Tag: جون انتقال

  • دادا بھائی ناؤروجی: عظیم سیاسی اور سماجی راہ نما جن کے لیے برطانوی سیاست دانوں نے تحقیر آمیز الفاظ استعمال کیے

    دادا بھائی ناؤروجی: عظیم سیاسی اور سماجی راہ نما جن کے لیے برطانوی سیاست دانوں نے تحقیر آمیز الفاظ استعمال کیے

    آج دادا بھائی ناؤروجی کا یومِ وفات ہے جنھیں متحدہ ہندوستان میں دور اندیش اور زیرک سیاست داں اور عوام کے خیر خواہ کی حیثیت سے نہایت عزّت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ اوّلین ہندوستانی تھے جس نے اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ تجارت کی آڑ میں‌ برطانیہ لوٹ مار اور ہندوستان کے عوام کا استحصال کر رہا ہے۔

    دادا بھائی ناؤروجی ستمبر 1825ء کو بمبئی کے ایک پارسی گھرانے میں پیدا ہوئے اور اسی شہر میں 30 جون 1917ء کو وفات پائی۔

    ناؤروجی ایک غریب گھرانے کے فرد تھے اور یہی وجہ تھی کہ انھیں مفت ابتدائی تعلیم کے ایک منصوبے سے فائدہ اٹھانا پڑا۔ وہ نیک صفت اور باشعور تو تھے ہی، لیکن مالی تنگی اور مسائل نے انھیں زیادہ حسّاس بنا دیا تھا، انھوں نے اس مفت تعلیم کو خود پر قرض تصوّر کیا اور سوچ لیا کہ آگے چل کر تعلیم سمیت ہر شعبے میں عوامی خدمت کا راستہ اپنائیں گے۔ وہ ایک ایسے ہندوستانی راہ نما تھے جس نے نسل پرستی اور ہر قسم کے امتیاز کی مخالفت کرتے ہوئے سامراجی نظام کو چیلنج کیا۔

    دادا بھائی ناؤروجی چھوٹی عمر ہی سے شعور اور آگاہی کے ساتھ فلاحی مقاصد کے فروغ کے لیے سرگرم رہے۔ 1840ء کی دہائی کے آخر میں انھوں نے لڑکیوں کے لیے اسکول کھولے تو ہندوستان کا قدامت پسند طبقہ ان کے خلاف ہوگیا، لیکن انھوں نے اس کی پروا نہ کی۔ ان کی اسی ثابت قدمی اور خلوص کا نتیجہ تھا کہ بڑی تعداد میں طالبات اسکول آنے لگیں۔

    ناؤروجی کا شمار ان مثالی ہندوستانیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اس زمانے میں صنفی مساوات پر بات کی اور کہا کہ دنیا میں عورت کو بھی مردوں کی طرح تمام حقوق حاصل ہیں اور وہ ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کرنے کا حق رکھتی ہیں۔

    1901ء میں دادا بھائی ناؤروجی کی کتاب Poverty and Un-British Rule in India شایع ہوئی جس نے برطانوی سیاست دانوں اور افسر شاہی کو گویا مشتعل کردیا، انھوں نے اس کتاب میں تفصیلی وضاحت دی کہ نوآبادیاتی نظام میں کیسے ہندوستان کی دولت کو برطانیہ منتقل کیا جارہا ہے جب کہ ہندوستان میں غربت پنپ رہی ہے۔

    1855ء میں ناؤروجی پہلی مرتبہ برطانیہ گئے اور ان کی دولت اور خوش حالی دیکھنے کے بعد ہندوستان کے حالات اور عوام کی کس مپرسی کے اسباب جاننے کی کوشش کی اور اس کے لیے معاشی جائزہ اور مالی تجزیہ پر کام شروع کیا۔ انھوں نے بتایا کہ برطانیہ ہندوستانیوں سے مخلص نہیں اور انھیں قحط کے عفریت اور دیگر مسائل کے ساتھ غربت کی چکّی میں‌ جھونک رہا ہے جس پر برطانیہ کی جانب سے انھیں‌ باغی اور سرکش کہہ کر رد کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن ان کی یہ بات خاص و عام تک پہنچ چکی تھی۔

    ان کے خیالات نے مغرب کے باشعور طبقے، ترقی پسند مکتبہ فکر سمیت یورپ کے اشتراکیت پسندوں کو متاثر کیا۔ انھوں نے محنت کش طبقے کا ساتھ دیا، تعلیم اور دیگر شعبوں سمیت انتخابات میں عورتوں‌ کے حقِ رائے دہندگی کے لیے آواز اٹھائی اور ہندوستان میں فوری طور پر مثالی اور عوام دوست اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا جس پر انھیں سنجیدہ طبقات کی حمایت حاصل ہوگئی۔

    یہ ان کا گویا وہ جرم تھا جس پر برطانوی سیاست دانوں نے ان کے لیے تحقیر آمیز الفاظ استعمال کیے۔ لیکن اس مخالفت اور پروپیگنڈے کے باوجود وہ دن آیا جب 1892ء میں وہ لندن میں پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے اور ایک موقع پر دادا بھائی ناؤروجی نے ایوان میں اپنا نظریہ اور مؤقف پیش کیا۔ انھوں نے کہاکہ برطانوی طرزِ حکم رانی سفاکانہ ہے جس میں‌ ان کے ہم وطنوں کا استحصال اور انھیں‌ بنیادی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے، اس کے بعد ناؤروجی 1895ء میں دوبارہ انتخابی میدان میں‌ اترے، مگر انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم اس وقت تک ان کی فکر اور آواز برطانیہ سمیت دنیا کے دیگر ممالک تک پہنچ چکی تھی جس کا بہت فائدہ ہوا۔ وہ پہلے ایشیائی تھے جو رکنِ پارلیمان منتخب ہوئے۔

    ناؤروجی ایک ایسے راہ نما تھے جس نے اپنے سیاسی اور سماجی خدمت کے سفر میں‌ کئی بار نامساعد حالات، اپنوں کی مخالفت اور سخت رویّے کا بھی سامنا کیا، لیکن کسی بھی موقع پر گھبرا کر اپنا راستہ نہیں بدلا اور خود کو رجائیت پسند اور باہمّت ثابت کیا۔

  • ماہرِ علومِ اسلامیہ و شرقیہ فؤاد سزگین کا یومِ وفات

    ماہرِ علومِ اسلامیہ و شرقیہ فؤاد سزگین کا یومِ وفات

    پروفیسر فؤاد سزگین (Fuat Sezgin) کو دنیا ایک ایسے محقق، مؤرخ اور ماہرِ‌ علومِ اسلامی کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جس کا خصوصی موضوع مسلم عہدِ وسطیٰ رہا۔پروفیسر فؤاد سزگین 30 جون 2018ء کو وفات پاگئے تھے۔

    ترکی کے شہر استنبول میں وفات پانے والے پروفیسر فؤاد سزگین نے زندگی کی 94 بہاریں دیکھیں اور آخر وقت تک علمی و تحقیقی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ انھیں عصرِ حاضر کا ایک اہم اسلامی اسکالر مانا جاتا ہے جن کا سب سے اہم ترین کارنامہ Geschichte des Arabischen Shrifttums (تاریخِ علومِ عربیہ و اسلامیہ) ہے۔

    فؤاد سزگین 1924ء میں ترکی کے ایک شہر میں پیدا ہوئے اور ثانوی تعلیم کی تکمیل کے بعد استنبول منتقل ہوگئے جہاں جامعۂ استنبول میں معروف جرمن مستشرق ہیلمٹ رٹر (Hellmut Ritter) کے زیرِاثر ادبیات اور علومِ اسلامیہ و شرقیہ کی تحصیل پر مائل ہوئے۔ 1951ء میں ادبیات میں گریجویشن کے بعد 1954ء میں عربی ادبیات میں اپنے مقالے پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

    ڈاکٹریٹ کے بعد استنبول یونیورسٹی کے کلیۂ ادبیات میں تدریس سے منسلک ہوگئے۔ 1961ء میں ترکی میں فوجی بغاوت کے بعد جرمنی جانے پر مجبور ہو گئے جہاں 1965ء میں فرینکفرٹ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی اور اسی جامعہ میں پروفیسر مقرر ہوگئے۔ جرمنی میں قیام کے دوران ہی شادی کرلی، ان کی اکلوتی بیٹی اسی جرمن خاتون کے بطن سے پیدا ہوئی۔

    فؤاد سزگین کی شاہ کار تصنیف تاریخِ علومِ عربیہ و اسلامیہ دراصل جرمن محقّق، کارل بروکلمان کی اسی نام سے لکھی گئی کتاب کی تکمیل ہے۔ انھوں نے اس کتاب پر کام کا آغاز 1947ء میں کیا تھا جس کی متعدد جلدیں‌ شایع ہوئیں، وفات کے وقت پروفیسر سزگین اس کی اٹھارہویں جلد پر کام کررہے تھے۔

    یہ ان کی تصنیف اور مدّون کردہ وہ کتاب ہے جو اسلامی علمی و تہذیبی تاریخ پر عظیم سرمایہ ہے، جس میں عربی زبان و ادب، قرآنِ پاک، تفسیر، حدیث، تاریخ، فقہ، علمِ کلام، طب، علمِ حیوان، کیمیا، زراعت، نباتات، ریاضیات، علمِ فلک و نجوم، نقشے اور عربی مخطوطات کا مطالعہ اور ان پر علمی مواد شامل ہے۔

    پروفیسر فؤاد سزگین عربی، انگریزی، جرمن کے ساتھ عبرانی، سریانی اور لاطینی زبانیں جانتے تھے۔

    دینی اور سائنسی علوم و فنون کی تاریخ پروفیسر فؤاد سزگین کی تحقیق کا محور و مرکز رہا۔ انھوں نے عرب اسلامی ادوار کے سائنسی آلات، اوزار اور نقشوں کی نقلیں بھی تیار کیں جو فرینکفرٹ اور استنبول کے عجائب گھر میں محفوظ ہیں۔ فؤاد سزگین نے احادیث پر غیر معمولی تحقیقی کام کیا، جس میں صحیح بخاری کے تحریری مآخذ کی نشان دہی ان کا عظیم کارنامہ ہے۔

    عالمِ اسلام کے اس عظیم اسکالر اور دانش ور کو ان کی علمی و تحقیقی کاوشوں پر متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں 1978ء میں کنگ فیصل انٹرنیشنل پرائز اور آرڈر آف میرٹ آف فیڈرل ریپبلک آف جرمنی شامل ہیں۔

  • کیتھرین ہیپبرن: ہالی وڈ اداکارہ جسے ‘آئیکون’ کا درجہ حاصل تھا

    کیتھرین ہیپبرن: ہالی وڈ اداکارہ جسے ‘آئیکون’ کا درجہ حاصل تھا

    ہالی وڈ، فیشن اور اسٹائل کی دنیا پر ایک عرصے تک راج کرنے والی اداکارہ کیتھرین ہیپبرن امریکی معاشرے اور ثقافت میں ایک بااثر خاتون کی حیثیت سے بھی شہرت رکھتی ہیں۔

    29 جون 2003ء کو ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہوجانے والی ہیپبرن کو غیر روایتی انداز کی حامل آزاد اور خود مختار خاتون کہا جاتا ہے جس نے اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کی۔

    کیتھرین ہیپبرن کو ہالی وڈ میں 66 سالہ کیریئر کے دوران کئی ایوارڈز سے نوازا گیا جن میں آسکر بھی شامل ہے۔ ہالی وڈ کی اس اداکارہ نے 4 آسکر ایوارڈ اپنے نام کیے اور فلم نگری کے اس معتبر ترین ایوارڈ کے لیے 12 مرتبہ نام زد کی گئی۔
    آسکر کے علاوہ فلمی صنعت کے متعدد ایوارڈ حاصل کرنے والی اس اداکارہ نے فیشن اور اسٹائل کی دنیا سے بھی اعزازات سمیٹے۔

    ہیپبرن خوب صورت اور سحر انگیز شخصیت کی مالک تھی جس نے فیشن اور اپنے منفرد انداز کے سبب بھی شہرت حاصل کی۔ اس کا نام بیسویں صدی عیسوی کی ان خواتین کی فہرست میں‌ شامل رہا ہے جنھوں‌ نے اپنے فن اور کارناموں کے سبب دنیا کی معاشرت اور امریکا کی ثقافت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ یہ فہرست شوبزنس اور فیشن انڈسٹری سے متعلق اپنے وقت کے متعدد مشہور رسائل اور معتبر جرائد نے شایع کی تھی۔

    امریکی ثقافت میں بے حد پذیرائی کے سبب اسے ایک ‘آئیکون’ کا درجہ حاصل ہوگیا جب کہ 1999ء میں امریکی فلم انسٹیٹیوٹ نے ہیپبرن کو عظیم اداکارہ قرار دیا تھا۔

    کیتھرین ہیپبرن کو یہ یقین تھا کہ موت کے بعد اسے ضرور یاد رکھا جائے گا۔ اس نے کئی مواقع پر اس بات کا اظہار بھی کیا۔

    کیتھرین ہیپبرن کا تعلق امریکا کے ایک امیر اور خوش حال گھرانے سے تھا۔ وہ 12 مئی 1907ء کو پیدا ہوئی۔ والد مشہور سرجن تھے جب کہ والدہ کو امریکا میں انسانی حقوق کی علم بردار اور سماجی کارکن کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا۔

    ہیپبرن اپنے والدین کی چھٹی اولاد تھی اور اس کی پرورش ایک ایسے ماحول میں ہوئی تھی جہاں بولنے اور سوال کرنے کی آزادی تھی اور صلاحیتوں کا اظہار کرنے پر بچّوں حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ اس ماحول کی پروردہ ہیپبرن بھی پُراعتماد اور باہمّت تھی۔

    گریجویشن کے بعد اسے اسٹیج کی دنیا میں قدم رکھنے کا موقع ملا اور یوں اس کے شوبز کیریئر کا آغاز ہوا۔ نیو یارک کے مشہور براڈوے تھیٹر سے منسلک رہتے ہوئے اس نے متعدد ڈراموں میں چھوٹے بڑے کردار نبھائے اور پہچان بناتی چلی گئی۔ اس نے 1928ء میں شادی کی تھی لیکن چند سال بعد یہ تعلق ختم کردیا۔

    کیتھرین نے اپنی اداکاری سنیما کے شائقین کو ہی نہیں ناقدین کو بھی متاثر کیا۔ اس کی پہلی فلم 1932ء میں پردے پر پیش کی گئی۔ اداکاری کے ابتدائی ایّام میں اس نے حقوقِ نسواں کی علم بردار عورت کے مختلف کردار نبھائے اور پھر ہالی وڈ کی فلموں میں مختلف کردار قبول کرکے خود کو منوانے میں کام یاب رہی۔ اداکارہ نے جہاں فیچر فلموں میں‌ اپنی اداکاری سے شائقین کے دل جیتے، وہیں‌ اسٹیج اور ٹیلی ویژن پر کام کر کے بھی خود کو منوایا۔

    کیتھرین ہیپبرن کی چند مشہور فلموں میں مارننگ گلوری، فلاڈلفیا اسٹوری، دی افریقن کوئین، لٹل وومن، ہالی ڈے، وومن آف دی ایئر شامل ہیں۔ فلاڈلفیا اسٹوری کو ہالی وڈ کی کلاسیکی فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔

    ہیپبرن نے 96 سال کی عمر میں‌ زندگی سے اپنا ناتا توڑا تھا۔

  • یومِ وفات: فارسی زبان و ادب کے ممتاز عالم وزیرُ الحسن عابدی غالب شناس بھی تھے

    یومِ وفات: فارسی زبان و ادب کے ممتاز عالم وزیرُ الحسن عابدی غالب شناس بھی تھے

    29 جون 1979ء کو فارسی زبان و ادب کے ممتاز عالم، محقق اور مترجم وزیرُ الحسن عابدی وفات پاگئے تھے۔ انھیں غالب شناس بھی تسلیم کیا جاتا ہے جنھوں نے اردو ادب کو اپنی علمی اور تحقیقی تصانیف اور تراجم سے مالا مال کیا۔

    وزیرُ الحسن عابدی یکم اگست 1913ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر بجنور کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم بجنور ہی سے حاصل کی اور بی اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد اینگلو عربک سوسائٹی دہلی کے قائم کردہ اسکول میں فارسی کے استاد مقرر ہوگئے۔ بعد میں دہلی یونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور اینگلو عربک کالج میں فارسی کے استاد مقرّر ہوئے۔

    تقسیمِ ہند سے قبل وظیفہ پر اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے تہران یونیورسٹی چلے گئے جہاں پانچ سال زیرِ تعلیم رہے، لیکن یونیورسٹی اورینٹل کالج کے شعبہ فارسی سے پیش کش پر واپس آئے اور جامعہ میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر مصروف ہوگئے اور اسی نشست سے ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد شعبہ تاریخِ ادبیات مسلمانانِ پاکستان و ہند سے منسلک ہو گئے۔

    وزیر الحسن عابدی فارسی زبان و ادبیات کے علاوہ الٰہیات، تاریخ، فلسفہ، نفسیات کا علم بھی رکھتے تھے۔ انھوں نے غالب کی دو نایاب کتابیں دریافت کرکے مع مفصل حواشی و تعلیقات شایع کیں۔ اس کے علاوہ غالب کی فارسی کتابوں کو بڑی محنت سے مرتب کیا۔ ان کی چند اہم اور یادگار تصانیف اور تالیفات میں افاداتِ غالب، یادداشت ہائے مولوی محمد شفیع، اقبال کے شعری مآخذ مثنوی رومی میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے کئی علمی و تحقیقی مضامین اور مقالات بھی مختلف رسائل و جرائد میں شایع ہوئے۔

    ڈاکٹر وزیرُ الحسن عابدی کو میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • کلاسیکی رقّاص مہاراج غلام حسین کتھک کی برسی

    کلاسیکی رقّاص مہاراج غلام حسین کتھک کی برسی

    فنونِ لطیفہ کی مختلف اصناف میں جہاں‌ موسیقی، سُر تال، راگ راگنیاں اور گلوکاری نمایاں ہیں، وہیں رقص بھی انسانی جذبات اور احساسات کے اظہار کی ایک دل کش شکل ہے جسے اعضا کی شاعری بھی کہا جاتا ہے۔

    رقص، آرٹ کی وہ قدیم شکل ہے جسے دنیا کی ہر تہذیب نے اپنایا اور اسے فروغ دیا جس سے اس کی رنگارنگی اور ثقافتی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستان میں صدیوں سے رائج رقص کی مختلف شکلوں کو وہ باکمال فن کار نصیب ہوئے جنھوں نے اس فن کو نیا آہنگ، انداز اور قرینہ عطا کیا اور اسے نکھارا۔ پاکستان میں کلاسیکی رقص کے حوالے سے غلام حسین کتھک ایک ممتاز اور نمایاں نام ہے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    وہ 29 جون 1998ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں‌ مہاراج غلام حسین کتھک کے نام سے پکارا اور پہچانا جاتا ہے جنھوں نے دنیا بھر میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور رقص کی باریکیوں اور نزاکتوں کو سمجھنے والوں اور شائقین سے داد وصول کی۔

    مہاراج غلام حسین کتھک 4 مارچ 1899ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد علم و ادب اور آرٹ میں نام وَر رابندر ناتھ ٹیگور کے احباب میں سے ایک تھے جن کے مشورے پر اپنے بیٹے کو مصوّری اور اداکاری سیکھنے پر آمادہ کیا اور بعد میں کلاسیکی رقص کی تربیت دلوائی۔ غلام حسین نے لکھنؤ کتھک اسکول کے بانی اچھن مہاراج سے اس فن کی تربیت لی۔

    تقسیم کے بعد 1950ء میں مہاراج غلام حسین کتھک ہجرت کرکے پاکستان آگئے جہاں انھوں نے پہلے کراچی اور پھر لاہور میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ شائقین کو کلاسیکی رقص کی تربیت دینا شروع کی۔ پاکستان میں ان کے کئی شاگردوں نے اس فن میں‌ نام کمایا اور مقام بنایا۔ ان کے معروف شاگردوں میں ریحانہ صدیقی، ناہید صدیقی، نگہت چوہدری، جہاں آرا اخلاق شامل ہیں۔

    مہاراج غلام حسین کتھک نے مشہور فلم سرگم میں بھی کام کیا تھا۔ انھوں نے اس فلم کے بہترین معاون اداکار کا نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیا تھا جب کہ حکومتِ پاکستان نے رقص کے فن میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا۔

    مہاراج غلام حسین میانی صاحب کے قبرستان میں‌ ابدی نیند سو رہے ہیں۔

  • مائیکل جیکسن اور پاپ میوزک گویا ایک ہی بات تھی!

    مائیکل جیکسن اور پاپ میوزک گویا ایک ہی بات تھی!

    وہ ایک ساحر تھا، دلوں کو مسخّر کرنا جانتا تھا۔ دنیا اس کی آواز کے طلسم، رقص اور اس کی اسٹیج پرفارمنس کے سحر میں‌ گرفتار رہی۔ اس کی موت کی خبر آئی تو لاکھوں پرستاروں کی آنکھیں نم ہوگئیں۔

    25 جون 2009ء کو "کنگ آف پاپ” مائیکل جیکسن نے دنیا میں آخری سانس لی اور اس کے ساتھ ہی پاپ میوزک کا ایک درخشاں باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔

    مائیکل جیکسن ہمہ جہت اور تخلیقی انفرادیت کا حامل فن کار تھا جس نے گلوکار اور میوزک پروڈیوسر کی حیثیت سے شہرت اور مقبولیت کے ہفت آسمان طے کیے۔

    اپنے زمانے میں کنسرٹ کے تصوّر کو یک سَر بدل کر رکھ دینے والے مائیکل جیکسن نے زندگی میں کئی نشیب و فراز دیکھے۔ اس کے اوراقِ زیست بتاتے ہیں‌ کہ وہ کئی بار ٹوٹا، بکھرا اور ہر بار ہمّت کر کے اسٹیج پر پہنچا جہاں اس نے برقی قمقموں اور محفل کی رنگا رنگی میں خود کو گم کرلیا اور یوں اپنی زندگی کی تلخیوں‌، محرومیوں اور کرب کو کم کرنے کی کوشش کی۔

    اپنی بے مثال گائیکی اور رقص کی غیر معمولی صلاحیت کے علاوہ مائیکل جیکسن کی پُراسرار شخصیت اور اس کا طرزِ زندگی بھی دنیا بھر میں‌ مشہور ہے۔

    1982ء میں ’تھرلر‘ نامی البم نے مائیکل جیکسن کو دنیا میں متعارف کروایا اور یہ تعارف ایسا زبردست تھا کہ وہ راتوں رات پاپ اسٹار بن گیا۔ اس البم کی 41 ملین سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئیں جو ایک ریکارڈ ہے۔

    مائیکل جیکسن 19 اگست 1958 کو امریکا میں پیدا ہوا۔ بچپن ہی سے اسے موسیقی سے شغف ہوگیا تھا اور وہ اپنے چار بڑے بھائیوں کے ساتھ جیکسن فائیو نامی میوزک بینڈ کے ساتھ پرفارم کرنے لگا اور بعد میں‌ اپنا البم مارکیٹ میں‌ پیش کیا۔

    ‘تھرلر‘ سے پہلے اس گلوکار کا ایک سولو البم ’آف دا وال‘ بھی منظرِ عام پر آچکا تھا جو بہت مقبول ہوا، لیکن اس کی وجہِ شہرت ’تھرلر‘ بنا۔ اس البم کے بعد ’بیڈ‘ سامنے آیا جس کی بیس ملین کاپیاں فروخت ہوئیں۔ پھر ’ڈینجرس‘ ریلیز ہوا جسے بے حد پزیرائی حاصل ہوئی۔

    مائیکل نے نوّے کی دہائی میں ایک لڑکے سے جنسی زیادتی کے الزام کا سامنا کیا اور موت سے کچھ عرصہ قبل اس پر بچّوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا ایک اور مقدمہ بھی بنا تھا جس میں وہ بری کردیا گیا۔ مائیکل جیکسن نے متعدد بار چہرے کی پلاسٹک سرجری کروائی جس کا بہت چرچا ہوا۔

    1994ء میں مائیکل جیکسن نے ماضی کے مشہور پاپ اسٹار ایلوس پریسلی کی بیٹی لیسا پریسلی سے شادی کی جو صرف دو برس قائم رہ سکی۔

    چند برسوں کے دوران مائیکل جیکسن کو تنازعات اور مالی مشکلات نے گھیر لیا تھا۔

    25 جون کو شہرہ آفاق گلوکار کو سانس لینے میں دشواری کی شکایت پر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں اس نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔

  • سید ممتاز علی: ہندوستان میں تعلیم و حقوقِ نسواں کے اوّلین علم بردار

    سید ممتاز علی: ہندوستان میں تعلیم و حقوقِ نسواں کے اوّلین علم بردار

    ہندوستان میں عورتوں کی تعلیم کے اوّلین علم برداروں میں ایک نام سیّد ممتاز علی کا تھا جو مشہور ہفتہ وار اخبار تہذیبِ نسواں کے بانی تھے۔ علمی و ادبی میدان میں‌ خدمات پر متحدہ ہندوستان کی حکومت نے انھیں شمسُ العلما کا خطاب دیا تھا۔

    تہذیبِ نسواں ہندوستان کے مسلم گھرانوں اور اردو داں طبقے میں‌ خاصا مقبول تھا۔ اس اخبار نے جہاں‌ ہندوستانی عورتوں کو بیدار مغز اور باشعور بنانے میں کردار ادا کیا، وہیں اس پرچے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہی نہیں معمولی پڑھی لکھی عورتوں میں بھی تصنیف و تالیف کا شوق پیدا ہوا۔ اخبار کی ادارت محمدی بیگم کے ذمّہ تھی جو سیّد ممتاز علی کی زوجہ تھیں۔

    سیّد ممتاز علی 15 جون 1935ء کو وفات پاگئے تھے۔ اردو زبان کے اس معروف مصنّف اور مترجم نے متعدد علمی و ادبی مضامین تحریر کیے۔ سیّد ممتاز علی رفاہِ عام پریس کے مالک تھے اور انھیں ناشر کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔

    سیّد ممتاز علی 1860ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی اور انگریزی کی تعلیم بھی پائی۔ 1876ء میں لاہور چلے گئے جہاں‌ تا دمِ مرگ قیام رہا۔

    1884ء میں انھوں نے پنجاب میں عدالتی مترجم کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی اور 1891ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ 1898ء کو لاہور میں چھاپا خانہ قائم کیا اور نہایت بلند پایہ کتابیں شایع کیں۔ اسی برس تہذیبِ نسواں بازار میں آیا تھا جو 1949ء تک جاری رہا۔ سیّد ممتاز علی نے 1909ء میں بچّوں کا جریدہ پھول بھی جاری کیا تھا اور یہ تقسیمِ ہند کے بعد بھی شایع ہوتا رہا۔

    مولوی سیّد ممتاز علی علم و ادب میں ممتاز اور مسلمانانِ ہند کے خیر خواہ اور مصلح سرسیّد احمد خان کے رفیق بھی تھے۔ ہر کام میں‌ ان سے صلاح و مشورہ کرتے اور ان کی طرح ہندوستانیوں‌ کے لیے جدید علوم اور تعلیم و تربیت کا حصول لازمی خیال کرتے تھے۔
    اِن کے اخبار تہذیبِ نسواں کا پہلا شمارہ یکم جولائی 1898ء کو منظر عام پر آیا تھا۔ اس اخبار کا نام تہذیبُ الاخلاق سے مشابہ تھا جو سر سیّد احمد خان نے تجویز کیا تھا۔

    1934ء میں شمس العلما کا خطاب پانے والے سیّد ممتاز علی کے مطبع خانے سے جو تصانیف شایع ہوئیں، ان میں حقوقِ نسواں (1898ء)، مولوی مرزا سلطان احمد خاں کے متفرق مضامین کا مجموعہ ریاضُ الاخلاق (1900ء) اور سراجُ الاخلاق، تفصیلُ البیان، شیخ حسن (1930ء) اور دیگر شامل ہیں۔

    مولوی سیّد ممتاز علی کی جواں سال زوجہ محمدی بیگم 1908ء میں انتقال کرگئی تھیں۔ ان کی وفات کے بعد صاحب زادی وحیدہ بیگم نے اس اخبار کی ادارت سنبھالی، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وحیدہ بیگم 1917ء میں خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ کچھ عرصے کے لیے مولوی ممتاز علی کی بہو نے اخبار کی ادارت کی اور پھر اس اخبار کو مولوی ممتاز کے صاحب زادے اور اردو کے نام وَر ادیب امتیاز علی تاج نے سنبھالا۔ وہ اس کے آخری مدیر تھے۔

  • یومِ‌ وفات: نڈر، بے باک اور باضمیر، ضمیر نیازی صحافت کی آبرو تھے

    یومِ‌ وفات: نڈر، بے باک اور باضمیر، ضمیر نیازی صحافت کی آبرو تھے

    پاکستان کے نام وَر صحافی، مصنّف اور آزادیٔ صحافت کے علم بردار ضمیر نیازی 11 جون 2004ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ وہ پاکستانی میڈیا کی تاریخ لکھنے والے پہلے صحافی تھے۔ انھوں نے نہ صرف پاکستانی صحافت کی تاریخ مرتّب کی بلکہ اس موضوع پر متعدد کتابیں بھی لکھیں جو اس شعبے میں راہ نما اور اہم سمجھی جاتی ہیں۔

    ضمیر نیازی کی مشہور کتابوں میں ’پریس ان چینز‘، ’پریس انڈر سیج‘ اور ’ویب آف سنسر شپ‘ شامل ہیں۔ جنرل ضیاءُ الحق کے دورِ حکومت میں ان کی کتاب ’پریس ان چینز‘ پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ یہ کتاب بے حد مقبول ہوئی اور اس کے متعدد ایڈیشن اور تراجم شامل ہوئے۔ پی پی پی کے دور میں جب شام کے چند اخبارات پر پابندی لگی گئی تو انھوں نے احتجاجاً حکومت کی جانب سے دیا گیا تمغہ برائے حسنِ کارکردگی واپس کر دیا۔ انھیں جامعہ کراچی نے بھی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دینے کا اعلان کیا تھا، مگر ضمیر نیازی نے اس کے لیے گورنر ہائوس جانے سے انکار کردیا تھا۔

    ضمیر نیازی 1932ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر ممبئی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام ابراہیم جان محمد درویش تھا۔ ضمیر نیازی نے صحافتی زندگی کا آغاز ممبئی کے ایک اخبار انقلاب سے کیا۔ بعد میں‌ ہجرت کر کے پاکستان آ گئے اور کراچی میں سکونت اختیار کر لی جہاں صحافتی سفر دوبارہ شروع کیا۔ ڈان اور بزنس ریکارڈر سے منسلک رہنے کے بعد عملی صحافت چھوڑ کر خود کو تحقیق اور تصنیف تک محدود کرلیا تھا۔

    ضمیر نیازی کی دیگر تصانیف میں باغبانِ صحرا، انگلیاں فگار اپنی اور حکایاتِ خونچکاں شامل ہیں۔ اس نڈر اور بے باک صحافی کو کراچی کے قبرستان میں‌ آسودہ خاک کیا گیا۔

  • یومِ وفات: پنجابی فلموں‌ کے مقبول اداکار اکمل زندگی کی محض 38 بہاریں‌ دیکھ سکے

    یومِ وفات: پنجابی فلموں‌ کے مقبول اداکار اکمل زندگی کی محض 38 بہاریں‌ دیکھ سکے

    خوش قامت اور خوب رُو اکمل فلم نگری کے میک اَپ آرٹسٹ تھے جب کہ ان کے بھائی مشہور و معروف اداکار۔ فلم نگری سے وابستگی کے سبب اکمل کے لیے بہ طور اداکار قسمت آزمانا کچھ مشکل نہ تھا۔ انھوں نے ‘ایکسٹرا’ کے طور پر اپنا سفر شروع کیا اور ایک وقت آیا جب وہ پنجابی فلموں کے مقبول اور مصروف ترین اداکار بنے۔

    آج اداکار اکمل کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 11 جون 1967ء کو محض 38 سال کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔

    اکمل نے 1956ء میں فلم جبرو میں ہیرو کا رول نبھایا اور بڑے پردے کے شائقین اور فلم سازوں سے قبولیت اور پسندیدگی کی توقع کرنے لگے، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اگلے 8 برس تک اکمل کو درجن سے زائد فلموں میں ہیرو یا مرکزی رول نبھانے کے باوجود خاص پذیرائی نہیں‌ مل سکی۔ اس ناکامی سے مایوس اکمل نے ہمّت نہ ہاری اور سفر جاری رکھا۔

    اکمل پنجابی فلموں کے پہلے ہیرو تھے جنھوں نے ایک فلمی سالم میں 10 سے زائد فلموں میں کام کیا اور یہ سلسلہ مزید دو سال جاری رہا جس سے اکمل کی مقبولیت اور مصروفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اداکارہ فردوس کے ساتھ ان کی جوڑی کو بہت شہرت ملی تھی۔ بعد میں انھوں نے شادی کرلی تھی، لیکن جلد علیحدگی ہوگئی۔

    اداکار اکمل کا اصل نام محمد آصف خان تھا۔ وہ 1929ء میں پیدا ہوئے تھے۔ اکمل نے مجموعی طور پر 64 فلموں میں کام کیا۔ اس سفر میں اکمل کی مقبولیت اور کام یابی پنجابی فلموں تک محدود رہی اور اردو زبان میں بننے والی متعدد فلموں میں انھوں نے ناکامی کا سامنا کیا۔

    اداکار اکمل کی آخری فلم ’’بہادر کسان‘‘ تھی جو 1970ء میں نمائش پذیر ہوئی۔ ان کی دیگر فلموں میں چوڑیاں، زمیندار، پیدا گیر، بچہ جمہورا، بہروپیا، چاچا خواہ مخواہ، ہتھ جوڑی، کھیڈن دے دن، ہیر سیال، جگری یار، بانکی نار، وارث شاہ، ڈھول سپاہی، بھرجائی، من موجی، ملنگی، خاندان سرِفہرست ہیں۔

    کہتے ہیں مشہور فلمی اداکارہ فردوس سے ازدواجی تعلق ختم کرنے کے بعد اکمل بہت دکھی اور تکلیف میں مبتلا تھے، اور انھو‌ں نے اپنا غم غلط کرنے کے لیے مے نوشی کا سہارا لیا جس کی زیادتی نے انھیں نوجوانی اور اپنے زمانہ عروج میں زندگی سے محروم کردیا۔

  • نام وَر اداکار اور پاکستانی فلموں کے مقبول ہیرو سنتوش کمار کی برسی

    نام وَر اداکار اور پاکستانی فلموں کے مقبول ہیرو سنتوش کمار کی برسی

    11 جون 1982ء کو پاکستانی فلم نگری کے مقبول ہیرو اور نام وَر اداکار سنتوش کمار نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔ سنتوش کمار نے صبیحہ خانم سے شادی کی تھی جو اپنے وقت کی مشہور اداکارہ تھیں۔

    سنتوش کمار کا تعلق ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا۔ ان کا اصل نام سید موسیٰ رضا تھا۔ وہ 25 دسمبر 1926ء کو پیدا ہوئے تھے۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے والے سنتوش کمار نے اپنے ایک دوست کے اصرار پر ایک فلم میں ہیرو کا رول قبول کیا اور بمبئی کی فلمی صنعت کی دو فلموں ’’اہنسا‘‘ اور ’’میری کہانی‘‘ میں کام کیا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان چلے آئے جہاں مسعود پرویز کی فلم ’’بیلی‘‘ سے اپنا سفر شروع کیا۔ سعادت حسن منٹو کی کہانی پر بنائی گئی اس فلم میں صبیحہ نے سائیڈ ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ ’’بیلی’’ کام یاب فلم نہیں تھی، لیکن اس کے بعد ’’دو آنسو‘‘ اور ’’چن وے‘‘ نے سنتوش کمار کے کیریئر کو بڑا سہارا دیا۔ اس سفر میں آگے بڑھتے ہوئے سنتوش نے شہری بابو، غلام، قاتل، انتقام، سرفروش، عشق لیلیٰ، حمیدہ، سات لاکھ، وعدہ، سوال، مکھڑا اور موسیقار جیسی فلموں‌ میں‌ کام کرکے خود کو بڑا اداکار ثابت کردیا۔

    شادی سے پہلے سنتوش اور صبیحہ خانم نے اکٹھے فلموں‌ میں‌ کام کیا تھا، اور جہاں پردۂ سیمیں پر اپنی بہترین پرفارمنس سے شائقین کو اپنا مداح بنایا تھا، وہیں حقیقی زندگی میں بھی ان کی جوڑی مثالی اور قابلِ رشک ثابت ہوئی۔

    سنتوش کمار کی دیگر اہم فلموں میں دامن، کنیز، دیور بھابی، تصویر، شام ڈھلے، انجمن، نائلہ، چنگاری، لوری، گھونگھٹ اور پاک دامن شامل ہیں۔ مجموعی طور پر 92 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے سنتوش کمار نے بہترین اداکاری پر تین نگار ایوارڈ بھی حاصل کیے۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس نام وَر اداکار کو لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔