصل نام سیّد ریاض احمد تھا۔ شاعری کا آغاز کیا تو ریاض تخلّص اپنایا اور اپنے آبائی علاقے کی نسبت اس میں خیر آبادی کا اضافہ کیا۔ ادبی تذکروں میں ان کا سن و جائے پیدائش 1855ء اور خیر آباد لکھا ہے۔

    ریاض خیرآبادی نے اسیر لکھنوی سے اصلاح لی اور ان کی وفات کے بعد امیر مینائی کے شاگرد ہوگئے۔ شعر و ادب کے ساتھ لگاؤ اور تصنیف کا شوق ایسا تھا کہ شاعری کے ساتھ متعدد اخبار و رسائل کا اجرا کیا جن میں ریاضُ الاخبار، صلحِ کل، گلکدۂ ریاض، فتنہ، پیامِ یار شامل ہیں۔ انھوں نے چند انگریزی ناولوں کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا۔

    ریاض خیر آبادی آخر عمر میں خانہ نشین ہو گئے اور 82 سال کی عمر میں وفات پائی۔

    ان کا دیوان "دیوانِ ریاض” کے نام سے شائع ہوا۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

    بچ جائے جوانی میں جو دنیا کی ہوا سے
    ہوتا ہے فرشتہ کوئی انساں نہیں ہوتا

    مے خانے میں کیوں یادِ خدا ہوتی ہے اکثر
    مسجد میں تو ذکرِ مے و مینا نہیں ہوتا

    دھوکے سے پلا دی تھی اسے بھی کوئی دو گھونٹ
    پہلے سے بہت نرم ہے واعظ کی زباں اب

  • اردو کے معروف شاعر حکیم ناصر کی برسی

    اردو کے معروف شاعر حکیم ناصر کی برسی

    اردو کے معروف شاعر حکیم ناصر 28 جولائی 2007ء کو راہیِ ملک عدم ہوئے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ان کی ایک مشہور غزل کا یہ شعر آپ نے ضرور سنا ہو گا۔

    جب سے تُو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
    سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں‌ اٹھا رکھا ہے

    غزل کی اسی لڑی کا یہ شعر بھی ملاحظہ کیجیے۔

    پتھرو! آج میرے سَر پر برستے کیوں ہو
    میں نے تم کو بھی کبھی اپنا خدا رکھا ہے

    1947ء میں اجمیر شریف (بھارت) میں جنم لینے والے حکیم ناصر کا اصل نام محمد ناصر تھا۔ وہ تقسیمِ ہند کے بعد کراچی آ گئے تھے جہاں اپنا مطب کھولا اور اسے یافت کا ذریعہ بنایا۔ ان کے والد اور دادا بھی حکیم تھے۔ حکیم ناصر نے مطب کو وقت دینے کے ساتھ ساتھ شاعری جاری رکھی جو روایت و جدّت کا حسین امتزاج تھی۔ وہ بنیادی طور پر رومانوی شاعر تھے، لیکن اسے ایک منفرد اور نئے آہنگ سے اشعار میں‌ سمویا۔ ندرتِ خیال اور دل کش اندازِ بیاں نے ان کی شاعری کو پُراثر اور مقبول بنایا۔

    یہاں ہم حکیم ناصر کے چند اشعار قارئین کے ذوق کی نذر کررہے ہیں۔

    اب مری دید کی دنیا بھی تماشائی ہے
    تُو نے کیا مجھ کو محبّت میں بنا رکھا ہے

    آپ سے آنکھیں ملی تھیں پھر نہ جانے کیا ہوا
    لوگ کہتے ہیں کہ ایسی بے خودی دیکھی نہ تھی

    ہاتھ اٹھتے ہوئے ان کے نہ کوئی دیکھے گا
    کسی کے آنے کی کریں گے وہ دعا میرے بعد

    تمہارے بعد اجالے ہی ہو گئے رخصت
    ہمارے شہر کا منظر بھی گائوں جیسا ہے

  • یومِ وفات: حلیم بروہی رومن اسکرپٹ میں سندھی لکھنے کے حامی تھے

    یومِ وفات: حلیم بروہی رومن اسکرپٹ میں سندھی لکھنے کے حامی تھے

    سندھی زبان کے ناول نگار اور مقبول مصنّف حلیم بروہی 28 جولا‎ئی 2010ء کو وفات پاگئے تھے۔

    حلیم بروہی نے 5 اگست 1935ء کو حیدر آباد، سندھ میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد محکمہ پولیس میں ملازم تھے۔ حلیم بروہی نے ابتدائی تعلیم کے بعد ایل ایل بی کیا اور پھر وکالت شروع کردی۔ تاہم جلد ہی سندھ یونیورسٹی جامشورو میں ملازمت اختیار کرلی اور ریٹائرمنٹ تک اسی تعلیمی ادارے سے وابستہ رہے۔

    حلیم بروہی انگریزی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ ان کے کالم انگریزی اخبار دی فرنٹیئر پوسٹ میں شایع ہوتے تھے۔ سندھی اور انگریزی میں ان کی کُل دس کتابیں شایع ہوئیں جن میں سندھی کی کتاب ’حلیم شو‘ مقبول ترین تھی۔ 1975ء میں ان کا ناول ’اوڑاھ‘ کے نام سے شایع ہوا جو نوجوان قارئین میں خاصا مقبول ہوا۔ حلیم بروہی کے انگریزی کالموں کا انتخاب بھی شائع ہو چکا ہے۔

    حلیم بروہی سندھی زبان کے ایک منفرد قلم کار اور ایسے مصنّف تھے جو اپنے اصولوں اور ادبی نظریات کے سبب جہاں ہم عصروں میں ممتاز ہوئے، وہیں متنازع بھی رہے۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھاکہ میں‌ نے سندھی میں لکھ کر غلطی کی اور صرف انگریزی زبان میں لکھنا چاہیے تھا۔ سندھ اور سندھی زبان کے قلم کاروں میں حلیم بروہی کی مخالفت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ انھوں نے طویل عرصے تک سندھی کو رومن اسکرپٹ میں لکھنے کی تحریک چلائی۔

    حلیم بروہی کا خیال تھا کہ جیسی ادبی تقریبات منعقد ہورہی ہیں، وہ وقت کا زیاں ہیں۔ وہ ان قلم کاروں میں سے ایک تھے جنھوں نے اپنی کتابوں کی رونمائی یا اپنے اعزاز میں تقاریب کے انعقاد کی حوصلہ شکنی کی اور تخلیقی کام جاری رکھنے کو اہم قرار دیا۔

    حلیم بروہی نے عام روش سے ہٹ کر ایسے مصنّف کے طور پر خود کو پیش کیا جو نمائشی تقریبات اور پذیرائی سے بے نیاز تھا، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ انھوں نے سندھ کے نوجوانوں میں مقبول ہونے کے باوجود کسی ادبی محفل کی صدارت نہیں‌ کی۔

  • بالی وڈ اداکار امجد خان کا تذکرہ جن کی وجہِ شہرت ’’گبر سنگھ‘‘ بنا

    بالی وڈ اداکار امجد خان کا تذکرہ جن کی وجہِ شہرت ’’گبر سنگھ‘‘ بنا

    بالی وڈ کی سپر ہٹ فلم ’’شعلے‘‘ کے ’’گبر سنگھ‘‘ کو کون نہیں‌ جانتا۔ اداکار امجد خان کو اس کردار نے ایسی منفرد شناخت دلائی، جو آج بھی قائم ہے۔ ان کا یہ کردار شائقین میں اس قدر مقبول ہوا کہ لوگ تفریحاً اس کی آواز، انداز اور چال ڈھال کی نقل کرنے لگے۔ یہی نہیں‌ بلکہ اس کا ایک مکالمہ ’سو جا بیٹے ورنہ گبر آجائے گا‘ آج بھی موقع کی مناسبت سے بے ساختہ زبان پر آجاتا ہے۔

    امجد خان 1992ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ 12 نومبر 1940ء کو پیدا ہونے والے امجد خان کو اداکاری وراثت میں ملی تھی۔ ان کے والد بھی فلموں میں‌ ولن کے کردار نبھانے کے لیے مشہور تھے۔

    بطور اداکار امجد خان نے اپنے کیریئرکا آغاز 1957ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’اب دہلی دور نہیں‘‘ سے کیا تھا۔ اور 1975ء میں فلم شعلے نے انھیں‌ شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں‌ پر پہنچا دیا۔ انھوں‌ نے ایکشن فلموں کے ساتھ کامیڈی فلموں میں‌ بھی کام کیا۔ بالی وڈ کے اس کام یاب ولن نے خون پسینہ، کالیہ، دیش پریمی، نصیب، مقدر کا سکندر، سہاگ اور رام بلرام میں منفی کردار نبھائے اور اپنی مقبولیت برقرار رکھی۔

    ’شطرنج کے کھلاڑی‘ وہ فلم تھی جو ’شعلے‘ کی نمائش کے دو برس سنیما پر سجی اور امجد خان کو اودھ کے نواب واجد علی شاہ کے سنجیدہ کردار پر حاوی دیکھا گیا۔ اسی طرح فلم قربانی‘ کے انسپکٹر خان اور ’چمیلی کی شادی‘ کے ایڈووکیٹ ہریش کے کرداروں نے انھیں باکمال ثابت کیا اور پھر مالا مال اور ہمّت والا جیسی فلموں میں انھوں‌ نے ہلکے پھلکے مزاحیہ کردار نبھا کر شائقین کو محظوظ کیا۔ ان کا ایک حوالہ فلمی ہدایت کاری بھی ہے۔

    1986ء میں امجد خان نے ایک کار حادثے میں موت کو تو شکست دے دی تھی، لیکن علاج اور ادویہّ کے مسلسل استعمال کے باعث ان کا جسم فربہی کی طرف مائل ہوگیا جس کی وجہ سے انھیں فلم نگری سے دور ہونا پڑا۔ ممبئی میں وفات پانے والے امجد خان زندگی کے آخری ایّام میں مختلف بیماریوں کا شکار رہے۔

  • طنز و مزاح کے ممتاز شاعر پروفیسر عنایت علی خان کی برسی

    طنز و مزاح کے ممتاز شاعر پروفیسر عنایت علی خان کی برسی

    معروف شاعر پروفیسر عنایت علی خان کو اردو شاعری میں طنز و مزاح کے حوالے سے موجودہ دور کا اکبر الٰہ آبادی بھی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے کلام میں اخلاقی اور سماجی موضوعات کے ساتھ معاشرتی مسائل کی نشان دہی کی اور لوگوں کو اپنی روایات اور اقدار کی طرف متوجہ کرنے کے لیے شگفتہ طنز کا سہارا لیا۔ انھوں نے طنز و مزاح میں‌ شائستگی اور معیار کو ہمیشہ اہمیت دی اور ہم عصر مزاحیہ شعرا میں‌ ممتاز ہوئے۔

    پروفیسر عنایت علی خان 1935ء میں بھارتی ریاست راجستھان کے شہر ٹونک میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد والدین کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آئے اور سندھ کے شہر حیدرآباد میں آباد ہوئے۔ انھوں نے سندھ یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے کے بعد تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور کئی برسوں تک سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ سے بھی منسلک رہے۔

    پروفیسر صاحب نے سندھ یونیورسٹی سے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے 1961ء میں اوّل پوزیشن کے ساتھ اردو ایم اے کا امتحان پاس کیا تھا۔ بعد ازاں بی ایڈ کیا اور 1963ء میں مغربی پاکستان میں سرکاری ملازمت اختیار کی جس کے تحت پہلی پوسٹنگ خیر پور اور پھر حیدر آباد تبادلہ ہو گیا۔

    کرکٹ کے کھیل سے عنایت علی خان کو بڑا لگاؤ تھا۔ انھوں نے بعد میں کیڈٹ کالج پٹارو میں ملازمت کی تو وہاں‌ اردو پڑھانے کے ساتھ کرکٹ کی کوچنگ بھی کی۔

    پروفیسر عنایت علی خان کو شاعری کا شوق ورثے میں‌ ملا تھا۔ ان کے والد ہدایت علی خان ٹونکی اپنے دور کے مشہور شاعر تھے۔ ان کے نانا، دادا اور چچا جان بھی شاعر تھے۔

    پروفیسر عنایت علی خان نے سنجیدہ شاعری بھی کی اور غزل اور نظم میں اپنے فن کی داد وصول کی، مگر ان کی وجہِ شہرت اور شناخت مزاحیہ شاعری ہے۔

    ان کے شعری مجموعوں میں ’ازراہِ عنایت، ’عنایتیں کیا کیا‘ اور ’کلیاتِ عنایت‘ شامل ہیں۔ پروفیسر عنایت علی خان نے بچّوں کے لیے کہانیاں بھی لکھیں اور ان کی نظموں کی دو کتابیں بھی شایع ہوئیں۔ پروفیسر صاحب کی مزاحیہ نظم بول میری مچھلی کے متعدد قطعات زباں زدِ عام ہوئے۔ ان کا ایک مشہور شعر دیکھیے۔

    حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
    لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

    پروفیسر عنایت علی خان 26 جولائی 2020ء کو وفات پاگئے تھے۔