Tag: جولائی وفات

  • راجیش کھنہ: بالی وڈ کا پہلا سپر اسٹار جو مغرور اور لیٹ لطیف مشہور تھا

    راجیش کھنہ: بالی وڈ کا پہلا سپر اسٹار جو مغرور اور لیٹ لطیف مشہور تھا

    راجیش کھنہ کو بالی وڈ کا پہلا سپر اسٹار کہا جاتا ہے۔ انھوں نے 2012ء میں آج ہی کے دن زندگی سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیا تھا۔

    گزشتہ صدی میں 70 کے عشرے تک راجیش کھنہ جس فلم میں جلوہ گر ہوئے، باکس آفس پر ہٹ ہوئی۔ راجیش کھنہ ان اداکاروں میں‌ سے تھے جنھوں نے اپنے زمانہ عروج میں لگا تار پندرہ سپر ہٹ فلمیں دیں جو ایک ریکارڈ ہے۔

    راجیش کھنہ 1942ء میں پنجاب کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئے۔ 1966ء میں انھوں‌ نے چیتن آنند کی فلم ’آخری خط‘ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور 1969ء میں ’آرادھنا‘ کی ریلیز کے بعد راتوں رات اسٹار بن گئے۔ اس فلم میں انھوں‌ نے باپ اور بیٹے کا ڈبل رول نبھایا تھا۔

    راجیش کھنہ نے اپنے سَر کو ایک خاص انداز میں جھٹکنے، اپنی منفرد چال اور آنکھوں کے مخصوص اشارے سے شائقین بالخصوص لڑکیوں کی توجہ حاصل کی اور ان کے دلوں میں اتر گئے۔

    انھوں نے اپنے دور کی مقبول ترین اداکاراؤں کے ساتھ کام کیا جن میں شرمیلا ٹیگور اور ممتاز کے ساتھ ان کی جوڑی سب سے زیادہ ہٹ ہوئی۔ ’دو راستے‘، ’خاموشی‘، ’آنند‘ اور ’سفر‘ جیسی فلموں سے انھوں نے ثابت کر دیا کہ وہ کردار کی گہرائی میں بھی اترسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ راجیش کھنہ اور ممتاز کی جوڑی نے ’آپ کی قسم‘، ’دشمن، ’روٹی‘ اور ’سچا جھوٹا‘ جیسی سپر ہٹ فلمیں دیں۔

    ہندی فلموں کے مشہور مصنّف سلیم خان کے مطابق راجیش کھنہ کے لیے لوگوں میں ایسی دیوانگی تھی جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ ان کی مسکراہٹ لڑکیوں کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ ان کی آواز تو اچھی تھی ہی، ان کی فلموں کے گانے بھی بہت عمدہ ثابت ہوئے۔‘

    یہ بھی مشہور ہے کہ وہ اپنی شہرت کو سنبھال نہیں پائے اور خاصے مغرور ہوگئے تھے۔ وہ سیٹ پر آمد کے بعد جونیئر فن کاروں اور عملے کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے اور خاموشی سے کام کرکے چلے جاتے تھے۔ راجیش کھنہ لیٹ لطیف بھی مشہور تھے اور بددماغ یا غرور بھی۔ تاہم بعض قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ شروع ہی سے ایسے تھے اور یہ کہنا درست نہیں‌ کہ فلم کی کام یابیوں نے انھیں ایسا بنا دیا تھا۔

    بالی وڈ میں‌ ان کی کام یابیوں کا سفر جاری تھا کہ امیتابھ بچن کا سورج چڑھنا شروع ہوا اور ستّر کی دہائی کے ساتھ ہی راجیش کھنہ کا عروج دم توڑنے لگا، ان کی فلمیں باکس آفس پر فلاپ ہونے لگی تھیں۔

    راجیش کھنہ نے اداکارہ ڈمپل کپاڈیا سے شادی کی تھی اور ان کی ٹوئنکل کھنہ اور رنکی کھنہ ان کی بیٹیاں ہیں۔ راجیش کھنہ سرطان کے مرض میں‌ مبتلا تھے۔ فلمی دنیا میں انھیں ’کاکا‘ کے نام سے بھی پہچانا جاتا تھا۔

  • یومِ وفات: معروف شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کی خوش اخلاقی اور خوش مزاجی بھی مشہور ہے

    یومِ وفات: معروف شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کی خوش اخلاقی اور خوش مزاجی بھی مشہور ہے

    اردو زبان کے ممتاز شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر 18 جولائی 1998ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ہندوستان ہی نہیں‌ وہ پاکستان میں بھی اپنی شاعری اور خوب صورت شخصیت کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔

    ان کا نام کنور مہندر سنگھ بیدی اور تخلّص سحر تھا۔ 1909ء میں منٹگمری (ساہیوال) میں پیدا ہوئے۔ لاہور میں کالج سے تعلیم پائی۔ تاریخ اور فارسی کے ساتھ بی اے کیا جس کے بعد سول انتظامیہ کے تحت امتحانات پاس کیے اور 1935ء کے آواخر میں ان کا تبادلہ بطور فرسٹ کلاس مجسٹریٹ، روہتک ہوگیا۔ یہ گوڑ گاؤں میں ڈپٹی کمشنر بھی رہے۔ وہ ڈائریکٹر محکمہ پنچایت کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔

    سکھ شعرا میں انھیں معتبر اور پُروقار شخصیت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ سحرؔ ایک ہر دل عزیز شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ خوش اخلاق اور ظرافت و خوش مزاجی کے لیے بھی مشہور تھے۔ وہ محفل کو زعفران زار بنانے کا ہنر جانتے تھے اور ہر مجلس میں لوگوں کو متاثر کرلیتے تھے۔ ادیب و شاعر ہی نہیں مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ نام ور شخصیات ان سے گفتگو اور تبادلۂ خیال کرنے کو اپنے لیے باعث لطف و کرم تصور کرتتی تھیں۔

    کنور مہندرسنگھ بیدی نے کم عمری میں‌ شاعری کا آغاز کردیا تھا، انھوں نے کسی سے اصلاح نہیں‌ لی۔ انھوں نے اپنے کلیات کے علاوہ ’یادوں کا جشن‘ کے نام سے خود نوشت بھی یادگار چھوڑی ہے۔

    ان کی ایک غزل دیکھیے۔

    تیرِ نظر چلاتے ہوئے مسکرا بھی دے
    آمادہ قتل پر ہے تو بجلی گرا بھی دے

    رخ سے نقاب اٹھا کے کرشمہ دکھا بھی دے
    سورج کو چاند چاند کو سورج بنا بھی دے

    منزل ہے تیری حدِ تعیّن سے ماورا
    دیر و حرم کے نقش کو دل سے مٹا بھی دے

    سجدے ہیں لاکھ نقشِ کف پا کے منتظر
    یہ سر نہیں ہے عرش سحر آ جھکا بھی دے

  • یومِ وفات: مشہور انگریزی ناول نگار جین آسٹن کا تذکرہ

    یومِ وفات: مشہور انگریزی ناول نگار جین آسٹن کا تذکرہ

    انگریزی زبان کی مشہور ناول نگار جین آسٹن نے 18 جولائی 1817ء کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔ 41 برس کی عمر میں وفات پا جانے والی اس تخلیق کار نے چھے ناول لکھے جن میں انسانی فطرت اور رشتوں کی باریکیوں کو خوب صورتی سے سمویا گیا ہے۔

    وہ ایک برطانوی پادری کی بیٹی تھیں۔ 1775ء میں‌ جنم لینے والی جین آسٹن کی تخلیقات کو انگریزی کلاسیکی ادب کا حصّہ سمجھا جاتا ہے۔

    ‘پرائڈ اینڈ پریجوڈیس’ ان کا وہ ناول ہے جسے دنیا بھر میں‌ سراہا گیا اور اردو میں‌ اس کے متعدد تراجم سامنے آئے۔ اسے اردو کے قالب میں ڈھالنے والوں نے فخر اور تعصّب کا نام دیا۔ جین آسٹن کے دیگر ناولوں میں‌ ‘مینز فیلڈ پارک’ اور ‘ایما’ بھی شامل ہیں۔ ایما پہلی بار 1816ء میں شائع ہوا تھا۔ سینس اینڈ سینسیبلٹی یعنی شعور و احساس اور نارتھینجر ایبے وہ ناول تھے جو بہت بعد میں شائع ہوئے۔ اس کا سبب اس دور کی عورتوں کے کام کرنے اور گھروں سے باہر نکلنے کے حوالے سے قدامت پسندانہ سوچ اور تعلیم و ادب کے حوالے سے انھیں اہمیت نہ دیا جانا تھا۔ اس لیے ان کے ناول لکھنے کے کافی عرصہ بعد چھپے اور وہ بھی فرضی نام سے۔

    مصنّفہ کے ناول سماج کے کرداروں اور اشراف کے اطراف گھومتے ہیں۔ انھوں‌ نے اپنے ناولوں میں‌ سماج پر طنز اور ہلکے پھلکے انداز میں‌ چوٹ بھی کی۔ مشہور ہے کہ وفات کے کئی برس بعد ان کی کہانیوں کو بہت زیادہ پڑھا اور سراہا گیا اور آج انھیں اس دور کی سماجی اور اخلاقی حالت کو سمجھنے اور بعض روایات کے تناظر میں‌ اہم خیال کیا جاتا ہے۔

  • یومِ وفات: صدراُلدّین آزردہ بلند پایہ شاعر ہی نہیں‌ جیّد عالم اور مفتی بھی تھے

    یومِ وفات: صدراُلدّین آزردہ بلند پایہ شاعر ہی نہیں‌ جیّد عالم اور مفتی بھی تھے

    آج مفتی صدراُلدّین آزردہ کا یومِ‌ وفات ہے جو ہندوستان کے ایک جیّد عالم، شاعر اور دلّی کے اہم منصب دار تھے۔

    آزردہ کا نام محمد صدراُلدّین تھا۔ ان کا سنِ پیدائش 1789ء اور وطن دہلی ہے جہاں انھوں نے اپنے وقت کے جیّد علما سے دین اور اسلامی علوم کی تعلیم حاصل کی اور مفتی کی حیثیت سے انگریز دور میں صدرُالصّدور کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انھوں نے دہلی اور مضافات میں شرعی امور کے مطابق عدل اور انصاف کے تقاضے پورے کیے۔ مشہور ہے کہ تحریر و تقریر کی فضیلت اور متانت کے ساتھ وہ مروّت، اخلاق اور احسان کی خوبیوں سے مالا مال تھے۔ ان کے درِ‌ دولت پر عالم و فاضل شخصیات ہی نہیں ادیب اور شعرا بھی محفل سجاتے۔

    آزردہ مرزا غالب کے گہرے دوست تھے۔ اس زمانے کے سبھی تذکرہ نویسوں نے ان کا نام نہایت عزّت اور احترام سے لیا ہے اور ان کی دینی اور علمی قابلیت کے ساتھ شاعری کو سراہا ہے۔

    مفتی آزردہ اردو اور فارسی کے علاوہ عربی میں بھی شعر کہتے تھے اور شاہ نصیر کے شاگرد تھے۔ وہ مشاعروں میں باقاعدگی سے شریک ہوتے۔ 1857ء کی جنگ میں انھوں نے بھی انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا تھا جس پر انگریزوں نے گرفتار کیا اور املاک ضبط کر لی۔ تاہم حاضر دماغی اور ایک چال کے سبب جلد بری ہوگئے۔

    آزردہ کا کوئی دیوان دست یاب نہ ہونے کے باوجود مختلف تذکروں میں ان کے جو اشعار ملتے ہیں، وہ ان کی شاعرانہ حیثیت و مرتبہ متعین کرتے ہیں۔

    زندگی کے آخری ایّام میں فالج کا حملہ ہوا اور 1868ء میں آج ہی کے دن ان کا انتقال ہو گیا۔

  • یومِ وفات: شعر و ادب میں‌ ممتاز حمایت علی شاعر نے فلموں میں اداکاری بھی کی

    یومِ وفات: شعر و ادب میں‌ ممتاز حمایت علی شاعر نے فلموں میں اداکاری بھی کی

    آج اردو کے ممتاز شاعر اور فلمی گیت نگار حمایت علی شاعر کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ تدریس اور ادارت سے وابستہ رہے اور ریڈیو، ٹیلی ویژن پر کام کرنے ساتھ فلموں میں‌ اداکاری بھی کی۔ حمایت علی شاعر 2019ء میں‌ آج ہی دن دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    وہ 14 جولائی 1926ء کو اورنگ آباد، دکن میں‌ پیدا ہوئے، تقسیم کے بعد پاکستان چلے آئے اور سندھ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔ انھوں نے روزناموں میں کام کرنے کے ساتھ ریڈیو پاکستان سے وابستگی اختیار کر لی۔ شاعری کا آغاز کیا تو غزل اور نظم جیسی اصناف میں طبع آزمائی کے ساتھ فلموں کے لیے نغمات بھی لکھنے لگے۔ ان کے کئی گیت بہت مقبول ہوئے۔

    حمایت علی شاعر نے جہاں اردو ادب کو اپنے کلام کی شکل میں خوب صورت شاعری دی، وہیں ایک پختہ اور بلند فکر تخلیق کار کی‌ حیثیت سے انھوں نے شاعری میں ’’ثلاثی‘‘ جیسی صنف بھی متعارف کروائی جو تین مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ خوب صورت صنفِ سخن اگرچہ مقبول اصناف کے درمیان زیادہ توجہ حاصل نہیں کرپائی، لیکن کسی خیال کی بندش اور جذبات و احساسات کے اظہار کے لیے مؤثر اور لطیف ذریعہ ضرور ہے۔ حمایت علی شاعر نے اس صنف میں‌ اپنا کلام بھی پیش کیا جو ندرتِ خیال و وارفتہ جذبات کا نمونہ ہے۔

    وہ متعدد ادبی اور تحقیقی کتب کے مصنّف بھی تھے۔ ان کی تصانیف میں‌ ’آگ میں پھول‘، ’شکستِ آرزو‘، ’مٹی کا قرض‘، ’تشنگی کا سفر‘، ’حرف حرف روشنی‘، ’دودِ چراغِ محفل‘(مختلف شعرا کے کلام)، ’عقیدت کا سفر‘(نعتیہ شاعری کے ساتھ سو سال، تحقیق)، ’آئینہ در آئینہ‘(منظوم خودنوشت سوانح حیات)، ’ہارون کی آواز‘(نظمیں اور غزلیں)، ’تجھ کو معلوم نہیں‘(فلمی نغمات)، ’کھلتے کنول سے لوگ‘(دکنی شعرا کا تذکرہ)، ’محبتوں کے سفیر‘(پانچ سو سالہ سندھی شعرا کا اردو کلام) شامل ہیں۔

    انھیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغہ برائے حسنِ‌ کارکردگی جب کہ نغمہ نگاری پر فلمی دنیا کا معتبر نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔ حمایت علی شاعر کینیڈا میں‌ مقیم تھے اور وفات کے بعد وہیں‌ ان کی تدفین کی گئی۔

    حمایت علی شاعر نے فلموں میں بھی کام کیا تھا جن میں جب سے دیکھا تمہیں، دل نے تجھے مان لیا، دامن، ایک تیرا سہارا، کنیز، میرے محبوب، تصویر اور کھلونا شامل ہیں۔

  • یومِ وفات:‌ عظیم روسی ادیب اور کہانی کار انتون چیخوف کا تذکرہ

    یومِ وفات:‌ عظیم روسی ادیب اور کہانی کار انتون چیخوف کا تذکرہ

    نام وَر روسی ادیب اور کہانی کار انتون چیخوف نے 1904ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ اس کی تخلیقات کو نہ صرف روسی ادب کے قارئین نے سراہا بلکہ دنیا بھر میں اس کی کہانیوں کا چرچا ہوا اور چیخوف نے ناقدین سے داد پائی۔

    انتون چیخوف 29 جنوری 1860ء میں پیدا ہوا۔ چیخوف کا باپ سخت گیر آدمی تھا جب کہ ماں ایک اچھی قصّہ گو تھی اور بچّوں کو دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں سناتی تھی۔ اس ماحول میں بچپن گزارنے والے چیخوف کو بعد میں باپ کے مالی حالات بگڑ جانے پر غربت اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اسے اپنی تعلیم کے لیے بہت سے کام کرنا پڑے جن میں ٹیوشن پڑھانا، پرندے پکڑ کر بیچنا اور اخبارات کے لیے بامعاوضہ اسکیچ بنانا شامل ہے۔

    کام اور تعلیم کے حصول کے زمانے میں چیخوف نے ادب کا مطالعہ شروع کیا تھا۔ 1879ء میں اس نے ایک میڈیکل اسکول میں داخلہ لیا اور زیادہ کام کرکے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے ساتھ ساتھ گھر کا خرچ بھی چلانے لگا۔ چیخوف نے یومیہ بنیاد پر اسکیچ بنانا شروع کردیا تھا جو طنز و مزاح پر مبنی ہوتے تھے۔ وہ روزمرّہ روسی زندگی کی تصویر کشی بھی کرنے لگا جس کے باعث اس کی شہرت بڑھی اور ایک بڑے پبلشر نے اسے اپنے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کرلیا۔ چیخوف نے جرائد کے لیے بھی لکھنا شروع کردیا اور جب تھیٹر کے لیے ڈرامے تحریر کیے تو گویا اس کی شہرت ساتویں‌ آسمان سے باتیں‌ کرنے لگی۔

    وہ 1884ء میں فزیشن بھی بن گیا، لیکن درد مند اور حسّاس چیخوف نے غریبوں اور ناداروں کا مفت علاج کیا اور ہمیشہ دوسروں کی مدد کرتا رہا۔ تاہم بعد میں‌ اس نے ادب تخلیق کرنے پر زیادہ توجہ دی۔ اس نے اپنی کہانیوں کو اکٹھا کیا اور کتابی شکل میں بھی شایع کروایا۔ اس کے مجموعوں کو زبردست پذیرائی ملی اور چیخوف نے مقبول ترین روسی ادیب کا درجہ حاصل کیا۔

    ایک وقت آیا جب انتون چیخوف کو تپِ دق کا مرض لاحق ہوگیا اور وہ لاغر ہوتا چلا گیا، اسی بیماری کے سبب ایک روز اس نے زندگی کی بازی ہار دی۔ وفات کے وقت وہ 44 برس کا تھا۔

    چیخوف کی روسی ادب میں پذیرائی اور قارئین میں اس کی مقبولیت کی وجہ وہ کہانیاں تھیں‌ جن میں اس نے اپنے لوگوں کی حقیقی زندگی کو پیش کیا اور معاشرتی تضاد، منافقت اور سچ جھوٹ کے ساتھ عام زندگی کو قریب سے اور نہایت مؤثر پیرائے میں رقم کیا۔

  • پاکستانی فلم کا گیت ”گاڑی کو چلانا بابو….” کس بھارتی اداکارہ پر فلمایا گیا تھا؟

    پاکستانی فلم کا گیت ”گاڑی کو چلانا بابو….” کس بھارتی اداکارہ پر فلمایا گیا تھا؟

    وہ لوگ جو اب اپنی عمر کے ساتویں پیٹے میں‌ ہیں، شاید شیلا رامانی کا نام سن کر بے ساختہ یہ گیت گنگنانا شروع کردیں جس کے بول ہیں، "گاڑی کو چلانا بابو ذرا ہلکے ہلکے ہلکے، کہیں‌ دل کا جام نہ چھلکے…”

    پاکستان میں نوجوان نسل بالخصوص نئے ہزاریے میں آنکھ کھولنے والوں نے ترنگ اور امنگ سے بھرپور یہ گانا تو شاید سنا ہو، لیکن شیلا رامانی سے واقف نہیں ہوں گے۔

    2015ء میں آج ہی کے دن وفات پا جانے والی شیلا بھارتی اداکارہ تھیں۔ یہ گانا انہی پر فلمایا گیا تھا۔ فلم کا نام تھا انوکھی جس کا یہ گیت بہت مقبول ہوا۔

    شیلا رامانی کا تعلق سندھ کے شہر نواب شاہ سے تھا جہاں انھوں نے 2 مارچ 1932ء میں آنکھ کھولی۔ چیتن آنند نے انھیں بالی وڈ میں متعارف کرایا تھا۔ 1954ء میں شیلا رامانی کی فلم ٹیکسی ڈرائیور نمائش کے لیے پیش کی گئی اور ان کی وجہِ شہرت بنی۔ اس کے علاوہ سندھی فلم ابانا بھی ان کے کیریئر میں شان دار اضافہ ثابت ہوئی۔

    اس اداکارہ نے زیادہ تر فلموں میں امیر گھرانے کی لڑکی کا کردار نبھایا۔ تقسیمِ ہند کے بعد انھوں نے بھارت میں رہنے کا فیصلہ کیا اور یوں وہ ان سندھی فن کاروں میں شامل ہیں‌ جنھوں نے بالی وڈ میں‌ کام کیا۔ شادی کے بعد وہ امریکا منتقل ہوگئی تھیں۔ شیلا کی زندگی کے آخری ایّام مدھیہ پردیش میں گزرے۔

    ہندوستان میں ٹیکسی ڈرائیور، سرنگ، ریلوے پلیٹ فارم، مینار نامی فلموں میں کام کرنے والی شیلا رامانی کو ہدایت کار شاہنواز نے 1956ء میں اپنی فلم انوکھی کے لیے ہیروئن کا رول آفر کیا اور وہ شوٹنگ کے لیے پاکستان آئیں۔ یہ فلم تو بہت زیادہ کام یاب نہیں رہی، لیکن اس کا گیت مقبول ترین ثابت ہوا۔

    شیلا رامانی کے مدِّمقابل ہیرو کا کردار اداکار شاد نے نبھایا تھا۔ اس فلم میں شیلا نے زبردست پرفارمنس کا مظاہرہ کیا اور اداکاری کے فن میں اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کرواتے ہوئے ہندوستان لوٹ گئیں جہاں انھوں نے بالی وڈ میں جنگل کنگ، آوارہ لڑکی اور دیگر فلموں میں کام کرکے شائقین و ناقدین کی توجہ حاصل کی۔

  • یومِ وفات: فلمی موسیقی سے شائقین کے دل موہ لینے والے مدن موہن کا تذکرہ

    یومِ وفات: فلمی موسیقی سے شائقین کے دل موہ لینے والے مدن موہن کا تذکرہ

    بالی وڈ میں مدن موہن کا سفر تین دہائیوں پر محیط رہا جس میں انھوں نے کئی مدھر دھنیں‌ ترتیب دیں، اور اپنے فن کی بدولت کئی فلمی گیتوں کو لازوال بنا دیا۔ مدن موہن نے 1975ء میں آج ہی کے دن دنیا سے کوچ کیا تھا۔

    بالی وڈ کو مدھر دھنیں دینے والے مدن موہن کا وطن عراق تھا جہاں انھوں نے 25 جون 1924ء کو آنکھ کھولی اور بعد میں اپنے آبائی شہر چکوال چلے آئے۔ کچھ عرصہ یہاں رہ کر ممبئی چلے گئے اور برٹش آرمی میں کمیشن حاصل کرلیا، لیکن جلد ہی نوکری چھوڑ دی اور آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ یہاں بھی زیادہ عرصہ کام نہ کیا اور بالی وڈ فلم انڈسٹری سے منسلک ہو گئے۔

    بالی وڈ میں‌ انھوں نے پہلی قابلِ ذکر کام یابی 1950ء میں حاصل کی اور فلم "آنکھیں” کی موسیقی ترتیب دے کر فلم سازوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ اس وقت برصغیر میں لتا اور محمد رفیع جیسے گلوکاروں کا شہرہ تھا اور مذکورہ فلم کا گیت "ہم عشق میں برباد رہیں گے” محمد رفیع کی آواز میں بہت مقبول ہوا۔ ان کی اگلی فلم "ادا” تھی جس میں لتا منگیشکر نے مدن موہن کی موسیقی میں نغمات ریکارڈ کروائے۔

    مدہن موہن نے فلمی موسیقار کی حیثیت سے اپنے کیریئر کے کئی یادگار دھنیں تخلیق کیں اور ان میں سے اکثر لازوال ثابت ہوئیں۔ آج بھی ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں گیت سننے والوں کو مسحور کردیتے ہیں۔

    مدن موہن کو چار مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ کے لیے نام زد کیا گیا، اور بعد ازمرگ "آئیفا ایوارڈ” سے بھی نوازا گیا۔

    یہ چند یادگار فلمی گیت جن کی موسیقی مدن موہن نے ترتیب دی تھی۔

    نیناں برسیں رِم جھم رم جھم…
    آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل کے مجھے
    لگ جا گلے کہ پھر یہ حسین رات ہو نہ ہو…
    وہ بھولی داستاں لو پھر یاد آگئی
    یوں حسرتوں کے داغ جگر میں سمو لیے…

  • نام وَر کلاسیکی موسیقار اور گائیک استاد نزاکت علی خان کی برسی

    نام وَر کلاسیکی موسیقار اور گائیک استاد نزاکت علی خان کی برسی

    آج پاکستان کے نام وَر کلاسیکی موسیقار اور گائیک استاد نزاکت علی خان کا یومِ وفات ہے۔ وہ 14 جولائی 1983ء کو راولپنڈی میں وفات پاگئے تھے۔

    استاد نزاکت علی خان 1932ء میں ضلع ہوشیار پور کے موسیقی اور گائیکی کے حوالے سے مشہور قصبے چوراسی میں پیدا ہوئے۔ ان کا سلسلہ نسب استاد چاند خان، سورج خان سے ملتا ہے جو دربارِ اکبری کے نامور گائیک اور میاں تان سین کے ہم عصر تھے۔

    استاد نزاکت علی خان کے والد استاد ولایت علی خان بھی اپنے زمانے کے نام ور موسیقار تھے اور انھیں دھرپد گائیکی میں کمال حاصل تھا۔ استاد نزاکت علی خان اور ان کے چھوٹے بھائی استاد سلامت علی خان نے اپنے والد سے اس فن کی تعلیم حاصل کی اور کم عمری میں اپنی گائیکی کی وجہ سے مشہور ہوگئے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کی اور ملتان آبسے جہاں سے بعد میں لاہور کا رخ کیا اور اپنی وفات تک یہیں رہے۔ لاہور میں انھوں نے فنِ گائیکی میں بڑا نام اور مقام پایا۔ استاد نزاکت علی خان کو حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔

  • بالی وڈ کے مشہور اداکار پران کو ’’ولن آف دی ملینیئم‘‘ بھی کہا جاتا ہے

    بالی وڈ کے مشہور اداکار پران کو ’’ولن آف دی ملینیئم‘‘ بھی کہا جاتا ہے

    ہندی سنیما کے اداکار پران کو ’’ولن آف دی ملینیئم‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

    ان کا شمار بالی وڈ کے منجھے ہوئے اداکاروں میں ہوتا ہے۔ پران فلموں میں اپنے منفی کرداروں کو اس خوبی سے نبھاتے کہ سنیما بین اُن سے نفرت کرنے پر مجبور ہو جاتے۔

    بالی وڈ کے اس مشہور ولن اور معاون اداکار نے 12 جولائی 2013ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ وفات کے وقت ان کی عمر 93 برس تھی۔

    پران کرشن سِکند پرانی دہلی کے محلّہ بلی ماراں میں پیدا ہوئے تھے۔ پران نے تقسیمِ ہند سے قبل لاہور میں فلمیں کیں اور بعد میں ممبٔی چلے گئے تھے۔

    پران نے اپنے فلمی کیريئر کی شروعات ایک ہیرو کے طور پر کی۔ ان کی پہلی فلم ’جٹ یملا‘ سن 1940 میں ریلیز ہوئی، لیکن بعد کے برسوں میں وہ اپنی شکل و صورت، چال ڈھال اور دیکھنے کے انداز کی وجہ سے فلم سازوں اور ہدایت کاروں کو ولن کے لیے زیادہ بہتر لگے اور یوں ان کے کیریئر کا آغاز مختلف انداز سے ہوا۔

    نصف صدی پر مشتمل اپنے کیریئر کے دوران پران نے لگ بھگ چار سو فلموں میں اداکاری کی اور ہندی سنیما میں صفِ اوّل کے ولن کہلائے۔

    پران نے منفی مزاحیہ کردار بھی نبھائے اور ولن کے کیریکٹر کو ایک الگ پہچان دی۔

    ضدی، بڑی بہن، میرے محبوب، زنجیر، اپكار کے علاوہ وہ کئی سپر ہٹ فلموں میں منفی کردار نبھاتے نظر آئے اور اپنے وقت کے سپراسٹارز کے ساتھ کام کیا۔ پران نے اپنے زمانۂ عروج میں مشہور ترین فلم ڈان، امر اکبر انتھونی اور شرابی میں کردار ادا کیے تھے۔

    پران کی آواز سب سے مختلف تھی اور ان کے ڈائیلاگ بولنے کا انداز بھی جداگانہ۔ انھوں نے ایک مار دھاڑ کرنے والے، بدمعاش، چور اچکے اور قاتل سے لے کر نیک یا رحم دل انسان کے کردار بھی نبھائے جنھیں شائقین نے بہت پسند کیا۔