Tag: جولائی وفات

  • مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح کی 54 ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح کی 54 ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    قیامِ پاکستان کی جدوجہد اور بانیِ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کے شانہ بشانہ کام کرنے والی ان کی ہمشیر محترمہ فاطمہ جناح کی برسی آج نہایت عقیدت و احترام سے منائی جا رہی ہے۔

    ان کا شمار جدوجہدِ آزادی کے صفِ اوّل کے قائدین اور ان خواتین راہ نماؤں میں کیا جاتا ہے جو آغاز سے لے کر قیامِ پاکستان تک جدوجہد کے دوران ہر موقع پر میدانِ عمل میں نظر آئیں اور بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کے ساتھ آگے بڑھتی رہیں۔ محترمہ فاطمہ جناح کا تحریکِ پاکستان اور وطنِ عزیز کے لیے کردار بے مثال اور ناقابلِ فراموش ہے۔

    فاطمہ جناح نے قائدِاعظم کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے برصغیر کی مسلمان خواتین کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے حصولِ پاکستان کی منزل کو آسان بنایا اور ان کی گراں قدر خدمات پر انھیں مادرِ ملت کا خطاب دیا گیا۔

    سن 1964ء کو پاکستان اور جمہوریت کے لیے سیاسی میدان میں‌ جنرل ایوب خان کا مقابلہ کیا اور انتخابات میں حصہ لیا۔

    وہ 73 برس کی عمر میں 9 جولائی 1967ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہو گئیں۔ مادرِ ملّت کی تدفین ان کے بھائی اور بابائے قوم محمد علی جناح کے مزار کے احاطے میں کی گئی جہاں‌ ہر سال ان کی برسی کے موقع پر خصوصی طور پر لوگ فاتحہ خوانی کے لیے جاتے ہیں۔

  • پاکستان ٹیلی ویژن کی نام وَر اداکارہ ذہین طاہرہ کی برسی

    پاکستان ٹیلی ویژن کی نام وَر اداکارہ ذہین طاہرہ کی برسی

    کئی دہائیوں تک ٹی وی ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والی ذہین طاہرہ 2019ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئی تھیں۔ ان کا شمار پاکستان ٹیلی ویژن کی سینئر اور منجھی ہوئی اداکاراؤں میں‌ ہوتا ہے۔

    ذہین طاہرہ کا تعلق لکھنؤ سے تھا۔ انھوں نے لگ بھگ 45 برس ٹیلی ویژن پر کام کیا اور اداکاری کے فن میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ذہین طاہرہ نے ریڈیو، اسٹیج پرفارمنس کے ساتھ چند فلموں میں بھی کردار نبھائے تھے۔

    اداکارہ ذہین طاہرہ نے 700 سے زائد ڈراموں میں اداکاری کی۔ انھوں نے 1960ء میں ٹی وی پر اپنی داکاری کا آغاز کیا۔ ’خدا کی بستی‘ پی ٹی وی کا مقبول ترین ڈراما تھا جسے 1974ء میں دوبارہ اسکرین پر پیش کیا گیا اور ذہین طاہرہ نے اس میں مرکزی کردار نبھا کر شہرت حاصل کی۔

    چھوٹی اسکرین پر اداکارہ نے آنگن ٹیڑھا، خالہ خیرن، شمع، عروسہ، دیس پردیس، عجائب خانہ، ضرب تقسیم اور مختلف پروڈکشن ہاؤسز کے تحت بننے والے ڈراموں میں‌ کام کیا جو نجی ٹیلی ویژن چینلوں پر نشر ہوئے۔

    ڈراموں میں اپنے فن کا لوہا منوانے کے ساتھ ساتھ انھوں نے بڑی اسکرین پر بھی اپنی اداکاری سے شائقین کو متاثر کیا۔ انھیں حکومتِ پاکستان نے 2013ء میں ’تمغہ امتیاز‘ سے نوازا تھا۔

  • ممتاز ترقّی پسند شاعر، اسکرپٹ رائٹر اور فلمی نغمہ نگار بشر نواز کی برسی

    ممتاز ترقّی پسند شاعر، اسکرپٹ رائٹر اور فلمی نغمہ نگار بشر نواز کی برسی

    ممتاز ترقّی پسند شاعر، اسکرپٹ رائٹر، فلمی نغمہ نگار اور نقّاد، بشر نواز 9 جولائی 1995ء کو وفات پاگئے تھے۔ بالی وڈ کی مشہور فلم بازار کے لیے ان کا لکھا ہوا ایک گیت ‘کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی’ بہت مقبول ہوا تھا۔

    ان کا اصل نام بشارت نواز خاں تھا جو دنیائے ادب میں بشر نواز کے نام سے جانے گئے۔ 18 اگست 1935ء کو اورنگ آباد، مہاراشٹر میں پیدا ہوئے۔ تقسیم کے بعد بھارت ہی میں قیام پذیر رہے اور وہیں زندگی کا سفر تمام ہوا۔ ان کے گھر کا ماحول علمی اور دینی تھا۔ والد ناظمِ تعلیمات اور والدہ عالمہ تھیں۔ بشر نواز نے 1953ء میں شاعری کا آغاز کیا اور مشاعروں میں شرکت کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ پہچان بنانے میں کام یاب رہے اور بعد میں فلم انڈسٹری کے لیے نغمہ نگار کی حیثیت سے شاعری کی۔

    انھیں حیدر آباد دکن کے ایک مشاعرے میں پہلی بار ممتاز ترقّی پسند شاعر مخدوم محی الدّین نے متعارف کروایا تھا۔ ان کے شعری مجموعے رائیگاں اور اجنبی سمندر کے نام سے شایع ہوئے جب کہ ایک تنقیدی مجموعہ نیا ادب نئے مسائل کے نام سے منظرِ عام پر آیا۔

    بشر نواز کی نظمیں بھی مشہور ہوئیں جب کہ ان کے لکھے ہوئے نغمات محمد رفیع، لتا منگیشکر، آشا بھوسلے جیسے نام ور گلوکاروں کی آواز میں ریکارڈ ہوئے اور فلم بینوں تک پہنچے۔

  • یومِ‌ وفات: راجہ راؤ انگریزی ادب کے اوّلین ہندوستانی تخلیق کاروں میں‌ شامل ہیں

    یومِ‌ وفات: راجہ راؤ انگریزی ادب کے اوّلین ہندوستانی تخلیق کاروں میں‌ شامل ہیں

    انگریزی ادب کے اوّلین ہندوستانی تخلیق کاروں‌ میں‌ راجہ راؤ نے بڑا نام و مرتبہ حاصل کیا۔ وہ 1996ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔ راجہ راؤ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں‌ مقیم تھے۔ انھوں نے زندگی کی 97 بہاریں‌ دیکھیں‌ اور متعدد ادبی اعزازات اپنے نام کیے۔

    1908ء کو ریاست میسور کے ایک گھرانے میں‌ پیدا ہونے والے راجہ راؤ نے ناول اور شارٹ اسٹوریز لکھیں۔ ان کی تخلیقات مابعدُالطّبیعیاتی فکر کے زیرِ اثر ہیں۔ وہ ادیب سے زیادہ فلسفی تھے۔

    راجہ راؤ ایک ہندوستانی برہمن تھے، تعلیم ایک مسلم مدرسہ میں حاصل کی۔ وہ کم سِن تھے جب ان کی والدہ ساتھ چھوڑ گئیں اور انھوں نے ماں کی کمی شدّت سے محسوس کی۔ کہتے ہیں‌ اسی دکھ نے انھیں‌ ادب کی طرف مائل کیا۔ انھوں نے اکثر تحریروں میں‌ ماں اور یتیمی کا کرب بیان کیا ہے۔

    بعد میں وہ امریکا چلے گئے تھے جہاں یونیورسٹی آف ٹیکساس ہیوسٹن میں کئی برس تدریسی فرائض انجام دیے، وہ انگریزی ادب کے شعبے میں پروفیسر ایمرٹس کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے تھے۔

    ہندوستان سے متعلق راجہ راؤ نے اپنی کہانیوں میں برطانوی دور، انگریزوں سے نفرت اور آزادی کی خواہش اور مختلف تحریکوں کے ساتھ رسم و رواج کو نہایت خوبی سے سمیٹا ہے۔ 1930ء کے عشرے میں ان کا پہلا ناول ’کنٹھا پورہ‘ سامنے آیا تھا جس کا مرکزی کردار جنوبی ہند کے ایک گاؤں سے دہلی جاتا ہے اور وہاں سے ’باپو جی‘ کے خیالات کا زبردست حامی بن کر لوٹتا ہے، وہ گاؤں کے لوگوں کو سامراج کے خلاف بھڑکاتا ہے، لیکن وہ یہ سب کچھ اپنے گاؤں کے چائے کے باغات کے مالک سے بغاوت کرکے شروع کرنا چاہتا ہے۔ اس ناول کو ناقدین نے بہت سراہا۔ انگریزی زبان کے اس ادیب نے ہندوستان چھوڑ دو تحریک میں بھی حصّہ لیا تھا۔

    ناولوں کے علاوہ ان کی مختصر کہانیوں کے متعدد مجموعے بھی شایع ہوئے۔
    راجہ راؤ کو ہندوستان میں‌ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ دیا گیا جب کہ انگریزی ادب کے چند غیر ملکی ایوارڈ بھی ان کے نام ہوئے۔

  • ممتاز شاعر نقّاد اور مدرّس منظور حسین شور کی برسی

    ممتاز شاعر نقّاد اور مدرّس منظور حسین شور کی برسی

    آج اردو اور فارسی کے ممتاز شاعر، نقّاد اور ماہرِ تعلیم منظور حسین شور کا یومِ‌ وفات ہے۔ وہ 8 جولائی 1994ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    ان کا خاندانی نام منظور حسین اور تخلّص شور تھا۔ وہ 15 دسمبر 1916ء کو امراوتی (سی۔ پی) ہندوستان میں پید اہوئے۔ میٹرک اور ایم اے کرنے کے بعد قانون کی سند حاصل کی۔ وہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے فارغ التحصیل تھے۔

    تعلیمی مراحل طے کرنے بعد ناگپور کے شعبہ ادبیات فارسی اور اردو میں بطور ریڈر ملازم ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آگئے اور پروفیسر کی حیثیت سے پہلے زمیندار کالج، گجرات پھر اسلامیہ کالج اور گورنمنٹ کالج، لائل پور (فیصل آباد) سے منسلک رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی منتقل ہوگئے جہاں جامعہ کراچی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔

    شور صاحب بنیادی طور پر نظم گو شاعر تھے، لیکن غزل بھی کہا کرتے تھے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ’’نبضِ دوراں‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے بعد کے مجموعے بالترتیب ’دیوارِ ابد‘، ’سوادِ نیم تناں‘، ’میرے معبود‘ ، ’صلیبِ انقلاب‘ ، ’ذہن و ضمیر‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ ان کا تمام کلام رفعتِ خیال اور غزل و نظم کی تمام تر نزاکتوں اور لطافتون سے آراستہ ہے۔

    شور صاحب نے چار کتابیں ’حشرِ مرتب‘ ، ’انگشتِ نیل‘ ، ’افکار و اعصار‘ ،’اندر کا آدمی‘ مرتّب کیں۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے۔

    چین بھی لینے نہیں دیتے مجھے
    میں ابھی بھولا تھا پھر یاد آ گئے

  • قوم کو عبدالستار ایدھی کے سایۂ شفقت سے محروم ہوئے پانچ سال بیت گئے

    قوم کو عبدالستار ایدھی کے سایۂ شفقت سے محروم ہوئے پانچ سال بیت گئے

    پانچ برس قبل آج ہی کے دن عبدُالسّتار ایدھی دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ پاکستان کا ایک روشن حوالہ، حقیقی پہچان اور پوری دنیا میں اپنی سماجی خدمات کے سبب مثال بننے والے ایدھی آج بھی ہمارے دلوں میں‌ زندہ ہیں۔

    عبدُالستار ایدھی 28 فروری 1928ء میں بھارت کی ریاست گجرات کے شہر بانٹوا میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ان کا خاندان پاکستان منتقل ہوگیا اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔

    عبدالستار ایدھی نے چھوٹی عمر ہی میں مدد، تعاون، ایثار کرنا سیکھ لیا تھا۔ وہ ان آفاقی قدروں اور جذبوں کو اہمیت دیتے ہوئے بڑے ہوئے جن کی بدولت وہ دنیا میں‌ ممتاز ہوئے اور پاکستانیوں کو ایک مسیحا ملا۔ عبدالستار ایدھی نے اپنی زندگی کے 65 برس دکھی انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے گزارے۔

    ایدھی فاؤنڈیشن کا قیام ان کا وہ عظیم کارنامہ ہے جس کے تحت آج بھی کتنے ہی بے گھر، لاوارث، نادار اور ضرورت مند افراد زندگی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس عظیم سماجی راہ نما نے اپنی سماجی خدمات کا آغاز 1951ء میں ایک ڈسپنسری قائم کرکے کیا تھا۔ اپنے فلاح و بہبود کے پہلے مرکز کے قیام کے بعد نیک نیّتی، لگن اور انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار عبدالسّتار نے ایدھی ٹرسٹ کی بنیاد رکھی اور تادمِ مرگ پاکستانیوں کے دکھ درد اور تکالیف میں مسیحائی اور خدمات کا سلسلہ جاری رکھا۔

    ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس گردانی جاتی ہے جو پاکستان کے ہر شہر میں لوگوں کی خدمت میں مصروف ہے۔ 1997ء میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اس سروس کو دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس کے طور پر شامل کیا گیا۔

    اسپتال اور ایمبولینس خدمات کے علاوہ ایدھی فاؤنڈیشن کے تحت پاگل خانے، یتیموں اور معذوروں کے لیے مراکز، بلڈ بینک اور اسکول بھی کھولے گئے۔ انھوں‌ نے پاکستان ہی نہیں دنیا کے متعدد دیگر ممالک میں بھی امن اور جنگ کے مواقع پر ضرورت پڑنے پر انسانیت کے لیے خدمات انجام دیں۔

    حکومتِ پاکستان نے اس مسیحا کو نشانِ امتیاز سے نوازا جب کہ پاک فوج نے شیلڈ آف آنر پیش کی اور حکومتِ سندھ نے عبدالستار ایدھی کو سوشل ورکر آف سب کونٹیننیٹ کا اعزاز دیا تھا۔ بین الاقوامی سطح پر عبدالستار ایدھی کو ان کی سماجی خدمات کے اعتراف میں رومن میگسے ایوارڈ اور پاؤل ہیرس فیلو دیا گیا۔

    گردوں کے عارضے میں مبتلا عبدالستار ایدھی 2016ء میں کراچی میں وفات پاگئے۔ ان کی تدفین مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ کی گئی۔

  • یومِ‌ وفات: جگدیپ نے فلم ‘شعلے’ میں ‘سورما بھوپالی’ کا مزاحیہ کردار ادا کیا تھا

    یومِ‌ وفات: جگدیپ نے فلم ‘شعلے’ میں ‘سورما بھوپالی’ کا مزاحیہ کردار ادا کیا تھا

    بالی وڈ کے معروف مزاحیہ اداکار جگدیپ گزشتہ سال 8 جولائی کو اس دارِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔ انھوں نے بالی وڈ کی مشہور اور کام یاب ترین فلم شعلے کے ایک کردار سورما بھوپالی کے سبب شہرت اور مقبولیت حاصل کی تھی۔

    جگدیپ کا اصل نام سّید اشتیاق احمد جعفری تھا۔ وہ 29 مارچ 1939ء کو مدھیہ پردیش کے شہر داتیا میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے کیریئر کا آغاز بطور چائلڈ آرٹسٹ فلم افسانہ سے ہوا اور بعد میں‌ جگدیپ کے نام سے انھیں کئی فلموں میں اہم اور نمایاں کردار نبھانے کا موقع ملا۔ انھوں نے چار سے سو زائد فلموں‌ میں کام کیا جن میں‌ سے اکثر سپرہٹ اور یادگار ثابت ہوئیں۔

    1957ء میں بمل رائے کی فلم دو بیگھا زمین نے ان کے کیریئر کو مہمیز دی اور یہاں سے وہ ایک کامیڈین کے طور پر سامنے آئے۔ انھوں‌ نے 1975ء میں فلم شعلے میں جگدیپ نے سورما بھوپالی کا کردار اس خوبی سے نبھایا کہ لوگوں کے دلوں میں‌ اتر گئے۔ کہتے ہیں ان کے اس کردار نے گویا بھوپال کا کلچر ہمیشہ کے لیے زندہ کردیا۔ اپنے اس کردار میں انھوں نے اپنے اندازِ تخاطب سے جان ڈالی تھی اور ناقدین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنا رول نبھانے کے لیے جس قدر محنت کی تھی، اسی کی بدولت یہ کردار ناقابلِ فراموش ثابت ہوا۔ سورما بھوپالی کا یہ کردار لکڑی کا ایک تاجر ہے جو بہت زیادہ پان کھاتا ہے اور مخصوص لب و لہجے میں‌ بات کرتا ہے۔

    جگدیپ کی یادگار فلموں میں شعلے کے علاوہ انداز اپنا اپنا، افسانہ، آر پار اور دیگر شامل ہیں۔ انھیں آخری بار 2017ء میں فلم ’مستی نہیں سستی‘ میں دیکھا گیا تھا۔

    جگدیپ کے تین بیٹے جاوید جعفری، نوید جعفری اور حسین جعفری بھی بالی وڈ سے وابستہ ہیں۔ جاوید جعفری معروف کامیڈین، میزبان، اداکار اور ماہر ڈانسر ہیں۔

  • مائی بھاگی: صحرائے تھر کی لوک گلوکارہ کو مداحوں سے بچھڑے 35 برس بیت گئے

    مائی بھاگی: صحرائے تھر کی لوک گلوکارہ کو مداحوں سے بچھڑے 35 برس بیت گئے

    تھر میں گویا زندگی لوٹ آئی ہے، چھاجوں پانی برسا ہے اور یہ تو آغاز ہے۔ تھر کے باسی خوشی سے نہال ہیں، مگر 35 سال کے دوران جب بھی ساون کی رُت نے صحرا کو گھیرا، بادل گرجے اور چھما چھم برسے تھر اور اس کے باسیوں نے شدّت سے مائی بھاگی کی آواز میں‌ خوشی کے گیتوں کی کمی بھی محسوس کی ہے۔

    کون ہے جس نے صوبۂ سندھ کی اس گلوکار کا نام اور یہ گیت ”کھڑی نیم کے نیچے“ نہ سنا ہو؟ آج مائی بھاگی کی برسی ہے جن کی آواز کے سحر میں‌ خود صحرائے تھر بھی گرفتار رہا۔ وہ اسی صحرا کے شہر ڈیپلو میں پیدا ہوئی تھیں۔ والدین نے ان کا نام ’’بھاگ بھری‘‘ رکھا۔

    بھاگ بھری نے شادی بیاہ کی تقریبات اور خوشی کے مواقع پر لوک گیت گانے کا سلسلہ شروع کیا تو لوگوں نے انھیں‌ بہت پسند کیا۔ وہ گاؤں گاؤں پہچانی گئیں اور پھر ان کی شہرت کو گویا پَر لگ گئے۔

    7 جولائی 1986ء کو وفات پاجانے والی مائی بھاگی کی تاریخِ پیدائش کا کسی کو علم نہیں‌۔ انھوں نے اپنی والدہ سے گلوکاری سیکھی اور مشہور ہے کہ وہ اپنے گیتوں کی موسیقی اور دھن خود مرتّب کرتی تھیں۔

    مائی بھاگی کو تھر کی کوئل کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے جن کے گائے ہوئے گیت آج بھی کانوں میں رَس گھولتے ہیں۔

    مائی بھاگی کے فنِ گائیکی اور ان کی آواز نے انھیں‌ ریڈیو اور بعد میں‌ ٹیلی ویژن تک رسائی دی۔ انھوں نے تھر کی ثقافت اور لوک گیتوں کو ملک میں ہی نہیں بلکہ بیرونِ ممالک میں بھی اُجاگر کیا۔ مائی بھاگی کی آواز میں‌ ان لوک گیتوں کو سماعت کرنے والوں میں وہ بھی شامل تھے، جو تھری زبان سے ناواقف تھے۔

    1981ء میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے انھیں‌ تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ ریڈیو پاکستان نے مائی بھاگی کو شاہ عبداللطیف بھٹائی ایوارڈ، قلندر لعل شہباز اور سچل سرمست ایوارڈ سمیت درجنوں اعزازات اور انعامات دیے اور ملک بھر میں انھیں‌ پہچان اور عزّت ملی۔

  • اردو اور ہندکو کے ممتاز شاعر اور مصنّف خاطر غزنوی کی برسی

    اردو اور ہندکو کے ممتاز شاعر اور مصنّف خاطر غزنوی کی برسی

    گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
    لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے

    یہ شعر آپ نے بھی پڑھا اور سنا ہو گا۔ اس کے خالق کا نام خاطر غزنوی ہے جن کی آج برسی ہے۔ وہ اردو اور ہندکو کے ممتاز شاعر اور متعدد کتب کے مصنّف تھے۔ خاطر غزنوی 7 جولائی 2008ء کو وفات پاگئے تھے۔

    خاطر غزنوی کا اصل نام محمد ابراہیم بیگ تھا۔ انھوں نے 25 نومبر 1925ء کو پشاور کے ایک گھرانے میں جنم لیا۔ ریڈیو پاکستان، پشاور سے عملی زندگی کا آغاز کرنے والے خاطر غزنوی نے اردو کے علاوہ ہندکو زبان میں لکھنا شروع کیا اور پہچان بناتے چلے گئے۔ انھوں نے چینی زبان سیکھی اور اس کی تعلیم بھی دی، پشاور کی جامعہ سے اردو زبان میں ایم اے کے بعد انھوں نے باقاعدہ تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ اس عرصے میں وہ ادبی جرائد سے بھی منسلک رہے اور علمی و ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔

    خاطر غزنوی 1984ء میں اکادمی ادبیات پاکستان میں ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے۔ ان کے شعری مجموعوں میں روپ رنگ، خواب در خواب، شام کی چھتری اور نثر پر مشتمل کتابوں میں زندگی کے لیے، پھول اور پتّھر، چٹانیں اور رومان، سرحد کے رومان، پشتو متلونہ، دستار نامہ، پٹھان اور جذباتِ لطیف، خوش حال نامہ اور چین نامہ شامل ہیں۔ انھوں نے بچّوں کے لیے نظمیں بھی لکھیں جب کہ ہندکو اور پشتو ادب سے متعلق متعدد کتب کے مصنّف اور مؤلف بھی تھے۔ ان کی یہ کتب لوک کہانیوں، قصّوں اور مقامی ادب، اصناف اور تخلیق کاروں کا احاطہ کرتے ہوئے ان موضوعات پر سند و حوالہ ہیں۔ یہ ان کا علمی و تحقیقی کام تھا جس کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    خاطر غزنوی پشاور کے ایک قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے۔

    ایک ایک کرکے لوگ نکل آئے دھوپ میں
    جلنے لگے تھے جیسے سبھی گھر کی چھاؤں میں

  • معروف ادیب، شاعر اور طنز و مزاح نگار کے ‘انجام’ کی مختصر کہانی

    معروف ادیب، شاعر اور طنز و مزاح نگار کے ‘انجام’ کی مختصر کہانی

    عزیز نیسِن (Aziz Nesin) کو جدید ترکی ادب میں شاعر، ڈراما نویس اور طنز و مزاح نگار کے طور پر شناخت کیا جاتا ہے۔ ان کی تحریریں‌ سماج کا آئینہ تھیں۔

    6 جولائی 1995ء کو اس مشہور اور اپنے نظریات اور خیالات کی وجہ سے متنازع قلم کار نے دنیا چھوڑ دی تھی۔ وہ سو سے زائد کتب کے مصنّف تھے۔

    ترکی کے اس معروف ادیب اور شاعر کا اصل نام محمد نصرت تھا۔ وہ 20 دسمبر 1915ء کو سلطنت عثمانیہ کے زیرِ نگیں جزائر پرنس کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ لڑکپن میں استنبول آگئے۔ عزیز نیسن نے متعدد رسائل اور ادبی جرائد کی ادارت کی۔ انھوں نے طنز و مزاح سے بھرپور مضامین ہی نہیں کہانیاں بھی تخلیق کیں جنھیں‌ باذوق قارئین کے علاوہ سنجیدہ اور باشعور طبقے نے بھی سراہا اور ان سے متاثر ہوئے، لیکن بعد میں اپنے مذہبی رجحانات اور ملعون رشدی کے ناول کا ترجمہ کرنے کی وجہ سے انھیں‌ تنازع کا سامنا کرنا پڑا اور ترکی سمیت دنیا بھر میں‌ مسلمانوں نے ان پر کڑی تنقید کی۔ عزیز نیسِن کی شہرت پر ان کے مذہبی رجحانات اور افکار نے منفی اثر ڈالا۔

    اگر عزیز نیسِن کی مذہب بیزاری اور ان کے خیالات کو نظرانداز کردیا جائے تو وہ ایک ایسے تخلیق کار تھے جس نے عوام کے حق کی بات کی اور مختلف ادوار میں افسر شاہی اور آمریت کے خلاف لکھا اور زیرِ عتاب آئے۔ تاہم مذہبی تنازع نے انھیں ناپسندیدہ اور خاصی حد تک غیرمقبول بنا دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جس ادیب کی طنز و مزاح سے بھرپور کہانیوں کو دنیا کی تیس سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا، آج اس کی قبر کا نشان بھی نہیں‌ ملتا۔ 1972ء میں اس قلم کار نے‘‘نیسن فاؤنڈیشن’’ قائم کی جس کا مقصد بے گھر اور ضرورت مند بچّوں کی کفالت کرنا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وفات کے بعد وصیّت کے مطابق انھیں آخری رسومات ادا کیے بغیر نیسِن فاؤنڈیشن کی عمارت میں کہیں سپردِ خاک کیا گیا اور ان کے مدفن کو بے نشان رکھا گیا۔