Tag: جون اموات

  • نام ور پاکستانی سائنس داں آئی ایچ عثمانی کی برسی

    نام ور پاکستانی سائنس داں آئی ایچ عثمانی کی برسی

    پاکستان کے نام وَر سائنس داں ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی 17 جون 1992ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    15 اپریل 1917ء کو پیدا ہونے والے عشرت حسین عثمانی نے بمبئی یونیورسٹی سے بی ایس سی آنرز، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ایم ایس سی اور لندن کی جامعہ سے مشہور نوبیل انعام یافتہ سائنس داں جی پی ٹامسن کے زیرِ نگرانی اپنا پی ایچ ڈی مکمل کیا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے سول سروس میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دیں جن میں سب سے اہم عہدہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی چیئرمین شپ تھا۔ ان کے دور میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھی گئی اور کراچی میں کینپ کا نیوکلیئر پاور پلانٹ نصب کیا گیا۔ 1972ء میں وہ وزارتِ سائنس اور ٹیکنالوجی کے سیکریٹری مقرر ہوئے جو انہی کی تجویز پر قائم کی گئی تھی۔

    حکومتِ پاکستان نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ستارۂ پاکستان اور نشانِ امتیاز عطا کیے تھے۔

    آئی ایچ عثمانی کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • جادو بیاں اور ہر دل عزیز، طارق عزیز کی پہلی برسی

    جادو بیاں اور ہر دل عزیز، طارق عزیز کی پہلی برسی

    آج طارق عزیز کی پہلی برسی منائی جارہی ہے جنھوں نے ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلم نگری تک بے مثال کام کیا اور ان کے منفرد اندازِ میزبانی نے پروگرام کے شائقین کو ان کا پرستار بنا دیا۔ پچھلے سال 17 جون کو طارق عزیز نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔

    علم و ادب، فنونِ لطیفہ بالخصوص پرفارمنگ آرٹ کی دنیا میں طارق عزیز کی خاص پہچان ان کی منفرد آواز اور شستہ و شائستہ لب و لہجہ اور طرزِ گفتگو تھا۔ نیلام گھر نے انھیں ہفت آسمان مقبولیت دی۔ وہ پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ میں کئی دہائیوں تک جاری رہنے والے اس معلوماتی اور ذہنی آزمائش کے پروگرام کے میزبان تھے۔ وہ اپنے پروگرام کا آغاز مخصوص انداز میں اس جملے سے کرتے، ’دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام‘ جو بہت مشہور ہوا۔ انھوں نے پروگرام کے حاضرین اور ناظرین کی تفریح اور دل چسپی کو بھی مدنظر رکھا۔ وہ حاضر باش اور طباع تھے اور اکثر اس طرح‌ شوخیِ اظہار سے کام لیتے کہ سبھی مسکرانے پر مجبور ہو جاتے۔

    چار دہائیوں تک جاری رہنے والے اس پروگرام کو ’بزمِ طارق عزیز‘ ہی کا نام دے دیا گیا تھا۔

    طارق عزیز ایسے فن کار تھے جو علم دوست اور شائقِ مطالعہ بھی تھے، وہ مختلف موضوعات پر جامع اور مدلّل طریقے سے اظہارِ خیال کرتے اور ان کی گفتگو سے علمیت، قابلیت اور ذہانت جھلکتی تھی۔ برجستہ اور موقع کی مناسبت سے کوئی مشہور قول سنانا یا شعر کا سہارا لے کر اپنی بات کو آگے بڑھانے والے طارق عزیز اہلِ محفل کو متوجہ کرنے کا ہنر جانتے تھے۔

    طارق عزیز نے اپنے فن کا سفر ریڈیو پاکستان سے شروع کیا اور جب پاکستان میں ٹیلی ویژن نشریات کا آغاز ہوا تو وہی پہلے میزبان کے طور پر اسکرین پر نظر آئے۔

    طارق عزیز 28 اپریل 1936ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے وقت ان کا خاندان پاکستان آگیا جہاں طارق عزیز کا بچپن ساہیوال میں گزرا اور وہیں ابتدائی تعلیم بھی حاصل کی۔

    انھوں نے فلموں میں بھی اداکاری کی۔ ان کی پہلی فلم انسانیت 1967ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی جب کہ سال گرہ، قسم اس وقت کی، ہار گیا انسان میں بھی انھیں‌ بطور اداکار دیکھا گیا۔ طارق عزیز نے سیاست میں بھی حصہ لیا اور 1997ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔

    وہ ادیب اور شاعر بھی تھے۔ انھیں بے شمار اشعار بھی ازبر تھے۔ کالم نویسی بھی کی اور اپنے پروگراموں کا اسکرپٹ بھی لکھا، ان کے کالموں کا ایک مجموعہ داستان کے نام سے جب کہ پنجابی شاعری کا مجموعہ ہمزاد دا دکھ شایع ہوچکا ہے۔ اردو زبان میں ان کا یہ شعر بہت مشہور ہوا:

    ہم وہ سیہ نصیب ہیں طارق کہ شہر میں
    کھولیں دکاں کفن کی تو سب مرنا چھوڑ دیں

    لاہور میں انتقال کرجانے والے طارق عزیز نے زندگی کے 84 سال اس عالمِ فانی میں بسر کیے۔

    1992ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • معروف لوک گلوکار سائیں اختر حسین کی برسی

    معروف لوک گلوکار سائیں اختر حسین کی برسی

    16 جون 1987ء کو پاکستان کے معروف لوک گلوکار سائیں اختر حسین وفات پاگئے تھے۔ وہ کافیاں اور لوک گیت گانے کے علاوہ فلموں‌ کے معاون گلوکار کی حیثیت سے مشہور تھے۔

    سائیں اختر حسین کو مزارات اور خانقاہوں پر عرس اور دیگر روحانی محافل میں‌ عارفانہ کلام اور کافیاں گانے کے لیے بلایا جاتا تھا جب کہ انھوں نے متعدد پاکستانی فلموں‌ میں دھمال اور قوالیوں کے مناظر کے دوران بھی پرفارم کیا۔ وہ اپنے الاپ اور لمبی تانوں کی وجہ سے مشہور تھے۔

    سائیں اختر حسین 1920ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے موسیقی کی تربیت استاد بھائی لعل محمد سے حاصل کی۔ 1962ء میں انھوں نے فلم ’’عشق پر زور نہیں‘‘ کے ایک گیت ’’دل دیتا ہے رو رو دہائی …کسی سے کوئی پیار نہ کرے‘‘ کے لیے پس منظر میں الاپ دیا اور بہت شہرت پائی۔ سائیں اختر حسین نے اندرونِ ملک ہی نہیں دنیا کے مختلف ممالک میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے حضرت نظام الدین اولیاؒ، حضرت امیر خسروؒ، حضرت مخدوم صابر ؒ اور خواجہ معین الدین چشتی جیسے بزرگوں اور اولیا اللہ کے مزارات پر عرس کی بڑی تقریبات میں عارفانہ کلام پیش کیا۔

    سائیں اختر نے 1956ء میں پہلی بار فلم کے لیے پسِ پردہ آواز دی تھی۔ اس کے بعد متعدد فلموں کے گیتوں‌ کے لیے جب ان کی مخصوص آواز کی ضرورت محسوس کی گئی تو سائیں اختر دھن ساز کی توقع پر پورے اترے۔ انھوں نے سولو گیت بہت کم گائے اور اس کی وجہ ان کی وہ مخصوص آواز تھی جو بہرحال فلمی گائیکی کے لیے موزوں نہیں تھی۔ ان کی آواز کو ایک کُھلے گلے اور اونچے سُروں میں گانے والے گلوکار کے طور پر فلمی دھمالوں اور قوالیوں میں شامل کیا جاتا تھا۔

    ان کے غیر فلمی گیتوں میں سے ایک "دل والا روگ نئیں کسے نوں سنائی دا، اپنی سوچاں وچ آپ مر جائی دا۔۔” بڑا مقبول گیت تھا۔

    سائیں اختر حسین لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ وفات کے بعد حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی ان کے نام کیا گیا۔

  • سید ممتاز علی: ہندوستان میں تعلیم و حقوقِ نسواں کے اوّلین علم بردار

    سید ممتاز علی: ہندوستان میں تعلیم و حقوقِ نسواں کے اوّلین علم بردار

    ہندوستان میں عورتوں کی تعلیم کے اوّلین علم برداروں میں ایک نام سیّد ممتاز علی کا تھا جو مشہور ہفتہ وار اخبار تہذیبِ نسواں کے بانی تھے۔ علمی و ادبی میدان میں‌ خدمات پر متحدہ ہندوستان کی حکومت نے انھیں شمسُ العلما کا خطاب دیا تھا۔

    تہذیبِ نسواں ہندوستان کے مسلم گھرانوں اور اردو داں طبقے میں‌ خاصا مقبول تھا۔ اس اخبار نے جہاں‌ ہندوستانی عورتوں کو بیدار مغز اور باشعور بنانے میں کردار ادا کیا، وہیں اس پرچے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہی نہیں معمولی پڑھی لکھی عورتوں میں بھی تصنیف و تالیف کا شوق پیدا ہوا۔ اخبار کی ادارت محمدی بیگم کے ذمّہ تھی جو سیّد ممتاز علی کی زوجہ تھیں۔

    سیّد ممتاز علی 15 جون 1935ء کو وفات پاگئے تھے۔ اردو زبان کے اس معروف مصنّف اور مترجم نے متعدد علمی و ادبی مضامین تحریر کیے۔ سیّد ممتاز علی رفاہِ عام پریس کے مالک تھے اور انھیں ناشر کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔

    سیّد ممتاز علی 1860ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی اور انگریزی کی تعلیم بھی پائی۔ 1876ء میں لاہور چلے گئے جہاں‌ تا دمِ مرگ قیام رہا۔

    1884ء میں انھوں نے پنجاب میں عدالتی مترجم کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی اور 1891ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ 1898ء کو لاہور میں چھاپا خانہ قائم کیا اور نہایت بلند پایہ کتابیں شایع کیں۔ اسی برس تہذیبِ نسواں بازار میں آیا تھا جو 1949ء تک جاری رہا۔ سیّد ممتاز علی نے 1909ء میں بچّوں کا جریدہ پھول بھی جاری کیا تھا اور یہ تقسیمِ ہند کے بعد بھی شایع ہوتا رہا۔

    مولوی سیّد ممتاز علی علم و ادب میں ممتاز اور مسلمانانِ ہند کے خیر خواہ اور مصلح سرسیّد احمد خان کے رفیق بھی تھے۔ ہر کام میں‌ ان سے صلاح و مشورہ کرتے اور ان کی طرح ہندوستانیوں‌ کے لیے جدید علوم اور تعلیم و تربیت کا حصول لازمی خیال کرتے تھے۔
    اِن کے اخبار تہذیبِ نسواں کا پہلا شمارہ یکم جولائی 1898ء کو منظر عام پر آیا تھا۔ اس اخبار کا نام تہذیبُ الاخلاق سے مشابہ تھا جو سر سیّد احمد خان نے تجویز کیا تھا۔

    1934ء میں شمس العلما کا خطاب پانے والے سیّد ممتاز علی کے مطبع خانے سے جو تصانیف شایع ہوئیں، ان میں حقوقِ نسواں (1898ء)، مولوی مرزا سلطان احمد خاں کے متفرق مضامین کا مجموعہ ریاضُ الاخلاق (1900ء) اور سراجُ الاخلاق، تفصیلُ البیان، شیخ حسن (1930ء) اور دیگر شامل ہیں۔

    مولوی سیّد ممتاز علی کی جواں سال زوجہ محمدی بیگم 1908ء میں انتقال کرگئی تھیں۔ ان کی وفات کے بعد صاحب زادی وحیدہ بیگم نے اس اخبار کی ادارت سنبھالی، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وحیدہ بیگم 1917ء میں خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ کچھ عرصے کے لیے مولوی ممتاز علی کی بہو نے اخبار کی ادارت کی اور پھر اس اخبار کو مولوی ممتاز کے صاحب زادے اور اردو کے نام وَر ادیب امتیاز علی تاج نے سنبھالا۔ وہ اس کے آخری مدیر تھے۔

  • یومِ‌ وفات: نڈر، بے باک اور باضمیر، ضمیر نیازی صحافت کی آبرو تھے

    یومِ‌ وفات: نڈر، بے باک اور باضمیر، ضمیر نیازی صحافت کی آبرو تھے

    پاکستان کے نام وَر صحافی، مصنّف اور آزادیٔ صحافت کے علم بردار ضمیر نیازی 11 جون 2004ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ وہ پاکستانی میڈیا کی تاریخ لکھنے والے پہلے صحافی تھے۔ انھوں نے نہ صرف پاکستانی صحافت کی تاریخ مرتّب کی بلکہ اس موضوع پر متعدد کتابیں بھی لکھیں جو اس شعبے میں راہ نما اور اہم سمجھی جاتی ہیں۔

    ضمیر نیازی کی مشہور کتابوں میں ’پریس ان چینز‘، ’پریس انڈر سیج‘ اور ’ویب آف سنسر شپ‘ شامل ہیں۔ جنرل ضیاءُ الحق کے دورِ حکومت میں ان کی کتاب ’پریس ان چینز‘ پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ یہ کتاب بے حد مقبول ہوئی اور اس کے متعدد ایڈیشن اور تراجم شامل ہوئے۔ پی پی پی کے دور میں جب شام کے چند اخبارات پر پابندی لگی گئی تو انھوں نے احتجاجاً حکومت کی جانب سے دیا گیا تمغہ برائے حسنِ کارکردگی واپس کر دیا۔ انھیں جامعہ کراچی نے بھی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دینے کا اعلان کیا تھا، مگر ضمیر نیازی نے اس کے لیے گورنر ہائوس جانے سے انکار کردیا تھا۔

    ضمیر نیازی 1932ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر ممبئی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام ابراہیم جان محمد درویش تھا۔ ضمیر نیازی نے صحافتی زندگی کا آغاز ممبئی کے ایک اخبار انقلاب سے کیا۔ بعد میں‌ ہجرت کر کے پاکستان آ گئے اور کراچی میں سکونت اختیار کر لی جہاں صحافتی سفر دوبارہ شروع کیا۔ ڈان اور بزنس ریکارڈر سے منسلک رہنے کے بعد عملی صحافت چھوڑ کر خود کو تحقیق اور تصنیف تک محدود کرلیا تھا۔

    ضمیر نیازی کی دیگر تصانیف میں باغبانِ صحرا، انگلیاں فگار اپنی اور حکایاتِ خونچکاں شامل ہیں۔ اس نڈر اور بے باک صحافی کو کراچی کے قبرستان میں‌ آسودہ خاک کیا گیا۔

  • نام وَر ہندوستانی مؤرخ اور ماہرِ آثار و ثقافت زبیدہ یزدانی کی برسی

    نام وَر ہندوستانی مؤرخ اور ماہرِ آثار و ثقافت زبیدہ یزدانی کی برسی

    نام وَر مؤرخ اور ماہرِ ثقافت زبیدہ یزدانی 11 جون 1996ء کو لندن میں وفات پاگئی تھیں۔ انھوں نے ہندوستان کی تاریخ پر کتب اور متعدد علمی مضامین لکھے اور پیشہ وَر مؤرخ کی حیثیت سے مشہور ہوئیں۔ زبیدہ یزدانی کا خاص موضوع حیدرآباد دکن تھا جس پر ان کے کام کو سند اور معتبر حوالہ مانا جاتا ہے۔

    27 اپریل 1916ء کو پیدا ہونے والی زبیدہ یزدانی کے والد ڈاکٹر غلام یزدانی بھی ماہرِ‌ آثارِ قدیمہ کی حیثیت سے مشہور تھے۔ ہندوستان میں تاریخ اور ثقافت کے حوالے سے ان کا اہم کردار رہا جب کہ ان کی تصنیف کردہ کتب یادگار اور اہم تاریخی حوالہ ثابت ہوئیں۔ وہ حیدرآباد، دکن میں نظام کے دور میں آثارِ قدیمہ کے ڈائریکٹر تھے اور اجنتا اور ایلورا کے غاروں‌ کے تحفظ کے لیے کام کرنے کے علاوہ مختلف مذاہب کے تاریخی معبدوں کی ازسرِ نو تعمیر و مرمت بھی اپنی نگرانی میں کروائی۔ زبیدہ یزدانی نے بھی اپنے والد کی طرح تاریخ و آثار، تہذیب و ثقافت میں دل چسپی لی اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے اس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی، وہ اکسفورڈ میں داخلہ لینے والی اوّلین ایشیائی خواتین میں سے ایک تھیں۔

    زبیدہ یزدانی کی پہلی کتاب "Hyderabad during the Residency of Henry Russell 1811 – 1820” تھی جب کہ دوسری اہم کتاب "The Seventh Nizam: The Fallen Empire” کے نام سے شایع ہوئی تھی۔ زبیدہ یزدانی سماجی اور تعلیمی کاموں کے لیے بھی مشہور تھیں۔

    حیدرآباد دکن کی تاریخ اور ثقافت کی ماہر زبیدہ یزدانی نے اسی مردم خیز خطّے میں علم و فنون کی آبیاری کے لیے مشہور اور عظیم درس گاہ جامعہ عثمانیہ کے ویمن کالج میں استاد کی حیثیت سے وقت گزارا اور اس دوران اپنا علمی اور تحقیقی کام بھی جاری رکھا۔ انھوں نے 1976ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے شوہر میر یٰسین علی خان کے ساتھ برطانیہ میں سکونت اختیار کرلی تھی اور وہیں انتقال کیا۔

  • یومِ وفات: پنجابی فلموں‌ کے مقبول اداکار اکمل زندگی کی محض 38 بہاریں‌ دیکھ سکے

    یومِ وفات: پنجابی فلموں‌ کے مقبول اداکار اکمل زندگی کی محض 38 بہاریں‌ دیکھ سکے

    خوش قامت اور خوب رُو اکمل فلم نگری کے میک اَپ آرٹسٹ تھے جب کہ ان کے بھائی مشہور و معروف اداکار۔ فلم نگری سے وابستگی کے سبب اکمل کے لیے بہ طور اداکار قسمت آزمانا کچھ مشکل نہ تھا۔ انھوں نے ‘ایکسٹرا’ کے طور پر اپنا سفر شروع کیا اور ایک وقت آیا جب وہ پنجابی فلموں کے مقبول اور مصروف ترین اداکار بنے۔

    آج اداکار اکمل کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 11 جون 1967ء کو محض 38 سال کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔

    اکمل نے 1956ء میں فلم جبرو میں ہیرو کا رول نبھایا اور بڑے پردے کے شائقین اور فلم سازوں سے قبولیت اور پسندیدگی کی توقع کرنے لگے، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اگلے 8 برس تک اکمل کو درجن سے زائد فلموں میں ہیرو یا مرکزی رول نبھانے کے باوجود خاص پذیرائی نہیں‌ مل سکی۔ اس ناکامی سے مایوس اکمل نے ہمّت نہ ہاری اور سفر جاری رکھا۔

    اکمل پنجابی فلموں کے پہلے ہیرو تھے جنھوں نے ایک فلمی سالم میں 10 سے زائد فلموں میں کام کیا اور یہ سلسلہ مزید دو سال جاری رہا جس سے اکمل کی مقبولیت اور مصروفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اداکارہ فردوس کے ساتھ ان کی جوڑی کو بہت شہرت ملی تھی۔ بعد میں انھوں نے شادی کرلی تھی، لیکن جلد علیحدگی ہوگئی۔

    اداکار اکمل کا اصل نام محمد آصف خان تھا۔ وہ 1929ء میں پیدا ہوئے تھے۔ اکمل نے مجموعی طور پر 64 فلموں میں کام کیا۔ اس سفر میں اکمل کی مقبولیت اور کام یابی پنجابی فلموں تک محدود رہی اور اردو زبان میں بننے والی متعدد فلموں میں انھوں نے ناکامی کا سامنا کیا۔

    اداکار اکمل کی آخری فلم ’’بہادر کسان‘‘ تھی جو 1970ء میں نمائش پذیر ہوئی۔ ان کی دیگر فلموں میں چوڑیاں، زمیندار، پیدا گیر، بچہ جمہورا، بہروپیا، چاچا خواہ مخواہ، ہتھ جوڑی، کھیڈن دے دن، ہیر سیال، جگری یار، بانکی نار، وارث شاہ، ڈھول سپاہی، بھرجائی، من موجی، ملنگی، خاندان سرِفہرست ہیں۔

    کہتے ہیں مشہور فلمی اداکارہ فردوس سے ازدواجی تعلق ختم کرنے کے بعد اکمل بہت دکھی اور تکلیف میں مبتلا تھے، اور انھو‌ں نے اپنا غم غلط کرنے کے لیے مے نوشی کا سہارا لیا جس کی زیادتی نے انھیں نوجوانی اور اپنے زمانہ عروج میں زندگی سے محروم کردیا۔

  • عہد ساز شخصیت اور عظیم ناول نگار چارلس ڈکنز کا تذکرہ

    عہد ساز شخصیت اور عظیم ناول نگار چارلس ڈکنز کا تذکرہ

    عہد ساز شخصیت اور شہرۂ آفاق ناولوں کے خالق چارلس ڈکنز کو برطانوی معاشرے کا نبّاض بھی کہا جاتا ہے جو سماجی برائیوں، خامیوں اور مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے نظام کو بدلنے میں‌ مددگار ثابت ہوا۔ اس عظیم تخلیق کار نے 9 جون 1870ء کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔

    باذوق قارئین اور ناول کے شیدائیوں‌ نے چارلس ڈکنز کے ناول اولیور ٹوئسٹ، ڈیوڈ کاپر فیلڈ، اے ٹیل آف ٹو سٹیز جیسی کہانیاں‌ ضرور پڑھی ہوں گی، یہ ناول عالمی ادب میں کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں اور آج بھی کیمبرج کے نصاب کا حصّہ ہیں۔

    چارلس ڈکنز نے 7 فروری 1812ء کو انگلینڈ کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اس کے والد بحریہ میں کلرک تھے جب کہ والدہ تدریس کے شعبے سے منسلک تھیں۔ اس کے باوجود اس کنبے کے مالی حالات کچھ بہتر نہ تھے اور 1822ء میں حالات اس وقت مزید بگڑے جب ڈکنز کے والد فضول خرچی اور عیّاشی کے ہاتھوں‌ مجبور ہو کر مقروض ہوگئے اور پھر انھیں‌ جیل جانا پڑا۔

    12 سالہ چارلس ڈکنز کو اس واقعے کے بعد فیکٹری میں ملازمت کرنا پڑی۔ اس کا بچپن فیکٹری میں دن رات کام کرتے گزرا، اسے کم اجرت ملتی تھی جب کہ جبر و استحصال کا بھی سامنا کرنا پڑا اور اس کے ذہن پر اس کا گہرا اثر پڑا۔ اس دور کی جھلکیاں اس کے ناول ’’اولیور ٹوئسٹ‘‘ اور ’’ڈیوڈ کاپر فیلڈ‘‘ میں نظر آتی ہیں۔

    15 سال کی عمر میں‌ چارلس ڈکنز نے آفس بوائے کی حیثیت سے ایک ادارے میں ملازمت اختیار کر لی اور یہیں اس نے لکھنا شروع کیا۔ بعد کے برسوں‌ میں‌ وہ برطانیہ کا مقبول ترین فکشن نگار اور سماجی دانش وَر بنا۔ دنیا بھر کی زبانوں‌ میں‌ اس کے ناولوں‌ کا ترجمہ ہوا۔ چارلس ڈکنز نے اپنی کہانیوں کے لیے جو کردار تخلیق کیے وہ آج بھی مقبول ہیں۔ ان کے ناول پر ایک فلم Great Expectations بھی بنائی گئی تھی جسے شائقین نے بہت پسند کیا۔ چارلس ڈکنز کو ایک عظیم تخلیق کار ہی نہیں برطانوی سماج کا محسن بھی مانا جاتا ہے جس نے معاشرے میں سدھار لانے اور مثبت تبدیلیوں کا راستہ ہموار کیا۔

  • مقبول ترین فلمی گیتوں کے خالق اسد بھوپالی کی برسی

    مقبول ترین فلمی گیتوں کے خالق اسد بھوپالی کی برسی

    9 جون 1990ء کو بھارتی فلمی صنعت کے مشہور نغمہ نگار اور معروف شاعر اسد بھوپالی وفات پاگئے تھے۔ اسد بھوپالی نے جہاں اپنے تحریر کردہ گیتوں سے فلم انڈسٹری میں نام و مقام بنایا، وہیں ان کے تخلیق کردہ گیت کئی فلموں کی کام یابی کا سبب بھی بنے۔

    وہ متحدہ ہندوستان کی ریاست بھوپال کے ایک گھرانے میں 10 جولائی 1921ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام اسد اللہ خاں تھا۔ فارسی، عربی اور انگریزی کی رسمی تعلیم حاصل کی، شروع ہی سے شاعری کا شوق رکھتے تھے اور 28 برس کی عمر میں ممبئی چلے گئے جہاں نغمہ نگار کے طور پر انڈسٹری میں قدم رکھا۔ یہ وہ دور تھا جب خمار بارہ بنکوی، جاں نثار اختر، راجندر کرشن اور پریم دھون جیسے گیت نگاروں کا بڑا زور تھا اور ان کے علاوہ مجروح سلطان پوری، شکیل بدایونی، حسرت جے پوری بھی اپنے فن اور قسمت کو آزما رہے تھے، لیکن اسد بھوپالی ان کے درمیان جگہ بنانے میں کام یاب ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بھوپال کے پہلے شاعر تھے جس نے فلم نگری میں قدم رکھا اور گیت نگاری شروع کی۔

    انھیں‌ 1949ء میں فلم ’’دنیا‘‘ کے دو نغمات لکھنے کا موقع ملا جن میں سے ایک گیت محمد رفیع نے گایا جس کے بول تھے، ’’رونا ہے تو چپکے چپکے رو، آنسو نہ بہا، آوازنہ دے‘‘ اور دوسرا گیت ثرّیا کی آواز میں مقبول ہوا جس کے بول ’’ارمان لٹے دل ٹوٹ گیا، دکھ درد کا ساتھی چھوٹ گیا‘‘ تھے۔ یہ دونوں گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے۔

    چند فلموں کے لیے مزید گیت لکھنے کے بعد اسد بھوپالی کو بی آر چوپڑا کی مشہور فلم ’’افسانہ‘‘ کے نغمات تحریر کرنے کا موقع ملا جو بہت مقبول ہوئے۔ تاہم بعد میں ان کے کیریئر کو زوال آیا اور وہ غیرمقبول شاعر ثابت ہوئے۔

    1949ء سے 1990ء تک اسد بھوپالی نے لگ بھگ سو فلموں کے لیے نغمات تخلیق کیے۔ ’’پارس منی‘‘ وہ فلم تھی جس کے گیتوں نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا، اور بعد میں ’’استادوں کے استاد‘‘ کے گیت امر ہوگئے۔ 1989ء میں اسد بھوپالی نے فلم ’’میں نے پیار کیا‘‘ کے نغمات تخلیق کیے جنھیں پاک و ہند میں‌ شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔

    اردو کے ممتاز شاعر اور فلمی نغمہ نگار اسد بھوپالی کے لکھے ہوئے یہ دو گیت برصغیر کی تاریخ میں‌ امر ہوچکے ہیں اور آج بھی سرحد کے دونوں اطراف ان کی گونج سنائی دیتی ہے۔ ان کے بول ہیں، دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ، اور دوسرا گیت ہے، کبوتر جا، جا جا، کبوتر جا….

    انھوں نے دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ جیسا خوب صورت گیت تخلیق کرنے پر بھارت کی فلمی صنعت کا سب سے بڑا فلم فیئر ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔

  • یومِ‌ وفات: مشہور مصوّر ایم ایف حسین جن کا فن پارہ خود اُن کی زندگی کے لیے خطرہ بن گیا

    یومِ‌ وفات: مشہور مصوّر ایم ایف حسین جن کا فن پارہ خود اُن کی زندگی کے لیے خطرہ بن گیا

    عالمی شہرت یافتہ مصوّر مقبول فدا حسین 9 جون 2011ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کی عمر 95 برس تھی۔ انھیں بھارت کا ‘پکاسو’ بھی کہا جاتا ہے۔

    وہ بھارت اور دنیا بھر میں ایم ایف حسین کے نام سے مشہور پہچانے گئے۔ ایم ایف حسین کو ان کے بعض نظریات اور بیانات کی وجہ سے قدامت پرستوں کی جانب سے تنقید اور شدید ناپسندیدگی کا سامنا بھی کرنا پڑا جب کہ ان کے بعض فن پارے بھارت میں‌ مذہبی تنازع کا باعث بنے، ان پر ہندو دیوی دیوتاؤں کی توہین کا الزام لگایا گیا اور ایم ایف حسین پر مقدمات کیے گئے۔ اسی تنازع میں انھیں انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے قتل کی دھمکیاں ملیں‌ اور وہ خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔

    ایم ایف حسین 17 ستمبر سن 1915ء کو بھارت میں پندھر پور میں پیدا ہوئے۔ ان کی زندگی کا بیش تر حصّہ ممبئی شہر میں گزرا۔ انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز فلموں کے بڑے بڑے بورڈ پینٹ کرنے سے کیا اور پھر وہ وقت آیا کہ ان کے فن پارے لاکھوں کروڑوں میں فروخت ہونے لگے۔ ایم ایف حسین بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں ایک مشہور مصوّر بن چکے تھے۔

    سن 2008ء میں ہندو مذہبی داستانوں پر مبنی ان کا ایک فن پارہ تقریباً دو ملین ڈالر میں فروخت ہوا، جو اُس وقت تک جنوبی ایشیا میں کسی جدید فن پارے کے لیے ادا کی گئی ریکارڈ رقم تھی۔

    ایم ایف حسین نے چند فلمیں بھی بنائیں، جن میں معروف بھارتی اداکارہ مادھوری ڈکشٹ کے ساتھ بنائی گئی فلم ’گج گامنی‘ بھی شامل ہے۔ ’ایک مصوّر کی آنکھ سے‘ اُن کی پہلی فلم تھی، جو انہوں نے سن 1967ء میں بنائی تھی اس فلم نے برلن، جرمنی کے بین الاقوامی فلمی میلے میں بہترین مختصر فلم کا گولڈن بیئر اعزاز جیتا تھا۔

    ایم ایف حسین عارضۂ قلب کے باعث زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ انھیں‌ علاج کی غرض‌ سے لندن کے ایک اسپتال میں‌ داخل کروایا گیا تھا، لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔