Tag: جون برسی

  • ناؤروجی: ایک دیانت دار اور راست گو انسان

    ناؤروجی: ایک دیانت دار اور راست گو انسان

    متحدہ ہندوستان میں تجارت اور کاروبار کے ساتھ ملکی سیاست میں سرگرم شخصیات میں دادا بھائی ناؤروجی اپنے دور کی ممتاز شخصیت تھے۔ وہ سماج کے ایک بڑے نباض بھی تھے۔ انھوں نے رفاہِ عامّہ کے ساتھ مختلف خیراتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور ہندوستان کے عوام میں بڑا مقام و و مرتبہ پایا۔

    دادا بھائی ناؤروجی کو تاریخ کے اوراق میں ایک دور اندیش اور زیرک سیاست داں کے ساتھ عوام کا خیر خواہ لکھا گیا ہے۔ وہ پہلے ہندوستانی تھے جنھوں نے سیاست کے میدان میں اس بات کو اچھالا کہ برطانیہ تجارت کی آڑ میں‌ ہندوستان کے وسائل پر ہاتھ صاف کررہا ہے اور عوام کا استحصال کر رہا ہے۔

    ستمبر 1825ء کو بمبئی کے ایک پارسی گھرانے میں پیدا ہونے والے دادا بھائی ناؤروجی 30 جون 1917ء کو انتقال کرگئے تھے۔ وہ ایک غریب گھرانے کے فرد تھے۔ انھوں نے ہندوستان میں مفت ابتدائی تعلیم کے ایک منصوبے سے استفادہ کیا اور تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے کاروبار جمانے کے ساتھ برطانوی دور کی سیاست میں ممتاز ہوئے۔ وہ نیک صفت اور دیانت دار اور راست گو مشہور تھے۔ مالی تنگی اور مسائل نے انھیں زیادہ حسّاس بنا دیا تھا اور خودداری بھی ان کی صفات میں شامل تھی۔ ناؤروجی نے اس مفت تعلیم کو خود پر قرض تصوّر کیا۔ اور جب وہ مالی طور پر مستحکم ہوئے تو تعلیم سمیت مختلف دوسرے شعبہ جات میں خدمت کو اپنا شعار بنایا۔ ناؤروجی نے اس دور میں برطانیہ میں تعصب اور نسل پرستی کا سامنا کیا، اور اسے مسترد کرتے ہوئے امتیازی سلوک اور سامراجی نظام کو چیلنج کیا۔

    دادا بھائی ناؤروجی کے گھر کا ماحول ایسا تھا کہ انھیں چھوٹی عمر ہی سے سچ اور حق گوئی کے ساتھ دوسروں سے محبت اور صلۂ رحمی کی عادت پڑ گئی۔ والد اس وقت وفات پاچکے تھے جب دادا بھائی ناؤروجی زندگی اور موت کی حقیقت سے بھی ناآشنا تھے۔ والدہ نے ان کی تربیت بہترین انداز سے کی۔ یہی وجہ ہے کہ ناؤروجی نے اپنی زندگی کو ایک مقصد کے تحت گزارا اور فلاح و بہبود کے کاموں پر توجہ دی۔ وہ لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم کے بھی بڑے داعی تھے۔ 1840ء کی دہائی کے آخر میں ںاؤروجی نے لڑکیوں کے لیے اسکول کھولے تو ہندوستان کا قدامت پسند طبقہ ان کے خلاف ہوگیا، لیکن انھوں نے اس کی پروا نہ کی۔ اسی ثابت قدمی اور خلوص کا نتیجہ یہ نکلا کہ سمجھ دار لوگوں نے بڑی تعداد میں اپنی لڑکیوں کو اسکول بھیجنا شروع کردیا۔ اس کام یابی نے ناؤروجی کو بہت حوصلہ دیا اور کئی دوسرے لوگ بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ ناؤروجی ہندوستان کی ان باشعور اور نڈر شخصیات میں سے ایک تھے جنھوں نے صنفی مساوات کو اہمیت دی اور عورتوں کو تمام بنیادی حقوق دیے جانے کے ساتھ تعلیم کے علاوہ ہر شعبے میں ان کی شمولیت یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔

    1901ء میں دادا بھائی ناؤروجی کی کتاب Poverty and Un-British Rule in India شایع ہوئی جس نے برطانوی سیاست دانوں اور افسر شاہی کو گویا مشتعل کر دیا۔ انھوں نے اس کتاب میں تفصیل سے لکھا کہ نوآبادیاتی نظام میں کیسے ہندوستان کی دولت کو برطانیہ منتقل کیا جارہا ہے جب کہ ہندوستان میں غربت پنپ رہی ہے۔ یہ 1855ء کی بات ہے جب ناؤروجی پہلی مرتبہ برطانیہ گئے اور وہاں دولت کی فروانی اور خوش حالی دیکھنے کے بعد ہندوستان کے حالات اور عوام کی کس مپرسی کے اسباب جاننے کی کوشش کی۔ انھوں نے اس کے لیے معاشی جائزہ لیا اور مالی تجزیہ کرنے پر کام کرنے لگے۔ ناؤروجی نے انکشاف کیا کہ برطانیہ ہندوستانیوں سے مخلص نہیں اور انھیں قحط کے عفریت اور دیگر مسائل کے ساتھ غربت کی چکّی میں‌ جھونک رہا ہے۔ یہ سچ سامنے لانے پر برطانوی حکومت مشتعل ہوگئی۔ ناؤروجی کو حکومت کا باغی اور سرکش کہا گیا، لیکن ناؤروجی کی باتیں ہندوستانیوں کے دل میں کھب گئی تھیں۔ دوسری طرف دادا بھائی ناؤروجی کے خیالات اور افکار نے مغرب کے باشعور طبقے، ترقی پسند مکتبِ فکر کی اہم شخصیات سمیت یورپ کے اشتراکیت پسندوں کو بھی متاثر کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ناؤروجی نے محنت کش طبقے کا بہت ساتھ دیا اور تعلیم اور دیگر شعبوں سمیت سیاست میں عورتوں‌ کے حقِ رائے دہی کے لیے آواز اٹھائی۔ انھوں نے ہندوستان میں فوری طور پر مثالی اقدامات اور کارآمد اصلاحات کا مطالبہ کیا جس نے سنجیدہ طبقات کو ناؤروجی کی جانب متوجہ کیا۔ مگر دوسری طرف یہی افکار اور مطالبات برطانیہ کی نظر میں‌ ناؤروجی کا وہ جرم بن گئے جس کے بعد مفاد پرست برطانوی سیاست دانوں نے ناؤروجی کو تحقیر آمیز الفاظ سے پکارنا شروع کردیا تاکہ ان کے حوصلے پست کیے جاسکیں۔ وہ برطانوی سیاست میں انتخابی عمل کے ذریعے قدم رکھنے لگے تو ان کی مخالفت کرتے ہوئے برطانیہ اور متحدہ ہندوستان میں ان سے متعلق منفی پروپیگنڈا کیا گیا، مگر یہ حربے ناکام ہوگئے۔ 1892ء میں ناؤروجی لندن میں پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے اور وہ وقت بھی آیا جب دادا بھائی ناؤروجی نے ایوان میں اپنا نظریہ اور مؤقف پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ برطانوی طرزِ حکم رانی سفاکانہ ہے جس میں‌ ان کے ہم وطنوں کا استحصال اور انھیں‌ بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ ناؤروجی 1895ء میں دوبارہ انتخابی اکھاڑے میں‌ اترے، مگر اس مرتبہ انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم اس وقت تک ان کی فکر اور آواز برطانیہ سمیت دنیا کے دیگر ممالک تک پہنچ چکی تھی جس کا بہت فائدہ ہوا۔ وہ پہلے ایشیائی تھے جنھیں رکنِ پارلیمان منتخب کیا گیا تھا۔

    ناؤروجی ایک ایسے راہ نما تھے جس نے اپنے سیاسی اور سماجی خدمت کے سفر میں‌ کئی بار نامساعد حالات، اپنوں کی مخالفت اور سخت رویّے کا بھی سامنا کیا، لیکن کسی بھی موقع پر گھبرا کر اپنا راستہ نہیں بدلا بلکہ اپنے مقصد پر نظر رکھی اور منزل کی سمت قدم بڑھاتے چلے گئے۔

  • یادِ رفتگاں: کلاسیکی رقص کے ماہر غلام حسین کتھک

    یادِ رفتگاں: کلاسیکی رقص کے ماہر غلام حسین کتھک

    رقص کو اعضا کی شاعری کہا جاتا ہے۔ بلاشبہ یہ فنونِ لطیفہ کی مختلف اصناف جیسے موسیقی اور پینٹنگ کی طرح انسانی جذبات اور احساسات کے اظہار کی ایک نہایت لطیف اور پُرکشش صورت ہے۔ رقص، آرٹ کی وہ قدیم شکل بھی ہے جس نے دنیا کی ہر تہذیب اور ثقافت کو متاثر کیا ہے۔ آج ہم اسی فن کے بادشاہ مہاراج غلام حسین کی یاد تازہ کررہے ہیں جو کلاسیکی رقص میں پاکستان کی پہچان بنے۔

    ہندوستان میں کئی باکمال اور ماہر رقاص گزرے ہیں جنھوں نے اس فن کو نیا آہنگ، انداز اور قرینہ عطا کیا اور اسے نکھارا۔ پاکستان میں کلاسیکی رقص میں غلام حسین کتھک کو ایک امتیاز اور مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ 29 جون 1998ء کو لاہور میں وفات پانے مہاراج غلام حسین کتھک کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ دنیا بھر میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ انھوں نے فنِ رقص کی باریکیوں اور نزاکتوں کو سمجھنے والوں سے خوب داد وصول کی۔

    مہاراج غلام حسین کتھک 4 مارچ 1899ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد علم و ادب اور آرٹ میں نام وَر رابندر ناتھ ٹیگور کے احباب میں سے ایک تھے جن کے مشورے پر اپنے بیٹے کو مصوّری اور اداکاری سیکھنے پر آمادہ کیا اور بعد میں کلاسیکی رقص کی تربیت دلوائی۔ غلام حسین نے لکھنؤ کتھک اسکول کے بانی اچھن مہاراج سے اس فن کی تربیت لی۔

    تقسیمِ ہند کے بعد 1950ء میں مہاراج غلام حسین کتھک ہجرت کر کے پاکستان آگئے جہاں پہلے کراچی میں اور بعد میں لاہور میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ شائقین کو کلاسیکی رقص کی تربیت دیتے رہے۔ پاکستان میں ان کے کئی شاگردوں نے کلاسیکی رقص میں اپنی مہارت اور انداز سے شائقین کو محظوظ کیا۔ غلام حسین کتھک کے مشہور شاگردوں میں ریحانہ صدیقی، ناہید صدیقی، نگہت چوہدری، جہاں آرا اخلاق شامل ہیں۔

    مہاراج غلام حسین کتھک نے ایک فلم سرگم میں بھی کام کیا اور فلم کے بہترین معاون اداکار کا نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کرنے میں کام یاب رہے۔ حکومتِ پاکستان نے رقص کے فن میں ان کی خدمات کے اعتراف میں تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا۔ مہاراج غلام حسین میانی صاحب کے قبرستان میں‌ ابدی نیند سو رہے ہیں۔

  • رنجیت سنگھ: وہ مہاراجا جس نے ایک گھوڑی کی خاطر ہزاروں سپاہی گنوا دیے

    رنجیت سنگھ: وہ مہاراجا جس نے ایک گھوڑی کی خاطر ہزاروں سپاہی گنوا دیے

    برِصغیر میں مسلمانوں کی بادشاہت کے علاوہ مختلف چھوٹی بڑی ریاستوں اور علاقوں میں بہت سے ہندو راجا اور حاکم بھی ہو گزرے، لیکن سکھ مذہب کے پیروکاروں میں صرف رنجیت سنگھ ہی تھا جس نے اپنی حکومت قائم کی اور پنجاب پر راج کیا۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کا دور ہندوستان کی تاریخ کا ناقابلِ فراموش باب ہے۔

    27 جون 1839ء کو رنجیت سنگھ چل بسا تھا جس کے بعد اگلے دس برس ہی سکھوں کا اقتدار برقرار رہ سکا۔ کہتے ہیں‌ کہ اس وقت پورے پنجاب میں سکھوں کی بارہ مثلیں (ایک لحاظ سے خود مختار ریاستیں) تھیں جو ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار تھیں۔ ان میں سے ایک مثل گوجرانوالہ کے قریب آباد تھی۔ رنجیت سنگھ 13 نومبر 1780ء کو اسی سکرچکیا مثل کے سردار مہان سنگھ کے گھر پیدا ہوا۔ اس کا نام بدھ سنگھ رکھا گیا جو آگے چل کر رنجیت سنگھ کے نام سے مشہور ہوا اور سکھ سلطنت قائم کی۔ رنجیت سنگھ کا دور 40 سال پر محیط ہے جس میں وہ فتوحات کے بعد کشمیر سے موجودہ خیبر پختونخوا اور جنوب میں سندھ کی حدود تک اپنی سلطنت کو پھیلا چکا تھا۔ 19 سالہ رنجیت سنگھ نے 1799ء میں لاہور کو فتح کر کے اس شہر کو اپنا پایۂ تخت بنایا تھا۔

    رنجیت سنگھ کی دلیری اور بہادری کے ساتھ مؤرخین نے اس کی طرزِ‌ حکم رانی کو بھی شان دار قرار دیا ہے۔ رنجیت سنگھ کو شیرِ پنجاب بھی لکھا گیا ہے۔ مہاراجا نے سکھوں کی ایک منظم فوج تیار کی تھی جسے خالصہ فوج کہا جاتا تھا۔ اس کا ہیڈ کوارٹر لاہور سے چند کلومیٹر دور شالا مار باغ کے قریب تھا، جسے ”بدھو کا آوا‘‘ کہتے تھے۔ یہ 1811ء کی بات ہے اور 1839ء تک یہ سپاہ چالیس ہزار جوانوں پر مشتمل تھی۔ اگرچہ رنجیت سنگھ کے دربار میں‌ ہندو اور مسلمان بھی اپنی قابلیت اور صلاحیتوں‌ کی بنیاد پر منصب و مقام پر فائز رہے، لیکن بعض مؤرخین نے اقلیتوں کے لیے مشکلات کا ذکر بھی کیا ہے۔ برصغیر میں بدقسمتی سے کئی بادشاہوں کو قوم و ملّت اور مذہب کی بنیاد پر مطعون بھی کیا گیا اور تعصب کی وجہ سے کئی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ ان میں کسی ایک نسل اور مذہب کے ماننے والے شامل نہیں بلکہ جہاں جس کا زور چلا اس نے کوئی بات کسی سے منسوب کردی رنجیت سنگھ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کے باوجود مؤرخین کی اکثریت متفق ہے کہ مہاراجا کے دربار میں کسی کو رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیاز حاصل نہ تھا بلکہ مذہبی رواداری اور بھائی چارے کی فضا برقرار رکھی گئی تھی۔

    رنجیت سنگھ کی ایک آنکھ ضایع ہوچکی تھی اور وہ کانا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک بار مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنے وزیر خارجہ فقیر عزیز الدین سے کہا ‘رب چاہتا ہے کہ میں ہر مذہب کو ایک نظر سے دیکھوں اس لیے رب نے مجھے صرف ایک آنکھ ہی دی ہے۔ ‘ یہ واقعہ کرتار سنگھ دوگل کی کتاب ‘ رنجیت سنگھ ، دی لاسٹ ٹو لے آرم’ (Maharaja Ranjit Singh: The Last to Lay Arms) میں درج ہے۔ فقیر عزیز الدین کی طرح کئی اور مسلمان مہاراجہ رنجیت کے دربار میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے جنھیں ان کے مذہب کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی صلاحیتوں کی وجہ سے ان عہدوں پر فائز کیا گیا تھا۔

    مہاراجہ رنجیت کا عقیدہ گروہ گرنتھ صاحب پر تھا اور وہ ایک پکا سکھ تھا، اس کے باوجود مہاراجہ رنجیت سنگھ کا رحجان کسی ایک مذہب کی طرف نہیں دیکھا گیا۔

    انگریز مؤرخ سر لیپل گرفن کے علاوہ کنہیا لال ہندی، نور احمد چشتی، ڈاکٹر مارٹن ہونی برجر اور بعد میں پتونت سنگھ، فقیر وحید الدّین و دیگر نے بھی رنجیت سنگھ کے دور حکومت پر تحقیقی مضامین سپردِ‌ قلم کیے اور ان کی کتابیں‌ رنجیت سنگھ کی ذاتی زندگی اور اس کے عہد کی لفظی تصویریں پیش کرتی ہیں۔

    رنجیت سنگھ نے کئی شادیاں‌ کی تھیں۔ اس کی بیویوں میں‌ ہندو، سکھ اور مسلمان عورتیں‌ شامل تھیں۔ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ بیس بیویوں کے علاوہ رنجیت سنگھ کی کئی داشتائیں بھی تھیں۔ محققین کے مطابق رنجیت سنگھ حسن و شباب کا رسیا تھا۔ اس کے ساتھ وہ اپنی سلطنت کو استحکام اور دوام بخشنے کے لیے چھوٹی بڑی ریاستوں میں رشتے بھی کرتا رہا۔

    مؤرخین کے مطابق اس نے سات مسلمان لڑکیوں سے شادی کی اور ان میں سے ایک امرتسر کی مسلمان رقاصہ موراں تھی جسے سب سے زیادہ شہرت ملی۔ رنجیت سنگھ نے 1802ء میں موراں سے شادی کی اور موراں اس کی پسندیدہ رانی تھی۔ فقیر وحید الدّین کے مطابق موراں سے شادی کرنے کے لیے رنجیت سنگھ نے رقاصہ کے والد کی کئی شرائط قبول کیں۔ مشہور ہے کہ ان میں ایک شرط یہ تھی کہ مہاراجا کو موراں کے گھر آکر وہاں پھونکوں سے آگ جلا کر دکھانا ہوگی اور یہ شرط بھی مہاراجا نے پوری کی۔

    مہاراجا کی موراں سے چاہت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے موراں کے کہنے پر کئی فلاحی کام کیے، مساجد و باغ اور یادگاریں تعمیر کروائیں اور اس دور کی ایک مسجد آج بھی اندرونِ لاہور میں موجود ہے۔ موراں خود بھی ایک سخی اور مہربان عورت مشہور ہوئی۔ مشہور ہے کہ وہ اپنی سلطنت میں لوگوں کی مدد کرتی اور ان کے مسائل حل کرواتی تھی۔ اسی سبب عام لوگوں نے اسے موراں سرکار کہنا شروع کردیا تھا۔ موراں سے اپنی چاہت جتاتے اور محبت نبھاتے ہوئے رنجیت سنگھ گل بہار بیگم پر فریفتہ ہوگیا۔ وہ بھی ایک مشہور رقاصہ تھی اور مشہور ہے کہ گل بہار بیگم سے شادی کے لیے رنجیت سنگھ نے اپنے ہاتھوں پر مہندی بھی لگوائی تھی۔ لاہور میں ایک کوچہ، ایک رہائشی علاقہ اور ایک باغ گل بہار بیگم سے موسوم ہیں۔

    مصنّف آروی اسمتھ کے مطابق مہاراجہ رنجیت سنگھ زندگی کے آخری برسوں میں بڑھتی عمر، اپنی بیویوں کے مابین چپقلش اور ہر وقت کے لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے تنگ آچکا تھا اور افیون کا عادی ہوگیا تھا۔ شراب نوشی کی کثرت اور فالج رنجیت سنگھ کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ اس وقت ان مذاہب میں عورتیں اپنے شوہر کے ساتھ ہی ستی ہوجاتی تھیں اور رنجیت سنگھ کی چار ہندو بیویوں سمیت سات داشتائیں بھی اسی رسم کی بھینٹ چڑھ گئی تھیں۔

    رنجیت سنگھ کے درباری طبیب مارٹن ہونی برجر نے اپنی آپ بیتی ‘مشرق میں پینتیس سال’ میں اس ستی کا احوال یوں رقم کیا کہ ’مہاراجہ کی وفات سے اگلے روز صبح سویرے کیسے رانیاں ایک ایک کر کے پہلی اور آخری مرتبہ محل سے نکل کر لوگوں میں آتی ہیں اور موت کی راہ لیتی ہیں، سادہ لباس، ننگے پاؤں، پیدل حرم سے باہر آتی ہیں، آئینہ سامنے ہے تاکہ یقین ہو کہ وہ خوف چھپا نہیں رہیں۔ سو کے قریب افراد کچھ فاصلہ رکھتے ہوئے ساتھ ہیں۔ قریب ترین ایک شخص ایک چھوٹا ڈبا اٹھائے ہوئے ہے جس میں غریبوں میں تقسیم سے بچ جانے والے زیورات ہیں۔‘

    مارٹن ہونی برجر مزید لکھتے ہیں، ’ایک رانی تو سنسار چند کی بیٹی (گڈاں) ہیں جن سے اور جن کی بہن سے رنجیت سنگھ نے اکٹھے شادی کی تھی اور جس میں، مَیں شریک بھی ہوا تھا مگر میں انھیں پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ ان کی بہن کا پہلے ہی میری عدم موجودگی میں انتقال ہو چکا ہے۔‘ گڈاں کے علاوہ مہاراجہ کی تین راجپوت بیویاں، ہردیوی، راج دیوی اور رجنو کور بھی ستی ہوئیں۔

    جنازہ اٹھنے کا منظر وہ یوں بیان کرتے ہیں ’اب جنازے کا جلوس چل رہا ہے۔ ہزاروں افراد پیدل ساتھ ہیں۔ جنازے کے پیچھے چار رانیوں کو اب کھلی پالکیوں میں لایا جا رہا ہے۔ ان کے پیچھے سات کنیزیں پیدل اور ننگے پاؤں آرہی ہیں۔ ان کی عمر چودہ پندرہ سال سے زیادہ نہیں لگتی۔ اس غم ناک منظر پر شاید ہمارے دل ان سب سے زیادہ دھڑک رہے تھے جو اس رسم کا شکار ہونے جارہی تھیں۔ برہمن اشلوک، سکھ گرنتھ صاحب پڑھتے اور مسلمان یا اللہ، یااللہ پکارتے ساتھ تھے۔ آہستہ بجتے ڈھول اور دھیمے لہجے میں بولتے لوگوں کی آوازیں ماحول کی سوگواریت میں اضافہ کر رہے ہیں۔‘

    لاہور میں 1847ء میں رنجیت سنگھ کی سمادھی تعمیر کر لی گئی اور وہاں ایک بڑے کوزے میں رنجیت سنگھ کی راکھ اور چھوٹے برتنوں میں رانیوں اور کنیزوں کی راکھ محفوظ کردی گئی۔

    رنجیت سنگھ اعلیٰ نسل کے گھوڑوں‌ کا بہت شوق رکھتا تھا۔ اس کے اصطبل میں موجود گھوڑوں میں سے ایک ہزار گھوڑے مہاراجا کے لیے مخصوص تھے۔ لیلیٰ‌ ان میں سب سے خاص گھوڑی تھی۔ رنجیت سنگھ نے اسے حاصل کرنے کے لیے نہ صرف اپنے سپاہیوں کی جانیں گنوائیں بلکہ اس گھوڑی کو پانے کے لیے خوب رقم بھی خرچ کی۔ تب مہاراجا اسپِ لیلیٰ کا مالک بنا اور اسے ہیروں اور سونے سے مزین کیا۔ اس جانور سے رنجیت سنگھ کی انسیت کا خوب چرچا ہوتا تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ لیلیٰ‌ کی موت پر اتنا رویا کہ اسے چپ کروانا مشکل ہوگیا تھا۔

  • چراغ حسن حسرت: ادب اور صحافت کی دنیا کا گوہرِ‌ تاب دار

    چراغ حسن حسرت: ادب اور صحافت کی دنیا کا گوہرِ‌ تاب دار

    ہندوستان کی تاریخ میں بہت کم ایسی شخصیات گزری ہیں جنھوں نے نثر اور نظم نگاری کے ساتھ ساتھ صحافت کے میدان میں بھی اپنے نام کا سکہ جمایا۔ مولانا ظفر علی خان اور مولانا محمد علی جوہر کے نام تو سرفہرست ہیں ہی، لیکن چراغ حسن حسرت بھی انہی خصوصیات کے حامل تھے۔ آج حسرت کی برسی منائی جا رہی ہے۔

    چراغ حسن حسرت جیّد صحافی اور عمدہ شاعر بھی تھے۔ مزاحیہ کالم نگاری میں ان کا مقام قابل رشک ہے۔ بدقسمتی سے آج حسرت کے فن و شخصیت کا تذکرہ کم ہی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ کتب بینی اور مطالعہ کا رجحان کم ہوجانا ہی نہیں بلکہ نئی نسل کی دل چسپی ادب اور ادبی مضامین میں نہ ہونا بھی ہے۔ اردو کتابیں اور اخبار پڑھنے والے پرانے لوگ حسرت کے نام اور ان کی تحریروں سے خوب واقف ہیں جو اب ایک ایک کر کے اٹھتے جارہے ہیں۔ خاص طور پر حسرت کے کالم لوگ بہت شوق سے پڑھا کرتے تھے۔ 26 جون 1955ء کو چراغ حسن حسرت لاہور میں وفات پا گئے تھے۔

    حسرت نے کئی ماہ ناموں اور یومیہ بنیاد پر شایع ہونے والے مؤقر اخبارات کی ادارت کی اور مضامین بھی لکھے۔ وہ باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے، اور فوج میں ملازمت کی وجہ سے اکثر ساتھی ان کو میجر حسرت بھی کہا کرتے تھے۔

    چراغ حسن حسرت 1904 ء میں بارہ مولا کشمیر میں پیدا ہوئے۔ زمانۂ طالب علمی میں شاعری کی طرف مائل ہوئے اور لکھنے لکھانے کا شوق وقت کے ساتھ بڑھتا چلا گیا۔ میٹرک کرنے کے بعد وہ پاکستان آ گئے۔ اپنے کیریئر کا آغاز مختلف اسکولوں میں اردو اور فارسی پڑھانے سے کیا۔ اور پھر صحافت سے منسلک ہوگئے۔ اپنے دور کے کئی روزناموں‌ میں ادارت کے ساتھ قلمی ناموں سے کالم بھی شایع کروانے لگے۔ ان میں ’’کولمبس، کوچہ گرد اور سند باد جہازی‘‘ کے نام سے ان کے کالم اور تبصرے بھی بہت پسند کیے گئے۔ کلکتہ میں اپنا قلمی سفر شروع کرنے کے بعد 1920ء میں وہ شملہ کے ایک اسکول میں فارسی کے استاد مقرر ہوئے جہاں مولانا ابوالکلام آزاد سے ملاقات ہوئی اور ان کا حسرت کے ذہن اور قلم پر بہت اثر نظر آتا ہے۔ کئی اخبارات میں کام کرنے کے بعد مولانا ظفر علی خان کی دعوت پر حسرت صاحب لاہور آگئے اور ان کے اخبار ’’زمیندار‘‘ سے وابستہ ہوئے۔ ہندوستان میں ان کا قلم اپنا زور دکھا کر کئی مداح بنا چکا تھا جن میں مشاہیر بھی شامل تھے۔ بعد میں لاہور آکر بھی انھیں کئی نابغۂ روزگار شخصیات کی رفاقت نصیب ہوئی جنھوں نے حسرت کو بہت سراہا۔

    چراغ حسن حسرتؔ کا شمار بیسویں صدی کے ان مشاہیر میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی علمی و ادبی شخصیت سے اپنے دور میں ادب اور صحافت کے شعبہ پر گہرا اثر چھوڑا۔ شاعری پر وہ توجہ بہت کم دے سکے مگر اردو نثر میں ایسے اسلوب کو متعارف کرایا جسے سبھی نے سراہا ہے۔ چراغ حسن حسرتؔ کی نثر کے بارے میں شورش کاشمیری لکھتے ہیں: ’’وہ نثر کی ہر صنف پر قادر تھے، سیرت بھی لکھی، افسانے بھی تحریر کیے، تاریخ پر بھی قلم اٹھایا۔ بچوں کا نصاب بھی لکھا۔‘‘

    حسرتؔ کی نثر میں متین و سنجیدہ، خالص ادبی و رومانی اور مزاحیہ تحریریں سبھی شامل ہیں۔ فکاہیہ مضامین کے علاوہ خاکہ نویسی، تراجم، تنقیدی تبصرے اور مضامین بھی حسرت کے قلم سے نکلے۔ ان کی تخلیقات پر مشتمل کتابیں اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔

  • مائیکل جیکسن: شہرت اور مقبولیت کی دیوی بھی جس کی اسیر تھی!

    مائیکل جیکسن: شہرت اور مقبولیت کی دیوی بھی جس کی اسیر تھی!

    مائیکل جیکسن کو جدید دور کا ایک ایسا ساحر کہیے کہ جس نے اپنی آواز اور انداز سے سماعتوں کو مسخّر کیا اور دلوں پر راج کرتا رہا۔ وہ ایک ایسا فن کار تھا، جسے معاشرے نے اس کی بے راہ روی پر مطعون بھی کیا اور اس پر عدالت میں مقدمہ بھی چلا، لیکن یہ سب اس کے پرستاروں کی تعداد نہ گھٹا سکا۔ 25 جون 2009ء کو مائیکل جیکسن کی موت پر دنیا افسردہ تھی۔

    "کنگ آف پاپ میوزک” کہلانے والے مائیکل جیکسن کی موت کے ساتھ ہی گویا پاپ میوزک کا ایک پُرشکوہ باب بھی ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ ہمہ جہت اور تخلیقی انفرادیت کے حامل مائیکل جیکسن نے گلوکار اور میوزک پروڈیوسر کی حیثیت سے بلاشبہ لازوال شہرت پائی اور راتوں رات مقبولیت کے ہفت آسمان طے کیے۔ مائیکل جیکسن نے اپنے زمانے میں کنسرٹ کے تصوّر کو یک سَر بدل کر رکھ دیا۔ اس کی نجی زندگی کئی نشیب و فراز اور رنج و الم سے بھری ہوئی ہے۔ مائیکل جیکسن کے اوراقِ زیست الٹیے تو معلوم ہو گا کہ وہ کئی بار ٹوٹا، بکھرا اور ہر بار ہمّت کر کے اسٹیج پر پہنچا جہاں برقی قمقموں کی جگمگ جگمگ اور محفل کی رونق نے اسے ایک فن کار کی حیثیت سے توانائی سے بھر دیا اور اس نے دل فتح‌ کیے۔

    مائیکل جیکسن کی خوبی اس کی بے مثال گائیکی کے ساتھ وہ غیر معمولی رقص اور اکثر وہ انوکھی اسٹیج پرفارمنس ہے، جس نے مائیکل جیکسن کو عالمی شہرت دی۔ اس کے علاوہ مائیکل جیکسن کو اپنی پُراسرار شخصیت اور انوکھے طرزِ زندگی کی وجہ سے بھی خوب شہرت ملی۔

    مائیکل جیکسن 1982ء میں ’تھرلر‘ نامی البم کے بعد دنیا میں متعارف ہوا اور اسی البم کی بدولت راتوں رات پاپ اسٹار بن گیا۔ اس البم کی 41 ملین سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئیں جو ایک ریکارڈ ہے۔

    19 اگست 1958 کو امریکا میں پیدا ہونے والے مائیکل جیکسن کو بچپن ہی سے موسیقی سے شغف ہوگیا تھا۔ وہ اپنے چار بڑے بھائیوں کے ساتھ جیکسن فائیو نامی میوزک بینڈ بنا کر پرفارم کرنے لگا اور بعد میں‌ اپنا البم جاری کیا جس نے ہر طرف اس کے نام کی دھوم مچا دی۔ ‘تھرلر‘ سے پہلے اس گلوکار کا ایک سولو البم ’آف دا وال‘ بھی منظرِ عام پر آچکا تھا جو بہت مقبول ہوا، لیکن وجہِ شہرت ’تھرلر‘ بنا۔ اس البم کے بعد ’بیڈ‘ سامنے آیا جس کی بیس ملین کاپیاں فروخت ہوئیں۔ پھر ’ڈینجرس‘ ریلیز ہوا اور یہ بھی مقبول البم ثابت ہوا۔

    اس امریکی گلوکار کو شہرت اور مقبولیت کے ساتھ کئی تنازعات نے بھی دنیا بھر میں‌ توجہ کا مرکز بنایا۔ لوگ اسے ہم جنس پرست اور نشہ آور اشیا کے استعمال کا عادی سمجھتے تھے۔ نوّے کی دہائی میں مائیکل جیکسن پر ایک لڑکے سے جنسی زیادتی کے الزام عائد کیا گیا اور موت سے کچھ عرصہ قبل بھی وہ بچّوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا مقدمہ لڑ رہا تھا جس میں اسے بری کردیا گیا تھا۔ دوسری طرف کئی قصے اس گلوکار سے منسوب تھے اور کہا جاتا تھا کہ اسے اپنی کالی رنگت سے نفرت تھی۔ وہ ایک سیاہ فام تھا جو اپنی جلد کو سفید دیکھنے کے علاوہ چہرے کو خوب صورت بنانا چاہتا تھا۔ مائیکل جیکسن نے متعدد بار اپنے چہرے کی پلاسٹک سرجری کروائی تھی۔

    1994ء میں مائیکل جیکسن کی شادی ماضی کے مشہور پاپ اسٹار ایلوس پریسلے کی بیٹی سے ہوگئی جو صرف دو برس قائم رہ سکی۔ آخری ایام زیست میں‌ مائیکل جیکسن کو تنازعات کے علاوہ مالی مشکلات نے بھی گھیر لیا تھا۔

    شہرۂ آفاق گلوکار مائیکل جیکسن کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ موت سے ڈرتا تھا اور خواہش تھی کہ ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہے۔ سیاہ فام اور غریب گھرانے میں پیدا ہونے والے مائیکل جیکسن کو اپنے ماضی سے بھی نفرت تھی اور کہتے ہیں‌ کہ اس کا بچپن لڑائی جھگڑوں اور والد کے تشدد کی وجہ سے کئی نفسیاتی پیچیدگیوں میں گھرا ہوا تھا جو بعد میں محرومیوں کی شکل میں‌ اس کے ساتھ رہیں۔

  • بہادر یار جنگ: ایک دل موہ لینے والی قد آور شخصیت

    بہادر یار جنگ: ایک دل موہ لینے والی قد آور شخصیت

    ہندوستان میں مسلمانوں کے تہذیبی و دینی تشخص کی حفاظت کرتے ہوئے پاکستان کے قیام کی بھرپور حمایت کرنے والوں میں بہادر یار جنگ کا نام سرِ فہرست ہے۔ وہ ایک عظیم مسلمان راہ نما، ایک مدبر اور ایسی شخصیت تھے جن کی زندگی کا مقصد تحریکِ آزادی کی کام یابی رہا۔

    بہادر یار جنگ نے بہت کم عمر پائی اور مشہور ہے کہ انھیں‌ زہر دیا گیا تھا۔ وہ 1905ء میں پیدا ہوئے اور 25 جون 1944ء میں انتقال کرگئے۔ لیکن اسی مختصر عمر میں بہادر یار جنگ نے بڑا نام و مقام، عزّت و مرتبہ پایا اور ہندوستان بھر میں مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے بھی اپنے علم اور لیاقت و ذہانت کو منوایا۔

    بہارد یار جنگ مسلم لیگ کے سرگرم راہ نما تھے جنھیں خطیبِ سحرُ البیان کہا جاتا ہے۔ وہ قلم کے دھنی اور شعلہ بیاں مقرر تھے۔ یہاں ہم بانیٔ کُل ہند مجلسِ تعمیرِ ملّت کے اہم رکن سید خلیل اللہ حسینی کی ایک تحریر نقل کر رہے ہیں‌ جو ایک عرصہ بہادر یار جنگ کے ساتھ رہے۔ سید خلیل اللہ حسینی لکھتے ہیں، "بہادر خاں اگر صرف خطیب ہوتے تو اپنی ساری مشّاقیِ خطابت اور مقررانہ عظمت کے باوجود پھر بھی قائدِ ملّت نہ ہوتے۔ اگر ان کی غیر معمولی تنظیمی صلاحیت کی تعریف مقصود ہے تو بلاشبہ اس میدانِ اجتماعی میں بھی وہ اپنی نظیر آپ تھے، لیکن تنظیمی صلاحیت ان کی عظمت کا راز نہ تھی۔”

    "اگر ان کی دل موہ لینے والی قد آور شخصیت کی ستائش کی جاتی ہے تو بھی بے جا ہے کہ ایک عظیم اور پُراسرار شخصیت اپنے دلربا تبسم سے دلوں کو مٹّھی میں لے لیتی ہے اور دلوں کو مسخّر کرنے کا ان کا فن خوبانِ شہر کے لیے بھی باعثِ صد رشک و حسرت تھا لیکن یہ دلآویزیِ طبع بجائے خود عظمتِ بہادر خاں کی کلید نہیں ہے۔”

    "بہادر خان کی عظمت کا راز یہ تھا کہ وہ ایک انسان تھے، انسانوں کی دنیا میں انسان تھے اور یہی بڑی غیر معمولی بات ہے!”

    "لوگوں سے ملنے جلنے کے انداز، چھوٹوں سے محبت، اور بڑوں کا ادب، ان صفات کا پیکر میں نے تو صرف بہادر خان کو دیکھا۔ چھوٹوں سے شفقت کا تو میں بھی گواہ ہوں۔ میں ایک کم عمر طالب علم کی حیثیت سے درسِ اقبال کی محفلوں میں جاتا اور کسی کونے میں بیٹھ جاتا۔”

    "ایک مرتبہ وہ میرے قریب آئے۔ نام پوچھا، تعلیم کے بارے میں سوال کیا اور ہمّت افزائی کے چند کلمات کہے، بات آئی گئی ہو گئی۔”

    "اب اس کے بعد یہ حالت ہو گئی کہ وہ موٹر میں جارہے ہوں اور میں سائیکل پر، لیکن سلام میں پہل ہوتی موٹر میں سے۔ پہلی مرتبہ جب دار السلام روڈ پر ایسا سابقہ ہوا تو جواب دینے میں غالباً میرے دونوں ہاتھ اٹھ گئے اور میں سائیکل سے گرتا گرتا بچا۔”

    "ایک چپراسی صاحب، بہادر خان کے بڑے اعتماد کے کارکن تھے۔ ایک دفعہ جب وہ ملنے گئے اور کمرہ میں بلا لیے گئے تو بچارے ٹھٹک سے گئے۔ کیوں کہ اس وقت بہادر خان سے ان کے ناظم صاحب مصروفِ تکلم تھے۔ بہادر خان نے بات کو تاڑ لیا اور کہا کہ آپ چپراسی ہوں گے دفتر میں، میرے پاس تو سب برابر ہیں بلکہ آپ تو میرے رفیق ہیں۔ یہ کہہ کر ان کو اپنے بازو صوفہ پر بٹھا لیا۔”

    "ایسے واقعات کا انبار لگایا جا سکتا ہے اور ایسا واقعہ بہادر خان کی شرافت، خلوص، انسانی محبت اور جذبۂ خدمت کا ثبوت دیتا رہے گا۔ بہادر خاں کا حال پہاڑ کی بلند چوٹی کا سا تھا۔ دور سے دیکھیے تو جاہ و جلال کا منظر، قریب ہوتے جائیے تو آنکھوں کو ٹھنڈک، دل کو طراوت اور طبیعت کو تازگی ملتی۔ پھر دنیا کا منظر ہی کچھ اور حسین نظر آتا۔”

    پروفیسر خواجہ قطب الدّین نے ان کی برسی کے موقع پر ایک مضمون پڑھا تھا جس کے چند پارے پیشِ‌ خدمت ہیں۔ وہ لکھتے ہیں، محمد بہادر خان فروری 1905ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت کے چند دن بعد ہی ان کی والدہ وفات پاگئیں۔ بہادر خان کی نانی نے جو ایک نہایت سمجھ دار اور مذہبی خاتون تھیں ان کی پرورش کی۔ اٹھارہ سال کے ہوئے تو والد کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ والد کے انتقال کے وقت جاگیر قرضوں کے بوجھ سے دبی ہوئی تھی۔ نواب صاحب نے غیر معمولی تدبّر اور انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور تھوڑی سی مدّت میں قرضوں سے نجات حاصل کرلی۔ جاگیر کے حالات سنبھل گئے تو نواب صاحب نے حج بیتُ اﷲ کا عزم کیا۔ حج سے فارغ ہوکر مسلم ممالک کی سیاحت کی، سیّاحت سے واپسی کے بعد خاکسار تحریک سے وابستگی اختیار کرلی اور ساتھ ہی ریاست کی ایک سیاسی و مذہبی تنظیم مجلسِ اتحادُ المسلمین میں بھی شامل ہوگئے۔

    1944ء میں بہادر یار جنگ خاکسار تحریک سے علیحدہ ہوگئے اور اپنی ساری توجہ مجلسِ اتحادُ المسلمین کی طرف مرکوز کردی۔ انھوں نے مجلس میں ایک رضا کار تنظیم قائم کی۔ بہادر یار جنگ کی قائدانہ صلاحیتوں نے مسلمانانِ حیدر آباد(دکن) میں ایک نیا قومی جذبہ پیدا کردیا۔

    سیاست میں ان کے ہیرو قائدِ اعظم تھے جن کی زندگی سے انھوں نے عزم و ثبات کا سبق سیکھا تھا۔ ان میں قائدِاعظم کی سی اصول پرستی تھی اور وہی بے باکی اور صاف گوئی۔ وہ نڈر اور جری تھے۔ مجاہد کی طرح ہر محاذ پر ڈٹ جاتے اور غازی کی طرح کام یاب اور کام ران رہتے۔ دوسری خصوصیت ان کی خطابت تھی۔ قدرت نے انھیں یہ نعمت بطورِ خاص عطا کی تھی اور اس کا استعمال بھی انھوں نے ہر موقع اور ہر محل پر صحیح کیا۔ بغیر کسی تیاری کے وہ ہر موضوع پر بے تکان بولتے تھے۔ انھوں نے تحریکِ پاکستان کو فروغ دینے میں جس خلوص و تن دِہی سے حصہ لیا تھا اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ اسلام کے بڑے شیدائی تھے۔ ان کی دلی تمنّا تھی کہ ایک ایسی مملکت برصغیر کے اندر بنائی جائے جہاں اسلامی آئین و قوانین نافذ ہوں۔

    بہادر یار جنگ کی تحریر بھی زبردست ہوا کرتی تھی جس کا اندازہ "میں مطالعہ کس طرح کرتا تھا؟” کے عنوان سے اس عظیم راہ نما کے مضمون سے کیا جاسکتا ہے۔ ان کا یہ مضمون 1942ء میں شایع ہوا تھا۔ بہادر یار جنگ لکھتے ہیں: "میری حالت ان نوجوانوں سے مختلف نہ تھی جو ابتدائی درسی کتابوں سے فارغ ہو کر عام مطالعہ کی ابتدا کرتے ہیں۔”

    "اس عمر میں جب کہ دماغی صلاحیتیں پوری طرح ابھری ہوئی نہیں ہوتیں اچھی اور بری کتاب کی تمیز بہت کم ہوتی ہے۔ قصص اور حکایات مبتدی کی توجہ کو جلد اپنی طرف پھیر لیتے ہیں۔ میرے مطالعہ کی ابتدا بھی حکاایت و قصص سے ہوئی۔”

    "مدرسہ اور گھر پر اساتذہ کی گرفت سے چھوٹنے کے بعد جو اوقاتِ فرصت مل جاتے وہ زیادہ تر کسی ناول یا افسانہ کی نذر ہو جایا کرتے تھے۔ کھیل کود سے مجھے کچھ زیادہ دل چسپی نہ تھی۔ یا سچّی بات یہ ہے کہ کھیل کود کے قابل ہی نہیں بنایا گیا تھا۔ قد کی بلندی نے اب اعضا میں تھوڑا تناسب پیدا کر دیا ہے۔ ورنہ اپنی عنفوانِ شباب کی تصویر دیکھتا ہوں تو موجودہ متحارب اقوام کے بنائے ہوئے کسی آتش افروز بم کی تشبیہ زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔ چار قدم چلتا تھا تو ہانپنے لگتا تھا اور کھیلنے کے بجائے خود دوسروں کے لیے تماشہ بن جاتا تھا۔ اس لیے میری زندگی کا عملی دستور "اگر خواہی سلامت برکنار است” تھا۔ نگاہیں کبھی کھیلتے ہوئے احباب پر پڑتی تھیں اور کبھی صفحاتِ کتاب کے میدان میں دوڑنے لگتی تھیں اور جب پلے گراؤنڈ سے اٹھ کر گاڑی میں سوار ہوتا تو مدرسہ سے گھر پہنچنے تک ناول کے ایک دو باب ضرور ختم ہو جاتے تھے۔”

    "رفتہ رفتہ اس شوق نے جنون کی شکل اختیار کر لی۔ عمر جیسے جیسے بڑھتی گئی یہ جنون ویسے ویسے اعتدال پر آتا گیا۔ ایک طرف موضوعِ مطالعہ میں تبدیلی ہوئی اور افسانوں اور حکایات کی بجائے سوانح عمری اور سیرت کا مطالعہ شروع ہوا اور مطالعہ کے اوقات متعین و معین ہونے لگے۔”

    "بیسویں صدی عیسوی کے ہر نوجوان کی طرح شاعری کا خبط شعور کی ابتدا کے ساتھ پیدا ہو چکا تھا اور شوقِ شعر گوئی نے شعرا کے تذکروں اور دواوین کی طرف متوجہ کردیا تھا۔ آج اپنے کلام کا پرانا نمونہ سامنے آجاتا ہے تو بے اختیار ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگتی ہے۔ لیکن آج سے 25 برس قبل ہم اپنے آپ کو غالب اور ذوق سے کچھ زیادہ نہیں تو کم بھی نہ سمجھتے تھے۔ ہماری شعر گوئی اور مطالعۂ دواوین کا سب سے اچھا وقت صبح کے ابتدائی لمحات ہوا کرتے تھے۔ لیکن جیسے جیسے ادب نے ایک معیاری کیفیت پیدا کی تو خود بخود یہ احساس ہونے لگا کہ شاعر پیدا ہوتا ہے، بنتا نہیں۔ اور ہماری میز سے ہٹ کر دواوین الماریوں کی زینت بنتے گئے۔ اور بانگِ درا کے سوا میز پر کچھ باقی نہیں رہا۔ آخری دور میں اگر کسی کے کلام نے اقبال کے کلام کا ساتھ دیا تو وہ مولوی روم کی مثنوی اور سعدی کی گلستاں تھی۔”

    "جب ہم اپنے گھر میں جوان اور بڑے سمجھے جانے لگے تو ہماری بیٹھک کے کمرے الگ کر دیے گئے تھے اور احباب کی محفلیں جمنے لگی تھیں۔ لغویات سے فطرتاً نفرت تھی۔ علم و ادب زندگی کا سب سے دل چسپ مشغلہ بن گئے تھے۔ ابتداً محض تفریح کے طور پر میں نے اپنے احباب کے ساتھ مل کر مطالعہ کرنا شروع کیا۔ یعنی یہ ہوتا کہ الہلال، ہمایوں، ہزار داستان، معارف، زمانہ یا کوئی اور معیاری ادبی و علمی رسالہ یا کوئی اچھی کتاب کسی ایک صاحب کے ہاتھ میں ہوتی اور اکثر میں ہی قاری کی خدمت انجام دیا کرتا۔ ایک ایک فقرے پر اکٹھے خیال آرائیاں ہوتیں، اختلاف و اتفاق ہوتا۔ بحث و تکرار ہوتی اور یہ بحث دماغ کے صفحہ پر خیالات کے کبھی نہ مٹنے والے تسامات کا باعث بنتی۔”

    "تجربے نے بتلایا کہ خاموش اور انفرادی مطالعہ سے یہ مشترک مطالعہ کا طریقہ زیادہ مفید اور زیادہ کارآمد ہے، جب سیر و تراجم تذکرہ و تاریخ سے آگے بڑھ کر ذوقِ مطالعہ نے ٹھوس اور سنجیدہ فلسفیانہ و سیاسی، اخلاقی و مذہبی علوم کی طرف توجہ کی تو ایک اور طریقے نے مجھے بہت فائدہ پہنچایا۔ فلسفہ اور علمِ کلام یا مذہب و سیاست کے کوئی مقامات اگر سمجھ میں نہ آتے تو میں ان کو اپنی اس چھوٹی نوٹ بک میں جو میرے جیب کا مستقل سرمایہ بن گئی تھی، نوٹ کرتا اور جن بزرگوں کی نظر ان علوم پر میرے نزدیک عمیق تھی ان سے ملاقات کے جلد سے جلد مواقع تلاش کرتا اور ان سے ان اشکال کو حل کرنے کی کوشش کرتا۔ آج اپنے ان لمحات کو اپنی حیاتِ گزشتہ کا سب سے قیمتی سرمایہ سمجھتا ہوں۔”

    "لوگ صرف کتاب پڑھنے کو مطالعہ سمجھتے ہیں۔ میرے نزدیک کسی کے مطالعہ کا مطالعہ یہی سب سے اچھا مطالعہ ہے۔ جب والد مرحوم کے انتقال کی وجہ سے اٹھارہ برس کی ابتدائی عمر ہی میں میرے سَر پر گھر کی ساری ذمہ داریوں کا بوجھ پڑ گیا اور مدرسہ کی تعلیم ناقص حالت میں ختم ہوگئی۔ تو میرے مطالعہ کا سب سے بہترین طریقہ یہ تھا کہ جن لوگوں نے مختلف اصنافِ علم میں زیادہ سے زیادہ مطالعہ کیا ہو ان کو اپنے اطراف جمع کرلوں یا ان کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں اور ان کی عمر بھر کے مطالعہ کا نچوڑ ان سے سنوں اور پھر کانوں کے ذریعہ اس کا مطالعہ کروں، اسی تمنا نے آوارہ گردی و صحرا نوردی پر آمادہ کیا۔”

    "لوگ اوراقِ کاغذ کے مجموعے کو الٹنے اور اس پر لکھی ہوئی سیاہ لکیروں کو پڑھنے کا نام مطالعہ سمجھتے ہیں۔ میرے پیشِ نظر ہمیشہ سے ایک اور کتاب رہی ہے جس کے صرف دو ورق ہیں لیکن جس میں سب کچھ ہے اور یہ کتاب صحیفۂ کائنات ہے۔ آسمان اور زمین کے ان دو اوراق کے درمیان مہر و ماہ، کواکب و سیارات، شفق، قوس قزح، ابر و باد، کوہ صحرا، سمندر و ریگستان نے ایسے ایسے خطوط کھینچے ہیں جن میں فکر کرنے والی نگاہ اپنے لیے سب کچھ حاصل کرسکتی ہے۔”

    "آہ دنیا بدل گئی، فرصت کے وہ رات دن اب خود میرے لیے افسانہ بن گئے۔ اب ان کو جی ڈھونڈتا ہے مگر پا نہیں سکتا۔ قوم و ملّت کی جو ذمہ داریاں ہم نے ابتدائی اوقاتِ فرصت کو صرف کرنے کے لیے اپنی مرضی سے قبول کی تھی، اپنی زندگی کے سارے لمحات پر مسلط ہو گئیں۔ کتاب سامنے آتی ہے تو تنگیِ وقت کا تصور آہ بن کر زبان سے نکلتا ہے۔ اخبار ہی پڑھنے سے فرصت نہیں کتاب کا ذکر کیا۔ اب کتاب پڑھنے کی سب سے اچھی جگہ ریل گاڑی کا ڈبہ ہے اور سفر کی وہ منزلیں جو طے ہونے سے رہ جائیں۔”

  • صفی لکھنوی: کلاسیکی دور کے ایک مقبول شاعر

    صفی لکھنوی: کلاسیکی دور کے ایک مقبول شاعر

    دبستانِ لکھنؤ کے صفی لکھنوی اردو کلاسیکی شاعری کے آخری اہم شعراء میں سے ایک تھے جو اپنے دور میں بے حد مقبول ہوئے۔ اس کا سبب ان کے کلام کی شیرینی، تنوع، لطافت اور سادہ طرزِ بیان بھی ہے۔ صفی لکھنوی 25 جون 1950ء کو وفات پا گئے تھے۔

    صفی لکھنوی کی شاعری اس وقت کے علم و ادب میں‌ ممتاز شہر لکھنؤ کی خاص فضا اور ماحول کی عکاس ہے۔ ان کا یہ شعر بہت مشہور ہوا اور باذوق افراد اس شعر کو ابتدائے شوق ہی میں‌ پڑھ چکے ہوتے ہیں۔

    غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
    ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا

    صفی لکھنوی جن کا اصل نام سید علی نقی زیدی تھا۔ وہ 3 جنوری 1862ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ زمانے کے دستور کے مطابق فارسی اور عربی سیکھی اور انگریزی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کالج میں‌ داخل ہوئے۔ امتحان پاس کرنے کے بعد 1879ء میں تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ ان کا مضمون انگریزی تھا۔ بعد ازاں محکمہ دیوانی میں ملازم ہوئے اور وہیں سے ریٹائر ہوئے۔

    صفی نے 13 سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ انھوں نے مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی اور ہر صنفِ‌ سخن میں‌ خوب خوب لکھا۔ انھوں نے بلاشبہ اپنے فنِ‌ شاعری سے لکھنؤ کی بزمِ ادب کو رونق بخشی اور بطور شاعر ممتاز ہوئے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ صفی نے روایت و جمالیات کے ساتھ ساتھ لکھنؤ کے عام شعری مزاج سے ہٹ کر شاعری کی، اور یہی ان کی انفرادیت و امتیاز ہے۔ مولانا حسرت موہانی جیسی علم و ادب میں ممتاز شخصیت انھیں ’مصلحِ طرزِ لکھنؤ‘ کہا کرتی تھی۔

    اگرچہ وہ دور غزل کی مقبولیت کا تھا، لیکن صفی نے غزل گوئی کے ساتھ بالخصوص نظم کو اپنی قوّتِ متخیّلہ سے اس طرح سجایا اور ایسے موضوعات پر کلام لکھا جن پر بہت کم شعرا توجہ دے رہے تھے۔ صفی لکھنوی نے اس دور میں قومی نظمیں بھی کہیں جو خاص طور سے ان کے عہد کے سماجی، سیاسی اور تہذیبی مسائل کی عکاسی کرتی ہیں۔ غزل اور نظم کے علاوہ اردو شاعری کی رائج اصناف جیسے قصیدہ، رباعی اور مثنوی میں بھی صفی نے طبع آزمائی کی ہے۔

    صفی لکھنوی نے شعر و ادب کا وقیع سرمایہ یادگار چھوڑا ہے۔ یہاں ہم ان کی ایک غزل نقل کررہے ہیں جو بہت مقبول ہوئی تھی۔

    جانا، جانا جلدی کیا ہے؟ ان باتوں کو جانے دو
    ٹھہرو، ٹھہرو، دل تو ٹھہرے، مجھ کو ہوش میں آنے دو

    پانو نکالو خلوت سے، آئے جو قیامت آنے دو
    سیارے سر آپس میں ٹکرائیں اگر ٹکرانے دو

    بادل گرجا، بجلی چمکی، روئی شبنم، پھول ہنسے
    مرغِ سحر کو ہجر کی شب کے افسانے دہرانے دو

    ہاتھ میں ہے آئینہ و شانہ پھر بھی شکن پیشانی پر
    موجِ صبا سے تم نہ بگڑو زلفوں کو بل کھانے دو

    کثرت سے جب نام و نشاں ہے کیا ہوں گے گم نام صفیؔ
    نقش دلوں پر نام ہے اپنا نقشِ لحد مٹ جانے دو

  • سید محمد تقی: ایک عالی دماغ کا تذکرہ

    سید محمد تقی: ایک عالی دماغ کا تذکرہ

    سیّد محمد تقی کو پاکستان میں ایک فلسفی، دانش ور اور صحافی کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جن کی متعدد تصانیف آج بھی بالخصوص فلسفہ کے مضمون میں دل چسپی رکھنے والوں کے لیے فکری راہ نمائی کا ذریعہ اور تعلیمی اعتبار سے بہت کارآمد ہیں۔

    فلسفہ کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی عقل کے ارتقا کی تاریخ ہے۔ فلسفہ کو ’’اُمّ العلوم‘‘ بھی کہا جاتا ہے جو کہ آج کے دور میں بھی مروجہ علوم کا ماخذ ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے مدارس اور جامعات کی سطح پر فلسفہ کی وہ اہمیت نہیں جو دیگر علوم اور فنون کو دی جاتی ہے۔ تعلیمی اعتبار سے ایک بڑا مسئلہ فلسفہ سے متعلق اردو میں مستند اور جامع کتابوں کی عدم دست یابی بھی ہے۔

    سیّد محمد تقی کو پاکستان ہی نہیں‌ عالمی سطح پر ایک مفکّر اور فلسفی کے طور پر پہچانا جاتا ہے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 25 جون 1999ء کو وفات پاگئے تھے۔ سیّد محمد تقی کے فلسفہ کے مختلف موضوعات پر لیکچرز اور اردو میں تحریر کردہ کتابوں کا ہماری فکر اور نظریۂ حیات کو ایک سمت دینے اور طلبہ کی تربیت کرنے اہم کردار ہے۔

    2 مئی 1917ء کو ہندوستان کے مردم خیز خطّے امروہہ میں جنم لینے والے سیّد محمد تقی کا خاندان علم و دانش، فکر و فن کے لیے مشہور ہے۔ ان کے والد علّامہ شفیق حسن ایلیا ایک وسیعُ العلم اور صاحبِ مطالعہ شخص تھے جو اپنے گھر میں علمی و ادبی مجالس کا اہتمام کرتے جس میں اس وقت کی عالم فاضل شخصیات شریک ہوتی تھیں۔ اسی ماحول نے سیّد محمد تقی کو فکری اور نظریاتی بنیاد پر توانا اور تاب دار کیا۔ وہ نام ور صحافی، ادیب اور شاعر رئیس امروہوی اور اردو کے مقبول ترین شاعر جون ایلیا کے بھائی تھے۔

    سیّد محمد تقی نے بھی اپنے والد اور خاندان کی دیگر شخصیات کی طرح علم و ادب کو اوڑھنا بچھونا بنایا اور صحافت بھی کی۔ سید محمد تقی ایک بیدار مغز، متجسس انسان تھے جن کی قدیم و جدید علوم میں گہری دل چسپی شروع ہی سے تھی۔ بعد میں‌ جب انھوں نے اپنے علمی ذوق و شوق اور تحقیق و جستجو کو قلم کی نوک پر لیا تو کئی ایسی تصانیف سامنے آئیں جنھیں آج بھی سراہا جاتا ہے۔ سیّد محمد تقی کی ایک مشہور تصنیف “تاریخ اور کائنات، میرا نظریہ” ہے جس میں انھوں نے اپنی فلسفیانہ اور دانش ورانہ سوچ سے ایک جامع اور مربوط نظام کو بیان کرنے کی کوشش ہے۔ ان کی دیگر تصانیف میں پراسرار کائنات، منطق، فلسفہ اور تاریخ، نہج البلاغہ کا تصور الوہیت اور روح اور فلسفہ شامل ہیں۔ کارل مارکس کی مشہور تصنیف داس کیپٹل کو سید محمد تقی نے اردو میں منتقل کیا تھا۔

    کربلا تہذیب کا مستقبل، پاکستانی فلسفی اور دانش ور سید محمد تقی کی آخری کتاب ہے، لیکن اس کا مسودہ گم ہوگیا تھا اور کئی برس بعد جب یہ مسوّدہ ملا تو اسے بھی کتابی شکل میں‌ شایع کیا گیا۔

    پاکستانی دانش ور، فلسفی اور صحافی سید محمد تقی سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • قیوم نظر: اردو غزل کو نیا مزاج اور آہنگ عطا کرنے والا شاعر

    قیوم نظر: اردو غزل کو نیا مزاج اور آہنگ عطا کرنے والا شاعر

    ادب کی دنیا میں مختلف نظریات اور دبستان سے وابستہ ہونے والوں نے گروہی سرگرمیوں کے لیے تنظیموں اور اداروں کی بنیاد رکھی جن میں‌ بعض‌ پلیٹ فارم ایسے تھے جن کے ذریعے نہ صرف ادب سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوا بلکہ اس نے نئے لکھنے والوں کی راہنمائی اور تربیت کا بھی کام کیا۔ حلقۂ اربابِ ذوق ایسا ہی ایک پلیٹ فارم تھا جس کی بنیاد رکھنے والوں میں‌ قیوم نظر بھی شامل تھے۔ لیکن پھر ادبی گروہ بندیوں کی وجہ سے قیوم نظر کو تنظیم سے دور ہونا پڑا۔ وہ اردو اور پنجابی زبانوں کے معروف شاعر تھے جنھوں نے ڈرامہ بھی لکھا اور بہترین تراجم بھی کیے۔ اردو غزل گوئی میں قیوم نظر کو ایک نئے مزاج اور آہنگ کا شاعر کہا جاتا ہے۔

    قیوم نظر کا یہ تذکرہ ان کی برسی کی مناسبت سے کیا جارہا ہے۔ وہ 23 جون 1989ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    قیوم نظر نے حلقۂ اربابِ ذوق کی بنیاد رکھنے کے بعد اپنے ہم خیال ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ مل کر ادبی سرگرمیوں‌ کو فروغ دیا اور اس بینر تلے فعال رہے۔ ان کے ایک رفیق خواجہ محمد ذکریا اپنے اخباری کالم میں‌ لکھتے ہیں، قیوم نظر حلقۂ اربابِ ذوق کے ’بڑوں‘ میں بہت پہلے سے شامل تھے۔ ایک سے زیادہ دفعہ سیکرٹری بھی رہے تھے۔ تقسیم ملک کے بعد حلقے میں کچھ نئے لوگ بھی شامل ہوگئے جن میں انتظار حسین، ناصر کاظمی، شہرت بخاری وغیرہ تھے۔ قیوم نظر کا گروپ پہلے سے موجود تھا۔ دونوں گروپوں میں حلقے پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے کشمکش شروع ہوگئی۔ چند سال قیوم نظر کا گروپ غالب رہا، پھر دوسرا گروپ غالب آگیا۔ حلقے نے بہت اتار چڑھاؤ دیکھے رفتہ رفتہ قیوم نظر اور ان کے گروپ کی اہمیت کم ہوتی گئی پھر قیوم نظر کی زندگی میں پے در پے ایسے حادثات ہوئے کہ وہ مجبوراً ادبی محفلوں سے کنارہ کش ہوگئے۔ پہلا حادثہ یہ ہوا کہ ان کی نظر کمزور ہوگئی۔ ان کے عزیز دوست انجم رومانی نے انھیں اس سلسلے میں بڑے خلوص سے ایک غلط مشورہ دیا۔ انھوں نے کہا کہ آنکھوں کے کسی معالج سے علاج کروانے کی بجائے آپ مجھ سے علاج کرائیں۔ میرے پاس اس کے لیے ایک بہت عمدہ کتاب ہے جس میں آنکھوں کے علاج کے لیے بہت اچھی ’ایکسرسائز‘ بتائی گئی ہیں۔ انھوں نے ایکسرسائز کرائی تو آنکھیں متورم ہوگئیں اور بینائی ایسی خراب ہوئی کہ ایک ایک کے دو دو نظر آنے لگے۔ ماہر آئی سرجنز کے پاس گئے تو انھوں نے کہا کہ اب علاج ممکن نہیں۔ وفات تک بینائی کی یہی کیفیت رہی۔

    اس دوران پہلے ان کے بڑے بیٹے کا لندن میں انتقال ہوگیا جو کئی سال پہلے وہاں کا شہری بن چکا تھا۔ اس حادثے کو تو وہ برداشت کرگئے۔ اس کے دو تین برس بعد ان کے چھوٹے بیٹے سلمان بٹ کا ایک حادثے میں انتقال ہوگیا۔ اس حادثے نے قیوم نظر کو بالکل دل شکستہ کردیا۔ وہ لاہور سے بھی بیزار ہوگئے۔ وہ اپنی ایک بیٹی کے پاس کراچی میں رہنے لگے اور وہیں 23 جون 1989ء کو وفات پائی۔ اگلے دن تدفین ان کی وصیت کے مطابق لاہور میں ہوئی۔

    قیوم نظر لاہور میں‌ 7 مارچ 1914ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام عبدالقیوم تھا۔ وہ 1944ء سے 1955ء تک حلقہ اربابِ ذوق کے سیکرٹری رہے۔ قیوم نظر نے اردو غزل کو ایک نیا مزاج، نیا آہنگ عطا کیا۔ وہ میر تقی میر اور فانی بدایونی سے متأثر تھے۔ تاہم روایتی بندشوں کے ساتھ ان کی شاعری میں فطرت کے تجربات اچھوتے اور تازہ ہیں۔ ان کی تصانیف میں "پون جھکولے”، "قندیل”، "سویدا”، "اردو نثر انیسویں صدی میں”، "زندہ ہے لاہور "اور "امانت ” شامل ہیں۔ انھوں نے بچّوں کے لیے ایک کتاب "بلبل کا بچہ ” بھی لکھی۔

    اردو ادب کی خدمت کرنے والے قیوم نظر نے پنجابی زبان میں بھی قابل ذکر کام کیا۔ میرا جی سے ان کی بے تکلفی تھی۔ وہ ادب میں نئے نئے تجربات کے امکانات پر غور کرتے تھے، تبادلۂ خیال کرتے تھے اور پھر اپنے اپنے انداز میں معاصر شاعری میں جدّت پیدا کرنے کے لیے لکھنے میں مشغول ہوجاتے تھے۔ ان کے دوسرے ساتھیوں میں مختار صدیقی، یوسف ظفر، حفیظ ہوشیار پوری، ضیاء جالندھری وغیرہ تھے۔

    قیوم نظر نے بی اے کیا اور اے جی آفس میں کلرک بن گئے۔ پاکستان بنا تو ایم اے اردو کیا اور پھر کئی سال محکمۂ تعلیم سے وابستہ رہے، پھر ٹیکسٹ بک بورڈ میں ماہرِ مضمون کی حیثیت سے کام کیا، اس کے بعد پاکستان نیشنل سینٹر لاہور کے ڈائریکٹر بن گئے۔ آخر میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ پنجابی میں صدرِ شعبہ کی حیثیت سے کام کیا۔ یعنی معمولی ملازمتوں سے گز رکر رفتہ رفتہ اعلیٰ عہدوں تک پہنچے۔ ان مصروفیات کے ساتھ ساتھ ادب و شعر سے ہمیشہ تعلق برقرار رکھا۔ ان کی اولین اور اہم تر حیثیت تو شاعر کی تھی لیکن نثر سے بھی دامن کشاں نہیں رہے۔ تنقید لکھی، خاکہ نگاری کی طرف بھی التفات کیا اور ڈرامے بھی لکھے۔ کئی کتابیں مرتب کیں جن میں ان کی نصابی کتابیں میرے نزدیک بہت اہم ہیں۔ نصابی کتابوں کو ترتیب دینے میں وہ اپنے رفقاء سے بہت بہتر تھے۔

    شاعری میں جدید انداز کے اچھے شاعر تھے۔ موضوعات کی جدت کے ساتھ ہیئت کے تجربات کرتے رہتے تھے۔ قیوم نظر نے عمر کے آخری ایک دو برسوں میں اپنی کلیات شاعری ’قلب و نظر کے سلسلے‘ کے نام سے ترتیب دی۔ وہ جدید نظمیں تو لکھتے ہی تھے مگر اپنے بعض معاصرین کے برخلاف غزلیں بھی برابر کہتے رہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے بچوں کے لیے شاہکار نظمیں تخلیق کیں جن کے کئی مجموعے چھپ چکے ہیں۔ کسی زمانے میں پوری پوری کلاس کو یہ نظمیں یاد ہوتی تھیں جن میں خصوصاً ’بلبل کا بچہ‘ ایسی پُرتاثیر تھی کہ بچوں کے دلوں میں عمر بھر کے لیے بس جاتی تھی۔ قیوم نظر کے گیت ، ترانے اور نعتیں بھی ان کی شاعری کے تنوع کا اچھا اظہار ہیں۔

    وہ لاہور اور امرتسر دونوں شہروں میں جوان ہوئے اس لیے پنجابی تو ان کی اپنی زبان تھی لیکن زندگی بھر اردو اوڑھنا بچھونا رہی۔ اردو تحریر و تقریر میں اظہار پر یکساں قدرت رکھتے تھے لیکن شاید کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ان کی انگریزی بھی بہت اچھی تھی۔ بہت سے جدید امریکی اور برطانوی شعراء کی نظموں کے ترجمے کرتے رہتے تھے۔

    مجموعی طور پر بڑے ہنس مکھ، دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے دشمن تھے۔ انھوں نے بذلہ سنجی سے بہت سے لوگوں کو دشمن بھی بنایا لیکن بہت سے لوگ ان کے محب بھی تھے۔ اگر آخری زندگی میں دل کو پاش پاش کرنے والے صدموں سے دوچار نہ ہوتے تو کہا جاسکتا کہ انھوں نے اچھی زندگی گزاری۔ ان کے مزاج میں اگر لوگوں کو فقرہ بازی سے ناراض کرنے کی عادت نہ ہوتی تو اور زیادہ کامیاب زندگی بسر کرتے مگر انسان کا جو مزاج بن گیا سو بن گیا۔

    یہاں‌ ہم قیوم نظر کے انٹرویو سے چند اقتباسات بھی نقل کرتے ہیں‌ جس سے قیوم نظر کی زبانی انھیں جاننے کا موقع ملے گا، وہ بتاتے ہیں، ’’خود میرا یہ حال تھا کہ میرے والد خواجہ رحیم بخش سرکاری ملازم تھے۔ ان کا انتقال ہو چکا تھا۔ چار بھائیوں اور دو بہنوں کا بوجھ بہ حیثیت بڑے بھائی مجھ پر آپڑا تھا۔ میں نے ٹیوشن اور ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم مکمل کی تھی اور اورینٹل کالج لاہور سے اردو میں ایم اے کرنے کے بعد اکاؤنٹنٹ جنرل آفس میں لگا ہوا تھا۔ میں اے جی آفس کی نوکری سے سخت اکتا گیا تھا لیکن اس سے گلو خلاصی بھی ممکن نہ تھی۔ میں سخت پریشان تھا۔ اتفاق سے یونیورسٹی کے مشاعرے میں میری ملاقات گورنر پنجاب عبدالرب نشتر سے ہوگئی۔ اے جی آفس سے میری ناخوشی کا سن کر انہوں نے اپنی ذاتی کوشش سے میرا تبادلہ محکمۂ تعلیم میں کروا دیا۔‘‘

    ’’1956ء میں مجھے یونیسکو کا کریٹیو رائٹر کا فیلو شپ ملا اور اس طرح مجھے فرانس، اٹلی، اسپین، ہالینڈ، سوئٹزر لینڈ، روم وغیرہ گھومنے اور وہاں کے تخلیقی فن کاروں سے ملاقات کا موقع ملا۔‘‘

    ’’شاعری کی ابتدا میں نے کالج ہی کے زمانے سے کر دی تھی۔ میں نے ایک دن اپنے استاد شمسُ العلما تاجور نجیب آبادی صاحب سے پوچھا کہ میں کیا تخلّص رکھوں؟ بولے ’’میں اپنے شاگردوں میں اب مزید کسی باغی کا اضافہ کرنا نہیں چاہتا۔ ن م راشد، اختر شیرانی، کنور مہندر سنگھ اور دیگر کئی نامور شعرا ان کی شاگردی میں رہ چکے تھے۔) میں نے وعدہ کیا کہ میں بغاوت نہیں کروں گا اس پر مشورہ دیا کہ ’’نظر تخلّص کر لو۔‘‘

  • اعظم کریوی: ممتاز افسانہ نگار کا ‘فٹ پاتھ’

    اعظم کریوی: ممتاز افسانہ نگار کا ‘فٹ پاتھ’

    اردو میں افسانہ نگاری کے اوّلین دور میں اعظم کُریوی نے اپنی کہانیوں اور قدیم ہندی شاعری کے اردو تراجم کے سبب شہرت پائی۔ وہ پریم چند جیسے ممتاز فکشن نگار کے دبستان سے تعلق رکھتے تھے۔ اعظم کریوی نے ہندوستانی معاشرت اور لوگوں کے اخلاق و حالت پر مبنی کہانیاں لکھیں جو بے حد مقبول ہوئیں۔ ان کی کہانیوں میں کوئی الجھاؤ اور پیچیدگی نظر نہیں آتی بلکہ یہ سلاست کے ساتھ نتیجہ خیز افسانے ہیں جو انھیں ایک کام یاب افسانہ نگار بناتی ہیں۔ اعظم کُریوی کو کراچی میں‌ قتل کر دیا گیا تھا۔

    اعظم کریوی 1899ء کو متحدہ ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ آبائی وطن کُرئی ہے اور اسی مناسبت سے کُریوی اپنے قلمی نام سے جوڑا۔ افسانہ نگار کا اصل نام انصار احمد تھا۔ انھوں نے تقسیم سے قبل بطور کلرک سرکاری ملازمت اختیار کی اور اسی زمانہ میں بطور افسانہ نگار اور مترجم بھی شہرت پانے لگے۔ اُن کی تخلیقی صلاحیت پہلے پہل شعر گوئی کے روپ میں ظاہر ہوئی۔ بعد میں نثر کو اپنایا، ان کی تحریریں زمانہ، نگار، عصمت، مخزن اور ہمایوں جیسے مشہور و معروف رسائل میں شایع ہوئیں۔ یہی افسانے اور تراجم کتابی شکل میں بھی بہم ہوئے۔ اعظم کریوی نے کئی شہروں میں‌ بسلسلۂ ملازمت قیام کیا اور بعد میں پاکستان میں بھی سرکاری محکمے سے وابستہ رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد مختلف اداروں سے وابستہ ہوئے۔

    22 جون 1955ء کو اعظم کریوی اپنی سائیکل پر ڈرگ روڈ اسٹیشن کے قریب سے گزر رہے تھے کہ ان کے قتل کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔ پولیس کا خیال تھا کہ کسی لٹیرے نے ان سے لوٹ مار کے دوران مزاحمت پر انھیں قتل کیا ہے۔ اعظم کریوی ڈرگ روڈ کے علاقہ میں ہی سکونت پذیر تھے اور اپنے گھر لوٹ رہے تھے۔ ڈاکٹر اعظم کریوی کے افسانوی مجموعوں میں شیخ و برہمن، انقلاب، پریم کی چوڑیاں، دکھ سکھ، کنول اور دکھیا کی آپ بیتی سرفہرست ہیں۔ یہاں اس معروف افسانہ نگار کی ایک تخلیق نقل کررہے ہیں جس کا عنوان فٹ پاتھ ہے۔

    یہ فٹ پاتھ پر زندگی گزارنے والے ایسے بچے کی کہانی ہے، جو ایک امیر شخص کے گھر پر اوپری کام کاج کے لیے نوکر ہونے پہنچتا ہے۔ وہ اسے نئے کپڑے دیتا ہے اور ایک کمبل بھی تھماتا ہے۔ مگر بچہ کمبل لینے سے انکار کر دیتا ہے۔ بچہ اپنے مالک سے کہتا ہے کہ وہ فٹ پاتھ پر اپنے ٹھکانے سے جاکر اپنی چادر لانا چاہتا ہے۔ مالک سے اجازت لے کر یہ بچہ گھر سے نکلتا ہے اور پھر لوٹ کر نہیں آتا۔ کہانی ملاحظہ کیجیے۔

    شہر میں سڑکوں کی دونوں طرف کی دنیا ہر جگہ یکساں نہیں ہوتی۔ کہیں بھرے بازار کے درمیان سڑک یوں نرمی سے بل کھاتی ہوئی گزرتی ہے جیسے مشتاقوں کے ہجوم میں حسن سر محفل۔ آمدورفت کی کثرت سے کھوئے سے کھوئے چھلتے ہیں۔ کہیں شاندار رہائشی محلوں سے اس کا گزر ہوتا ہے۔ دو طرفہ نئی وضع کی کوٹھیاں، سبزہ زار احاطے، دھنک کی طرح رنگ برنکی ہنستی ہوئی کیاریاں، جدید فیشن کے لباس، ناز فرماتی ہوئی ساریاں، نغمہ زن بالا خانے اوردھومیں مچاتی ہوئی موٹریں اور کہیں مفلوک الحال حلقوں کا جگر چیرتی ہوئی یہ سڑکیں یوں تیر جاتی ہیں جیسے اپی ہوئی تلوار۔

    بڑی سڑکوں کے حاشیوں پر فٹ پاتھ کا وجود ان کے وقار میں اضافہ کرتا ہے۔ سڑکوں کی بہ نسبت فٹ پاتھ کی دنیا ذرا آہستہ خرام کرتی ہے۔ سڑک ندی کے درمیانی دھارے کی طرح ہوتی ہے اور فٹ پاتھ موج ساحل آشنا کی مثال۔ مگر فٹ پاتھ کی دنیا حرکت و سکون دونوں کے مناظر پیش کرتی ہے۔ لہٰذا زیادہ دلچسپ ہے۔ رہررؤں کے علاوہ فٹ پاتھ کی آغوش میں بہت سی ہستیاں ہوتی ہیں۔ جمادات، نباتات، حیوانات اور اشرف المخلوقات بھی، جی ہاں اشرف المخلوقات بھی جس پر حوریں رشک کریں اور جن کے سامنے فرشتے سجدے میں گریں۔
    میونسپلٹی کے ٹین اپنی الا بلا، کوڑے کرکٹ، بہارن کے ساتھ ایسے دکانداروں کے پلنگ جو صرف نفع کمانا، قانون کو دھوکا دینا اور ساری دنیا کو اپنا سمجھنا جانتے ہیں۔ صرف پلنگ ہی نہیں، بنچ، کرسیاں، ٹوکرے، دیودار کے بکس وغیرہ وغیرہ۔ ہندوستانی وزیروں کی طرح موٹے تازے، ہچکتے دمکتے مگر مجبور و پا بہ گل لیٹر بکس اور حیوانات میں بکریاں، گائیں گھوڑے، گدھے، کتے اور سب کے سبھاپتی سانڈ دوسروں کی کمائی کھانا خود بیکار رہنا اور دندنانا۔ ویسے ساہو کاروں، کارخانہ داروں اور زمینداروں کی طرح، سانڈ بھی کچھ نہ کچھ کام کرتے ہی رہتے ہیں۔ نباتات میں میوے کی بڑی دکانوں سے پھیکے ہوئے چھلکے اور ایسی ٹوکریوں کے بیر، خراب و خستہ کے لیے اور آدھی سڑی ہوئی نارنگیاں جن کی پوری کائنات ایک گوشے میں سما جاتی ہے۔ غرض یہی ہستیاں فٹ پاتھ کی رونق ہوتی ہیں۔ مگر جو اشرف المخلوقات نہ ہوتا تو آسمان و زمین، جمادات، نباتات و حیوانات کہاں ہوتے۔ فٹ پاتھ پر اشرف المخلوقات بھی ہوتے ہیں۔ مسلسل سدا لگائے ہوئے فقیر، اپاہج بھک منگے، بھنکتے ہوئے کوڑھی جو اپنے ٹھنٹہ ہاتھوں کو دکھا کر صرف سوالیہ اشارے کرتے ہیں۔ ایسے زار و نزار محتاج جو برائے نام سا چیتھڑا سامنے بچھاکر بے حس و حرکت لیٹے رہتے ہیں۔ نصف درجن سے زیادہ گندے اور ادھ موئے بچوں والی عورت جو بیر یا شکر قند، رکشا والوں اور قلیوں کے ہاتھ بیچتی ہیں۔ ایک پلہ نما بچہ ربود کُرتی سے ڈھکی، ڈھلکی ہوئی خشک چھاتیوں کو اس طرح چاٹتا ہوا جیسے کوئی غریب جو آم کے پھینکے ہوئے چھلکوں کو رس گل جانے کے بعد بھی چاٹ لینا پسند کرے۔ میلے برقعے کے اندر سے نکیاتی ہوئی سائلہ عورت۔ چائے کی پھینکی ہوئی سیٹھی سے بننے والی چائے بیچنے والے اور ان کے گرد بیکار اور تھکے ہوئے مزدور اور راتوں کو انہیں فٹ پاتھوں کے سینوں کی دبی ہوئی آگ دہک اٹھتی ہے۔ خالی خولی ہانڈیوں میں چند دانے ابلتے ہیں۔ پانی کے ابال کی آواز دھرتی کی کراہ معلوم ہوتی ہے۔ بھوکے پیٹوں کو جگا کر فٹ پاتھ پر زندگی بسر کرنے والے سونے کی نقل کرنے کے لیے زمین پر دراز ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح زندگی کا چکر چلتا رہتا ہے اور قسمت کے بہانے برداشت کر لیا جاتا ہے۔

    آج میں آپ کو فٹ پاتھ ہی سے متعلق ایک کہانی سنانے والا ہوں۔ نہ جانے کتنی بن کہی اور ان سنی کہانیاں فٹ پاتھوں سے گرد راہ کی طرح لپٹی ہوئی ہوں گی۔

    دس سال کی عمر کا ایک لڑکا میرے مکان کے سامنے سڑک کے چھوٹے سے پل پر بیٹھا ہوا تھا۔ پاؤں پھیلائے ہوئے، بے پروا آزاد، کمر میں لنگوٹی کسی بے شرم کی یونہی سی لاج کی طرح چپکی ہوئی۔ گردن سے ایک میلا، ڈھیلا، ڈھالا، چور چور کسی کا اتارن کرتہ جھول رہا تھا۔ شکستہ کرتے کے چاکوں کو ایک حد تک چھپانے میں سیاہ مرزئی مدد دے رہی تھی، جو خود بھی اکثر جگہ خندۂ دنداں نما کی شکل پیدا کر رہی تھی۔ یہ مرزئی بھی یوں تھی جیسے چھوٹے تکیے کا خول پہنا دے۔ کرتا جانگھ تک آتا تھا اور سامنے پھٹے ہونے کے سبب جسم زیریں کی عریانی کو دور کرنے کی بجائے، اس کے ننگے ہونے کا پردہ فاش کر رہا تھا اور اس کے بال الجھے ہوئے تھے اور اس کے سیاہ ہاتھ پاؤں پر گرد کی تہیں نمایاں طور پر جمی ہوئی معلوم ہو رہی تھی۔ زمین کی خاک اور جسم کے پسینے نے مل کر یہ ابٹنا تیار کیا تھا۔ وہ شاید بہت دیر سے بیٹھا ہوا تھا۔ سہ پہر کی دھوپ نے جا بجا پسینہ چلا کر ابٹنے کو ہلکا کر دیا تھا۔ سر کے بال پسینے میں چپک رہے تھے۔ وہ سنہری دھوپ سے لطف اٹھا رہا تھا۔ دنیا سے لاپروا ہو کر وہ اپنی مرزئی کے اوپر کی چلٹیریں مار رہا تھا اور گاہ گاہ اپنا بدن تیزی سے کھجا لیا کرتا تھا۔

    میرا محلہ شہر کا ایک خاموش حصہ تھا۔ دو جانب کالج کے کوارٹر تھے، تیسری جانب دریا اور چوتھے جانب درمیانی اور ادنیٰ طبقے کے لوگوں کے کچھ مکانات، وہ نجانے ادھر کیسے آ نکلا۔ شاید پکنک کے لیے روزمرہ کے ہنگاموں سے تنگ آکر محض یونہی آج اس کی ٹانگیں ادھر ہی اسے لے آئیں۔ جاڑے کے دن تھے۔ دسمبر کا مہینہ اسے دھوپ میں بڑے اطمینان و سکون سے بیٹھا دیکھ کر یہ اثر ہوتا تھا جیسے کوئی بچہ ماں کی گود میں عالم رنج و حسرت کو بھول کر آسودگی و طمانیت کے ساتھ بیٹھا ہوا ابدیت کے ساتھ رشتہ جوڑ رہا ہو۔

    میرا ملازم اسے بلا کر میرے مکان کے اندر لے آیا۔ پہلے تو اس نے پکار تک نہ سنی۔ وہ اتنا محو تھا۔ شور کرنے سے وہ چونکا، مگر شان سے پل ہی پر بیٹھا رہا۔ جب اسے اندر بلایا گیا تو اس نے بہت ہی مشکوک تیور سے ماحول کو بھانپا اور پھر چپلٹیریں مارنے لگا۔ خوشامدیں کرنے، چمکارنے اور دلاسے دینے پر مشکلوں سے وہ کشاں کشاں یوں اندر لایا گیا جیسے چھتر کے میلے سے ایک نئے اڑتے ہوئے گریزاں بچھڑے خرید کر کوئی کسان ڈراتا ہوا لیے جا رہے ہو۔

    شاید وہ کچھ بہرا بھی تھا اور اس کی دونوں آنکھوں میں پھولیاں تھیں۔ ایک میں زیادہ، دوسری میں کم۔ وہ گھر کی چار دیواری کے اندر گھبرایا گھبرایا سا معلوم ہو رہا تھا۔ نو گرفتار پرندے کی طرح، سائبان سے دوڑ کر وہ انگنائی میں چلا گیا اور کنوئیں کی منڈیر پر لاپروائی سے بیٹھ گیا۔ گردن نیچی کئے ہوئے وہ شرما کر دانت نکالے آہستہ آہستہ ہنس رہا تھا۔ اس کے دانت پیلے پیلے تھے۔ پھسی سے اٹے ہوئے جیسے دانتوں پر سونا چڑھایا جاتا ہے۔ ہم لوگوں نے اسے کھانا دیا۔ وہ بہ مشکل کھانے پر راضی ہوا مگر جب کھانے لگا تو بھوکے کتے کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑا۔ صحن میں بیٹھا بیٹھا جب وہ رکابی صاف کر چکا تو تیزی سے گرسنہ بھڑیے کی طرح وہ باورچی خانے میں گھس گیا اور کھانے کی مزید چیزیں تلاش کرنے لگا۔ قاب، ہانڈیاں، پیالے، ٹکریاں سب اس نے الٹ پلٹ کرنی شروع کیں، باورچی نے اسے ڈانٹ بتائی، ہم لوگوں نے اسے سمجھایا کہ یہ بدتمیزی ہے اور کھانا ہو تو مانگ کر کھایا کرو۔ مگر یہ باتیں اس کی سمجھ سے باہر تھیں۔ وہ اس وقت تک بے چین رہا جب تک اسے کچھ اور کھانے کو نہ مل گیا۔

    دوبارہ کھا کر بھی اس کے تقاضے جاری رہے۔ ہم لوگوں نے اسے سمجھایا کہ اب رات کو کھانا پیٹ بھر پھر ملے گا۔ وہ کچھ مایوسی اور جھلاہٹ کے عالم میں رکابی سے دال اور شوربا چاٹنے لگا۔ چاٹ واٹ کر رکابی کو ایک طرف نہایت ہی بے توجہی سے سرکا دیا اور کنوئیں کی منڈیر پر جا کر بیٹھ گیا۔ بےتعلق سا، بے حس، بے فکر، وہ بہت ہی کم باتوں کا جواب دیتا تھا۔ ہم لوگوں کو گملوں اور چمن کی آبپاشی کے لیے ایک ایسے چھوکرے کی ضرورت تھی جو اوپر کے اور کام بھی کر دیا کرے، اس لونڈے کو ہم نے خداداد سمجھا۔ کم دانے گھاس میں یہ بہت سے کام کر دیتا۔ خود غرضی اور جذبۂ ترحم نے مل کر ہم میں یہ شدید خواہش پیدا کی کہ کسی طرح یہ باد آورد ہمارے ہاں ٹک جائے۔ ہم لوگوں نے اسے سمجھانا شروع کیا کہ وہ نوکر ہو کر یہاں اگر رہ جائے تو اسے خوب کھانے کو ملے گا، اچھے صاف صاف کپڑے پہننے کو ملیں گے اور پیسے بھی۔ وہ چپ سنتا رہا۔ کبھی کبھار اپنے پیلے پیلے دانت نکال کر ہنس دیتا۔ عجیب طرح کی بے تعلق، بے جذبے کی کھوکھلی سی ہنسی۔ ہم لوگوں نے اسے نہانے کو کہا، وہ فوراً تیار ہو گیا۔ اسے نہانے کو کپڑا دھونے والا صابن دیا گیا۔ اس نے اسے سونگھا اور منہ بنا لیا۔ پھر ہنستا ہوا نہانے کے لیے کل پر بیٹھ گیا۔ اسے ایک پرانا ہاف پینٹ اور ایک پرانی قمیص دی گئی۔ اس نے خوش خوش انہیں پہنا۔ بٹن لگاتے وقت اسے بڑا لطف آ رہا تھا۔ کئی بار بٹن کھول کھول کر انہیں لگائے۔ وہ جدت کا لطف لے رہا تھا۔ اپنے کرتے اور مرزئی میں اس قسم کی نامعقول بندشیں نہیں تھیں۔ نہا دھو کپڑے بدل کر وہ سیدھا باورچی خانے میں گھس گیا اور اب کے اس نے باورچی سے بہ منت کچھ اور کھانے کو مانگا۔ چند سوکھی روٹیاں اسے دے دی گئیں اور اس نے انہیں ہفتوں کے بھوکے کی طرح دو تین لقموں میں ختم کر دیا۔ کھا کر وہ اٹھا اور اپنے پھٹے پرانے کرتے میلی چکٹ لنگوٹی اور چیلٹروں سے اٹی ہوئی مرزئی کو لپیٹ لپاٹ کر سنبھال کے آنگن کے ایک گوشے میں ٹوٹے ہوئے گھڑے پر رکھ دیا۔ اس کے بعد وہ سیدھا میرے پاس آیا۔ اور غیر متوقع جرأت سے اس نے سوال کیا۔

    ’’کتنا مشارا دو گے؟‘‘

    میں نے کہا۔۔۔ ’’ٹھکانے سے کام کر۔ کھانا، کپڑا، مشاہرہ سب ملیں گے۔‘‘

    کہنے لگا، نہیں بول دو کتنا ملے گا؟‘‘

    میں نے ہنس کر کہا، ’’ابے تو مشاہرہ لے کے کیا کرے گا؟ خوب بھر پیٹ کھایا کر اور پیسے لے لیا کر دو ایک۔‘‘

    ’’اونہہ! تب ہم نہیں رہیں گے۔‘‘

    ’’مشاہرہ بھی ملے گا تو گھبراتا کیوں ہے؟ تیرا گھر کہاں ہے؟‘‘ میں نے اسے تسلی دی۔

    مجپھڑ پور جلع۔‘‘

    میں نے دریافت کیا، ’’ماں باپ ہیں؟‘‘

    اس نے کہا، ’’نہیں! کوئی نہیں!‘‘ اور نفی میں زور سے سر ہلاتا رہا۔

    ’’بھائی بہن؟‘‘

    ’’کہہ تو دیا کوئی نہیں۔‘‘ وہ بگڑ سا گیا۔

    ’’اچھا تجھے مشاہرہ دوں گا۔ میرے پاس جمع کرانا، اس سے بہت سے کپڑے بنا لینا اور مٹھائیاں کھانا۔‘‘

    ’’نہیں مشاہرہ ہاتھ میں لیں گے۔‘‘

    ’’ہاتھ میں لے کر کیا کرے گا؟ پھینک دے گا اور کیا! یا گر جائیں گے روپے کہیں۔‘‘

    ’’نہیں! ہم کو مکان بنانا ہے۔‘‘ اس نے شان و وقار کے ساتھ کہا۔ میں بھی چونک گیا اور سب لوگ ہنسنے لگے۔ اسے چوٹ سی لگی کہنے لگا۔

    ’’میرے بھی مکان ہے جی! جلجلہ میں گر گیا ہے تھوڑا۔ دو کوٹھڑی ہے! اس کے سیاہ چہرے پر خون نے دھپے ہوئے توے کا رنگ پیدا کر دیا۔

    میں نے کہا، ’’اچھا بنانا مکان۔ تیرے ہاتھ میں روپے دوں گا۔‘‘ وہ خوش ہو گیا اور ہنسنے لگا۔ اس نے یہ بھی نہ پوچھا پھر کتنا مشاہرہ ہوگا۔ اس کے دل میں بھی حسرت تعمیر اور تمنائے ملکیت تھی۔ اسی حسرت، اسی تمنا کے پورا ہونے کا تصور ہی اتنا خوش آئند تھا کہ وہ سرمست ہو گیا۔

    وہ مکان کے بیرونی احاطے میں جا کر بیٹھ رہا۔ جب اسے کسی کام کے لیے بلایا جاتا تو وہ چلا آتا اور کام کو ادھورا ہی چھوڑ کر پھر باہر احاطے میں جا بیٹھتا۔ اسے ایک دو بار سمجھانے کی کوشش کی گئی مگر وہ اپنی جگہ پر اٹل تھا۔ ہم لوگوں نے یہ سمجھ کر کہ ابھی زور دینا ٹھیک نہیں چپ ہو رہے کہ کہیں وہ بھاگ نہ جائے۔ اب رات ہو چلی اور وہ مزے میں صحن میں بیٹھا رہا۔ کھانا کھانے کے لیے اندر آیا اور پھر باہر چل دیا۔ بڑی دقتوں سے اسے سلانے کے لیے اندر لایا گیا۔ اب وہ کوٹھری کے اندر سونے پر رضامند نہیں۔ رات بھر وہ سائبان ہی میں سوتا رہا۔ غضب کی سردی تھی مگر وہ تو کھلی فضا کا پنچھی تھا۔ اسے اوڑھنے کے لیے ایک کمبل دے دیا گیا جسے اس نے نہایت استغنا کے ساتھ سرسری طور پر لے لیا۔

    صبح ہوتے ہی وہ احاطے میں جا پہنچا۔ صرف قمیص اور ہاف پینٹ پہنے ہوئے، اسے بلا کر چولھے کے پاس باورچی خانے میں بٹھایا گیا۔ وہاں وہ چپکا بیٹھا رہا۔ جب ہم لوگوں کے ناشتے کے بعد اسے روٹی کھانے کو مل چکی تو میرے پاس آیا اور کہنے لگا۔

    ’’ہم جا کے چادر لی آویں؟‘‘

    میں نے پوچھا، ’’کہاں ہے تیری چادر؟‘‘

    اس نے نہایت صفائی سے جواب دیا، ’’فٹ پاتھ پر۔‘‘

    ’’ارے فٹ پاتھ پرکہاں؟‘‘

    ’’جہاں ہم روج سوتے تھے۔ آحاطہ کے ٹٹی میں لٹکا کے رکھ دیا ہے۔‘‘ اب وہ جانے کے لیے بے چین تھا۔

    میں نے کہا۔۔۔ ’’تجھے دوسری چادر مل جائے گی مت جا!‘‘

    مگر اس نے ایک نہ سنی اور جانے پر مصر ہوا۔ ملازموں نے اسے زبردستی روکنا چاہا تو وہ زورزور سے رونے لگا۔

    میں نے آخرش اسے جانے کی اجازت دے دی۔ وہ چھلانگ لگا کر احاطے کے اندر چلا گیا اور وہاں سے یک بیک لوٹ کر اندر آیا۔ اس نے صحن کے گوشے میں جا کر قمیص اتار دی۔ اپنا میلا سا ربود کرتہ اور مرزئی پہنی اور ہاتھ میں لنگوٹی کا چیتھڑا لے کر باہر جانے لگا۔

    میں نے اسے کہا، ’’ارے یہ کیا! اپنی چادر لے کر تو واپس نہیں آئے گا کیا؟‘‘ وہ بلا جواب دیے پھرتی سے احاطے سے باہر نکل گیا اور پھاٹک سے باہر ہوکر دوڑتا ہوا بھاگا۔ یہ جا وہ جا۔

    فٹ پاتھ اسے آواز دے رہا تھا۔ اس نے اپنی ماں کی آواز سن لی۔ کل کا بھولا بچہ اپنے گھر لوٹ چکا تھا۔