Tag: جون ایلیا

  • جون ایلیا: باغی اور روایت شکن شاعر

    جون ایلیا: باغی اور روایت شکن شاعر

    روایت شکنی، اختلافِ رائے، مباحث اور کسی بھی بات کا رد شاید بھائی جون کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ اس سے محظوظ ضرور ہوتے تھے، مگر مجلس میں دلیل، منطق اور مثال دے کر اپنا مؤقف سب کے سامنے رکھتے۔

    علمی مباحث اور فکر کا اظہار کرتے ہوئے جون ایلیا تاریخ، فلسفہ، منطق، مذاہبِ عالم، زبانوں، ثقافتوں اور مختلف ادوار کی نابغۂ روزگار شخصیات کے نظریات، سیاسی و سماجی تحریکوں کے حوالے دیتے۔

    آج نظم اور نثر پر یکساں قادر، منفرد اسلوب کے حامل اورعظیم تخلیق کار جون ایلیا کی برسی منائی جارہی ہے۔
    اس باغی اور روایت شکن شاعر نے امروہہ کے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں سبھی افراد علم و فن کے رسیا، زرخیز ذہن اور روشن فکر تھے۔

    آئے روز علمی و ادبی نشستیں، فکری مباحث منعقد ہوا کرتیں اور کم عمر جون ایلیا کو کائنات کے اسرار و رموز سے لے کر زندگی کے حسین اور بدنما پہلوؤں تک سبھی کچھ جاننے، سمجھنے کا موقع مل جاتا۔ اس ماحول کے پروردہ جون ایلیا نے جلد ہی شعر موزوں کرنا سیکھ لیا۔

    14 دسمبر 1931 کو دنیا میں آنکھ کھولنے والے جون ایلیا نظم اور نثر دونوں میں باکمال ٹھہرے۔ وہ شاعر اور ایک انشا پرداز کی حیثیت سے اپنے ہم عصروں میں ممتاز نظر آتے ہیں۔ اپنی باغیانہ فکر کے ساتھ اپنے منفرد لب و لہجے سے انھوں نے نہ صرف دنیائے ادب میں بلند اور نمایاں مقام و مرتبہ حاصل کیا بلکہ ہر خاص و عام میں مقبول ہو گئے۔

    شاعری کی بات کی جائے تو جون ایلیا نے روایت سے ہٹ کر اپنے محبوب سے براہِ راست کلام کیا۔ یہ قطعہ دیکھیے:

    شرم، دہشت جھجھک، پریشانی
    ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں
    آپ، وہ، جی، مگر یہ سب کیا ہے
    تم میرا نام کیوں نہیں لیتیں

    ایک اور شعر دیکھیے:

    کس لیے دیکھتی ہو آئینہ
    تم تو خود سے بھی خوب صورت ہو

    یہ شعر ملاحظہ ہو:

    اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
    کاش اس زباں دراز کا منھ نوچ لے کوئی

    جون ایلیا کی زندگی میں ان کا صرف ایک ہی مجموعۂ کلام منظرِ عام پر آیا جس کا عنوان تھا، شاید۔ اس کتاب کا دیباچہ جون کی زندگی کے مختلف واقعات سے آراستہ ہے۔ اس کتاب کے ان چند صفحات نے ہر خاص و عام کی توجہ حاصل کی اور اسے بہت پسند کیا گیا۔

    جون ایلیا کی شاعری نے ہر عمر اور طبقے کو متاثر کیا۔ ان کا حلیہ، گفتگو اور مشاعرے پڑھنے کا انداز بھی شعروسخن کے شائقین میں بے حد مقبول ہوا۔ وہ اپنے عہد کے ایک بڑے تخلیق کار تھے، جس نے روایتی بندشوں سے غزل کو نہ صرف آزاد کیا بلکہ اسے ایک نئے ڈھب سے آشنا کیا۔

    محبوب سے شکوہ کرنا ہو یا رسوا، زمانے کے چلن سے بیزاری اور نفرت کا اظہار کرنا ہو یا کسی رویے پر چوٹ، جون ایلیا خوف زدہ نظر نہیں آتے۔ وہ بات کہنے اور بات بنانے کا ہنر بھی خوب جانتے تھے۔

    علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں
    وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے

    اور یہ شعر ملاحظہ کیجیے:

    بہت نزدیک آتی جارہی ہو
    بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا

    یہ شعر دیکھیے:

    نہیں دنیا کو جب پروا ہماری
    تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم

    جون ایلیا ایک شاعر، مصنف، مترجم اور فلسفی کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔ وہ اردو زبان کے علاوہ عربی، فارسی اور عبرانی بھی جانتے تھے اور ان کے کلام میں ان زبانوں کے الفاظ اور تراکیب پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    جون ایلیا نے زندگی کو اپنی ہی نظر سے دیکھا، سمجھا، اور اپنے انداز سے گزارا۔ وہ کسی کی پیروی اور تقلید کے قائل نہ تھے۔ ان کا باغی طرزِ فکر، ہر شے سے بیزاری اور تلخی ان کی شخصیت کا ایک حصہ بن چکی تھی۔

    جس کو بھی شیخ و شاہ نے حکمِ خدا دیا قرار
    ہم نے نہیں کیا وہ کام، ہاں بہ خدا نہیں کیا

    8 نومبر 2002 کو جون ایلیا اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

    ان کا ایک شعر ہے:

    ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
    دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں

  • میں شعرکہہ رہا ہوں، مجھے داد دیجئے

    میں شعرکہہ رہا ہوں، مجھے داد دیجئے

    آج شاعری کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، شاعری جذبات کی عکاسی اورالفاظ میں کہانی کے ساتھ ساتھ افراد اور قوموں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہے،  یوم شاعری کا مقصد شاعری کی اہمیت کو اجاگرکرنا ہے۔

    یوم شاعری سال 1999 سے منایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ثقافتی تنظیم یونیسکو کی جنرل اسمبلی کے فیصلے کے مطابق یہ تقریب منانا شروع کی گئی تھی۔ سال دو ہزار نو سے روس میں شاعری کے عالمی دن کے موقع پر تقریبات ایوان ادباء میں منعقد کی جاتی ہیں۔

    یوم شاعری کا مقصد نوجوان شاعروں کو اپنی تصانیف متعارف کرانے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ شاعری جذبے اور احساس کا نام ہے۔ جو دلوں میں گداز اور لہجے میں شائستگی پیدا کرتی ہے۔

     جب شاعری خواجہ فرید، بابا بلھے شاہ اور سلطان باہو کی کافیاں کہلائی تو امن اور اسلام کے فروغ کا ذریعہ بنی، اقبال کی نظموں کا روپ لیا تو بیداری انساں کا کام کیا۔ فیض اور جالب کے شعروں میں ڈھلی تو انقلاب کا سامان مہیا کیا اور جب ناصر و فراز کو شاعری نے منتخب کیا تو پیار و الفت کی نئی کونپلوں نے جنم لیا۔

    اردو کے 100 مشہور اشعار پڑھیں

    فنِ شعرِ گوئی نے جب عقیدت کی راہ پر سفرشروع کیا تو حفیظ تائب اور انیس و دبیر منظر عام پرآئے۔ شاعری کے پیچھے چاہے عقیدت کارفرما ہو یا دنیا داری بہرحال یہ سب محبت کے استعارے ہیں اور تسکین کا سامان بھی۔

    اس حوالے سے تاریخ دانوں کے مطابق ایک کہاوت یہ بھی ہے کہ تیئیسویں صدی قبل از مسیح میں موجودہ ایران کی سرزمین پر واقع ایک قدیم ریاست کی شہزادی این ہیدوُآنا نے بنی نوع انسان کی تاریخ میں پہلی بار شاعری کی تھی۔

    شاعری کیا ہے ؟؟

     کسی بھی انسان کے لیے اپنے احساسات و جذبات اور مشاہدات و تجربات کی عکاسی کا نام شاعری ہے، ہر انسان اپنے نظریے سے سوچتا ہے لیکن حساس لوگ کا مشاہدہ بہت ہی گہرا ہوتا ہے شاعری کا تعلق بھی حساس لوگوں کے ساتھ زیادہ ہے لیکن اِن مشاہدات و خیالات اور تجربات کے اظہار کرنے کا طریقہ سب کا الگ الگ ہے۔ ہر دور کے شعرا کی تحریروں سے ان کے زمانے کے حالات و واقعات کی عکاسی ملتی ہے۔

    شاعری کی اقسام

    شاعری کی بہت سی اقسام ہیں۔ اس کی ایک قسم غزل ہے، صنف غزل قدیم اصناف سخن میں سے ایک ہے اور یہ ایک مخصوص اندازِ تحریر ہے جو شاعری کے ساتھ منسوب ہے۔ لیکن لفظ غزل صرف اردو شاعری کے ساتھ مخصوص ہے۔

    مشہوراصناف میں حمد نعت مثنوی مسدس نظم پابند نظم آزاد نظم قصیدہ رباعی سلام گیت سرِ فہرست ہیں اُردو شاعری کے سب سے بڑے شاعر تاریخ میں برصغیر ہندوستان میں ملتے ہیں جن میں قلی قطب شاہ، میرتقی میر، مرزا اسد اللہ خاں غالب، داغ دہلوی اوربہادرشاہ ظفر کے نام سرِفہرست ہیں۔

    تقسیمِ ہندوستان کے بعد بہت سے شعراء بامِ شہرت کے عروج پر فائر ہوئے جن میں فیض احمد فیض، حسرت موہانی، ابنِ انشا، حبیب جالب، شکیب جلالی، ناصر کاظمی، محسن نقوی،احمد فراز، منیر نیازی، پروین شاکر، قتیل شفائی ‘ افتخار عارف‘ حمایت علی شاعر اور جون ایلیاء جیسے عظیم نام ملتے ہیں۔

  • جون ایلیا کے مداح آج ان کی 87 ویں سالگرہ منا رہے ہیں

    جون ایلیا کے مداح آج ان کی 87 ویں سالگرہ منا رہے ہیں

    صاحب اسلوب شاعرجون ایلیا کے دنیا بھر میں‌ موجود مداح آج ان کی 87 ویں سالگرہ منارہے ہیں۔

    عہد ساز تخلیق کار اور اپنے عصر میں نمایاں حیثیت کے حامل جون ایلیا 14دسمبر 1931 کو بھارتی شہر امروہہ میں پیدا ہوئے، آٹھ سال کی عمر میں پہلا شعر کہنے والے جون ایلیا کو عربی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔

    فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی سائنس، مغربی ادب اور واقع کربلا پر جون کا علم کسی انسائیکلوپیڈیا کی طرح وسیع تھا.

    پہلا شعر آٹھ برس کی عمر میں کہنے والے اس بے بدل شاعر کے مجموعے کے لیے مداحوں کو خاصا انتظار کرنا پڑا، 90 کی دہائی میں پہلا مجموعہ کلام ’شاید‘منظر عام  پر آیا۔

    میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس

    خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

    جون کا انتقال 8 نومبر 2002 کو ہوا، ان کی دیگر شعری مجموعے یعنی، گویا، لیکن اور گمان انتقال کے بعد شایع ہوئے. نثر میں بھی وہ اپنی مثال آپ تھے، جس کی مثال ان کی تازہ کتاب ’فرنود‘ ہے۔

    مزید پڑھیں: جون ایلیا کو ہم سے بچھڑے 16 برس بیت گئے

    جون کے شعری مجموعے ’گمان‘ کو اکادمی ادبیات ایوارڈ سے بھی نوازا گیا جب کہ حکومت پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا.

    جون ایلیا نے یورپی ادب کی 35 سے زائد نایاب کتب کے تراجم بھی کیے۔

    جون ایلیا کا 70 برس کی عمر میں‌انتقال ہوا. انھیں سخی حسن کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

  • عالمی اردو کانفرنس: ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

    عالمی اردو کانفرنس: ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

    کراچی: آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے پہلے دن دوسرے اجلاس میں معروف شاعر جون ایلیا کی شخصیت کے حوالے سے گفتگو کی گئی،اس نشست کی نظامت کے فرائض معروف ٹی وی اینکر انیق احمد نے انجام دیئے۔

    جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے کہاکہ دُنیا بھر میں جہاں جہاں اُردو بولی اور سمجھی جاتی ہے، وہاں جون ایلیا کو بہت اچھی طرح جانا اور پہچانا جاتا ہے دُنیا بھر میں شعر وادب میں دلچسپی رکھنے والے لوگ جون ایلیا کو بہت زیادہ پڑھ رہے ہیں ،جون ایلیا کے اشعار زندگی کے معاملات کے ساتھ ساتھ براہِ راست دل پر اثر کرنے والے ہیں، جون ایلیا چونکہ کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے لہٰذا انہوں نے جو تراجم کئے ہیں وہ ان کی شخصیت کو ایک عالمانہ شان کے ساتھ پیش کرتے ہیں، جون ایلیا نے درحقیقت گفتگو کو شاعری بنادیا تھا، انہوں نے کہاکہ ادب تو نام ہی سوال اٹھاتے رہنے کا ہے، جون ایلیا کا رویہ کچھ اس طرح تھا کہ جس میں طنز، انکار اور اذیت نظر آتی تھی وہ اپنی شاعری میں کئی سوال اُٹھاتے تھے۔

    معروف ادیب شکیل عادل زادہ نے کہاکہ میں نے جون ایلیا کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور ان کے ساتھ ایک دو برس نہیں بلکہ سالوں گزارے ہیں وہ امروہا سے کراچی آئے تھے مگر کراچی میں رہنے کے باوجود ان کا دل میں امروہا ہی میں لگا رہتا تھا، ان کی شاعری کے ساتھ ساتھ ان کی نثر پر بھی توجہ دینی چاہئے کیونکہ انہوں نے نثر میں بھی بہت خوبصورت اور سوچنے والی باتیں تحریر کی ہیں مگر لوگ صرف ان کی شاعری کو پڑھ رہے ہیں، جون ایلیا ایک عالم اور فلسفی تھے وہ کئی زبانیں جانتے تھے، وہ ایک مفکر بھی تھے، ان کی نثر نگاری میں چند مختصر تحریریں تو ایسی ہیں جو ہم سب کو سوچنے پر مجبور کردیتی ہیں۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں ”سمندر کے کنارے تجارت فروغ پاتی ہے اور دریا کے کنارے تہذیب“ ایک اور جگہ وہ لکھتے ہیں کہ ”جہالیت کو ہمارے سماج میں جتنی رعایت دی گئی ہے شاید اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی“،۔

    شکیل عادل زادہ نے مزید کہاکہ جون ایلیا کے بارے میں ایک یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ وہ ابتدائی عمر میں نعتیں لکھا کرتا تھے، وہ غزل کی آبرو تھے اور نظمیں بھی کمال کی تھیں۔

    اقبال حیدر نے کہاکہ میری جون ایلیا سے ملاقات 1991ءمیں ہوئی تھی وہ ایک بھرپور ادبی اور فکری شخصیت تھے مگر میں سمجھتا ہوں کہ اولاً ان کی شخصیت فکری تھی اس کے بعد وہ اخلاقی شخصیت بھی تھے۔ انہوں نے کہاکہ وہ بہت جلدی خفا ہوجایا کرتے تھے مگر اس سے کہیں زیادہ جلدی مان بھی جایا کرتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میر تقی میر کے اسلوب کا نمائندہ شاعر جون ایلیا ہے۔ جون ایلیا تک پہنچے اور انہیں سمجھنے کے لئے کھلے ذہن کی ضرورت ہے، جون ایلیا نے جن لوگوں کی تربیت کی ان پر جون ایلیا کا بڑا احسان ہے، جون ایلیا انسانی رویوں کے بہت بڑے آدمی تھے۔

    شاہد رسام نے کہاکہ یہ ہماری بدقسمتی ہے ہم جون ایلیا کی سنجیدہ زندگی اور سنجیدہ پہلوؤں کو نظر انداز کرتے ہیں ان کی باتوں کو تفنن کے طور پر لیتے ہیں، جون ایلیا ایک بڑے فلسفی اور عالم تھے ، انہوں نے کہاکہ میں نے بہت کم عمری میں بڑے لوگوں کے ساتھ نشست رکھی ہے اور ان کی جوتیاں سیدھی کی ہیں بڑے لوگوں کا کمال یہ ہے کہ وہ جو دکھتے ہیں وہ ہوتے نہیں اور وہ جو ہوتے ہیں وہ دکھتے نہیں، انہوں نے کہاکہ جون ایلیا سنجیدہ شخصیت کے مالک تھے ان کی ذات کے کئی رنگ ہیں جون ایلیا کا کینوس بہت وسیع ہے۔

    عباس نقوی نے کہاکہ جون ایلیا بہت اچھے پرفارمر تھے ان کو سب پتہ ہوتا تھا کہ وہ کیا کررہے ہیں وہ دانستہ بے نیازی برتنے والے اور بہت بڑے دل کے مالک تھے۔ انیق احمد نے کہاکہ جو شخص جون ایلیا کی خدمت کرتا تھا وہ جون ایلیا کے نزدیک دنیا کا سب سے اہم آدمی تھا لہٰذا خدمت کرنے والا اس بات پر خوش ہوتا تھا کہ وہ دُنیا کا اہم ترین شخص بن گیا انہوں نے کہاکہ جس سال جون ایلیا کا انتقال ہوا اسی سال میرے والد کا بھی انتقال ہوا لہٰذا جون ایلیا کے انتقال کے بعد میں نے محسوس کیا کہ میرے ایک سال میں دو مرتبہ یتیم ہوگیا ہوں۔

    اس موقع پر یوسف بشیر قریشی نے جون ایلیا کے اشعار کو خوبصورت انداز میں پڑھا اور سامعین سے داد وصول کی۔

  • جون ایلیا کو ہم سے بچھڑے 16 برس بیت گئے

    جون ایلیا کو ہم سے بچھڑے 16 برس بیت گئے

    کراچی: انوکھے مصرعوں اور نت نئی تاویلوں کے شاعر جون ایلیا کو  پیوند خاک ہوئے سولہ برس بیت گئے، ان کی شاعری آج بھی زمانے کی تلخیوں اور بے اعتنائیوں کو بےنقاب کرتی ہے۔

    شاعرِ بے بدل جون ایلیا 14 دسمبر 1937 کو امروہہ، اترپردیش کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے، وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب ‏سے چھوٹے تھے۔ ان کے والدعلامہ شفیق حسن ایلیا کوفن ‏اورادب سے گہرا لگاؤ تھا اس کے علاوہ وہ نجومی اور شاعر ‏بھی تھے۔ اس علمی ماحول نے جون کی طبیعت کی تشکیل ‏بھی انہی خطوط پرکی، انہوں نے اپنا پہلا اردو شعر محض 8 ‏سال کی عمر میں لکھا۔ جون اپنی کتاب شاید کے پیش لفظ میں ‏قلم طرازہیں۔‏

    ‏”میری عمرکا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم ‏اورماجرہ پرور سال تھا، اس سال میری زندگی کے دو سب ‏سے اہم حادثے، پیش آئے پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی ‏نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ ‏لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا جبکہ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں ‏نے پہلا شعر کہا‏:

    چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں

    دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی

    ایلیا کے ایک قریبی رفیق، سید ممتاز سعید، بتاتے ہیں کہ ایلیا ‏امروہہ کے سید المدارس کے بھی طالب علم رہے، یہ مدرسہ امروہہ میں اہل تشیع حضرات کا ایک معتبر مذہبی مرکز رہا ہے، چونکہ جون ایلیا خود شیعہ تھے اس لئے وہ اپنی شاعری میں جابجا شیعی حوالوں کا خوب استعمال کرتے تھے۔ حضرت علی کی ذات مبارک سے انہیں خصوصی عقیدت تھی اور انہیں اپنی سیادت پر بھی ناز تھا۔ سعید کہتے ہیں،’’جون کو زبانوں ‏سے خصوصی لگاؤ تھا۔ وہ انہیں بغیر کوشش کے سیکھ لیتا تھا۔ ‏عربی اور فارسی کے علاوہ، جو انہوں نے مدرسہ میں سیکھی تھیں، ‏انہوں نے انگریزی اور جزوی طور پر عبرانی میں بہت مہارت ‏حاصل کر لی تھی۔‘‘

    جون ایلیا نے 1957 میں پاکستان ‏ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی ‏حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی، جس وجہ سے انہیں وسیع مدح اور ‏پذیرائی نصیب ہوئی۔

    جون کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ تلاش

    اب کئی ہجر گزر چکے اب کئی سال ہوگئے

    جون ایک انتھک مصنف تھے، لیکن انھیں اپنا تحریری کام شائع ‏کروانے پر کبھی بھی راضی نہ کیا جا سکا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ‏شاید اس وقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی اس قدر تاخیر سے اشاعت کی وجہ وہ اس شرمندگی کو قرار دیتے ہیں جو ان کو اپنے والد کی تصنافات کو نہ شائع کراسکنے کے سبب تھی۔

    میں جو ہوں جون ایلیا ہوں جناب

    اس کا بے حد لحاظ کیجیے گا

    ‏نیازمندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش ‏لفظ میں انہوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ‏ہے جس میں رہ کر انہیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کی ‏شاعری کا دوسرا مجموعہ یعنی ان کی وفات کے بعد 2003ء میں ‏شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان گمان 2004ء میں شائع ہوا۔

    جون ایلیا مجموعی طور پر دینی معاشرے میں علی الاعلان نفی ‏پسند اور فوضوی تھے۔ ان کے بڑے بھائی، رئیس امروہوی، کو ‏مذہبی انتہاپسندوں نے قتل کر دیا تھا، جس کے بعد وہ عوامی ‏محفلوں میں بات کرتے ہوئے بہت احتیاط کرنے لگے۔

    ایک سایہ میرا مسیحا تھا

    کون جانے، وہ کون تھا کیا تھا

    جون ایلیا تراجم، تدوین اور اس طرح کے دوسری مصروفیات میں بھی ‏مشغول رہے لیکن ان کے تراجم اورنثری تحریریں آسانی سے ‏دستیاب نہيں ہیں۔ انہوں اسماعیلی مکتبہ فکر کے شعبۂ تحقیق کے سربراہ کی حیثیت سے دسویں صدی کے شہرۂ آفاق رسائل اخوان الصفا کا اردو میں ترجمہ کیا لیکن افسوس کے وہ شائع نہ ہوسکے۔

    بولتے کیوں نہیں مرے حق میں

    آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

    فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی ‏سائنس، مغربی ادب اور واقعۂ کربلا پر جون کا علم کسی ‏انسائکلوپیڈیا کی طرح وسیع تھا۔ اس علم کا نچوڑ انہوں نے اپنی ‏شاعری میں بھی داخل کیا تا کہ خود کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں ‏کر سکيں۔

    میں اپنے شہر کا سب سے گرامی نام لڑکا تھا

    میں بے ہنگام لڑکا تھا، میں صد ہنگام لڑکا تھا

    مرے دم سے غضب ہنگامہ رہتا تھا محلوں میں

    میں حشر آغاز لڑکا تھا ‘ میں حشر انجام لڑکا تھا

    مرمٹا ہوں خیال پر اپنے

    وجد آتا ہے حال پر اپنے

    جون ایک ادبی رسالے انشاء سے بطور مدیر وابستہ رہے جہاں ان کی ‏ملاقات اردو کی ایک اور مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی جن سے ‏بعد میں انہوں نے شادی کرلی۔ زاہدہ حنااپنے انداز کی ترقی ‏پسند دانشور ہیں اور مختلف اخبارات میں ‏میں حالات حاضرہ اور معاشرتی موضوعات پر لکھتی ہیں۔ جون کے ‏زاہدہ سے 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔

    1980 کی دہائی کے وسط ‏میں ان کی طلاق ہو گئی۔ اس کے بعد تنہائی کے باعث جون کی ‏حالت ابتر ہو گئی۔ وہ بژمردہ ہو گئے اور شراب نوشی شروع کردی۔

    کبھی جو ہم نے بڑے مان سے بسایا تھا

    وہ گھر اجڑنے ہی والا ہے اب بھی آجاؤ

    جون ہی تو ہے جون کے درپے

    میرکو میر ہی سے خطرہ ہے

    کمال ِ فن کی معراج پرپہنچے جون ایلیا طویل علالت کے بعد 8 نومبر، 2002ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔

    کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جو ہوں میں

    کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

  • آج اردو ادب کی زندہ روایت’زاہدہ حنا‘ کی 72ویں سالگرہ ہے

    آج اردو ادب کی زندہ روایت’زاہدہ حنا‘ کی 72ویں سالگرہ ہے

    آج معروف ادیب ، افسانہ نگار اور کالم نگار زاہدہ حنا کی72 ویں سالگرہ ہے، آپ 05 اکتوبر 1946 میں متحدہ ہندوستان کے صوبہ بہار میں پیدا ہوئی تھیں۔

    ممتاز ادیبہ اور مشہور افسانہ نگار زاہدہ حناصوبہ بہار کے شہر سہسرام میں پیدا ہوئیں۔ زاہدہ حنا کے والد اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم سے روشناس کرانا چاہتے تھے مگر معاشی حالات کی تنگی کی وجہ سے وہ انہیں کسی اچھے سکول میں تعلیم نہ دلا سکے۔ زاہدہ حنا کی رسم بسم اللہ کے بعد زاہدہ کو گھر میں آپ کے والد نے پڑھانا شروع کیا۔

    چھ سال کی عمر میں انہیں ’’مسدس حالی‘‘ ازبر کرا دی گئی۔ آٹھ سال کی عمر میں انہیں ’’شعر العجم‘‘ پڑھائی گئی۔ گھر میں تعلیم کے بعد اسکول کی تعلیم کے لیے ساتویں کلاس میں داخل کرا دیا گیا۔ کاسمو پولیٹن گرلز سیکنڈری سکول سے میٹرک کیا۔ کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ زاہدہ حنا کی شادی اکتوبر 1970ء میں مشہور و معروف شاعر جون ایلیا سے ہو گئی۔ 1990 ء میں دونوں کی علیحدگی ہو گئی۔

    زاہدہ حنا کو بچپن سے ہی لکھنے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ نو سال کی عمر میں انہوں نے کہانیاں اور چھوٹے چھوٹے مضامین لکھنے شروع کر دیئے۔ 1962 میں ان کا پہلا مضمون ماہنامہ ’’انشا‘‘ کراچی میں شائع ہوا۔ اس کے بعد 1964ء میں ان کی پہلی کہانی ماہنامہ ’’ہم قلم‘‘ کراچی میں شائع ہوئی۔ 19 سال کی عمر میں وہ صحافت سے وابستہ ہو گئیں۔ زاہدہ حنا نے کچھ عرصہ بی بی سی اور وائس آف امریکہ کی اردو سروس میں بھی کام کیا۔ انہوں نے پاکستان کی عالمی سروس کے لیے بھی ہفت روزہ پروگرام کئے۔ 1988ء سے 2006ء تک روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں کالم لکھتی رہیں۔ اس کے بعد سے ا ب تک ایک موقر روزنامے سے وابستہ ہیں ۔

    زاہدہ حنا پاکستان‘ ہندوستان‘ انگلستان‘ امریکہ اور متحدہ عرب امارات میں مختلف موضوعات پر مقالے بھی پڑھ چکی ہیں۔ ان کے متعدد افسانوں کے ترجمے ہندی‘ گورمکھی‘ بنگلہ‘ انگریزی اور مراٹھی زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں فیض ایوارڈ‘ لٹریری پرفارمنس ایوارڈ‘ ساغر صدیقی ایوارڈ‘ کے ایم پی ایوارڈ بہترین افسانہ نگار‘ سندھ اسپیکر ایوارڈ اور بھارت میں ملنے والا سارک ادبی ایوارڈ 2001ء شامل ہیں۔ 2006ء میں اُنہیں حکومت پاکستان کی طرف سے ’’پرائیڈ آف پرفارمنس‘‘ دینے کا اعلان کیا گیا لیکن انہوں نے ملک میں ملٹری حکومت ہونے کی وجہ سے احتجاجاً یہ اعزاز لینے سے انکار کر دیا۔ بعد ازاں ملک میں جمہوریت کی بحالی کے بعد انہیں ستارہ امتیاز عطا کیا تو وہ انکار نہ کرسکیں ۔

    زاہدہ حنا کے افسانوی مجموعے ’’قیدی سانس لیتا ہے‘‘، ’’راہ میں اجل ہے‘‘ ، ’’نہ جنوں رہا نہ پری رہی‘‘، ’’رقص بسمل ہے‘‘ اور ’’تتلیاں ڈھونڈنے والی‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے دو ناول ’’درد کا شجر‘‘ اور ’’درد آشوب‘‘ بھی تصنیف کئے ہیں۔ انہوں نے ٹیلیویژن کے لیے کئی ڈرامے بھی لکھے۔ ان کا طویل دورانیہ کا ڈرامہ ’’زرد پتوں کا بن‘‘ بہت مقبول ہوا ۔

  • سجاد علی کا جون ایلیا کو پڑھنے کا مشورہ، ویڈیو دیکھیں

    سجاد علی کا جون ایلیا کو پڑھنے کا مشورہ، ویڈیو دیکھیں

    کراچی: نامور پاپ اور کلاسیکل موسیقی پر مہارت رکھنے والے پاکستانی گلوکار سجاد علی نے اپنے مداحوں کو معروف شاعر جون ایلیا کی شاعری پڑھنے کا مشورہ دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق گلوکار سجاد علی نے اپنے حالیہ ریلیز ہونے والے گانے ’لگایا دل‘ کے بول کی مکمل ویڈیو جاری کردی جس میں اُن کا کہنا تھا کہ وقت کی کمی کے باعث گانے میں صرف پانچ اشعار پیش کیے گئے تھے البتہ اب آپ اُسے پورا سُن سکیں گے۔

    سجاد علی نے گانے میں ایک شعر پڑھا جس کے ذریعے انہوں نے اپنے مداحوں کو مشورہ دیا کہ اگر شاعری پڑھنی ہو تو جون ایلیا کو پڑھو کیونکہ میں نے بڑے بڑے شاعروں کو پڑھا ہوگا مگر  ایسا کبھی نہیں پڑھا، ساتھ ہی گلوکار کا کہنا تھا کہ یہ شعر اُن کا پسندیدہ ہے جس سے اب بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دیگر لوگوں کی طرح سجاد علی بھی جون ایلیا کی شاعری اور فلسفے سے متاثر ہیں۔

    اگر پڑھنے لگو تو جون پڑھنا

    بڑے شاعر پڑھے ایسا پڑھا نئیں

    واضح رہے کہ سجاد علی کے نئے گانے ’لگایا دل‘ کی ویڈیو 7 اپریل 2018 کو ریلیز ہوئی تھی جس کی ہدایت کا اُن کی صاحبزادی تھیں، منفرد ویڈیو میں کالج کے طلباء کی محبت کی اور کہانی بیان بتائی گئی تھی کہ کس طرح وہ ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہوتے ہیں اور جب ان کے دل ٹوٹتے ہیں تو ان کے کیا احساسات ہوتے ہیں۔

    سجاد علی دھیمی اور دلوں کو چھو جانے والی موسیقی ترتیب دینے کے حوالے سے مشہور ہیں، ان کے نئے گانے میں بھی اس کی جھلک واضح طور پر نظر آئی، سجاد علی کا 2013 میں ریلیز کیا گیا گانا ’ہر ظلم تیرا یاد ہے‘ آج بھی لوگوں کے دلوں میں رچا بسا ہوا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

    اپریل میں ریلیز ہونے والی چار منٹ کی ویڈیو میں گانے کے صرف پانچ اشعار تھے جسے مداحوں نے بہت پسند کیا تھا تاہم اب گلوکار نے مکمل گانے کے بول کی ویڈیو ریلیز کردی۔

    ویڈیو دیکھیں

    خیال رہے کہ سجاد علی نے جون ایلیا کی مشہور و معروف غزل ‘میرا ایک مشورہ ہے التجا نئیں‘ کی زمین پر گانے کے بول خود تحریر کر کے انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔

  • جون ایلیا کوہم سے بچھڑے 14 برس بیت گئے

    جون ایلیا کوہم سے بچھڑے 14 برس بیت گئے

    کراچی: انوکھےفقروں اور نت نئےتاویلوں کے شاعر جون ایلیا کو پیوند خاک ہوئے چودہ برس کا عرصہ ہو گیا،انکی شاعری آج بھی زمانے کی تلخیوں اور بے اعتنائیوں کو بےنقاب کرتی ہے۔

    شاعرِ بے بدل جون ایلیا 14 دسمبر، 1937ء کو امروہہ، اترپردیش کے ایک ‏نامورخاندان میں پیدا ہوئے وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب ‏سے چھوٹے تھے۔ ان کے والدعلامہ شفیق حسن ایلیا کوفن ‏اورادب سے گہرا لگاؤ تھا اس کے علاوہ وہ نجومی اور شاعر ‏بھی تھے۔ اس علمی ماحول نے جون کی طبیعت کی تشکیل ‏بھی انہی خطوط پرکی انہوں نے اپنا پہلا اردو شعر محض 8 ‏سال کی عمر میں لکھا۔ جون اپنی کتاب شاید کے پیش لفظ میں ‏قلم طرازہیں۔‏

    ‏”میری عمرکا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم ‏اورماجرہ پرور سال تھا اس سال میری زندگی کے دو سب ‏سے اہم حادثے، پیش آئے پہلاحادثہ یہ تھا کہ میں اپنی ‏نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ ‏لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا جبکہ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں ‏نے پہلا شعر کہا‏

    چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں

    دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی

    ایلیا کے ایک قریبی رفیق، سید ممتاز سعید، بتاتے ہیں کہ ایلیا ‏امروہہ کے سید المدارس کے بھی طالب علم رہے یہ مدرسہ امروہہ میں اہل تشیع حضرات کا ایک معتبر مذہبی مرکز رہا ہے چونکہ جون ایلیا خود شیعہ تھے اسلئے وہ اپنی شاعری میں جابجا شیعی حوالوں کا خوب استعمال کرتے تھے۔حضرت علی کی ذات مبارک سے انہیں خصوصی عقیدت تھی اور انہیں اپنی سیادت پر بھی ناز تھا۔۔ سعید کہتے ہیں، "جون کو زبانوں ‏سے خصوصی لگاؤ تھا۔ وہ انہیں بغیر کوشش کے سیکھ لیتا تھا۔ ‏عربی اور فارسی کے علاوہ، جو انہوں نے مدرسہ میں سیکھی تھیں، ‏انہوں نے انگریزی اور جزوی طور پر عبرانی میں بہت مہارت ‏حاصل کر لی تھی۔”‏

    جون ایلیا نے 1957ء میں پاکستان ‏ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی ‏حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی، جس وجہ سے انہیں وسیع مدح اور ‏پذیرائی نصیب ہوئی۔

    جون کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ تلاش

    اب کئی ہجر گزر چکے اب کئی سال ہوگئے

    جون ایک انتھک مصنف تھے، لیکن انھیں اپنا تحریری کام شائع ‏کروانے پر کبھی بھی راضی نہ کیا جا سکا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ‏شاید اسوقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی اس قدر تاخیر سے اشاعت کی وجہ وہ اس شرمندگی کو قرار دیتے ہیں جو ان کو اپنے والد کی تصنافات کو نہ شائع کراسکنے کے سبب تھی۔

    میں جو ہوں جون ایلیا ہوں جناب 
    اس کا بے حد لحاظ کیجیے گا

    ‏نیازمندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش ‏لفظ میں انہوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ‏ہے جس میں رہ کر انہیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کی ‏شاعری کا دوسرا مجموعہ یعنی ان کی وفات کے بعد 2003ء میں ‏شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان گمان 2004ء میں شائع ہوا۔

     ایلیاء کا پہلا شعری مجموعہ

    جون ایلیا مجموعی طور پر دینی معاشرے میں علی الاعلان نفی ‏پسند اور فوضوی تھے۔ ان کے بڑے بھائی، رئیس امروہوی، کو ‏مذہبی انتہاپسندوں نے قتل کر دیا تھا، جس کے بعد وہ عوامی ‏محفلوں میں بات کرتے ہوئے بہت احتیاط کرنے لگے۔

    ایک سایہ میرا مسیحا تھا

    کون جانے، وہ کون تھا کیا تھا

    جون ایلیا تراجم، تدوین اور اس طرح کے دوسری مصروفیات میں بھی ‏مشغول رہے لیکن ان کے تراجم اورنثری تحریریں آسانی سے ‏دستیاب نہيں ہیں۔ انہوں اسماعیلی طریقہ کے شعبۂ تحقیق کے سربراہ کی حیثیت سے دسویں صدی کے شہرۂ آفاق رسائل اخوان الصفا کا اردو میں ترجمہ کیا لیکن افسوس کے وہ شائع نہ ہوسکے۔

    بولتے کیوں نہیں مرے حق میں

    آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

    فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی ‏سائنس، مغربی ادب اور واقعۂ کربلا پر جون کا علم کسی ‏انسائکلوپیڈیا کی طرح وسیع تھا۔ اس علم کا نچوڑ انہوں نے اپنی ‏شاعری میں بھی داخل کیا تا کہ خود کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں ‏کر سکيں۔

    میں اپنے شہر کا سب سے گرامی نام لڑکا تھا

    میں بے ہنگام لڑکا تھا ‘ میں صد ہنگام لڑکا تھا

    مرے دم سے غضب ہنگامہ رہتا تھا محلوں میں

    میں حشر آغاز لڑکا تھا ‘ میں حشر انجام لڑکا تھا

    مرمٹا ہوں خیال پر اپنے

    وجد آتا ہے حال پر اپنے

    جون ایک ادبی رسالے انشاء سے بطور مدیر وابستہ رہے جہاں ان کی ‏ملاقات اردو کی ایک اور مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی جن سے ‏بعد میں انہوں نے شادی کرلی۔ زاہدہ حنااپنے انداز کی ترقی ‏پسند دانشور ہیں اور مختلف اخبارات میں ‏میں حالات حاضرہ اور معاشرتی موضوعات پر لکھتی ہیں۔ جون کے ‏زاہدہ سے 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔ 1980ء کی دہائی کے وسط ‏میں ان کی طلاق ہو گئی۔ اس کے بعد تنہائی کے باعث جون کی ‏حالت ابتر ہو گئی۔ وہ بژمردہ ہو گئے اور شراب نوشی شروع کردی۔

    کبھی جو ہم نے بڑے مان سے بسایا تھا

    وہ گھر اجڑنے ہی والا ہے اب بھی آجاؤ

    جون ہی تو ہے جون کے درپے

    میرکو میر ہی سے خطرہ ہے

    کمال ِ فن کی معراج پرپہنچے جون ایلیا طویل علالت کے بعد 8 نومبر، 2002ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔

    کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جو ہوں میں

    کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

  • جون ایلیا کی آج تراسی ویں سالگرہ منائی جارہی ہے

    جون ایلیا کی آج تراسی ویں سالگرہ منائی جارہی ہے

    کراچی : اردو شاعری کو ایک نئی جہت سے روشناس کرانے والے جون ایلیا کی آج تراسی ویں سالگرہ منائی جارہی ہے۔ امروہہ میں چودہ دسمبر انیس سواکتیس کوجنم لینےوالے جون ایلیاکی زندگی کو معاشرے، روایات، معیارات اور عام ڈگرسےکھلی بغاوت سےعبارت کیاجاتاہے۔

    یہی بغاوت جون ایلیا کی شاعری کو دیگر شاعروں سے ممتاز و منفرد بناتی ہے۔  فلسفیانہ شک و سوالات،خدا سےتکرار،معاشرےسے بغاوت ، خود سےناراض ہوجانا اورناراض رہنا،عشق و محبت میں ناکامی و یاس کے ساتھ ساتھ غصہ و بیزاری جیسے عناصر نے جون کو اردو شاعری میں ایسا ممتازمقام دیا جوکہ ان سے قبل چند ہی شعراء کے حصے میں آ یا ہے۔

    جون نے پہلا شعر آٹھ برس کی عمر میں کہا نوے کی دہائی میں جون ایلیا کا پہلا مجموعہ کلام ’شاید‘منظرعام پرآیا۔ جون ایلیا آٹھ نومبر دو ہزاردو میں دنیا سے رخصت ہوئے۔

     جون کے وصال کے بعد ان کی شائع ہونے والی تصانیف میں یعنی، گویا، لیکن اور گمان شعری مجموعے ہیں جب کہ ان کی معرکتہ العراء نثری تحریریں ’فرنود‘ کے نام سے شائع ہوچکی ہیں۔

    جون کے شعری مجموعے ’گمان‘ کو اکادمی ادبیات ایوارڈ سے بھی نوازا گیا جب کہ حکومت پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔

  • جون ایلیا کوہم سے بچھڑے بارہ برس بیت گئے

    جون ایلیا کوہم سے بچھڑے بارہ برس بیت گئے

    کراچی (ویب ڈیسک) – شاعرِ بے بدل  جون ایلیا 14 دسمبر، 1937ء کو امروہہ، اترپردیش کے ایک ‏نامورخاندان میں پیدا ہوئے وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب ‏سے چھوٹے تھے۔ ان کے والدعلامہ شفیق حسن ایلیا کوفن ‏اورادب سے گہرا لگاؤ تھا اس کے علاوہ وہ نجومی اور شاعر ‏بھی تھے۔ اس علمی ماحول نے جون کی طبیعت کی تشکیل ‏بھی انہی خطوط پرکی انہوں نے اپنا پہلا اردو شعر محض 8 ‏سال کی عمر میں لکھا۔ جون اپنی کتاب شاید کے پیش لفظ میں ‏قلم طرازہیں۔‏

    ‏”میری عمرکا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم ‏اورماجرہ پرور سال تھا اس سال میری زندگی کے دو سب ‏سے اہم حادثے، پیش آئے پہلاحادثہ یہ تھا کہ میں اپنی ‏نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ ‏لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا جبکہ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں ‏نے پہلا شعر کہا‏

    چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
    دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی

    ایلیا کے ایک قریبی رفیق، سید ممتاز سعید، بتاتے ہیں کہ ایلیا ‏امروہہ کے سید المدارس کے بھی طالب علم رہے یہ مدرسہ امروہہ میں اہل تشیع حضرات کا ایک معتبر مذہبی مرکز رہا ہے چونکہ جون ایلیا خود شیعہ تھے اسلئے وہ اپنی شاعری میں جابجا شیعی حوالوں کا خوب استعمال کرتے تھے۔حضرت علی کی ذات مبارک سے انہیں خصوصی عقیدت تھی اور انہیں اپنی سیادت پر بھی ناز تھا۔۔ سعید کہتے ہیں، "جون کو زبانوں ‏سے خصوصی لگاؤ تھا۔ وہ انہیں بغیر کوشش کے سیکھ لیتا تھا۔ ‏عربی اور فارسی کے علاوہ، جو انہوں نے مدرسہ میں سیکھی تھیں، ‏انہوں نے انگریزی اور جزوی طور پر عبرانی میں بہت مہارت ‏حاصل کر لی تھی۔”‏

    جون ایلیا نے 1957ء میں پاکستان ‏ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی ‏حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی، جس وجہ سے انہیں وسیع مدح اور ‏پذیرائی نصیب ہوئی۔

    جون کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ تلاش
    اب کئی ہجر گزر چکے اب کئی سال ہوگئے

    جون ایک انتھک مصنف تھے، لیکن انھیں اپنا تحریری کام شائع ‏کروانے پر کبھی بھی راضی نہ کیا جا سکا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ‏شاید اسوقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی اس قدر تاخیر سے اشاعت کی وجہ وہ اس شرمندگی کو قرار دیتے ہیں جو ان کو اپنے والد کی تصنافات کو نہ شائع کراسکنے کے سبب تھی۔ ‏نیازمندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش ‏لفظ میں انہوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ‏ہے جس میں رہ کر انہیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کی ‏شاعری کا دوسرا مجموعہ یعنی ان کی وفات کے بعد 2003ء میں ‏شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان گمان 2004ء میں شائع ہوا۔

     ایلیاء کا پہلا شعری مجموعہ
    ایلیاء کا پہلا شعری مجموعہ

    جون ایلیا مجموعی طور پر دینی معاشرے میں علی الاعلان نفی ‏پسند اور فوضوی تھے۔ ان کے بڑے بھائی، رئیس امروہوی، کو ‏مذہبی انتہاپسندوں نے قتل کر دیا تھا، جس کے بعد وہ عوامی ‏محفلوں میں بات کرتے ہوئے بہت احتیاط کرنے لگے۔

    ایک سایہ میرا مسیحا تھا
    کون جانے، وہ کون تھا کیا تھا

    جون ایلیا تراجم، تدوین اور اس طرح کے دوسری مصروفیات میں بھی ‏مشغول رہے لیکن ان کے تراجم اورنثری تحریریں آسانی سے ‏دستیاب نہيں ہیں۔ انہوں اسماعیلی طریقہ کے شعبۂ تحقیق کے سربراہ کی حیثیت سے دسویں صدی کے شہرۂ آفاق رسائل اخوان الصفا کا اردو میں ترجمہ کیا لیکن افسوس کے وہ شائع نہ ہوسکے۔

    بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
    آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

    فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی ‏سائنس، مغربی ادب اور واقعۂ کربلا پر جون کا علم کسی ‏انسائکلوپیڈیا کی طرح وسیع تھا۔ اس علم کا نچوڑ انہوں نے اپنی ‏شاعری میں بھی داخل کیا تا کہ خود کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں ‏کر سکيں۔

    میں اپنے شہر کا سب سے گرامی نام لڑکا تھا
    میں بے ہنگام لڑکا تھا ‘ میں صد ہنگام لڑکا تھا
    مرے دم سے غضب ہنگامہ رہتا تھا محلوں میں
    میں حشر آغاز لڑکا تھا ‘ میں حشر انجام لڑکا تھا

    مرمٹا ہوں خیال پر اپنے
    وجد آتا ہے حال پر اپنے

    جون ایک ادبی رسالے انشاء سے بطور مدیر وابستہ رہے جہاں ان کی ‏ملاقات اردو کی ایک اور مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی جن سے ‏بعد میں انہوں نے شادی کرلی۔ زاہدہ حنااپنے انداز کی ترقی ‏پسند دانشور ہیں اور مختلف اخبارات میں ‏میں حالات حاضرہ اور معاشرتی موضوعات پر لکھتی ہیں۔ جون کے ‏زاہدہ سے 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔ 1980ء کی دہائی کے وسط ‏میں ان کی طلاق ہو گئی۔ اس کے بعد تنہائی کے باعث جون کی ‏حالت ابتر ہو گئی۔ وہ بژمردہ ہو گئے اور شراب نوشی شروع کردی۔

    کبھی جو ہم نے بڑے مان سے بسایا تھا
    وہ گھر اجڑنے ہی والا ہے اب بھی آجاؤ

    جون ہی تو ہے جون کے درپے
    میرکو میر ہی سے خطرہ ہے

    کمال ِ فن کی معراج پرپہنچے جون ایلیا طویل علالت کے بعد 8 نومبر، 2002ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔

    کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جو ہوں میں
    کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے