Tag: جون ایلیا کی برسی

  • جون ایلیا:‌ اردو کا مقبول ترین شاعر جسے مغرور فلسفی، سرکش عاشق اور خود پسند کہا جاتا ہے

    جون ایلیا:‌ اردو کا مقبول ترین شاعر جسے مغرور فلسفی، سرکش عاشق اور خود پسند کہا جاتا ہے

    جون ایلیا کا مزاج عاشقانہ تھا۔ وہ اکثر ایک خیالی دنیا آباد کرلیتے اور اپنی محبوبہ سے گفتگو کرتے، حالِ دل بیان کرتے اور الفت و کلفت، روٹھنے منانے کا سلسلہ جاری رہتا۔ انھیں ایسا روایت شکن کہا جاتا ہے جس نے اردو شاعری کو وہ منفرد لب و لہجہ اور آہنگ دیا، جس پر اُن کی خود پسندی، انا، ہَٹ، بیزاری، آزار پسندی، رومانویت اور محبوب سے شکوے شکایات کا رنگ حاوی ہے۔

    جون ایلیا کی شخصیت پر ان کے دوست قمر رضی نے لکھا، "ایک زود رنج مگر بے حد مخلص دوست، اک شفیق اور بے تکلف استاد، اپنے خیالات میں ڈوبا ہوا راہ گیر، اک مرعوب کن شریکِ بحث، ایک مغرور فلسفی، اک فوراً رو دینے والا غم گسار، ناروا حد تک خود دار اور سرکش عاشق، ہر وقت تمباکو نوشی میں مبتلا رہنے والا خلوت پسند، انجمن ساز، بہت ہی ناتواں مگر ساری دنیا سے بیک وقت جھگڑا مول لے لینے کا خوگر، سارے زمانے کو اپنا محرم بنا لینے والا نامحرم، حد درجہ غیر ذمہ دار، بیمار، ایک شدید الحس نادرہ کار شاعر، یہ ہے وہ فن کار جسے جون ایلیا کہتے ہیں۔”

    آج اردو کے اس مقبول شاعر کا یومِ وفات ہے۔ وہ 2002ء میں اس دنیا سے کوچ کرگئے تھے۔ جون ایلیا ایک شاعر، فلسفی، نثر نگار اور زبان و بیان کے ماہر تھے۔انھوں نے اپنی شاعری میں عشق کی نئی جہات کا سراغ لگایا۔

    نام ور شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی کے بقول "جون ایلیا اپنے معاصرین سے نہایت درجہ مختلف اور منفرد شاعر ہیں۔ ان کی شاعری پر یقینا اردو، فارسی عربی شاعری کی چھوٹ پڑ رہی ہے مگر وہ ان کی روایات کا استعمال بھی اتنے انوکھے اور رسیلے انداز میں کرتے ہیں کہ بیسویں صدی کے آخری نصف میں ہونے والی شاعری میں ان کی آواز نہایت آسانی سے الگ پہچانی جاتی ہے۔”

    روایت شکنی، اختلافِ رائے، مباحث اور کسی بھی بات کا ردّ شاید جون ایلیا کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ اس سے محظوظ ہوتے تھے، لیکن مجلس میں دلیل، منطق اور مثال دے کر اپنا مؤقف سب کے سامنے رکھتے۔

    وہ علم و ادب کے بڑے شائق، ایک وسیع المطالعہ شخص تھے اور یہی وجہ تھی کہ علمی مباحث کے دوران تاریخ، فلسفہ، منطق، مذاہبِ عالم، زبانوں، ثقافتوں کا تذکرہ اور مختلف ادوار کی نابغۂ روزگار شخصیات کے نظریات کو بیان کرتے ہوئے، مشہور اور قابلِ‌ ذکر سیاسی و سماجی تحریکوں کے حوالے دیتے چلے جاتے۔

    اس باغی اور روایت شکن شاعر نے امروہہ کے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں سبھی افراد علم و فن کے رسیا، زرخیز ذہن اور روشن فکر تھے۔ ان کے والد علّامہ شفیق حسن ایلیا اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبانوں کے عالم تھے جب کہ نام ور دانشور سید محمد تقی اور اردو کے معروف شاعر رئیس امروہوی ان کے بڑے بھائی تھے۔

    گھر میں آئے روز علمی و ادبی نشستیں، فکری مباحث منعقد ہوا کرتیں اور کم عمر جون ایلیا کو کائنات کے اسرار و رموز سے لے کر زندگی کے حسین اور بدنما پہلوؤں تک سبھی کچھ جاننے، سمجھنے کا موقع مل جاتا۔ اس ماحول کے پروردہ جون ایلیا نے جلد ہی شعر موزوں کرنا سیکھ لیا۔

    14 دسمبر 1931ء کو پیدا ہونے جون ایلیا نظم اور نثر دونوں میں باکمال ٹھہرے۔ وہ شاعر اور ایک انشا پرداز کی حیثیت سے اپنے ہم عصروں میں ممتاز نظر آتے ہیں۔ اپنی باغیانہ فکر کے ساتھ اپنے منفرد لب و لہجے سے انھوں نے نہ صرف دنیائے ادب میں بلند اور نمایاں مقام و مرتبہ حاصل کیا بلکہ ہر خاص و عام میں مقبول ہوئے۔

    جون ایلیا اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبانیں جانتے تھے۔ ان کی مطبوعہ نثری کتب میں حسن بن صباح اور جوہر صقلی کے نام شامل ہیں اور شعری مجموعے شاید، یعنی، لیکن، گمان اور گویا کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر 2000ء میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • باغی اور روایت شکن جون ایلیا کی برسی

    باغی اور روایت شکن جون ایلیا کی برسی

    جون ایلیا کو اردو نثر اور نظم میں‌ ان کے منفرد اسلوب اور غیرروایتی انداز نے ہم عصروں‌ میں‌ ممتاز کیا۔ نثر اور نظم دونوں اصنافِ ادب میں‌ بیان و اظہار پر انھیں یکساں قدرت حاصل تھی، لیکن موضوعات اور غیرروایتی انداز کے سبب انھیں ایک باغی اور روایت شکن شاعر کی حیثیت سے زیادہ شہرت ملی۔ آج جون ایلیا کی برسی منائی جارہی ہے۔

    ان کا اصل نام سید جون اصغر تھا۔ 14 دسمبر 1931ء کو جون ایلیا نے امروہہ کے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جو علم و فن کے حوالے شہرت رکھتا تھا۔ جون ایلیا کے والد علامہ شفیق حسن ایلیا اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبان کے عالم تھے۔ نام ور فلسفی اور دانش ور سید محمد تقی اور معروف شاعر رئیس امروہوی جون ایلیا کے بھائی تھے۔ خود جون ایلیا بھی اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبانیں جانتے تھے۔

    جون ایلیا کی تخلیقات میں تاریخ، فلسفہ، منطق اور زبان و بیان کی نزاکتوں نے انھیں‌ ان کے ہم عصروں میں‌ ممتاز کیا۔ شاعری میں‌ وہ اپنے منفرد لب و لہجے اور روایت شکنی کے سبب خاص و عام میں مقبول ہوئے۔ جون ایلیا نے اپنے کلام میں‌ محبوب کو براہِ راست اور نہایت بے تکلفی سے مخاطب کیا:

    شرم، دہشت جھجھک، پریشانی
    ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں
    آپ، وہ، جی، مگر یہ سب کیا ہے
    تم میرا نام کیوں نہیں لیتیں

    ایک اور شعر دیکھیے:

    کس لیے دیکھتی ہو آئینہ
    تم تو خود سے بھی خوب صورت ہو

    جون ایلیا کی زندگی میں ان کا ایک ہی مجموعۂ کلام "شاید” کے نام سے منظرِ عام پر آیا۔ اس شعری مجموعے کا دیباچہ جون کی زندگی کے مختلف واقعات سے آراستہ ہے جسے بہت پسند کیا گیا۔ جون ایلیا کی شاعری کو ہر عمر اور طبقے میں‌ پسند کی گئی۔ جون ایلیا نے روایتی بندشوں سے غزل کو نہ صرف آزاد کیا بلکہ اسے ایک نئے ڈھب سے آشنا کیا۔

    محبوب سے شکوہ کرنا ہو یا اس پر لعن طعن، زمانے کے چلن سے بیزاری اور نفرت کا اظہار کرنا ہو یا کسی رویے پر چوٹ، جون ایلیا نے کسی جھجھک کے بغیر اپنی بات کہہ دی۔ ان کا ایک شعر ہے:

    علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں
    وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے

    یہ شعر دیکھیے:

    نہیں دنیا کو جب پروا ہماری
    تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم

    جون ایلیا مصنف اور مترجم کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی مطبوعہ نثری کتب میں حسن بن صباح اور جوہر صقلی کے نام شامل ہیں جب کہ شاید کے بعد ان کے کلام پر مشتمل مجموعے یعنی، لیکن، گمان اور گویا کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ 8 نومبر 2002 کو اس دنیا سے رخصت ہونے والے جون ایلیا کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • دماغ ماﺅف ہیں…….

    دماغ ماﺅف ہیں…….

    یہ اُن بیماروں کی بستی ہے جو یہ نہ جان سکیں کہ ان کا ہرج مرج کیا ہے؟ ایک سرسامی کیفیت ہے جس میں بولنے والے صرف بڑبڑا رہے ہیں۔

    یہ وہ گونگے ہیں جو اب بولنے پر آئے ہیں تو نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ بولیں تو کیا بولیں۔ سو، انھوں نے زبان سے وہ سب کچھ اُگلنا شروع کردیا ہے جو حلق، نرخرے اور ہونٹوں کی سکت میں ہے۔

    یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ لوگوں نے اپنے دکھوں کو لاعلاج بنا رکھا ہے۔ تمام عمر ٹیڑھے راستے پر چلتے رہے اور جب سیدھے راستے پر پڑنے لگے تو یہی بھول گئے کہ جانا کہاں تھا؟ ہَت تمھاری کی، تم نے جب بھی کی، آزار شعاری اور بد ہنجاری کی۔

    یہ کیسی اُفتاد ہے کہ اُونچے اٹھے تو نیچے چھلانگ لگانے کے لیے۔ زمانے سے مہلت پائی تو اپنے ہی خلاف سازش اور آپس ہی میں دَر اندازی کے لیے۔ یہ کیسی کشایش ہے جس سے دم گھٹا جارہا ہے اور یہ کیسی کشود ہے جس نے گرہوں پر گرہیں ڈال دی ہیں۔

    جو کچھ بھی سوچا گیا ہے، وہ بری طرح سوچا گیا ہے۔ جو ہو رہا ہے، وہ بہت بُرا ہو رہا ہے۔ سَر دھروں نے اپنے چھوٹوں کی چارہ جوئی کے ٹالنے پر ایکا کر لیا ہے۔ اب تو شاید یہ بھی نہیں سوچا جارہا کہ سوچنا کیا تھا۔

    ثروت مندوں کو مژدہ ہوکہ حاجت مندوں نے بھنگ پی رکھی ہے اور اب انھیں کسی چیز کی حاجت نہیں رہی۔ محتاجی نے قابلِ رشک استغنا سیکھ لیا ہے۔ منعموں کو نوید دی جائے کہ فاقہ کشی نے روزہ رکھ لیا ہے۔ دراصل بھوکوں کو بہکا دیا گیا تھا۔ اب انھوں نے سَر جھکاکر سوچ بچار کیا تو معلوم ہوا کہ بھوک لگ ہی نہیں رہی تھی۔ یہ روایت ہی غلط تھی کہ لوگ محرومی میں مبتلا ہیں کہ خود محروموں نے اس کی تردید کر دی ہے۔

    کیا ان بستیوں نے اس لیے آسمان سَر پر اٹھایا تھا کہ اوندھے منہ زمین پر آرہیں۔ جس بندوبست کے خلاف بڑی چنچناہٹ تھی، اب کس طرح سہارا جارہا ہے۔ کیا اب یہ سوچنے کی فرصت باقی رہی کہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے کس کا بھلا ہوگا؟

    دیاروں کے مدبروں اور شہروں کے شہرت مداروں پر وَجد وحال کی کیفیت طاری ہے۔ کچھ معلوم نہیں کہ کون کس کے حق میں بول رہا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کو کس سے شکایت کرنا چاہیے۔

    یہ تمیز مشکل ہے کہ اِس گُھپ اندھیرے میں کس کا گریبان کس کے ہاتھ میں ہے۔ دماغ ماﺅف ہیں، اس لیے کہ اصل غایت کو بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ بھلا دیا گیا ہے، ان جھنجلاہٹوں کی سَرنوشت کیا ہوگی جن میں رعایت دی گئی ہے تو غصب کرنے والوں کو۔ اس پَرخاش اور پیکار کا انجام کیا ہوگا جس میں پناہ دی گئی ہے تو غبن کرنے والوں کو۔

    جون ایلیا کے انشائیے سے انتخاب