Tag: جولائی وفات

  • فلم، ٹیلی ویژن اور اسٹیج ڈراموں کے مشہور مزاحیہ اداکار ملک انوکھا کی برسی

    فلم، ٹیلی ویژن اور اسٹیج ڈراموں کے مشہور مزاحیہ اداکار ملک انوکھا کی برسی

    آج پاکستانی فلم، ٹی وی اور اسٹیج ڈراموں کے مشہور اداکار ملک انوکھا کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 26 جولائی 2008ء کو حرکتِ قلب بند ہوجانے کے سبب وفات پاگئے تھے۔ ملک انوکھا کا فنی کیریئر 40 سال پر محیط ہے جس میں انھوں نے زیادہ تر مزاحیہ کردار ادا کیے۔

    وہ 1960ء سے 1970ء کی دہائی تک فلم اور ڈراموں میں مختلف کرداروں میں رنگ بھرتے نظر آئے اور ناظرین نے ان کی اداکاری کو پسند کیا۔ ملک انوکھا نے سندھی زبان میں‌ بننے والی کئی فلموں میں اداکاری کی اور شائقین سے داد وصول کی۔ بعد میں وہ لاہور چلے گئے جہاں فلمی صنعت اور ڈراموں کے لیے کام کیا اور 1980ء میں کراچی آگئے جہاں انھیں ٹی وی اور اسٹیج ڈراموں میں کام کرنے کا موقع ملتا رہا۔

    انھوں نے اپنے وقت کے مشہور اور کام یاب ترین ڈراموں برزخ، کشکول، منڈی، امر بیل، فن کار گلی میں کام کیا تھا۔

    ملک انوکھا کا تعلق اندرونِ سندھ کے شہر میر پور خاص سے تھا۔ وہ اردو، پنجابی اور سندھی زبان پر عبور رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان تینوں زبانوں میں بننے والی فلموں اور ڈراموں میں انھیں کردار سونپے گئے جنھیں اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہوئے ملک انوکھا نے نہایت خوبی سے ادا کیا اور شہرت حاصل کی۔

    1970ء کی دہائی میں پی ٹی وی کا ڈرامہ ’دبئی چلو‘ ان کی وجہِ شہرت بنا۔ مزاحیہ سندھی ڈرامہ ہل پنھل ہل میں ان کے مخصوص انداز میں لوگوں نے ڈائیلاگ ’ہل پنھل‘ سنا تو عرصے تک اس سے محظوظ ہوتے رہے اور یہ ڈائیلاگ شائقین کی زبان پر رہا۔

  • اردو کی نام وَر افسانہ نگار خدیجہ مستور کی برسی

    اردو کی نام وَر افسانہ نگار خدیجہ مستور کی برسی

    آج اردو زبان کی نام وَر افسانہ نگار خدیجہ مستور کا یومِ وفات ہے۔ خدیجہ مستور کا شمار اردو کی اُن ناول نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی تخلیقی وفور اور شعور سے افسانہ اور ناول نگاری کے میدان میں نام و مقام بنایا اور ان اصنافِ ادب کا وقار بڑھایا۔ وہ 26 جولائی 1982ء کو لندن میں وفات پاگئی تھیں۔

    خدیجہ مستور 11 دسمبر 1927ء کو بریلی میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے افسانہ نگاری کا آغاز 1942ء میں کیا۔ 1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد ان کا خاندان لاہور آ بسا تھا۔ یہاں ان کا تخلیقی سفر جاری رہا اور تین افسانوی مجموعے چند روز اور، تھکے ہارے اور ٹھنڈا میٹھا پانی کے نام سے شایع ہوئے۔ اسی عرصے میں ان کے دو ناول ’’آنگن‘‘ اور ’’زمین‘‘ کے نام سے بھی منظرِ عام پر آئے جنھیں بہت پسند کیا گیا، خاص طور پر آنگن کو بہترین ناول مانا گیا جس پر 1962ء میں خدیجہ مستور کو آدم جی انعام بھی دیا گیا تھا۔

    خدیجہ مستور کو واقعہ نگاری میں کمال حاصل ہے۔ وہ واقعات کو اس طرح بیان کرتی ہیں کہ ان سے متعلق سیاسی اور معاشرتی منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ ان کی کہانیاں عموما متوسط طبقہ کے مسائل کے گرد گھومتی ہیں۔ ان کے موضوعات وسیع اور سماجی اقدار پر مبنی ہیں جن کا پس منظر سیاسی اور اخلاقی ہے۔

    خدیجہ مستور کی چھوٹی بہن ہاجرہ مسرور بھی اردو کی صف اوّل کی افسانہ نگاروں میں شامل ہیں جب کہ ان کے بھائی خالد احمد کا نام جدید شاعری کے حوالے سے اہمیت رکھتا ہے۔

    خدیجہ مستور کو لاہور میں گلبرگ کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • آج نام وَر جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی برسی منائی جارہی ہے

    آج نام وَر جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی برسی منائی جارہی ہے

    آج شہرۂ آفاق جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کا یومِ وفات منایا جارہا ہے، لیکن 26 جولائی ان کی تاریخِ پیدائش بھی ہے۔ ابنِ صفی اپنی 52 ویں سال گرہ کے دن 1980ء میں وفات پاگئے تھے۔

    ان کا اصل نام اسرار احمد تھا۔ ابنِ صفی 1928ء کو قصبہ نارہ، ضلع الہ آباد میں‌ پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے قلمی نام سے دنیا بھر میں‌ پہچان بنائی اور اردو زبان میں جاسوسی ادب کے اوّلین اور مقبول ترین قلم کار کی حیثیت سے آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔

    ابنِ صفی شاعر بھی تھے۔ انھوں نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز غزل گوئی سے کیا۔ انھوں نے اسرار ناروی کے نام سے شاعری کی اور بعد میں نثر کی طرف متوجہ ہوئے تو طغرل فرغان کے نام سے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین لکھے۔ 1952ء میں ابنِ صفی نے جاسوسی کہانیاں‌ اور پھر باقاعدہ ناول لکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور یہی ان کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بنا۔

    ان کا پہلا ناول ’’دلیر مجرم‘‘ تھا جو 1952ء میں ہندوستان سے شایع ہوا۔ اسی سال ابنِ صفی ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور یہاں انھوں نے ’’عمران سیریز‘‘ کے نام سے جاسوسی کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، اس عنوان کے تحت ان کا پہلا ناول ’’خوفناک عمارت‘‘ اکتوبر 1955ء میں شائع ہوا۔ وہ جلد ہی کہانیوں اور ناولوں کے رسیا قارئین میں مقبول ہوگئے، انھوں نے اس سلسلے کے مجموعی طور پر 120 ناول تحریر کیے اور ان کا آخری ناول ’’آخری آدمی‘‘ تھا جو ان کی وفات کے بعد 11 اکتوبر 1980ء کو شائع ہوا۔ فریدی، عمران اور حمید ان کی جاسوسی کہانیوں‌کے مقبول ترین کردار ہیں۔

    عمران سیریز کی مقبولیت کے دنوں میں اکتوبر1957ء میں ابنِ‌ صفی نے یہاں جاسوسی دنیا کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا تو پاکستان میں ان کا پہلا ناول ’’ٹھنڈی آگ‘‘ تھا۔ 1960ء سے 1963ء کے دوران ابنِ صفی شیزوفرینیا کے مرض میں مبتلا رہے جس کی وجہ سے تین سال تک ان کا کوئی ناول شائع نہیں ہوا۔ 1963ء میں ابنِ صفی کی صحت یابی کے بعد ان کا ناول ’’ڈیڑھ متوالے‘‘ شائع ہوا تو ان کے مستقل قارئین نے زبردست پذیرائی دی اور ناول کو ہاتھوں ہاتھ لیا، کہتے ہیں صرف ہفتے بھر میں ناشر کو اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنا پڑا جو اردو فکشن کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔

    ابن صفی کے دو ناولوں پر فلم بھی بنائی گئی تھی۔ پاکستان کے اہم ادیبوں اور قلم کاروں ہی نے نہیں بلکہ ابنِ صفی کی تخلیقات کو نام وَر غیر ملکی ادیبوں اور نقّادوں نے بھی سراہا اور انھیں سرّی ادب کا بڑا قلم کار مانا ہے۔

    کراچی میں‌ وفات پانے والے ابنِ صفی پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے بعد از مرگ انھیں ستارۂ امتیاز سے نوازا۔

  • یومِ‌ وفات: ’’دوپٹہ‘‘ وہ پاکستانی فلم تھی جس نے سبطین فضلی کو شہرتِ دوام بخشی

    یومِ‌ وفات: ’’دوپٹہ‘‘ وہ پاکستانی فلم تھی جس نے سبطین فضلی کو شہرتِ دوام بخشی

    آج پاکستان فلم انڈسٹری کے نام وَر ہدایت کار سبطین فضلی کا یومِ‌ وفات ہے۔ وہ 25 جولائی 1985ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    سبطین فضلی بہت باغ و بہار قسم کے آدمی تھے۔ انتہائی خوش اخلاق، خوش گو اور خوش لباس۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی تھے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے ہی سبطین فضلی اور ان کے بھائی حسنین فضلی نے کلکتہ سے فلم سازی میں نام و مقام بنالیا تھا۔ وہ ’’فضلی برادران‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ تاہم بٹوارے کے بعد سبطین فضلی جو لاہور میں مقیم تھے صرف تین ہی فلمیں بنائیں، لیکن ایسا کام کیا جو آج بھی یادگار ہے اور پاکستان کی فلمی صنعت میں اس کی مثالیں‌ دی جاتی ہیں۔

    سبطین فضلی 9 جولائی 1914ء کو بہرائچ (اتر پردیش) میں پیدا ہوئے تھے۔ اپنے فلمی کیریئر کا آغاز اپنے بڑے بھائی حسنین فضلی کے ساتھ کیا اور قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے فلم ’’دوپٹہ‘‘ کی ہدایات دیں جسے کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ اس فلم کے بعد انھوں نے ’’آنکھ کا نشہ‘‘ اور ’’دو تصویریں‘‘ نامی فلمیں بنائیں جو کام یاب نہیں ہوسکیں، مگر اس کام اور فنی مہارت میں ان کی محنت اور لگن کا ثبوت ہیں‌۔ فلم کے ناقدین کا کہنا ہے کہ فلمی تاریخ میں سبطین فضلی کو زندہ رکھنے کے لیے ان کی فلم دوپٹہ ہی کافی ہے۔

    سبطین فضلی کی پہلی فلم ’’دوپٹہ‘‘ میں پاکستانی اداکارہ اور گلوکارہ نور جہاں کے ساتھ ایک نیا ہیرو اجے کمار کے نام سے پردے پر سامنے آیا تھا۔ اس فلم میں‌ سدھیر نے بھی کام کیا تھا۔ یہ فلم 1952ء میں ریلیز ہوئی تھی اور بے حد کام یاب رہی تھی۔ اس زمانے میں آج کی طرح جدید سہولتیں اور وسائل نہ ہونے کے باوجود یہ بہت معیاری فلم تھی۔

    سبطین فضلی لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • نام وَر پاکستانی مصوّرہ لیلیٰ شہزادہ کی برسی

    نام وَر پاکستانی مصوّرہ لیلیٰ شہزادہ کی برسی

    پاکستان کی نام وَر مصوّرہ لیلیٰ شہزادہ 1994ء میں‌ آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ اپنے فن پاروں کی بدولت عالمی شہرت حاصل کرنے والی لیلیٰ شہزادہ کا موضوع سندھ کی تہذیب اور ثقافت رہا۔ وہ تجریدی آرٹ کے حوالے سے پہچانی جاتی ہیں‌۔

    لیلیٰ شہزادہ 1925ء میں انگلستان میں لٹل ہیمپٹن میں پیدا ہوئی تھیں۔ انھوں نے ڈرائنگ سوسائٹی، لندن سے مصوّری کی تعلیم حاصل کی اور اس فن کو باقاعدہ سیکھا۔ 1958ء سے 1960ء کے دوران وہ مشہور مصوّر اے ایس ناگی سے ملیں‌ اور ان سے مصوّری کی مزید تربیت حاصل کی۔

    لیلیٰ شہزادہ نے 1960ء میں کراچی میں اپنے فن پاروں‌ کی پہلی انفرادی نمائش منعقد کی جس نے انھیں یہاں قدر دانوں اور ناقدین میں متعارف کروایا، بعد کے برسو‌ں میں‌ ان کے فن پاروں‌ کو پاکستان کے مختلف شہروں کی آرٹ گیلریز میں سجایا گیا اور انھیں بہت پذیرائی ملی، اسی عرصے میں بیرونِ ملک بھی آرٹ گیلریوں تک ان کے فن پارے پہنچے اور وہاں‌ ان کی کام یاب نمائش کی گئی۔

    2006ء میں پاکستان پوسٹ نے‌ لیلیٰ شہزادہ یادگاری‌ ٹکٹ کا اجرا کیا تھا جب کہ حکومتِ‌ پاکستان نے اس مصورہ کو تمغہ امتیاز اور تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔ لیلیٰ شہزادہ نے بیرونِ ملک بھی اپنے منفرد فن پاروں کی بدولت مختلف اعزازات اپنے نام کیے۔

  • گوگلیلمو مارکونی: ریڈیو کے موجد کے انتقال کی خبر انہی کی ایجاد نے دنیا تک پہنچائی

    گوگلیلمو مارکونی: ریڈیو کے موجد کے انتقال کی خبر انہی کی ایجاد نے دنیا تک پہنچائی

    20 جولائی 1937ء کو اٹلی کے شہر روم میں نوبل انعام یافتہ سائنس داں اور الیکٹریکل انجینئر گوگلیلمو مارکونی (Guglielmo Marconi) کے انتقال کی خبر ریڈیو پر سنی گئی جو انہی ہی کی ایجاد ہے۔ اسی نشریاتی میڈیم کی بدولت بعد میں‌ یہ افسوس ناک خبر دنیا بھر میں پھیل گئی۔

    مارکونی 25 اپریل 1874ء کو اٹلی کے مشہور شہر بولونیا میں پیدا ہوئے۔ نو عمری ہی میں انھوں نے وائرلیس ٹیلی گرافی، یعنی تار کے بغیر ٹیلی گراف پیغام ارسال کرنے کے خیال کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش شروع کر دی تھی۔ ایک سائنس داں کی تحریر سے متاثر ہو کر مارکونی کو وائرلیس ٹیلی گرافی کے لیے ریڈیو ویوز کے استعمال کا خیال آیا اور تب 20 سال کی عمر میں انھوں نے ریڈیو ویوز کے تجربات شروع کر دیے۔ ان کی تحقیق اور تجربات سے ثابت ہوا کہ وائر لیس کمیونیکیشن بھی ممکن ہے۔

    انیسویں صدی کے اواخر میں مارکونی نے اپنے تیار کردہ آلات سے کئی کلومیٹر کی دوری سے تار کے بغیر ریڈیو کمیونیکیشن کرنے کا مظاہرہ کیا جس نے اسے بین الاقوامی سطح پر شہرت دی۔ چند ایسے ہی تجربات کے بعد 1901ء میں وہ انگلستان سے کینیڈا وائر لیس پیغام بھیجنے میں کام یاب ہو گئے تھے۔

    مارکونی کی اس ایجاد کی باقاعدہ شکل 1922ء میں سامنے آئی جب انگلینڈ میں ریڈیو براڈ کاسٹنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔ مارکونی کو 1915ء میں نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔

  • بالی وڈ کی معروف گلوکارہ کا تذکرہ جس کی خوش گوار زندگی میں ’’محبّت‘‘ نے طوفان برپا کردیا

    بالی وڈ کی معروف گلوکارہ کا تذکرہ جس کی خوش گوار زندگی میں ’’محبّت‘‘ نے طوفان برپا کردیا

    ہندوستان کی فلمی صنعت میں پسِ پردہ گائیکی کے لیے مشہور گیتا دت 1972ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ ان کے گائے ہوئے گیت بہت مقبول ہوئے اور آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ گیتا دت نے بھارت کے نام ور فلم ساز اور ہدایت کار گُرو دت سے شادی کی تھی۔

    گیتا دت 23 نومبر1930ء کو فرید پور، بنگلہ دیش میں پیدا ہوئیں۔ ان کا خاندانی نام گیتا گھوش رائے چودھری تھا۔ ان کے والد ایک بڑے اور خوش حال زمین دار تھے۔ اس خاندان نے 40 کی دہائی میں کلکتہ اور پھر ممبئی کا رخ کیا اور تب گیتا دت کو فلم ’’دو بھائی‘‘ میں کام ملا۔ اس کے بعد فلم ’بازی‘‘ کے گانے ان کی آواز میں‌ ریکارڈ ہوئے اور یہی وہ فلم تھی جس کے دوران وہ اس وقت کے نوجوان ہدایت کار گرو دت سے ملیں اور یہ سلسلہ رومان سے شادی پر منتج ہوا۔ 1953 میں شادی کے بعد اس جوڑے کے گھر دو بیٹے پیدا ہوئے اور زندگی بڑی خوش گوار گزر رہی تھی، لیکن گرُو دت اداکارہ وحیدہ رحمان کو دل دے بیٹھے اور ان کی گھریلو زندگی میں طوفان آگیا۔

    1957ء میں گرو دت نے اپنی فلم ’’ گوری‘‘ میں گیتا دت کو مرکزی اداکارہ کے طور پر شامل کیا، لیکن یہ فلم مکمل نہ ہوسکی۔ اسی عرصے میں گورو دت وحیدہ رحمان کے عشق میں گرفتار ہوئے تھے اور گیتا دت کو جب یہ معلوم ہوا تو انھیں سخت صدمہ پہنچا اور ان کے درمیان اجنبیت کی دیوار کھڑی ہوتی چلی گئی۔ اس گلوکارہ نے مے نوشی شروع کردی اور ایک روز اچانک انڈسٹری میں گُرو دت کی موت کی خبر آئی جسے بعض لوگ خود کشی بھی قرار دیتے ہیں۔ شوہر کی ناگہانی موت نے گیتا دت کو ہلا کر رکھ دیا، وہ مالی مسائل کا بھی شکار ہو گئیں۔

    اس غم کو جھیلتے ہوئے گیتا دت نے گلو کاری کے میدان میں دوبارہ قدم جمانے کی کوشش کی۔ اسٹیج شوز میں بھی کام کیا پھر 1967ء میں ایک بنگالی فلم میں مرکزی کردار ادا کیا۔ 1971ء میں فلم ’’انو بہو‘‘ کے گیت گائے جو بہت مقبول ہوئے۔ گیتا دت نے ہندی ہی نہیں‌ بنگالی گیت بھی گائے۔ ان کی آواز بلاشبہ بہت خوب صورت تھی۔

    کئی بڑے موسیقاروں اور گلوکاروں نے ان کی فنی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ بابو جی دھیرے چلنا….وہ گیت ہے جو آج بھی سدا بہار گیتوں کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔ اسی طرح‌ فلم دو بھائی کا گیت، میرا سندر سپنا ٹوٹ گیا، دیو داس کا گانا آن ملو آن ملو، صاحب بی بی اور غلام کا گانا نہ جائو سیاں چھڑا کے بیاں اور دیگر گانے گیتا دت کی یاد دلاتے رہیں گے۔

  • فرینک میکورٹ کا تذکرہ جن کی وجہِ شہرت ‘انجلاز ایشز’ ہے!

    فرینک میکورٹ کا تذکرہ جن کی وجہِ شہرت ‘انجلاز ایشز’ ہے!

    فرینک میکورٹ ان خوش نصیب قلم کاروں میں سے ایک ہیں جن کی اوّلین تصنیف ہی ’بیسٹ سیلر‘ قرار پائی اور انھیں‌ پلٹزر پرائز کا حق دار ٹھہرایا۔ سرطان کے مرض میں‌ مبتلا فرینک میکورٹ 2009ء میں آج ہی کے دن یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔

    فرینک میکورٹ کی کتاب کا نام تھا ‘انجلاز ایشز’ (Angela’s Ashes) جو دراصل ان کے بچپن کی یادداشتوں پر مشتمل تھی۔

    فرینک میکورٹ 19 اگست 1930ء کو امریکا کی ریاست نیویارک کے شہر بروکلین میں پیدا ہوئے تھے۔ اس دور میں‌ امریکا شدید اقتصادی بحران سے دوچار تھا جس کے باعث بالخصوص عام لوگوں کی زندگی شدید مشکلات سے دوچار تھی۔ تب اس خاندان نے امریکا سے ہجرت کی اور آئرلینڈ جا بسا۔ فرینک میکورٹ نے انہی دنوں کو اپنی کتاب میں‌ پیش کیا تھا۔

    فرینک کا خاندان آئر لینڈ کے شہر کی ایک چھوٹی سی بستی لائمرک میں سکونت پذیر ہوا جہاں انتہائی غربت اور مشکل حالات سے لڑتے ہوئے ان کے والدین نے زندگی کو بہتر بنانے کی جدوجہد شروع کی۔ مصنّف نے کئی برس بعد ان دنوں کو اپنے حافظے سے نکال کر لفظی منظر کشی کی اور اسے کتابی شکل میں‌ شایع کروایا جو دنیا بھر میں ان کی وجہِ شہرت بنی۔ فرینک میکورٹ نے ان دنوں کو ’غربت کا عہد‘ لکھا ہے۔ بعد میں‌ وہ امریکا منتقل ہوگئے، کتاب کی اشاعت سے پہلے فرینک میکورٹ 30 سال تک نیویارک کے ایک اسکول میں استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔

    آئرلینڈ میں ان کے بچپن کی یادوں پر مبنی کتاب انجلاز ایشز کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں اور 1996ء میں انھیں پلٹزر انعام سے بھی نوازا گیا۔

    اس کتاب پر 1999ء میں ہالی وڈ میں ایک فلم بھی بنائی گئی تھی۔ فرینک میکورٹ کی اس کتاب کو آئرلینڈ کی سماجی تاریخ کا عکس بھی کہا جاتا ہے۔

    بعد میں‌ مصنّف نے ’ٹس اور ٹیچر مین‘ کے نام سے نیویارک میں گزرے ہوئے ایّام کو محفوظ کیا تھا۔

    وفات کے وقت اس آئرش نژاد امریکی مصنّف کی عمر 78 سال تھی۔

  • ساغر صدیقی: غمِ دوراں کا شاعر جس کے لیے زندگی جبرِ مسلسل تھی

    ساغر صدیقی: غمِ دوراں کا شاعر جس کے لیے زندگی جبرِ مسلسل تھی

    آج فقیر منش ساغر صدیقی کی برسی منائی جارہی ہے۔ اردو زبان کا یہ شاعر تلخیٔ ایّام اور زمانے کی ستم ظریفی کا شکار رہا۔ اسی لیے رنج و غم، درد و الم، ناامیدی، حسرت و یاس اور دوراں کا فریب ساغر صدیقی کے کلام میں نمایاں‌ ہے۔ ساغر نے 19 جولائی 1974ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا کو الوداع کہہ دیا تھا۔

    ساغر صدیقی کے تفصیلی اور مستند حالاتِ زندگی بہت کم دست یاب ہیں۔ انھوں نے 1928ء میں انبالہ میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کا خاندانی نام محمد اختر تھا۔ غربت ان کے گھر پر گویا راج کرتی تھی۔ ان حالات میں باقاعدہ تعلیم کا حصول ممکن نہ تھا۔ اپنے محلّے کے ایک بزرگ سے کچھ لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ نوعمری میں امرتسر چلے گئے اور وہاں چھوٹے موٹے کام کرنے لگے، انھوں نے کنگھیاں بنانے کا فن سیکھا اور اسی عرصے میں‌ شعر گوئی کا سلسلہ شروع ہوا۔

    1944ء میں امرتسر میں آل انڈیا مشاعرہ منعقد ہوا، جس میں میں کسی نے ساغر کو بھی پڑھنے کا موقع دلوا دیا۔ ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا، روانی تھی اور وہ مشاعرے میں کام یاب ہوگئے۔ اسی اوّلین مشاعرے نے انھیں‌ مشہور کردیا تھا۔ وہ لاہور اور امرتسر کے مشاعروں میں باقاعدہ موعو کیے جانے لگے۔

    تقسیمِ ہند کے بعد ساغر امرتسر سے لاہور چلے آئے۔ یہاں لطیف انور گورداسپوری کی صحبت میں‌ رہے اور بہت فیض پایا۔ ساغر کو ان کی شاعری اور مشاعروں میں‌ شرکت کے سبب کچھ آمدنی ہونے لگی تھی۔ ان کا کلام ہر بڑے روزنامے، ادبی جریدوں اور رسالوں میں شایع ہونے لگا۔ اسی مقبولیت کے زمانے میں‌ ساغر کو کچھ ایسے لوگ ملے جن کی خراب صحبت نے انھیں نشّے کی لت میں‌ مبتلا کردیا۔ انھوں نے بھنگ، شراب، افیون اور چرس وغیرہ کا استعمال شروع کردیا اور مستی و بے حالی کے عالم میں‌ جہاں جگہ مل جاتی پڑ جاتے۔ مشقِ سخن تو جاری رہی، لیکن ساغر کا حلیہ، ان کی صحّت بگڑتی چلی گئی اور وہ اپنی جسمانی صفائی اور ہر بات سے بے پروا فٹ پاتھ پر زندگی بسر کرنے لگے۔

    اس زمانے میں بھی لوگ انھیں کچھ ہوش میں پاتے تو مشاعروں میں لے جاتے جہاں ان کے کلام کو بڑی پذیرائی ملتی، لیکن وقت کے ساتھ ساغر اس سے بھی گئے۔ انھیں اکثر داتا دربار کے اطراف اور احاطے میں‌ دیکھا جانے لگا تھا اور وہیں‌ قریب ہی فٹ پاتھ پر ان کے شب و روز بسر ہورہے تھے۔

    کہتے ہیں ساغر نشّے کے لیے رقم دینے والوں کے لیے کلام لکھ کر دینے لگے تھے جو وہ اپنے نام سے شایع کرواتے تھے۔ ساغر صدیقی نے ہر صنفِ سخن میں‌ طبع آزمائی کی اور ان کا کلام مقبول ہوا۔

    اس حالت کو پہنچنے سے پہلے ہی وہ امرتسر اور لاہور میں مشہور ہوچکے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام بھی خاصی حد تک مجموعوں کی شکل میں محفوظ ہوگیا۔ ان کی تصانیف میں ’زہرِ آرزو‘، ’غمِ بہار‘، شبِ آگہی‘، ’تیشۂ دل‘، ’لوحِ جنوں‘، ’سبز گنبد‘، ’مقتل گل‘ شامل ہیں۔

    ساغر فالج کا شکار ہوئے تو ان کا ایک ہاتھ‍ ہمیشہ کے لیے ناکارہ ہو گیا۔ ان کا جسم سوکھ کر کانٹا ہوچکا تھا اور ایک روز فٹ پاتھ پر ہی ساغر نے دَم توڑ دیا۔ انھیں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    ساغر صدیقی کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اس کا گلہ ہی کیا
    پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا

    بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
    تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے

    اب کہاں ایسی طبیعت والے
    چوٹ کھا کر جو دعا کرتے تھے

    زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
    جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

    ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
    ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں

  • نام ور ادیب، مؤرخ اور مترجم سیّد ہاشمی فریدآبادی کی برسی

    نام ور ادیب، مؤرخ اور مترجم سیّد ہاشمی فریدآبادی کی برسی

    علم و ادب، تاریخ و تذکرہ نویسی کے حوالے سے مستند اور جامع معلومات اپنے دل کش طرزِ تحریر میں اکٹھا کرکے اردو زبان کو تیس سے زائد یادگار کتب دینے والے سیّد ہاشمی فرید آبادی کا آج یومِ وفات ہے۔ وہ 19 جولائی 1964ء کو دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    وہ اردو زبان کے نام ور ادیب، مترجم، شاعر اور مؤرخ کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔
    سیّد ہاشمی فرید آبادی 30 جنوری، 1890ء کو پیدا ہوئے۔ متحدہ ہندوستان میں‌ فرید آباد ان کا وطن تھا۔ ان کا اصل نام سیّد میر ہاشم علی حسنی تھا اور عرفیت سیّد ہاشمی۔

    ابتدائی تعلیم فرید آباد سے مکمل کرنے کے بعد علی گڑھ سے بی اے کیا۔ بعد میں‌ دارُالتّرجمہ، جامعہ عثمانیہ، دکن میں ملازمت اختیار کی اور تاریخ کی بے شمار کتابوں کو اردو کے قالب میں ڈھالا۔ وہ ایک عرصہ تک انجمن ترقّیِ اردو پاکستان میں بابائے اردو مولوی عبد الحق کے ساتھ کام کرتے رہے۔ ان کی علمی یادگاروں میں ماآثر لاہور، تاریخِ یونان قدیم، پنجاہ سالہ تاریخِ انجمنِ ترقّیِ اردو، غازیانِ تہذیب، تاریخِ ہند، تاریخ مسلمانانِ پاکستان و بھارت اور مشاہیرِ یونان و رومہ قابلِ ذکر ہیں۔

    پاکستان آنے کے بعد سیّد ہاشمی لاہور میں‌ تصنیف و تالیف میں‌ مشغول رہے اور وہیں زندگی کا سفر تمام کیا۔ لاہور میں‌ ان کا مرقد ماڈل ٹاؤں میں ہے۔