Tag: جون اموات

  • متعدد اعزازات اپنے نام کرنے والے مشہور پہلوان محمد بشیر کی برسی

    متعدد اعزازات اپنے نام کرنے والے مشہور پہلوان محمد بشیر کی برسی

    24 جون 2001ء کو پاکستان کے مشہور پہلوان محمد بشیر کو موت نے پچھاڑ کر زندگی کے پالے سے ہمیشہ کے لیے باہر کردیا۔

    محمد بشیر نے 1960ء میں منعقدہ روم اولمپکس میں کشتی کے مقابلوں میں کانسی کا تمغہ اپنے نام کیا تھا۔ کشتی کے کھیل میں اولمپک مقابلوں کے لیے اب تک کسی پاکستانی کھلاڑی کا یہ واحد تمغہ ہے۔

    محمد بشیر اس سے قبل 1958ء کے ایشیائی کھیلوں میں کشتی ہی کے کھیل میں کانسی کا تمغہ حاصل کرچکے تھے۔ بعدازاں انھوں نے 1962ء کے ایشیائی کھیلوں میں چاندی کا اور 1966ء کے ایشیائی کھیلوں میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔

    حکومتِ پاکستان نے کشتی کے کھیل میں محمد بشیر کی کام یابیوں اور فتوحات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں تمغہ امتیاز اور صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    اپنے دور کے اس مشہور پہلوان کو لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • پنجابی فلموں کے کام یاب ہدایت کار ایم جے رانا کی برسی

    پنجابی فلموں کے کام یاب ہدایت کار ایم جے رانا کی برسی

    20 جون 1995ء کو وفات پانے والے ایم جے رانا فلم اور اسٹیج کے معروف ہدایت کار تھے۔

    ایم جے رانا کا اصل نام محمد جمیل رانا تھا جو شوبزنس کی دنیا میں ایم جے رانا مشہور ہوئے۔ دائود چاند کے معاون ہدایات کار کی حیثیت سے فلم نگری میں اپنا سفر شروع کرنے والے ایم جے رانا نے اپنی صلاحیتوں کو جلد منوا لیا۔ انھیں فلم ساز جے سی آنند نے اپنی فلم ’’سوہنی‘‘ کے لیے بطور ہدایت کار منتخب کیا۔ فلم تو باکس آفس پر کام یاب نہ ہوسکی، مگر ایم جے رانا نے ضرور اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔

    انھوں نے ایک اردو فلم کے لیے ہدایت کار کے طور پر کام کیا جب کہ دیگر تمام فلمیں‌ پنجابی زبان میں‌ بنائیں۔ 1989ء میں ایم جے رانا کو فلمی صنعت کے لیے خدمات پر خصوصی نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کی سپر ہٹ فلم ماہی منڈا اور یکّے والی تھی جس نے کام یاب ہدایت کاروں‌ کی صف میں لا کھڑا کیا، بعد میں جمالو، باپ کا باپ، من موجی، جی دار، اباجی، یار مار، راوی پار، خون دا بدلہ خون، عید دا چن، پیار دی نشانی، ماں دا لال، میرا ماہی اور رانی خان جیسی فلموں‌ نے دھوم مچا دی۔

    ایم جے رانا نے چند اسٹیج ڈراموں کے لیے بھی ہدایات دیں لیکن ان کی وجہِ‌ شہرت پنجابی فلمیں‌ ہیں‌۔ ان کی وفات دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔

  • کئی لازوال اور سدا بہار گیتوں کے خالق خواجہ پرویز کی برسی

    کئی لازوال اور سدا بہار گیتوں کے خالق خواجہ پرویز کی برسی

    پاکستان کی فلمی صنعت کے معروف نغمہ نگار خواجہ پرویز 20 جون 2011ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھوں نے فلم نگری میں اپنے چالیس سالہ کیریئر کے دوران اردو اور پنجابی زبانوں میں‌ سیکڑوں گیت لکھے جو بہت مقبول ہوئے اور اکثر گیت لازوال اور یادگار قرار پائے۔

    1932ء میں ہندوستان کے شہر امرتسر میں پیدا ہونے والے خواجہ پرویز قیامِ پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور میں گوالمنڈی کے علاقے میں آبسے۔ ان کا اصل نام خواجہ غلام محی الدّین تھا جو پرویز تخلص کرتے تھے اور فلمی دنیا میں خواجہ پرویز کے نام سے مشہور ہوئے۔

    دیال سنگھ کالج سے گریجویشن کیا اور یہیں ان کی دوستی اس وقت کے معروف ہدایت کار ولی کے بیٹے سے ہوئی جن کے طفیل خواجہ پرویز ہدایت کار ولی سے ملے۔ انھوں نے 1955ء میں خواجہ پرویز کو اپنا اسٹنٹ رکھ لیا اور یہ فلمی سفر شروع ہوا۔

    خواجہ پرویز نے معاون ہدایت کار کے طور پر تین فلمیں‌ مکمل کروائیں لیکن طبیعت شاعری کی طرف مائل تھی اور یہی وجہ ہے کہ ان کی پہچان اور مقبولیت نغمہ نگاری بنی۔ انھوں نے معروف نغمہ نگار سیف الدین سیف کے ساتھ کام شروع کردیا اور ان کے اسٹنٹ بن گئے۔

    خواجہ پرویز سے ہدایت کار دلجیت مرزا نے اپنی فلم ’رواج‘ کے گیت لکھوائے۔ اس فلم میں مالا کی آواز میں ان کا گیت ’کہتا ہے زمانہ کہیں دل نہ لگانا‘ بہت مقبول ہوا۔ اس کے بعد وہ کام یابی کے جھنڈے گاڑتے چلے گئے۔ ان کا ہر گیت گویا ہٹ ہوتا رہا۔

    فلم سنگ دل میں ان کا نغمہ ’سن لے او جانِ وفا‘ اور اس کے بعد ’تمہی ہو محبوب مرے میں کیوں نہ تمہیں پیار کروں‘ بہت مشہور ہوا۔ فلم آنسو کا گانا ’تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں جیسے صدیاں بیت گئیں‘ نے مقبولیت کا گویا ریکارڈ قائم کیا اور پھر ’پیار بھرے دو شرمیلے نین‘ نے سرحد پار بھی لاکھوں دلوں میں جگہ پائی۔

    خواجہ پرویز کے بارے میں‌ مشہور ہے کہ وہ باغ و بہار شخصیت کے مالک اور دوسروں کے مددگار اور خیرخواہ تھے۔

    ذیایبطس کے مرض میں مبتلا خواجہ پرویز کو طبیعت بگڑنے پر لاہور کے میو اسپتال میں علاج کے لیے داخل کروایا گیا تھا، جہاں انھوں نے زندگی کی آخری سانس لی اور اپنے مداحوں کو سوگوار چھوڑ گئے۔

    خواجہ پرویز لاہور میں میانی صاحب قبرستان میں مدفون ہیں۔

  • عہد ساز ادیب اور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی برسی

    عہد ساز ادیب اور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی برسی

    آج اردو کے صاحبِ طرز ادیب اور معروف مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 20 جون 2018ء کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔

    مشتاق یوسفی 4 اگست 1923ء کو بھارت کی ریاست راجھستان میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان ہجرت کی اور کراچی میں سکونت اختیار کرلی۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم جے پور سے حاصل کی تھی جب کہ 1945ء گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم اے کیا اور اوّل پوزیشن حاصل کی۔

    اردو نثر اور مزاح نگاری میں انھوں نے خود کو صاحبِ‌ طرز ثابت کیا اور اعلیٰ معیار کی تخلیقات قارئین کو دیں۔ ان کے ادبی شہ پاروں میں پہلی کتاب ’’چراغ تلے‘‘ 1941ء میں، دوسری ’’خاکم بدہن‘‘ 1949ء، جب کہ ’’زرگزشت‘‘ 1974ء اور ’’آبِ گم‘‘ 1990ء میں‌ منظرِ عام پر آئی، اس عہد ساز مزاح نگار کی آخری کتاب ’’شامِ شعرِ یاراں‘‘2014ء میں شایع ہوئی تھی۔

    مشتاق یوسفی کی کتابیں ان کے وسیع ذخیرۂ الفاظ اور وسیع تر مطالعے کا ثبوت ہیں۔ وہ ایسے مزاح نگار تھے جن کے ہر ہر فقرے کو بڑی توجہ سے پڑھا جاتا ہے اور اس کا لطف اٹھایا جاتا ہے۔ ان کی تحریروں میں‌ گہرائی اور لطیف انداز میں فلسفے کی آمیزش ہے۔ یہاں‌ ہم ان کے مزاحیہ مضامین سے چند جملے آپ کے ذوق کی نذر کررہے ہیں:

    • چھٹتی نہیں ہے منھ سے یہ ‘کافی’ لگی ہوئی۔

    • مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔

    • صاحب، میں ماکولات میں معقولات کا دخل جائز نہیں سمجھتا۔

    مشتاق احمد یوسفی کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں‌ حکومتِ پاکستان کی جانب سے ستارۂ امتیاز اور ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا تھا۔

    وہ طویل عرصے سے علیل تھے اور 95 برس کی عمر میں کراچی میں انتقال کیا۔

  • 18 جون: لکشمی بائی جس نے وطن کی حرمت و ناموس پر جان قربان کردی

    18 جون: لکشمی بائی جس نے وطن کی حرمت و ناموس پر جان قربان کردی

    لکشمی بائی جنگِ آزادیٔ ہند کا وہ کردار ہے جس کی لازوال قربانی، فہم و فراست اور بہادری کی داستان خطّے کی تاریخ میں‌ ہمیشہ زندہ رہے گی۔ یہ کردار آنے والی نسلوں کو اپنے وطن سے محبّت اور دھرتی کی حرمت و ناموس پر مَر مٹنے کا راستہ دکھاتا رہے گا۔

    لکشمی بائی ہندوستان کی ایک چھوٹی سی ریاست جھانسی کی رانی تھی۔ 1817ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے جھانسی کے راجہ کی وفات کے بعد وہاں اپنا قبضہ جمانے کی کوشش کی تو نوجوان بیوہ رانی لکشمی بائی نے انگریزوں کی طاقت کو للکارا اور اعلانِ جنگ کر دیا۔ اس وقت ہندوستان کا ہر بسنے والا بلاتفریقِ رنگ و نسل اور مذہب انگریزوں سے نفرت اور ان کے قبضے کے خلاف مزاحمت پر آمادہ تھا۔

    رانی نے فارسی اور اردو بھی پڑھی تھی، لیکن لکھنے پڑھنے کے ساتھ شمشیر زنی، نشانہ بازی اور گھڑ سواری اور دوسرے فنونِ حرب کی تربیت بھی حاصل کی تھی۔ وہ بہترین نشانے باز تھی۔ مشہورہ ہے کہ اس کی بندوق کا نشانہ کبھی خطا نہ جاتا تھا۔

    وہ ایک خوب صورت دوشیزہ تھی اور جب جھانسی کے گنگا دھر کی طرف سے شادی کا پیغام آیا تو والدین نے قبول کرلیا۔ اسے تعلیم و تربیت کے وہ تمام مواقع ملے جو راج کماروں اور راج کماریوں کے لیے مخصوص ہوتے تھے، یوں وہ جھانسی کی رانی بن گئی۔ راجہ نے اسے رانی لکشمی بائی کا خطاب دیا تھا۔

    غدر کے سال بھر بعد 18 جون 1858ء کو انگریز گوالیار پر حملہ آور ہوئے تو رانی نے مختصر فوج کے ساتھ ان کے حملے کا بھرپور جواب دیا۔ مردانہ لباس میں وہ دشمن پر برق بن کر کوندی۔ لیکن ایک موقع پر جب انگریز سپاہی نے عقب سے تلوار ماری تو زندگی کا سفر تمام ہو گیا۔

    مشہور ہے کہ اس نے مرتے ہوئے وصیّت لاش کو انگریزوں کے ہاتھ نہ لگنے دینے کی وصیّت کی تھی اور اسی لیے اس کے جسدِ خاکی کو اسی مقام پر نذرِ آتش کردیا گیا جہاں اس نے زندگی کی آخری سانسیں‌ لی تھیں۔

  • جنگِ طرابلس: 11 سالہ فاطمہ مسلمان سپاہیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہوگئی تھیں

    جنگِ طرابلس: 11 سالہ فاطمہ مسلمان سپاہیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہوگئی تھیں

    آج عالمِ اسلام کی ایک کم سن بیٹی فاطمہ بنتِ عبداللہ کی شہادت کا دن ہے۔ انھوں نے 18 جون 1912ء کو جنگِ طرابلس میں مجاہدین کو پانی پلاتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا تھا۔

    فاطمہ بنت عبداللہ لیبیا کے شہر طرابلس میں 1898ء میں پیدا ہوئیں۔ اسلامی ماحول میں تعلیم و تربیت پانے والی فاطمہ عرب قبیلے کے سردار کی اکلوتی بیٹی تھیں۔

    اطالوی اور سلطنتِ عثمانیہ کی افواج کے مابین لڑی گئی اس جنگ میں اگرچہ طاقت اور تعداد میں مسلمان کم تھے، لیکن مسلمان سپاہی ہی نہیں ان کے ساتھ عرب عورتیں بھی دشمن کی طاقت اور عددی برتری سے بے نیاز اور جذبہ شہادت سے سرشار میدان میں نظر آئیں۔ کئی خواتین نے دورانِ جنگ زخمی سپاہیوں کی مرہم پٹّی اور دیکھ بھال کی ذمہ داری نبھائی تھی جن میں فاطمہ بھی شامل تھیں۔

    شاعرِ‌ مشرق علّامہ اقبال نے اسی کم عمر شہید پر ایک نظم بھی لکھی تھی جو بانگِ درا میں شامل ہے، لیکن اس کلام میں اقبال نے جہاں فاطمہ کو ان کی جرات اور بہادری پر سلام پیش کیا ہے، وہیں امّتِ مسلمہ کے ظاہری امراض کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو لائقِ توجہ ہے۔

    18 جون کو دشمن سے ایک جھڑپ کے دوران جب فاطمہ بنتِ عبدُ اللہ چند زخمی مجاہدوں کو پانی پلا رہی تھیں تو اطالوی سپاہی نے انھیں گولیوں‌ کا نشانہ بنایا تھا۔

    اس ننّھی مجاہدہ پر لکھی گئی اقبال کی نظم پڑھیے۔

    "فاطمہ بنت عبدُاللہ”
    فاطمہ! تو آبروئے امّتِ مرحوم ہے
    ذرہ ذرّہ تيری مشتِ خاک کا معصوم ہے

    يہ سعادت، حورِ صحرائی! تری قسمت ميں تھی
    غازيانِ ديں کی سقّائی تری قسمت ميں تھی

    يہ جہاد اللہ کے رستے ميں بے تيغ و سپر
    ہے جسارت آفريں شوقِ شہادت کس قدر

    يہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر ميں تھی
    ایسی چنگاری بھی یارب، اپنی خاکستر ميں تھی!

    اپنے صحرا ميں بہت آہو ابھی پوشيدہ ہيں
    بجلياں برسے ہوئے بادل ميں بھی خوابيدہ ہيں!

    فاطمہ! گو شبنم افشاں آنکھ تيرے غم ميں ہے
    نغمۂ عشرت بھی اپنے نالۂ ماتم ميں ہے

    رقص تیری خاک کا کتنا نشاط انگيز ہے
    ذرّہ ذرّہ زندگی کے سوز سے لبريز ہے

    ہے کوئی ہنگامہ تيری تربتِ خاموش ميں
    پَل رہی ہے ايک قومِ تازہ اس آغوش ميں

    بے خبر ہوں گرچہ ان کی وسعتِ مقصد سے ميں
    آفرينش ديکھتا ہوں ان کی اس مرقد سے ميں

    تازہ انجم کا فضائے آسماں ميں ہے ظہور
    ديدۂ انساں سے نامحرم ہے جن کی موجِ نور

    جو ابھی ابھرے ہيں ظلمت خانۂ ايّام سے
    جن کی ضو ناآشنا ہے قيدِ صبح و شام سے

    جن کی تابانی ميں اندازِ کہن بھی، نو بھی ہے
    اور تيرے کوکبِ تقدير کا پَرتو بھی ہے

  • میکسم گورکی: وہ ناول نگار جسے "ماں” نے دنیا بھر میں لازوال شہرت عطا کی

    میکسم گورکی: وہ ناول نگار جسے "ماں” نے دنیا بھر میں لازوال شہرت عطا کی

    18 جون 1936ء کو دنیا سے رخصت ہوجانے والے نام ور روسی ادیب اور شاعر میکسم گورکی کو "ماں” نے دنیا بھر میں لازوال شہرت عطا کی اور یہ ناول شہرۂ آفاق ثابت ہوا۔

    روسی ادب میں ناول ماں کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے جس نے الیکسی میکسیمووچ پیشکوف المعروف میکسم گورکی کو اپنے ہم عصروں‌ میں ممتاز کیا۔ اس نے 28 مارچ 1868ء کو روس میں جنم لیا، والد کا سایہ کم عمری میں‌ سر سے اٹھ گیا، گورکی نے چھوٹے موٹے کام کیے، اور غربت و افلاس دیکھا، ایک مہربان نے تھوڑا بہت پڑھنا لکھنا سکھا دیا اور پھر وہ علم و ادب کی جانب مائل ہوا۔ آج اسے ایک انقلابی کے طور پر پہچانا جاتا ہے جو توانا اور تازہ فکر شاعر، باکمال ناول نگار، ڈراما نویس اور مستند صحافی بھی تھا۔ اس کے ناول اور مختصر کہانیاں بہت مقبول ہوئیں۔

    میکسم گورکی کا ناول “ماں” 1906ء میں منظر عام پر آیا تھا۔ اس ناول کی کہانی ایک مزدور، اس کی ماں، اس کے چند دوستوں اور چند خواتین کے گرد گھومتی ہے۔ بیٹا انقلابی فکر کا حامل ہے اور گرفتاری کے بعد ماں اپنے بیٹے اور اس کے مقصد یعنی انقلاب کے لیے سختیاں برداشت کرتی ہے، وہ ان پڑھ اور سادہ عورت ہے جو بیٹے کو جیل کے دوران خود بھی ایک انقلابی بن جاتی ہے۔ اس ناول کا دنیا کی بے شمار زبانوں میں ترجمہ جب کہ گورکی کو پانچ مرتبہ ادب کے نوبیل انعام کے لیے بھی نام زد کیا گیا تھا۔

    روس کے اس ادیبِ اعظم نے اپنی آپ بیتی بھی رقم کی جس کا مطالعہ گورکی کے نظریات سے اور اس کے دور میں روس کے حالات سے واقف ہونے کا موقع دیتا ہے، اس آپ بیتی میں کئی اہم سیاسی اور سماجی اور دل چسپ نوعیت کے واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔

  • یومِ وفات: استاد علی اکبر خان نے دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منوایا

    یومِ وفات: استاد علی اکبر خان نے دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منوایا

    کلاسیکی موسیقی میں استاد کا مرتبہ پانے والے علی اکبر خان کا شمار ان فن کاروں میں کیا جاتا ہے جنھوں نے مغرب کو مشرقی موسیقی سے آشنا کیا۔ 18 جون 2009ء کو اس نام وَر اور باکمال فن کار نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔

    علی اکبر خان نے 1922ء میں بنگال کے شہر کومیلا کے ایک قصبے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد علاءُ الدّین بھی فنِ‌ موسیقی میں استاد مشہور تھے اور انہی کے زیرِ سایہ علی اکبر خان نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اس کے بنیادی رموز سیکھے۔ بعدازاں تربیت کے لیے ‘سنیہ میہار گھرانے ’ سے وابستہ ہوگئے۔

    علی اکبر خان 22 سال کے ہوئے تو ریاست جودھ پور میں دربار سے بحیثیت موسیقار وابستہ ہوگئے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ بھارت میں رہے، لیکن 1967ء میں امریکا منتقل ہوگئے اور ریاست کیلی فورنیا میں سکونت اختیار کرلی، بعد میں انھوں نے برکلے میں علی اکبر کالج آف میوزک قائم کیا، جس میں اُن کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔

    سرود کے علاوہ استاد علی اکبر خان ستار، طبلہ اور ڈرم بھی مہارت اور خوبی سے بجاتے تھے۔ سرود کی تعلیم انھوں نے اپنے والد سے اور طبلے کی تربیت اپنے چچا فقیر آفتاب الدّین سے لی تھی۔

    کہتے ہیں ‘سُر بہار’ پیش کرنے میں ان کا کوئی ثانی ہی نہ تھا۔ استاد علی اکبر خان نے بھارت سمیت دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منوایا۔

    1989ء میں انھیں بھارت کا دوسرا بڑا شہری اعزاز عطا کیا گیا، جب کہ 1997ء میں انھیں امریکا میں روایتی فنون کے لیے معروف ‘ہیریٹیج فیلوشپ’ دی گئی۔ ان کی اہمیت اور اپنے فن کے سبب عالمی سطح پر پذیرائی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ انھیں 5 مرتبہ گریمی ایوارڈ کے لیے بھی نام زد کیا گیا تھا۔

    امریکا کے شہر سان فرانسسکو میں وفات پانے والے استاد علی اکبر خان کو برصغیر ہی نہیں‌ بلکہ دنیا بھر میں پہچانا جاتا ہے۔

  • یومِ وفات: فلمی موسیقار واجد علی ناشاد نے پی ٹی وی کے کئی مقبول ڈراموں‌ کے ٹائٹل سانگ بھی بنائے

    یومِ وفات: فلمی موسیقار واجد علی ناشاد نے پی ٹی وی کے کئی مقبول ڈراموں‌ کے ٹائٹل سانگ بھی بنائے

    پاکستان کی فلم نگری کے ممتاز موسیقار واجد علی ناشاد 18 جون 2008ء کو دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کے والد شوکت علی ناشاد بھی فلمی موسیقار تھے۔

    واجد علی ناشاد کا سنِ پیدائش 1953ء ہے۔ ان کا تعلق ممبئی سے تھا۔ ان کے والد 1964ء میں اپنے کنبے کے ساتھ ہجرت کرکے لاہور چلے آئے۔ ہجرت سے قبل واجد جس اسکول میں زیرِ تعلیم تھے، وہاں انھوں نے میوزک ٹیچر پیٹر ہائیکین سے پیانو بجانا سیکھا تھا۔

    واجد علی ناشاد کو اپنے والد کی وجہ سے موسیقی کا شوق تو تھا ہی، بعد میں انھوں نے خود اس فن میں دل چسپی لی اور مہارت حاصل کی۔ انھوں نے پاکستان میں کئی فلموں میں اپنے والد کے ساتھ بطور اسٹنٹ میوزک ڈائریکٹر کام کرتے ہوئے کلاسیکل گیت سنگیت کو سیکھا اور مغربی میوزک کا مطالعہ بھی کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ترتیب دی ہوئی دھنیں منفرد اور مقبول ثابت ہوئیں۔

    واجد علی ناشاد نے تقریباً 50 فلموں کے لیے بطور موسیقار کام کیا جب کہ تقریباً 300 فلموں کا بیک گراؤنڈ میوزک بھی دیا۔ انھوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کے مشہور ڈراموں ’’دشت ‘‘، ’’دوریاں‘‘، ’’ باغی ‘‘ ، ’’پراندہ ‘‘ ، ’’سلسلہ‘‘ ، ’’لنڈا بازار ‘‘ سمیت کئی سیریلوں کے ٹائٹل سانگ بھی بنائے۔

    واجد علی ناشاد نے 1977ء میں فلم ’’پرستش‘‘ کی موسیقی ترتیب دے کر اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔

  • معروف فلمی نغمہ نگار ناظم پانی پتی کی برسی

    معروف فلمی نغمہ نگار ناظم پانی پتی کی برسی

    18 جون 1998ء کو معروف فلمی نغمہ نگار ناظم پانی پتی وفات پاگئے۔ ان کا شمار متحدہ ہندوستان کے اُن تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جن کی فنی عظمت کو سبھی نے تسلیم کیا اور تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آجانے کے باوجود ان کا نام اور ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا بھارتی فلم انڈسٹری میں تذکرہ ہوتا رہا۔ انھوں نے فلم نگری کو دل میرا توڑا، کہیں کا نہ چھوڑا اور چندا کی نگری سے آ جا ری نندیا جیسے مقبول گیت دیے تھے۔

    ناظم پانی پتی کا اصل نام محمد اسماعیل تھا۔ 15 نومبر 1920 کو لاہور میں پیدا ہونے والے ناظم پانی پتی کے بڑے بھائی ولی صاحب اور ان کی بھاوج ممتاز شانتی کا تعلق فلمی دنیا سے تھا۔ ناظم پانی پتی نے لاہور سے فلموں کے لیے نغمہ نگاری شروع کی۔ خزانچی، پونجی، یملا جٹ، چوہدری، زمین دار اور شیریں فرہاد جیسی فلموں کے لیے انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور نام و مقام حاصل کیا۔

    وہ لگ بھگ دس سال تک بمبئی میں رہے جہاں 25 سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے۔ ان کی مشہور فلموں میں مجبور، بہار، شیش محل، لاڈلی، شادی، ہیر رانجھا اور دیگر شامل ہیں۔

    پاکستان میں انھوں نے جن فلموں کے لیے یادگار نغمات تحریر کیے ان میں لختِ جگر، شاہی فقیر، سہیلی، بیٹی اور انسانیت سرفہرست ہیں۔ انھوں نے اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں بھی گیت نگاری کی اور متعدد فلموں کا اسکرپٹ بھی لکھا۔

    ناظم پانی پتی لاہور میں ماڈل ٹائون کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔