Tag: جون انتقال

  • عہد ساز شخصیت اور عظیم ناول نگار چارلس ڈکنز کا تذکرہ

    عہد ساز شخصیت اور عظیم ناول نگار چارلس ڈکنز کا تذکرہ

    عہد ساز شخصیت اور شہرۂ آفاق ناولوں کے خالق چارلس ڈکنز کو برطانوی معاشرے کا نبّاض بھی کہا جاتا ہے جو سماجی برائیوں، خامیوں اور مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے نظام کو بدلنے میں‌ مددگار ثابت ہوا۔ اس عظیم تخلیق کار نے 9 جون 1870ء کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔

    باذوق قارئین اور ناول کے شیدائیوں‌ نے چارلس ڈکنز کے ناول اولیور ٹوئسٹ، ڈیوڈ کاپر فیلڈ، اے ٹیل آف ٹو سٹیز جیسی کہانیاں‌ ضرور پڑھی ہوں گی، یہ ناول عالمی ادب میں کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں اور آج بھی کیمبرج کے نصاب کا حصّہ ہیں۔

    چارلس ڈکنز نے 7 فروری 1812ء کو انگلینڈ کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اس کے والد بحریہ میں کلرک تھے جب کہ والدہ تدریس کے شعبے سے منسلک تھیں۔ اس کے باوجود اس کنبے کے مالی حالات کچھ بہتر نہ تھے اور 1822ء میں حالات اس وقت مزید بگڑے جب ڈکنز کے والد فضول خرچی اور عیّاشی کے ہاتھوں‌ مجبور ہو کر مقروض ہوگئے اور پھر انھیں‌ جیل جانا پڑا۔

    12 سالہ چارلس ڈکنز کو اس واقعے کے بعد فیکٹری میں ملازمت کرنا پڑی۔ اس کا بچپن فیکٹری میں دن رات کام کرتے گزرا، اسے کم اجرت ملتی تھی جب کہ جبر و استحصال کا بھی سامنا کرنا پڑا اور اس کے ذہن پر اس کا گہرا اثر پڑا۔ اس دور کی جھلکیاں اس کے ناول ’’اولیور ٹوئسٹ‘‘ اور ’’ڈیوڈ کاپر فیلڈ‘‘ میں نظر آتی ہیں۔

    15 سال کی عمر میں‌ چارلس ڈکنز نے آفس بوائے کی حیثیت سے ایک ادارے میں ملازمت اختیار کر لی اور یہیں اس نے لکھنا شروع کیا۔ بعد کے برسوں‌ میں‌ وہ برطانیہ کا مقبول ترین فکشن نگار اور سماجی دانش وَر بنا۔ دنیا بھر کی زبانوں‌ میں‌ اس کے ناولوں‌ کا ترجمہ ہوا۔ چارلس ڈکنز نے اپنی کہانیوں کے لیے جو کردار تخلیق کیے وہ آج بھی مقبول ہیں۔ ان کے ناول پر ایک فلم Great Expectations بھی بنائی گئی تھی جسے شائقین نے بہت پسند کیا۔ چارلس ڈکنز کو ایک عظیم تخلیق کار ہی نہیں برطانوی سماج کا محسن بھی مانا جاتا ہے جس نے معاشرے میں سدھار لانے اور مثبت تبدیلیوں کا راستہ ہموار کیا۔

  • مقبول ترین فلمی گیتوں کے خالق اسد بھوپالی کی برسی

    مقبول ترین فلمی گیتوں کے خالق اسد بھوپالی کی برسی

    9 جون 1990ء کو بھارتی فلمی صنعت کے مشہور نغمہ نگار اور معروف شاعر اسد بھوپالی وفات پاگئے تھے۔ اسد بھوپالی نے جہاں اپنے تحریر کردہ گیتوں سے فلم انڈسٹری میں نام و مقام بنایا، وہیں ان کے تخلیق کردہ گیت کئی فلموں کی کام یابی کا سبب بھی بنے۔

    وہ متحدہ ہندوستان کی ریاست بھوپال کے ایک گھرانے میں 10 جولائی 1921ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام اسد اللہ خاں تھا۔ فارسی، عربی اور انگریزی کی رسمی تعلیم حاصل کی، شروع ہی سے شاعری کا شوق رکھتے تھے اور 28 برس کی عمر میں ممبئی چلے گئے جہاں نغمہ نگار کے طور پر انڈسٹری میں قدم رکھا۔ یہ وہ دور تھا جب خمار بارہ بنکوی، جاں نثار اختر، راجندر کرشن اور پریم دھون جیسے گیت نگاروں کا بڑا زور تھا اور ان کے علاوہ مجروح سلطان پوری، شکیل بدایونی، حسرت جے پوری بھی اپنے فن اور قسمت کو آزما رہے تھے، لیکن اسد بھوپالی ان کے درمیان جگہ بنانے میں کام یاب ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بھوپال کے پہلے شاعر تھے جس نے فلم نگری میں قدم رکھا اور گیت نگاری شروع کی۔

    انھیں‌ 1949ء میں فلم ’’دنیا‘‘ کے دو نغمات لکھنے کا موقع ملا جن میں سے ایک گیت محمد رفیع نے گایا جس کے بول تھے، ’’رونا ہے تو چپکے چپکے رو، آنسو نہ بہا، آوازنہ دے‘‘ اور دوسرا گیت ثرّیا کی آواز میں مقبول ہوا جس کے بول ’’ارمان لٹے دل ٹوٹ گیا، دکھ درد کا ساتھی چھوٹ گیا‘‘ تھے۔ یہ دونوں گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے۔

    چند فلموں کے لیے مزید گیت لکھنے کے بعد اسد بھوپالی کو بی آر چوپڑا کی مشہور فلم ’’افسانہ‘‘ کے نغمات تحریر کرنے کا موقع ملا جو بہت مقبول ہوئے۔ تاہم بعد میں ان کے کیریئر کو زوال آیا اور وہ غیرمقبول شاعر ثابت ہوئے۔

    1949ء سے 1990ء تک اسد بھوپالی نے لگ بھگ سو فلموں کے لیے نغمات تخلیق کیے۔ ’’پارس منی‘‘ وہ فلم تھی جس کے گیتوں نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا، اور بعد میں ’’استادوں کے استاد‘‘ کے گیت امر ہوگئے۔ 1989ء میں اسد بھوپالی نے فلم ’’میں نے پیار کیا‘‘ کے نغمات تخلیق کیے جنھیں پاک و ہند میں‌ شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔

    اردو کے ممتاز شاعر اور فلمی نغمہ نگار اسد بھوپالی کے لکھے ہوئے یہ دو گیت برصغیر کی تاریخ میں‌ امر ہوچکے ہیں اور آج بھی سرحد کے دونوں اطراف ان کی گونج سنائی دیتی ہے۔ ان کے بول ہیں، دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ، اور دوسرا گیت ہے، کبوتر جا، جا جا، کبوتر جا….

    انھوں نے دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ جیسا خوب صورت گیت تخلیق کرنے پر بھارت کی فلمی صنعت کا سب سے بڑا فلم فیئر ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔

  • یومِ‌ وفات: مشہور مصوّر ایم ایف حسین جن کا فن پارہ خود اُن کی زندگی کے لیے خطرہ بن گیا

    یومِ‌ وفات: مشہور مصوّر ایم ایف حسین جن کا فن پارہ خود اُن کی زندگی کے لیے خطرہ بن گیا

    عالمی شہرت یافتہ مصوّر مقبول فدا حسین 9 جون 2011ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کی عمر 95 برس تھی۔ انھیں بھارت کا ‘پکاسو’ بھی کہا جاتا ہے۔

    وہ بھارت اور دنیا بھر میں ایم ایف حسین کے نام سے مشہور پہچانے گئے۔ ایم ایف حسین کو ان کے بعض نظریات اور بیانات کی وجہ سے قدامت پرستوں کی جانب سے تنقید اور شدید ناپسندیدگی کا سامنا بھی کرنا پڑا جب کہ ان کے بعض فن پارے بھارت میں‌ مذہبی تنازع کا باعث بنے، ان پر ہندو دیوی دیوتاؤں کی توہین کا الزام لگایا گیا اور ایم ایف حسین پر مقدمات کیے گئے۔ اسی تنازع میں انھیں انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے قتل کی دھمکیاں ملیں‌ اور وہ خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔

    ایم ایف حسین 17 ستمبر سن 1915ء کو بھارت میں پندھر پور میں پیدا ہوئے۔ ان کی زندگی کا بیش تر حصّہ ممبئی شہر میں گزرا۔ انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز فلموں کے بڑے بڑے بورڈ پینٹ کرنے سے کیا اور پھر وہ وقت آیا کہ ان کے فن پارے لاکھوں کروڑوں میں فروخت ہونے لگے۔ ایم ایف حسین بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں ایک مشہور مصوّر بن چکے تھے۔

    سن 2008ء میں ہندو مذہبی داستانوں پر مبنی ان کا ایک فن پارہ تقریباً دو ملین ڈالر میں فروخت ہوا، جو اُس وقت تک جنوبی ایشیا میں کسی جدید فن پارے کے لیے ادا کی گئی ریکارڈ رقم تھی۔

    ایم ایف حسین نے چند فلمیں بھی بنائیں، جن میں معروف بھارتی اداکارہ مادھوری ڈکشٹ کے ساتھ بنائی گئی فلم ’گج گامنی‘ بھی شامل ہے۔ ’ایک مصوّر کی آنکھ سے‘ اُن کی پہلی فلم تھی، جو انہوں نے سن 1967ء میں بنائی تھی اس فلم نے برلن، جرمنی کے بین الاقوامی فلمی میلے میں بہترین مختصر فلم کا گولڈن بیئر اعزاز جیتا تھا۔

    ایم ایف حسین عارضۂ قلب کے باعث زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ انھیں‌ علاج کی غرض‌ سے لندن کے ایک اسپتال میں‌ داخل کروایا گیا تھا، لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔

  • پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف اداکار جمیل فخری کی برسی

    پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف اداکار جمیل فخری کی برسی

    آج پاکستان ٹیلی ویژن کے نام وَر اداکار جمیل فخری کی برسی ہے۔ وہ 9 جون 2011ء کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

    جمیل فخری پی ٹی وی کے اُن فن کاروں‌ میں سے ایک ہیں جو ‘جعفر حسین’ کے نام سے آج بھی مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ جعفر حسین پی ٹی وی کی مشہور ڈرامہ سیریز اندھیرا اجالا کا ایک ایسا کردار تھا جس نے جمیل فخری کو لازوال شہرت اور مقبولیت دی۔

    اس دور میں چھوٹی اسکرین پاکستان بھر میں ناظرین کی تفریح کا واحد ذریعہ ہوتی تھی اور اندھیرا اجالا سماجی مسائل اور جرم و سزا پر ایک ایسی ڈرامہ ثابت ہوا جس نے ناظرین کے دل جیت لیے۔ نام وَر اداکار قوی خان اور عرفان کھوسٹ کے کرداروں کے علاوہ پولیس انسپکٹر کے روپ میں مرحوم جمیل فخری کا مخصوص لب و لہجہ اور ان کا انداز سبھی کو بھایا اور ان کی اداکاری کو بے حد سراہا گیا۔

    جمیل فخری نے ستّر کی دہائی میں اداکاری کا آغاز کیا تھا۔ معروف اداکار، اسکرپٹ رائٹر اور مزاح گو شاعر اطہر شاہ خان نے انھیں ’اندر آنا منع ہے‘ نامی اسٹیج ڈرامے میں متعارف کرایا تھا جس کے بعد جمیل فخری کو پی ٹی وی پر ’اندھیرا اجالا‘ میں کردار ادا کرنے کا موقع ملا اور یہی کردار ان کی پہچان بنا۔

    جمیل فخری نے ڈراموں کے علاوہ فلم میں بھی کام کیا جب کہ کئی اسٹیج شوز میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے، لیکن خود کو اسٹیج کی دنیا سے ہم آہنگ نہ کرسکے اور الگ ہو گئے۔ پی ٹی وی پر دلدل، تانے بانے، وارث، بندھن، ایک محبت سو افسانے میں انھوں‌ نے بے مثال اداکاری کی۔

    وہ ذیابیطس اور بلڈ پریشر کے مریض تھے اور وفات سے چند ماہ قبل امریکا میں ان کے بڑے بیٹے کے قتل کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا تھا، جس کے بعد جمیل فخری زیادہ تر خاموش رہنے لگے تھے۔ انھیں لاہور کے قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • یومِ‌ وفات:‌ ملّی نغمہ ’’چاند روشن چمکتا ستارہ رہے‘‘ منوّر سلطانہ نے گایا تھا

    یومِ‌ وفات:‌ ملّی نغمہ ’’چاند روشن چمکتا ستارہ رہے‘‘ منوّر سلطانہ نے گایا تھا

    7 جون 1995ء کو پاکستان کی مشہور گلوکارہ منور سلطانہ لاہور میں وفات پاگئی تھیں۔ پاکستان کے مشہور قومی نغمات ’’چاند روشن چمکتا ستارہ رہے‘‘ اور ’’اے قائدِ اعظم تیرا احسان ہے احسان‘‘ بھی منور سلطانہ کی آواز میں ریکارڈ کیے گئے تھے۔

    منور سلطانہ 1925ء میں لدھیانہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے فلمی کیریئر کا آغاز قیامِ پاکستان سے پہلے فلم مہندی سے ہوا تھا۔ منور سلطانہ نے فلمی صنعت کے ابتدائی دور کی کئی فلموں کے لیے اپنی آواز میں‌ نغمات ریکارڈ کروائے جو بہت مقبول ہوئے۔

    گلوکارہ منور سلطانہ نے موسیقی کی تعلیم ریڈیو پاکستان کے مشہور کمپوزر عبدالحق قریشی عرف شامی سے حاصل کی تھی جب کہ تیری یاد جسے پاکستان کی پہلی فلم کہا جاتا ہے، اس کے متعدد نغمات بھی منور سلطانہ کی آواز میں ریکارڈ ہوئے تھے۔

    منور سلطانہ نے جن فلموں کے لیے اپنے فنِ گائیکی کا مظاہرہ کیا ان میں پھیرے، محبوبہ، انوکھی داستان، بے قرار، دو آنسو، سرفروش، اکیلی، نویلی، محبوب، جلن، انتقام، بیداری اور لخت جگر شامل ہیں۔

    اپنے فنی کیریئر کے عروج میں منور سلطانہ ریڈیو پاکستان، لاہور کے اسٹیشن ڈائریکٹر ایوب رومانی سے شادی کرنے کے بعد فلم اور گلوکاری سے کنارہ کش ہوگئی تھیں۔ پچاس سے ساٹھ کی دہائی کے دوران شائقینِ سنیما اور سامعین نے ان کی آواز میں کئی خوب صورت گیت سنے اور انھیں بے حد پسند کیا۔

  • ممتاز ادیب، ڈرامہ نگار اور اداکار ڈاکٹر انور سجّاد کی برسی

    ممتاز ادیب، ڈرامہ نگار اور اداکار ڈاکٹر انور سجّاد کی برسی

    اردو کے نام وَر ادیب، ڈرامہ و افسانہ نگار، نقّاد، مترجم اور صدا کار ڈاکٹر انور سجّاد 6 جون 2019ء میں وفات پاگئے تھے۔ وہ ترقّی پسند ادیب تھے جن کے نظریات اور افکار ان کی تحریروں سے جھلکتے ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے 1989ء میں انھیں تمغہٴ حسن کارکردگی سے نوازا تھا۔

    انور سجاد نے 1935ء میں‌ لاہور میں‌ آنکھ کھولی اور ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد طبّی تدریس کے لیے مشہور لاہور کے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں‌ داخلہ لے لیا، جہاں‌ سے ایم بی بی ایس کی ڈگری لی، لیکن طبیعت اور رجحان فنون لطیفہ کی طرف مائل تھا، سو ان کی شہرت کا سبب علم و ادب کے مختلف شعبے رہے۔

    انور سجاد کی مشہور کتابوں میں چوراہا، جنم کا روپ، خوشیوں کا باغ، نیلی نوٹ بک شامل ہیں۔ وہ صدا کاری اور اداکاری کا بھی شوق رکھتے تھے۔ انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے ڈرامے تحریر بھی کیے اور خود اداکار کے طور پر اسکرین پر بھی نظر آئے۔

    ناقدین کے مطابق انور سجاد کے افسانے ہوں یا ڈرامے، ان میں استعاراتی طرزِ فکر کو انتہائی مہارت اور کام یابی سے برتا گیا ہے۔ ان کی تحریریں گہرائی اور وسعت کی حامل اور کثیرالجہت ہوتی تھیں۔

    ڈاکٹر انور سجاد کے لکھے ہوئے ٹی وی ڈرامے بھی ناظرین میں مقبول ہوئے۔ انھوں نے طویل دورانیے کے کھیل بھی تحریر کیے۔ ان کے تحریر کردہ ڈراموں میں ’’پکنک، رات کا پچھلا پہر، کوئل، صبا اور سمندر اور یہ زمیں میری ہے‘‘ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی ایک ڈرامہ سیریز ’’زرد دوپہر‘‘ بھی بہت مشہور ہوئی تھی۔

    ڈاکٹر انور سجّاد نے لاہور میں‌ وفات پائی اور وہیں‌ ایک قبرستان میں‌ آسودہ خاک ہیں۔

  • معروف کلاسیکی گلوکار استاد ذاکر علی خان کا یومِ وفات

    معروف کلاسیکی گلوکار استاد ذاکر علی خان کا یومِ وفات

    6 جون 2003ء کو پاکستان کے معروف کلاسیکی گلوکار استاد ذاکر علی خان نے ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔ ان کا تعلق موسیقی اور گائیکی کے لیے مشہور شام چوراسی گھرانے سے تھا۔

    استاد ذاکر علی خان 1945ء میں ضلع جالندھر کے مشہور قصبے شام چوراسی میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ استاد نزاکت علی خان، سلامت علی خان کے چھوٹے بھائی تھے۔ ذاکر علی خان اپنے بڑے بھائی اختر علی خان کے ساتھ مل کر گایا کرتے تھے۔ 1958ء میں جب وہ 13 برس کے تھے تو پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان ملتان پر گائیکی کا مظاہرہ کیا۔ بعدازاں انھیں آل پاکستان میوزک کانفرنس میں مدعو کیا جاتا رہا۔

    استاد ذاکر علی خان نے بیرونِ ملک بھی کئی مرتبہ پرفارمنس دی۔ خصوصاً 1965ء میں کلکتہ میں ہونے والی آل انڈیا میوزک کانفرنس میں ان کی پرفارمنس کو یادگار کہا جاتا ہے۔ اس کانفرنس میں فن کا مظاہرہ کرنے پر انھیں ٹائیگر آف بنگال کا خطاب بھی دیا گیا تھا۔ دنیائے موسیقی اور فنِ گائیکی کے لیے شہرت پانے والے استاد ذاکر علی خان نے ایک کتاب نو رنگِ موسیقی بھی لکھی تھی جو بہت مشہور ہے۔

    استاد ذاکر علی خان لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یومِ وفات: یونس پہلوان کو "ستارۂ پاکستان” کا خطاب دیا گیا تھا

    یومِ وفات: یونس پہلوان کو "ستارۂ پاکستان” کا خطاب دیا گیا تھا

    ستارۂ پاکستان کا خطاب پانے والے یونس پہلوان 6 جون1964ء کو انتقال کر گئے تھے۔ آج پاکستان کے اس مشہور پہلوان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا اصل نام یونس خان تھا جو تن سازی کے شوق اور کشتی کے کھیل کے سبب ہر خاص و عام میں یونس پہلوان مشہور ہوگئے۔

    یونس خان 30 دسمبر 1925ء کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ وہ رستمِ ہند رحیم پہلوان سلطانی والا کے شاگرد تھے۔ انھوں نے پہلا دنگل 1941ء میں لڑا تھا اور اس کے اگلے برس رستم پنجاب چراغ نائی پہلوان سے مقابلہ کیا جس میں حریف کو شکست دے کر رستمِ پنجاب کا ٹائٹل اپنے نام کرنے میں کام یاب ہوئے۔

    رستمِ پنجاب کا خطاب پانے کے بعد انھوں نے متعدد مقابلوں میں پہلوانوں کو یکے بعد دیگرے شکست دی۔ 1948ء میں منٹو پارک لاہور میں یونس نے بھولو پہلوان سے مقابلہ کیا جس میں ناکام رہے۔ 1949ء میں یہ دونوں پہلوان ایک مرتبہ پھر کراچی میں‌ آمنے سامنے تھے، لیکن قسمت نے یاوری نہ کی اور یونس پہلوان اس مرتبہ بھی بھولو کو نہ ہرا سکے اور رستمِ پاکستان کا اعزاز ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ تاہم ایک زور آور اور بہترین کھلاڑی کی حیثیت سے یونس پہلوان نے اپنی شہرت قائم رکھی تھی۔

    یونس پہلوان گوجرانوالہ کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ممتاز نقّاد، افسانہ نگار، مترجم اور ماہرِ تعلیم مجنوں گورکھپوری کی برسی

    ممتاز نقّاد، افسانہ نگار، مترجم اور ماہرِ تعلیم مجنوں گورکھپوری کی برسی

    اردو کے ممتاز نقّاد، محقق، مترجم، ماہرِ تعلیم اور افسانہ نگار مجنوں گورکھ پوری 4 جون 1988ء کو اس جہانِ‌ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج اردو زبان کی اس نام وَر شخصیت کی برسی ہے۔

    مجنوں گورکھپوری کا اصل نام احمد صدیق تھا۔ وہ 10 مئی 1904ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر گورکھ پور میں پیدا ہوئے تھے۔ علم و ادب کی دنیا میں مجنوں نے اپنی قابلیت اور فن کی بدولت بڑا نام پیدا کیا اور مقام بنایا۔

    ان کا شمار اردو کے چند بڑے نقّادوں میں ہوتا ہے جنھوں نے نقوش و افکار، نکاتِ مجنوں، تنقیدی حاشیے، تاریخِ جمالیات، ادب اور زندگی، غالب شخص اور شاعر جیسا سرمایہ کتابی شکل میں چھوڑا ہے۔

    مجنوں گورکھ پوری ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے۔ ان کے افسانوں کے مجموعے خواب و خیال، مجنوں کے افسانے، سر نوشت، سوگوار شباب اور گردش کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ کراچی میں بطور استاد خدمات انجام دیں۔

    انگریزی زبان و ادب پر بھی مجنوں گورکھ پوری کی گہری نظر تھی۔ انھوں نے شیکسپیئر، ٹالسٹائی، بائیرن، برنارڈ شا اور جان ملٹن کی تخلیقات کو بھی اردو کے قالب میں ڈھالا تھا۔

    مجنوں گورکھ پوری کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یومِ وفات: کافکا نہیں‌ چاہتا تھا کہ اس کی کہانیاں پڑھی جائیں!

    یومِ وفات: کافکا نہیں‌ چاہتا تھا کہ اس کی کہانیاں پڑھی جائیں!

    فرانز کافکا کو بیسویں صدی کے بہترین ناول نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ تین جون 1924ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔

    کافکا نے 1883ء میں چیکوسلاواکیہ کے ایک قصبے پراگ میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے کافکا نے قانون میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ وہ یہودی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور یہی اس کا مذہب رہا۔ کافکا نے شادی نہیں‌ کی تھی۔

    فرانز کافکا ناول نگار اور کہانی کار تھا۔ اس کی کہانیوں میں تمثیلی انداز متاثر کن ہے۔ مشہور ہے کہ کافکا نے اپنی کچھ تخلیقات کو خود نذرِ آتش کردی تھیں جب کہ اپنے ایک دوست کو یہ وصیت کی تھی کہ وفات کے بعد اس کے مسوّدے جلا دے، لیکن دوست نے اس کی وصیّت پر عمل نہیں‌ کیا۔ شاید وہ نہ چاہتا ہو کہ اس کی تخلیقات پڑھی جائیں لیکن موت کے بعد جب یہ تخلیقات سامنے آئیں تو ان کی ادبی حیثیت اور کافکا کے مرتبے پر بھی بات ہوئی۔

    فرانز کافکا کے ناولوں ’دی ٹرائل‘ اور ’دی کاسل‘ کو دنیا بھر میں سراہا گیا اور یہ ناول کئی زبانوں میں ترجمہ ہوئے۔

    کافکا نے زندگی کی فقط 40 بہاریں دیکھیں اور پھر دنیا سے منہ موڑ لیا۔ یہاں ہم کافکا کی ایک مشہور تمثیل نقل کررہے ہیں جسے جرمن زبان سے مقبول ملک نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔

    "ایک شاہی پیغام”
    بادشاہ نے، کہتے یہی ہیں، تمہیں، فردِ واحد کو، جو اس کی رعایا کا ادنیٰ سا حصہ ہے، بادشاہت کے سورج سے فرار ہو کر زیادہ سے زیادہ ممکن دوری پر پناہ لے چکے انتہائی چھوٹے سے حقیر سائے کو، ہاں تمہیں، تمہیں ہی تو، بادشاہ نے اپنے بسترِ مرگ سے ایک پیغام بھجوایا ہے۔

    بادشاہ کے اشارے پر قاصد نے شاہی بستر کے پاس زمین پر اپنے گھٹنے ٹیکے تو انتہائی علیل بادشاہ نے قاصد کو تمہارے نام اپنا یہ پیغام سرگوشی میں دیا۔ بادشاہ کے لیے یہ پیغام انتہائی اہم تھا۔ اسی لیے قاصد سے کہا گیا کہ وہ سرگوشی میں یہی پیغام بادشاہ کے کان میں دہرائے۔ جب قاصد یہ پیغام دہرا چکا تو بادشاہ نے جو کچھ سرگوشی میں سنا تھا، اس کے درست ہونے کی سر ہلا کر تصدیق بھی کر دی۔

    اس وقت بادشاہ کو مرتے دیکھنے والے جتنے بھی لوگ وہاں موجود تھے، ان کے اور بادشاہ کے درمیان رکاوٹ بننے والی تمام چلمنیں ہٹا دی گئی تھیں، تمام رکاوٹی پردے گرائے جا چکے تھے اور سامنے دور اوپر تک جانے والی گول سیڑھیوں پر دائرے کی شکل میں سلطنت کے تمام شہزادے کھڑے تھے۔ ان سب کے سامنے قاصد نے خود کو فوراً سفر کے لیے تیار کیا اور وہاں سے چل پڑا۔

    قاصد ایک مضبوط جسم والا ایسا شخص تھا جو کبھی تھکتا نہیں تھا۔ وہ حاضرین کے ہجوم کو کبھی اپنے دائیں اور کبھی بائیں بازو سے پیچھے ہٹاتے اور اپنے لیے راستہ بناتے ہوئے وہاں سے گزر رہا تھا۔ جہاں کہیں اسے کچھ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا، وہ اپنے سینے پر چمکتا سورج کا نشان دکھا دیتا۔ وہ اتنی آسانی سے آگے بڑھ رہا تھا، جتنی کسی دوسرے کے لیے ممکن ہی نہیں تھی۔

    لیکن ہجوم بہت ہی بڑا تھا۔ عام لوگوں کے تو محل سے باہر گھروں کے سلسلے بھی بڑے طویل تھے۔ اگر وہ جلد ہی کسی کھلی جگہ پہنچ جاتا، تو وہ اتنی تیزی سے سفر کرتا، جیسے اڑ رہا ہو۔ اور پھر جلد ہی تم یہ آواز سنتے کہ وہ اپنی ہتھیلیوں کے مُکے بنا کر تمہارے دروازے پر زبردست انداز میں دستک دے رہا ہوتا۔

    لیکن اس کے بجائے وہ تو ابھی تک محل کے سب سے اندرونی حصے کے مختلف کمروں سے گزرتے ہوئے اپنے لیے راستہ بنانے میں ہی مصروف تھا۔ اس کی یہ کاوش بالکل بے نتیجہ ہوتی جا رہی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ وہ ان کمروں سے نکلنے میں کبھی کام یاب نہیں ہو پائے گا۔ اور اگر کام یاب ہو بھی گیا، تو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا، کیوں کہ اسے ابھی سیڑھیاں اترنے کے لیے بھی لڑائی کرنا تھی۔

    اگر وہ سیڑھیاں اترنے میں کام یاب ہو بھی گیا، تو اس کا بھی کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ اس لیے کہ سیڑھیوں کے بعد اسے کئی وسیع و عریض برآمدے بھی عبور کرنا تھے۔ ان دالانوں کے بعد ایک دوسرا محل تھا جس نے اس محل کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا جہاں سے نکلنے کی قاصد کوشش کر رہا تھا۔ اس دوسرے محل کے بعد بھی، پھر سیڑھیاں اور برآمدے تھے اور پھر ایک اور محل۔

    یہ جدوجہد یونہی جاری رہی۔ ہزاروں سال تک۔ وہ قاصد بالآخر محل کے سب سے بیرونی دروازے سے باہر نکلنے میں کام یاب ہو سکا؟ کبھی نہیں۔ ایسا تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔ قاصد اگر کبھی محل سے باہر نکلتا بھی، تو پہلے اس کے سامنے شاہی دارالحکومت ہوتا، دنیا کا مرکز، اپنی ہی مٹی میں اس طرح دفن جیسے پھٹنے کو ہو۔

    یہاں سے تو کبھی کوئی گزر ہی نہیں سکتا۔ کسی مردے کا پیغام لے کر جانے والا تو کبھی بھی نہیں۔ تم لیکن اپنے گھر کی کھڑکی کے پاس بیٹھے ہو، جب شام گہری ہونے لگے، تو تم بس اس پیغام کے ملنے کے خواب ہی دیکھتے رہنا۔