Tag: جون ایلیا کی تحریریں

  • تیرے دیوانے یہاں تک پہنچے​!

    تیرے دیوانے یہاں تک پہنچے​!

    بستیاں سوالوں کے انبوہ میں گھری ہوئی ہیں۔ ساتھ ہی وہ مسئلے ہیں جن سے ساری دنیا دوچار ہے۔ ہر مسئلہ اپنے سے بڑے مسئلے کا حل چاہتا ہے اور یہ دائرہ پھیلتا ہی چلا جاتا ہے۔ اگر ہماری آںکھوں پر پٹی بندھی ہوئی، زبان گل نہیں گئی ہے اور عقل کو جنون نہیں ہو گیا ہے تو بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم زندگی کی ان تیز و تند حقیقتوں سے بھاگ کر اپنے اندر پناہ لینا چاہیں؟

    مشاہیرِ ادب کی تحریریں پڑھنے کے لیے لنک کھولیں
    مسئلوں کے اس ہجوم میں انسانیت کے کھوے چھل گئے ہیں۔ تم ذرا دیکھو تو انسانیت کی جواں ہمتی پر کس قدر بوجھ ڈال دیا ہے، پَر انسانیت کا یہ قافلہ افتاں و خیزاں برابر آگے بڑھ رہا ہے جانتے نہ جانتے اور سب کچھ جان کر انجان بننے کے درمیاں ایک جنگ ہے جو صدیوں سے جاری ہے۔ آج بھی سچائی کو جھٹلایا جاتا ہے پر ایسا ہے کہ لہجے کی کھوٹ اور کپٹ اب چھپائے نہیں چھپتی۔ انسان کی تمام بد بختیوں نے نادانی اور ناحق کوشی کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ جھگڑا بس یہ ہے بعض مسخرے اس کرۂ ارض پر سر کے بل چلنا چاہتے ہیں۔ ہم نے انھیں ٹوکا اور برابر ٹوکتے رہیں گے۔ یہ ملکوں اور قوموں کا جھگڑا نہیں ہے قدروں کا جھگڑا ہے۔

    انسانیت ایک خاندان ہے، نہ اس میں کوئی امتیاز ہے اور نہ تفریق۔ جو تفریق پیدا کرتے ہیں وہ اس مقدس خاندان میں شامل نہیں۔ لکھنے والوں اور بولنے والوں کا جتنا بھی مقدور ہو اس کے مطابق عالمگیر سماج کے قیام کی کوشش کرنا ان کا سب سے پہلا فرض ہے۔ یہ وہ مقصد ہے جو ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہے۔ جب ہم امریکا یا انگلستان کو برا کہتے تو وہاں کے شریف عوام اور دانشور مراد نہیں ہوتے وہ ہمارے خاندان کے محترم رکن ہیں۔

    انسانیت دشمن چاہے پاکستان کے رہنے والے ہوں یا امریکا اور انگلستان کے وہ ہماری نفرت کے یکساں طور پر مستحق ہیں۔ دنیا میں صرف دو عقیدے پائے جاتے ہیں۔ انسانیت اور انسانیت دشمن اور صرف دو قومیں رہتی ہیں انسان اور انسان دشمن۔ یہ دنیا کے ہر حصے میں ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہیں۔ یہ شاید ایک اتفاق ہے کہ ہمیں ایک ایسے دور میں اپنے انسانی فرض کی بجا آوری کا موقع ملا ہے۔ جن انسانیت کے دشمنوں نے مغرب کو اپنا مرکز قرار دیا ہے اگر یہ مرکزیت مشرق کو حاصل ہو جائے تو پھر ہماری تمام سخت کلامیوں کا ہدف مشرق قرار پائے گا۔

    پیشہ ور مجرموں کے اس عالمی جتھے سے خبردار رہو جو نہ مغرب کا دوست ہے اور نہ مشرق کا۔ تمہاری تمام مصیبتوں اور محرمیوں کے ذمے دار یہی لوگ ہیں۔ یہ اور ان کے خیرخواہ انساںوں کو بہلانے اور بہکانے کے ہنر میں طاق ہیں۔ دیکھو صرف اچھی باتوں ہی کو اپنا مداوا نہ سمجھو۔ صرف باتوں سے بدن پر گوشت نہیں چڑھتا۔ ان جھوٹے اور باتونی چارہ گروں کی باتوں میں نہ آنا۔ یہ تمہیں محض خوش آیند لفظوں پر قانع رکھنا چاہتے ہیں۔ اگر زندہ رہنا ہے تو ایسی قناعت سے پناہ مانگو۔ اور ہاں عالمی اُخوت کے جعلی نعروں کا فریب کبھی نہ کھانا۔ کچھ لوگ ہیں جو اس باب میں بہت عجیب باتیں کرتے ہیں۔ یہ اپنے سرپرستوں سے کچھ کم نہیں ہیں۔

    لو انھیں پہچانو! یہ گروہ اپنے ذاتی عقیدے کو دوسروں پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ انھیں اس کی کوئی فکر نہیں کہ ایک شخص فاقے کی آگ میں جل رہا ہے۔ انھیں اس بات سے سروکار ہے کہ وہ ان کا عقیدہ تسلیم کرتا ہے یا نہیں۔ یہ حضرات زمین اور اس کے معاملوں سے بہت بلند ہیں۔ انھوں نے تو آسمانوں کو گویا پہن لیا ہے۔ ان کے مقدس عقیدے کا نہ کوئی وطن ہے اور نہ کوئی زبان۔ یہ بستیوں کو، اُمنگوں کو بجھا دینا چاہتے ہیں۔ عالمی سماج کا نظریہ تمھیں وطن دشمنی اور اپنی تہذیب سے غداری کرنے کی تعلیم نہیں دیتا۔ مگر جس عالمی اُخوت کا نعرہ یہ لوگ بلند کرتے ہیں اس کا حاصل یہ ہے کہ تم اپنی آزادی استحکام حبِ وطن سماجی سالیمت اور اپنی تخلیقی انا سے یکسر دستبردار ہو جاؤ۔ اچھا فرض کرو کہ ان کا مطلب یہ نہیں ہے اور ہم بہتان تراشی سے کام لے رہے ہیں، پر یہ سوچو کہ اگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں اور تم اپنی زبان تہذیب اور اپنے وطن سے یکسر بیگانہ ہو جاؤ تو اس کا فائدہ کون اٹھائے گا، تم یا تمہارے دشمن؟

    یقین کر لو اس کا فائدہ تمہارے دشمن اٹھائیں گے جو خود ان حضرات کے دوست نہیں ہیں۔

    کچھ لوگ ہیں جو اس ملک کو برا کہہ کر ہی سکون پاتے ہیں۔ ایسے لوگ صرف یہیں پائے جاتے ہیں۔ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو ایسے لوگوں کو اپنے درمیان پائے اور انھیں برداشت کرتی رہے۔ جنھیں اس قوم پہ غصہ آتا ہے، ان کا احترام کرو، ان کے سامنے محبت اور عقیدت سے گردنیں جھکاؤ مگر جو صرف برائی کرنا اور پاکستان کی تحریک کو طعنے دینا جانتے ہیں، انھیں نمک حرام اور غدار جانو کہ بروں کو برا کہنا اور سمجھنا بھی بڑی نیکی ہے۔

    (مقبول شاعر اور نثر نگار جون ایلیا کی ادبی پرچے انشاء کے جنوری 1963 کے شمارے میں شایع ہونے والی فکر انگیز تحریر)​

  • آخر ہم کس عہد میں زندگی بسر کر رہے ہیں؟ (انشائیہ جون ایلیا)

    آخر ہم کس عہد میں زندگی بسر کر رہے ہیں؟ (انشائیہ جون ایلیا)

    افلاطون نے اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف "جمہوریہ” میں ایک نظامِ تعلیم و تربیت مرتّب کیا تھا جس کی رُو سے تین سال سے لے کر چھے سال تک کی عمر کے بچّوں کو قصّوں اور حکایتوں کے ذریعہ تعلیم دی جانا چاہیے۔

    اردو کے مدیرانِ رسائل قابلِ داد ہیں جنہوں نے یہ نصاب اپنے قارئین کے لیے تجویز کیا ہے۔ چنانچہ صورت حال یہ ہے کہ ہمارا ادب، ہمارا ادبی شعور ہماری ادبی صحافت سب نابالغ ہیں۔

    جدھر دیکھیے دیوانِ داغ اور فسانۂ عجائب کی نسل پروان چڑھتی نظر آ رہی ہے۔ میر تقی بیچارے ایسے کون سے بڑے شاعر تھے، لیکن آج ان کے اعزاز میں ہر رسالہ غزلوں پر غزلیں چھاپ کر گویا غزل کا عرس برپا کر رہا ہے۔ ادبی جرائد کا پورا ادب غزل اور تنقیدِ غزل میں محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ کسی بھی سنجیدہ، بالغُ النّظر اور اور ارتقاء پذیر سماج کے لیے یہ بات باعثِ تشویش ہے۔

    آخر ہم کس عہد میں زندگی بسر کر رہے ہیں؟ اور اس عہد میں زندگی بسرکرنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ کیا کوئی قوم صرف افسانوں غزلوں اور نام نہاد تنقیدی مقالوں کے سہارے زندہ رہ سکتی ہے؟ کیا بیسویں صدی میں کوئی معاشرہ اپنی ادبی صحافت کی اس سطح پر قانع ہو سکتا ہے؟

    یہی نہیں کہ ہماری ادبی صحافت ادبی اور علمی اعتبار سے قطعاً بے مایہ اور مفلس ہے بلکہ علم دشمن بھی ہے۔ اگر کوئی رسالہ نفسیاتی، تاریخی، فلسفی اور سائنسی مباحث و مسائل اور ادبِ عالی کے موضوعات پر مضامین شائع کر دے تو اسے ادبی رسالہ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ادبی رسالہ کی علامت صرف یہ ہے کہ اس کا نصف حصّہ غزلوں سے مخصوص ہو باقی نصف میں کچھ نظمیں ہوں، کچھ افسانے ہوں اور پانچ چھے صفحے کا ایک ادبی مضمون جسے بڑے ہی اعتماد کے ساتھ "مقالہ” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیجیے اردو کا "ادبی، علمی اور تہذیبی مجلّہ” مرتب ہو گیا۔ مدیر کا یہ فرض ہرگز نہیں کہ وہ اپنی طرف سے اداریہ بھی لکھے۔

    اسی لیے اب "مدیر” کے بجائے احتياطاً "مرتب” کی اصطلاح اپنا لی گئی ہے۔ مرتب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اردو کے عظیم فن کاروں کی طرف سے تو ادبی مناظرے بھی کر لیتا ہو لیکن خود اردو سے اسے کوئی دل چسپی نہ ہو، مرعوب اسی وقت ہوتا ہے جب مغربی نقّادوں کے چند نام گنوائے جائیں۔

    بہرحال یہ ہے ہمارے اکثر رسائل اور ان کے ایڈیٹروں کا حال۔ یہ لوگ سائنسی حقائق اور سماجی مسائل کی اس سیل گاہ میں بالکل ازکارِ رفتہ ہو چکے ہیں۔ نہ انہیں معاملات کا شعور ہے اور نہ اپنے فرائض کا احساس، ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ جن قدروں پر ان کا ادب آج تک زندگی بسر کرتا چلا آیا ہے، اب ان کا حشر کیا ہوگا۔ چلیے یہ تو دور کی بات ہے آخر وہ یہ کیوں نہیں غور کرتے کہ اردو رسائل کس لیے نامقبول ہیں؟

    یہ صحیح ہے کہ قوم کی معاشی تقدیر انگریزی سے وابستہ ہے اور اسی صورتِ حال کا اثر اردو زبان سے تعلق رکھنے والے ہر شعبہ اور ہر شخص پر پڑتا ہے لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ اگرچہ بے حد اہم، بے حد اہم رخ سہی، لیکن دوسرا رخ یہ ہے کہ اسی غریب زبان اردو کے روزناموں نے انہی ناساز گار حالات میں انگریزی روزناموں کو بری طرح شکست دے دی ہے اور انقلاب کے بعد تو اردو روزناموں کی رفتارِ ترقّی اور بھی تیز ہوتی جا رہی ہے۔ اب یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ دو تین سال کے اندر ہمارے بعض روزنامے ایک لاکھ کی اشاعت تک پہنچ جائیں گے۔

    ماہناموں کو غور کرنا چاہیے کہ آخر یہ کیا بات ہے؟ بات یہ ہے کہ اردو کی ماہ نامہ صحافت نے ابھی تک نئے عہد کو نہیں سمجھا ہے۔ وہ اب تک بھی یہی سمجھ رہے ہیں کہ انگریزی کے دو تین نقادوں اور فرانس کے نفسیاتی مریضوں کے نام رسالوں کو فروخت کرا دیں گے۔ وہ زمانہ گزر گیا جب چند یونانی مفکروں اور مغربی ادیبوں اور ناقدوں کے نام لے کر مرعوب کر لیا جاتا تھا، یہ زمانہ فکر و نظر کی رصانت و ریاضت کا زمانہ ہے۔ آج کے قاری کو مسائل سے ناواقف و بے گانہ خیال کرنا حماقت ہے۔

    ادبی رسائل کو چاہیے کہ وہ اس ماحول سے پوری طرح توانائی حاصل کریں۔ محنت سے کام لیں اور ادبی و علمی افادیت کو ملحوظ رکھیں اور اس خیال کو ترک کر دیں کہ ادبی رسائل کو پڑھا نہیں جاتا۔ پڑھا جاتا ہے۔ اگر سلیقے سے پڑھایا جائے۔ ہم جن مضامین کو ادبی سمجھ کر چھاپتے رہے ہیں، انہیں بمشکل ہی ادبی کہا جا سکتا ہے، مثلاً: "مومن کا عشق” یا "غالب کا سماجی شعور۔”

    چلیے، آپ انہیں ادبی کہہ لیجیے، لیکن آخر کب تک؟ اب آپ غالب کے سماجی شعور کا عرفان عطا کر کے کوئی ادبی خدمت انجام نہیں دے سکتے۔ اس کے لیے خود سماجی شعور پیدا کرنا ہوگا اور ادبی ملائیت اور دقیانوسیت کو ترک کر کے ماہ ناموں کو سائنسی حقیقت پسندی، وسیعُ النّظری، مسائل شناسی، معاشرہ آفرینی اور اجتہادی و اختراعی اولوالعزمی کا نمائندہ بنانا ہوگا۔ بہ صورتِ دیگر اردو کی ادبی صحافت کے لیے اب کوئی گنجائش باقی نہیں۔

    (اردو کے رسائل اور مسائل از جون ایلیا، شایع شدہ ماہ نامہ "انشاء” دسمبر 1959)

  • اردو کے رسائل اور مسائل (انشائیہ از جون ایلیا)

    اردو کے رسائل اور مسائل (انشائیہ از جون ایلیا)

    افلاطون نے اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف "جمہوریہ” میں ایک نظامِ تعلیم و تربیت مرتّب کیا تھا جس کی رُو سے تین سال سے لے کر چھ سال تک کی عمر کے بچوں کو قصّوں اور حکایتوں کے ذریعہ تعلیم دی جانا چاہیے۔

    اردو کے مدیرانِ رسائل قابلِ داد ہیں جنہوں نے یہ نصاب اپنے قارئین کے لیے تجویز کیا ہے چنانچہ صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارا ادب، ہمارا ادبی شعور ہماری ادبی صحافت سب نابالغ ہیں۔

    جدھر دیکھیے دیوانَ داغ اور فسانۂ عجائب کی نسل پروان چڑھتی نظر آ رہی ہے۔ میر تقی بیچارے ایسے کون سے بڑے شاعر تھے لیکن آج ان کے اعزاز میں ہر رسالہ غزلوں پر غزلیں چھاپ کر گویا غزل کا عرس برپا کر رہا ہے۔ ادبی جرائد کا پورا ادب غزل اور تنقید غزل میں محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ کسی بھی سنجیدہ، بالغ النّظر اور اور ارتقا پذیر سماج کے لیے یہ بات باعث تشویش ہے۔

    آخر ہم کس عہد میں زندگی بسر کر رہے ہیں؟ اس عہد میں زندگی بسرکرنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ کیا کوئی قوم صرف افسانوں غزلوں اور نام نہاد تنقیدی مقالوں کے سہارے زندہ رہ سکتی ہے؟ کیا بیسویں صدی میں کوئی معاشرہ اپنی ادبی صحافت کی اس سطح پر قانع ہو سکتا ہے؟

    یہی نہیں کہ ہماری ادبی صحافت ادبی اور علمی اعتبار سے قطعاً بے مایہ اور مفلس ہے بلکہ علم دشمن بھی ہے۔ اگر کوئی رسالہ نفسیاتی، تاریخی، فلسفی اور سائنسی مباحث و مسائل اور ادبِ عالی کے موضوعات پر مضامین شائع کر دے تو اسے ادبی رسالہ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ادبی رسالہ کی علامت صرف یہ ہے کہ اس کا نصف حصّہ غزلوں سے مخصوص ہو باقی نصف میں کچھ نظمیں ہوں، کچھ افسانے ہوں اور پانچ چھ صفحے کا ایک ادبی مضمون جسے بڑے ہی اعتماد کے ساتھ "مقالہ” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیجیے اردو کا "ادبی، علمی اور تہذیبی مجلہ” مرتب ہو گیا۔

    مدیر کا یہ فرض ہرگز نہیں کہ وہ اپنی طرف سے اداریہ بھی لکھے۔ اسی لیے اب "مدیر” کے بجائے احتياطاً "مرتب” کی اصطلاح اپنا لی گئی ہے۔ مرتب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اردو کے عظیم فن کاروں کی طرف سے تو ادبی مناظرے بھی کر لیتا ہو لیکن خود اردو سے اسے کوئی دل چسپی نہ ہو، مرعوب اسی وقت ہوتا ہے جب مغربی نقادوں کے چند نام گنوائے جائیں۔

    بہرحال یہ ہے ہمارے اکثر رسائل اور ان کے ایڈیٹروں کا حال۔ یہ لوگ سائنسی حقائق اور سماجی مسائل کی اس سیل گاہ میں بالکل از کارِ رفتہ ہو چکے ہیں۔ نہ انہیں معاملات کا شعور ہے اور نہ اپنے فرائض کا احساس، ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ جن قدروں پر ان کا ادب آج تک زندگی بسر کرتا چلا آیا ہے اب ان کا حشر کیا ہوگا۔ چلیے یہ تو دور کی بات ہے آخر وہ یہ کیوں نہیں غور کرتے کہ اردو رسائل کس لیے نامقبول ہیں؟

    یہ صحیح ہے کہ قوم کی معاشی تقدیر انگریزی سے وابستہ ہے اور اسی صورت حال کا اثر اردو زبان سے تعلق رکھنے والے ہر شعبہ اور ہر شخص پر پڑتا ہے لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ اگرچہ بےحد اہم، بے حد اہم رخ سہی، لیکن دوسرا رخ یہ ہے کہ اسی غریب زبان اردو کے روزناموں نے انہی ناسازگار حالات میں انگریزی روزناموں کو بری طرح شکست دے دی ہے اور انقلاب کے بعد تو اردو روزناموں کی رفتارِ ترقی اور بھی تیز ہوتی جا رہی ہے۔ اب یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ دو تین سال کے اندر ہمارے بعض روزنامے ایک لاکھ کی اشاعت تک پہونچ جائیں گے۔

    ماہ ناموں کو غور کرنا چاہیے کہ آخر یہ کیا بات ہے؟ بات یہ ہے کہ اردو کی ماہ نامہ صحافت نے ابھی تک نئے عہد کو نہیں سمجھا ہے۔ وہ اب تک بھی یہی سمجھ رہے ہیں کہ انگریزی کے دو تین نقّادوں اور فرانس کے نفسیاتی مریضوں کے نام رسالوں کو فروخت کرا دیں گے۔ وہ زمانہ گزر گیا جب چند یونانی مفکروں اور مغربی ادیبوں اور ناقدوں کے نام لے کرمرعوب کر لیا جاتا تھا، یہ زمانہ فکر و نظر کی رصانت و ریاضت کا زمانہ ہے۔ آج کے قاری کو مسائل سے ناواقف و بے گانہ خیال کرنا حماقت ہے۔

    قارئین دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ لوگ جو صرف جنسی جاسوسی اور فلمی تحریروں سے بہل سکتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ جو مذہبی، تاریخی، سیاسی، سماجی، نفسیاتی، معلوماتی، ادبی اور علمی مضامین پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ ان لوگوں میں مختلف سطح کے افراد شامل ہیں۔ ادبی اور علمی رسائل کا تعلق انہی لوگوں سے ہے۔

    عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پہلی قسم کے قارئین کی تعداد زیادہ ہے، لیکن یہ غلط ہے۔ اگر یہ صحیح ہوتا تو اردو کے فلمی رسالے لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوا کرتے، درآں حالیکہ ان کا حال بہت ابتر ہے۔

    بات یہ ہے کہ عمر کے ایک خاص حصے ہی میں جنسی اور فلمی موضوعات میں دل چسپی لی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں اس قبیل کے مواد کی مقبولیت کا ایک سبب یہ بھی ہوا کہ یہاں ابھی ایک ڈیڑھ سال پہلے تک پوری قوم سیاسی بے یقینی، نفسیاتی پیچیدگی، سماجی بے ضمیری، ذہنی انتشار اور اخلاقی بدحالی میں مبتلا تھی۔ اس کا رد عمل یہی ہو سکتا تھا کہ سنجیدہ مسائل کی طرف سے توجہ ہٹ جائے۔ انقلاب کے بعد اس صورت حال میں نمایاں فرق ہوا ہے۔

    (اردو کے مقبول ترین شاعر اور نثر نگار جون ایلیا کے انشائیے سے چند پارے جو ماہنامہ "انشاء” کراچی(1959ء) میں شایع ہوا تھا)