Tag: جون برسی

  • منور سلطانہ:‌ وہ گلوکارہ جن کی آواز میں ریڈیو پاکستان پر پہلا ملّی نغمہ نشر ہوا تھا

    منور سلطانہ:‌ وہ گلوکارہ جن کی آواز میں ریڈیو پاکستان پر پہلا ملّی نغمہ نشر ہوا تھا

    15 اگست 1947ء کو قیامِ‌ پاکستان کے بعد پہلے دن ریڈیو پاکستان کے لاہور اسٹیشن سے پہلا ملّی نغمہ منور سلطانہ کی آواز میں نشر ہوا تھا۔ پاکستان میں بننے والی پہلی فلم کے متعدد نغمات بھی منور سلطانہ نے گائے تھے۔

    ریڈیو سے نشر ہونے والے اوّلین ملّی نغمہ کے بول تھے، ‘چاند روشن چمکتا ستارہ رہے، سب سے اونچا یہ جھنڈا ہمارا رہے…’ جس میں دلشاد بیگم نے بھی منور سلطانہ کا ساتھ دیا تھا۔ اس کے علاوہ بانی پاکستان کو ان کی بے لوث قیادت اور علیحدہ وطن کے حصول کی جدوجہد پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایک نغمہ ’’اے قائدِ اعظم تیرا احسان ہے احسان‘‘ بھی منور سلطانہ کی آواز میں مقبول ہوا۔

    پاکستانی گلوکارہ منور سلطانہ 1995ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئی تھیں۔ وہ 1925ء میں لدھیانہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ انھوں نے فلموں کے لیے بطور گلوکارہ اپنے کیریئر کا آغاز قیامِ پاکستان سے پہلے فلم مہندی سے کیا تھا۔ منور سلطانہ نے پاکستان میں فلمی صنعت کے ابتدائی دور کی کئی فلموں کے لیے اپنی آواز میں‌ نغمات ریکارڈ کروائے جو بہت مقبول ہوئے۔ ریڈیو ان کی وہ درس گاہ تھی جہاں انھوں نے بہت کچھ سیکھا۔ گلوکارہ منور سلطانہ نے موسیقی کی تعلیم ریڈیو پاکستان کے مشہور کمپوزر عبدالحق قریشی عرف شامی سے حاصل کی تھی جب کہ تیری یاد جسے پاکستان کی پہلی فلم کہا جاتا ہے، اس کے متعدد نغمات بھی منور سلطانہ نے گائے۔

    منور سلطانہ نے جن فلموں کے لیے اپنے فنِ گائیکی کا مظاہرہ کیا ان میں پھیرے، محبوبہ، انوکھی داستان، بے قرار، دو آنسو، سرفروش، اکیلی، نویلی، محبوب، جلن، انتقام، بیداری اور لخت جگر شامل ہیں۔

    اپنے فنی کیریئر کے عروج میں منور سلطانہ ریڈیو پاکستان، لاہور کے اسٹیشن ڈائریکٹر ایوب رومانی سے شادی کرنے کے بعد فلم اور گلوکاری سے کنارہ کش ہوگئی تھیں۔ پچاس سے ساٹھ کی دہائی کے دوران شائقینِ سنیما اور موسیقی کے دلدادگان نے ان کی آواز میں کئی خوب صورت گیت سنے اور انھیں بے حد پسند کیا گیا۔ اردو اور پنجابی فلموں کے علاوہ منور سلطانہ نے کئی لوک گیت بھی گائے جو بہت مقبول ہوئے۔ گلوکارہ منور سلطانہ کی شادی ایوب رومانی سے ہوئی تھی جو پاکستان کے نامور شاعر، موسیقار اور براڈ کاسٹر تھے۔

  • رونالڈ ریگن: ہالی وڈ کا اداکار جو امریکا کا صدر بنا

    رونالڈ ریگن: ہالی وڈ کا اداکار جو امریکا کا صدر بنا

    بحیثیت امریکی صدر رونالڈ ریگن دنیا کی اہم ترین شخصیات میں شامل رہے اور ان کا آٹھ سالہ دورِ صدارت امریکا کی تاریخ میں نہایت اہمیت رکھتا ہے، لیکن سیاست میں قدم رکھنے سے پہلے ریگن بطور اداکار ہالی وڈ کی فلموں میں کام کرتے تھے۔

    سیاسی سفر اور بالخصوص امریکا میں عہدۂ صدارت سنبھالنے کے بعد بطور اداکار رونالڈ ریگن کی شناخت پس منظر میں چلی گئی اور دنیا بھر میں انھیں ایک عالمی طاقت کے سربراہ کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا۔ وہ 1981ء سے 1989ء تک امریکا کے 40 ویں صدر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ رونالڈ ریگن کے دور میں سرد جنگ عروج پر رہی اور سوویت یونین اپنے افتراق کی جانب بڑھا۔ اس کے علاوہ امریکی عوام کی فلاح و بہبود، ادارہ جاتی اصلاحات اور ملک کے مختلف شعبوں میں بہتری کے لیے ان کی حکومت کی پالیسیاں اور بعض اقدامات بھی قابلِ ذکر ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر نہایت اثر و رسوخ کے حامل رونالڈ ریگن کا شمار بطور اداکار دوسرے درجے کے فن کاروں میں کیا جاتا ہے۔

    رونالڈ ریگن امریکی عوام میں خاصے مقبول تھے۔ اس کی ایک وجہ اُن کی بذلہ سنجی بھی تھی۔ وہ دوسروں کے ساتھ نہایت سپردگی اور بے تکلفی سے پیش آتے تھے۔ کہتے ہیں کہ رونالڈ ریگن نے اپنے اعلیٰ ترین منصب اور اپنی سیاسی حیثیت کو مسئلہ نہیں بنایا بلکہ اپنی حسّ مزاح کو ہمیشہ زندہ رکھا۔ انھوں نے اپنا مذاق اڑانے سے بھی گریز نہیں‌ کیا اور کئی مرتبہ اپنی ذات کو بھی اپنی ظرافت کا نشانہ بنایا۔

    امریکا میں الینوئے کے ایک علاقے میں رونالڈ ریگن نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ 1911ء میں پیدا ہونے والے ریگن کے والد جوتوں کی ایک دکان پر سیلز مین تھے۔ والد شراب کے رسیا تھے اور چاہتے تھے کہ اپنے کنبے کی اچھی طرح دیکھ بھال کرسکیں اور بیوی بچّوں کی ضروریات پوری کریں، مگر ناکام رہتے۔ ریگن نے چھوٹے موٹے کام کرکے اپنا جیب خرچ پورا کیا۔ اسکول میں وہ ڈرامہ اور فٹ بال کے کھیل میں دل چسپی لینے لگے تھے۔ ریگن ایک عام طالبِ‌ علم تھے جو عمر کے مدارج طے کرتے ہوئے فنونِ‌ لطیفہ اور کھیل کود کے علاوہ طلباء سیاست میں بھی دل چسپی لینے لگے تھے۔ کالج کا دور شروع ہوا تو انھوں نے طلباء تنظیم کے لیے اپنی سرگرمیوں کی بنیاد پر ایک پارٹی میں عہدہ بھی حاصل کرلیا۔ یہی نہیں بلکہ ایک معاملے پر رونالڈ ریگن نے بطور لیڈر جب احتجاج اور ہڑتال کی اپیل کی تو پرنسپل کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔ یہ ایک نوجوان طالبِ‌ علم لیڈر کی بڑی کام یابی تھی۔ 1932ء میں رونالڈ ریگن نے گریجویشن کیا اور مقامی سطح پر فٹبال کے کھیل کے لیے بطور مبصّر کام شروع کیا۔ اس کے بعد 1937ء میں ریگن کیلیفورنیا منتقل ہوگئے اور ہالی وڈ میں قسمت آزمائی۔وہ 26 سال کے تھے جب وارنر برادرز کے بینر تلے بننے والی ایک فلم میں ان کو کام کرنے کا موقع ملا۔ ریگن نے اپنے فلمی کیریئر میں لگ بھگ پچاس سے زائد فلمیں کیں اور زیادہ تر ہیرو کے روپ میں اسکرین پر جلوہ گر ہوئے۔

    نینسی ریگن 1940ء کی دہائی میں ہالی وڈ میں بننے والی کم بجٹ کی فلموں کی اداکارہ تھیں اور اپنے فنی کیریئر کے دوران ہی ان کی ملاقات رونالڈ ریگن سے ہوئی تھی۔ بعد ازاں 1952ء میں دونوں نے شادی کرلی تھی۔ مسز ریگن کا اصل نام این فرانسس رابنز تھا لیکن وہ فلم کی دنیا میں نینسی ڈیوس کے نام سے معروف تھیں۔

    1966ء میں رونالڈ ریگن نے ملکی سیاست میں قدم رکھا اور کیلیفورنیا کے گورنر کے عہدے کے لیے انتخابی اکھاڑے میں‌ اترے۔ ان کے اقارب اور دوست احباب ان کے اس اقدام پر حیران بھی تھے اور ان کا خیال تھاکہ ریگن سیاست میں نامراد رہیں گے، لیکن وہ انتخاب جیت گئے اور آٹھ سال تک گورنر رہے۔ وہ ریپبلکن پارٹی سے وابستہ تھے اور اسی پلیٹ فارم سے امریکا کے صدر بنے۔ صدر ریگن ستّر برس کے تھے جب انھوں نے یہ منصب سنبھالا۔ اس عہدے پر دو ماہ گزرے تھے کہ ان پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں ریگن محفوظ رہے۔

    ریگن کو سویت یونین کا سخت مخالف سمجھا جاتا تھا، لیکن بعد میں سویت راہ نما گوربا چوف سے ان کی مفاہمت اور ایک تاریخی معاہدہ دنیا میں جوہری اسلحہ کی تخفیف کا سبب بنا جسے امریکی صدر کی حیثیت سے ریگن کی بڑی کام یابی کہا جاتا ہے۔

    Dark Victory ، All American اور Kings Row بحیثیت اداکار رونالڈ ریگن کی وہ فلمیں‌ تھیں‌ جن کو 1943ء میں اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زد کیا گیا۔

    سنیما کے پردے پر بطور ہیرو رونالڈ ریگن نے شائقین کی توجہ ضرور حاصل کی، مگر ایک اداکار کی حیثیت سے فلمی صنعت میں ان کو کوئی خاص مقام نہیں ملا۔

    چالیس اور پچاس کی دہائی میں ریگن نے Love Is on the Air ،Accidents Will Happen، The Bad Man، Desperate Journey، The Killers، Hong Kong جیسی فلموں‌ کے علاوہ ٹیلی ویژن کی کئی سیریز میں‌ بھی کام کیا۔

    کیلیفورنیا منتقل ہونے بعد ہی پہلی مرتبہ 1937ء میں انھیں فلم میں بطور اداکار کام مل گیا تھا، رونالڈ ریگن نے اپنے وقت کے مشہور و معروف فن کاروں کے ساتھ کام کیا۔

    ‘ریگن: اے لائف اِن لیٹرز‘ سابق صدر کی وہ کتاب ہے جس میں ان کے ایک ہزار ذاتی خطوط شامل ہیں۔ یہ خطوط ریگن کی شخصیت کو ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ اس کتاب کا مطالعہ رونالڈ ریگن کے افکار و خیالات، ان کی دل چسپیوں اور مشاغل کو جاننے کا موقع دیتی ہے۔

    اداکار اور امریکی صدر رونالڈ ریگن لاس اینجلس میں‌ 5 جون 2004ء کو انتقال کرگئے تھے۔ وہ زندگی کے آخری ایّام میں الزائمر کا شکار ہوچکے تھے۔

    رونالڈ ریگن کے دور میں امریکا نے امیر اور غریب طبقہ کے درمیان خلیج بھی دیکھی۔

  • باسو چٹرجی:‌ وہ فلم ساز جس نے زندگی کو بڑے پردے پر پیش کیا!

    باسو چٹرجی:‌ وہ فلم ساز جس نے زندگی کو بڑے پردے پر پیش کیا!

    بڑے پردے پر حقیقی زندگی کی عکاسی کرتے ہوئے باسو دا کو یہ خوف محسوس نہیں‌ ہوا کہ اگر ان کی فلم ناکام ہوگئی تو کیا ہوگا۔

    ہندی سنیما کے لیے موضوعات کبھی اساطیر سے لیے گئے، کسی نے جنگ و جدل کو موضوع بنایا، کسی نے ناول کو پردے کے مطابق ڈھالا اور کسی فلم ساز نے سیاسی یا سماجی تحریک کے زیرِ اثر فلمیں اس امید پر بنائیں کہ شائقین کی جانب سے زبردست پذیرائی ملے گی، لیکن بھاری سرمائے یا کم بجٹ کی فلمیں ہوں، بہ طور ہدایت کار باسو چٹر جی ان کی ناکامی سے خوف زدہ نہیں ہوئے اور حقیقی زندگی کی عکاسی کرتے رہے اور ان کی فلمیں شاہکار ثابت ہوئیں۔

    پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ناقدین کے مطابق ہندوستانی سنیما کو جتنے بڑے فن کار اور آرٹسٹ ملے، اتنی ہی زور دار فلمیں بھی سامنے آئیں۔ یہ بہترین فلمیں، ان کے یادگار نغمات اور لازوال موسیقی آج بھی اُس دور کے ایسے فلم سازوں اور ہدایت کاروں کی یاد تازہ کر دیتی ہیں، جن کے تخلیقی وفور اور صلاحیتوں نے شاہ کار فلمیں بنائیں۔ ہدایت کار اور اسکرین پلے رائٹر باسو چٹر جی انہی میں سے ایک تھے۔ اُن کے کام کی بات کی جائے تو سارا آکاش، رجنی گندھا، چھوٹی سی بات، اس پار، کھٹا میٹھا، باتوں باتوں میں، ایک رکا ہوا فیصلہ اور چنبیلی کی شادی جیسی فلمیں ان کا تعارف اور مضبوط حوالہ بنیں۔

    رجنی گندھا (1974) اور چھوٹی سی بات (1975) کی وہ فلمیں تھیں جن کی بدولت ان کا نام ایک فلم ساز اور اسکرین پلے رائٹر کے طور پر مشہور ہوا۔ باسو چٹر جی 93 سال کی عمر میں 4 جون 2020ء کو ممبئی میں چل بسے تھے۔ ان کی اکثر فلمیں متوسط طبقے کے گھرانوں کی عکاس ہیں اور ان فلموں میں شادی شدہ جوڑوں کی زندگی، اتار چڑھاؤ اور پیار محبت دیکھا جاسکتا ہے۔

    بہ طور ہدایت کار باسو چٹر جی کی پہلی فلم 1969 میں ریلیز ہوئی تھی جس کا نام سارا آکاش تھا۔ اس فلم کو بعد میں بہترین اسکرین پلے کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا تھا۔ شائقین نے بھی اس فلم کو بہت پسند کیا تھا۔ باسو چٹرجی وہ فلم ساز تھے جنھوں نے اس دور کے کئی آرٹسٹوں کو ایسے رول دیے، جن سے انھیں شہرت ملی اور ان کے فنی سفر میں وہ کردار ایک اچھا اضافہ تھے۔ انھوں نے متھن چکرورتی کے ساتھ فلم بنام شوقین بنائی۔ ونود مہرا کے ساتھ اُس پار، جیتندر اور نیتو سنگھ کے ساتھ پریتما، دیو آنند کے ساتھ من پسند، دھرمیندر اور ہیما مالنی کو دل لگی میں کردار دیا اور امیتابھ بچن کے ساتھ فلم منزل بنائی تھی۔ باسو چٹر جی کی فلموں نے سماجی موضوعات پر بہترین فلموں کے متعدد ایوارڈز اپنے نام کیے۔

    وہ ہندی فلموں کے ایک بنگالی نژاد ہدایت کار تھے جنھوں نے ہلکے پھلکے اور عام فہم انداز میں اہم موضوعات پر فلمیں بنا کر شہرت حاصل کی۔ باسو چٹر جی 1930ء میں اجمیر (راجستھان) میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ 50ء کی دہائی میں قسمت آزمانے بمبئی منتقل ہوگئے۔ ان کا ایک حوالہ وہ کارٹون بھی ہیں، جو انھوں نے نوجوانی میں بنانا شروع کیے تھے اور ان کی اشاعت ہفت روزہ "بلٹز” میں باقاعدگی سے ہوتی تھی۔ انھوں نے دس بارہ سال تک کارٹونسٹ کے طور پر بھی کام کیا۔

    بمبئی آنے کے بعد باسو چٹرجی کو جلد ہی بہ طور ہدایت کار فلم مل گئی۔ 1969ء میں ان کی فیچر فلم "سارا آکاش” ریلیز ہوئی جو نہ صرف کام یاب ہوئی بلکہ اسے لاجواب فوٹوگرافی کا ایوارڈ بھی ملا۔ اس کے بعد ان کی دو جذباتی اور حساس موضوعات پر فلمیں سامنے آئیں اور پھر وہ دل چسپ اور مزاحیہ انداز میں "رجنی گندھا” اور "چھوٹی سی بات” جیسی عام لوگوں کے مسائل پر فلمیں تخلیق کرنے لگے اور کام یاب رہے۔

    چٹرجی ایک باکمال کے ہدایت کار تھے جنھوں نے فارمولہ فلموں میں بھی جذبات و احساسات کی نمائش بہت سلیقے سے کی۔ وہ ایک منجھے ہوئے ہدایت کار اور تجربہ کار فلم ساز تھے جس نے 1993ء تک جتنی بھی فلمیں اور ٹی وی سیریل بنائے، وہ کام یاب اور بے حد مقبول بھی رہے۔ ان کے کام نے نہ صرف عام آدمی کو متاثر کیا بلکہ اعلیٰ طبقے میں بھی ان کی فلمیں بہت پسند کی گئیں۔ باسو چٹر جی نے کُل 42 فلمیں بنائیں اور یہ سب کسی نہ کسی حوالے سے یادگار ثابت ہوئیں۔

    باسو کے والد اُتر پردیش کے شہر متھرا میں بسلسلہ ملازمت اقامت پذیر تھے۔ باسو نے وہیں اپنی زندگی کو محسوس کیا اور نوجوانی میں فلمیں دیکھتے ہوئے وقت گزارا۔ اسی فلم بینی نے ان کے اندر چھپے فن کار اور باصلاحیت نوجوان کو بمبئی جانے پر اکسایا اور وہ بیس اکیس برس کے تھے جب بمبئی میں ایک ملٹری اسکول میں لائبریرین مقرر ہوگئے۔ اسی دور میں کارٹونسٹ ہوئے اور وہ وقت بھی آیا جب باسو چٹر جی نے اطالوی، فرانسیسی اور دوسرے ممالک کی فلمیں دیکھ کر یہ جانا کہ اس میڈیم کا دائرہ بہت وسیع ہے اور تفریح تفریح میں فلم کی طاقت سے کوئی کام لیا جاسکتا ہے۔

    باسو چٹر جی خود کو ایک عام آدمی کہتے تھے اور ان کے مطابق وہ عام لوگوں میں رہتے تھے، بس میں سفر کیا کرتے تھے۔ اس دوران وہ اپنے ارد گر لوگوں کی خوشیوں کو دیکھتے، اور ان کا دکھ درد اور غم بھی سنتے رہے۔ یہی ان کے نزدیک زندگی تھی اور پھر وہ اس سے باہر نہیں نکل سکے۔ ان سے وہ فلمیں نہیں بنیں جن میں ایک آدمی جسے فلم میں ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اپنے سے بھاری بھرکم اور طاقت ور دکھائی دینے والے دس، پندرہ لوگوں سے بھڑ جاتا ہے، اور جیت اُسی کی ہوتی ہے۔ انھوں نے زندگی کو جیسا دیکھا، کوشش کی کہ اُسی طرح فلم کے پردے پر بھی پیش کردیں۔

  • اردو ادب کے ‘مجنوں’ کا تذکرہ

    اردو ادب کے ‘مجنوں’ کا تذکرہ

    مجنوں گورکھپوری اردو کے ممتاز نقاد، شاعر، مترجم اور افسانہ نگار تھے جنھوں نے اپنے دور میں ترقی پسند ادب کو تنقیدی سطح پر نظریاتی بنیادیں فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ آج مجنوں کی برسی ہے۔

    مجنوں کے تمام ادبی حوالوں اور شناختوں پر ان کی تنقیدی شناخت حاوی رہی۔ انہوں نے بہت تسلسل کے ساتھ اپنے عہد کے ادبی و تنقیدی مسائل پر لکھا اور اپنی فکر و نکتہ رسی کی بدولت اردو ادب کے لیے گراں قدر سرمایہ یادگار چھوڑا۔ مجنوں‌ گورکھپوری 4 جون 1988ء کو ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوگئے تھے۔

    مجنوں کا اصل نام احمد صدیق تھا۔ ان کے والد محمد فاروق دیوانہ بھی ادیب اور مشہور شاعر تھے۔ مجنوں نے مشرقی یوپی کے ضلع بستی تحصیل خلیل آباد میں واقع پلدہ المعروف ملکی جوت میں 10 مئی 1904 کو آنکھ کھولی۔ ان کا خاندان اعلٰی تعلیم یافتہ اور زمیں دار تھا۔ والد محمد فاروق دیوانہ نے اپنے بیٹے احمد صدیق کا داخلہ تعلیم کے لیے سینٹ اینڈریوز اسکول میں کرایا۔ 1921ء میں میٹرک کے بعد 1927ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے انگریزی، اور ایک سال بعد کلکتہ یونیورسٹی سے مجنوں نے اردو میں ایم اے کیا۔ 1936ء میں درس و تدریس سے وابستہ ہوئے۔ ان کی شادی 14 اکتوبر 1926ء میں ہوئی۔ تقسیمِ ہند کے بعد مجنوں بھارت میں مقیم رہے، لیکن مئی 1968ء میں ہجرت کی اور پاکستان کے شہر کراچی چلے آئے۔ یہاں انھیں کراچی یونیورسٹی میں بہ حیثیت اعزازی پروفیسر تعینات کر دیا گیا۔

    مجنوں گورکھپوری نے ادب کو زندگی سے ہم آہنگ کرنے‘ زندگی کی عکاسی کرنے اور اسے سماجی شعور و آگہی کا ذریعہ بنانے کے لیے نہایت قابلِ قدر مضامین لکھے۔ ان کی تنقیدی کتاب ’’ادب اور زندگی‘‘ نے بلاشبہ اردو تنقید میں فکر کا ایک نیا در کھولا۔ 1936ء میں جب ترقی پسند تحریک کی اردو ادب میں داغ بیل پڑی تو مجنوں صاحب کا اس میں بھی بڑا حصہ تھا۔ علی سردار جعفری اپنی کتاب ’’ترقی پسند ادب‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’تحریک کے ابتدائی زمانے میں مجنوں گورکھ پوری نے اپنے تنقیدی مضامین سے تحریک کے اغراض و مقاصد کو پھیلانے میں بڑا کام کیا اور نئے اصولِ تنقید بنانے میں بڑی مدد کی۔ انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ادب زندگی کا ترجمان ہوتا ہے اور نقاد بھی زندگی کے ساتھ سائے کی طرح وابستہ ہے۔ اس لیے زندگی کی تبدیلی کے ساتھ ادب بھی بدلتا ہے۔‘‘ ان کی تنقیدی کتب میں نقوش و افکار، نکاتِ مجنوں، تنقیدی حاشیے، تاریخِ جمالیات، ادب اور زندگی، شعر و غزل سرِفہرست ہیں۔ مجنوں نے افسانے بھی لکھے۔ ان کی نگارشات خواب و خیال، مجنوں کے افسانے، سرنوشت کے نام سے کتابی شکل میں‌ شایع ہوچکی ہیں۔

    اردو میں تنقید نگاری کے ساتھ مجنوں‌ گورکھپوری نے انگریزی ادب سے تراجم بھی کیے اور شیکسپیئر، ٹالسٹائی، بائرن، برنارڈ شا اور جان ملٹن کی تخلیقات کو اردو کے قالب میں ڈھالا۔

    ادیب اور نقاد مجنوں گورکھپوری کو کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • کافکا، جس کی تخلیقات عالمی ادب کا خزانہ ہیں!

    کافکا، جس کی تخلیقات عالمی ادب کا خزانہ ہیں!

    کافکا کی بیش تر تحریریں اُس کے ایک دوست کی وجہ سے آج عالمی ادب کا خزانہ ہیں۔ جرمنی کے معروف ادیب فرانز کافکا نے اپنی موت سے قبل اپنے دوست میکس بروڈ کو وصیت کی تھی کہ وہ اس کی غیر مطبوعہ تخلیقات کو نذرِ‌ آتش کر دے، لیکن میکس بروڈ نے اس پر عمل نہیں کیا تھا!

    جرمنی کے اس معروف افسانہ نگار اور کہانی کار کے متعدد ادھورے ناول، افسانوں اور خطوط کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا اور عین جوانی میں دم توڑنے والے کافکا اور اس کی تخلیقات کو دنیا بھر میں‌ شہرت ملی۔ جرمنی میں کافکا کی تماثیل آج بھی بہت مقبول ہیں۔ بیسویں صدی کے اس بہترین افسانہ نگار کی وفات تین جون 1924ء کو ہوئی۔ اس کی عمر 40 سال تھی۔ وہ 1883ء میں چیکوسلاواکیہ کے ایک قصبے پراگ میں پیدا ہوا۔ اس کا تعلق ایک یہودی گھرانے سے تھا، ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے کافکا نے قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ سمجھتا تھا کہ اس کے والدین اسے زیادہ نہیں‌ چاہتے اور اپنی کئی محرومیوں اور مسائل کی وجہ سے کافکا خود کو حرماں نصیب اور بدقسمت خیال کرتا تھا۔ وہ ذہین تھا، مگر خود اعتمادی سے محروم اور نفیساتی طور پر حساسیت کا شکار ہوچکا تھا۔ اس نے شادی نہیں‌ کی تھی۔

    زندگی کی فقط 40 بہاریں دیکھنے والے کافکا نے قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک انشورنس کمپنی میں کام کیا اور قانون کی پریکٹس بھی کی۔ اس نے زندگی میں ایک مرتبہ خودکشی کی کوشش بھی کی تھی، مگر بچ گیا تھا اور بعد میں‌ اس کے دوست نے اسے سنبھالا۔ کافکا تپِ دق کی بیماری میں‌ مبتلا تھا اور اس دور میں‌ اس مرض کے ہاتھوں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے تھے۔

    فرانز کافکا کے ناول ’دی ٹرائل‘ اور ’دی کاسل‘ کو علمی و ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی اور کئی زبانوں میں ان کا ترجمہ کیا گیا۔

    کافکا نہیں‌ چاہتا تھا کہ اس کی تخلیقات پڑھی جائیں لیکن ایسا نہ ہوسکا اور جب یہ تخلیقات دنیا کے سامنے آئیں تو انھیں بہت سراہا گیا اور کافکا کی تخلیقی اور ادبی صلاحیتوں کا سبھی نے اعتراف کیا۔

  • انتھونی کوئن: آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار

    انتھونی کوئن: آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار

    انتھونی کوئن دنیا کی سب سے بڑی فلمی صنعت کا ایک بڑا نام ہیں جن کے بارے میں‌ کہا جاتا تھا کہ اداکاری کیا ہوتی ہے یہ دیکھنا ہو اور اداکاری سیکھنا ہو تو کوئی انتھونی کوئن سے سیکھے۔ عالمی شہرت یافتہ اداکار انتھونی کوئن کی اسلامی ممالک میں وجہِ شہرت صحابی حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ اور شہید عمر مختار کے کردار بنے جو انھوں نے دو مختلف فلموں‌ میں نبھائے تھے۔

    امریکا میں میکسیکو کے ایک خاندان میں 1915ء میں پیدا ہونے والے انتھونی کوئن نے ہالی وڈ کی کئی کام یاب فلموں‌ میں‌ اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان فلموں میں زوربا دی گریگ، لارنس آف عربیہ، دی گنز آف نیوارون، دی میسج، لائن آف دی ڈیزرٹ اور لا استرادا کو بے مثال کام یابی نصیب ہوئی۔ انتھونی کوئن کو دو مرتبہ بہترین معاون اداکار کا اکیڈمی ایوارڈ دیا گیا۔ اداکار انتھونی کوئن نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز 1936ء میں پیرول اور دی ملکی وے سے کیا تھا۔ ان کی پہلی کام یاب فلم 1952ء میں ریلیز ہوئی تھی جس کا نام ویوا زاپاتا تھا۔ اس فلم میں انتھونی کوئن نے مارلن برانڈو کے مد مقابل معاون کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم کے ہدایت کار ایلیا کازان تھے جنھیں اپنے شعبے میں زبردست کام کی وجہ سے عالمی سطح پر پہچانا جاتا ہے۔ انتھونی کوئن نے اس کے لیے معاون اداکار کی حیثیت سے آسکر اپنے نام کیا تھا۔ ونسنٹ منیلی کی 1956ء کی فلم لسٹ فار لائف میں وہ ایک مرتبہ پھر معاون اداکار کی حیثیت سے نظر آئے اور اس کردار پر بھی انھیں آسکر دیا گیا۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ فلم میں انتھونی کوئن صرف 8 منٹ کے لیے پردے پر نظر آئے تھے اور اس دورانیہ میں ان کی لاجواب اداکاری نے سبھی کو حیران کر دیا تھا۔

    1961ء کی مشہورِ زمانہ فلم دی گنز آف نیوارون تھی جس میں انتھونی کوئن ایک یونانی مزاحمت کار کے روپ میں پردے پر جلوہ گر ہوئے۔ اس فلم نے ہر طرف تہلکہ مچا دیا۔ یہ ایک کام یاب ترین فلم تھی۔ 1962ء میں اداکار کو لارنس آف عربیہ میں ایک بدوی راہ نما عودہ ابو تایہ کے کردار میں دیکھا گیا۔ 1964ء میں فلم زوربا دی گریک نے خوب کام یابی سمیٹی اور انتھونی کوئن کو بہترین اداکار کے آسکر کے لیے نامزد کیا گیا۔

    1977ء میں معروف مسلمان ہدایت کار مصطفیٰ العقاد کی اسلام کے ابتدائی دور پر بنائی گئی مشہورِ زمانہ فلم دی میسیج میں انتھونی کوئن کو صحابی حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کا کردار سونپا گیا اور 1980ء میں انھوں‌ نے لیبیا میں اٹلی کے تسلط کے خلاف جدوجہد کرنے والے عمر مختار کی زندگی پر بنائی گئی فلم لائن آف دی ڈیزرٹ میں مرکزی کردار ادا کیا۔ انتھونی کوئن کو ان کرداروں‌ نے اسلامی دنیا میں خاص طور پر شہرت دی۔

    اداکاری کے علاوہ انتھونی کوئن کو فنونِ لطیفہ سے لگاؤ ہی نہیں تھا بلکہ انھوں نے مجسمہ سازی، مصوری بھی کی اور دو آپ بیتیاں بھی رقم کیں۔ آخر عمر میں اداکار حلق کے سرطان میں مبتلا ہوگئے تھے۔ 2001ء میں انتھونی کوئن آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ 86 سالہ اداکار کی موت کا سبب نمونیہ تھا۔

  • مجیب عالم: پاکستانی فلمی صنعت کا مقبول ترین گلوکار

    مجیب عالم: پاکستانی فلمی صنعت کا مقبول ترین گلوکار

    60ء کی دہائی کے آخر میں گلوکار مجیب عالم کی آواز اور ان کے منفرد طرزِ‌ گائیکی نے اُس وقت کے موسیقاروں اور سُر سنگیت کے دیوانوں کو بہت متاثر کیا اور ان کے گائے ہوئے گیتوں‌ نے اس وقت کے متحدہ پاکستان میں مقبولیت کا ریکارڈ بنایا۔ لیکن مجیب عالم کا یہ سفر زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا اور نئے گلوکار انڈسٹری میں جگہ بنانے میں کام یاب ہوگئے۔

    آج گلوکار مجیب عالم کی برسی ہے۔ وہ 2 جون 2004 کو انتقال کرگئے تھے۔ 1967ء میں فلم’ چکوری‘ کے نغمات سے مجیب عالم کی شہرت کا آغاز ہوا تھا اور اس دور میں‌ ان کا گایا ہوا یہ گیت بہت مقبول تھا، ’وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں…‘ اس فلم کے بعد اگلے کئی برس تک مجیب عالم انڈسٹری کے مصروف گلوکاروں میں شامل رہے۔ لیکن اس مقبولیت کے باوجود وہ فلم انڈسٹری کی ضرورت نہیں بن سکے۔ کہا جاتا ہے کہ قسمت کی دیوی اخلاق احمد اور اے نیّر جیسے گلوکاروں پر مہربان ہوگئی جو اس زمانے میں فلم نگری میں متعارف ہوئے تھے اور مجیب عالم کو نظرانداز کیا جانے لگا۔

    مجیب عالم نے فلمی دنیا کے لیے کئی یادگار گیت ریکارڈ کرائے اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے اکثر ان کے نغمات نشر کیے جاتے تھے۔ ایک دور تھا جب سامعین کی پُر زور فرمائش پر گلوکار ریڈیو پر مجیب عالم کے ریکارڈ سنائے جاتے تھے۔ اسی طرح ٹیلی ویژن کے لیے گلوکار مجیب عالم نے خصوصی طور پر نغمات ریکارڈ کروائے اور ان پر خوب داد سمیٹی۔ پی ٹی وی کے لیے ان کا گیت ’میرا ہر گیت ہے ہنستے چہروں کے نام‘ بہت مقبول ہوا۔

    جس زمانے میں مجیب عالم نے فلم انڈسٹری میں بطور گلوکار قدم رکھا، وہاں مہدی حسن اور احمد رشدی جیسے پائے کے گلوکار پہلے ہی موجود تھے، لیکن جلد ہی مجیب عالم پاکستان کے صفِ اوّل کے گلوکاروں میں شامل ہوگئے۔ ان کے مشہور گیتوں میں ’یوں کھو گئے تیرے پیار میں ہم‘، ’میں تیرے اجنبی شہر میں‘ اور ’یہ سماں پیار کا کارواں‘ سرفہرست ہیں۔

    مجیب عالم ہندوستان کے شہر کانپور میں 1948ء میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیمِ ہند کے چند برس بعد ان کا خاندان ہجرت کرکے کراچی آگیا تھا جہاں وہ اپنی زندگی کی آخری سانس تک سکونت پذیر رہے۔ مجیب عالم کی آواز بے حد سریلی تھی اور وہ ریڈیو پر اپنے فن کا مظاہرہ کرچکے تھے۔ اسی سے متأثر ہوکر موسیقار حسن لطیف نے اپنی فلم نرگس کے گیت ان سے گوائے مگر یہ فلم پردے پر نمائش کے لیے پیش نہ کی جاسکی۔ تاہم ساٹھ کی دہائی میں مجیب عالم نے فلمی دنیا کو بطور گلوکار اپنا لیا تھا۔ ان کی ریلیز ہونے والی پہلی فلم مجبور تھی۔ مجیب عالم کی آواز میں 1966 میں فلم جلوہ کا گیت بھی ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس کے اگلے سال چکوری جیسی کام یاب فلم کا نغمہ ان کی آواز میں بے حد مقبول ہوا اور پھر وہ آگے بڑھتے چلے گئے۔ مجیب عالم کو اس گیت کے لیے نگار ایوارڈ دیا گیا۔ ان کے بارے میں اپنے وقت کے مایہ ناز موسیقاروں اور گلوکاروں کا کہنا تھاکہ ’مجیب مشکل گانے بھی آسانی اور روانی سے گایا کرتے تھے۔‘

    مجیب عالم نے جن فلموں کے لیے نغمات ریکارڈ کروائے ان میں دل دیوانہ، گھر اپنا گھر، جانِ آرزو، ماں بیٹا، شمع اور پروانہ، قسم اس وقت کی، میں کہاں منزل کہاں سرفہرست ہیں۔ مجیب عالم کی گائیکی کا ایک وصف یہ تھا کہ وہ طربیہ اور المیہ دونوں قسم کے نغمات یکساں مہارت سے گاتے تھے۔

    گلوکار مجیب عالم کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپرد خاک کیے گئے۔

  • سکند علی وجد جن کی شاعری تصویریت اور نغمگی سے معمور ہے!

    سکند علی وجد جن کی شاعری تصویریت اور نغمگی سے معمور ہے!

    جو لوگ وجد صاحب کو جانتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ رقص، مصوری اور موسیقی سے ان کو بے پناہ لگاؤ رہا ہے اور یہی وجہ ہے ان کی شاعری اکثر تصویریت اور نغمگی سے معمور نظر آتی ہے۔ وسیع المطالعہ اور فنونِ لطیفہ کے کئی شعبوں کے شناسا وجد نے کئی خوب صورت نظموں کے علاوہ غزلیں بھی کہی ہیں۔

    سکندر علی ان کا نام اور تخلّص وجد تھا۔ ان کے قریبی دوستوں نے انھیں آتش مزاج بھی لکھا، انا پرست بھی۔ لیکن وہ خوش مزاج اور وضع دار بھی مشہور تھے۔ وجد نفیس شخصیت کے مالک، تہذیب یافتہ اور بڑے رکھ رکھاؤ والے آدمی تھے۔ ان کی آواز بھی سریلی تھی اور گانے کے ساتھ وجد کو اداکاری کا شوق بھی تھا۔ شاعری کے میدان میں سکندر علی وجد کی نظمیں خاص طور پر قارئین میں مقبول ہوئیں۔

    نظم نگار کی حیثیت سے دکن کے دامن میں پوشیدہ تہذیبی خزانے یعنی اجنتا اور ایلورا کے غاروں پر ان کی شاعری کو بہت پسند کیا گیا۔ تاہم وجد کا کلام اسلوب یا کسی خوبی اور لفظیات کے تعلق سے متاثر کن نہیں ہے۔ وجد کو بھی اس بات کا احساس تھا اور ایک موقع پر انھوں نے اپنی شاعری کے بارے میں کہا، "ہر آرٹ کی طرح شاعری بھی شاعر سے پوری زندگی کا مطالبہ کرتی ہے، جو شاعر اس مطالبے کی تکمیل نہیں کرتا اس کی شاعری تشنہ رہ جاتی ہے، مجھے اکثر اس تشنگی کا احساس ہوا ہے، میں‌ اپنی شاعری کو کوئی ادبی کارنامہ نہیں سمجھتا۔ میں اس کی کمزوریوں سے اچھی طرح واقف ہوں۔ اس حقیقت کا بھی شدید احساس ہے کہ یہ شاعری وقت کی ضرورتوں، حوصلوں اور آرزوؤں کی پوری ترجمانی نہیں کرتی۔ اس فرض کو ادا کرنے کے لیے اندازِ فکر، اسلوب، سخن اور زبانِ شعر میں‌ انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے۔”

    سکند علی وجدؔ نے 1914ء میں اورنگ آباد میں آنکھ کھولی۔ وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور عثمانیہ یونیورسٹی سے بی۔ اے کرنے کے بعد سول سروس کے امتحان میں کام یاب ہو کر سرکاری ملازم ہوگئے، وہ ترقی کر کے ڈسٹرکٹ سیشن جج کے منصب تک پہنچے۔ لہو ترنگ، آفتابِ تازہ، اوراقِ مصور، بیاضِ مریم کے نام سے ان کی شاعری کتابی شکل میں شایع ہوئی۔ وجد 16 جون 1983ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    وجدؔ نے غزلیں بھی کہیں جن کا موضوع حسن و عشق اور قلبی واردات ہے لیکن اصلاً وہ نظم کے شاعر ہیں۔ اپنے عہد کے سیاسی معاملات اور طبقاتی کشمکس کو بہت خوب صورتی سے وجد نے نظموں میں پیش کیا لیکن ان کی نظموں کے موضوعات محدود نہیں۔ ان کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے۔ وجدؔ کہتے ہیں، ’’میں نے اظہارِ خیال کے لیے کلاسیکی اسلوب منتخب کیا اور فن شعر کے اصولوں کی پابندی کرنے کی بھی امکانی کوشش کی ہے۔ شاعری میں نئے تجربے کرنے کی مجھے فرصت نہیں ملی۔ میری شاعری، میری زندگی، انسان کی عظمت اور ترقی ہندوستان کی تاریخ و سیاست اور یہاں کے فنون لطیفہ سے طاقت اور حسن حاصل کرتی رہی ہے۔‘‘ رقاصہ، نیلی ناگن، آثارِ سحر، خانہ بدوش، معطر لمحے سکندر علی وجد کی دل کش نظمیں ہیں۔

    سکندر علی وجد کی یہ نظم اجنتا کے غاروں کی بہترین عکاسی کرتی ہے:

    بہانہ مل گیا اہل جنوں کو حسن کاری کا

    اثاثہ لوٹ ڈالا شوق میں فصل بہاری کا

    چٹانوں پر بنایا نقش دل کی بے قراری کا

    سکھایا گر اسے جذبات کی آئینہ داری کا

    دل کہسار میں محفوظ اپنی داستاں رکھ دی

    جگر داروں نے بنیاد جہان جاوداں رکھ دی

    یہ تصویریں بظاہر ساکت و خاموش رہتی ہیں

    مگر اہل نظر پوچھیں تو دل کی بات کہتی ہیں

    گلستان اجنتا پر جنوں کا راج ہے گویا

    یہاں جذبات کے اظہار کی معراج ہے گویا

  • خان محبوب طرزی: بسیار نویس اور اردو کا مفلوک الحال ادیب

    خان محبوب طرزی: بسیار نویس اور اردو کا مفلوک الحال ادیب

    اردو زبان میں رومانوی کہانیاں، تاریخی اور سماجی موضوعات پر ناولوں کے ساتھ جاسوسی ادب خوب لکھا گیا، اور اس میدان میں کئی نام گنوائے جاسکتے ہیں جن کو تقسیمِ ہند سے قبل اور بعد میں‌ بڑی مقبولیت حاصل ہوئی، لیکن سائنس فکشن کا معاملہ کچھ مختلف رہا ہے۔ اگرچہ تقسیمِ ہند سے قبل بھی اردو زبان میں سائنس فکشن لکھا گیا اور مقبول بھی ہوا، لیکن اس میدان میں کم ہی نام سامنے آئے۔ انہی میں ایک خان محبوب طرزی بھی ہیں جن سے اردو ادب اور ناول کے قارئین کی اکثریت واقف نہیں ہے۔

    خان محبوب طرزی کی حیات، ان کے فن اور نگارشات کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ جان لیں‌ کہ وہ تقسیمِ ہند کے بعد چند برس ہی زندہ رہے اور اس وقت تک سائنس فکشن صرف تجسس اور مہم جوئی تک محدود تھا اور سائنسی نظریات یا کسی خاص تھیوری سے متأثر ہو کر بہت کم ناول لکھے گئے، لیکن دنیا بھر میں سائنس فکشن اور بامقصد ادب تخلیق ہو رہا تھا۔ اردو میں بہت بعد میں‌ سائنسی نظریات اور ان کی بنیاد پر ہونے والی ایجادات پر کہانیاں لکھی گئیں۔ کچھ ادیبوں‌ نے اپنے قاری کی دل چسپی اور توجہ حاصل کرنے کے لیے خاص طور پر سائنسی مفروضے، چونکا دینے والے آلات یا انوکھی مشینوں کو اپنے ناولوں یا افسانوں میں پیش کیا اور چند ایسے تھے جنھوں نے اپنے تخیل کے سہارے ایسی حیران کن کہانیاں لکھیں جن کا ایک عام آدمی اس زمانے میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔

    خان محبوب طرزی کا سنہ پیدائش 1910ء ہے۔ وہ اردو کے ان اوّلین مصنّفین میں سے ہیں جو اپنے سائنس فکشن ناولوں کی بدولت مقبول تھے۔ اس کے علاوہ وہ کئی تاریخی، جاسوسی اور مہم جوئی پر مبنی ناولوں کے بھی خالق تھے۔ محبوب طرزی ہندوستان کے مشہور نسیم بک ڈپو، لکھنؤ سے وابستہ رہے۔

    ان کا تعلق افغانستان کے تاتارزئی قبیلے سے تھا اور اسی نسبت سے وہ اپنے نام کے ساتھ طرزی لکھتے تھے۔ ان کے آبا و اجداد بعد میں ہجرت کر کے لکھنؤ چلے گئے تھے اور وہیں محلہ حسین گنج میں خان محبوب طرزی نے آنکھ کھولی تھی۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم ویسلی مشن اسکول میں حاصل کی اوراس کے بعد اسلامیہ کالج سے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ بعد میں‌ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی گئے جہاں سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ علی گڑھ میں ہی وہ لکھنے کی طرف مائل ہوئے اور افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔ ان کے افسانے اپنے دور کے معروف ادبی پرچوں‌ اور جرائد میں شایع ہونے لگے۔

    خان محبوب طرزی کو ایک بسیار نویس کہا جاتا ہے اور اس کی ایک وجہ بڑے کنبے کی وہ مالی ضرویات بھی تھیں جن کو ایک سربراہ کی حیثیت سے محبوب طرزی کو بہرحال پورا کرنا تھا۔ سو، انھوں نے کئی کہانیاں دوسروں کے نام سے بھی لکھیں۔ انھوں نے کچھ عرصہ کے لیے قفل سازی کے ایک کارخانے میں سپر وائزر کے طور پر کام کیا۔ فوج میں اسٹور کیپر رہے، فلم سازی اور ہدایت کاری میں بھی خود کو آزمایا۔ کلکتہ کی کار دار کمپنی میں اسسٹنٹ کے طور پر کام کیا اور آر پی بھارگو کے ساتھ رقص و موسیقی کا پروگرام’’پرستان‘‘ کے نام سے پیش کیا۔ کچھ مدت تک لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے وابستہ رہے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر انھوں نے سائنیٹون فلم کمپنی میں ملازمت کی۔ پھر 1948ء میں خود فلم کمپنی قائم کی مگر کام یابی نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ نسیم انہونوی ان کے ایک ایسے شناسا تھے جو سمجھتے ہیں: "طرزی صاحب میرے خیال سے جس کام کے لیے پیدا ہوئے تھے وہ انھیں نہ مل سکا۔ وہ کام تھا فلم کا ڈائریکشن۔ میں نے طرزی صاحب سے بار بار کہا کہ طرزی صاحب ایک بار بال بچّوں کو بھول کر گھر سے راہِ فرار اختیار کیجیے اور بمبئی کی فلم کمپنیوں میں رسوخ حاصل کرنے کی کوشش کیجیے۔” طرزی صاحب یہ نہیں‌ کر سکے اور اخراجات کی فکر سے ہلکان ہوتے رہے۔

    خان محبوب طرزی کی علمی اور ادبی دل چسپیوں میں ترجمہ نگاری اور صحافت بھی شامل تھی۔ انھوں نے روزنامہ اودھ، روزنامہ اردو اور بعض دیگر اخبارات میں بھی کام کیا۔ یہاں بھی آسودگی ان کا مقدر نہ بنی۔ اور پھر وہ ناول نگاری میں پوری طرح مشغول ہوگئے۔ امین سلونوی جن سے خان محبوب طرزی کا بہت قریبی تعلق رہا، وہ کہتے ہیں: "وہ کہیں بھی رہے ناول نگار ہی رہے۔

    اگر اسے طرزی صاحب کا امتیازی وصف کہنا غلط نہ ہو تو وہ ایک ساتھ کئی ناول لکھنے والے بسیار نویس تھے۔ مائل ملیح آبادی کے بقول: "وہ بے پناہ لکھنے والے تھے۔ ان کا ہاتھ ٹائپ رائٹر تھا۔ لکھنے لگتے تھے تو لکھے ہوئے کاغذوں کا ڈھیر لگا دیتے۔ سب لوگ باتیں کرتے رہیں لیکن طرزی صاحب وہیں بیٹھے لکھتے رہیں گے اور کاغذ کے بعد کاغذ قلم کے نیچے سے نکلتا رہے گا… انہوں نے گھنٹوں کے حساب سے بھی دو تین سو صفحات کے ناول لکھے ہیں۔ لگ بھگ بارہ سو صفحات کا ناول مہینہ ڈیڑھ مہینہ میں کسی دوسرے مصنّف کے نام سے لکھ ڈالا۔ پھر اس کے بعد ہی سترہ اٹھارہ سو صفحات کسی اور مصنّف کے نام سے لکھ دیے۔”

    طرزی کی ناول نگاری کے بارے میں سلامت علی مہدی کہتے ہیں: "دنیا کی کسی زبان میں ایسا کوئی ناول نگار نہیں ہے جو تاریخی ناول بھی لکھے اور جاسوسی ناول بھی۔ جو دن کے ابتدائی حصے میں کسی سائنسی ناول کا مسودہ لکھے، دن کے آخری حصّہ میں کسی معاشرتی ناول کا حصّہ پورا کرے اور رات کو کسی رومانی ناول میں عورت کے حسن اور اس کے محبت بھرے دل کی کوئی نغمگیں کہانی بیا ن کرے۔”

    بیک وقت تین چار مختلف موضوعات پر کہانیاں بُننا بھی طرزی صاحب ہی کا کمال تھا۔ ہندوستانی ادیب احمد جمال پاشا نے لکھا ہے: ’’بات لکھنے لکھانے پر آئی تو عرض کرنے دیجیے کہ وہ دو تین دن میں چار پانسو صفحات کا ناول لکھ لیتے تھے جب کہ دوسرا محض لکھا ہوا ناول اس مدت میں نقل بھی نہیں کر سکتا۔ لطف یہ ہے کہ ان کے روز مرہ کے معمولات میں بھی فرق نہ آنے پاتا۔ خود بقول ان کے وہ لکھتے کیا تھے، اپنی تھکن اتارتے تھے۔ اسی کے ساتھ ساتھ سائنسی موضوعات و اسلامی سیاست پر مضامین بھی لکھتے رہتے۔ تقریباً تین سو کتابیں وہ ہیں جو خود ان کے نام سے چھپیں اور کتنے ناول لوگوں نے خرید کر اپنے نام سے چھپوا لیے اور مصنّف کہلائے۔‘‘

    خان محبوب طرزی کے قلم سے سیکڑوں ناول نکلے اور بڑی تعداد میں فروخت بھی ہوئے، لیکن بحیثیت ایک قلم کار وہ آسودگی ان کا مقدر نہیں بن سکی جس کے لیے وہ دن رات لکھنے میں مشغول رہے۔ اس مقبول ناول نگار نے 25 جون 1960ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    ان کا ایک ناول "اڑن طشتری” 1952 میں شایع ہوا تھا جس میں انھوں نے مسلمانوں کی شان دار تاریخ اور اسلاف کے کارناموں کو رجائیت پسندی کے ساتھ پیش کیا۔ اس ناول کا مرکزی خیال یہ تھا کہ نویں صدی عیسوی کے آخر میں اندلسی مسلمانوں کی سائنسی ایجادات سے دنیا ششدر رہ گئی ہے۔ اور موجودہ دور کے سائنس داں بھی ان ایجادات پر دنگ ہیں۔ ایک اندلسی انجنیئر اڑن طشتری بناتا ہے اور اپنے چالیس ساتھیوں کے ساتھ اس کے ذریعے ایک نئی دنیا میں جا کر آباد ہوجاتا ہے۔ پھر دورِ حاضر کا ایک سائنس داں ٹیلی ویژن کی مدد سے اس سیارہ کا پتہ لگا کر اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو لے کر وہاں پہنچتا ہے۔ ان کے اس ناول کے زیادہ تر کردار مسلمان ہی ہیں۔ ان کا یہ ناول ان کے مذہبی تشخص اور اس تفاخر کو اجاگر کرتا ہے جس کا بحیثیت مسلمان وہ شکار رہے کہ دوسرے سیارے پر بھی مسلمان ہی غالب ہیں اور بڑی فصیح و بلیغ عربی بولتے ہیں۔ اس ناول کے اہم کرداروں میں ایک مولوی، مولوی عبدالسلام بھی ہیں جو خلا نوردوں کی راہ نمائی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں خلائی سفر کے دوران بلکہ دوسرے سیارے پر باجماعت نماز بھی انہی مولوی کی اقتداء میں پڑھی جاتی ہے۔ ناول میں جابجا عربی مارکہ اردو اصطلاحات بھی ہیں جو اکثر مضحکہ خیز اور عام قاری کے لیے ان کو سمجھنا مشکل ہے۔ اس ناول کی چند کم زوریوں اور خامیوں کو نظر انداز کر دیا جائے تو یہ اس دور کا ایک دل چسپ ناول تھا، اور مزے کی بات یہ کہ ناول نگار نے خواتین خلا نوردوں کو بھی اس میں پیش کیا ہے مگر روایتی ملبوس اور بناؤ سنگھار میں مصروف دکھا کر خاصی حد تک مضحکہ خیزی پیدا کردی ہے۔

    محبوب خان طرزی سے متعلق اس تحریر میں اب ہم اردو کے ممتاز نقاد، ادیب اور شاعر شمسُ الرحمٰن فاروقی کے مضمون سے چند اقتباسات شامل کررہے ہیں جو ان کے فن اور تخلیقات پر روشنی ڈالتا ہے۔ فاروقی صاحب لکھتے ہیں: "آج کا زمانہ ہوتا تو خان محبوب طرزی پر دو چار رسالوں کے نمبر نکل چکے ہوتے، یا نمبر نہ سہی گوشے ضرورہوتے۔ ایک دو کتابیں بھی ان پر آچکی ہوتیں۔ لیکن وہ زمانہ اور تھا، اردو معاشرے میں تمول کی اتنی فراوانی نہ تھی، اور ہمارے ادیبوں کو بھی اپنی تشہیر سے زیادہ اپنی تحریر کی فکر تھی، کہ اچھے سے اچھا لکھا جائے۔ شہرت تو حاصل ہوتی رہے گی۔

    خان محبوب طرزی ہمارے ان ادیبوں میں تھے جنھوں نے قلیل معاوضے پر اپنی صلاحیتیں قربان کر دیں۔ اردو کا مفلوک الحال ادیب، کا یہ فقرہ ان پر صادق آتا ہے۔ وہ زمانہ بھی ایسا ہی تھا، اردو کو پوچھنے والے کم تھے اور کم ہوتے جارہے تھے۔ ایسے حالات میں اردو فکشن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے والے خان محبوب طرزی کو داد دینی پڑتی ہے۔ اردو میں سائنس فکشن کا انھیں موجد کہا جاسکتا ہے، اور اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ خان محبوب طرزی جیسا سائنس فکشن اردو میں پھر نہ لکھا گیا۔ اسرار اور مہم جوئی بھی ان کا ایک میدان تھا۔ پھر بچارے کو وہی وہانوی کے نام سے فحش یا نیم فحش افسانے اور مختصر ناول بھی لکھنے پڑے۔ مجھے وہی وہانوی کا کوئی ناول یاد نہیں آتا، لیکن اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ان ناولوں میں کوئی شاق انگیز بات نہ تھی اور آج کے معیاروں سے انھیں فحش شاید نہ بھی قرار دیا جائے۔

    طرزی صاحب کا پہلا ناول جو مجھے یاد ہے، "برق پاش” تھا۔ اس میں ایک تھوڑے سے جنونی سائنس داں نے لیسر کی طرح کی شعاعوں کو دور سے مار کرنے والے ہتھیار کی شکل میں تبدیل کر دیا تھا۔ تفصیل ٹھیک سے یاد نہیں، لیکن لیسر کا اس میں ذکر شاید نہ تھا، ہاں فاصلے سے بجلی کی طرح گرنے اور ہدف کو بے دریغ ہلاک کرنے کا مضمون ضرور تھا۔ اس سائنس داں نے کچھ طریقہ ایسا ایجاد کیا تھا کہ وہ لیسر کی قوت کو اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی میں مرتکز کر کے انگلی کے اشارے سے قتل کی واردات انجام دیتا تھا۔ ایک طرح سے اسے انگریزی کے ایک فرضی لیکن مقبول کردار "دیوانہ سائنس داں” کا نقشِ اول کہا جا سکتا ہے۔ پھر میں نے تلاش کر کے، اور کبھی کبھی خود خرید کر کے خان محبوب طرزی کے کئی ناول پڑھے۔ان میں سائنسی ناول "دو دیوانے” مجھے خاص طور پر یاد ہے کیونکہ اس کے مرکزی سائنس داں کردار نے دعویٰ کیا تھا کہ میں اپنے خلائی جہاز میں ابدُ الآباد کائنات کا چکر لگاتا رہوں گا اور سورج کی شعاعوں سے اپنی غذا حاصل کروں گا۔ اس کا انجام مجھے یاد نہیں، لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ سورج کی شعاعوں سے غذا حاصل کرنے کا تصور اس زمانے میں بالکل نیا تھا اور سائنس نے شاید اس وقت اتنی ترقی بھی نہ کی تھی کہ ایسا ممکن ہوسکے۔ اس ناول میں ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ خلا کے سفر کے دوران اس سائنس داں کو یہ بات معلوم ہوئی کہ آواز کبھی مرتی نہیں، مختلف طرح کی اور مختلف زبانوں کی تقریریں اور خطاب کائنات کے مختلف گوشوں میں اب بھی سنے جا سکتے ہیں۔ یہ خیال بھی، جہاں تک میں جانتا ہوں، بالکل نیا تھا۔ ایک اور ناول "سفرِ زہرہ” کا عنوان میرے ذہن میں رہ گیا ہے لیکن اس کے بارے میں اور کچھ مجھے یاد نہیں آتا۔

    "شہزادی شب نور” ناول میں مہم جوئی، اسرار اور جستجو کے کئی عنا صر موجود تھے۔ پورے ناول پر ایک خاموش، پر اسرار فضا چھائی ہوئی محسوس ہوتی تھی جن ناولوں کا میں ذکر رہا ہوں، انھیں میں نے آج سے کوئی ستر بہتر برس پہلے پڑھا تھا۔ ان کا دل کش نقش اب بھی باقی ہے، اگرچہ مطالعے کا ذوق مجھے جلد ہی انگریزی ادب کی طرف لے گیا۔

    میں سمجھتا تھا کہ طرزی صاحب کو آج کوئی نہیں جانتا اور مجھے اس کا رنج بھی تھا کہ اس زمانے میں اردو نے کئی مقبول ناول نگار دنیا کو دیے تھے: رشید اختر ندوی، رئیس احمد جعفری، قیسی رامپوری، اے۔ آر۔ خاتون، اور ان سے ذرا پہلے منشی فیاض علی اور ایم۔ اسلم۔ اِن میں کوئی ایسا نہ تھا جو خان محبوب طرزی کی طرح کا ابداع اور تنوع رکھتا ہو۔”

    دوسری طرف طرزی صاحب کے بارے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ بسیار نویسی نے ان کے ناولوں کو معیار سے دور کر دیا تھا۔ اس ضمن میں سید احتشام حسین لکھتے ہیں: ’’ یہ ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے کہ بعض مصنفوں کو تاریخ اپنے دامن میں جگہ نہیں دیتی لیکن اس کے پڑھنے والے اس کی تحریروں کے منتظر رہتے ہیں۔ ادبی تنقید کا یہ بڑا پیچیدہ مسئلہ ہے اور ادیب کی وقتی مقبولیت اس کی کام یابی ہے یا تھوڑے سے ایسے لوگوں کا متاثر ہونا جو ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ محبوب طرزی اعلیٰ ادبیات سے دل چسپی لینے والوں میں مقبول نہیں تھے لیکن ان کی کتابیں چھپتی اور بکتی تھیں اور بعض کتابیں اتنی مقبول تھیں کہ ان کے کئی کئی اڈیشن شائع ہوئے۔

  • باسو چٹر جی:‌ وہ ہدایت کار جس نے سنیما پر ‘حقیقت نگاری’  کو اہمیت دی

    باسو چٹر جی:‌ وہ ہدایت کار جس نے سنیما پر ‘حقیقت نگاری’ کو اہمیت دی

    ہندی سنیما کے لیے موضوعات کبھی اساطیر سے لیے گئے، کسی نے جنگ و جدل کو موضوع بنایا، کسی نے ناول کو پردے کے مطابق ڈھالا اور کسی فلم ساز نے سیاسی یا سماجی تحریک کے زیرِ اثر فلمیں بنا کر شائقین کو متوجہ کرنا چاہا، لیکن بھاری سرمائے یا کم بجٹ میں بنائی گئی فلمیں ہوں، بہ طور ہدایت کار باسو چٹر جی ان کی کام یابی یا ناکامی سے خوف زدہ نہیں ہوئے اور حقیقی زندگی کو بڑے پردے پر پیش کیا۔

    پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ناقدین کے مطابق ہندوستانی سنیما کو جتنے بڑے فن کار اور آرٹسٹ ملے، اتنی ہی زور دار فلمیں بھی سامنے آئیں۔ یہ بہترین فلمیں، ان کے یادگار نغمات اور لازوال موسیقی آج بھی اُس دور کے ایسے فلم سازوں اور ہدایت کاروں کی یاد تازہ کر دیتی ہیں، جن کے تخلیقی وفور اور صلاحیتوں نے شاہ کار فلمیں بنائیں۔ ہدایت کار اور اسکرین پلے رائٹر باسو چٹر جی انہی میں سے ایک تھے۔

    اُن کے کام کی بات کی جائے تو سارا آکاش، رجنی گندھا، چھوٹی سی بات، اس پار، کھٹا میٹھا، باتوں باتوں میں، ایک رکا ہوا فیصلہ اور چنبیلی کی شادی جیسی فلمیں ان کا تعارف و روشن حوالہ بنیں۔

    رجنی گندھا (1974) اور چھوٹی سی بات (1975) کی وہ فلمیں تھیں جن کی بدولت ان کا نام ایک فلم ساز اور اسکرین پلے رائٹر کے طور پر مشہور ہوا۔ باسو چٹر جی 93 سال تک زندہ رہے اور 2020ء میں ممبئی میں دَم توڑا۔ ان کی اکثر فلمیں متوسط طبقے کے گھرانوں کی عکاس ہیں اور ان فلموں میں شادی شدہ جوڑوں کی زندگی، اتار چڑھاؤ اور پیار محبت دیکھا جاسکتا ہے۔

    بہ طور ہدایت کار باسو چٹر جی کی پہلی فلم 1969 میں ریلیز ہوئی تھی جس کا نام سارا آکاش تھا۔ اس فلم کو بعد میں بہترین اسکرین پلے کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا تھا۔ شائقین نے بھی اس فلم کو بہت پسند کیا تھا۔ باسو چٹرجی وہ فلم ساز تھے جنھوں نے اس دور کے کئی آرٹسٹوں کو ایسے رول دیے، جن سے انھیں شہرت ملی اور ان کے فنی سفر میں وہ کردار ایک اچھا اضافہ تھے۔ انھوں نے متھن چکرورتی کے ساتھ فلم بنام شوقین بنائی۔ ونود مہرا کے ساتھ اُس پار، جیتندر اور نیتو سنگھ کے ساتھ پریتما، دیو آنند کے ساتھ من پسند، دھرمیندر اور ہیما مالنی کو دل لگی میں کردار دیا اور امیتابھ بچن کے ساتھ فلم منزل بنائی تھی۔ باسو چٹر جی کی فلموں نے سماجی موضوعات پر بہترین فلموں کے متعدد ایوارڈز اپنے نام کیے۔

    وہ ہندی فلموں کے ایک بنگالی نژاد ہدایت کار تھے جنھوں نے ہلکے پھلکے اور عام فہم انداز میں اہم موضوعات پر فلمیں بنا کر شہرت حاصل کی۔ باسو چٹر جی 1930ء میں اجمیر (راجستھان) میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ 50ء کی دہائی میں قسمت آزمانے بمبئی منتقل ہوگئے۔ ان کا ایک حوالہ وہ کارٹون بھی ہیں، جو انھوں نے نوجوانی میں بنانا شروع کیے تھے اور ان کی اشاعت ہفت روزہ "بلٹز” میں باقاعدگی سے ہوتی تھی۔ انھوں نے دس بارہ سال تک کارٹونسٹ کے طور پر بھی کام کیا۔

    بمبئی آنے کے بعد باسو چٹرجی کو جلد ہی بہ طور ہدایت کار فلم مل گئی۔ 1969ء میں ان کی فیچر فلم "سارا آکاش” ریلیز ہوئی جو نہ صرف کام یاب ہوئی بلکہ اسے لاجواب فوٹوگرافی کا ایوارڈ بھی ملا۔ اس کے بعد ان کی دو جذباتی اور حساس موضوعات پر فلمیں سامنے آئیں اور پھر وہ دل چسپ اور مزاحیہ انداز میں "رجنی گندھا” اور "چھوٹی سی بات” جیسی عام لوگوں کے مسائل پر فلمیں تخلیق کرنے لگے اور کام یاب رہے۔

    چٹرجی ایک باکمال کے ہدایت کار تھے جنھوں نے فارمولہ فلموں میں بھی جذبات و احساسات کی نمائش بہت سلیقے سے کی۔ وہ ایک منجھے ہوئے ہدایت کار اور تجربہ کار فلم ساز تھے جس نے 1993ء تک جتنی بھی فلمیں اور ٹی وی سیریل بنائے، وہ کام یاب اور بے حد مقبول بھی رہے۔ ان کے کام نے نہ صرف عام آدمی کو متاثر کیا بلکہ اعلیٰ طبقے میں بھی ان کی فلمیں بہت پسند کی گئیں۔ باسو چٹر جی نے کُل 42 فلمیں بنائیں اور یہ سب کسی نہ کسی حوالے سے یادگار ثابت ہوئیں۔

    باسو کے والد اُتر پردیش کے شہر متھرا میں بسلسلہ ملازمت اقامت پذیر تھے۔ باسو نے وہیں اپنی زندگی کو محسوس کیا اور نوجوانی میں فلمیں دیکھتے ہوئے وقت گزارا۔ اسی فلم بینی نے ان کے اندر چھپے فن کار اور باصلاحیت نوجوان کو بمبئی جانے پر اکسایا اور وہ بیس اکیس برس کے تھے جب بمبئی میں ایک ملٹری اسکول میں لائبریرین مقرر ہوگئے۔ اسی دور میں کارٹونسٹ ہوئے اور وہ وقت بھی آیا جب باسو چٹر جی نے اطالوی، فرانسیسی اور دوسرے ممالک کی فلمیں دیکھ کر یہ جانا کہ اس میڈیم کا دائرہ بہت وسیع ہے اور تفریح تفریح میں فلم کی طاقت سے کوئی کام لیا جاسکتا ہے۔

    باسو چٹر جی خود کو ایک عام آدمی کہتے تھے اور ان کے مطابق وہ عام لوگوں میں رہتے تھے، بس میں سفر کیا کرتے تھے۔ اس دوران وہ اپنے ارد گر لوگوں کی خوشیوں کو دیکھتے، اور ان کا دکھ درد اور غم بھی سنتے رہے۔ یہی ان کے نزدیک زندگی تھی اور پھر وہ اس سے باہر نہیں نکل سکے۔ ان سے وہ فلمیں نہیں بنیں جن میں ایک آدمی جسے فلم میں ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اپنے سے بھاری بھرکم اور طاقت ور دکھائی دینے والے دس، پندرہ لوگوں سے بھڑ جاتا ہے، اور جیت اُسی کی ہوتی ہے۔ انھوں نے زندگی کو جیسا دیکھا، کوشش کی کہ اُسی طرح فلم کے پردے پر بھی پیش کردیں۔