Tag: جون ایلیا

  • جون ایلیا:‌ اذیّت و آزار کا آدمی

    جون ایلیا:‌ اذیّت و آزار کا آدمی

    جون ایلیا کو اس دور میں بالخصوص نوجوان نسل کا مقبول شاعر تو کہا ہی جاتا ہے، لیکن وہ بطور شاعر اور نثر نگار بھی اپنے منفرد لب و لہجے اور طرزِ بیان کی وجہ سے اپنی ایک جداگانہ شناخت رکھتے ہیں جون ایلیا اپنے ہی مزاج کے شاعر تھے۔ وہ الفت و کلفت، روٹھنے منانے تک نہیں‌ محدود نہیں رہے بلکہ ان کی خود پسندی اور انا انھیں دُشنام طرازی تک لے جاتی ہے۔

    آج جون ایلیا کی برسی ہے جنھیں شاعری میں روایت کا باغی اور بے باک شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ جون ایلیا حسن پرست اور وصالِ یار کے مشتاق تو نظر آتے ہیں، لیکن اپنے اشعار میں وہ زندگی سے بیزاری کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ جب یہ بیزاری اُن پر حاوی ہو جاتی ہے تو وہ اپنے محبوب کو بھی برداشت نہیں کرتے۔ میر جیسا دماغ تو اُن کو نہیں رہا، لیکن غالب جیسی انا ضرور اُن میں‌ تھی۔ جون ایلیا کہتے ہیں،

    حسن سے عرضِ شوق نہ کرنا، حسن کو زک پہنچانا ہے
    ہم نے عرضِ شوق نہ کر کے حسن کو زک پہنچائی ہے

    ان کی نظم سزا کا یہ بند ملاحظہ کیجیے

    میں نے یہ کب کہا تھا محبت میں ہے نجات
    میں نے یہ کب کہا تھا وفادار ہی رہو
    اپنی متاعِ ناز لٹا کر مرے لیے
    بازارِ التفات میں نادار ہی رہو

    جون ایلیا کی شخصیت پر ان کے دوست قمر رضی نے لکھا، "ایک زود رنج مگر بے حد مخلص دوست، اک شفیق اور بے تکلف استاد، اپنے خیالات میں ڈوبا ہوا راہ گیر، اک مرعوب کن شریکِ بحث، ایک مغرور فلسفی، اک فوراً رو دینے والا غم گسار، ناروا حد تک خود دار اور سرکش عاشق، ہر وقت تمباکو نوشی میں مبتلا رہنے والا خلوت پسند، انجمن ساز، بہت ہی ناتواں مگر ساری دنیا سے بیک وقت جھگڑا مول لے لینے کا خوگر، سارے زمانے کو اپنا محرم بنا لینے والا نامحرم، حد درجہ غیر ذمہ دار، بیمار، ایک شدید الحس نادرہ کار شاعر، یہ ہے وہ فن کار جسے جون ایلیا کہتے ہیں۔”

    اردو کا یہ مقبول شاعر 2002ء میں آج ہی کے روز یہ دنیا چھوڑ گیا تھا۔ جون ایلیا ایک شاعر اور انشائیہ نگار تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عربی اور فارسی زبان بھی جانتے تھے۔ جون ایلیا زبان و بیان کی باریکیوں اور املا انشا کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اردو کے ممتاز شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں، "جون ایلیا اپنے معاصرین سے نہایت درجہ مختلف اور منفرد شاعر ہیں۔ ان کی شاعری پر یقینا اردو، فارسی عربی شاعری کی چھوٹ پڑ رہی ہے مگر وہ ان کی روایات کا استعمال بھی اتنے انوکھے اور رسیلے انداز میں کرتے ہیں کہ بیسویں صدی کے آخری نصف میں ہونے والی شاعری میں ان کی آواز نہایت آسانی سے الگ پہچانی جاتی ہے۔”

    روایت شکنی، اختلافِ رائے، مباحث اور کسی بھی بات کا رد شاید جون ایلیا کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ اس سے محظوظ تو ہوتے ہی تھے، لیکن اپنا نقطۂ نظر واضح کرنے کے لیے دلیل و منطق اور تاریخی حوالہ جات سامنے رکھتے۔ تاریخ و فلسفہ، مذہب اور ثقافتی موضوعات پر ان کی خوب نظر تھی۔

    جون ایلیا 14 دسمبر 1931ء کو امروہہ کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اصغر نقوی ان کا نام رکھا گیا لیکن قلمی نام سے شہرت پائی۔ وہ جس گھرانے کے فرد تھے اس میں سب علم و فن کے رسیا، زرخیز ذہن کے مالک اور روشن خیال لوگ تھے۔ جون ایلیا کے والد علّامہ شفیق حسن ایلیا اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبانوں کے عالم تھے۔ جون ایلیا کے بھائی سید محمد تقی دانش وَر اور فلسفی مشہور تھے۔ ایک بھائی رئیس امروہوی اردو کے بڑے شاعر اور صحافی گزرے ہیں۔ جون صاحب کے گھر میں علمی و ادبی نشستوں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ وہ اس ماحول کے پروردہ تھے جس میں کائنات کے اسرار و رموز سے لے کر زندگی کے حسین اور بدنما پہلوؤں تک ہر موضوع پر بات کی جاتی تھی۔ جون ایلیا نے جلد ہی شعر موزوں کرنا سیکھ لیا اور نثر میں‌ بھی اظہارِ خیال کرنے لگے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ شاید کے عنوان سے شایع ہوا جس کا پیش لفظ اس قدر مقبول ہوا کہ ان کے مداح آج بھی اسے ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں۔ جون ایلیا رومان پرور انسان تھے اور ان کی خیالی محبوباؤں سے الفت اور کلفت کا سلسلہ سخن میں‌‌ ڈھلتا رہا۔ جون ایلیا اپنی کتاب شاید کے پیش لفظ میں قلم طراز ہیں: "میری عمر کا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم اور ماجرا پرور سال تھا۔ اس سال میری زندگی کے دو سب سے اہم حادثے، پیش آئے۔ پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا۔ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں نے پہلا شعر کہا:
    چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
    دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی

    معروف کالم نگار اور مصنفہ زاہدہ حنا ان کی شریکِ سفر رہیں۔ ان کی تین اولادیں ہیں جن میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں۔ اس جوڑے کے درمیان علیحدگی ہوگئی تھی۔ جون ایلیا کے شعری مجموعے شاید، یعنی، لیکن، گمان اور گویا کے نام سے شایع ہوئے۔ ان کی مطبوعہ نثری کتب میں حسن بن صباح اور جوہر صقلی شامل ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے جون ایلیا کو سنہ 2000ء میں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ جون ایلیا کی شاعری ان کے لہجے کی بیباکی، اشعار میں برجستگی اور خاص طور پر شاعری میں محبوب سے اُن کی بے تکلفی نے انھیں نئی نسل کا مقبول ترین شاعر بنا دیا۔ سوشل میڈیا کے دور میں آنکھ کھولنے والے نوجوانوں‌ کی بڑی تعداد ان کی مداح ہے اور جون ایلیا کو سننا اور پڑھنا پسند کرتی ہے۔

  • جون ایلیا: جھگڑا مول لے لینے کا خوگر شاعر

    جون ایلیا: جھگڑا مول لے لینے کا خوگر شاعر

    جون ایلیا اپنے مزاج کے شاعر تھے۔ اذیت اور آزار کے آدمی! بلاشبہ اردو نظم اور نثر میں ان کے لہجے کا انفراد، ندرتِ بیان اور انداز انھیں ہم عصر شعراء میں ممتاز اور ہر خاص و عام میں مقبول بناتا ہے۔ آج جون ایلیا کی برسی ہے۔

    اردو شاعری کو منفرد لب و لہجہ اور آہنگ عطا کرنے والے جون ایلیا حسن پرست اور وصالِ یار کے مشتاق تو نظر آتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ زندگی سے بیزاری کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اور جب یہ بیزاری اُن پر حاوی ہو جاتی ہے تو وہ اپنے محبوب کو بھی برداشت نہیں کرتے۔ میر جیسا دماغ اُن کو شاید نہیں تھا، لیکن غالب جیسی انا ضرور اُن میں‌ تھی۔ جون ایلیا کہتے ہیں،

    حسن سے عرضِ شوق نہ کرنا، حسن کو زک پہنچانا ہے
    ہم نے عرضِ شوق نہ کر کے حسن کو زک پہنچائی ہے

    جون ایلیا کا انشائیہ پڑھیے

    ان کی نظم سزا کا یہ بند ملاحظہ کیجیے

    میں نے یہ کب کہا تھا محبت میں ہے نجات
    میں نے یہ کب کہا تھا وفادار ہی رہو
    اپنی متاعِ ناز لٹا کر مرے لیے
    بازارِ التفات میں نادار ہی رہو

    جون ایلیا الفت و کلفت، روٹھنے منانے تک نہیں‌ محدود نہیں رہتے بلکہ ان کی خود پسندی اور انا انھیں دُشنام طرازی تک لے جاتی ہے۔

    جون ایلیا کی شخصیت پر ان کے دوست قمر رضی نے لکھا، "ایک زود رنج مگر بے حد مخلص دوست، اک شفیق اور بے تکلف استاد، اپنے خیالات میں ڈوبا ہوا راہ گیر، اک مرعوب کن شریکِ بحث، ایک مغرور فلسفی، اک فوراً رو دینے والا غم گسار، ناروا حد تک خود دار اور سرکش عاشق، ہر وقت تمباکو نوشی میں مبتلا رہنے والا خلوت پسند، انجمن ساز، بہت ہی ناتواں مگر ساری دنیا سے بیک وقت جھگڑا مول لے لینے کا خوگر، سارے زمانے کو اپنا محرم بنا لینے والا نامحرم، حد درجہ غیر ذمہ دار، بیمار، ایک شدید الحس نادرہ کار شاعر، یہ ہے وہ فن کار جسے جون ایلیا کہتے ہیں۔”

    جون ایلیا کی ایک تحریر پڑھیے

    اردو کا یہ مقبول شاعر 2002ء میں آج ہی کے دن یہ دنیا چھوڑ گیا تھا۔ جون ایلیا ایک شاعر، فلسفی، انشائیہ نگار تھے جو اردو کے علاوہ عربی، فارسی زبانیں بھی جانتے تھے۔ وہ زبان و بیان کی باریکیوں اور املا انشا کا بہت خیال رکھتے تھے۔

    ان کے بارے میں ممتاز شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں "جون ایلیا اپنے معاصرین سے نہایت درجہ مختلف اور منفرد شاعر ہیں۔ ان کی شاعری پر یقینا اردو، فارسی عربی شاعری کی چھوٹ پڑ رہی ہے مگر وہ ان کی روایات کا استعمال بھی اتنے انوکھے اور رسیلے انداز میں کرتے ہیں کہ بیسویں صدی کے آخری نصف میں ہونے والی شاعری میں ان کی آواز نہایت آسانی سے الگ پہچانی جاتی ہے۔”

    روایت شکنی، اختلافِ رائے، مباحث اور کسی بھی بات کا رد شاید جون ایلیا کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ اس سے محظوظ تو ہوتے ہی تھے، لیکن اپنا نقطۂ نظر واضح کرنے کے لیے دلیل و منطق اور تاریخی حوالہ جات سامنے رکھتے۔ تاریخ و فلسفہ، مذہب اور ثقافتی موضوعات پر ان کی خوب نظر تھی۔

    جون ایلیا امروہہ کے ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے تھے جس میں‌ سبھی لوگ علم و فن کے رسیا، زرخیز ذہن کے مالک اور روشن خیال تھے۔ جون ایلیا کا سنہ پیدائش 14 دسمبر 1931ء ہے، ان کے والد علّامہ شفیق حسن ایلیا اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبانوں کے عالم تھے۔ جون ایلیا کے بھائی سید محمد تقی دانش وَر اور فلسفی مشہور تھے جب کہ رئیس امروہوی اردو کے بڑے شاعر تھے۔ ان کے گھر میں علمی و ادبی نشستوں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ جون ایلیا ایسے ماحول کے پروردہ تھے جس میں کائنات کے اسرار و رموز سے لے کر زندگی کے حسین اور بدنما پہلوؤں تک انھیں بہت کچھ جاننے، سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا تھا۔ جون ایلیا نے جلد ہی شعر موزوں کرنا سیکھ لیا اور نثر میں‌ بھی اظہارِ خیال کرنے لگے۔

    جون ایلیا کی مطبوعہ نثری کتب میں حسن بن صباح اور جوہر صقلی کے نام شامل ہیں جب کہ شعری مجموعے شاید، یعنی، لیکن، گمان اور گویا کے نام سے شایع ہوئے۔

    حکومتِ پاکستان نے جون ایلیا کو سنہ 2000ء میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ جون ایلیا کی شاعری ان کے لہجے کی بیباکی، اشعار میں برجستگی اور خاص طور پر شاعری میں محبوب سے اُن کی بے تکلفی نے انھیں نئی نسل کا مقبول ترین شاعر بنا دیا۔ سوشل میڈیا کے دور میں آنکھ کھولنے والے نوجوانوں‌ کی بڑی تعداد ان کی مداح ہے اور جون ایلیا کو سننا اور پڑھنا پسند کرتی ہے۔

  • سیّد محمد تقی: ممتاز فلسفی اور دانش وَر

    سیّد محمد تقی: ممتاز فلسفی اور دانش وَر

    سیّد محمد تقی کو عالمی سطح پر ایک مفکّر اور فلسفی کے طور پر پہچانا جاتا ہے جن کی تصانیف علم و دانش کے موتیوں‌ پر مشتمل خزانہ ہے۔ سیّد محمد تقی 25 جون 1999ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    سیّد محمد تقی کا شمار ان نابغۂ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے جن کے لیکچرز اور کتابیں نسلِ نو کی فکر کو سمت دینے اور نظریاتی بنیادوں پر ان کی تربیت کرنے میں اپنا کردار آج بھی ادا کررہی ہیں۔ عالمی سطح پر ایک مدبّر کے طور پر سید محمد تقی پاکستان کا روشن حوالہ ہیں۔ وہ ایسے بیدار مغز، متجسس انسان تھے جو قدیم و جدید علوم میں گہری دل چسپی رکھتے تھے اور ان کے مطالعے کی اہمیت پر زور دیتے تھے۔

    2 مئی 1917ء کو ہندوستان کے مردم خیز خطّے امروہہ میں جنم لینے والے سیّد محمد تقی کا خاندان علم و دانش، فکر و فن کے لیے مشہور رہا ہے۔ ان کے والد علّامہ شفیق حسن ایلیا ایک وسیعُ العلم اور صاحبِ مطالعہ شخص تھے جو اپنے گھر میں علمی و ادبی مجالس کا اہتمام کرتے جس میں اس وقت کی عالم فاضل شخصیات شریک ہوتیں۔ اسی ماحول نے سیّد محمد تقی کو فکری اور نظریاتی بنیاد پر توانا اور تاب دار کیا۔ نام ور صحافی، ادیب اور شاعر رئیس امروہوی اور اردو کے مقبول ترین شاعر جون ایلیا ان کے بھائی تھے۔

    سیّد محمد تقی نے بھی علم و ادب کو اوڑھنا بچھونا بنایا، صحافت بھی ان کا ایک حوالہ ہے۔ ان کی تصانیف کو علمی و ادبی حلقوں کے علاوہ باذوق اور سنجیدہ قارئین نے بھی سراہا۔ سیّد محمد تقی کی ایک مشہور تصنیف “تاریخ اور کائنات، میرا نظریہ” ہے جس میں انھوں نے اپنی فلسفیانہ اور دانش ورانہ سوچ سے ایک جامع اور مربوط نظام کو بیان کرنے کی کوشش ہے۔ ان کی دیگر تصانیف میں پراسرار کائنات، منطق، فلسفہ اور تاریخ، نہج البلاغہ کا تصور الوہیت اور روح اور فلسفہ شامل ہیں۔ کارل مارکس کی مشہور تصنیف داس کیپٹال کو سید محمد تقی نے اردو میں منتقل کیا تھا۔

    کربلا تہذیب کا مستقبل، پاکستانی فلسفی اور دانش ور سید محمد تقی کی آخری کتاب ہے جس کا مسودہ گم ہوگیا تھا اور کئی برس بعد دریافت ہونے پر اسے کتابی شکل میں‌ شایع کیا گیا۔

    انھیں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • نظامِ شمسی کی عجیب تر آیتیں

    نظامِ شمسی کی عجیب تر آیتیں

    انسان نے ہزاروں سال کے اس طویل سفر میں آخر کیا پایا جس میں وہ نامعلوم تاریخ کے تاریک غاروں سے نکل کر سیاروں کی تاب ناک دنیا تک جا پہنچا ہے۔

    مانا جاتا ہے کہ حجری وحشیت سے جوہری مدنیت تک انسانیت کی پیش رفت زمین کے زمانوں کی سب سے زیادہ عظیمُ الشّان سرگزشت ہے اور ابھی تو انسانی علم کی دود بڑھائی ہوئی ہے، ابھی تو وہ گھٹنوں کے بل چل رہا ہے، ابھی تو اسے اپنے پیروں پر سیدھا کھڑا ہونا ہے۔ پھر بھی اس بچّے نے کتنی چیزیں اُلٹ پلٹ کر ڈالی ہیں اور وجود کے صحن میں کیا کچھ لا بکھیرا ہے، کیا کچھ توڑا ہے اور کیا کچھ جوڑا ہے اور اس طرح کیا کچھ پایا ہے اور کیا کچھ بنایا ہے۔

    خیال کیا جاتا ہے کہ اس نظامِ شمسی کی عجیب تر آیتیں اس کرۂ ارض کے سینے پر لکھی گئی ہیں اور یہ کہ یہ سب سے زیادہ ماجرا ناک کرّہ ہے، ایک راست قامت جانور کتنا جوہر دار نکلا ہے جس کے بل پر اس زمین نے آسمان سر پر اٹھایا ہے۔
    یہ سب کچھ ہوا ہے، پر یہ سب کچھ کس لیے ہوا ہے؟ انسان نے ہزاروں سال کے اس سفر میں کیا پایا؟ چاند تمہاری مٹھی میں آگیا ہے اور آیندہ تم سورج کو اپنی بغل میں دبالو گے۔ پر اس سے تمہارا مقصد آخر کیا ہوگا؟ اکتشاد، ایجاد اور تسخیر، دانش کا سب سے بیش قیمت وظیفہ ہیں، مگر کیا انسانوں کا یہ شان دار انہماک اپنے شرم ناک جرائم کو بھلانے کی کوشش تو نہیں؟

    قرن ہا قرن اور ہزارہا ہزار سال کے اس بادیہ نشین نے اپنے گرد پُرہجوم شاہ راہوں اور پُرشکوہ شہروں کی ایک بھیڑ لگا رکھی ہے۔ پر، سوچنا یہ ہے کہ اس بھیڑ میں اس نے کہیں اپنے آپ کو تو نہیں کھو دیا؟

    وہ دانش تاریخ کے یوم القیام میں اپنا کیا جواز پیش کرے گی جس نے اس زمین پر زندگی کو کچھ اور بھی مشکل، کچھ اور بھی ناسازگار بنا دیا ہے۔ اس تہذیب کو تباہ کن اسلحے کے بجائے اپنے وجود کے جواز میں کوئی معقول دلیل پیش کرنا تھی اور یہ ایک الم ناک حقیقت ہے کہ وہ دلیل ابھی تک پیش نہیں کی جاسکی۔ کیا اس عہد کا انسان نیزہ بردار وحشیوں کی نسبت سے زیادہ مطمئن اور زیادہ مسرور ہے۔ کاش یہ دعویٰ کیا جاسکتا کہ ہر آنے والی نسل گزشتہ صدی سے زیادہ سعید اور خوش بخت ثابت ہوئی ہے۔

    اس تہذیب کے بطن میں وہ عفونت آخر کس نے انڈیل دی ہے جس نے اس کے سانسوں کو زہر ناک بنا ڈالا ہے؟ یہ حقیقت بہ شدت معرضِ اظہار میں آنا چاہیے کہ تہذیب کے اس بے مہر اور سلح شور ارتقا کی فضا زندگی کے لیے ناسازگار ثابت ہوچکی ہے۔ ارتقا ایک اصطلاح ہے اور انسانی سکون و سعادت کو بہ ہر حال اصطلاحوں سے زیادہ قیمتی قرار پانا چاہیے۔

    (انشائیہ، از جون ایلیا)

  • کوئلے کی کمائی کالک کے سوا اور کیا ہے؟

    کوئلے کی کمائی کالک کے سوا اور کیا ہے؟

    راستی، راستائی اور راستینی تلاش کرنے والوں کے لیے یہ ایک پُر آشوب زمانہ ہے۔ دلوں میں تاریکی پھیلی ہوئی ہے۔ دلیلوں پر درہمی کی اُفتاد پڑی ہے اور دانش پر دیوانگی کے دورے پڑ رہے ہیں۔

    نیکی اور بدی اس طرح کبھی خلط ملط نہ ہوئی تھیں۔ اِدھر یا اُدھر، جدھر بھی دیکھو، ایک ہی سا حال ہے۔ تیرہ درونی نے اپنی دستاویز درست کی ہے اور کجی، کج رائی اور کج روی کا دستور جاری کیا گیا ہے۔ جو سمجھانے والے تھے، وہ اپنے افادات کی مجلسوں میں بُرائی سمجھا رہے ہیں۔ بُرائی سوچی جا رہی ہے اور بُرا چاہا جا رہا ہے۔ خیال اور مقال کی فضا اس قدر زہر ناک کبھی نہ ہوئی تھی۔ انسانی رشتے اتنے کم زور کبھی نہ پڑے تھے۔

    ایک اور فتنہ برپا ہوا ہے، وہ ادھوری سچائیوں کا فتنہ ہے۔ اس نے انسانیت کی صورت بگاڑ کر رکھ دی ہے۔ ایک آنکھ، ایک کان، اور ایک ٹانگ کی انسانیت زندگی کے حُسنِ تناسب کا نادر نمونہ ٹھہری ہے۔ یہی وہ انسانیت ہے جس کے باعث اس دور میں ہماری تاریخ کے سب سے بدترین واقعات ظہور میں آئے ہیں۔

    گمان گزرتا ہے کہ یہ انسانوں کی نہیں، نسناسوں کی دنیا ہے اور ہم سب نسناس ہیں، جسے دیکھو وہ غیر انسانی لہجے میں بولتا ہوا سُنائی دیتا ہے۔

    سماعتوں پر شیطانی شطحیات نے قبضہ جما لیا ہے۔ یہاں جو بھی کان دھر کر سُن رہا ہے، وہ کانوں کے گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے۔ سو، چاہیے کہ ایسے میں نیک سماعتیں اعتزال اختیار کریں۔ اپنی نیتوں کی نیکی پر سختی سے قائم رہو اور اس کی ہر حال میں حفاظت کرو کہ تمہارے پاس یہی ایک متاع باقی رہ گئی ہے اور یہی تمہاری سب سے قیمتی متاع بھی ہے۔

    نفرتوں کی گرم بازاری اور محبتوں کی قحط سالی میں دکھی انسانیت کے دکھ اور بھی بڑھ گئے ہیں۔ اس بیمار کے تیمار داروں اور غم گساروں کی تعداد آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ اچھائی اور برائی میں ایک عجیب معاملت ہوئی ہے۔ اور وہ یہ کہ انہوں نے اپنے ناموں کا آپس میں تبادلہ کر لیا ہے۔ اب ہر چیز اپنی ضد نظر آتی ہے۔ علم، جہل پر ریجھ گیا تھا اور جہل، علم کے خطاب پر بُری طرح لوٹ پوٹ تھا۔ سو، دونوں ہی نے ایثار سے کام لیا۔

    انسان کو اس دور میں وہ وہ منفعتیں حاصل ہوئی ہیں جن پر ہر دور کا انسان رشک کرے۔ پر اس دور کا خسارہ بھی اس قدر ہی شدید ہے اور وہ یہ کہ انسانوں کے اس انبوہ میں خود انسان ناپید ہوگیا ہے۔ جس مزاج اور جس قماش کی دنیا میں ہم رہتے ہیں، اس کا حال تو یہی ہے اور یہی ہونا بھی تھا۔

    کوئلے کی کمائی کالک کے سوا اور کیا ہے؟ اندرائن کے پیڑ سے کیا کبھی انگور کے خوشے بھی توڑے گئے ہیں؟

    (انشائیہ، از جون ایلیا)

  • اردو کے رسائل اور مسائل (انشائیہ از جون ایلیا)

    اردو کے رسائل اور مسائل (انشائیہ از جون ایلیا)

    افلاطون نے اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف "جمہوریہ” میں ایک نظامِ تعلیم و تربیت مرتّب کیا تھا جس کی رُو سے تین سال سے لے کر چھ سال تک کی عمر کے بچوں کو قصّوں اور حکایتوں کے ذریعہ تعلیم دی جانا چاہیے۔

    اردو کے مدیرانِ رسائل قابلِ داد ہیں جنہوں نے یہ نصاب اپنے قارئین کے لیے تجویز کیا ہے چنانچہ صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارا ادب، ہمارا ادبی شعور ہماری ادبی صحافت سب نابالغ ہیں۔

    جدھر دیکھیے دیوانَ داغ اور فسانۂ عجائب کی نسل پروان چڑھتی نظر آ رہی ہے۔ میر تقی بیچارے ایسے کون سے بڑے شاعر تھے لیکن آج ان کے اعزاز میں ہر رسالہ غزلوں پر غزلیں چھاپ کر گویا غزل کا عرس برپا کر رہا ہے۔ ادبی جرائد کا پورا ادب غزل اور تنقید غزل میں محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ کسی بھی سنجیدہ، بالغ النّظر اور اور ارتقا پذیر سماج کے لیے یہ بات باعث تشویش ہے۔

    آخر ہم کس عہد میں زندگی بسر کر رہے ہیں؟ اس عہد میں زندگی بسرکرنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ کیا کوئی قوم صرف افسانوں غزلوں اور نام نہاد تنقیدی مقالوں کے سہارے زندہ رہ سکتی ہے؟ کیا بیسویں صدی میں کوئی معاشرہ اپنی ادبی صحافت کی اس سطح پر قانع ہو سکتا ہے؟

    یہی نہیں کہ ہماری ادبی صحافت ادبی اور علمی اعتبار سے قطعاً بے مایہ اور مفلس ہے بلکہ علم دشمن بھی ہے۔ اگر کوئی رسالہ نفسیاتی، تاریخی، فلسفی اور سائنسی مباحث و مسائل اور ادبِ عالی کے موضوعات پر مضامین شائع کر دے تو اسے ادبی رسالہ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ادبی رسالہ کی علامت صرف یہ ہے کہ اس کا نصف حصّہ غزلوں سے مخصوص ہو باقی نصف میں کچھ نظمیں ہوں، کچھ افسانے ہوں اور پانچ چھ صفحے کا ایک ادبی مضمون جسے بڑے ہی اعتماد کے ساتھ "مقالہ” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیجیے اردو کا "ادبی، علمی اور تہذیبی مجلہ” مرتب ہو گیا۔

    مدیر کا یہ فرض ہرگز نہیں کہ وہ اپنی طرف سے اداریہ بھی لکھے۔ اسی لیے اب "مدیر” کے بجائے احتياطاً "مرتب” کی اصطلاح اپنا لی گئی ہے۔ مرتب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اردو کے عظیم فن کاروں کی طرف سے تو ادبی مناظرے بھی کر لیتا ہو لیکن خود اردو سے اسے کوئی دل چسپی نہ ہو، مرعوب اسی وقت ہوتا ہے جب مغربی نقادوں کے چند نام گنوائے جائیں۔

    بہرحال یہ ہے ہمارے اکثر رسائل اور ان کے ایڈیٹروں کا حال۔ یہ لوگ سائنسی حقائق اور سماجی مسائل کی اس سیل گاہ میں بالکل از کارِ رفتہ ہو چکے ہیں۔ نہ انہیں معاملات کا شعور ہے اور نہ اپنے فرائض کا احساس، ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ جن قدروں پر ان کا ادب آج تک زندگی بسر کرتا چلا آیا ہے اب ان کا حشر کیا ہوگا۔ چلیے یہ تو دور کی بات ہے آخر وہ یہ کیوں نہیں غور کرتے کہ اردو رسائل کس لیے نامقبول ہیں؟

    یہ صحیح ہے کہ قوم کی معاشی تقدیر انگریزی سے وابستہ ہے اور اسی صورت حال کا اثر اردو زبان سے تعلق رکھنے والے ہر شعبہ اور ہر شخص پر پڑتا ہے لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ اگرچہ بےحد اہم، بے حد اہم رخ سہی، لیکن دوسرا رخ یہ ہے کہ اسی غریب زبان اردو کے روزناموں نے انہی ناسازگار حالات میں انگریزی روزناموں کو بری طرح شکست دے دی ہے اور انقلاب کے بعد تو اردو روزناموں کی رفتارِ ترقی اور بھی تیز ہوتی جا رہی ہے۔ اب یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ دو تین سال کے اندر ہمارے بعض روزنامے ایک لاکھ کی اشاعت تک پہونچ جائیں گے۔

    ماہ ناموں کو غور کرنا چاہیے کہ آخر یہ کیا بات ہے؟ بات یہ ہے کہ اردو کی ماہ نامہ صحافت نے ابھی تک نئے عہد کو نہیں سمجھا ہے۔ وہ اب تک بھی یہی سمجھ رہے ہیں کہ انگریزی کے دو تین نقّادوں اور فرانس کے نفسیاتی مریضوں کے نام رسالوں کو فروخت کرا دیں گے۔ وہ زمانہ گزر گیا جب چند یونانی مفکروں اور مغربی ادیبوں اور ناقدوں کے نام لے کرمرعوب کر لیا جاتا تھا، یہ زمانہ فکر و نظر کی رصانت و ریاضت کا زمانہ ہے۔ آج کے قاری کو مسائل سے ناواقف و بے گانہ خیال کرنا حماقت ہے۔

    قارئین دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ لوگ جو صرف جنسی جاسوسی اور فلمی تحریروں سے بہل سکتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ جو مذہبی، تاریخی، سیاسی، سماجی، نفسیاتی، معلوماتی، ادبی اور علمی مضامین پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ ان لوگوں میں مختلف سطح کے افراد شامل ہیں۔ ادبی اور علمی رسائل کا تعلق انہی لوگوں سے ہے۔

    عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پہلی قسم کے قارئین کی تعداد زیادہ ہے، لیکن یہ غلط ہے۔ اگر یہ صحیح ہوتا تو اردو کے فلمی رسالے لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوا کرتے، درآں حالیکہ ان کا حال بہت ابتر ہے۔

    بات یہ ہے کہ عمر کے ایک خاص حصے ہی میں جنسی اور فلمی موضوعات میں دل چسپی لی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں اس قبیل کے مواد کی مقبولیت کا ایک سبب یہ بھی ہوا کہ یہاں ابھی ایک ڈیڑھ سال پہلے تک پوری قوم سیاسی بے یقینی، نفسیاتی پیچیدگی، سماجی بے ضمیری، ذہنی انتشار اور اخلاقی بدحالی میں مبتلا تھی۔ اس کا رد عمل یہی ہو سکتا تھا کہ سنجیدہ مسائل کی طرف سے توجہ ہٹ جائے۔ انقلاب کے بعد اس صورت حال میں نمایاں فرق ہوا ہے۔

    (اردو کے مقبول ترین شاعر اور نثر نگار جون ایلیا کے انشائیے سے چند پارے جو ماہنامہ "انشاء” کراچی(1959ء) میں شایع ہوا تھا)

  • یومِ پیدائش: اردو کا مقبول ترین شاعر جون ایلیا ‘اپنے شہر کا گرامی نام لڑکا تھا’

    یومِ پیدائش: اردو کا مقبول ترین شاعر جون ایلیا ‘اپنے شہر کا گرامی نام لڑکا تھا’

    آج اردو کے مقبول ترین شاعر جون ایلیا کا یومِ پیدائش ہے۔ فیس بک اور یو ٹیوب کی بدولت آج لاکھوں نوجوان ان کے حلیے، مشاعرہ پڑھنے کے مخصوص انداز سے متاثر نظر آتے ہیں اور ان کی شاعری کو بھی پسند کرتے ہیں۔

    یہ مداح اس خوش نصیب ہیں جو آج کے دور میں گوگل جیسی ‘نعمت’ کا فائدہ اٹھا کر نہ صرف جون ایلیا کی شاعری آسانی سے پڑھ سکتے ہیں بلکہ ان کی شخصیت اور زندگی کے بارے میں بہت کچھ جان سکتے ہیں۔ لیکن چند دہائیوں پہلے جب یہ سب نہیں تھا، تب بھی نوجوانوں کی بڑی تعداد جون ایلیا کی مداح تھی۔ اس وقت علم و ادب اور مطالعہ کا شوق اخبار، مختلف جرائد اور کتابوں سے پورا کیا جاتا تھا، اور پاکستانی نوجوان اپنے ‘محبوب’ شاعر کو پڑھتے اور مشاعروں‌ میں خوب جم کر انھیں سنتے تھے۔ اس زمانے میں ان کی شاعری کے دیوانوں کی بڑی تعداد ایسی بھی تھی جس نے ادبی پرچوں‌ میں ان کی غزلیں اور نظمیں‌ پڑھیں اور ان کی صرف تصویر ہی دیکھ سکے۔

    آج جون صاحب کے مداحوں کی اکثریت اُن کے حلیے اور کلام پیش کرنے کے اُس انداز سے متاثر ہے جس میں‌ وہ کبھی اپنا سر پیٹتے، تو کبھی بال نوچتے نظر آتے ہیں۔ شدّتِ جذبات میں اپنی رانوں پر دونوں ہاتھ مارنا، اور شعر سناتے ہوئے کوئی تذکرہ چھیڑ دینا، حاضرین کی توجہ حاصل کرلیتا تھا۔

    خیال آفرینی اور خوب صورت لفظیات کے اس شاعر کو باغی، انقلابی اور روایت شکن کہا گیا، جب کہ اپنے محبوب سے ان کا منفرد تخاطب، انوکھا اور بے تکلّف انداز شعر و سخن کے دلدادہ نوجوانوں کو بہت بھایا۔

    جون ایلیا 1931ء میں آج ہی کے دن پیدا ہوئے تھے۔ اکثر اپنے کلام اور اپنی گفتگو میں سبھی سے بیزار نظر آنے والے جون ایلیا شاید دوسروں ناراض کرنا بھی خوب جانتے تھے۔ یہاں ہم ان کی ایک نظم ’’درختِ زرد‘‘ کے چند اشعار نقل کررہے ہیں جس میں انھوں نے اپنی زندگی کی کہانی سنائی ہے۔ اس نظم میں‌ وہ اپنے اکلوتے بیٹے زریون سے مخاطب ہیں۔ اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    سنو میری کہانی، پَر میاں میری کہانی کیا
    میں یک سَر رایگانی ہوں، حسابِ رایگانی کیا
    بہت کچھ تھا کبھی شاید پَر اب کچھ بھی نہیں ہوں میں
    نہ اپنا ہم نفس ہوں، میں نہ اپنا ہم نشیں ہوں میں

    کبھی کی بات ہے فریاد میرا وہ کبھی یعنی
    نہیں اس کا کوئی مطلب، نہیں اس کے کوئی معنی
    میں اپنے شہر کا سب سے گرامی نام لڑکا تھا
    میں بے ہنگام لڑکا تھا میں صد ہنگام لڑکا تھا
    مرے دَم سے غضب ہنگامہ رہتا تھا محلّوں میں
    میں حشر آغاز لڑکا تھا، میں حشر انجام لڑکا تھا
    مرے ہندو مسلماں سب مجھے سر پر بٹھاتے تھے
    انہی کے فیض سے معنی مجھے معنی سکھاتے تھے

    سخن بہتا چلا آتا ہے بے باعث کے ہونٹوں سے
    وہ کچھ کہتا چلا آتا ہے بے باعث کے ہونٹوں سے
    میں اشرافِ کمینہ کار کو ٹھوکر پہ رکھتا تھا
    سو میں محنت کشوں کی جوتیاں منبر پہ رکھتا تھا
    میں شاید اب نہیں ہوں وہ، مگر اب بھی وہی ہوں میں
    غضب ہنگامہ پرور خیرہ سر اب بھی وہی ہوں میں
    مگر میرا تھا اک طور اور بھی جو اور ہی کچھ تھا
    مگر میرا تھا اک دور اور بھی جو اور ہی کچھ تھا

    میں اپنے شہر علم و فن کا تھا اک نوجواں کاہن
    مرے تلمیذِ علم و فن مرے بابا کے تھے ہم سن
    مرا بابا مجھے خاموش آوازیں سناتا تھا
    وہ اپنے آپ میں گم مجھ کو پُر حالی سکھاتا تھا
    وہ ہیئت داں وہ عالم نافِ شب میں چھت پہ جاتا تھا
    رصد کا رشتہ سیاروں سے رکھتا تھا نبھاتا تھا
    اسے خواہش تھی شہرت کی نہ کوئی حرص دولت تھی
    بڑے سے قطر کی اک دور بین اس کی ضرورت تھی
    مری ماں کی تمناؤں کا قاتل تھا وہ قلامہ
    مری ماں میری محبوبہ قیامت کی حسینہ تھی
    ستم یہ ہے، یہ کہنے سے جھجکتا تھا وہ فہّامہ
    تھا بے حد اشتعال انگیز بد قسمت وہ علّامہ

    خلف اس کے خذف اور بے نہایت نا خلف نکلے
    ہم اس کے سارے بیٹے انتہائی بے شرف نکلے
    میں اس عالم ترینِ دہر کی فکرت کا منکر تھا
    میں سوفسطائی تھا، جاہل تھا اور منطق کا ماہر تھا
    پر اب میری یہ شہرت ہے کہ میں بس اک شرابی ہوں

    یہ طویل نظم ہے جس کے بارے میں ادیب، شاعر، کالم نگار، مترجم اور صحافی انور احسن صدیقی نے لکھا ہے کہ انھوں‌ نے مدّتوں‌ بعد اپنے بیٹے کو دیکھا تھا جس نے اُن سے بے رخی برتی اور کسی التفاف کا مظاہرہ نہیں کیا۔ تب جون ایلیا نے یہ شاہ کار نظم لکھی جو ان کے شعری مجموعے میں‌ شامل ہے۔ جون ایلیا نے کہا تھا۔

    کام کی بات میں نے کی ہی نہیں
    یہ مرا طورِ زندگی ہی نہیں

  • جون ایلیا:‌ اردو کا مقبول ترین شاعر جسے مغرور فلسفی، سرکش عاشق اور خود پسند کہا جاتا ہے

    جون ایلیا:‌ اردو کا مقبول ترین شاعر جسے مغرور فلسفی، سرکش عاشق اور خود پسند کہا جاتا ہے

    جون ایلیا کا مزاج عاشقانہ تھا۔ وہ اکثر ایک خیالی دنیا آباد کرلیتے اور اپنی محبوبہ سے گفتگو کرتے، حالِ دل بیان کرتے اور الفت و کلفت، روٹھنے منانے کا سلسلہ جاری رہتا۔ انھیں ایسا روایت شکن کہا جاتا ہے جس نے اردو شاعری کو وہ منفرد لب و لہجہ اور آہنگ دیا، جس پر اُن کی خود پسندی، انا، ہَٹ، بیزاری، آزار پسندی، رومانویت اور محبوب سے شکوے شکایات کا رنگ حاوی ہے۔

    جون ایلیا کی شخصیت پر ان کے دوست قمر رضی نے لکھا، "ایک زود رنج مگر بے حد مخلص دوست، اک شفیق اور بے تکلف استاد، اپنے خیالات میں ڈوبا ہوا راہ گیر، اک مرعوب کن شریکِ بحث، ایک مغرور فلسفی، اک فوراً رو دینے والا غم گسار، ناروا حد تک خود دار اور سرکش عاشق، ہر وقت تمباکو نوشی میں مبتلا رہنے والا خلوت پسند، انجمن ساز، بہت ہی ناتواں مگر ساری دنیا سے بیک وقت جھگڑا مول لے لینے کا خوگر، سارے زمانے کو اپنا محرم بنا لینے والا نامحرم، حد درجہ غیر ذمہ دار، بیمار، ایک شدید الحس نادرہ کار شاعر، یہ ہے وہ فن کار جسے جون ایلیا کہتے ہیں۔”

    آج اردو کے اس مقبول شاعر کا یومِ وفات ہے۔ وہ 2002ء میں اس دنیا سے کوچ کرگئے تھے۔ جون ایلیا ایک شاعر، فلسفی، نثر نگار اور زبان و بیان کے ماہر تھے۔انھوں نے اپنی شاعری میں عشق کی نئی جہات کا سراغ لگایا۔

    نام ور شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی کے بقول "جون ایلیا اپنے معاصرین سے نہایت درجہ مختلف اور منفرد شاعر ہیں۔ ان کی شاعری پر یقینا اردو، فارسی عربی شاعری کی چھوٹ پڑ رہی ہے مگر وہ ان کی روایات کا استعمال بھی اتنے انوکھے اور رسیلے انداز میں کرتے ہیں کہ بیسویں صدی کے آخری نصف میں ہونے والی شاعری میں ان کی آواز نہایت آسانی سے الگ پہچانی جاتی ہے۔”

    روایت شکنی، اختلافِ رائے، مباحث اور کسی بھی بات کا ردّ شاید جون ایلیا کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ اس سے محظوظ ہوتے تھے، لیکن مجلس میں دلیل، منطق اور مثال دے کر اپنا مؤقف سب کے سامنے رکھتے۔

    وہ علم و ادب کے بڑے شائق، ایک وسیع المطالعہ شخص تھے اور یہی وجہ تھی کہ علمی مباحث کے دوران تاریخ، فلسفہ، منطق، مذاہبِ عالم، زبانوں، ثقافتوں کا تذکرہ اور مختلف ادوار کی نابغۂ روزگار شخصیات کے نظریات کو بیان کرتے ہوئے، مشہور اور قابلِ‌ ذکر سیاسی و سماجی تحریکوں کے حوالے دیتے چلے جاتے۔

    اس باغی اور روایت شکن شاعر نے امروہہ کے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں سبھی افراد علم و فن کے رسیا، زرخیز ذہن اور روشن فکر تھے۔ ان کے والد علّامہ شفیق حسن ایلیا اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبانوں کے عالم تھے جب کہ نام ور دانشور سید محمد تقی اور اردو کے معروف شاعر رئیس امروہوی ان کے بڑے بھائی تھے۔

    گھر میں آئے روز علمی و ادبی نشستیں، فکری مباحث منعقد ہوا کرتیں اور کم عمر جون ایلیا کو کائنات کے اسرار و رموز سے لے کر زندگی کے حسین اور بدنما پہلوؤں تک سبھی کچھ جاننے، سمجھنے کا موقع مل جاتا۔ اس ماحول کے پروردہ جون ایلیا نے جلد ہی شعر موزوں کرنا سیکھ لیا۔

    14 دسمبر 1931ء کو پیدا ہونے جون ایلیا نظم اور نثر دونوں میں باکمال ٹھہرے۔ وہ شاعر اور ایک انشا پرداز کی حیثیت سے اپنے ہم عصروں میں ممتاز نظر آتے ہیں۔ اپنی باغیانہ فکر کے ساتھ اپنے منفرد لب و لہجے سے انھوں نے نہ صرف دنیائے ادب میں بلند اور نمایاں مقام و مرتبہ حاصل کیا بلکہ ہر خاص و عام میں مقبول ہوئے۔

    جون ایلیا اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبانیں جانتے تھے۔ ان کی مطبوعہ نثری کتب میں حسن بن صباح اور جوہر صقلی کے نام شامل ہیں اور شعری مجموعے شاید، یعنی، لیکن، گمان اور گویا کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر 2000ء میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • جون ایلیا: ‘کبھی کبھی تو بہت یاد آنے لگتے ہو’

    جون ایلیا: ‘کبھی کبھی تو بہت یاد آنے لگتے ہو’

    آج معروف شاعر جون ایلیا کا 89 واں یوم پیدائش منایا جارہا ہے۔ انھیں اس دور کے مقبول شاعر اور ایک پُراثر شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے جن کا مخصوص شعری لب و لہجہ اور کلام ہی مشاعرہ پڑھنے کا منفرد انداز بھی نوجوانوں‌ میں‌ خاصا مقبول ہوا۔

    جون ایلیا کا اصل نام سید جون اصغر تھا۔ وہ 14 دسمبر 1931ء کو امروہہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایسے علمی و ادبی گھرانے سے تھا جس میں زبانوں کے علاوہ اصنافِ ادب، سماجی موضوعات، فلکیات، نجوم اور مختلف موضوعات پر گفتگو اور پڑھنے لکھنے کا رجحان تھا اور یہی نہیں بلکہ علمی مباحث اور نشستیں بھی گویا اس گھر کا معمول تھا۔ ان کے والد علامہ شفیق حسن ایلیا عالم تھے۔

    جون ایلیا اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبانیں‌ جانتے تھے۔ فلسفہ، تاریخ، منطق ان کا موضوع تھا اور شاعری ان کا وہ فن تھا جس نے انھیں‌ شہرت اور مقبولیت دی۔

    جون ایلیا کی زندگی میں ان کا ایک شعری مجموعہ شاید کے نام سے شایع ہوا تھا۔ حکومت پاکستان نے ان کی ادبی خدمات پر 2000ء میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حُسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    جون ایلیا کو ان کی غزلوں اور نظموں میں‌ محبوب سے براہِ راست تخاطب اور مخصوص ڈھب سے شکوے شکایات کے ساتھ ان کے منفرد رومانوی انداز کے سبب خاص طور پر سراہا جاتا ہے۔

    ان کا ایک شعر ہے
    گاہے گاہے بس اب یہی ہو کیا
    تم سے مل کر بہت خوشی ہو کیا

    اور یہ اشعار دیکھیے
    نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
    بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
    خموشی سے ادا ہو رسم دوری
    کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم

    ایک اور شعر ملاحظہ کیجیے
    جی ہی جی میں وہ جل رہی ہوگی
    چاندنی میں ٹہل رہی ہوگی

  • دماغ ماﺅف ہیں…….

    دماغ ماﺅف ہیں…….

    یہ اُن بیماروں کی بستی ہے جو یہ نہ جان سکیں کہ ان کا ہرج مرج کیا ہے؟ ایک سرسامی کیفیت ہے جس میں بولنے والے صرف بڑبڑا رہے ہیں۔

    یہ وہ گونگے ہیں جو اب بولنے پر آئے ہیں تو نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ بولیں تو کیا بولیں۔ سو، انھوں نے زبان سے وہ سب کچھ اُگلنا شروع کردیا ہے جو حلق، نرخرے اور ہونٹوں کی سکت میں ہے۔

    یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ لوگوں نے اپنے دکھوں کو لاعلاج بنا رکھا ہے۔ تمام عمر ٹیڑھے راستے پر چلتے رہے اور جب سیدھے راستے پر پڑنے لگے تو یہی بھول گئے کہ جانا کہاں تھا؟ ہَت تمھاری کی، تم نے جب بھی کی، آزار شعاری اور بد ہنجاری کی۔

    یہ کیسی اُفتاد ہے کہ اُونچے اٹھے تو نیچے چھلانگ لگانے کے لیے۔ زمانے سے مہلت پائی تو اپنے ہی خلاف سازش اور آپس ہی میں دَر اندازی کے لیے۔ یہ کیسی کشایش ہے جس سے دم گھٹا جارہا ہے اور یہ کیسی کشود ہے جس نے گرہوں پر گرہیں ڈال دی ہیں۔

    جو کچھ بھی سوچا گیا ہے، وہ بری طرح سوچا گیا ہے۔ جو ہو رہا ہے، وہ بہت بُرا ہو رہا ہے۔ سَر دھروں نے اپنے چھوٹوں کی چارہ جوئی کے ٹالنے پر ایکا کر لیا ہے۔ اب تو شاید یہ بھی نہیں سوچا جارہا کہ سوچنا کیا تھا۔

    ثروت مندوں کو مژدہ ہوکہ حاجت مندوں نے بھنگ پی رکھی ہے اور اب انھیں کسی چیز کی حاجت نہیں رہی۔ محتاجی نے قابلِ رشک استغنا سیکھ لیا ہے۔ منعموں کو نوید دی جائے کہ فاقہ کشی نے روزہ رکھ لیا ہے۔ دراصل بھوکوں کو بہکا دیا گیا تھا۔ اب انھوں نے سَر جھکاکر سوچ بچار کیا تو معلوم ہوا کہ بھوک لگ ہی نہیں رہی تھی۔ یہ روایت ہی غلط تھی کہ لوگ محرومی میں مبتلا ہیں کہ خود محروموں نے اس کی تردید کر دی ہے۔

    کیا ان بستیوں نے اس لیے آسمان سَر پر اٹھایا تھا کہ اوندھے منہ زمین پر آرہیں۔ جس بندوبست کے خلاف بڑی چنچناہٹ تھی، اب کس طرح سہارا جارہا ہے۔ کیا اب یہ سوچنے کی فرصت باقی رہی کہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے کس کا بھلا ہوگا؟

    دیاروں کے مدبروں اور شہروں کے شہرت مداروں پر وَجد وحال کی کیفیت طاری ہے۔ کچھ معلوم نہیں کہ کون کس کے حق میں بول رہا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کو کس سے شکایت کرنا چاہیے۔

    یہ تمیز مشکل ہے کہ اِس گُھپ اندھیرے میں کس کا گریبان کس کے ہاتھ میں ہے۔ دماغ ماﺅف ہیں، اس لیے کہ اصل غایت کو بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ بھلا دیا گیا ہے، ان جھنجلاہٹوں کی سَرنوشت کیا ہوگی جن میں رعایت دی گئی ہے تو غصب کرنے والوں کو۔ اس پَرخاش اور پیکار کا انجام کیا ہوگا جس میں پناہ دی گئی ہے تو غبن کرنے والوں کو۔

    جون ایلیا کے انشائیے سے انتخاب