Tag: جون برسی

  • عبید اللہ بیگ: علم و آگاہی اور ذہانت ان کی پہچان ہے!

    عبید اللہ بیگ: علم و آگاہی اور ذہانت ان کی پہچان ہے!

    عبید اللہ بیگ کو معلوماتِ عامّہ کے میدان کی ایسی قابل و باصلاحیت شخصیت کے طور پر پہچانا جاتا ہے، جن کی وجہِ مقبولیت ’کسوٹی‘ بنا۔ یہ پاکستان ٹیلی ویژن کا معلوماتِ عامّہ پر مبنی پروگرام تھا۔ عبید اللہ بیگ اس پروگرام میں اپنی ذہانت، قوی حافظے اور وسیع مطالعے کے سبب کسی شخصیت یا کسی شے کو بوجھنے میں کام یاب رہتے اور ناظرین دنگ رہ جاتے تھے۔ آج عبید اللہ بیگ کی برسی منائی جارہی ہے۔

    وہ ایک لائق فائق انسان تھے جن کی شہرت ایک شفیق اور منکسر مزاج کے طور پر بھی تھی اور یہی وجہ ہے عبید اللہ بیگ کو علمی و ادبی حلقوں اور ذرائع ابلاع میں بھی نہایت ادب و احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔ معلوماتِ عامہ کا میدان عبیداللہ بیگ کی بنیادی شناخت ہے۔ لیکن وہ ایک مدیر، صدا کار، دستاویزی فلم ساز، ناول اور ڈرامہ نگار، فیچر رائٹر، سیاح اور شکاری بھی تھے۔ ٹیلی ویژن کے بعد وہ ماحولیات کے تحفظ کی غیر سرکاری تنظیم سے منسلک ہوگئے تھے جہاں بقائے ماحول کے لیے رپورٹنگ کے ساتھ انھوں نے بطور ماہرِ ابلاغ نئے آنے والوں کی تربیت بھی کی۔ عبید اللہ بیگ پاکستان ٹیلی وژن کے صدر دفتر میں شعبۂ تعلقاتِ عامّہ سے بھی منسلک رہے اور ایک جریدہ ’’ٹی وی نامہ‘‘ بھی جاری کیا تھا۔

    عبید اللہ بیگ کا اصل نام حبیب اللہ بیگ تھا۔ ان کے والد محمود علی بیگ بھی علم دوست شخصیت تھے اور یوں گھر ہی میں مطالعہ کی عادت اور کتابیں پڑھنے کا شوق پروان چڑھا۔ ان کا خاندان بھارت کے شہر رام پور سے 1951ء میں ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا۔ یہاں کراچی میں سکونت اختیار کرنے والے عبید اللہ بیگ کا بچپن اور نو عمری کا دور رام پور اور مراد آباد میں گزرا۔ ان کے خاندان کے اکثر مرد شکار کے شوقین تھے اور عبید اللہ بیگ بھی اپنے بڑوں کے ساتھ اکثر شکار کھیلنے جایا کرتے تھے۔ اسی نے ان کے اندر سیر و سیاحت کا شوق پیدا کیا۔ انھیں اس دوران فطرت کو سمجھنے کا موقع ملتا اور وہ اپنی عقل اور ذہانت سے کام لینے کے قابل ہوئے۔

    کسوٹی وہ پروگرام تھا جس میں افتخار عارف، قریش پور اور غازی صلاح الدین جیسی نام ور اور قابل شخصیات بھی عبید اللہ بیگ کے ساتھ رہیں۔ یہ تمام ہی اپنے وقت کے نہایت قابل و عالی دماغ لوگ تھے۔ عبید اللہ بیگ نے پاکستان ٹیلی وژن کے متعدد پروگراموں کے میزبان بھی رہے جن میں پگڈنڈی، منزل، میزان، ذوق آگہی اور جواں فکر کے علاوہ ایک تقریبِ اسلامی سربراہی کانفرنس بھی شامل ہے۔ حکومتِ پاکستان نے عبید اللہ بیگ کو صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

    ریڈیو پاکستان کے لیے بھی عبید اللہ بیگ کام کیا اور اپنی منفرد آواز کے سبب ریڈیو کے سامعین میں مقبول رہے۔ ٹی وی پر کسوٹی سے پہلے ‘سیلانی’ کے نام سے بھی ان کا ایک فلمی دستاویزی پروگرام شروع ہوا تھا جسے چند وجوہ کی بناء پر بند کر دیا گیا۔ پی ٹی وی کے لیے عبید اللہ بیگ نے تین سو سے زائد دستاویزی فلمیں بنائیں جن کو عالمی سطح پر سراہا گیا۔ ان کی فلم وائلڈ لائف اِن سندھ کو 1982ء میں 14 بہترین فلموں میں سے ایک قرار دیا گیا تھا۔ عورتوں کے مسائل پر ایک فلم کو 18 زبانوں میں ترجمہ کرکے نشر کیا گیا۔ سندھ میں قدرتی حیات اور ماحول سے متعلق ان کی دستاویزی فلمیں بہت شان دار ہیں اور اس کام پر انھیں ایوارڈ بھی دیے گئے۔

    قلم اور کتاب سے ان کا تعلق فکر و دانش اور معلوماتِ عامہ کی حد تک نہیں تھا بلکہ وہ ایک ادیب بھی تھے جن کا پہلا ناول ’اور انسان زندہ ہے‘ ساٹھ کی دہائی میں شائع ہوا۔ دوسرا ناول ’راجپوت‘ 2010ء میں نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد نے شائع کیا۔ عبید اللہ بیگ فارسی، عربی اور انگریزی زبانیں بھی جانتے تھے۔ ہمہ جہت عبید اللہ بیگ علم و ادب کے شیدائیوں کے لیے ایک مکتب تھے اور ان کی مجلس میں بیٹھنے والا علم و حکمت کے موتی چن کر ہی اٹھتا تھا۔ فلسفہ، تاریخ، تہذیب و تمدن، سیاحت، ماحولیات، ادب کے ہر موضوع پر عبیداللہ بیگ کی گفتگو کا انداز منفرد اور دل چسپ بھی تھا۔

    22 جون 2012ء کو عبید اللہ بیگ انتقال کرگئے۔ وہ دل کے عارضے میں مبتلا تھے۔ وفات سے چند ماہ پہلے انھیں پیٹ کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔ انھیں ڈی ایچ اے گزری قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • نادر شاہ:‌ وہ بادشاہ جو مغلیہ دلّی کا غارت گر مشہور ہے

    نادر شاہ:‌ وہ بادشاہ جو مغلیہ دلّی کا غارت گر مشہور ہے

    ایک لکڑہارے کا بادشاہ بن جانا اور اپنے دور کی بڑی مضبوط اور نہایت منظّم فوج تیار کرکے خطّے میں فتوحات حاصل کرنا حیرت انگیز اور قابلِ ذکر تو ہیں، مگر ہندوستان کی تاریخ میں اس کا نام قتل غارت گری اور تباہی کے لیے بھی لیا جاتا ہے۔ یہ قصّہ ہے مغرب میں سلطنتِ عثمانیہ میں شامل عراق اور شام کے علاقوں سے لے کر مشرق میں دلّی تک بڑی فوجی مہمات سَر کرنے والے ایرانی بادشاہ نادر شاہ افشار کا۔

    مؤرخ اور مائیکل ایکسوردی (Michael Axworthy) نادر شاہ سے متعلق اپنی ایک تصنیف میں لکھتے ہیں، ’نادر شاہ نے ایران کو افغانوں کے قبضے سے نکالا، عثمانی ترکوں کو ایران سے بے دخل کیا، روسیوں سے اپنے علاقے خالی کروائے، عثمانی سلطنت کے زیرِ تسلط علاقوں پر حملہ آور ہوئے اور انھیں شکست دے کر ایران کا بادشاہ بنے۔ افغانوں پر ان کے علاقوں میں گھس کر حملہ کیا اور وہ علاقے دوبارہ فتح کیے، پھر انڈیا پر حملہ کر کے دلّی کو فتح کیا۔ وسطی ایشیا میں داخل ہو کر ترکمان اور ازبکوں کو قابو کیا۔‘

    ایران کا بادشاہ نادر شاہ اٹھارہویں صدی میں مغلیہ عہد کے مشہور شہر دلّی کو تاراج کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں سے تختِ طاؤس اور کوہِ نور بھی لے گیا۔ اسے ایشیا کا نپولین اور سکندرِ ثانی بھی لکھا گیا ہے۔ مؤرخین کے مطابق بہت کم عرصہ میں مغرب میں سلطنتِ عثمانیہ میں شامل عراق اور شام کے علاقوں سے لے کر ہندوستان تک متعدد مہمات نادر شاہ کو ایک بہترین اور باتدبیر فوجی کمانڈر ثابت کرتی ہیں۔ لیکن وہ مضبوط اور مستحکم حکومت چھوڑ کر دنیا سے نہیں گیا۔ 19 جون 1747ء کو نادر شاہ کو قتل کر دیا گیا۔

    نادر شاہ کا تعلق کسی شاہی گھرانے یا نوابی خاندان سے نہیں تھا۔ کہتے ہیں‌ کہ وہ نوعمری میں‌ لکڑیاں کاٹ کر بیچتا تاکہ گزر بسر کرسکے۔ بعض کتابوں میں اسے گڈریا لکھا گیا ہے۔ وہ ایرانی سلطنت کے دارالحکومت سے دور ایک سرحدی علاقے میں پیدا ہوا۔ نادر شاہ باصلاحیت تھا، جس کے والد کا سایہ جلد اس کے سَر سے اٹھ گیا۔ اس کے باوجود صرف تیس برس کی عمر میں نادر شاہ تاج و تخت سنبھالنے کے ساتھ ایک طاقت ور اور منظّم فوج کا سالار بن چکا تھا۔

    نادر شاہ کی تاریخ و سنہ پیدائش پر مؤرخین میں کچھ اختلاف ہے، لیکن ایکسوردی کے مطابق یہ 1698 کا زمانہ تھا جب نادر شاہ درّہ غاز کے خطّے میں دستگرد نامی گاؤں میں پیدا ہوا۔ اس کی مادری زبان ترکی تھی لیکن قیاس ہے کہ جلد ہی نادر شاہ نے فارسی بھی سیکھ لی ہو گی۔ یہ علاقہ خراسان کے دارالحکومت مشہد سے شمال میں تھا۔

    نادر شاہ کے نام کے ساتھ اکثر افشار لکھا جاتا ہے جس کی وجہ والد کا ترکمانوں کے افشر قبیلے کے جانوروں کی نگرانی اور دیکھ بھال ہے۔ انھیں ایک چرواہا لکھا گیا ہے اور یہ بھی کہ وہ ایک باعزّت اور لائقِ اعتبار شخص تھے۔ اسی بنیاد پر بعض مؤرخین کے مطابق انھیں اپنے گاؤں کا سرپرست بنا دیا گیا تھا۔ نادر شاہ ایک دہری ثقافت میں پروان چڑھا۔ وہ ایرانی سلطنت میں ترکی زبان بولنے والا شہری تھا جس نے بعد میں فارسی ثقافت کو بھی سمجھا اور بڑا مقام و مرتبہ پایا۔

    نادر شاہ نے دس سال کی عمر میں گھڑ سواری اور شکار کرنا سیکھا۔ وہ تیر اندازی اور نیزہ بازی میں‌ ماہر تھا۔ والد کے انتقال کے بعد اس نے غربت دیکھی مگر پھر نادر شاہ پر قسمت نے یاوری کی اور وہ ایک بااثر حکم راں اور فاتح بنا۔

    اگرچہ نادر شاہ ہندوستان میں ایک ظالم اور نہایت خود سر حکم راں مشہور ہے، لیکن مؤرخ مائیکل ایکسوردی اس کی زندگی کا ایک جذباتی پہلو سامنے لاتے ہیں۔ ان کے مطابق بادشاہ بننے کے بعد اس نے اپنی غربت کے دنوں کے ایک ساتھی کو نوازتے ہوئے تلقین کی کہ ’مغرور مت ہو جانا، اپنا خچر اور وہ لکڑیاں چننا یاد رکھنا۔‘ اسی طرح جب نادر شاہ دلّی تاراج کرنے کے بعد سندھ کے راستے لوٹ رہا تھا تو ایک مقام پر اپنے ساتھیوں سے جذباتی انداز میں مخاطب ہوا اور کہا کہ کسی کو حقیر مت جانو، کیوں‌ کہ ہمّت اور حوصلے سے کام لے کر کوئی بھی بڑا مقام حاصل کرسکتا ہے۔

    مؤرخین کے مطابق نادر شاہ پندرہ سال کی عمر سے ایک مقامی سردار اور ابیورد شہر کے گورنر بابا علی بیگ کی سرپرستی میں رہا۔ بابا علی بیگ خراسان کے افشروں میں اہم سردار تھا۔ یہیں اس نے ایک تمنچی کی حیثیت سے اپنا سفر شروع کیا اور وقت کے ساتھ ساتھ سردار کا اعتماد حاصل کرلیا۔ یہیں سے نادر شاہ ایک فوج تیّار کرنے میں کام یاب ہوا اور آنے والے برسوں میں فاتح بن کر ابھرا۔ نادر شاہ کے ایک فوجی کمانڈر سے حکم ران بننے کی کہانی کئی موڑ لیتی ہے جس کی تفصیل یہاں ممکن نہیں۔ اب ہم نادر شاہ کی دلّی آمد کا احوال رقم کرتے ہیں۔

    نادر شاہ درۂ خیبر کے راستے برصغیر میں داخل ہوا اور پشاور اور لاہور کو فتح کر کے کرنال کے مقام تک پہنچا جو دلّی سے صرف 70 میل شمال میں تھا۔ مغلیہ سلطنت اس وقت اندرونی خلفشار اور شدید بدانتظامی کا شکار تھی اور کہتے ہیں کہ اس وقت کے بادشاہ محمد شاہ رنگیلا اس آندھی کا مقابلہ کرنے کے قابل ہی نہ تھے۔ نتیجتاً نادر شاہ کی فوج اور اس کے توپ خانے نے ہزاروں ہندوستانی فوجی بھون ڈالے، مگر خود ایرانی فوج کا بہت کم جانی نقصان ہوا۔ کرنال کی جنگ جیت کر نادر شاہ 1739 میں دلّی میں داخل ہوا اور دو ماہ تک وہاں قیام کیا۔ نادر شاہ یہاں اپنی حاکمیت قائم کرنے کے بجائے بہت سا مال و زر سمیٹ کر رخصت ہوگیا تھا۔

    دلّی میں قتلِ عام کی داستان کو نامی گرامی مؤرخین اور اہلِ قلم نے تصانیف میں شامل کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ نادر شاہ کی فوج پر دلّی کی گلیوں میں حملوں کے بعد شروع ہوا۔ نادر شاہ نے فوج کو اپنی ہیبت اور دھاک بٹھانے کے لیے قتلِ عام کا حکم دیا، اور پھر بڑی خوں ریزی اور لوٹ‌ مار ہوئی۔ مشہور ہے کہ اس وقت 30 ہزار ہندوستانی جن میں سپاہی، امراء اور شہری شامل تھے، جان سے گئے۔ دوسری طرف مغل بادشاہ نے نادر شاہ کو دلّی سے رخصت کرتے ہوئے سونا اور چاندی اور دریائے سندھ کے مغرب میں اپنی کئی جاگیریں بھی نذر کیں۔ اسے کوہ نور، دریائے نور اور تاج ماہ نامی ہیرے بھی تحفتاً پیش کیے گئے۔

    نادر شاہ کی مغل دربار میں آمد اور بادشاہ کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کا احوال مرزا مہدی نے اپنی تصنیف ’تاریخِ نادری‘ میں کچھ یوں لکھا ہے۔ ’اس دربار میں شہنشاہ اور اس کے امرا کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس دربار میں نادر شاہ نے اپنے ہاتھوں سے محمد شاہ کے سَر پر ہندوستان کا تاج رکھا اور جواہرات سے جڑی ایک تلوار اور بیش قیمت طلائی کمربند عطا کیا۔ شہنشاہ کے امرا کو بھی خلعت فاخرہ پیش کی گئیں۔ شہنشاہ ہند نے اپنی تاجوری کی بحالی پر اظہار تشکر کے طور پر دریائے سندھ کے مغربی کنارے کا تمام علاقہ نادر شاہ کی عملداری میں دینے کی پیشکش کی۔ یہ علاقہ تبت اور کشمیر کی سرحدوں سے لے کر دریائے سندھ کے بحیرہ عرب میں اترنے تک پھیلا ہوا تھا۔ اس میں ٹھٹہ کے اضلاع، بندرگاہیں اور قلعے بھی شامل تھے۔‘

    مصنّف نے اسی کتاب میں دلّی سے نادر شاہ کی رخصتی کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھا ہے، ’نادر نے سَر پر ایک سرخ رنگ کی ٹوپی پہن رکھی تھی جس پر قیمتی موتی جڑا تھا۔ ٹوپی کے گرد سفید کشمیری شال لپٹی تھی۔ وہ کڑیل جوان، تنومند اور سیدھی کمر کے ساتھ بیٹھا نظر آ رہا تھا۔ اس کی داڑھی اور مونچھوں کو خضاب سے کالا کیا گیا تھا۔‘

    1745 میں نادر شاہ نے ترکوں‌ کی فوج کو شکست دی تھی جسے مؤرخین اس کی آخری شان دار فتح لکھتے ہیں۔ وہ مسلسل فوجی مہمّات اور شورش کے خلاف کمربستہ رہنے کی وجہ سے تھک چکا تھا۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ چڑچڑا، شکی اور بدمزاج ہوتا گیا۔ اس نے اپنے بیٹے اور ولی عہد رضا قلی کو بھی اندھا کروا دیا تھا۔ اسے شک تھا کہ رضا قلی اس کے اقتدار کے خلاف سازش کررہا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نادر شاہ مال و دولت کی ہوس میں‌ گرفتار ہوگیا تھا۔ اسی دور میں ایران میں جگہ جگہ بغاوتیں پھوٹنے لگیں اور نادر شاہ کی مخالفت بڑھتی چلی گئی۔

    کہا جاتا ہے کہ اگر نادر شاہ نہ ہوتا تو شاید آج ایران بھی نہ ہوتا۔ بلکہ وہ ’افغانوں، روسیوں اور عثمانیوں میں تقسیم ہو جاتا۔‘ غربت کی دلدل سے نکل کر ایرانی سلطنت کا اقتدار سنبھالنے والے نادر شاہ کو محافظ دستے کے چند سپاہیوں نے قتل کر دیا تھا۔

  • میکسم گورکی: روسی ادب کی حیاتِ تازہ کی ایک بلند مرتبہ شخصیت

    میکسم گورکی: روسی ادب کی حیاتِ تازہ کی ایک بلند مرتبہ شخصیت

    روسی ادب کی حیات تازہ میں میکسم گورکی کا نام بلند ترین مرتبہ رکھتا ہے۔ جدید انشا پردازوں میں صرف گورکی ہی ایسا ادیب ہے جو تالسٹائی کی طرح اکنافِ عالم میں مشہور ہے۔ اس کی شہرت چیخوف کی مقبولیت نہیں جو دنیا کے چند ممالک کے علمی طبقوں تک محدود ہے۔

    گورکی کا کردار فی الحقیقت بہت حیرت افزا ہے، غریب گھرانے میں پیدا ہو کر وہ صرف تیس سال کی عمر میں روسی ادب پر چھا گیا۔

    میکسم گورکی کا اصلی نام الیکسی میکس مووخ پیشکوف ہے۔ اس کا باپ میکسم پیشکوف ایک معمولی دکاندار تھا جو بعد ازاں اپنی علو ہمتی اور محنت کشی سے استرا خاں میں جہاز کا ایجنٹ بن گیا۔ اس نے نزہنی نوو گورو کے ایک رنگ ساز وسیلی کیشرن کی لڑکی سے شادی کی۔ جس کے بطن سے میکسم گورکی ۱۴ مارچ ۱۸۶۹ء کو پیدا ہوا۔ پیدائش کے فوراً بعد ہی باپ اپنے بچے کو استرا خاں لے گیا۔ یہاں گورکی نے ابھی اپنی زندگی کی پانچ بہاریں دیکھی تھیں کہ باپ کا سایہ اس کے سر سے اٹھ گیا۔ اب گورکی کی ماں اسے پھر سے اس کے دادا کے گھر لے آئی۔

    گورکی نے اپنے بچپن کے زمانے کی داستان اپنی ایک تصنیف میں بیان کی ہے۔ اس میں اس نے اپنے جابر دادا اور رحم دل دادی کے کرداروں کی نہایت فنکاری سے تصویر کشی کی ہے، جس کے نقوش قاری کے ذہن سے کبھی محو نہیں ہو سکتے۔ جوں جوں کم سن گورکی بڑا ہوتا گیا، اس کے گرد و پیش کا افلاس زدہ ماحول تاریک سے تاریک تر ہوتا گیا۔ اس کی ماں نے جیسا کہ گورکی لکھتا ہے، ’’ایک نیم عاقل شخص سے شادی کر لی۔‘‘ اس شخص کے متعلق گورکی کی کوئی اچھی رائے نہیں ہے۔ کچھ عرصے کے بعد اس کی والدہ بھی اسے داغ مفارقت دے گئی اور ساتھ ہی اس کے دادا نے اسے خود کمانے کے لئے اپنے گھر سے رخصت کر دیا۔ قریباً دس سال تک نوجوان گورکی روس کی سرحدوں پر فکرِ معاش میں مارا مارا پھرتا رہا۔ کشمکش زیست کے اس زمانے میں اسے ذلیل سے ذلیل مشقت سے آشنا ہونا پڑا۔

    لڑکپن میں اس نے ایک کفش دوز کی شاگردی اختیار کر لی۔ یہ چھوڑ کر وہ ایک مدت تک دریائے والگا کی ایک دخانی کشتی میں کھانا کھلانے پر نوکر رہا۔ جہاں ایک بوڑھے سپاہی نے اسے چند ابتدائی کتابیں پڑھائیں اور اس طرح اس کی ادبی زندگی کا سنگ بنیاد رکھا۔ ان کتابوں میں سے جو گورکی نے تختہ جہاز پر بوڑھے سپاہی سے پڑھیں، ایک کتاب ’’اڈلفو کے اسرار‘‘ تھی، ایک مدت تک اس کے زیر مطالعہ ایسی کتب رہیں جن کے اوراق عموماً کشت و خون اور شجاعانہ رومانی داستانوں سے لبریز ہوا کرتے تھے، اس مطالعہ کا اثر اس کی اوائلی تحریروں میں نمایاں طور پر جھلکتا ہے۔

    پندرہ برس کی عمر میں گورکی نے قازان کے ایک اسکول میں داخل ہونے کی کوشش کی، مگر جیسا کہ وہ خود کہتا ہے، ان دنوں مفت تعلیم دینے کا رواج نہیں تھا۔ وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا بلکہ اسے بھوکوں مرنے سے بچاؤ حاصل کرنے کے لئے ایک بسکٹوں کے کارخانے میں کام کرنا پڑا۔ یہ وہی کارخانہ ہے جس کی تصویر اس نے اپنے شاہکار افسانے ’’چھبیس مزدور اور ایک دوشیزہ‘‘ میں نہایت فن کاری سے کھینچی ہے۔ قازان میں اسے ایسے طلبہ سے ملنے کا اتفاق ہوا، جنہوں نے اس کے دماغ میں انقلابی خیالات کی تخم ریزی کی۔ قازان کو خیرباد کہنے کے بعد وہ جنوب مشرق اور مشرقی روس کے میدانوں میں آوارہ پھرتا رہا۔ اس زمانہ میں اس نے ہر نوعیت کی مشقت سے اپنا پیٹ پالا۔ اکثر اوقات اسے کئی کئی روز فاقے بھی کھینچنے پڑے۔

    ۱۸۹۰ء میں وہ نزہنی میں رنگروٹ بھرتی ہونے کے لئے آیا۔ خرابی صحت کی بنا پر اسے یہ ملازمت تو نہ مل سکی مگر وہ نزہنی کے ایک وکیل مسٹر ایم اے لینن، کا بہت احترام کرتا ہے، چنانچہ اس نے اپنے افسانوں کا ایک مجموعہ مسٹر ایم اے لینن کے نام سے معنون کیا ہے۔ کے یہاں منشی کی حیثیت میں نوکر ہو گیا۔ اس وکیل نے اس کی تعلیم کی طرف بہت توجہ دی۔ تھوڑے عرصہ کے بعد ہی گورکی کے ذہنی تلاطم نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ منشی گیری چھوڑ کر روس کی سرحدوں پر آوارہ پھرے۔ دراصل قدرت کو یہ منظور نہ تھا کہ مستقبل قریب کا ادیب اتنے عرصے تک دنیا کی نظروں سے روپوش رہے۔ خانہ بدوشی کی اس سیاحت کے زمانے میں گورکی نے اپنا قلم اٹھایا۔ ۱۸۹۲ء میں جب کہ وہ تفلس کے ایک ریلوے ورکشاپ میں ملازم تھا، اس کا پہلا افسانہ ’’ماکارشدرا‘‘ جو ایک نہایت دلچسپ رومانی داستان تھی، مقامی روزنامہ ’’قفقاز‘‘ میں شائع ہوا۔ اس افسانے میں اس نے خود کو اپنے قلمی نام گورکی سے متعارف کرایا۔ یہ نام اب ہر فرد بشر کی زبان پر ہے۔

    کچھ عرصہ تک وہ اپنے صوبے کے اخباروں میں مضامین چھپوانے کے بعد اس قابل ہو گیا کہ اپنی تحریروں سے روپیہ پیدا کر سکے۔ مگر ’’اعلیٰ ادب‘‘ کے ایوان میں وہ اس وقت داخل ہوا، جب اس نے دوبارہ نزہنی میں اقامت اختیار کی۔ ۱۸۹۵ء میں اس کے افسانوں کا پہلا مجموعہ کتابی صورت میں شائع ہوا۔ ان افسانوں کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ فی الحقیقت روسی انشا پرداز کے لئے اس قسم کی شاندار کامیابی غیر مسبوق تھی۔ اس کتاب کے تعارف کے ساتھ ہی گورکی ایک غیر معروف جرنلسٹ سے ملک کا مشہور ترین انشا پرداز بن گیا۔
    گورکی کی شہرت ’’پہلے انقلاب‘‘ تک قابل رشک تھی۔ ملک کے تمام اخبار اس کی تصاویر اور اس کے ذکر سے بھرے ہوتے تھے۔ ہر شخص اس کے سراپا کو ایک نظر دیکھنا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ بین الملّی شہرت بھی فوراً ہی نوجوان مصنف کی قدم بوسی کرنے لگی۔ جرمنی بالخصوص اس پر لٹو ہو گیا۔ ۱۹۰۳ء اور ۱۹۰۶ء کے درمیانی عرصہ میں گورکی کی شاہکار تمثیل ’’تاریک گہرائیاں‘‘ برلن کے ایک تھیٹر میں متواتر پانچ سو راتوں تک اسٹیج ہوتی رہی۔

    میکسم گورکی اب روس کی جمہوریت پسند دنیا کی سب سے زیادہ اہم اور مشہور شخصیت تھی۔ مالی نقطۂ نظر سے بھی اسے بہت اہمیت حاصل تھی۔ اس کی تصانیف کا پیدا کردہ روپے کا بیشتر حصہ انقلاب کی تحریک میں صرف ہوتا رہا۔ ۱۹۰۰ء میں روس کی فضا سخت مضطرب تھی۔ گرفتاریوں اور سزاؤں کی بھرمار تھی، چنانچہ گورکی گرفتار ہوا اور اسے پیٹرز برگ سے نکال کر نزہنی میں نظربند کر دیا گیا۔ پہلے انقلاب میں گورکی نے بڑی سرگرمی سے حصہ لیا۔ جنوری ۱۹۰۵ء میں اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اس گرفتاری نے اکناف عالم میں گورکی کے چاہنے والے پیدا کر دیے۔ رہائی کے بعد گورکی نے ایک روزانہ اخبار شائع کیا جس کے کالم بالشویک تحریک کے نشو و ارتقاء کے لئے مخصوص تھے۔ اس روزنامے میں گورکی نے بیسویں صدی کے تمام روسی ادباء کو بیہودہ قرار دیتے ہوئے مقالوں کا ایک تانتا باندھ دیا۔ ان انشاء پردازوں میں جو اس کے نزدیک فضول تھے، تالسٹائی اور دوستو وسکی بھی شامل تھے، وہ انہیں ادنیٰ سرمایہ دار کا نام دیتا ہے۔

    میکسم گورکی پر یہ پارے سعادت حسن منٹو کی تحریر سے لیے گئے ہیں جس میں‌ مصنّف نے مختلف سیاسی اور ادبی ادوار کے ساتھ گورکی کی کہانیوں سے اقتباسات نقل کرتے ہوئے ان پر اپنی رائے دی ہے، لیکن ماں وہ ناول ہے جس نے دنیا بھر میں‌ گورکی کی عظمت اور اس کے قلم کی دھاک بٹھا دی۔ آج بھی یہ ناول دنیا بھر میں‌ پڑھا جاتا ہے اور گورکی زندہ ہے۔

    18 جون 1936ء کو روس کا مشہور انقلابی شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار، ڈراما نویس اور صحافی گورکی اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اس نے روس اور دنیا کے مظلوم طبقے و پسے ہوئے لوگوں میں امید کی ایک نئی لہر پیدا کی اور تاریخ میں‌ اپنا نام لکھوانے میں‌ کام یاب ہوا۔

  • ناظم پانی پتی:‌ کئی مقبول فلمی گیتوں کا فراموش کردہ شاعر

    ناظم پانی پتی:‌ کئی مقبول فلمی گیتوں کا فراموش کردہ شاعر

    ہندوستان کی فلم نگری اور تقسیم کے بعد پاکستانی فلموں کو کئی بے مثال اور لازوال گیت دینے والے ناظم پانی پتی کو آج شاید ہی کوئی جانتا ہو گا لیکن ایک زمانہ تھا جب ان کے فلمی نغمات کا شہرہ اور بطور شاعر ان کی تعریف بمبئی سے لاہور تک خوب خوب ہوا کرتی تھی۔ ناظم پانی پتی ایک فقیر منش اور سادہ انسان تھے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ گیت نگار ناظم پانی پتی 18 جون 1998ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    فلمی دنیا میں بطور گیت نگار ان کی فنی عظمت کو سبھی نے تسلیم کیا ہے، اور جب کہ وہ تقسیمِ ہند کے چند برس بعد پاکستان چلے آئے تھے، مگر بھارت کی فلم انڈسٹری میں‌ انھیں یاد کیا جاتا تھا۔ کہتے ہیں‌ کہ وہ 1952ء میں‌ پاکستان ہجرت کرگئے تھے۔ انھوں نے فلم نگری کو دل میرا توڑا، کہیں کا نہ چھوڑا، تیرے پیار نے جیسا مقبول گیت دیا اور ایک خوب صورت لوری چندا کی نگری سے آ جا ری نندیا بھی انہی کی تحریر کردہ تھی جسے اکثر سنا جاتا تھا۔

    ناظم پانی پتی کا اصل نام محمد اسماعیل تھا۔ پیدائش ان کی لاہور شہر میں‌ ہوئی مگر اپنے والد کی جائے پیدائش کی مناسبت سے پانی پت کو اہمیت دی اور اسے لاحقہ بنایا۔ وہ 15 نومبر 1920 کو پیدا ہوئے۔ ناظم پانی پتی کے بڑے بھائی ولی صاحب اور ان کی بھاوج ممتاز شانتی کا تعلق فلمی دنیا سے تھا۔ ناظم پانی پتی نے ہندوستان اور بعد میں‌ لاہور سے بننے والی فلموں کے لیے کئی مقبول گیت تخلیق کیے۔ خزانچی، پونجی، یملا جٹ، چوہدری، زمین دار اور شیریں فرہاد جیسی فلموں کے لیے ان کے تحریر کردہ گیت بہت مقبول ہوئے۔

    جس گیت نے ناظم صاحب کو فلم بینوں سے بھرپور انداز میں متعارف کرایا وہ محمد رفیع کا گایا ہوا تھا، اس کے بول تھے:

    جگ والا میلہ یار تھوڑی دیر دا
    ہنسدے آں رات لنگے پتا نیئں سویر دا
    جگ والا میلہ یارو….

    یہ فلم ”لچھی” کا وہ گیت ثابت ہوا جس کی وجہ سے فلم سپر ہٹ ہوگئی۔ اس فلم کے بعد ناظم صاحب کو اتنی مقبولیت ملی کہ فلمی دنیا میں ان کا طوطی بولنے لگا۔

    ناظم پانی پتی نے بعد میں اپنے بڑے بھائی ولی کی طرح گرامو فون کمپنیوں کے لیے گیت نگاری شروع کردی تھی۔ یہاں بھی ان کو کام یابی نصیب ہوئی۔ وہ لگ بھگ دس سال تک بمبئی میں رہے جہاں 25 سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے۔ ان کی مشہور فلموں میں مجبور، بہار، شیش محل، لاڈلی، شادی، ہیر رانجھا اور دیگر شامل ہیں۔

    مشہور ہے کہ ناظم پانی پتی ہی تھے جنھوں نے اردو کے ممتاز افسانہ نگار اور اسکرپٹ رائٹر سعادت حسن منٹو کی میّت کو غسل اور کفن دیا۔ ناظم پانی پتی نے زندگی کے آخری سال گمنامی میں گزارے کیوں کہ اس وقت پاکستان میں‌ فلمیں بننا بہت کم ہوگئی تھیں اور نگار خانے ویران پڑے تھے۔ پاکستان میں انھوں نے جن فلموں کے لیے یادگار نغمات تحریر کیے ان میں لختِ جگر، شاہی فقیر، سہیلی، بیٹی اور انسانیت سرفہرست ہیں۔ اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں گیت لکھنے کے ساتھ انھوں نے متعدد فلموں کا اسکرپٹ بھی لکھا۔

    ناظم پانی پتی کو لاہور کے ماڈل ٹاؤن قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • پروفیسر آفاق صدیقی:‌ علم و ادب کے میدان کا ایک قابلِ‌ ذکر نام

    پروفیسر آفاق صدیقی:‌ علم و ادب کے میدان کا ایک قابلِ‌ ذکر نام

    تہذیب و شرافت اور حسنِ اخلاق کے ساتھ چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنا اور ان کی راہ نمائی کرنا آفاق صدیقی صاحب کے نمایاں شخصی اوصاف میں شامل تھا۔ یہ تذکرہ ہے پاکستان میں علم و ادب اور تدریس کے شعبہ میں معروف پروفیسر آفاق صدیقی کا۔

    پروفیسر آفاق صدیقی کے علمی اور ادبی کام کی بات کی جائے تو بطور محقّق، مترجم اور بحیثیت شاعر انھوں نے کئی تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔ آج آفاق صدیقی کی برسی ہے۔ وہ 17 جون 2012ء کو وفات پاگئے تھے۔

    4 مئی 1928ء کو ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے شہر فرخ آباد میں پیدا ہونے والے آفاق صدیقی نے علی گڑھ سے گریجویشن کیا۔ تقسیم کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور صوبۂ سندھ کے مشہور اور تاریخی حیثیت کے حامل شہر سکھر میں سکونت اختیار کرلی۔ اردو کے علاوہ آفاق صدیقی فارسی اور ہندی کے ساتھ سندھی زبان بھی جانتے تھے۔ مضمون نگاری اور شاعری کرتے ہوئے انھوں نے اپنی اس قابلیت اور علمی استعداد کے ساتھ تحقیق اور تراجم کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔ ان کے تحقیقی مضامین اور تراجم پر مبنی تصانیف کو اردو اور سندھی ادب میں معتبر مانا جاتا ہے۔

    آفاق صدیقی کا پیشہ و مصروفیت کا شعبہ تدریس رہا۔ وہ مختلف حیثیتوں میں تعلیمی اداروں سے منسلک رہے اور ساتھ ہی اپنے علمی و ادبی مشاغل بھی انجام دیتے رہے۔ پروفیسر آفاق صدیقی نے سندھ کے مشہور صوفی شاعر شاہ عبداللطيف بھٹائی اور سچل سرمست کے علاوہ شيخ اياز کی شاعری کا اردو ترجمہ بھی کیا۔

    پروفیسر آفاق صدیقی نے مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی جس نے سکھر اور شہر کے نواح میں ایسے اسکول قائم کیے جہاں کم اور اوسط آمدنی والے خاندانوں کے بچوں کو داخلہ دیا جاتا تھا۔ شعبۂ تعلیم سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد وہ کراچی منتقل ہو گئے اور اس شہر میں اردو سندھی ادبی فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کے قیام کا مقصد ایسے ادیبوں کی کتابوں کی اشاعت ممکن بنانا تھا جو اس کی مالی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ 1952ء میں آفاق صدیقی نے ایک رسالہ ’کوہ کن‘ کا اجرا کیا اور اس کے اگلے برس سندھی ادبی سرکل کا قیام عمل میں لائے۔ ان کی تصنیف و تالیف کردہ کتب کی تعداد 40 ہے جن میں ان کے مجموعہ ہائے کلام کے علاوہ ’تاثرات‘ (تنقیدی مضامین)، ’شاعرِ حق نوا‘(سچل سرمست پر تحقیقی کتاب)، ’جدید سندھی ادب‘(تراجم نظم و نثر)، ’سندھی ادب کے اردو تراجم‘ (تحقیق)، ’عکسِ لطیف‘(شاہ لطیف کی شخصیت پر ایک تحقیقی کتاب) شامل ہیں۔ سندھی کہانیوں پر مشتمل کتاب ماروی کے دیس اور شاہ جو رسالو کا اردو ترجمہ بھی انہی کے قلم سے نکلا تھا جو بہت مقبول ہوا۔

    اردو اور سندھی ادب کے حوالے سے گراں قدر خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انھیں تمغائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • یادِ رفتگاں: مولوی ممتاز علی کا تذکرہ

    یادِ رفتگاں: مولوی ممتاز علی کا تذکرہ

    یہ تذکرہ ہے علم و فنون اور ادب و صحافت کی دنیا کے ایک گوہرِ نایاب کا جنھیں پیوندِ خاک ہوئے کئی برس گزر چکے ہیں اور اب ان کا نام اور کارنامے بھی صرف کتابوں میں گویا قید ہیں۔ نئی نسل کو جاننا چاہیے کہ قلم کے ذریعے اردو کی خدمت اور ہندوستان میں اسلامی شناخت اور مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرنے میں ان شخصیات نے کیا کردار ادا کیا۔ مولوی سیّد ممتاز علی کو شمسُ العلما کے خطاب سے سرفراز کیا گیا تھا۔ وہ اپنے علمی، ادبی، صحافتی کاموں اور حقوق و تعلیمِ نسواں کے علم بردار کی حیثیت سے ممتاز ہوئے۔ ان کے صحافتی ادارے دارُالاشاعت لاہور کا رسالہ ’تہذیبِ نسواں‘ ہندوستان کا سب سے پہلا خواتین کا ہفتہ وار اخبار تھا جیسا کہ اس کے سَرورق پر درج ہے۔

    اس رسالہ کی ادارت مولوی ممتاز علی کی دوسری بیوی نے سنبھالی تھی جو ڈرامہ انار کلی کے مصنّف امتیاز علی تاج کی والدہ تھیں۔ ان کا نام محمدی بیگم تھا جن کی ادارت میں اس رسالے کا پہلا شمارہ یکم جولائی 1898 میں منظرِ عام پر آیا۔ مولوی ممتاز علی کی پہلی بیوی کا چند برس قبل انتقال ہو چکا تھا۔ انھوں نے دوسری بیوی محمدی بیگم کو ذہین اور باصلاحیت پایا تو ان کی ضروری تعلیم کا بندوبست کیا اور انھیں اس قابل بنایا کہ وہ ایک رسالے کی مدیر بنیں اور اپنی صلاحیتوں کی بدولت نام پیدا کیا۔

    تہذیبِ نسواں رفتہ رفتہ ہندوستان کے مسلم گھرانوں اور اردو داں طبقے میں‌ خاصا مقبول ہوگیا۔ اس اخبار نے جہاں‌ ہندوستانی عورتوں کو بیدار مغز اور باشعور بنانے میں کردار ادا کیا، وہیں اس پرچے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہی نہیں معمولی پڑھی لکھی عورتوں میں بھی تصنیف و تالیف کا شوق پیدا ہوا۔ اخبار کی ادارت محمدی بیگم کے ذمّہ تھی جو سیّد ممتاز علی کی زوجہ تھیں۔ لیکن ایک بڑا طبقہ جن میں مسلمان ہی نہیں‌ ہندو اور دیگر مذاہب کے ماننے والے ہندوستانی شامل تھے، مولوی صاحب کے اس رسالے کے مخالف تھے۔ مولوی ممتاز علی نے تہذیب نسواں کے متعلق چھ جولائی 1935 میں چھپے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ’لوگوں کو حق اور اختیار تھا کہ وہ اخبار کو ناپسند کرتے اور نہ پڑھتے اور اپنے گھروں میں نہ آنے دیتے مگر انھوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ گالیاں دینا شروع کیں۔ گالیاں بھی اگر بند خطوط کے اندر لکھی آتیں تو اس قدر ذلّت نہ ہوتی مگر وہ تو اخبار کے پیکٹوں پر بازاری گالیاں لکھ کر اخبار واپس کرتے تھے اور خطوں میں جو کچھ لکھتے تھے کہ وہ اس قدر شرمناک ہوتا تھا کہ خط کھولنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ ہاتھ کانپتے اور دل سہما جاتا تھا۔‘ اس زبردست مخالفت کے باوجود مولوی ممتاز علی نے اپنا کام جاری رکھا۔

    سیّد ممتاز علی کی علمی و ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ وقت نے انھیں شمسُ العلما کا خطاب دیا۔ 15 جون 1935ء کو سید ممتاز علی وفات پاگئے تھے۔ انھوں نے متعدد علمی و ادبی مضامین تحریر کیے اور کئی تراجم بھی ان کے قلم سے نکلے۔ سیّد ممتاز علی رفاہِ عام پریس کے مالک تھے۔ انھیں ناشر کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔

    وہ 1860ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ انھوں نے انگریزی کی تعلیم بھی پائی۔ مولوی صاحب 1876ء میں لاہور چلے گئے اور تا دمِ مرگ وہیں‌ ان کا قیام رہا۔

    مولوی سیّد ممتاز علی علم و ادب میں ممتاز اور مسلمانانِ ہند کے خیر خواہ اور مصلح سرسیّد احمد خان کے رفیق بھی تھے۔ ہر کام میں‌ ان سے صلاح و مشورہ کرتے اور ان کی طرح ہندوستانیوں‌ کے لیے جدید علوم اور تعلیم و تربیت کا حصول لازمی خیال کرتے تھے۔
    ان کے اخبار تہذیبِ نسواں کا نام تہذیبُ الاخلاق سے مشابہ تھا جو سر سیّد احمد خان نے تجویز کیا تھا۔

    1884ء میں ان کی ملازمت پنجاب میں عدالت کے مترجم کی حیثیت سے ہوئی تھی اور 1891ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ 1898ء کو لاہور میں چھاپا خانہ قائم کیا اور نہایت بلند پایہ کتابیں شایع کیں۔ اسی برس تہذیبِ نسواں بازار میں آیا تھا جو 1949ء تک جاری رہا۔ سیّد ممتاز علی نے 1909ء میں بچّوں کا جریدہ پھول بھی جاری کیا تھا اور یہ تقسیمِ ہند کے بعد بھی شایع ہوتا رہا۔

    سیّد ممتاز علی کے مطبع خانے سے جو تصانیف شایع ہوئیں، ان میں حقوقِ نسواں (1898ء)، مولوی مرزا سلطان احمد خاں کے متفرق مضامین کا مجموعہ ریاضُ الاخلاق (1900ء) اور سراجُ الاخلاق، تفصیلُ البیان، شیخ حسن (1930ء) اور دیگر شامل ہیں۔

    1908ء میں محمدی بیگم کے انتقال کے بعد ان کی صاحب زادی وحیدہ بیگم نے اس اخبار کی ادارت سنبھالی جس کے بانی مولوی ممتاز علی تھے، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وحیدہ بیگم 1917ء میں خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ کچھ عرصے کے لیے مولوی ممتاز علی کی بہو نے بھی اخبار کی ادارت کی اور پھر اسے مولوی ممتاز کے صاحب زادے امتیاز علی تاج نے آگے بڑھایا جو اس کے آخری مدیر تھے اور نام ور ادیب و ڈرامہ نگار تھے۔

  • شہنشاہِ غزل مہدی حسن کا تذکرہ

    شہنشاہِ غزل مہدی حسن کا تذکرہ

    برصغیر اور بالخصوص ہندوستان سے تعلق رکھنے والے کئی نام موسیقی کی دنیا میں پاکستان کی شناخت اور پہچان بنے اور ان میں سے چند نام اپنے فن کے بے تاج بادشاہ کہلائے۔ مہدی حسن انہی میں سے ایک ہیں جن کی آواز کی دنیا نے مداح سرائی کی اور ان کے فن کو سراہا۔ آج مہدی حسن کی برسی ہے۔

    ریڈیو کی مقبولیت کے دور میں مہدی حسن کا نام اور ان کی آواز ملک بھر میں سنی جانے لگی تھی۔ اس دور میں ریڈیو پر بڑے بڑے موسیقار اور گلوکار ہوا کرتے تھے اور ان اساتذہ کو متاثر کرنا اور ان کی سفارش پر ریڈیو سے منسلک ہونا آسان نہیں‌ تھا۔ اس وقت ڈائریکٹر سلیم گیلانی نے مہدی حسن کو ریڈیو پر گانے کا موقع دیا اور بعد میں مہدی حسن فنِ گائیکی کے شہنشاہ کہلائے۔

    مہدی حسن نے غزل گائیکی سے اپنی مقبولیت کا آغاز کیا تھا اور پھر فلمی گیتوں کو اپنی آواز دے کر لازوال بنا دیا۔ انھوں نے غزلوں کو راگ راگنی اور سُر کی ایسی چاشنی کے ساتھ گایا کہ سننے والا سحر زدہ رہ گیا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ ہر فلم میں مہدی حسن کا گانا لازمی سمجھا جانے لگا۔ انھوں نے فلمی غزلیں بھی گائیں اور ان کی گائی ہوئی تقریباً ہر غزل اور گیت مقبول ہوا۔ مہدی حسن کے گیت سرحد پار بھی بہت ذوق و شوق سے سنے گئے اور ان کی پذیرائی ہوئی۔ کلاسیکی رکھ رکھاؤ اور انفرادیت نے مہدی حسن کو ہر خاص و عام میں مقبول بنایا اور ان کے شاگردوں نے بھی انہی کے رنگ میں آوازوں کا جادو جگا کر سننے والوں سے خوب داد سمیٹی۔ فلمی دنیا میں قدم رکھنے سے قبل ہی فیض جیسے بڑے شاعر کی غزل ’’گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے…اور میر صاحب کا کلام ’’یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے….‘‘ گا کر مہدی حسن نے سب کی توجہ حاصل کرلی تھی۔ بعد میں وہ میر تقی میر، غالب، داغ دہلوی اور دیگر اساتذہ کا کلام گاتے اور فلمی نغمات کو اپنی آواز میں یادگار بناتے رہے۔

    گلوکار مہدی حسن کے مقبول ترین گیتوں میں ’’اب کے ہم بچھڑے (محبت)، ’’پیار بھرے دو شرمیلے نین (چاہت)، ’’زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں (عظمت)، ’’تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے (شرافت) اور کئی نغمات شامل ہیں۔ یہ گیت اپنے وقت کے مشہور اور مقبول ترین ہیروز پر فلمائے گئے۔

    اپنی ابتدائی زندگی اور اساتذہ کے متعلق مہدی حسن نے انٹرویوز کے دوران بتایا کہ وہ بھارتی ریاست راجستھان کے ضلع جے پور کے گاؤں جھنجھرو میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ’’کلاونت‘‘ گھرانے سے تھا اور ان کے والد، دادا، پر دادا بھی اسی فن سے وابستہ رہے تھے۔ والد عظیم خان اور چچا اسماعیل خان سے اس فن کی تعلیم اور تربیت حاصل کی اور کلاسیکی موسیقی سیکھی۔ ان کے بقول ان کے بزرگ راجاؤں کے دربار سے وابستہ رہے تھے۔ 47ء میں قیام پاکستان کے بعد مہدی حسن بھارت سے لاہور آگئے۔ وہاں تین چار برس قیام کے بعد کراچی کو اپنا مستقر بنایا۔ فلم انڈسٹری سے وابستگی کراچی میں آکر ہوئی کیونکہ اس زمانے میں زیادہ تر فلمیں کراچی میں ہی بنا کرتی تھیں۔

    مہدی حسن نے ابتدائی زمانہ میں کئی کام کیے، اور روزی روٹی کا انتظام کرتے رہے۔ وہ بتاتے تھے کہ انھیں محنت میں کبھی عار محسوس نہیں ہوئی۔ پیٹ پالنے کے لیے پنکچر لگائے، ٹریکٹر چلایا، موٹر مکینک کے طور پر کام کیا اور پھر انھیں ریڈیو تک رسائی حاصل ہوگئی۔ بعد میں ڈائریکٹر رفیق انور نے مہدی حسن کو فلم میں کام دلوایا اور پہلی فلمی غزل فلم ’’شکار‘‘ کے لیے گائی جس کے بول تھے۔

    ’’میرے خیال و خواب کی دنیا لئے ہوئے
    کہ آ گیا کوئی رخ زیبا لئے ہوئے‘‘

    گلوکار مہدی حسن نے پاکستانی اور غیرملکی حکومتی شخصیات اور ممالک کے سربراہان کے سامنے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور بڑی عزت اور احترام پایا۔ حکومت پاکستان نے مہدی حسن کو تمغائے حسن کارکردگی اور ہلال امتیاز سمیت دوسرے نمایاں قومی سطح کے ایوارڈز سے نوازا تھا۔

    زندگی کے آخری ایّام میں مہدی حسن فالج کے بعد بستر پر رہے اور سینے اور سانس کی مختلف بیماریوں کا شکار تھے۔ ان کا انتقال 13 جون 2012 کو ہوا۔

  • آنند نرائن ملّا: وہ شاعر جنھیں مجاہدِ اردو کہا جاتا ہے

    آنند نرائن ملّا: وہ شاعر جنھیں مجاہدِ اردو کہا جاتا ہے

    یہ تذکرہ ہے آنند نرائن ملّا کا جن کا یہ قول آج بھی بالخصوص بھارت میں اردو کے متوالوں کو مسرور اور اس زبان کو ترک کرنے کا مطالبہ کرنے والوں کو رنجور کیے دیتا ہے کہ ’’میں اپنا مذہب چھوڑ سکتا ہوں، اپنی زبان نہیں چھوڑ سکتا۔ ‘‘

    معروف شاعر اور ہندوستان میں اردو کے فروغ کے ایک بڑے حامی آنند نرائن ملّا لگ بھگ صدی جیے۔ وہ 1997ء میں آج ہی کے روز چل بسے تھے۔ جائے پیدائش لکھنؤ اور سنہ پیدائش 1901ء ہے۔ بوقتِ مرگ آنند نرائن ملّا دلّی میں‌ مقیم تھے۔

    مسعود حسین خاں لکھتے ہیں، شاعر کے ہاتھ میں شمشیر دے کر اسے ’’مجاہد‘‘ بنا دیتے وقت کوئی بھی اس بارے میں اس کے ردعمل یا جذبات کا لحاظ نہیں رکھتا۔ چنانچہ مجھ سے بھی یہی غلطی ہوتی رہی اور میں پنڈت آنند نرائن ملّاؔ کی اس تقریر کے حوالے سے جو انھوں نے آزادی ملنے کے فوراً بعد جے پور کی اردو کانفرنس میں کی تھی اور کہا تھا۔ ’’میں اپنا مذہب چھوڑ سکتا ہوں، اپنی زبان نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘ ان کا قول بارہا اپنی تقریر و تحریر میں نقل کرتا رہا۔ ایک بار تو انجمن ترقی اردو کے ایک تہنیتی جلسے میں، جہاں ملّا صاحب موجود تھے، یہاں تک کہہ گیا: ’’ہے اردو والوں میں کوئی اور مائی کا لال جو اس طرح کا دعویٰ کر سکے؟‘‘

    میرے اس مسلسل اصرار پر ملّا صاحب کا ردعمل مجھے حال میں معلوم ہوا جب انھوں نے ایک خط میں لکھا:’’میرے مجاہدِ اردو ہونے کا ذکر تو ہر شخص کرتا ہے لیکن میرے شاعر ہونے کو سب بھول گئے ہیں۔‘‘ مجھے اس ’’شکایت ہائے رنگیں‘‘ سے دھچکا سا لگا۔ یہ نہیں کہ ملّا صاحب کی شاعری کا اعتراف نہیں کیا گیا ہے۔ ان کی سخن وری کا اور ان کے اندازِ بیان کا اعتراف تو بہت پہلے سے ہوتا آیا ہے، یہ اور بات ہے کہ چوں کہ وہ کسی ادبی تحریک کے کفِ سیلاب بن کر نہیں ابھرے اس لیے دوسروں کی طرح ان کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا گیا! اس کے ثبوت میں میں آج ۱۹۴۱ء کی ایک دستاویز ’’جدید غزل گو‘‘ کی طرف اشارہ کروں گا، جس کے مرتب اور کوئی نہیں، رسالہ ’’نگار‘‘ کے مستند اور بے پناہ نقاد حضرت نیاز فتح پوری ہیں۔ ’’جدید غزل گو‘‘ میں ۱۹۴۰ء کے آس پاس کے ۳۱ زندہ اور معتبر غزل گوؤں کا انتخابِ کلام یکجا کر دیا ہے۔ یہ انتخاب خود انھیں شاعروں کا کیا ہوا ہے جن کو شامل کیا گیا ہے۔ پنڈت آنند نرائن ملّاؔ کا انتخاب بھی، جو اس وقت ۳۸ برس کے تھے، شامل ہے۔ وہ ایک ایسی بزم کی زینت ہیں جہاں آرزوؔ لکھنوی، ثاقبؔ لکھنوی، جلیل مانک پوری، حسرتؔ موہانی، ساحرؔ دہلوی، سیمابؔ اکبر آبادی، نوحؔ ناروی اور وحشتؔ کلکتوی جیسے جیداساتذۂ سخن براجمان ہیں۔ ۳۱ کی اس فہرست میں صرف احسان دانش اور علی اختر جیسے چند شاعر ان سے جونیئر ہیں۔ ہم عصروں میں خاص نام فراق ؔ گورکھپوری کا ہے۔

    انتخاب کے افتتاحیہ نوٹ میں ملّا صاحب نے اپنا سنہ پیدائش اکتوبر ۱۹۰۱ء بتایا ہے۔ ان کی باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز ۱۹۲۷ء میں ایک نظم سے ہوا، اس کے ساتھ غزلیں بھی ہونے لگیں۔ جس زمانے کا ہم ذکر کر رہے ہیں، یعنی ۱۹۴۰ء تک بقول ملّا صاحب ’’پچاس ساٹھ نظمیں اور قریب سو (100) غزلیں کہی تھیں۔ ’’جدید غزل گو‘‘ کے لیے سو شعر انھوں نے انھیں سو غزلوں سے انتخاب کیے ہیں۔ ان سو غزلوں کی بدولت وہ غزل کے آسمانِ شعر میں اتنا بلند مقام حاصل کر چکے تھے کہ نیازؔ اپنی محفلِ سخن کے لیے انھیں دعوت نامہ بھیجنے پر مجبور ہو گئے۔

    ملّا صاحب کے احباب کا اصرار تھا کہ انھیں شعر گوئی کے لیے زانوئے تلمّذ کسی استاد کے سامنے تہ کرنا چاہیے کہ یہ دبستانِ لکھنؤ کی روایات کے عین مطابق تھا، لیکن ملّا صاحب یہ جواب دے کر گریز کر گئے: ’’شروع شروع میں میرے احباب نے مجھے مشورہ دیا کہ میں کسی کا شاگرد بن جاؤں، لیکن میرے ذوق نے اسے گوارا نہ کیا۔ اوّل تو یہ کہ شاگردی سے انفرادیت اس قدر مجروح ہوتی ہے کہ وہ پھر جاں بر نہیں ہو سکتی۔ استاد کا رنگ شاگرد کے کلام پر ایک نہ ایک حد تک ضرور حاوی ہو جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ ہر شخص کا تجربہ مختلف ہوتا ہے۔ اس کے جذبات میں مختلف طریقوں سے کیف پیدا ہوتا ہے اور اس کے دل و دماغ پر ایک مخصوص عالم طاری ہوتا ہے جس میں کوئی اس کا شریک نہیں ہو سکتا … شاعر کے لیے سب سے پہلے صداقت کی ضرورت ہے اور صداقت دوسرے کے رنگ میں ڈوب کر قائم نہیں رہ سکتی!‘‘۔

    آنند نرائن ملّا سے متعلق ادبی مضامین سے اقتباسات میں ان کی شاعری کے آغاز، ان کے فن اور شخصیت ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ وہ ہندوستان کے مشترکہ تہذیبی، سماجی اور لسانی کلچر کی زندہ علامت تھے جس کا اظہار اردو سے متعلق ان کے مشہور قول سے ہوتا ہے۔

    ملّا کشمیری الاصل تھے لیکن ان کے بزرگ پنڈت کالی داس ملّا لکھنؤ آکر بس گئے تھے اور یہیں پنڈت جگت نرائن ملّا کے یہاں آنند صاحب پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم فرنگی محل لکھنؤ میں ہوئی۔ ان کے استاد برکت اللہ رضا فرنگی محلی تھے۔ اس کے بعد ملا نے انگریزی میں ایم، اے کیا اور قانون کی پڑھائی کی اور وکالت کے پیشے سے وابستہ ہو گئے۔ ۱۹۵۵ میں لکھنؤ ہائی کورٹ کے جج مقرر کئے گئے۔ سبک دوشی کے بعد سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور ۱۹۶۷ میں لکھنؤ سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے پارلیمینٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۷۲ میں راجیہ سبھا کے رکن بنے۔ آنند نرائن ملّال انجمن ترقی اردو ہند کے صدر بھی رہے۔

    ابتداً انھوں نے انگریزی میں شاعری کی اور انگریزی ادب کے طالب علم ہونے کی وجہ سے انگریزی ادبیات پر بہت گہری نظر تھی لیکن پھر اردو شاعری کی طرف آگئے۔ لکھنؤ کے شعری و ادبی ماحول نے ان کی شاعرانہ صفات کو نکھارا۔ جوئے شیر، کچھ ذرے کچھ تارے، میری حدیث عمر گریزاں، کرب آگہی، جادۂ ملّا، ان کے شعری مجموعوں کے نام ہیں۔ کئی ادبی انعامات اور اعزازات سے بھی نوازے گئے۔

  • سنتوش کمار: پاکستانی فلمی صنعت کا بے مثال اداکار

    سنتوش کمار: پاکستانی فلمی صنعت کا بے مثال اداکار

    پاکستانی فلمی صنعت سنتوش کمار کو رومانوی فلموں‌ کے ایک بے مثال اداکار کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے گی جو اپنے وقت کے مقبول ترین ہیرو بھی تھے جاذب و پُرکشش شخصیت کے مالک سنتوش کمار کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد فلمی صنعت کے ابتدائی دور میں سنتوش کمار نے بطور ہیرو زبردست کام یابیاں سمیٹیں‌ اور ان کے مداحوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ بحیثیت اداکار سنتوش کی شہرت و مقبولیت کے علاوہ ایک باعثِ پذیرائی صبیحہ خانم سے شادی بھی تھا۔ صبیحہ خانم بھی پاکستانی فلموں کی مقبول ہیروئن تھیں اور نہایت باوقار خاتون تھیں جن کی کام یاب شادی فلم انڈسٹری کے لیے مثال بھی ہے۔ یہ دونوں فن کا عام زندگی میں بھی اپنے حسنِ اخلاق اور تہذیب و شائستگی کی وجہ سے بھی لوگوں کی نظر میں قابل احترام رہے ہیں۔

    بطور اداکار سنتوش کی پاکستانی فلم انڈسٹری میں‌ پہلی فلم بیلی (1950) تھی۔ آخری مرتبہ وہ فلم آنگن (1982) میں اسکرین پر نظر آئے تھے۔

    اداکار سنتوش کمار لاہور کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا اصل نام سیّد موسیٰ رضا تھا۔ فلم نگری میں‌ وہ سنتوش کمار کے نام سے پہچانے گئے۔ 25 دسمبر 1926ء کو پیدا ہونے والے سنتوش کمار نے عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ وہ اپنے ایک دوست کے اصرار پر فلمی دنیا کی طرف آئے تھے۔ انھوں نے ہیرو کا ایک رول اس وقت قبول کیا جب تقسیمِ ہند کا اعلان نہیں ہوا تھا۔ اس وقت کلکتہ اور ممبئی کے ساتھ لاہور بڑے فلمی مراکز تھے۔ اداکار سنتوش نے بمبئی سے دو فلموں ’’اہنسا‘‘ اور ’’میری کہانی‘‘ میں کردار نبھائے۔ بعد میں پاکستان ہجرت کر کے آئے اور یہاں بھی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوئے۔

    پاکستان میں اداکار سنتوش نے مسعود پرویز کی فلم ’’بیلی‘‘ سے اپنا سفر شروع کیا۔ سعادت حسن منٹو کی کہانی پر بنائی گئی اس فلم میں صبیحہ نے سائیڈ ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ ’’بیلی’’ کام یاب فلم نہیں تھی، لیکن اس کے بعد ’’دو آنسو‘‘ اور ’’چن وے‘‘ نے سنتوش کمار کے کیریئر کو بڑا سہارا دیا۔ اس سفر میں آگے بڑھتے ہوئے سنتوش نے شہری بابو، غلام، قاتل، انتقام، سرفروش، عشق لیلیٰ، حمیدہ، سات لاکھ، وعدہ، سوال، مکھڑا اور موسیقار جیسی فلموں‌ میں‌ کام کر کے خود کو بڑا اداکار ثابت کیا۔

    سنتوش کمار کی دیگر اہم فلموں میں دامن، کنیز، دیور بھابی، تصویر، شام ڈھلے، انجمن، نائلہ، چنگاری، لوری، گھونگھٹ اور پاک دامن شامل ہیں۔ مجموعی طور پر 92 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے سنتوش کمار کو ان کی بہترین اداکاری پر تین نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    اداکار سنتوش کمار 1978ء میں آج ہی کے روز انتقال کرگئے تھے۔ وہ لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ضمیر نیازی:‌ کوچۂ صحافت کی ایک نڈر اور بے باک شخصیت

    ضمیر نیازی:‌ کوچۂ صحافت کی ایک نڈر اور بے باک شخصیت

    یہ تذکرہ ہے آزادیٔ صحافت کے علم بردار اور پاکستان میں‌ اس شعبہ کی ایک بے مثال اور قابلِ تقلید شخصیت کا جنھیں ضمیر نیازی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ پاکستان میں اعلیٰ صحافتی اقدار اور روایات کو پروان چڑھانے والے ضمیر نیازی نے ملک میں بخلاف صحافت حکومتی اقدامات، جبر اور پابندی کو للکارا۔ انھوں نے دور آمریت میں من چاہے قوانین کا نفاذ اور حکمت عملی کے خلاف آواز بلند کی اور قلم سے صحافت کا دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ احتجاجی تحریکوں میں بھی آگے نظر آئے۔

    وہ پاکستانی میڈیا کی تاریخ لکھنے والے پہلے صحافی تھے۔ انھوں نے نہ صرف پاکستانی صحافت کی تاریخ مرتّب کی بلکہ اس موضوع پر متعدد کتابیں بھی لکھیں جو اس شعبے کو اپنانے والوں کی راہ نمائی کرتی ہیں۔

    ضمیر نیازی 1927ء میں بمبئی میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام ابراہیم جان محمد درویش تھا۔ آبائی پیشہ تو تجارت تھا لیکن ضمیر نیازی نے جس دور میں آنکھ کھولی تھی، وہ ہندوستان میں آزادی کی تحریکوں کا دور تھا اور صحافت بھی آزادی کی جنگ میں اپنا کردار ادا کررہی تھی۔ ممتاز ترقّی پسند ادیب، خلیق ابراہیم خلیقؔ نے اپنی خود نوشت ’’ منزلیں گرد کی مانند‘‘ میں لکھا ہے: ’’بمبئی میں میرے قیام کے دوران ضمیر نیازی تین محاذوں پر سرگرمِ عمل تھے۔ طالبِ علموں کا محاذ، ادب اور صحافت کے محاذ۔‘‘

    ضمیر نیازی نے اپنے ارد گرد نہ صرف علمی و ادبی ماحول دیکھا بلکہ حکومت سے بغاوت اور آزادی کے ترانے اور تقریریں بھی سنتے ہوئے بڑے ہوئے جس نے ان کے اندر بھی جبر و استحصال کے خلاف ڈٹ جانے اور اپنے حق کی خاطر لڑنے کا جذبہ پیدا کر دیا۔ وہ پہلے ادب پڑھنے اور لکھنے کی جانب مائل ہوئے اور پھر صحافت کی طرف قدم بڑھا دیے۔ اس وقت بمبئی سے کئی اخبار و رسائل شایع ہوا کرتے تھے جن میں روزنامہ’’ اجمل‘‘ بھی شامل تھا۔ نوعمری سے ابراہیم درویش اس کا مطالعہ کرتے رہے تھے اور پھر اسی اخبار میں کام کرنے کا موقع مل گیا۔ یوں ان کی صحافت کا آغاز متحدہ ہندوستان میں ہوگیا تھا۔ تقسیم کے بعد چند سال بھارت میں رہنے والے ابراہیم درویش ہجرت کر کے کراچی آگئے اور یہاں بھی صحافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔

    کوچۂ صحافت میں ان کے سامنے ایک واضح مقصد اور راستہ تھا۔ وہ ریاست اور حکومت کو اُن کے فرائض یاد دلاتے ہوئے غلط پالیسیوں اور اقدامات پر تنقید کرنا اور عوام کے حق میں آواز اٹھانا اپنی اوّلین ذمہ داری سمجھتے تھے۔ وہ ایسے صحافی تھے جنھوں نے نہ صرف احتجاجاً حکومت کو تمغا برائے حسنِ کارکردگی واپس کیا بلکہ ایک موقع پر ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری وصول کرنے کے لیے گورنر ہاؤس جانے سے انکار کر دیا اور ہمیشہ مراعات اور حکومتی وظائف کو اپنے اور اپنے مقصد کے لیے ہلاکت قرار دیا۔ ضمیر نیازی ڈان اور بزنس ریکارڈر سے منسلک رہنے کے بعد عملی صحافت سے کنارہ کش ہوئے اور پھر تحقیقی کاموں اور تصنیف و تالیف میں مصروف ہوگئے۔ انھوں نے اردو صحافت سے آغاز کیا تھا مگر پھر انگریزی اخبار سے جڑ گئے تھے۔ دن اور شام کے متعدد اخبارات سے ضمیر نیازی مختلف حیثیوں سے وابستہ رہے اور اپنے بے باکانہ انداز اور بے لاگ تبصروں اور اداریوں سے صحافت کا حق ادا کیا۔

    ضمیر نیازی کی پہلی کتاب ’’The Press in Chains-1986‘‘ تھی جس کا بعد میں اردو ترجمہ اجمل کمال نے کیا۔ اس میں ضمیر نیازی نے اخبارات کے بارے میں اپنے بے مثل تحقیقی متن کو معروضی انداز میں قلم بند کیا۔ ان کی دوسری کتاب ’’The Press under Siege-1992‘‘ اور اس کے بعد ’’The Web of Censorship-1994‘‘ سامنے آئی۔ ان کے انگریزی مضامین کا اردو ترجمہ بھی کتابی شکل میں شایع ہوچکا ہے۔ 2005ء میں ضمیر نیازی کی آخری کتاب ’’Fettered Freedom‘‘ شایع ہوئی جس میں اُن کے اٹھارہ مضامین شامل تھے۔