Tag: جون برسی

  • ذاکر علی خان: شام چوراسی گھرانے کا استاد گلوکار

    ذاکر علی خان: شام چوراسی گھرانے کا استاد گلوکار

    امتدادِ زمانہ اور تغیر کے زیر اثر جہاں‌‌ ہندوستانی سماج متاثر ہوا، وہیں برصغیر میں فنِ موسیقی اور گائیکی بھی نئی ترنگ، طرز اور ایجاد سے آشنا ہوئی۔ قدیم ساز اور طرزِ‌ گائیکی مٹتا گیا جس کی جگہ موسیقی انداز اور ساز و آلات نے لے لی۔ کلاسیکی موسیقی اور راگ راگنیوں کے سننے اور سمجھنے والے بھی نہ رہے اور ان گھرانوں کی شہرت بھی ماند پڑ گئی جو اس فن کے لیے ہندوستان بھر میں‌ جانے جاتے تھے۔ یہ تذکرہ استاد ذاکر علی خان کا ہے جو شام چوراسی گھرانے کے مشہور گلوکار تھے۔ آج استاد ذاکر علی خان کی برسی ہے۔

    استاد ذاکر علی خان 1945ء میں ضلع جالندھر کے مشہور قصبے شام چوراسی میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ استاد نزاکت علی خان، سلامت علی خان کے چھوٹے بھائی تھے۔ ذاکر علی خان اپنے بڑے بھائی اختر علی خان کی سنگت میں گاتے تھے۔ 1958ء میں جب وہ 13 برس کے تھے تو پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان ملتان پر گائیکی کا مظاہرہ کیا۔ بعدازاں انھیں آل پاکستان میوزک کانفرنس میں مدعو کیا جاتا رہا۔

    پاکستان میں انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے پرفارم اور متعدد میوزک کانفرنسوں اور اہم تقریبات میں مدعو کیے جاتے رہے۔ استاد ذاکر علی خان کو بیرونِ ملک بھی کئی مرتبہ اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا تھا۔ خصوصاً 1965ء میں کلکتہ میں ہونے والی آل انڈیا میوزک کانفرنس میں ان کی پرفارمنس کو یادگار کہا جاتا ہے۔ اس شان دار پرفارمنس پر انھیں ٹائیگر آف بنگال کا خطاب دیا گیا تھا۔ استاد ذاکر علی خان نے ایک کتاب نو رنگِ موسیقی بھی لکھی تھی۔

    کلاسیکی گلوکار استاد ذاکر علی خان 6 جون 2003ء کو انتقال کرگئے تھے۔ وہ لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • اختر حسین جعفری:‌ بیسویں صدی کا غالب

    اختر حسین جعفری:‌ بیسویں صدی کا غالب

    اختر حسین جعفری کو اردو کے بیسویں صدی کا غالب کہا گیا ہے۔ اختر حسین جعفری اُن معدودے چند شعرا میں سے تھے جن کو بحیثیت نظم گو جو شہرت اور مقام ملا، وہ بلاشبہ اس کے حق دار تھے۔

    ’اختر حسین جعفری اپنی روشن خیالی اور انسان دوستی کے حوالے سے آمریت، فسطائیت اور مطلق العنانیت کا غیر مشروط دشمن ہے۔ اسے انسان کی فکر و نظر کی مکمل آزادی بے حد عزیز ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس نے خود کو اپنے اہلِ وطن کی ذہنیتوں کی تہذیب پر مقرر کر رکھا ہے۔’ یہ احمد ندیم قاسمی کے الفاظ ہیں جو جدید اردو نظم کے اس بلند پایہ اور نہایت معتبر شاعر کی فکر و شخصیت کا گہرا اور پُرتاثر خاکہ ذہن کے پردے پر ابھارتے ہیں۔

    اختر حسین جعفری 3 جون 1992ء کو یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ انھوں نے لاہور شہر میں‌ زندگی کے آخری ایام گزارے۔ اختر حسین جعفری کے شعری مجموعہ آئینہ خانہ کو اردو شاعری میں فکری اور فنی پختگی کے ساتھ اپنے حسین لسانی پیکروں کے لیے جدید اردو شاعری کا بیش قیمت سرمایہ کہا جاتا ہے۔ اردو زبان و ادب کے ساتھ غیرملکی ادب میں دل چسپی لینے والے اختر حسین جعفری نے اپنی شاعری میں تازہ فکر اور ندرتِ خیال کا اہتمام کیا۔ ان کی شاعری میں استعارے نہایت خوبی سے اور جا بجا بکھرے ہوئے ہیں جو ان کی شاعری کو سحر انگیز بناتے ہیں۔

    اختر حسین جعفری کا تعلق ضلع ہوشیار پور سے تھا۔ 15 اگست 1932 کو دنیا میں آنکھ کھولنے والے اختر حسین کی ابتدائی تعلیم ان کے ضلع کی درس گاہ سے مکمل ہوئی اور وظیفے کا امتحان پاس کرکے وہ گجرات آگئے۔ یہاں بھی تعلیمی سلسلہ جاری رہا اور عملی زندگی کا آغاز سرکاری ملازمت سے ہوا۔ اسی ملازمت میں ترقی کرتے ہوئے ڈپٹی کلکٹر کا عہدہ حاصل کیا۔

    اختر حسین جعفری نے اپنے تخلیقی سفر میں اردو شاعری کو نئی جہت سے روشناس کروایا اور خوب داد سمیٹی۔ وہ ممتاز نظم گو شاعر شمار کیے گئے۔ اختر حسین جعفری کے شعری مجموعوں میں آئینہ خانہ کے علاوہ جہاں دریا اترتا ہے بھی بہت مقبول ہوا۔ آئینہ خانہ کی اشاعت پر اسے آدم جی ایوارڈ دیا گیا تھا۔ 2002 میں اس شاعر کو صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

    اختر حسین جعفری کا یہ شعر دیکھیے

    اس کی خوش بُو کے تعاقب میں نکل آیا چمن
    جھک گئی سوئے زمیں لمحے کی ڈال اس کے لیے

    یہ نظم ملاحظہ کیجیے

    "آخری پیڑ کب گرے گا”
    زمیں کی یہ قوس جس پہ تو مضطرب کھڑی ہے
    یہ راستہ جس پہ میں ترے انتظار میں ہوں
    زمیں کی اس قوس پر افق پر قطار اندر قطار لمحات کے پرندے
    ہمارے حصے کے سبز پتے سنہری منقار میں لیے جاگتی خلاؤں میں
    اڑ رہے ہیں
    زمیں کی اس قوس پر افق پر ہے نا بسر کردہ زندگی کی وہ فصل جس کا
    ہمیں ہر ایک پیڑ کاٹنا ہے
    یہ چاند جس پر قدم ہے تیرا
    یہ شہد جس پر زباں ہے میری
    یہ سبز لمحے یہ کرمک شب اسی گلستاں کے موسم ابر کے ثمر ہیں
    جہاں ہواؤں کے تیز طوفان منتظر ہیں کہ آخری پیڑ
    کب گرے گا

  • فرانز کافکا:‌ وہ ادیب جسے ایک دوست کی ‘وعدہ خلافی’ نے دنیا بھر میں پہچان دی

    فرانز کافکا:‌ وہ ادیب جسے ایک دوست کی ‘وعدہ خلافی’ نے دنیا بھر میں پہچان دی

    بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں یورپ کے جن اہلِ قلم اور ادیبوں نے اپنے تخلیقی کام کی وجہ سے نام و مرتبہ پایا اور دنیا بھر میں پہچانے گئے، ان میں سے ایک فرانز کافکا بھی ہے کافکا اپنے دور کا ایک نابغہ تھا جسے ستائش کی تمنا تھی اور نہ صلے کی پروا بلکہ وہ اپنی زندگی میں گویا گوشۂ گمنامی میں رہا اور اگر اس کا ایک دوست ‘وعدہ خلافی’ نہ کرتا تو شاید دنیا کافکا کو نہ جان پاتی۔

    فرانز کافکا ایک اعلیٰ‌ پائے کا ادیب تھا۔ اس کی آرزو تھی کہ بعد از مرگ اس کی تحریریں جلا دی جائیں۔ لیکن آج وہ سب تحریریں اُس کے ایک دوست کی وجہ سے عالمی ادب کا خزانہ ہیں۔ جرمنی کے معروف ادیب فرانز کافکا نے اپنے دوست میکس بروڈ کو وصیت کی تھی کہ وہ اس کی غیر مطبوعہ تخلیقات کو نذرِ‌ آتش کر دے، لیکن میکس بروڈ نے کافکا اس کی وصیت پر عمل نہیں کیا۔

    عالمی شہرت یافتہ جرمن افسانہ نگار کی کہانیاں بشمول اردو دنیا کی متعدد زباںوں میں ترجمہ کی گئیں۔ کافکا کے چند ادھورے ناول، افسانے اور اس کے تحریر کردہ خطوط بھی دنیا کے سامنے لائے گئے اور عین جوانی میں دارِ فانی سے کوچ کر جانے والے فرانز کافکا نے جیسے دوبارہ جنم لیا۔ فرانز کافکا کے ناول ’دی ٹرائل‘ اور ’دی کاسل‘ کو قارئین نے بہت سراہا اور ان کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ اس کی تماثیل جرمنی اور دنیا بھر میں مقبول ہیں۔

    تین جون 1924ء کو کافکا چالیس سال کی عمر میں چل بسا تھا۔ کافکا کی پیدائش 1883ء میں چیکوسلاواکیہ کے ایک قصبے پراگ میں ہوئی۔ وہ یہودی گھرانے کا فرد تھا۔ کافکا نے ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ کافکا کا خیال تھا کہ والدین اسے پسند نہیں کرتے۔ وہ اپنی کئی محرومیوں اور مسائل کی وجہ سے خود کو حرماں نصیب اور بدقسمت خیال کرتا تھا۔ کافکا ذہین تھا، مگر خود اعتمادی سے محروم ہوگیا تھا۔ وہ نفیساتی طور پر حساسیت کا شکار ہوکر سب سے گریزاں رہا۔ کافکا نے شادی بھی نہیں‌ کی تھی۔

    قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کافکا نے ایک انشورنس کمپنی میں ملازمت اختیار کرلی۔اس کے ساتھ قانون کی پریکٹس بھی شروع کردی۔ لیکن اسے ہمیشہ محرومی اور کم تر ہونے کا احساس ستاتا رہا۔ اس جرمن ادیب نے ایک مرتبہ خودکشی کی کوشش بھی کی مگر بچ گیا اور پھر اس کے دوست نے اس کو سنبھالا۔ بعد میں کافکا تپِ دق کی بیماری میں‌ مبتلا ہو کر دنیا سے رخصت ہوا۔

    کافکا کی ایک تمثیل ملاحظہ کیجیے جس کے مترجم مقبول ملک ہیں۔

    ایک فلسفی ہمیشہ اسی جگہ کے ارد گرد گھومتا رہتا تھا جہاں بچے کھیلتے تھے۔ وہ جب کبھی بھی یہ دیکھتا کہ کسی بچے کے پاس لٹو ہے، تو وہ جھاڑیوں کے پیچھے تاک لگا کر بیٹھ جاتا۔ جیسے ہی لٹو گھومنے لگتا، فلسفی دوڑ کر جاتا اور اسے پکڑنے کی کوشش کرتا۔

    وہ اس بات کی کوئی پروا نہ کرتا کہ بچے اسے اپنے کھلونے سے دور رکھنے کی کوشش کرتے۔ اگر وہ لٹو کو اپنے حصار میں لینے میں کامیاب ہو جاتا، تو جب تک لٹو گھومتا رہتا، فلسفی بھی خوش رہتا۔ لیکن پھر ایک ہی لمحے میں وہ لٹو کو زمین پر پٹخ دے مارتا اور آگے بڑھ جاتا۔ اسے یقین تھا کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کا علم اور شعور، مثلاً گھومتے ہوئے لٹو کا بھی، عمومی آگہی کے لیے کافی تھا۔ اسی لیے وہ خود کو بڑے مسائل پر غور و فکر میں مصروف نہیں رکھتا تھا۔ ایسا کرنا محنت اور نتائج کے حوالے سے اسے غیر سود مند لگتا۔

    اسے لگتا تھا کہ کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کے چھوٹے پن کا بھی اگر واقعی علم ہو جائے، تو سب کچھ معلوم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے تو وہ خود کو صرف ایک گھومتے ہوئے لٹو کے ساتھ ہی مصروف رکھتا تھا۔

    یہی وجہ تھی کہ ہمیشہ جب کوئی لڑکا لٹو کو گھمانے کی تیاریوں میں مصروف ہوتا، تو اسے امید ہو جاتی کہ اب وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گا۔ اس کے بعد جب لٹو گھومتا تو اپنے اکھڑے ہوئے سانس کے ساتھ وہ جیسے جیسے اس کا پیچھا کرتا، اس کی امید شعور میں بدلتی جاتی۔

    لیکن پھر جیسے ہی وہ لکڑی کے اس فضول سے گول ٹکڑے کو ہاتھ میں لیتا تو اس کا جی متلانے لگتا۔ تب بچوں کی وہ چیخ پکار اور احتجاج بھی، جنہیں وہ تب تک سن نہیں پاتا تھا، اچانک اس کے کانوں کے بہت اندر تک پہنچنے لگتے۔ یہی چیخ پکار اور احتجاج اس کے وہاں سے فرار کا سبب بنتے، اسی طرح گرتے پڑتے، جیسے کسی لڑکے نے گھمانے کے لیے کوئی لٹو بڑے پھوہڑ انداز میں زمین پر پھینک دیا ہو۔

  • ناؤروجی: وہ شخصیت جس نے برطانیہ کی لوٹ مار اور ہندوستانیوں کے استحصال کا پردہ چاک کیا

    ناؤروجی: وہ شخصیت جس نے برطانیہ کی لوٹ مار اور ہندوستانیوں کے استحصال کا پردہ چاک کیا

    دادا بھائی ناؤروجی کو آج ہم فراموش کرچکے ہیں، اور ان کا نام اور برطانوی راج میں ہندوستان کے عوام سے متعلق ان کی فکر اور دردمندی کا ذکر صرف کتابوں تک محدود ہے، مگر برطانیہ میں انھیں سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک قابلِ ذکر شخصیت سمجھا جاتا ہے اور ان کا نام عزّت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔

    آج دادا بھائی ناؤروجی کا یومِ وفات ہے۔ وہ برطانوی راج میں‌ متحدہ ہندوستان کے ایک دور اندیش اور زیرک سیاست داں ہی نہیں عوام کے بڑے خیر خواہ اور سماجی کارکن کی حیثیت سے نہایت عزّت اور احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ناؤروجی وہ پہلے ہندوستانی تھے جنھوں نے اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ تجارت کی آڑ میں‌ برطانیہ لوٹ مار اور ہندوستان کے عوام کا استحصال کر رہا ہے۔

    دادا بھائی ناؤروجی پارسی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ لبرل پارٹی سے وابستہ تھے اور انیسویں صدی میں برطانیہ میں ان کی وجہِ شہرت ہندوستان کے عوام کے ایک وکیل کے طور پر بہت زیادہ تھی۔ دادا بھائی لندن یونیورسٹی کالج میں گجراتی زبان کے استاد، ایک دانش ور کے علاوہ برطانیہ میں انڈیا کے پہلے فعال سیاست دان رہے۔ برطانیہ میں ان کو سیاسی اور سماجی شخصیت کے طور پر سوسائٹی میں بہت احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ جب دادا بھائی ناؤروجی نے 1892ء میں لبرل پارٹی کے ٹکٹ پر سینٹرل فنس بری اسکاٹ لینڈ سے انتخاب لڑنے کا اعلان کیا تو لارڈ سالسبری سے ایک حماقت سرزد ہو گئی۔ لارڈ سالسبری تین مرتبہ کنزرویٹو پارٹی کی طرف سے برطانیہ کا وزیر اعظم منتخب ہوا اور ایک ممتاز سیاست دان تھا۔ لارڈ سالسبری نے ایڈنبرا میں ایک اجتماع میں کہا کہ انسانیت نے بلندی کی کئی منازل طے کر لی ہیں اور برطانوی سیاست بھی بڑی حد تک تعصبات سے آزاد ہو چکی ہے مگر ایسا بھی نہیں کہ ہم ایک سیاہ فام بھارتی کو برطانوی پارلیمنٹ کا ممبر منتخب کر لیں۔ سالسبری کو رنگ و نسل کے اس عصب پر شدید ردّعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ ناؤروجی کو برطانوی پارلیمنٹ میں پہلے انڈین رکن منتخب کیا گیا۔ وہ دیکھتے دیکھتے انڈیا میں ایک ہیرو بن گئے۔

    دادا بھائی ناؤروجی ستمبر 1825ء کو بمبئی کے ایک غریب پارسی گھرانے میں پیدا ہوئے اور اسی شہر میں 30 جون 1917ء کو وفات پائی۔ ناؤروجی نے اپنے زمانے میں مفت ابتدائی تعلیم کے ایک منصوبے سے فائدہ اٹھایا اور اپنی قابلیت اور ذہانت کی بدولت آگے بڑھتے چلے گئے۔ وہ ایک ایمان دار اور نیک صفت انسان ہی نہیں باشعور بھی تھے اور غربت و مالی تنگی نے انھیں زیادہ حسّاس بنا دیا تھا۔ ناؤروجی نے مفت تعلیم کو خود پر قرض تصوّر کیا اور سوچ لیا کہ آگے چل کر تعلیم سمیت ہر شعبے میں عوامی خدمت کا راستہ اپنائیں گے۔ انھوں نے نسل پرستی اور ہر قسم کے امتیازی سلوک کی مخالفت کرتے ہوئے ہندوستان میں سامراجی نظام کو چیلنج کیا۔

    دادا بھائی ناؤروجی نوجوانی ہی سے عوام میں ان کے حقوق کے لیے شعور اور آگاہی پھیلانے کے ساتھ فلاحی کاموں میں مشغول ہوگئے۔ 1840ء کی دہائی کے آخر میں انھوں نے لڑکیوں کے لیے اسکول کھولے تو ہندوستان کا قدامت پسند طبقہ ان کے خلاف ہوگیا، لیکن انھوں نے اس کی پروا نہ کی۔ ان کی اسی ثابت قدمی اور خلوص کا نتیجہ تھا کہ بڑی تعداد میں طالبات اسکول آنے لگیں۔ ناؤروجی کا شمار ان مثالی ہندوستانیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اس زمانے میں صنفی مساوات پر بات کی اور کہا کہ دنیا میں عورت کو بھی مردوں کی طرح تمام حقوق حاصل ہیں اور وہ ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کرنے کا حق رکھتی ہیں۔ انھوں نے برطانیہ میں بھی عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی اور وہاں بھی باشعور لوگوں نے ان کی حمایت کی۔

    1901ء میں دادا بھائی ناؤروجی کی کتاب Poverty and Un-British Rule in India شایع ہوئی جس نے برطانوی سیاست دانوں اور افسر شاہی کو گویا مشتعل کردیا، انھوں نے اس کتاب میں تفصیلی وضاحت دی کہ نوآبادیاتی نظام میں کیسے ہندوستان کی دولت کو برطانیہ منتقل کیا جارہا ہے جب کہ ہندوستان میں غربت پنپ رہی ہے۔

    1855ء میں ناؤروجی پہلی مرتبہ برطانیہ گئے تھے جہاں ہر طبقہ کی خوش حالی دیکھنے کے بعد ہندوستانی عوام کے حالات پر غور کیا اور اس کے اسباب جاننے کی کوشش کی۔ اس کے لیے معاشی جائزہ لیتے ہوئے انھوں نے تجزیہ کرکے بتایا کہ برطانیہ ہندوستانیوں سے مخلص نہیں اور انھیں قحط کے عفریت اور دیگر مسائل کے ساتھ غربت کی چکّی میں‌ جھونک رہا ہے جس پر برطانیہ کی جانب سے انھیں‌ باغی اور سرکش کہہ کر رد کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن ان کی یہ بات خاص و عام تک پہنچی اور لوگوں نے ناؤروجی کی حمایت کی۔ ناؤروجی نے محنت کش طبقے کا ساتھ دیا، تعلیم اور دیگر شعبوں سمیت انتخابات میں عورتوں‌ کے حقِ رائے دہندگی کے لیے آواز اٹھائی اور ہندوستان میں فوری طور پر مثالی اور عوام دوست اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا جس پر برطانیہ کے سنجیدہ طبقات ان کے طرف دار ہوئے اور سیاسی میدان میں ان کی طاقت میں اضافہ ہوا۔ تاہم دادا بھائی ناؤروجی نے اشرافیہ اور بالخصوص تخت اور اس کے وفاداروں کو مشتعل کردیا تھا۔ وہ انھیں اپنا دشمن سمجھنے لگے تھے اور برطانوی سیاست داں ان کے لیے تحقیر آمیز الفاظ استعمال کرتے تھے۔ جب ناؤروجی پارلیمان کے رکن کا انتخاب لڑ رہے تھے تو یہ مخالفت اور پروپیگنڈا زور پکڑ گیا، لیکن 1892ء میں اس تمام مخالفت کے باوجود ناؤروجی لندن میں پارلیمان کے رکن منتخب ہوگئے۔ ایک موقع پر دادا بھائی ناؤروجی نے ایوان میں اپنا نظریہ اور مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ برطانوی طرزِ حکم رانی سفاکانہ ہے جس میں‌ ان کے ہم وطنوں کا استحصال اور انھیں‌ بنیادی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے۔ اس کے بعد ناؤروجی 1895ء میں دوبارہ انتخابی میدان میں‌ اترے، مگر انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

    ناؤروجی ایک ایسے راہ نما تھے جس نے اپنے سیاسی اور سماجی خدمت کے سفر میں‌ کئی بار نامساعد حالات، اپنوں کی مخالفت اور سخت رویّے کا بھی سامنا کیا، لیکن کسی بھی موقع پر گھبرا کر اپنا راستہ نہیں بدلا۔ انھیں ایک رجائیت پسند اور باہمّت شخص کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

  • جاذب قریشی: معروف شاعر، نقاد اور کالم نگار

    جاذب قریشی: معروف شاعر، نقاد اور کالم نگار

    معروف شاعر جاذب قریشی 21 جون 2021ء کو انتقال کرگئے تھے۔ انھوں نے تحقیقی اور تنقیدی کام بھی کیا اور تدریس و ادبی صحافت سے وابستہ رہے۔ آج جاذب قریشی کی برسی ہے۔

    جاذب قریشی کا آبائی شہر لکھنئو تھا۔ لیکن جاذب صاحب نے کلکتہ میں آنکھ کھولی تھی۔ وہ 3 اگست 1940ء کو پیدا ہوئے۔ جاذب قریشی کا اصل نام محمد صابر تھا۔ والد کا انتقال ہوا تو اس کنبے کو معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور بھائی کے ساتھ کم عمری میں جاذب صاحب محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہوگئے۔ انھوں نے لوہے کی ڈھلائی کا کام کیا اور سخت مشقت اور بھٹی کی تپش کو برداشت کرتے ہوئے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا۔ تقسیم سے قبل ہی شاعری کا شوق ہوگیا تھا اور لکھنؤ میں منعقد ہونے والے مشاعرہ سننے جانے لگے تھے۔ جاذب قریشی قیامِ پاکستان کے بعد لاہور ہجرت کر گئے اور بعد میں کراچی منتقل ہوگئے۔ یہاں جامعہ کراچی سے تعلیم حاصل کی اور اپنی محنت کی بدولت شعبۂ تدریس اور ادبی صحافت میں جگہ بنائی۔ شادی کی اور اپنے کنبے کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ انھیں فلم سازی کا بھی شوق تھا اور ایک فلم بھی بنائی تھی جو ناکام ہوگئی۔ مشکل وقت دیکھنے والے جاذب قریشی ملک اور بیرونِ ملک مشاعروں میں شرکت کرتے رہے اور کئی ادبی محافل کے منتظم بھی رہے۔ انھو‌ں نے کالم نگاری بھی کی۔تاہم ان کی بنیادی شناخت بطور شاعر ہی قائم رہی۔ ’’شناسائی‘‘، ’’نیند کا ریشم‘‘،’’شیشے کا درخت‘‘،’’عکس شکستہ‘‘، ’’آشوبِ جاں ‘‘،’’عقیدتیں (حمدیں، نعتیں ،منقبت)‘‘، ’’جھرنے (نغمے، گیت)‘‘، ’’اجلی آوازیں (ہائیکو)‘‘ اور ’’لہو کی پوشاک‘‘ اُن کے شعری مجموعے ہیں۔

    جاذب قریشی نے اپنی شاعری کو جدید طرزِ احساس سے آراستہ کیا اور وہ خود اپنے ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں ’’تخلیقی اور عملی تجربے اگر رک جائیں تو فرسودگی اور پرانا پن سچے ادب کو اور آسودہ زندگی کو چاٹ جاتا ہے۔‘‘ نئے استعارات، جدید تلازمات اور نامانوس لفظیات کے سبب انھیں مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ سلیم احمد نے اُن کی شاعری کو ’’آئینہ سازی کا عمل‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’ یہ آئینہ جاذب کے ہنر کا المیہ بھی ہے اور طربیہ بھی۔‘‘ اسی طرح حسین مجروح کہتے ہیں کہ ’’ہیئت سے حسیت اور اظہار سے موضوع تک، جاذب قریشی کی شاعری نئی لفظیات اور تشکیلات کی شاعری ہے۔ جاذب قریشی کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے

    جب بھی آتا ہے وہ میرے دھیان میں
    پھول رکھ جاتا ہے روشن دان میں

    سنہری دھوپ کا ٹکڑا ہوں لیکن
    ترے سائے میں چلنا چاہتا ہوں

    مرے وجود کے خوشبو نگار صحرا میں
    وہ مل گئے ہیں تو مل کر بچھڑ بھی سکتے ہیں

  • گلزار دہلوی:‌ اردو زبان کے شیدائی اور دہلوی تہذیب کے شاعر کا تذکرہ

    گلزار دہلوی:‌ اردو زبان کے شیدائی اور دہلوی تہذیب کے شاعر کا تذکرہ

    گلزار دہلوی ہندوستان میں اردو زبان و تہذیب کے نمائندہ شاعر اور ان کی شخصیت دہلوی تہذیب کا بے مثال نمونہ تھی۔ گلزار دہلوی ہر مکتبِ‌ فکر اور طبقہ ہائے عوام میں اپنی فراخ دلی اور بے مثال رواداری کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔ ان کا نام بھی گنگا جمنی تہذیب کی عکاسی کرتا ہے کہ خود کو ڈاکٹر پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی نظامی لکھا کرتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ انھیں ہندوستان میں مجاہدِ اردو، شاعرِ قوم، اور بلبلِ دلّی کے خطاب و القاب دیے گئے۔

    اس ہمہ صفت اور باکمال شاعر نے ہندوستان میں اردو کے سچّے عاشق اور اس زبان کے زبردست حامی کے طور پر اردو کا مقدمہ لڑتے ہوئے عمر گزار دی۔ گلزار دہلوی نے بھارت میں اردو کو اس کا مقام اور جائز حق دلانے کے لیے پُرخلوص کوششیں کیں۔

    پنڈت آنند موہن زتشی کا قلمی نام گلزار دہلوی تھا۔ وہ نسلاً کشمیری تھے۔ وہ 7 جولائی سنہ 1926ء کو پیدا ہوئے اور 1942ء میں ان کے شعر و سخن کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ تا دم مرگ جاری رہا۔ گلزار دہلوی کو دنیا بھر میں مشاعروں میں مدعو کیا جاتا تھا۔ وہ بھارت ہی نہیں پاکستان میں بھی ادبی حلقوں میں مشہور تھے۔ گلزار دہلوی کو متعدد جامعات نے تمغہ جات اور ادبی اعزازات سے نوازا اور ان میں پاکستان کی جانب سے نشانِ امتیاز بھی شامل ہے۔ جب کہ غالب ایوارڈ، اندرا گاندھی میموریل قومی ایوارڈ کے علاوہ بھارت میں گلزار دہلوی کو اردو زبان و ادب کی خدمت اور ثقافت کے فروغ کے لیے کوششوں پر مختلف تنظیموں کی جانب سے اعزازات دیے گئے۔

    گلزار دہلوی نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ نوعمری ہی میں شعر کہنے لگے تھے اور اپنا کلام اپنے والد حضرت زار دہلوی کو دکھایا کرتے تھے جو دہلی کے ایک کالج میں برس ہا برس تک اردو اور فارسی کے استاد رہے تھے۔

    مشہور ہے کہ 1936ء میں جب انجمن ترقیٔ اردو ہند کے لیے کل ہند کانفرنس دہلی میں منعقد ہوئی تو اس کا افتتاح گلزار دہلوی کی نظم سے ہوا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد بھی گلزار دہلوی کی شاعری کے معترف تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ گلزار دہلوی ایک شاعر اور ادب سے وابستہ ہونے کے باوجود سائنس سے بھی شغف رکھتے تھے۔ اور یہ امر اکثر قارئین کے لیے تعجب خیز ہو کہ وہ ایک سائنسی رسالے کے مدیر بھی رہے۔ انھیں "کونسل آف سائنٹفک انڈسٹریل ریسرچ سنٹر” کا ڈائریکٹر بھی مقرر کیا گیا تھا۔ اسی ادارے کے تحت گلزار دہلوی نے "سائنس کی دنیا” نامی اردو رسالہ جاری کیا۔

    اردو کے قادرالکلام شاعر جوش ملیح آبادی نے گلزار دہلوی کے متعلق کہا تھا:
    میاں گلزار میرے محترم بزرگ حضرت زار دہلوی کے قابلِ ناز فرزند اور نہایت ہونہار شاعر ہیں۔ ان کی جو روش سب سے زیادہ مجھ کو پسند ہے وہ ان کی اردو سے والہانہ شگفتگی اور مردانہ وار تبلیغ ہے۔ اسی طرح جگر مرادآبادی نے گلزار دہلوی کے بارے میں لکھا تھا: پنڈت آنند موہن زتشی گلزار ایک خاندانی و موروثی شاعر ہیں، اہلِ زبان ہیں، دلّی کی ٹکسالی زبان بولتے ہیں۔ انہیں ہر صنفِ سخن پر قدرت حاصل ہے۔ غزل، نظم، رباعی، قطعہ، نعت و منقبت ہر میدان میں انہوں نے دادِ سخن سمیٹی ہے۔ وہ اردو کے مجاہد ہیں، برصغیر ہند و پاک میں ہر جگہ مقبول ہیں۔ اللہ نے انہیں ایک درد مند اور انصاف پسند دل بھی عطا کیا ہے۔ میں نے انہیں ہر صحبت میں مہذب، نیک انسان، روادار اور عاشقِ رسول پایا ہے۔ اردو پر تو ان کی رباعیاں بے مثال ہیں۔ گلزار صاحب نہ صرف ایک کام یاب اور مقبول غزل گو شاعر ہیں بلکہ اعلیٰ انسانی قدروں اور اردو کی ہچکولے کھاتی نیا کے محافظ بھی ہیں۔

    گلزار صاحب کے پاکستان کے دورے کے متعلق اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے کہا تھا: گلزار صاحب کراچی کیا آئے گویا بہار آ گئی کہ دلّی کی اردو سراپا ہو کر ان کی صورت میں کراچی کی ادبی محفلوں میں چھا گئی۔ کراچی والے ان کی زبان دانی اور قدرتِ بیان پر حیران بھی تھے اور داد و تحسین بھی کر رہے تھے۔

    گلزار دہلوی کا ایک مشہور قطعہ ہے:
    دونوں کی رگ و پے میں خون اپنا ہی جاری ہے
    اردو بھی ہماری ہے، ہندی بھی ہماری ہے
    اردو سے مگر غفلت کس واسطے ہے ہمدم
    تہذیب کی ضامن یہ خسرو کی دلاری ہے

    گلزار دہلوی کے پورے وجود سے پرانی دلّی کی تہذیب مترشح ہوتی تھی۔ رہن سہن، وضع قطع اور بولی سب کچھ ’بزبانِ دلّی‘ تھا۔ ان کے آبا و اجداد میں سنسکرت، عربی، فارسی اور انگریزی کے معلّم اور مصنّف بھی گزرے تھے۔ ددھیال و ننھیال دونوں طرف شعرا ادبا تھے۔ ماموں پنڈت گردھاری لعل کول صاحب دیوان شاعر تھے۔ والد پنڈت تربھون ناتھ زتشی المتخلّص بہ زار دہلوی، داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ والدہ کو بھی شاعری سے شغف تھا۔ بھائی بھی شاعر تھے۔ گویا اطراف و جوانب میں سخن ور ہی سخن ور تھے۔ گلزار دہلوی نے مختلف رنگ و آہنگ کے شعرا سے اکتسابِ ہنر کر کے اپنے فن کو رنگا رنگ کیا۔ گلستاں، بوستاں، انوار سہیلی، اخلاق محسنی جیسی اہم اساسی کتابیں انھیں والدہ نے پڑھائی تھیں۔ پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی سے زبان و بیان کے رموز و نکات اور انقلابی و قومی نظمیں لکھنا سیکھا۔ نواب سراج الدین احمد خاں سائل سے اسلامی تصوف اور دینیات کی آگہی کے ساتھ ساتھ دلّی کے شعری تہذیب و تمدّن کا انجذاب کیا اور پھر ہر صنف میں‌ اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کیا۔

    گلزار صاحب 12 جون 2020ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔ بھارتی حکومت نے انھیں پدم شری ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔

  • سنتوش کمار:‌ مردارنہ وجاہت اور شستہ لب و لہجہ اس اداکار کی وجہِ شہرت تھا!

    سنتوش کمار:‌ مردارنہ وجاہت اور شستہ لب و لہجہ اس اداکار کی وجہِ شہرت تھا!

    مردانہ وجاہت کا نمونہ، نفیس شخصیت کے مالک اور شستہ زبان کے حامل سنتوش کمار نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں رومانوی ہیرو کے روپ میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑے۔ وہ تقسیمِ ہند سے قبل ہی فلمی دنیا میں قدم رکھ چکے تھے اور اپنی پُرکشش شخصیت کی وجہ سے مقبول تھے۔

    اس اداکار کا اصل نام موسیٰ رضا تھا اور فلمی دنیا میں سنتوش کے نام سے شہرت پائی۔ اس بارے میں معروف صحافی اور کالم نگار مسعود اشعر 1982 کے روزنامہ امروز میں لکھتے ہیں:
    ’اس زمانے میں مسلمان اداکار اپنا اصلی نام ظاہر کرنا معیوب خیال کرتے تھے۔ اشوک کمار اور دلیپ کمار اتنے مشہور ہو چکے تھے کہ ان کے نام پر اپنا فلمی نام رکھنا لوگ اپنی عزت اور نیک شگون سمجھتے تھے۔ موسیٰ رضا نے ممبئی کی فلمی زندگی میں اس روایت کے زیرِ اثر اپنا نام سنتوش کمار رکھ لیا۔

    اداکار سنتوش کی پہلی پاکستانی فلم بیلی (1950) تھی۔ آخری مرتبہ وہ فلم آنگن (1982) میں اسکرین پر جلوہ گر ہوئے۔ سنتوش کمار کے ساتھ ایک اور نام بالخصوص پچھلی نسل کے حافظے میں محفوظ ہے اور وہ ہے صبیحہ خانم کا جو پاکستانی فلم انڈسٹری کی ایک کام یاب ہیروئن اور اپنے وقت کی مشہور اداکارہ تھیں۔ ان سے سنتوش کمار نے دوسری شادی کی تھی۔

    سنتوش کمار کا تعلق لاہور کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا۔ ان کا اصل نام سیّد موسیٰ رضا تھا۔ 25 دسمبر 1926ء کو پیدا ہونے والے سنتوش کمار کے والد کاروباری شخصیت تھے۔ وہ تقسیم سے قبل اپنے خاندان کے ساتھ حیدرآباد دکن منتقل ہوگئے تھے۔ موسیٰ رضا نے عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن سے گریجویشن کیا۔ مقابلے کا امتحان پاس کرکے تحصیل دار کے عہدے کے لیے بھی منتخب ہوگئے تھے، مگر نوکری کے بجائے فلمی دنیا سے وابستگی اختیار کی۔

    سنتوش کمار نے بمبئی کی فلمی صنعت کے لیے دو فلموں ’’اہنسا‘‘ اور ’’میری کہانی‘‘ میں کردار نبھائے۔ پاکستان ہجرت کر کے آنے کے بعد مسعود پرویز کی فلم ’’بیلی‘‘ سے اپنا کیریئر یہاں شروع کیا۔ سعادت حسن منٹو کی کہانی پر بنائی گئی اس فلم میں صبیحہ نے سائیڈ ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ ’’بیلی’’ کام یاب فلم نہیں تھی، لیکن اس کے بعد ’’دو آنسو‘‘ اور ’’چن وے‘‘ نے سنتوش کمار کے کیریئر کو بڑا سہارا دیا۔ اس سفر میں آگے بڑھتے ہوئے سنتوش نے شہری بابو، غلام، قاتل، انتقام، سرفروش، عشق لیلیٰ، حمیدہ، سات لاکھ، وعدہ، سوال، مکھڑا اور موسیقار جیسی فلموں‌ میں‌ کام کر کے خود کو بڑا اداکار ثابت کیا۔

    شادی سے پہلے سنتوش اور صبیحہ خانم نے اکٹھے فلموں‌ میں‌ کام کیا تھا، اور پھر ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا۔ پردۂ سیمیں پر اپنی بہترین پرفارمنس سے شائقین کو اپنا مداح بنانے والے ان فن کاروں کی حقیقی زندگی بھی مثالی اور قابلِ رشک ثابت ہوئی۔ صبیحہ اور سنتوش نے دو دہائیوں تک پاکستانی فلموں پر راج کیا۔ سنتوش کمار نے اپنے دور کی مشہور اداکاراؤں کے ساتھ یادگار کردار ادا کیے۔ ان میں سورن لتا، شمیم آرا، شمی، مسرت نذیر، آشا بھوسلے، مینا شوری، اور راگنی شامل ہیں جن کے ساتھ سنتوش کی درجنوں رومانوی فلموں نے شائقین کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔

    اداکار سنتوش کمار کی یادگار فلموں میں دامن، کنیز، دیور بھابی، تصویر، شام ڈھلے، انجمن، نائلہ، چنگاری، لوری، گھونگھٹ اور پاک دامن شامل ہیں۔ مجموعی طور پر 92 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے سنتوش کمار نے بہترین اداکاری پر تین نگار ایوارڈ بھی حاصل کیے۔ 1978ء میں سنتوش نے آج ہی کے دن یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

    اداکار سنتوش کمار لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔

  • چارلس ڈکنز کا تذکرہ جن کے قلم کی طاقت اور اسلوب کی جادوگری مشہور ہے!

    چارلس ڈکنز کا تذکرہ جن کے قلم کی طاقت اور اسلوب کی جادوگری مشہور ہے!

    یہ چارلس ڈکنز کے قلم کی خوبی تھی کہ اُس کی کہانیوں کو کلاسیک کا درجہ حاصل ہوا اور وہ اپنے سماج کا آئینہ قرار پائیں۔ اسی وصف کی بناء پر چارلس ڈکنز کو برطانوی معاشرے کا نبّاض بھی کہا گیا ہے۔

    ڈکنز اُن ناول نگاروں میں‌ شامل ہیں جو اپنے قلم کی طاقت اور تخلیقی صلاحیتوں سے کام لے کر سماجی برائیوں، اپنے عہد میں ریاست کے نظام کی خامیوں اور مسائل کو اجاگر کرتے رہے اور فرسودہ نظام کو بدلنے میں کردار ادا کیا۔ چارلس ڈکنز کے ناولوں اولیور ٹوئسٹ، ڈیوڈ کاپر فیلڈ، اے ٹیل آف ٹو سٹیز کو برطانوی ادب میں کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ اس نے بچّوں کے لیے کئی دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں لکھیں جو دنیا بھر میں مشہور ہیں اور مزے کی بات یہ کہ ان کہانیوں کو بچے ہی نہیں ہر عمر کے لوگ شوق سے پڑھتے ہیں۔ یہی ڈکنز کے اسلوب کا کمال ہے۔

    1870ء میں آج ہی کے دن چارلس ڈکنز چل بسے تھے۔ وہ ایک ناول نگار، مدیر، صحافی اور مصنّف تھا اور ایک صاحبِ بصیرت شخصیت کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ڈکنز نے اپنی نگارشات میں وکٹورین عہد کی مکمل تصویر پیش کی ہے جو بعد میں معاشرتی سطح پر تبدیلی لانے میں مددگار ثابت ہوئی۔

    7 فروری 1812ء کو چارلس ڈکنز نے انگلینڈ کے جنوبی ساحل پر واقع پورٹس ماؤتھ کے ایک گھر میں آنکھ کھولی۔ وہ اپنے والدین کی آٹھ اولادوں میں‌ سے دوسری اولاد تھی۔ اس کے والد جان ڈکنز بحریہ میں ایک کلرک تھے جب کہ والدہ الزبیتھ بیرو شعبۂ تدریس سے منسلک تھیں۔ 1822ء میں ڈکنز کا خاندان لندن کے ایک نچلے طبقہ کے رہائشیوں کے محلّے میں‌ منتقل ہوگیا تھا۔ اس گھرانے کے مالی حالات وقت کے ساتھ خراب ہوچکے تھے۔ اس کے والد مقروض تھے اور انھیں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں انھیں جیل جانا پڑا۔ بدحالی، تنگ دستی اور والد کی قید دیکھتے ہوئے چارلس ڈکنز بڑے ہوئے۔ ان حالات نے انھیں غور و فکر کے عادی بنا دیا تھا۔ جب والد کو جیل ہوئی تو چارلس ڈکنز کی عمر 12 سال تھی۔ ان کے جیل جانے کے بعد ڈکنز کو دریائے ٹیمز کے ساتھ قائم جوتے رنگنے والی فیکٹری میں نوکری کرنا پڑی اور اس کے لیے اسکول چھوڑنا پڑ گیا۔ فیکٹری میں کام کرتے ہوئے چارلس ڈکنز نے جبر اور استحصال کی کئی شکلیں دیکھیں اور ان کا شکار بھی ہوئے۔ ان کی زندگی کے یہ ادوار اور ان کے تجربے ان کی تخلیق ’’اولیور ٹوئسٹ‘‘ اور مزدور بچّوں کے جذبات ’’ڈیوڈ کاپر فیلڈ ‘‘ میں اور امارت و غربت کی کشمکش ’’اے کرسمن کیرول‘‘ میں نظر آتی ہے۔ بعد میں‌ چارلس کے والد نے خاندانی جائیداد بیچ کر اپنے سارے قرض ادا کر دیے اور چارلس کو اسکول بھیجنا شروع کر دیا۔ لیکن 15 سال کے ہوئے تو حالات کی ستم ظریفی نے ایک بار پھر اسکول سے نکال کر ایک دفتر میں آفس بوائے کی حیثیت سے کام پر مجبور کردیا۔ لیکن یہی ملازمت ان کے کیریئر کا اہم موڑ ثابت ہوئی اور یہیں سے چارلس کے لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

    ادبی دنیا میں چارلس ڈکنز کی اہمیت اور مرتبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی نگارشات کا ترجمہ تقریباً ہر زبان میں ہوچکا ہے اور انیسویں صدی کا بااثر ادیب گردانا جاتا ہے۔ چارلس ڈکنز نے 170 برس پہلے جن کرداروں سے ہمیں متعارف کروایا تھا وہ آج بھی معاشروں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

    کلیئر ٹامالین نے چارلس ڈکنز کی سوانح عمری تحریر کی جس میں اس نے لکھا کہ چارلس ڈکنز کی معاشرتی تصویر کشی آج بھی ان کی سوچ کے عین مطابق ہے، وہی امیر غریب میں پایا جانے والا فرق، بدعنوان سرکاری ملازم، سیاسی ریشہ دوانیاں، اور اسی نوع کی دیگر سماجی برائیاں آج کے دور میں بھی عام ہیں۔ چارلس ڈکنز نے اسی کی نشان دہی کی اور اپنی تحریروں میں اچھے بُرے لوگوں اور ان کے سچ جھوٹ کے ساتھ اُس تضاد کو نمایاں کیا جو معاشرے کو برباد کر رہا تھا۔

    رچرڈ ڈبلیو لونگ نے ایک طویل مضمون ’’انگلینڈ اور چارلس ڈکنز‘‘ کے عنوان سے لکھا اور ڈکنز کے ناولوں میں انگلینڈ اور لوگوں کے مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے’’ڈاکٹر خود فیکٹری میں کام کرتا رہا، کلرکی کی، عدالت میں رپورٹر رہا، اخبار میں کام کیا، ہوٹلوں میں مزدوری کی، اسے چائلڈ لیبر اور بچوں کو درپیش مسائل اور زیادتیوں کا ذاتی تجربہ تھا چنانچہ اس نے اپنے ناولوں میں کھل کر اس کے خلاف آواز اٹھائی اور (Reform Laws) کے لیے راستہ ہموار کیا‘‘۔

  • جمیل فخری:‌ فن کی دنیا کا ایک باوقار نام

    جمیل فخری:‌ فن کی دنیا کا ایک باوقار نام

    پاکستان میں ٹیلی ویژن کے کئی اداکاروں کو ان کے فنی سفر کے ابتدا میں ہی وہ کردار ملے جن کی بدولت انھوں نے راتوں رات شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں کو چُھو لیا، لیکن وہ زیادہ عرصہ اس کام یابی کو برقرار نہ رکھ سکے، جب کہ کچھ ایسے فن کار بھی ہیں کہ اپنی شہرت کو آخری دَم تک نہ صرف قائم رکھا بلکہ فن کی دنیا میں لازوال پہچان بنائی۔ ان میں ایک نام اداکار جمیل فخری کا بھی ہے جنھوں نے ہر کردار کو بخوبی نبھایا اور اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا۔

    1970ء میں اداکاری کا آغاز کرنے والے جمیل فخری کو پولیس کی وردی میں جعفر حسین کا کردار نبھاتے ہوئے دیکھنے والے کبھی فراموش نہیں کرے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کی لازوال سیریز ’اندھیرا اجالا‘ کا یہ مقبول کردار ہمارے ذہنوں پر نقش ہے۔ جمیل فخری 9 جون 2011ء کو انتقال کر گئے تھے۔

    جمیل فخری نے کمر عمری میں تھیٹر ڈرامے سے اداکاری کا آغاز کیا تھا اور ستّر کی دہائی میں وہ ٹیلی ویژن پر نظر آئے۔ جمیل فخری نے اپنے طویل کریئر میں مزاحیہ، سنجیدہ اور منفی کردار بھی ادا کیے اور ہر رنگ میں اپنا منفرد انداز برقرار رکھا جمیل فخری کو اطہر شاہ خان نے ’اندر آنا منع ہے‘ نامی اسٹیج ڈرامے میں متعارف کرایا تھا جس کے بعد انھوں نے اسٹیج اور پھر ٹی وی کے کئی ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ جعفر حسین کے پولیس انسپکٹر کے کردار میں جمیل فخری نے ملک گیر شہرت ہی نہیں پائی بلکہ ان کا یہ کردار لازوال ثابت ہوا۔

    یہ اس دور کی بات ہے جب چھوٹی اسکرین پاکستان بھر میں ناظرین کی تفریح کا واحد ذریعہ ہوتی تھی اور اندھیرا اجالا سماجی مسائل اور جرم و سزا پر ایک ایسی ڈرامہ تھا جو نشر ہوتا تو گویا ہر سڑک اور ہر گلی سنسان ہو جاتی۔ ناظرین ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھ جاتے تھے۔ اس ڈرامے کے دیگر مرکزی کرداروں میں‌ منجھے ہوئے اداکار قوی خان اور عرفان کھوسٹ شامل تھے۔ پولیس انسپکٹر کے روپ میں جمیل فخری کا مخصوص لہجہ اس قدر مقبول تھا کہ لوگ ان کے انداز کی نقل کرتے اور ان کے ادا کردہ مکالمے بھی سب کی زبان پر ہوتے تھے۔

    جمیل فخری نے تیس سے زائد پاکستانی فلموں میں بھی کام کیا۔ اگرچہ ان میں کوئی مرکزی کردار شامل نہیں ہے، لیکن انھوں نے اپنے ہر کردار کو بخوبی نبھایا اور اس کا گہرا تأثر فلم بینوں پر چھوڑا۔ اداکار جمیل فخری نے کئی اسٹیج شوز میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے، لیکن پھر خود کو پی ٹی وی کے ڈراموں تک محدود کرلیا۔ دلدل، تانے بانے، وارث، بندھن، ایک محبت سو افسانے وہ ڈرامے تھے جن میں جمیل فخری نے بے مثال اداکاری کی۔

    اداکار جمیل فخری ذیابیطس اور بلڈ پریشر کے مریض تھے۔ جمیل فخری کے انتقال سے چند ماہ قبل امریکا میں اپنے بڑے بیٹے کو قتل کردیا گیا تھا جس کے بعد وہ نہایت غم زدہ اور پریشان رہنے لگے تھے۔ ایک باپ کی حیثیت سے یہ وہ صدمہ تھا جسے سہنا ان کے لیے یقیناً‌ آسان نہیں‌ تھا۔ ان کے احباب کے مطابق بیٹے کی یوں الم ناک موت نے انھیں توڑ کر رکھ دیا تھا اور وہ بھی زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکے۔

    معروف اداکار جمیل فخری کو لاہور کے ایک قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • یومِ‌ وفات:‌ اسد بھوپالی کے تحریر کردہ نغمات سپر ہٹ ثابت ہوئے

    یومِ‌ وفات:‌ اسد بھوپالی کے تحریر کردہ نغمات سپر ہٹ ثابت ہوئے

    فلم ’’میں نے پیار کیا‘‘ کے دو شوخ گیت کو ایک نسل کا ایسا رومانس کہا جاسکتا ہے، جو سرحد کے دونوں‌ اطراف بستی تھی۔ بولی وڈ کی اس فلم کے گیتوں کو بھارت ہی نہیں پاکستان میں بھی زبردست مقبولیت ملی۔ باکس آفس پر دھوم مچا دینے والی یہ فلم 1998ء میں‌ ریلیز ہوئی تھی اور اس کے مقبول ترین گیت اسد بھوپالی کے لکھے ہوئے تھے۔

    آج بھارتی گیت نگار اسد بھوپالی کی برسی ہے۔ وہ 1990ء میں‌ انتقال کر گئے تھے۔ فلم کے ہیرو سلمان خان اور ہیروئن بھاگیا شری تھیں۔ اسد بھوپالی کے لکھے ہوئے گیتوں کے بول تھے، ’’دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ‘‘ اور ’’کبوتر جا جا جا…‘‘

    اسد بھوپالی 10 جولائی 1921ء کو پیدا ہوئے۔ اپنی جائے ولادت بھوپال کی نسبت سے اسد بھوپالی کہلائے۔ ان کا اصل نام اسد اللہ خاں تھا۔ فارسی، عربی، اردو اور انگریزی کی رسمی تعلیم حاصل کرنے والے اسد بھوپالی نے بطور نغمہ نگار وہ شہرت نہیں‌ حاصل کی جو ان کے ہم عصر نغمہ نگاروں کو ملی تھی۔ لیکن ان کے کئی مقبول گیتوں میں فلم ٹاور ہاؤس کا اے میرے دل ناداں تم غم سے نہ گھبرانا، فلم دنیا کا رونا ہے تو چپکے چپکے رو، آنسو نہ بہا، آواز نہ دے بھی شامل ہیں جو ان کے فلمی کیریئر کے آغاز کی بات ہے۔ 1949ء سے 1990ء تک اسد بھوپالی نے فلموں کے لیے لگ بھگ 400 نغمات تخلیق کیے۔ اسد بھوپالی کے فلم ”پارس منی“ کے لیے لکھے گئے گیتوں نے بھی مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے جن میں ہنستا ہوا نورانی چہرہ، وہ جب یاد آئے بہت یاد آئے پھر… شامل ہیں۔

    فلمی گیت نگار اسد بھوپالی نوجوانی میں ممبئی پہنچے تاکہ فلم انڈسٹری میں جگہ بنا سکیں۔ وہ 28 برس کے تھے جب ممبئی چلے گئے اور یہ وہ زمانہ تھا جب معروف شاعر خمار بارہ بنکوی، جاں نثار اختر، مجروحؔ سلطان پوری، شکیلؔ بدایونی، حسرتؔ جے پوری اور شیلندر کا نام اور شہرہ تھا، لیکن قسمت نے یاوری کی اور اسد بھوپالی کو کام مل گیا۔ 1949ء میں فضلی برادران فلم’’دنیا‘‘ بنانے کے لیے کام شروع کرچکے تھے۔ اس فلم کے لیے مشہور شاعر آرزو لکھنوی نے دو گیت لکھے اور تقسیمِ ہند کا اعلان ہوا تو وہ پاکستان ہجرت کرگئے۔ فضلی برادران کا اسد بھوپالی سے رابطہ ہوا تو اس نوجوان کو فلم کے لیے نغمات لکھنے کا موقع ملا۔ پہلی فلم کے دونوں گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ یوں اسد بھوپالی کی ممبئی فلم نگری میں کام یابیوں کا آغاز ہوا۔

    1950ء میں فلم ’’آدھی رات‘‘ کے لیے اسد بھوپالی نے دو گیت لکھے۔ اس کے بعد بی آر چوپڑا کی مشہور فلم ’’افسانہ‘‘ کے لیے بھی ان کے تحریر کردہ نغمات سپر ہٹ ثابت ہوئے۔

    ’’دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ‘‘ وہ گیت تھا جس پر اسد بھوپالی کو "فلم فیئر ایوارڈ” سے نوازا گیا۔