Tag: جولائی وفات

  • محقّق، مؤرخ، شاعر اور اديب ڈاکٹر عبدالجبار جونيجو کا یومِ وفات

    محقّق، مؤرخ، شاعر اور اديب ڈاکٹر عبدالجبار جونيجو کا یومِ وفات

    صوبۂ سندھ سے تعلق رکھنے والے ناو وَر محقّق، مؤرخ، شاعر و اديب اور ماہرِ لسانیات ڈاکٹر عبدالجبار جونيجو 12 جولائی 2011ء کو انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ سندھ یونیورسٹی میں شعبۂ سندھی کے پروفیسر تھے۔

    ڈاکٹر عبدالجبار 26 نومبر 1935ء کو پير فتح شاه تحصیل، ضلع بدين میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام سلطان احمد تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی اور بعد میں بدين شہر اور پھر سٹی کالج حیدرآباد میں جاکر تعلیم حاصل کی۔ 1960ء میں جامعہ سندھ سے سندھی زبان میں بی اے آنرز کا امتحان دیا۔ 1962ء میں ايم اے سندھی ادب میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور گولڈ میڈل کے حق دار قرار پائے۔

    1960ء میں ہی انھوں نے مدرس کے طور پر اندرونِ سندھ جامعات میں‌ پڑھانا شروع کردیا اور بعد میں ترقّی کرتے ہوئے اپنے شعبے کے سربراہ بنے۔ وہ سندھی ادبی بورڈ کے چیئرمین بھی رہے۔

    عبدالجباّر جونیجو سندھی زبان کے علاوہ انگريزی، اردو، سرائیکی، پنجابی اور چینی زبان بھی جانتے تھے اور عربی و فارسی سے بھی واقف تھے۔ انھوں نے سندھ کے جنوبی علاقے لاڑ کی زبان کی لغت ”لاڑ جی لغات“ کتاب ترتيب دی جب کہ علمی و تحقیقی موضوعات پر ان کے مقالے اور مضامین بھی شایع ہوئے۔ انھوں متعدد کتابیں تصنیف کیں جو سندھی اور اردو زبان و ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔

    انھوں نے سندھی زبان، معلوماتِ عامّہ اور نصابی کتب بھی تصنیف اور ترتیب دیں جب کہ سندھی زبان میں ان کی شاعری اور افسانوں کے مجموعے بھی منظرِ عام پر‌ آئے۔ اسی طرح اپنے سفرنامے یا مختلف ممالک کے اہم مقامات کی سیر کی روداد بھی انھوں نے سندھی میں‌ رقم کی۔ عبدالجبّار جونیجو نے سندھ دھرتی کے صوفیا اور شعرا پر سندھی زبان میں‌ مضامین کے علاوہ ادبی تنقید بھی لکھی جو ان کی یادگار کتب ہیں۔ علم و ادب میں‌ ممتاز عبدالجبّار جونیجو کو ادبی تنظیموں اور جامعات کی جانب سے متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔

  • یومِ‌ وفات: سدا بہار نغمات کے خالق سیف الدّین سیف کے سفرِ زیست پر ایک نظر

    یومِ‌ وفات: سدا بہار نغمات کے خالق سیف الدّین سیف کے سفرِ زیست پر ایک نظر

    سیف الدین سیف بنیادی طور پر ایک شاعر تھے، لیکن فلم ساز، ہدایت کار اور مصنّف کے طور پر فلم کرتار سنگھ (1959ء) بنا کر انھوں نے خود کو باکمال فن کار ثابت کیا۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ 12 جولائی 1993ء کو ان کی زندگی کا سفر تمام ہوگیا۔

    سیف الدین سیف نے 20 مارچ 1922ء کو کوچۂ کشمیراں امرتسر کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ سیف کا بچپن امرتسر کی گلیوں میں گزرا اور ابتدائی تعلیم مسلم ہائی اسکول سے حاصل کی، ایم اے او کالج امرتسر میں داخل ہوئے تو اس وقت پرنسپل ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اور انگریزی کے لیکچرار فیض احمد فیض کی قربت نصیب ہوئی جس نے ان میں علمی و ادبی ذوق پیدا کیا۔

    انھوں نے فلمی مکالمے لکھنا ذریعہ معاش بنایا اور بعد میں‌ گیت نگار کے طور پر مشہور ہوئے۔ سیف کو شروع ہی سے شعروسخن سے دل چسپی تھی۔ انھوں نے غزل، رباعی، طویل و مختصر نظموں کے ساتھ گیت نگاری میں‌ نام کمایا۔ غزل ان کی محبوب صنفِ‌ سخن رہی۔

    سیف الدین سیف نے اپنے فلمی سفر کا آغاز بطور نغمہ نگار اردو فلم تیری یاد سے کیا تھا جسے پہلی پاکستانی فلم کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اس فلم کے لیے چار گیت لکھے تھے۔ ان کا پہلا گیت جو سپر ہٹ ثابت ہوا اس کے بول تھے، "پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے” جسے اقبال بانو نے گایا تھا۔ اس نغمہ نگار کے کئی گیت مقبول ہوئے اور فلموں کی کام یابی کا سبب بنے جن میں اردو فلم شمع اور پروانہ (1970) کا گیت "میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا اور "میں تیرے اجنبی شہر میں، ڈھونڈتا پھر رہا ہوں تجھے شامل ہیں۔ مشہورِ زمانہ امراؤ جان ادا کا یہ نغمہ "جو بچا تھا لٹانے کے لیے آئے ہیں” اسی شاعر کا تخلیق کردہ ہے۔

    پاکستان کے اس ممتاز شاعر اور کئی مقبول گیتوں کے خالق کو لاہور کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • دارا سنگھ: مشہور پہلوان جس نے بالی وڈ اداکار، ہدایت کار اور اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے پہچان بنائی

    دارا سنگھ: مشہور پہلوان جس نے بالی وڈ اداکار، ہدایت کار اور اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے پہچان بنائی

    12 جولائی 2012 کو موت نے دارا سنگھ کو پچھاڑ کر ہمیشہ کے لیے زندگی کے اکھاڑے سے “باہر” کر دیا تھا۔ بھارت کے اس پہلوان اور کشتی کے کئی مقابلوں کے فاتح نے بعد میں ہندی اور پنجابی فلموں‌ میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور اس میدان میں‌ بھی خود کو منوایا۔

    لمبے چوڑے دارا سنگھ کو بچپن ہی سے کسرت اور پہلوانی کا شوق تھا۔ کُشتی لڑنے کے لیے کم عمری میں تربیت حاصل کرنا شروع کی۔ استاد سے داؤ پیچ سیکھ کر ایک روز مقامی اکھاڑے میں اترے۔ ابتدائی اور آزمائشی مقابلوں میں پہلوانوں سے زور آزمائی میں کبھی چت ہوئے تو کسی پر بھاری پڑے۔ انھیں مقامی اکھاڑے سے لے کر عالمی سطح تک منعقدہ کُشتی کے مقابلوں میں متعدد ٹائٹل اپنے نام کرنے کا موقع ملا۔ دارا سنگھ نے بھارت میں رستمِ پنجاب اور بعد میں رستمِ ہند کا ٹائٹل بھی اپنے نام کیا تھا۔ 1968ء میں انھوں نے ورلڈ ریسلنگ چیمپئن شپ جیتی تھی اور اپنے اسی دورِ‌ پہلوانی میں فلم انڈسٹری میں بھی کام شروع کیا۔

    ان کا مکمل نام دارا سنگھ رندھاوا تھا۔ 1928ء میں امرتسر میں پیدا ہونے والے دارا سنگھ کو پہلوانی کا شوق اکھاڑے تک لے گیا جس میں‌ ان کی فتوحات کی تفصیل آپ جان چکے ہیں۔ فلم نگری کی بات کریں تو ”سکندر اعظم“ اور ”ڈاکو منگل سنگھ“ جیسی فلموں سے شروع ہونے والا اداکاری کا سفر ”جب وی میٹ“ تک جاری رہا جو 2007 میں سامنے آئی تھی۔ یہ دارا سنگھ کی زندگی کی آخری فلم تھی۔

    اس فلم میں انھوں نے کرینہ کپور کے دادا کا کردار نبھایا تھا۔ بالی وڈ کی مشہور فلم ”کل ہو نہ ہو“ میں بھی وہ اسی روپ میں نظر آئے تھے۔ دارا سنگھ نے ہندی کے علاوہ پنجابی فلموں میں‌ بھی کام کیا اور ٹی وی ڈراموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اس پہلوان اداکار نے خود کو بالی وڈ میں بحیثیت پرڈیوسر اور رائٹر بھی آزمایا۔

  • پاکستان کے معروف براڈ کاسٹر اور ہدایت کار آغا ناصر کی برسی

    پاکستان کے معروف براڈ کاسٹر اور ہدایت کار آغا ناصر کی برسی

    آج پاکستان کے معروف براڈ کاسٹر، ہدایت کار اور مصنّف آغا ناصر کا یومِ وفات ہے۔ وہ 12 جولائی 2016ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    آغا ناصر 9 فروری 1937ء میں میرٹھ کے قصبے فرید نگر میں پیدا ہوئے۔ بی اے کا امتحان سندھ مسلم کالج سے پاس کیا اور تقسیم کے بعد تاریخ میں ایم اے کی ڈگری جامعہ کراچی سے لی۔ انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز 1955ء میں ریڈیو پاکستان سے بحیثیت براڈ کاسٹر کیا تھا اور بعد میں ادارے کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1964ء میں آغا ناصر نے پی ٹی وی سے ناتا جوڑ لیا اور بہ طور ہدایت کار اور پروڈیوسر کام کیا۔ وہ کچھ عرصہ پی ٹی وی کے مینیجنگ ڈائریکٹر بھی رہے۔

    ’’تعلیمِ بالغاں‘‘پی ٹی وی کا مقبول ترین اور لاجواب ڈرامہ تھا جس کے ہدایت کار آغا ناصر تھے۔ اس کے علاوہ ’’الف نون‘‘ بھی انہی کا یادگار ہے۔ انھوں نے چند فلموں کے لیے بھی ہدایات دیں۔ آغا ناصر نے ڈرامے بھی تحریر کیے، اور چند کتب کے مصنّف بھی ہیں۔ ریڈیو پاکستان کے لیے ان کے پیش کردہ پروگراموں‌ میں ’’اسٹوڈیو نمبر 9 ‘‘اور’’ حامد میاں کے ہاں‘‘ بہت مشہور ہوئے۔

    ان کی تصانیف میں آغا ناصر کے سات ڈرامے ’ گرہ نیم باز‘ اور دوسرے ڈرامے،’ گمشدہ لوگ‘ ،’ گلشنِ یاد‘ اور’ہم، جیتے جی مصروف رہے‘ شامل ہیں۔

    آغا ناصر کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ اسلام آباد میں 79 برس کی عمر میں‌ انتقال کرجانے والے آغا ناصر کو مقامی قبرستان میں‌ سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • نادرِ روزگار اور ہمہ صفت زیڈ اے بخاری کی برسی

    نادرِ روزگار اور ہمہ صفت زیڈ اے بخاری کی برسی

    ذوالفقار علی بخاری کو فن و ادب میں زیڈ اے بخاری کے نام سے بڑا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ وہ اردو کے ممتاز شاعر، صدا کار، ماہرِ نشریات اور متعدد زبانوں سے واقف تھے۔ آج زیڈ اے بخاری کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 12 جولائی 1975ء کو وفات پاگئے تھے۔

    زیڈ اے بخاری 1904ء میں پشاور میں پیدا ہوئے۔ انھیں بچپن ہی سے ڈراموں میں کام کرنے کا شوق تھا۔ انھیں پہلی مرتبہ شملہ میں امتیاز علی تاج کے مشہور ڈرامے ’’انار کلی‘‘ میں سلیم کا کردار نبھانے کا موقع ملا اور زیڈ اے بخاری نے اس بہروپ میں خوب داد و تحسین حاصل کی۔

    1936ء میں جب آل انڈیا ریڈیو کا قیام عمل میں آیا تو بخاری صاحب ریڈیو سے منسلک ہوگئے اور 1938ء میں ریڈیو نشریات کے‌ حوالے سے تربیت حاصل کرنے لندن چلے گئے۔ 1940ء میں وہ جوائنٹ براڈ کاسٹنگ کونسل لندن سے منسلک ہوئے اور اسی زمانے میں بی بی سی سے اردو سروس کے لیے کام شروع کیا۔ لندن سے واپس آکر بمبئی اور کلکتہ ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد بخاری صاحب کو ریڈیو پاکستان کا پہلا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔

    نومبر 1967ء میں کراچی میں ٹیلی ویژن اسٹیشن قائم ہوا تووہ اس کے پہلے جنرل منیجر مقرر ہوئے۔ زیڈ اے بخاری کے بارے میں مشہور ہے کہ انھوں نے اردو زبان اور تلفظ کی درست ادائیگی کو یقینی بنایا اور کئی آرٹسٹوں کی تربیت کی۔

    انھیں شعر و ادب سے شغف ورثے میں ملا تھا۔ ان کے والد اسد اللہ شاہ بخاری صاحبِ دیوان نعت گو شاعر تھے۔ بڑے بھائی پطرس بخاری اردو کے صاحبِ طرز ادیب اور ماہرِ تعلیم تھے۔ یوں گھر کا علمی و ادبی ماحول اور ابتدا ہی سے اچّھے شاعروں کی صحبت نے انھیں بھی بہترین استاد بنا دیا تھا۔ وہ حسرت موہانی، علامہ اقبال، یاس یگانہ چنگیزی اور وحشت کلکتوی جیسے نادرِ روزگار شخصیات کی صحبت میں رہے۔ عربی میں آپ نے مولانا عبدالعزیز میمن اور فارسی میں مولانا شاداب بلگرامی سے کسبِ فیض کیا۔

    وہ ایک ماہرِ نشریات ہی نہیں بلکہ ایک بلند پایہ صدا کار بھی تھے۔ انھوں نے ریڈیو کے لیے کئی کردار اپنائے جو سننے والوں کے دلوں پر نقش ہوگئے۔ ریڈیو کے ڈراموں میں انھوں نے صدا کار کی حیثیت سے خوب کام کیا۔

    زیڈ اے بخاری شاعر بھی تھے اور فنِ موسیقی سے بھی گہرا شغف اور اس کا بھی علم رکھتے تھے۔ وہ ہفت زبان یوں‌ کہلائے کہ انھیں فارسی، اردو، پنجابی، پشتو، بنگالی، برمی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔

    بخاری صاحب نے اپنے حالاتِ زندگی ’’سرگزشت‘‘ کے نام سے رقم کیے جو اردو کا گراں قدر سرمایہ ہے۔ انھوں نے مختلف راگوں اور راگنیوں پر ایک کتاب ’’راگ دریا‘‘ بھی یادگار چھوڑی۔ ان کا کلام ’’میں نے جو کچھ بھی کہا‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔ ان کا مدفن کراچی میں ہے۔

  • یومِ‌ وفات: شیفتہ کا تذکرہ جن کے کئی اشعار ضربُ المثل کا درجہ رکھتے ہیں

    یومِ‌ وفات: شیفتہ کا تذکرہ جن کے کئی اشعار ضربُ المثل کا درجہ رکھتے ہیں

    اردو زبان کے نام وَر شاعر نواب مصطفیٰ خان شیفتہ نے 1869ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ اردو شاعری کے کلاسیکی دور اس کے بعد آنے والے شعرا میں شیفتہ ایک ایسے شاعر ہیں جن کے کئی اشعار کو ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہوا۔

    نواب مصطفٰی خان شیفتہ جہانگیر آباد کے ایک جاگیردار اور رئیس تھے جنھوں‌ نے اردو اور فارسی زبانوں میں شاعری کے ساتھ نقد و نظر میں بھی حصّہ ڈالا۔

    1809ء میں پیدا ہونے والے شیفتہ، مرزا غالب کے گہرے دوست تھے اور انھوں نے ہی الطاف حسین حالی کو غالب سے متعارف کروایا تھا۔

    شیفتہ کے شعری مجموعوں‌ کے علاوہ ان کی کتاب گلشنِ بے خار کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے جو دراصل کلاسیکی ادب کے کئی نام وروں کا تذکرہ اور کلام پر فارسی میں تنقید ہے۔

    1839ء میں شیفتہ نے حج کے لیے بحری جہاز کا سفر کیا تھا اور اس دوران جو واقعات پیش آئے، اور حج و زیارت کے موقع پر انھیں جو کچھ دیکھنے کا موقع ملا، اسے اپنے سفرنامے میں‌ محفوظ کیا ہے۔

    شیفتہ کے چند مشہور اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
    بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

    شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہؔ
    اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی

    بے عذر وہ کر لیتے ہیں وعدہ یہ سمجھ کر
    یہ اہلِ مروّت ہیں تقاضا نہ کریں گے

  • کلاسیکی موسیقی اور طرزِ گائیکی کی شان اور وقار بڑھانے والے استاد سلامت علی خان کی برسی

    کلاسیکی موسیقی اور طرزِ گائیکی کی شان اور وقار بڑھانے والے استاد سلامت علی خان کی برسی

    پاکستان کے نام وَر کلاسیکی موسیقار اور گلوکار استاد سلامت علی خان 2001ء میں آج ہی کے دن اس دارِ فانی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے تھے۔ انھیں اپنے کمالِ فن کی بدولت کم عمری ہی میں ہندوستان گیر شہرت حاصل ہوئی۔

    استاد سلامت علی خان 12 دسمبر 1934ء کو شام چوراسی، ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے بڑے بھائی استاد نزاکت علی خان کے ساتھ اپنے والد استاد ولایت علی خان سے موسیقی کی تربیت حاصل کی۔ ان کے فن اور اندازِ‌ گائیکی نے کم عمری میں‌ انھیں‌ ہندوستان بھر میں‌ پہچان عطا کردی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد سلامت علی خان نے ملتان ہجرت کی اور بعد میں لاہور کو اپنا مستقر بنایا۔

    استاد سلامت علی خان کا گھرانہ دھرپد گائیکی کے لیے مشہور تھا لیکن استاد سلامت علی خان نے خیال گائیکی میں اختصاص کیا۔ 1983ء میں ان کے بڑے بھائی استاد نزاکت علی خان وفات پاگئے اور استاد سلامت علی خان نے بھی گائیکی کے حوالے سے خود کو محدود کرلیا تھا۔ پاک و ہند میں کلاسیکی موسیقی کی شان اور اس کا وقار بڑھانے والے سلامت علی خان کو پنج پٹیہ گلوکار کے لقب سے بھی نوازا گیا۔ استاد سلامت علی نے کلاسیکی گائیکی کی مختلف جہتوں میں کامیاب تجربات کرکے خود کو یکتا ثابت کر دیا

    پاکستان میں‌ فنِ موسیقی اور گائیکی میں باکمال اور استاد کا مرتبہ حاصل کرنے والے سلامت علی خان کو لاہور کے قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

    حکومتِ‌ پاکستان کی جانب سے استاد سلامت علی خان کو دو مرتبہ صدارتی تمغہ برائے حسنِ‌ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا گیا۔

  • ممتاز غزل گو شاعر اور مقبول ترین فلمی نغمہ نگار قتیل شفائی کی برسی

    ممتاز غزل گو شاعر اور مقبول ترین فلمی نغمہ نگار قتیل شفائی کی برسی

    جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
    جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں

    قتیل شفائی کا یہ شعر ہر باذوق اور شعر و ادب سے لگاؤ رکھنے والے کی بیاض میں‌ شامل رہا ہے۔

    چلو اچھا ہوا کام آ گئی دیوانگی اپنی
    وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے

    اس شعر کے خالق بھی قتیل ہیں۔ پاکستان کے اس نام وَر شاعر اور ممتاز و مقبول فلمی نغمہ نگار کی آج برسی منائی جارہی ہے۔11 جولائی 2001ء کو قتیل شفائی اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ پاک و ہند کے نام اور معروف گلوکاروں نے ان کے کلام کو اپنی آواز دی اور ان کے گیت کئی فلموں کی کام یابی کی وجہ بنے۔

    قتیل برصغیر کے ان معدودے چند شعرا میں‌ سے ایک ہیں‌ جنھوں نے نہ صرف ایک غزل گو شاعر کی حیثیت سے شہرت حاصل کی بلکہ گیت نگاری میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا۔

    24 دسمبر 1919ء کو ہری پور ہزارہ (خیبر پختون خوا) میں پیدا ہونے والے قتیلؔ شفائی کا اصل نام اورنگزیب خان تھا۔ انھوں نے قتیل تخلّص کیا اور اپنے استاد حکیم محمد یحییٰ شفا پوری کی نسبت شفائی کا اضافہ کرکے قتیل شفائی کے نام سے پہچان بنائی۔

    وہ بنیادی طور پر ایک رومانوی شاعر تھے۔ ندرتِ خیال، سلاست، روانی، رچاؤ اور غنائیت اُن کے شعری اوصاف ہیں۔ قتیل شفائی نے غزل کو اپنے تخیل سے جگمگایا اور ان کے کمالِ سخن نے اسے لاجواب بنایا۔

    یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
    کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے

    قتیل شفائی کی شاعری کی ایک جہت اُن کی فلمی نغمہ نگاری ہے، جس نے انھیں بے پناہ شہرت اور مقبولیت دی۔ انھوں نے کئی گیت لکھے جو نہایت معیاری اور عام فہم بھی تھے۔ ان کی اسی خوبی نے بھارتی فلم سازوں کو بھی مجبور کیا کہ وہ ان سے اپنی فلموں کے لیے گیت لکھوائیں۔

    ان کے لازوال اور یادگار گیتوں ‘زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں، اس محفل میں ہے کوئی ہم سا، ہم سا ہو تو سامنے آئے، کیوں ہم سے خفا ہو گئے اے جان تمنّا، یہ وادیاں، یہ پربتوں کی شہزادیاں، ہم سے بدل گیا وہ نگاہیں تو کیا ہوا، زندہ ہیں‌ کتنے لوگ محبّت کیے بغیر، پریشاں رات ساری ہے، ستارو تم تو سو جائو’ شامل ہیں۔

    قتیل شفائی کی شاعرانہ عظمت اور ان کے تخلیقی جوہر اور انفرادیت کا اعتراف اپنے وقت کے عظیم اور نام ور شعرا نے کیا ہے۔ ان میں فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، فراق گورکھ پوری اور دیگر شامل ہیں۔

    قتیل شفائی نے صدارتی ایوارڈ کے ساتھ ادبی تنظیموں کی جانب سے متعدد اعزازات حاصل کیے، جب کہ ان کا سب سے بڑا اعزاز عوام میں ان کی وہ شہرت اور مقبولیت تھی جو انھوں‌ نے اپنے تخلیقی وفور اور فن کی بدولت حاصل کی۔ انھیں لاہور کے ایک قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

    قتیل شفائی کے شعری مجموعے چھتنار، پیراہن، برگد، آموختہ، گفتگو، آوازوں کے سائے کے نام سے شایع ہوئے جب کہ ان کی آپ بیتی بعد از مرگ ’’گھنگرو ٹوٹ گئے‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئی۔

  • عمر شریف: مصر کے اس باکمال اداکار کو دریائے نیل کا گوہرِ‌ نایاب بھی کہا جاتا ہے

    عمر شریف: مصر کے اس باکمال اداکار کو دریائے نیل کا گوہرِ‌ نایاب بھی کہا جاتا ہے

    مصر سے تعلق رکھنے والے عالمی شہرت یافتہ اداکار عمر شریف کی وفات پر کہا گیا کہ مصری فلمی صنعت یتیم ہو گئی، دریائے نیل کا گوہرِ نایاب فن کے سمنر میں‌ اتر گیا۔ وہ 10 جولائی 2015ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    اداکار عمر شریف 10 اپریل 1932ء کو بحیرہٴ روم کے کنارے واقع مصر کے مشہور ترین شہر اسکندریہ میں پیدا ہوئے۔ والدین کا تعلق شام اور لبنان سے تھا اور یہ خاندان عیسائیت کا پیروکار تھا۔ عمر شریف کی پرورش بھی کیتھولک مسیحی کے طور پر ہوئی۔

    اسکندریہ کے وکٹوریہ کالج سے فارغُ التحصیل ہونے کے بعد انھوں نے قاہرہ یونیورسٹی سے ریاضی اور طبیعیات کی ڈگری حاصل کی۔ اسی زمانے میں انھیں‌ فنِ اداکاری میں دل چسپی پیدا ہوگئی تھی اور پھر انھوں نے مصر کی فلم انڈسٹری میں‌ قدم رکھا۔

    ’صراع فی الوادی‘ ان کی پہلی فلم تھی۔ اسی فلم میں ان کے مدِ مقابل ہیروئن کا کردار فاتن حمامہ نے ادا کیا تھا جن سے فلمی پردے پر ان کا تعلق محبّت میں تبدیل ہو گیا اور انھوں نے شادی کر لی۔ عمر شریف نے فاتن سے شادی کے ساتھ ہی اسلام قبول کر لیا اور اپنا خاندانی نام تبدیل کرلیا۔

    مصر کا یہ دراز قد، وجیہہ اور پرکشش اداکار بعد میں ہالی وڈ میں نام و مقام بنانے میں کام یاب ہوا۔ 1960 کی دہائی میں انھیں شہرۂ آفاق فلم ’لارنس آف عریبیہ‘ کا شریف علی نامی کردار ملا اور انھوں نے ہالی وڈ میں اپنے فن کا لوہا منوایا۔ اس فلم کے لیے انھیں دو گولڈن گلوب ایوارڈ سے نوازا گیا جب کہ اسی کردار کے لیے عمر شریف کو آسکر ایوارڈ کے لیے بھی نام زد کیا گیا تھا۔

    اس کام یابی کے بعد عمر شریف کو ڈیوڈ لین کی ہدایات کاری میں بننے والی ایک اور فلم ’ڈاکٹر ژواگو‘ میں مرکزی کردار ادا دیا گیا اور اس بار بھی انھوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کرکے گولڈن گلوب ایوارڈ اپنے نام کیا۔

    عمر شریف کی مادری زبان عربی تھی، لیکن وہ انگریزی، فرانسیسی، یونانی، اطالوی اور ہسپانوی زبانیں بھی روانی کے ساتھ بولتے تھے۔ اپنے کیریئر کے دوران عمر شریف نے کئی فیچر فلموں اور ٹیلی وژن کے لیے بھی اداکاری کی۔

    2003ء میں طویل وقفے کے بعد وہ اپنے مداحوں کے سامنے ’موسیو ابراہیم‘ نامی فلم میں تھے۔ اس فلم میں‌ انھوں نے ایک بزرگ مسلمان دکان دار کا کردار ادا کیا تھا، جس پر انھیں وینس فلمی میلے کا ایوارڈ دیا گیا۔ عمر شریف نے 2013ء میں زندگی کی آخری فیچر فلم میں کام کیا۔

    انھوں نے 83 برس کی عمر میں قاہرہ میں وفات پائی اور وہیں سپردِ خاک کیے گئے۔

  • نام وَر ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی کی برسی

    نام وَر ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی کی برسی

    آج اردو کے نام وَر افسانہ نگار، شاعر، نقّاد، مترجم اور صحافی و مدیر احمد ندیم قاسمی کا یوم وفات ہے۔ ان کا شمار ترقّی پسند تحریک سے وابستہ نمایاں ادبی شخصیات میں ہوتا تھا۔

    احمد ندیم قاسمی کا اصل نام احمد شاہ تھا۔ انھوں نے 20 نومبر 1916ء کو ضلع خوشاب کے ایک گھرانے میں‌ آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد گریجویشن مکمل کی۔ دیہاتی زندگی کا گہرا مشاہدہ کیا اور تنگی و مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے علم و ادب کی جانب راغب ہوئے اور نام و مقام پیدا کیا۔

    احمد ندیم قاسمی ہمہ جہت ادبی شخصیت تھے۔ انھوں نے ہر صنفِ ادب میں طبع آزمائی کی ہے، لیکن افسانہ اور شاعری ان کا بنیادی حوالہ ہیں۔

    احمد ندیم قاسمی کے شعری مجموعوں میں دھڑکنیں، رم جھم، جلال و جمال، لوحِ خاک جب کہ افسانوی مجموعوں میں چوپال، بگولے، طلوع و غروب، آنچل، آبلے، برگِ حنا، سیلاب و گرداب و دیگر شامل ہیں۔ انھوں نے تنقیدی مضامین بھی لکھے جنھیں تہذیب و فن، پسِ الفاظ اور معنٰی کی تلاش نامی کتب میں‌ محفوظ کیا جب کہ شخصیات پر مبنی ان کے خاکوں کے دو مجموعے بھی شایع ہوئے۔

    وہ 10 جولائی 1996ء کو 90 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔