Tag: جون انتقال

  • ’کسوٹی‘ والے عبید اللہ بیگ کا تذکرہ

    ’کسوٹی‘ والے عبید اللہ بیگ کا تذکرہ

    عبید اللہ بیگ کی پہچان ’کسوٹی‘ بنا جو پاکستان ٹیلی ویژن کا مقبول ترین پروگرام تھا۔ ذہانت، قوی حافظے اور وسیع مطالعے کے ساتھ عبید اللہ بیگ ایک لائق فائق اور وسیع علم کے ساتھ اپنے شفیق روّیے اور انکسار کے سبب ہر دل عزیز ٹھیرے۔ انھیں پاکستان کے علمی و ادبی حلقوں اور ذرائع ابلاع میں وہ احترام حاصل تھا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ آج عبید اللہ بیگ کی برسی ہے۔

    مداحوں کے لیے معلوماتِ عامہ کا میدان عبیداللہ بیگ کی بنیادی شناخت بنا۔ لیکن وہ ایک مدیر، صدا کار، دستاویزی فلم ساز، ناول اور ڈرامہ نگار، فیچر رائٹر، سیاح اور شکاری بھی تھے۔ ٹیلی ویژن کے بعد وہ ماحولیات کے تحفظ کی غیر سرکاری تنظیم سے منسلک ہوئے اور بقائے ماحول کے لیے رپورٹنگ کے ساتھ بطور ماہرِ ابلاغ تربیت دینے کا کام کیا۔ انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے صدر دفتر میں شعبۂ تعلقاتِ عامّہ میں بھی خدمات انجام دیں اور ایک جریدہ ’’ٹی وی نامہ‘‘ بھی جاری کیا۔

    عبید اللہ بیگ کا اصل نام حبیب اللہ بیگ تھا۔ ان کے والد محمود علی بیگ بھی علم دوست شخصیت تھے اور یوں گھر ہی میں مطالعے کی طرف رجحان ہوا اور کتابیں پڑھنے کا شوق پروان چڑھا۔ ان کا خاندان بھارت کے شہر رام پور سے نقل مکانی کر کے پاکستان آیا تھا۔ یہ بات ہے 51ء کی۔ عبید اللہ بیگ نے کراچی میں سکونت اختیار کی۔ ان کا بچپن اور نو عمری کا دور رام پور اور مراد آباد میں گزرا۔ ان کا خاندان شکار کا شوقین تھا اور عبید اللہ بیگ بھی گھر کے بڑوں کے ساتھ اکثر شکار کھیلنے جایا کرتے تھے۔ اسی نے ان کے اندر سیر و سیاحت کا شوق پیدا کیا۔

    کسوٹی وہ پروگرام تھا جس میں افتخار عارف، قریش پور اور غازی صلاح الدین جیسی نام ور اور قابل شخصیات بھی ان کے ساتھ رہیں۔ عبید اللہ بیگ نے پاکستان ٹیلی وژن کے متعدد پروگراموں کی کمپیئرنگ بھی کی جن میں پگڈنڈی، منزل، میزان، ذوق آگہی اور جواں فکر کے علاوہ اسلامی سربراہ کانفرنس بھی شامل ہیں۔حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی دیا گیا تھا۔

    عبید اللہ بیگ ریڈیو پاکستان سے بھی وابستہ رہے۔ ٹی وی پر کسوٹی سے پہلے ‘سیلانی’ بھی ان کا ایک فلمی دستاویزی سلسلہ تھا جو بہت مشہور ہوا۔ تاہم یہ پروگرام چند وجوہ کی بناء پر بند کردیا گیا، پی ٹی وی کے لیے عبید اللہ بیگ نے تین سو سے زائد دستاویزی فلمیں بنائی تھیں جن کو عالمی سطح پر سراہا گیا اور عبید اللہ بیگ کو ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کی فلم وائلڈ لائف اِن سندھ کو 1982ء میں 14 بہترین فلموں میں سے ایک قرار دیا گیا تھا۔ عورتوں کے مسائل پر ایک فلم کو 18 زبانوں میں ڈھال کر پیش کیا گیا۔ سندھ میں قدرتی حیات اور ماحول سے متعلق ان کی دستاویزی فلمیں بہت شان دار ہیں اور اس کام پر انھیں ایوارڈ بھی دیے گئے۔

    قلم اور کتاب سے ان کا تعلق فکر و دانش اور معلوماتِ عامہ کی حد تک نہیں تھا بلکہ وہ ایک ادیب بھی تھے جن کا پہلا ناول ’اور انسان زندہ ہے‘ ساٹھ کی دہائی میں شائع ہوا تھا۔ دوسرا ناول ’راجپوت‘ 2010ء میں نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد نے شائع کیا۔

    عبید اللہ بیگ فارسی، عربی اور انگریزی زبانیں بھی جانتے تھے۔ ہمہ جہت شخصیت کے مالک عبید اللہ بیگ علم و ادب کے شیدائیوں کے لیے یونیورسٹی کا درجہ رکھتے تھے۔ فلسفہ، تاریخ، تہذیب و تمدن، سیاحت، ماحولیات، ادب کے ہر موضوع پر عبیداللہ بیگ کے بات کرنے کا انداز بھی منفرد اور دل چسپ تھا۔

    22 جون 2012ء کو عبید اللہ بیگ نے دارِ فانی کو خیرباد کہا تھا۔ وہ دل کے عارضے میں مبتلا تھے اور وفات سے چند ماہ پہلے پیٹ کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔ وہ ڈی ایچ اے گزری قبرستان میں سپردِ خاک کیے گئے۔

  • قمر ہاشمی: ادب کا لینن انعام حاصل کرنے والے شاعر اور صحافی

    قمر ہاشمی: ادب کا لینن انعام حاصل کرنے والے شاعر اور صحافی

    سید محمد اسماعیل ہاشمی نے ادب کی دنیا میں قمر ہاشمی کے نام سے پہچان بنائی۔ اردو زبان کے یہ معروف شاعر اور صحافی ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور اختر شیرانی جیسے مقبول رومانوی شاعر کے شاگرد تھے۔

    2 فروری 1922ء کو ریاست ٹونک، راجستھان میں پیدا ہونے والے قمر ہاشمی کا اصل نام سید محمد اسماعیل شہید، تخلص قمر اور قلمی نام قمر ہاشمی تھا۔ ان کے والد مولوی حکیم سید احمد ہاشمی برق اپنے دور کے جید عالم اور نباض تھے، اور مجسٹریٹ کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کا تبادلہ اٹاوہ اور پھر گوالیار کی دیوانی عدالت میں ہوا، قمر ہاشمی نے اٹاوہ ہی میں‌ انگریزی اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ میٹرک علی گڑھ سے پاس کیا۔ انٹرمیڈیٹ اور منشی فاضل کے امتحانات جامعہ پنجاب سے پاس کیے۔ وہ اسکول میں اسکاؤٹ لیڈر رہے۔قمر ہاشمی کو پہلی ملازمت سینٹرل آرڈینس ڈپو (سی او ڈی) کانپور میں ملی۔ وہ تقسیمِ ہند کے بعد اپنے بڑے بھائی کے ساتھ پاکستان منتقل آئے اور ٹنڈو آدم میں قیام پذیر ہوئے۔ قمر نے یہاں سر سید ہائی اسکول میں بطور استاد ملازمت حاصل کی اور بعد میں‌ کراچی منتقل ہوگئے جہاں ڈان اردو میں معاون مدیر کی ملازمت شروع کی۔ 1952ء میں حکیم محمد سعید کے ادارے میں شعبۂ معلومات سے وابستہ ہو گئے۔ اشتہارات کا اسکرپٹ، ماہنامہ ہمدرد نونہال کے مضامین خصوصاً نظموں کی جانچ پرکھ اور ماہنامہ ہمدرد صحت کے لیے تراجم وغیرہ کی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے ترجمان مضراب کے مدیر بھی رہے۔ ان کی تصانیف میں مرسلِ آخر (نعتیہ کلام)، ہمہ رنگ و ہمہ نظم انسان، دانائی کا آفتاب لینن، طویل نظموں پر مشتمل نروان ساگر اور نوحوں پر مشتمل مجموعہ تماشا طلب آزار شامل ہیں۔

    قمر ہاشمی کو روس (سوویت یونین) نے ادب کا لینن پرائز دیا تھا جب کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے ان کو نعتیہ مجموعے پر قومی سیرت ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    16 جون 1993ء کو قمر ہاشمی اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ ان کی تدفین کراچی کے میوہ شاہ قبرستان میں کی گئی۔

  • مؤرخ اور ماہرِ‌ ثقافت زبیدہ یزدانی کا تذکرہ

    مؤرخ اور ماہرِ‌ ثقافت زبیدہ یزدانی کا تذکرہ

    زبیدہ یزدانی کا نام ایک مؤرخ اور ماہرِ ثقافت کی حیثیت سے نہایت اہم اور معتبر ہے۔ ان کی تصنیف کردہ کتب وقیع اور مستند تسلیم کی جاتی ہیں۔ تاریخ اور ثقافت کے میدان میں زبیدہ یزدانی کی تحقیق کا موضوع حیدرآباد دکن ہے جو ہندوستان کی ایک مرفّہ الحال ریاست تھی۔ زبیدہ یزدانی کا علمی و تحقیقی کام عالمی سطح پر ان کی پہچان کا باعث بنا۔

    مؤرخ اور ماہرِ ثقافت زبیدہ یزدانی 11 جون 1996ء کو لندن میں وفات پاگئی تھیں۔ وہ لندن میں اپنے شوہر کے ساتھ قیام پذیر تھیں۔ زبیدہ یزدانی نے ہندوستان کی تاریخ اور ثقافت پر کئی کتب اور متعدد تحقیقی مضامین سپردِ قلم کیے اور ان کا کام دنیا بھر میں ان کی شناخت بنا۔ زبیدہ یزدانی کا خاص موضوع حیدرآباد دکن تھا جس پر ان کے کام کو سند اور معتبر حوالہ مانا جاتا ہے۔

    27 اپریل 1916ء زبیدہ یزدانی نے ڈاکٹر غلام یزدانی کے گھر آنکھ کھولی جو ایک ماہرِ‌ آثارِ قدیمہ تھے اور تحقیقی کاموں کے لیے مشہور تھے۔ غلام یزدانی کی تصانیف ہندوستانی تاریخ اور ثقافت پر اہمیت کی حامل ہیں۔ وہ حیدرآباد دکن میں آثارِ قدیمہ کے ڈائریکٹر رہے اور قدیم دور کے اجنتا اور ایلورا کے غاروں‌ کی نگرانی کے ساتھ انھوں نے مختلف مذاہب کے تاریخی معبدوں کی ازسرِ نو تعمیر و مرمت کا کام بھی بخوبی کروایا۔ یوں زبیدہ یزدانی کو بچپن ہی سے تاریخ و آثار اور ہندوستانی ثقافت میں دل چسپی پیدا ہوتی چلی گئی اور انھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے اس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد خود کو اسی شعبے میں اپنے کام کی بدولت منوایا۔ زبیدہ یزدانی اکسفورڈ میں داخلہ لینے والی اوّلین ایشیائی خواتین میں سے ایک تھیں۔

    مؤرخ زبیدہ یزدانی کی پہلی کتاب "Hyderabad during the Residency of Henry Russell 1811 – 1820” تھی جب کہ دوسری اہم کتاب "The Seventh Nizam: The Fallen Empire” کے نام سے شایع ہوئی۔ انھیں‌ سماجی کاموں اور تعلیم کے فروغ کے لیے ان کی کاوشوں کے سبب بھی یاد کیا جاتا ہے۔

    زبیدہ یزدانی نے دکن میں علم و فنون کی آبیاری کے لیے مشہور درس گاہ جامعہ عثمانیہ کے وومن کالج میں بھی استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور 1976ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد برطانیہ چلی گئی تھیں۔ وہیں زبیدہ یزدانی نے اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔

  • مولوی احمد اللہ شاہ کا تذکرہ جو ‘ڈنکا شاہ’ مشہور تھے

    مولوی احمد اللہ شاہ کا تذکرہ جو ‘ڈنکا شاہ’ مشہور تھے

    ڈنکا شاہ ناکام غدر کے بعد ایک سال ہی زندہ رہ سکے۔ آخری سانس تک انگریزوں سے انتہائی جواں مردی کے ساتھ اور منظّم طریقے سے لڑنے والے اس باغی سردار کو شاہجہاں پور کی پوائياں ریاست کے راجہ نے دھوکہ دے کر قتل کروا دیا تھا۔

    مؤرخین بتاتے ہیں‌ کہ احمد اللہ شاہ نے انگریزوں کے خلاف کبھی اسلام کا نام لے کر لوگوں کو جمع نہیں کیا بلکہ ان کے گروہ میں ہر ہندوستانی مادرِ وطن کی آزادی کی جدوجہد کے لیے شامل ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ احمد اللہ شاہ کو گنگا جمنی تہذیب کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ 5 جون 1858ء کو تحریکِ‌ آزادیٔ ہند کے اس سپاہ سالار کو شہید کر دیا گیا تھا۔

    ہندوستانی مؤرخ رام شنکر ترپاٹھی ایک دل چسپ واقعہ بیان کرتے ہیں: ‘احمد اللہ شاہ ایک سپاہ سالار تھے۔ وہ ہاتھی پر ہودے میں بیٹھ کر مسافت طے کرتے تھے۔ ان آگے ایک ہاتھی چلتا تھا، جس پر ڈنکا بجایا جاتا تھا اور اسی نسبت سے لوگ انھیں ڈنکا شاہ پکارنے لگے۔’ انھیں مولوی احمد اللہ شاہ بھی کہا جاتا تھا جنھوں نے لکھنؤ، شاہجہان پور، بریلی اور اودھ کے دیگر علاقوں میں باغیوں کی قیادت کی اور انگریزوں کی فوج کو کئی محاذوں پر شکست دی۔ ترپاٹھی کے مطابق ان کی فوج میں ہندو اور مسلمان دونوں مذاہب کے پیروکار سپاہی اور سردار شامل تھے۔

    مولوی احمد اللہ شاہ کا سنہ پیدائش 1787 اور شہر مدراس (موجودہ چنئی) بتایا جاتا ہے۔ وہ ایک باعمل مسلمان تھے جنھوں نے ہندوستان پر انگریزوں کے قبضے کو کبھی قبول نہ کیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کو شکست دینے کے لیے میدان میں اترے۔ انگریزوں کے خلاف احمد اللہ شاہ کی اپنے لشکر کی منظّم قیادت اور ان کی بہادری کے چرچے ہندوستان بھر میں‌ عام تھے۔ وہ فیض آباد میں مذہبی اتحاد کا مظہر بھی تھے۔ جنگِ آزادیٔ ہند کے دوران ان کا ساتھ دینے والوں میں کئی شاہی شخصیات جیسے نانا صاحب اور خان بہادر خان روہیلہ بھی شامل تھے۔ خاص طور پر لکھنؤ اور اودھ کے خطّے میں ہونے والی تمام جنگوں میں باغی گروہوں کی قیادت احمد اللہ شاہ نے کی۔ اکثر لوگ مولوی احمد اللہ شاہ کے نام کے ساتھ فیض آبادی بھی لکھتے ہیں۔

    انگریز سرکار نے ڈنکا شاہ کو پکڑنے کے لیے چاندی کے پچاس ہزار سکّوں کا اعلان کیا تھا، لیکن وہ انھیں زندہ گرفتار نہیں کرسکے۔ راجہ جگن ناتھ سنگھ نے مولوی احمد اللہ شاہ کو قتل کرنے کے بعد ان کا سَر قلم کر کے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا تھا۔ انگریز سرکار نے اعلان شدہ انعام اسے دیا تھا۔

    احمد اللہ شاہ نے فیض آباد کی مسجد سرائے کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنایا تھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب انھوں نے فیض آباد اور اودھ کے ایک بڑے حصّے کو انگریزوں سے آزاد کرا لیا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف جنگ میں انھیں ایک بہترین جنرل کے طور پر دیکھا گیا۔ گو کہ وہ باقاعدہ تربیت یافتہ فوجی نہیں تھے، لیکن انھوں نے کانپور سے لکھنؤ اور دہلی سے بریلی اور شاہجہاں پور تک انگریزوں کے خلاف جنگ بہادری سے لڑی۔

    پوائیاں کے راجہ نے مولوی احمد اللہ شاہ کو دھوکہ دے کر اپنی مدد کے لیے بلایا اور قتل کروا دیا۔ مولوی احمد اللہ کے سَر اور جسم کو شاہجہاں پور میں مختلف مقامات پر دفن کیا گیا تھا۔

  • گیتوں کی مالا اور ریاضُ الرّحمان ساغر

    گیتوں کی مالا اور ریاضُ الرّحمان ساغر

    کسی بھی فلم کی کام یابی میں جان دار اسکرپٹ اور بہترین اداکاری بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے، لیکن شاعری، موسیقی اور گلوکاری ایک فلم کو یادگار بنا دیتے ہیں۔ ریاضُ الرّحمان ساغر ایسے ہی شاعر تھے جن کے تحریر کردہ فلمی گیت ہر خاص و عام آج بھی مقبول ہیں۔

    بطور فلمی گیت نگار ساغر کی اوّلین وجہِ شہرت فلم شریکِ حیات اور سماج تھی۔ ان فلموں کے گیتوں کو شائقینِ سنیما نے بہت پسند کیا تھا۔

    معروف شاعر، کئی مقبول گیتوں کے خالق اور صحافی ریاضُ الرّحمان ساغر طویل عرصہ علیل رہنے کے بعد یکم جون 2013ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھیں کینسر کا مرض لاحق تھا۔ ریاضُ الرّحمان ساغر کا سنہ پیدائش 1941ء ہے، وہ بھارتی پنجاب کے شہر بھٹنڈہ میں پیدا ہوئے اور تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آئے۔ یہاں‌ ساغر نے رہنے بسنے اور روزگار کے حصول کے لیے بھاگ دوڑ کے دوران صحافت کو اپنے لیے موزوں پایا اور اس پیشے میں فلمی شعبہ سے منسلک رہے۔ انھوں نے شوبز رپورٹر اور شوبز ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے کالم نگاری کا سلسلہ شروع کیا جو ایک قومی روزنامے میں شایع ہوتا رہا۔

    ایک اندازے کے مطابق معروف شاعر ریاضُ الرّحمان ساغر کے فلمی گیتوں کی تعداد دو ہزار سے زائد ہے جن میں کئی سدا بہار اور مقبولِ عام نغمات شامل ہیں۔ ساغر کے فلمی گیتوں کو اپنے وقت کے مشہور و معروف گلوکاروں نے گایا اور شہرت حاصل کی۔ ریاض الرحمان ساغر کی پہلی فلم ہدایت کار اور مصنّف عزیز میرٹھی کی اردو فلم عالیہ (1967) تھی۔ موسیقار ماسٹرعنایت حسین کی دھن میں پہلا گیت تھا:

    کہو، وعدہ ہوا، رسمِ وفا ہر دم نبھانے کا۔ یہ ایک دو گانا تھا جسے احمد رشدی اور مالا نے گایا تھا اور یہ اداکار کمال اور شمیم آرا پر فلمایا گیا تھا۔ ساغر صاحب کا پہلا ہٹ گیت فلم شریکِ حیات (1968) میں شامل تھا جس کے بول تھے، میرے دل کے صنم خانے میں اک تصویر ایسی ہے، جو بالکل آپ جیسی ہے… اس گیت کو مسعود رانا نے گایا تھا اور اس کی دھن اے حمید نے بنائی تھی۔ فلم انڈسٹری میں ریاضُ الرّحمان ساغر کو بڑے فلم سازوں نے کام دیا اور ان کی شاعری کو سراہا۔

    پاکستانی فلم ’کبھی تو نظر ملاؤ‘، ’چیف صاحب‘، ’سرگم‘، ’گھونگھٹ‘، ’انتہا‘، ’محبتاں سچیاں‘، ’سمجھوتا ایکسپریس‘ اور ’عشق خدا‘ وہ کام یاب فلمیں‌ تھیں جن کے لیے ساغر نے شاعری کی اور یہ گیت مقبول ہوئے۔ ان کا مقبول ترین گیت ’میں تینوں سمجھانواں کیہ‘ فلم ’ورثہ‘ کے لیے تھا جسے راحت فتح علی خان نے گایا۔

    معروف شاعر نے پاکستانی گلوکاروں کی فرمائش پر ان کے البموں کے لیے بھی گیت تحریر کیے جن میں ’دوپٹہ میرا مل مل دا‘ اور ’یاد سجن دی آئی‘، ’کبھی تو نظر ملاؤ‘ اور پاکستان کی معروف گلوکارہ فریحہ پرویز کے البم میں شامل گیت آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔

    پاکستان کے اس معروف گیت نگار کو سنسر بورڈ کا رکن بھی بنایا گیا تھا۔ ساغر صاحب نے شاعری کے علاوہ نثر میں بھی اپنے قلم کو آزمایا ہے۔ ان کی سوانح عمری ’وہ کیا دن تھے‘ کے عنوان سے جب کہ دو سفر نامے ’کیمرہ، قلم اور دنیا‘ اور ’لاہور تا بمبئی براستہ دہلی‘ شائع ہوئے۔ انھیں‌ فلمی دنیا میں متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔

    وفات کے وقت معروف فلمی گیت نگار کی عمر 72 برس تھی۔ انھیں لاہور کے ایک قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

  • لاہور کا مشہور اسٹوڈیو جو "یکے والی” کی کمائی سے بنایا گیا تھا!

    لاہور کا مشہور اسٹوڈیو جو "یکے والی” کی کمائی سے بنایا گیا تھا!

    1957ء میں یکے والی ایک ایسی فلم ثابت ہوئی جس نے بزنس کا ریکارڈ قائم کیا اور اپنی لاگت سے 45 گنا زیادہ کمائی کی۔ اسی فلم کی کمائی سے باری اسٹوڈیو تعمیر کیا گیا تھا جس کا تذکرہ آج پاکستان کی فلمی صنعت کے سنہرے دنوں کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔ یہ فلم ایم جے رانا نے بنائی تھی۔

    ایم جے رانا پاکستان کی فلمی تاریخ کے کام یاب ترین ہدایت کاروں‌ میں سے ایک تھے۔ اردو زبان میں تو انھوں نے صرف پانچ فلمیں‌ ہی بنائی تھیں، لیکن پنجابی زبان میں‌ ان کی کئی فلمیں‌ ان کے فن اور پیشہ ورانہ قابلیت و مہارت کا نمونہ ہیں۔ وہ سماجی موضوعات پر اصلاحی اور سبق آموز فلمیں بنانے کے ماہر تھے۔ ایم جے رانا 1995ء میں‌ انتقال کرگئے تھے۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس نام ور ہدایت کار کا اصل نام محمد جمیل تھا۔ ایم جے رانا نے اپنے آخری دور میں اپنی شاہکار فلم یکے والی کا ری میک تانگے والی کی صورت میں بنایا تھا لیکن یہ فلم مایوس کُن ثابت ہوئی۔ مرحوم ہدایت کار نے فلموں کے بعد لاہور اسٹیج کے لیے مشہور ڈرامہ "شرطیہ مٹھے” کی بھی ہدایات دی تھیں اور اسی ڈرامے نے اسٹیج فن کاروں امان اللہ خان، ببو برال، مستانہ اور سہیل احمد کو لازوال شہرت دی تھی۔

    ایم جے رانا کے فلمی کیرئر کا آغاز فلم مندری (1949) سے ہوا تھا جس میں وہ فلم ڈائریکٹر داؤد چاند کے معاون تھے۔ اس فلم میں انھوں نے اداکاری بھی کی تھی۔ پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی سپر ہٹ اردو فلم سسی (1954) میں بھی وہ اپنے استاد کے معاون تھے۔ 1955ء کی فلم سوہنی ان کی بطور ہدایتکار پہلی فلم تھی لیکن کام یابی اگلے سال بننے والی فلم ماہی منڈا سے ملی تھی جس میں‌ ٹائٹل رول مسرت نذیر نے ادا کیا تھا۔ ایم جے رانا کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ وہ پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی فلم جی دار کے ڈائریکٹر بھی تھے۔

    ایم جے رانا کی فلم جگ بیتی (1968) ایک بامقصد اور اصلاحی فلم تھی جسے بہت پسند کیا تھا اور اسی طرح فلم باؤ جی (1968) میں طبقاتی کشمکش، ذات پات کی تقسیم کو انھوں نے بڑی مہارت سے سلور اسکرین پر پیش کیا تھا۔ ان کی دیگر فلموں میں ماہی منڈا، شیرا، جمالو، باپ کا باپ، من موجی، یار مار، راوی پار، جوانی مستانی، چن ویر، خون دا بدلہ خون، عید دا چن، پیار دی نشانی، ماں دا لال، جانی دشمن اور سرپھرا شامل ہیں۔ 1989ء میں فلم انڈسٹری کے لیے ایم جے رانا کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں خصوصی نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

  • بھوپال کی بیدار مغز اور عوام کی خیرخواہ شاہ جہاں بیگم کا تذکرہ

    بھوپال کی بیدار مغز اور عوام کی خیرخواہ شاہ جہاں بیگم کا تذکرہ

    برصغیر کی مشہور ریاست بھوپال کی تیسری والی ایک بہترین منتظم ہی نہیں بلکہ ادب و فنون کی دلدادہ اور قابل و باصلاحیت شخصیات کی قدر دان بھی مشہور تھیں۔

    اٹھارہویں صدی میں بھوپال ہندوستان کی ایک آزاد ریاست تھی جہاں شاہ جہاں بیگم نے 1838ء میں آنکھ کھولی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے جب ہندوستان میں قدم جمائے تو بھوپال کو بھی ایک نوابی ریاست کا درجہ دے دیا گیا۔ شاہ جہاں بیگم 1901ء میں آج ہی کے دن انتقال کر گئی تھیں۔

    بھوپال کی سرزمین پر جنم لینے والی کئی شخصیات نے علم و ادب کے ساتھ فنون کے مختلف شعبہ جات میں کمال دکھایا اور نام پیدا کیا۔ ریاست کی حکم راں ہونے کے ناتے شاہ جہاں بیگم نے بھی علم و فنون کے فروغ کے علاوہ وہاں اصلاحات اور ریاست کی تعمیر و ترقّی کے لیے قابلِ ذکر اور مثالی اقدامات کیے۔

    سلطان بیگم غیر معمولی ذہانت کی حامل اور ایک بیدار مغز حکم راں تھیں۔ تعلیم کے ساتھ انھوں نے گھڑ سواری اور نشانہ بازی سیکھی اور امورِ ریاست میں‌ بھی گہری دل چسپی لی اور بعد میں‌ انتظامی امور کو نہایت خوبی سے چلایا بھی۔

    بیگم بھوپال نے قلعہ اسلام نگر میں آنکھ کھولی تھی۔ ایک حکم راں خاندان کی چشم و چراغ ہونے کے ناتے بہترین تعلیم و تربیت پائی۔ 1844ء میں ان کے والد نواب جہانگیر محمد خان کا انتقال ہوگیا جس کے بعد ریاست کی حکم راں کے طور پر ان کے نام کا اعلان کیا گیا۔ وہ کم عمر تھیں اور انتظام و انصرام ایک عرصہ ان کی والدہ نواب سکندر بیگم کے ہاتھ میں رہا۔ بعد میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھوپال کو نوابی ریاست کا درجہ دے کر اصل اختیار اور وسائل اپنے ہاتھ میں‌ لے لیے تھے۔ اسی زمانے میں بیگم صاحبہ کی والدہ کا انتقال ہوگیا اور تب شاہ جہاں بیگم کی تخت نشینی عمل میں لائی گئی۔

    شاہ جہاں بیگم کو امورِ سلطنت کی تعلیم اور تربیت دی گئی تھی، اور وہ اپنی ولی عہدی کے زمانے ہی سے ریاستی انتظامات کو دیکھتی آرہی تھیں۔ انھوں نے تخت نشینی کے بعد کئی جدید اصلاحات کیں، جن کا ذکر انھوں نے ’تاجُ الااقبال‘ کے نام سے اپنی کتاب تاریخِ بھوپال میں کیا ہے۔ ان میں وضعِ قوانین کے لیے محکمہ قائم کرنا، عدالتی اختیارات کی تقسیم، امن و امانِ عامّہ سے متعلق وسیع انتظامات اور حفظانِ صحّت سے متعلق امور پر توجہ دیتے ہوئے ہر تحصیل میں طبیب مقرر کیا۔ شہر بھوپال میں ایک بڑا شفا خانہ بنوایا۔

    بیگم بھوپال کے امورِ سلطنت اور کاموں کا تذکرہ کئی صفحات پر پھیل سکتا ہے۔ وہ اپنی رعایا کی بڑی خیر خواہ اور ہم درد تھیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس دور میں چیچک کی بیماری پھیلی تو انھوں نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر عوام کو اس کے ٹیکے لگوانے کی ہدایت کی اور اس معاملے میں شفا خانوں سے ہر قسم کا تعاون کیا۔ آج جس طرح کرونا کی ویکسینیشن سے لوگ گھبرا رہے تھے، اسی طرح چیچک سے متعلق ناقص معلومات اور بہت سی غلط باتیں‌ بھوپال کے لوگوں میں پھیلی ہوئی تھیں جنھیں شاہ جہاں بیگم نے مسترد کرتے ہوئے حفاظتی ٹیکے لگانے کی حوصلہ افزائی کی۔

    انھوں نے نہ صرف باقاعدہ چیچک کے ٹیکے لگانے کے لیے ریاست بھر میں‌ انتظامات کروائے بلکہ عوام کو اس کی ترغیب دینے اور ان کا ٹیکے سے متعلق خوف اور خدشات دور کرنے کے لیے اپنی نواسی بلقیس جہاں بیگم کو چیچک کا ٹیکہ لگوایا۔ اس کے علاوہ ریاست میں جن بچّوں کو والدین ٹیکہ لگواتے انھیں انعام دیا جاتا تھا۔

    شاہ جہاں بیگم تعلیم اور صحت کو بہت اہمیت دیتی تھیں۔ وہ رحم دل اور عوام کی فلاح و بہبود کا ہر دم خیال رکھنے والی خاتون تھیں جن کے دور میں لاوارث اور یتیم بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لیے بھی عمارتیں تعمیر ہوئیں جب کہ غریب اور معذور افراد کی مالی مدد کی جاتی تھی اور باقاعدہ وظائف مقرر تھے۔

    دینی اور علمی کاموں میں انھوں‌ نے خوب فراخ دلی دکھائی اور ایک محکمہ بنام مطبع شاہجہانی قائم کروایا جس میں قرآن مجید کی طباعت کی جاتی تھی۔ اسی طرح‌ امورِ مذہبی کا ایک جدید محکمہ قائم کیا گیا۔ کئی لاکھ روپے خرچ کر کے شہر کی اکثر مساجد کو پختہ کروایا۔ شاہ جہاں بیگم نے فن تعمیر کو بھی عروج دیا۔ تاجُ المساجد جو بھوپال کی عظیم ترین جامع مسجد ہے، کی بنیاد اُنہی کے حکم پر رکھی گئی تھی۔

    شاہ جہاں بیگم مصنفہ بھی تھیں۔ ان کی تصانیف میں تہذیبِ نسواں، خزینۃُ اللغات شامل ہیں۔ وہ فارسی زبان میں شاعری بھی کرتی تھیں۔

  • عثمان سیمبین: پس ماندہ سماج کا سب سے روشن ستارہ

    عثمان سیمبین: پس ماندہ سماج کا سب سے روشن ستارہ

    برّاعظم افریقا کے مغرب میں واقع سینیگال سے تعلق رکھنے والے عثمان سیمبین کو دنیا بھر میں‌ ایک ناول نگار اور فلم ساز کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ فلم نویسی اور افسانہ نگاری بھی ان کی وجہ شہرت ہے۔

    وہ فلمی صنعت میں‌ پروڈیوسر، ہدایت کار کے طور پر مصروفِ عمل رہے اور اداکار کے طور پر بھی کام کیا۔ عثمان سیمبین کی کہانیوں کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا، جن میں فرانسیسی اور انگریزی سرفہرست ہیں۔

    عثمان سیمبین ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے مدرسے اور اسکول گئے۔ اسکول کی تعلیم ادھوری رہ گئی اور کچھ عرصہ والد کے ساتھ کام میں ان کا ہاتھ بٹایا۔ ان کے والد پیشے کے لحاظ سے ماہی گیر تھے۔

    1938 میں اپنے آبائی علاقے سے ملک کے دارلحکومت ’’ڈاکار‘‘ آگئے اور وہاں مختلف نوعیت کی ملازمتیں کیں۔ 1944 میں فرانسیسی فوج کی مقامی’’فری فرنچ فورسز‘‘ سے وابستہ ہوئے اور دوسری عالمی جنگ تک اپنے ملک اور دیارِ غیر میں مختلف محاذوں پر برسرپیکار رہے۔ جنگ کے خاتمے پر، وطن واپس آگئے۔

    یہ 1947 کی بات ہے جب ریلوے لائن بچھانے کا ملک گیر منصوبہ شروع ہوا تو عثمان اس کا حصّہ بن گئے۔ یہاں ہونے والے تجربات کی بنیاد پر، انہوں نے اپنا نیم سوانحی ناول ’’گاڈز بٹس آف ووڈ‘‘ لکھا، جسے بہت شہرت ملی۔

    چالیس کی دہائی کے اواخر میں عثمان فرانس چلے گئے، وہاں دورانِ ملازمت ’’فرانسیسی ٹریڈ یونین تحریک‘‘ کا حصہ بنے اور کمیونسٹ پارٹی کے مقامی دھڑے میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے افریقا سے تعلق رکھنے والے معروف انقلابی دانشور’’کلاؤڈ میکے‘‘ اور معروف مارکسسٹ ’’جیکولین رومین‘‘ کو دریافت کیا، ان کی فکر کو قبول کیا اور عملی زندگی میں اسے اپنایا بھی۔ فلم سازی کا شوق ہوا تو روس جاکر فلم سازی کی اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی اور پھر وطن واپس لوٹ آئے۔

    1956 میں عثمان کا فرانسیسی زبان میں لکھا ہوا پہلا ناول’’لی ڈوکرنوئر‘‘ اشاعت پذیر ہوا، اس کے لغوی معنی ایک کالے مزدور کے ہیں۔ عثمان نے فرانس میں بطور افریقی مزدور، جن تعصبات کا سامنا کیا، ان کو بنیاد بنا کر ناول کی کہانی ترتیب دی تھی۔ 1957میں ان کا دوسرا ناول’’اے میرے پیارے ملک اور لوگو‘‘ تھا، جو ایک کسان کی کہانی تھی۔ اس ناول کو عالمی سطح پر زبردست پذیرائی ملی، خاص طور پر کمیونسٹ ممالک سوویت یونین ، چین اور کیوبا کی طرف سے سراہا گیا۔ انہوں نے جہاں اپنی کہانیوں میں فرانسیسی آقاؤں کے تعصبات کو موضوع بنایا، وہیں افریقی اشرافیہ کی زبوں حالی پر بھی مفصّل بات کی۔

    ان کا ایک ناول ’’ژالا۔ Xala‘‘ بھی ہے، جس میں انہوں نے ایسے ہی افریقی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے کردار کو پیش کیا۔ یہ کردار ایک تاجر کا تھا، جس نے تین شادیاں کیں۔ ناول نگار نے اس کی بدعنوانی، اخلاقی گراوٹ اور بشری کمزوریوں کو نہایت خوب صورتی سے کہانی میں‌ پیش کیا ہے۔

    1973 میں یہ ناول فرانسیسی زبان میں چھپا، تین سال بعد اس کا انگریزی میں ترجمہ ہوا۔ اس ناول پر عثمان نے خود ہی فلم بنائی، جس کو 1975 میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ انہوں نے اس فلم کا اسکرپٹ لکھنے کے علاوہ ہدایات بھی دیں۔ فلم میں مقامی اداکاروں اور ہنر مندوں نے کام کیا تھا، کچھ غیر افریقی ہنرمندوں کی خدمات بھی لی گئی تھیں۔ یہ فلم افریقا کے علاوہ، روس اور امریکا میں بھی نمائش پذیر ہوئی۔ سینیگال کی تاریخ میں اس ناول اور فلم کی بے حد اہمیت ہے۔ نوآبادیاتی افریقا کی آزادی کے بعد، سنیما کی تاریخ میں، عثمان ہی وہ سب سے پہلے فلم ساز ہیں، جنہوں نے بین الاقوامی شناخت حاصل کی۔

    عثمان سیمبین نے 4 ناول اور کئی مختصر کہانیاں لکھیں، جن کے متعدد مجموعے شائع ہوئے۔ انہوں نے اپنے فلمی کیرئیر میں 13 فلموں کی ہدایات دیں، 11 فلمیں تحریر کیں، 4 فلموں میں اداکاری بھی کی، جب کہ تین فلموں کے پروڈیوسر رہے۔

    عثمان سیمبین ایک ایسے افریقی ادیب اور فلم ساز ہیں، جنہوں نے ایک پس ماندہ سماج میں رہتے ہوئے ادب اور فن کی بلندی کو چھوا۔

    یکم جنوری 1923ء کو پیدا ہونے والے اس افریقی ناول نگار اور فلم ساز کی زندگی کا سفر 09 جون 2007ء کو تمام ہوا۔

    (عثمان سیمبین پر خرّم سہیل کے مضمون سے خوشہ چینی)

  • ’’پریچنگ آف اسلام‘‘ کے مصنّف تھامس واکر آرنلڈ کا تذکرہ

    ’’پریچنگ آف اسلام‘‘ کے مصنّف تھامس واکر آرنلڈ کا تذکرہ

    برطانوی ماہرِ تعلیم اور مستشرق سَر تھامس واکر آرنلڈ کو ہندوستان اور بالخصوص برطانوی دور کے مسلمانوں میں‌ بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ سر سیّد احمد خان اور دیگر مسلمان اکابرین کے دوستوں میں‌ شامل رہے اور اسلام اور اسلامی ثقافت سے متعلق نہایت مفید مضامین اور کتب تحریر کیں۔

    پروفیسر آرنلڈ نے سر سیّد احمد خان کے اصرار ہی پر نے کتاب ’’پریچنگ آف اسلام‘‘ لکھی تھی جس کا اردو ترجمہ بہت مشہور ہوا۔ وہ شاعرِ مشرق علّامہ محمد اقبال کے استاد بھی تھے۔

    نام وَر مؤرخ اور مشہور سیرت نگار علّامہ شبلی نعمانی نے ایک سفر نامے میں اپنے اسی انگریز معاصر پروفیسر سَر تھامس واکر آرنلڈ سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ رقم کیا ہے۔ یہ بات ہے مئی 1892ء کی جب وہ عدن کے سفر کے دوران سمندری جہاز میں سوار تھے۔وہ لکھتے ہیں۔ "عدن سے چونکہ دل چسپی کے نئے سامان پیدا ہوگئے تھے، اس لیے ہم بڑے لطف سے سفر کر رہے تھے، لیکن دوسرے ہی دن ایک پُر خطر واقعہ پیش آگیا جس نے تھوڑی دیر تک مجھ کو پریشان رکھا۔ 10 مئی کی صبح کو میں سوتے سے اٹھا تو ایک ہم سفر نے کہا کہ جہاز کا انجن ٹوٹ گیا ہے، میں نے دیکھا تو واقعی کپتان اور جہاز کے ملازم گھبرائے پھرتے تھے اور اس کی درستی کی تدبیریں کر رہے تھے، انجن بالکل بیکار ہوگیا تھا اور جہاز آہستہ آہستہ ہوا کے سہارے چل رہا تھا، میں سخت گھبرایا اور نہایت ناگوار خیالات دل میں آنے لگے۔

    اس ضطراب میں اور کیا کر سکتا تھا، دوڑا ہوا مسٹر آرنلڈ کے پاس گیا، وہ اس وقت نہایت اطمینان کے ساتھ کتاب کا مطالعہ کررہے تھے، میں نے ان سے کہا کہ کچھ خبر بھی ہے؟ بولے ہاں، انجن ٹوٹ گیا ہے، میں نے کہا کہ آپ کو کچھ اضطراب نہیں؟ بھلا یہ کتاب دیکھنے کا کیا موقع ہے؟ فرمایا کہ اگر جہاز کو برباد ہی ہونا ہے، تو یہ تھوڑا سا وقت اور بھی قدر کے قابل ہے اور ایسے قابلِ قدر وقت کو رائیگاں کرنا بالکل بے عقلی ہے۔ ان کے استقلال اور جرأت سے مجھ کو بھی اطمینان ہوا، آٹھ گھنٹے کے بعد انجن درست ہوا اور بہ دستور چلنے لگا۔”

    اس ایک واقعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اہلِ علم و دانش مشکل اور کڑے وقت میں کیسے خود کو مضبوط رکھتے ہیں اور یہ کہ ان کے لیے مطالعہ کیا اہمیت رکھتا ہے۔

    پروفیسر آرنلڈ کا سنِ پیدائش 1864ء ہے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد یونانی اور لاطینی ادبِ عالیہ میں آنرز کیا۔ جرمن، اطالوی، فرانسیسی، روسی اور ہسپانوی کے علاوہ عربی، فارسی اور سنسکرت بھی سیکھی۔ 1888ء میں اس انگریز ماہرِ تعلیم نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج، علیگڑھ میں بطور استاد اپنے فرائض‌ انجام دینا شروع کیے۔ 1898ء میں وہ فلسفے کے پروفیسر کے طور پر گورنمنٹ کالج لاہور سے منسلک ہو گئے۔ 1909ء میں انھیں برطانیہ میں ہندوستانی طلبہ کا تعلیمی مشیر مقرر کر دیا گیا۔ 1921ء سے 1930ء تک انھوں نے لندن یونیورسٹی میں مشرقی علوم کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

    1921ء ہی میں برطانوی سرکار نے انھیں‌ ’’سَر‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ ہندوستان کے مسلمان سیاسی اور سماجی راہ نماؤں کے قریب رہنے والے سر آرنلڈ 1930ء میں‌ آج ہی کے دن دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

    علّامہ اقبال سے سر آرنلڈ نے ہمیشہ خصوصی شفقت کا مظاہرہ کیا۔ مشہور ہے کہ پروفیسر آرنلڈ نے ہی علّامہ اقبال کو اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ جانے کا مشورہ دیا تھا اور اس کے لیے ان کی مدد کی تھی۔ ڈاکٹر محمد اقبال بھی اپنے استاد سے بہت محبت کرتے تھے۔ پروفیسر آرنلڈ جب ہندوستان چھوڑ کر انگلستان واپس چلے گئے تو اقبال نے ایک نظم بعنوان ’’نالۂ فراق‘‘ لکھی جو بانگِ درا میں شامل ہے۔

  • رودبارِ انگلستان عبور کرنے والے بروجن داس کا تذکرہ

    رودبارِ انگلستان عبور کرنے والے بروجن داس کا تذکرہ

    پاکستان کے مشہور کالم نویس، مصنّف اور ڈراما نگار منو بھائی ایک مرتبہ ڈھاکہ (مشرقی پاکستان) گئے تو ایئر پورٹ پر صحافیوں اور علمی و ادبی شخصیات کے درمیان بروجن داس بھی ان کے استقبال کے لیے موجود تھے اور وہی گاڑی ڈرائیو کر کے منو بھائی کو ڈھاکہ میں ان کی اگلی منزل کی طرف لے گئے تھے۔

    منو بھائی نے اپنے ایک کالم میں اس سفر کی یاد تازہ کرتے ہوئے لکھا تھا، ہم ڈھاکہ ایئرپورٹ سے پریس کلب جانے کے لیے ایک گاڑی میں سوار ہوئے تو میں نے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میری گاڑی بروجن داس چلا رہے ہیں۔

    بروجن داس مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے مشہور تیراک تھے جنھوں نے ملکی سطح پر کئی مقابلوں میں‌ حصّہ لیا اور متعدد ریکارڈ قائم کیے۔

    9 دسمبر 1927ء کو مشرقی بنگال کے ایک گاؤں بکرم پور میں پیدا ہونے والے بروجن داس کو کم عمری ہی میں‌ تیراکی کا شوق ہو گیا تھا۔ ایک وقت آیا جب دریا اور سمندر کی لہروں کا سامنا کرنے والے بروجن داس تند و تیز موجوں کا مقابلہ کرنے لگے۔ تیراکی کا شوق انھیں فری اسٹائل مقابلوں تک لے گیا۔ انھوں نے 1951ء سے 1957ء کے دوران تیراکی کے مقابلوں میں ریکارڈ بنائے اور اس کھیل میں نام پیدا کیا۔

    23 اگست 1958ء کو بروجن داس 14 گھنٹے 57 منٹ میں رودبارِ انگلستان عبور کرکے پہلے ایشیائی تیراک کا اعزاز اپنے نام کرنے میں‌ کام یاب رہے۔ انھوں نے چھے مرتبہ اس رودبار کو عبور کیا۔

    رودبار کسی بڑے دریا، بڑی نہری گزر گاہ یا آبنائے کو کہتے ہیں۔ رودبارِ انگلستان یا انگلش چینل دراصل بحرِ اوقیانوس کا ایک حصّہ ہے جو برطانیہ کو شمالی فرانس سے جدا اور بحیرۂ شمال کو بحرِ اوقیانوس سے جوڑتا ہے۔ یہ 563 کلومیٹر طویل اور زیادہ سے زیادہ 240 کلومیٹر چوڑی رودبار ہے۔

    یہ رودبار تاریخی اعتبار سے بھی اہمیت کی حامل ہے اور کئی جنگوں کی شاہد ہے۔ ان میں قدیم اور دورِ جدید میں مختلف ممالک اور اقوام کے درمیان ہونے والی جنگیں شامل ہیں۔

    پاکستانی تیراک بروجن داس 22 ستمبر 1961ء کو ایک مرتبہ پھر رودبارِ انگلستان میں ریکارڈ بنانے کا عزم لے کر اترے اور اس مرتبہ 10 گھنٹے 35 منٹ میں اس رودبار کو عبور کرلیا اور ایک نیا عالمی ریکارڈ بنایا۔

    23 مارچ 1960 ء کو حکومتِ پاکستان نے اس ماہر تیراک کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ سانحۂ مشرقی پاکستان کے بعد وہ اپنے آبائی وطن میں رہے جہاں 1997ء میں‌ کینسر کی تشخیص کے بعد علاج کی غرض سے وہ بھارت کے شہر کولکتہ چلے گئے تھے تاہم اس کے اگلے سال 1998ء میں آج ہی کے دن بروجن داس کا انتقال ہوگیا۔ ان کے جسدِ خاکی کو بنگلہ دیش منتقل کیا گیا جہاں 3 جون کو ان کی تدفین کردی گئی۔