Tag: جون برسی

  • کیتھرین ہیپبرن: فلمی صنعت سے فیشن انڈسٹری تک

    کیتھرین ہیپبرن: فلمی صنعت سے فیشن انڈسٹری تک

    کیتھرین ہیپبرن کہتی تھیں‌ کہ پسِ مرگ بھی انھیں یاد کیا جاتا رہے گا۔ آسکر ایوارڈ یافتہ اداکارہ ہیپبرن پُرکشش شخصیت کی مالک اور ایسی خاتون تھیں جس نے اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کی اور اپنے غیر روایتی طرزِ عمل کے لیے بھی مشہور رہیں۔

    خوب صورت اور نازک اندام ہیپبرن ایک امیر اور نہایت خوش حال گھرانے کی فرد تھیں۔ انھیں ہر قسم کی آسائش میسّر تھی اور اس آسودہ حالی کے ساتھ بطور اداکارہ ان کا کیریئر شان دار کام یابیوں سے بھرا ہوا ہے۔

    کیتھرین ہیپبرن کا تعلق امریکا سے تھا۔ وہ 12 مئی 1907 کو پیدا ہوئیں۔ ہیپبرن اپنے والدین کی چھٹی اولاد تھیں، ان کی پرورش ایسے ماحول میں ہوئی تھی جہاں بولنے اور سوال کرنے کی آزادی تھی۔ یہ خاندان بچّوں کے شوق اور رجحان کی حوصلہ افزائی کرتا تھا۔ اس ماحول کی پروردہ ہیپبرن بھی بہت پُراعتماد اور باہمّت نکلیں۔ ان کے والد اس دور کے مشہور سرجن تھے جب کہ ہیپبرن کی والدہ انسانی حقوق کی علم بردار اور سماجی کارکن کی حیثیت سے پہچانی جاتی تھیں۔ ہیپبرن نے ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے تاریخ اور فلسفے کے مضامین میں گریجویشن کی سند حاصل کی۔

    اسٹیج کی دنیا سے ہیپبرن نے اداکاری کا آغاز کیا تھا۔ وہ نیویارک کے مشہور براڈوے تھیٹر سے منسلک ہوئیں اور اس کے پیش کردہ ڈراموں میں کئی چھوٹے بڑے کردار نبھائے جنھیں شائقین نے سراہا۔ اسٹیج ڈراموں میں پہچان بنانے کے بعد وہ ہالی وڈ فلموں میں نظر آئیں۔

    اپنی متأثر کن اداکاری کی وجہ سے ہیپبرن نے جلد ہی شائقین کے ساتھ ساتھ ناقدین کو بھی اپنی جانب متوجہ کرلیا۔

    فلموں‌ میں‌ اپنی شان دار پرفارمنس پر کیتھرین ہیپبرن نے چار اکیڈمی ایوارڈ اپنے نام کیے اور متعدد دوسری فلموں میں‌ کردار نگاری پر ان کا نام اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زد کیا گیا۔

    ہیپبرن کی پہلی فلم 1932ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اُس دور میں ہیپبرن کو زیادہ تر ایسی عورت کے روپ میں اسکرین پر دیکھا گیا جو خود مختار اور حقوقِ نسواں کی حامی تھی۔ ہیپبرن کی چند کام یاب فلموں میں مارننگ گلوری، فلاڈلفیا اسٹوری، دی افریقن کوئین، لٹل وومن، ہالی ڈے، وومن آف دی ایئر شامل ہیں۔

    ہالی وڈ اداکارہ کیتھرین ہیپبرن کو پہلا اکیڈمی ایوارڈ 1933ء میں دیا گیا اور یہ اعزاز فلم مارننگ گلوری میں بہترین اداکاری پر اُن کے حصّے میں‌ آیا تھا۔ فلاڈیلفیا اسٹوری کو ہالی وڈ کی کلاسیک فلم کہا جاتا ہے جس میں‌ ہیپبرن نے بے مثال اداکاری سے فلم بینوں کو اپنا مداح بنا لیا تھا۔

    امریکی ثقافت میں اداکارہ کو ان کے فیشن اور اسٹائل کی انفرادیت کے ساتھ ایک ایسی خاتون کے طور پر بہت بااثر خیال کیا جاتا ہے جو معاشرے میں اپنے حقوق اور آزادی کو اہمیت دیتی تھی۔

    کیتھرین ہیپبرن نے اسٹیج، اور فلم کے بعد ٹی وی کے لیے بھی اداکاری کی اور اپنی پرفارمنس پر ایوارڈ حاصل کیے۔ انھیں امریکا میں فیشن انڈسٹری نے بھی متعدد اعزازات سے نوازا۔ اس خوب صورت اداکارہ کا نام بیسویں صدی کی اُن عورتوں‌ میں سرِفہرست رہا ہے جو فن اور ثقافت کی دنیا میں‌ اپنے خیالات اور کارناموں کے سبب مشہور ہوئیں۔

    1999ء میں امریکی فلم انسٹیٹیوٹ نے ہیپبرن کو عظیم اداکارہ قرار دیا تھا۔ اداکارہ 2003 میں آج ہی کے روز دنیا سے رخصت ہوئی تھیں۔ وہ 96 برس کی تھیں۔

    امریکی ثقافت میں کیتھرین ہیپبرن کی حیثیت آج بھی برقرار ہے۔

  • نمک دان والے مجید لاہوری کا تذکرہ

    نمک دان والے مجید لاہوری کا تذکرہ

    مجید لاہوری کا نام طنز و مزاح نگاری اور معروف ادبی رسالے نمک دان کے مدیر کی حیثیت سے اردو ادب میں‌ ہمیشہ زندہ رہے گا، لیکن نئی نسل کے باذوق قارئین کی اکثریت ان سے کم ہی واقف ہے۔ آج مجید لاہوری کی برسی منائی جارہی ہے۔

    مجید لاہوری پاکستان کے نام وَر مزاح نگار اور مقبول کالم نویس تھے جنھوں نے نثر اور نظم دونوں اصنافِ ادب میں اپنی ظرافت اور حسِ مزاح پر داد پائی۔ مجید لاہوری کا رنگ جداگانہ ہے اور وہ اپنے ہم عصروں میں اپنے موضوعات اور اسلوب کی وجہ سے نمایاں ہوئے۔ نمک دان پندرہ روزہ ادبی رسالہ تھا جو ملک بھر میں مقبول تھا جب کہ ان کے کالم روزنامہ جنگ میں شایع ہوتے تھے اور علمی و ادبی حلقوں‌ کے علاوہ عام لوگوں‌ میں پسند کیے جاتے تھے۔ مجید لاہوری کی تحریروں کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ عوام کی بات کرتے اور بالخصوص اپنے کالموں میں‌ مسائل پر ظریفانہ انداز میں اربابِ اختیار کی توجہ مبذول کرواتے۔

    26 جون 1957 کو مجید لاہوری کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس وقت پاکستان میں ایشین انفلوئنزا نامی وبا پھیلی تھی اور مجید لاہوری بھی اس کا شکار ہوگئے تھے۔ ان کا اصل نام عبدالمجید چوہان تھا۔ وہ 1913 میں پنجاب کے شہر گجرات میں پیدا ہوئے۔ تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے مجید لاہوری نے 1938 میں روزنامہ انقلاب، لاہور سے اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا اور اس کے بعد کئی اخبارات میں ذمہ داریاں نبھائیں۔ وہ محکمہ پبلسٹی سے بھی وابستہ رہے۔ 1947 میں کراچی آگئے اور انصاف، انجام اور خورشید میں خدمات انجام دینے کے بعد قومی سطح کے کثیرالاشاعت روزنامے سے وابستہ ہوگئے اور "حرف و حکایت” کے عنوان سے کالم لکھنا شروع کیا۔ یہ سلسلہ تادمِ مرگ جاری رہا۔ ان کا آخری کالم بھی ان کی وفات سے ایک روز قبل شایع ہوا تھا۔

    وہ لحیم شحیم، اور خوب ڈیل ڈول کے انسان تھے۔ دیکھنے والوں کو گمان گزرتا کہ وہ پہلوان رہے ہیں۔ شورش کاشمیری نے ایک مرتبہ مجید کا حلیہ اس طرح بیان کیا، ’بال کبھی مختلفُ البحر مصرعے ہوتے، کبھی اشعارِ غزل کی طرح مربوط۔ آنکھیں شرابی تھیں اور گلابی بھی۔ لیکن انہیں خوبصورت نہیں کہا جاسکتا تھا۔ چہرہ کتابی تھا۔ ناک ستواں۔ ماتھا کُھلا لیکن اتنا کشادہ بھی نہیں کہ ذہانت کا غماز ہو۔ مسکراتے بہت تھے، معلوم ہوتا لالہ زار کِھلا ہوا ہے یا پھر رم جھم بارش ہورہی ہے۔ اچکن پہن کر نکلتے تو معلوم ہوتا کہ گرد پوش چڑھا ہوا ہے۔ ورنہ سیدھے سادے اور موٹے جھوٹے کپڑوں میں اکبر منڈی لاہور کے بیوپاری معلوم ہوتے تھے۔ عمر بھر اپنی ہی ذات میں مگن رہے۔ کسی انجمن ستائش باہمی سے رابطہ پیدا کیا نہ ایسی کسی انجمن کے رکن رہے۔ وہ ان جھمیلوں سے بے نیاز تھے۔ ان کا اپنا وجود ایک انجمن تھا۔‘

    مجیدؔ لاہوری نے طنز و مزاح کے لیے نثر اور نظم دونوں اصناف کا سہارا لیا۔ ان کا ذہن اور قلم معاشرے کے سنجیدہ اور سنگین مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے طبقاتی فرق، ناہم واریوں، سیاست اور سماج کی کم زوریوں کو سامنے لاتا رہا۔ ان کی تخلیقات میں غربا کے لیے رمضانی، مذہبی سیاسی لیڈروں کے لیے گل شیر خاں، چور بازار دولت مندوں کے لیے ٹیوب جی ٹائر جی اور کمیونسٹوں کے لیے لال خاں کی علامتیں پڑھی جاسکتی ہیں جو ان کے قارئین میں بے حد مقبول ہوئیں۔

    تحریف کے وہ ماہر تھے۔ اور اس کے ذریعے نہایت شگفتہ اور لطیف پیرائے میں‌ اپنا مافی الضمیر قارئین تک پہنچا دیتے تھے۔ مجید لاہوری نے نہ صرف اپنی تحریروں سے نمک دان کو سجایا بلکہ ملک بھر سے ادیبوں اور شاعروں کی معیاری تحریروں کا انتخاب کر کے قارئین تک پہنچاتے رہے۔

    ان دنوں ملک میں گویا مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے اور مزدور پیشہ یا غریب تو روزی روٹی کو ترس ہی رہا ہے، مگر ایک برس کے دوران متوسط طبقہ اور تنخواہ دار افراد بھی اس گرانی کے سبب نڈھال ہوچکے ہیں۔ اس پس منظر میں مجید لاہوری کی یہ نمکین غزل ملاحظہ کیجیے۔

    چیختے ہیں مفلس و نادار آٹا چاہیے
    لکھ رہے ہیں ملک کے اخبار آٹا چاہیے

    از کلفٹن تا بہ مٹروپول حاجت ہو نہ ہو
    کھارا در سے تا بہ گولی مار آٹا چاہیے

    مرغیاں کھا کر گزارہ آپ کا ہو جائے گا
    ہم غریبوں کو تو اے سرکار، آٹا چاہیے

    اور یہ شعر دیکھیے۔

    فاقہ کش پر نزع کا عالم ہے طاری اے مجید
    کہہ رہے ہیں رو کے سب غم خوار آٹا چاہیے

    آج اس ملک میں رہائشی مقصد کے لیے زمین اور اس پر گھر تعمیر کروانا تنخواہ دار طبقہ کے لیے ممکن نہیں‌ رہا۔ لوگوں کی اکثریت ذاتی گھر خریدنے کا تصور بھی نہیں‌ کرسکتی اور کرائے کے گھروں میں ان کا قیام ہے۔ مجید لاہوری کا یہ شعر ایسے ہی لوگوں کی بے بسی کو اجاگر کرتا ہے۔

    چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
    رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمارا

  • بہادر یار جنگ:‌ ملنے کے نہیں نایاب ہیں…..

    بہادر یار جنگ:‌ ملنے کے نہیں نایاب ہیں…..

    آج آزادیٔ ہند کے بڑے حامی اور تحریکِ پاکستان کے عظیم راہ نما نواب بہادر یار جنگ کا یومِ وفات ہے۔ بہادر خاں نے بہت کم عمر پائی تھی۔ 1905ء میں پیدا ہوئے اور 1944ء میں اس فانی زندگی سے نجات پا گئے۔ یوں دیکھیے تو ان کے مقدّر میں زندگی کی چالیس بہاریں بھی نہ آسکیں، لیکن اسی مختصر عمر میں نام و مقام، عزّت و مرتبہ بھی حاصل کیا اور دلوں پر اپنا نقش چھوڑ گئے۔

    مسلم لیگ کے سرگرم راہ نما، مسلمانوں کے قائد اور خطیبِ سحرُ البیان کی حیثیت سے مشہور بہادر یار جنگ 25 جون 1944 کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ یہاں ہم بانیٔ کُل ہند مجلسِ تعمیرِ ملّت اور اقبال اکیڈمی کے صدر سید خلیل اللہ حسینی کی ایک تحریر نقل کررہے ہیں‌ جنھیں بہادر یار جنگ کی رفاقت نصیب ہوئی تھی۔ سید خلیل اللہ حسینی لکھتے ہیں، "بہادر خاں اگر صرف خطیب ہوتے تو اپنی ساری مشّاقیِ خطابت اور مقررانہ عظمت کے باوجود پھر بھی قائدِ ملّت نہ ہوتے۔ اگر ان کی غیر معمولی تنظیمی صلاحیت کی تعریف مقصود ہے تو بلاشبہ اس میدانِ اجتماعی میں بھی وہ اپنی نظیر آپ تھے، لیکن تنظیمی صلاحیت ان کی عظمت کا راز نہ تھی۔”

    "اگر ان کی دل موہ لینے والی قد آور شخصیت کی ستائش کی جاتی ہے تو بھی بے جا ہے کہ ایک عظیم اور پُراسرار شخصیت اپنے دلربا تبسم سے دلوں کو مٹّھی میں لے لیتی ہے اور دلوں کو مسخّر کرنے کا ان کا فن خوبانِ شہر کے لیے بھی باعثِ صد رشک و حسرت تھا لیکن یہ دلآویزیِ طبع بجائے خود عظمتِ بہادر خاں کی کلید نہیں ہے۔”

    "بہادر خان کی عظمت کا راز یہ تھا کہ وہ ایک انسان تھے، انسانوں کی دنیا میں انسان تھے اور یہی بڑی غیر معمولی بات ہے!”

    "لوگوں سے ملنے جلنے کے انداز، چھوٹوں سے محبت، اور بڑوں کا ادب، ان صفات کا پیکر میں نے تو صرف بہادر خان کو دیکھا۔ چھوٹوں سے شفقت کا تو میں بھی گواہ ہوں۔ میں ایک کم عمر طالب علم کی حیثیت سے درسِ اقبال کی محفلوں میں جاتا اور کسی کونے میں بیٹھ جاتا۔”

    "ایک مرتبہ وہ میرے قریب آئے۔ نام پوچھا، تعلیم کے بارے میں سوال کیا اور ہمّت افزائی کے چند کلمات کہے، بات آئی گئی ہو گئی۔”

    "اب اس کے بعد یہ حالت ہو گئی کہ وہ موٹر میں جارہے ہوں اور میں سائیکل پر، لیکن سلام میں پہل ہوتی موٹر میں سے۔ پہلی مرتبہ جب دار السلام روڈ پر ایسا سابقہ ہوا تو جواب دینے میں غالباً میرے دونوں ہاتھ اٹھ گئے اور میں سائیکل سے گرتا گرتا بچا۔”

    "ایک چپراسی صاحب، بہادر خان کے بڑے اعتماد کے کارکن تھے۔ ایک دفعہ جب وہ ملنے گئے اور کمرہ میں بلا لیے گئے تو بچارے ٹھٹک سے گئے۔ کیوں کہ اس وقت بہادر خان سے ان کے ناظم صاحب مصروفِ تکلم تھے۔ بہادر خان نے بات کو تاڑ لیا اور کہا کہ آپ چپراسی ہوں گے دفتر میں، میرے پاس تو سب برابر ہیں بلکہ آپ تو میرے رفیق ہیں۔ یہ کہہ کر ان کو اپنے بازو صوفہ پر بٹھا لیا۔”

    "ایسے واقعات کا انبار لگایا جا سکتا ہے اور ایسا واقعہ بہادر خان کی شرافت، خلوص، انسانی محبت اور جذبۂ خدمت کا ثبوت دیتا رہے گا۔ بہادر خاں کا حال پہاڑ کی بلند چوٹی کا سا تھا۔ دور سے دیکھیے تو جاہ و جلال کا منظر، قریب ہوتے جائیے تو آنکھوں کو ٹھنڈک، دل کو طراوت اور طبیعت کو تازگی ملتی۔ پھر دنیا کا منظر ہی کچھ اور حسین نظر آتا۔”

    پروفیسر خواجہ قطب الدّین نے ان کی برسی کے موقع پر ایک مضمون پڑھا تھا جس کے چند پارے پیشِ‌ خدمت ہیں۔ وہ لکھتے ہیں، محمد بہادر خان فروری 1905ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت کے چند دن بعد ہی ان کی والدہ وفات پاگئیں۔ بہادر خان کی نانی نے جو ایک نہایت سمجھ دار اور مذہبی خاتون تھیں ان کی پرورش کی۔ اٹھارہ سال کے ہوئے تو والد کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ والد کے انتقال کے وقت جاگیر قرضوں کے بوجھ سے دبی ہوئی تھی۔ نواب صاحب نے غیر معمولی تدبّر اور انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور تھوڑی سی مدّت میں قرضوں سے نجات حاصل کرلی۔ جاگیر کے حالات سنبھل گئے تو نواب صاحب نے حج بیتُ اﷲ کا عزم کیا۔ حج سے فارغ ہوکر مسلم ممالک کی سیاحت کی، سیّاحت سے واپسی کے بعد خاکسار تحریک سے وابستگی اختیار کرلی اور ساتھ ہی ریاست کی ایک سیاسی و مذہبی تنظیم مجلسِ اتحادُ المسلمین میں بھی شامل ہوگئے۔

    1944ء میں وہ خاکسار تحریک سے علیحدہ ہوگئے اور اپنی ساری توجہ مجلسِ اتحادُ المسلمین کی طرف مرکوز کردی۔ انھوں نے مجلس میں ایک رضاکار تنظیم قائم کی۔ بہادر یار جنگ کی قائدانہ صلاحیتوں نے مسلمانانِ حیدر آباد(دکن) میں ایک نیا قومی جذبہ پیدا کردیا۔

    سیاست میں ان کے ہیرو قائدِ اعظم تھے جن کی زندگی سے انھوں نے عزم و ثبات کا سبق سیکھا تھا۔ ان میں قائدِاعظم کی سی اصول پرستی تھی اور وہی بے باکی اور صاف گوئی۔ وہ نڈر اور جری تھے۔ مجاہد کی طرح ہر محاذ پر ڈٹ جاتے اور غازی کی طرح کام یاب اور کام ران رہتے۔

    دوسری خصوصیت ان کی خطابت تھی۔ قدرت نے انھیں یہ نعمت بطورِ خاص عطا کی تھی اور اس کا استعمال بھی انھوں نے ہر موقع اور ہر محل پر صحیح کیا۔ بغیر کسی تیاری کے وہ ہر موضوع پر بے تکان بولتے تھے۔ انھوں نے تحریکِ پاکستان کو فروغ دینے میں جس خلوص و تن دِہی سے حصہ لیا تھا اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ اسلام کے بڑے شیدائی تھے۔ ان کی دلی تمنّا تھی کہ ایک ایسی مملکت برصغیر کے اندر بنائی جائے جہاں اسلامی آئین و قوانین نافذ ہوں۔

    بہادر یار جنگ کی تحریر بھی زبردست ہوا کرتی تھی جس کا اندازہ "میں مطالعہ کس طرح کرتا تھا؟” کے عنوان سے اس عظیم راہ نما کے مضمون سے کیا جاسکتا ہے۔ ان کا یہ مضمون 1942ء میں شایع ہوا تھا۔ بہادر یار جنگ لکھتے ہیں: "میری حالت ان نوجوانوں سے مختلف نہ تھی جو ابتدائی درسی کتابوں سے فارغ ہو کر عام مطالعہ کی ابتدا کرتے ہیں۔”

    "اس عمر میں جب کہ دماغی صلاحیتیں پوری طرح ابھری ہوئی نہیں ہوتیں اچھی اور بری کتاب کی تمیز بہت کم ہوتی ہے۔ قصص اور حکایات مبتدی کی توجہ کو جلد اپنی طرف پھیر لیتے ہیں۔ میرے مطالعہ کی ابتدا بھی حکاایت و قصص سے ہوئی۔”

    "مدرسہ اور گھر پر اساتذہ کی گرفت سے چھوٹنے کے بعد جو اوقاتِ فرصت مل جاتے وہ زیادہ تر کسی ناول یا افسانہ کی نذر ہو جایا کرتے تھے۔ کھیل کود سے مجھے کچھ زیادہ دل چسپی نہ تھی۔ یا سچّی بات یہ ہے کہ کھیل کود کے قابل ہی نہیں بنایا گیا تھا۔ قد کی بلندی نے اب اعضا میں تھوڑا تناسب پیدا کر دیا ہے۔ ورنہ اپنی عنفوانِ شباب کی تصویر دیکھتا ہوں تو موجودہ متحارب اقوام کے بنائے ہوئے کسی آتش افروز بم کی تشبیہ زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔ چار قدم چلتا تھا تو ہانپنے لگتا تھا اور کھیلنے کے بجائے خود دوسروں کے لیے تماشہ بن جاتا تھا۔ اس لیے میری زندگی کا عملی دستور "اگر خواہی سلامت برکنار است” تھا۔ نگاہیں کبھی کھیلتے ہوئے احباب پر پڑتی تھیں اور کبھی صفحاتِ کتاب کے میدان میں دوڑنے لگتی تھیں اور جب پلے گراؤنڈ سے اٹھ کر گاڑی میں سوار ہوتا تو مدرسہ سے گھر پہنچنے تک ناول کے ایک دو باب ضرور ختم ہو جاتے تھے۔”

    "رفتہ رفتہ اس شوق نے جنون کی شکل اختیار کر لی۔ عمر جیسے جیسے بڑھتی گئی یہ جنون ویسے ویسے اعتدال پر آتا گیا۔ ایک طرف موضوعِ مطالعہ میں تبدیلی ہوئی اور افسانوں اور حکایات کی بجائے سوانح عمری اور سیرت کا مطالعہ شروع ہوا اور مطالعہ کے اوقات متعین و معین ہونے لگے۔”

    "بیسویں صدی عیسوی کے ہر نوجوان کی طرح شاعری کا خبط شعور کی ابتدا کے ساتھ پیدا ہو چکا تھا اور شوقِ شعر گوئی نے شعرا کے تذکروں اور دواوین کی طرف متوجہ کردیا تھا۔ آج اپنے کلام کا پرانا نمونہ سامنے آجاتا ہے تو بے اختیار ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگتی ہے۔ لیکن آج سے 25 برس قبل ہم اپنے آپ کو غالب اور ذوق سے کچھ زیادہ نہیں تو کم بھی نہ سمجھتے تھے۔ ہماری شعر گوئی اور مطالعۂ دواوین کا سب سے اچھا وقت صبح کے ابتدائی لمحات ہوا کرتے تھے۔ لیکن جیسے جیسے ادب نے ایک معیاری کیفیت پیدا کی تو خود بخود یہ احساس ہونے لگا کہ شاعر پیدا ہوتا ہے، بنتا نہیں۔ اور ہماری میز سے ہٹ کر دواوین الماریوں کی زینت بنتے گئے۔ اور بانگِ درا کے سوا میز پر کچھ باقی نہیں رہا۔ آخری دور میں اگر کسی کے کلام نے اقبال کے کلام کا ساتھ دیا تو وہ مولوی روم کی مثنوی اور سعدی کی گلستاں تھی۔”

    "مطالعہ کا طریقہ یہ تھا کہ ایک پنسل ہاتھ میں اور ایک نوٹ بک جیب میں ہوتی۔ میرے کتاب خانے میں مشکل سے کوئی کتاب ہوگی جس پر تاریخ ابتداء اور انتہائے مطالعہ درج نہ ہو۔ جو فقرے ادبی، تاریخی یا کسی اور حیثیت سے پسندیدہ ہوتے اس پر یا تو کتاب ہی میں نشان لگا دیا جاتا اور بار بار اس پر نظر ڈالی جاتی یا پھر نوٹ بک پر درج کرلیا جاتا اور اس کو یاد کرنے کی کوشش کی جاتی۔ والدِ مرحوم کی خدمت میں شمالی ہند کے اکثر اصحاب تشریف لایا کرتے تھے۔ ان کی گفتگو سن کر اپنی زبان کے نقائص کا احساس بڑھتا گیا۔ نتیجہ سب سے زیادہ توجہ زبان کی درستی پر مرکوز رہی۔ کوئی اچھی ترکیب سے کوئی نئی تشبیہ، کوئی انوکھا استعارہ نظر سے گزرتا تو سب سے بڑی فکر یہ دامن گیر ہوجاتی تھی کہ اس کو جلد سے جلد صحیح طریقے پر اپنی گفتگو میں استعمال کر لیا جائے۔”

    "جب ہم اپنے گھر میں جوان اور بڑے سمجھے جانے لگے تو ہماری بیٹھک کے کمرے الگ کر دیے گئے تھے اور احباب کی محفلیں جمنے لگی تھیں۔ لغویات سے فطرتاً نفرت تھی۔ علم و ادب زندگی کا سب سے دل چسپ مشغلہ بن گئے تھے۔ ابتداً محض تفریح کے طور پر میں نے اپنے احباب کے ساتھ مل کر مطالعہ کرنا شروع کیا۔ یعنی یہ ہوتا کہ الہلال، ہمایوں، ہزار داستان، معارف، زمانہ یا کوئی اور معیاری ادبی و علمی رسالہ یا کوئی اچھی کتاب کسی ایک صاحب کے ہاتھ میں ہوتی اور اکثر میں ہی قاری کی خدمت انجام دیا کرتا۔ ایک ایک فقرے پر اکٹھے خیال آرائیاں ہوتیں، اختلاف و اتفاق ہوتا۔ بحث و تکرار ہوتی اور یہ بحث دماغ کے صفحہ پر خیالات کے کبھی نہ مٹنے والے تسامات کا باعث بنتی۔”

    "تجربے نے بتلایا کہ خاموش اور انفرادی مطالعہ سے یہ مشترک مطالعہ کا طریقہ زیادہ مفید اور زیادہ کارآمد ہے، جب سیر و تراجم تذکرہ و تاریخ سے آگے بڑھ کر ذوقِ مطالعہ نے ٹھوس اور سنجیدہ فلسفیانہ و سیاسی، اخلاقی و مذہبی علوم کی طرف توجہ کی تو ایک اور طریقے نے مجھے بہت فائدہ پہنچایا۔ فلسفہ اور علمِ کلام یا مذہب و سیاست کے کوئی مقامات اگر سمجھ میں نہ آتے تو میں ان کو اپنی اس چھوٹی نوٹ بک میں جو میرے جیب کا مستقل سرمایہ بن گئی تھی، نوٹ کرتا اور جن بزرگوں کی نظر ان علوم پر میرے نزدیک عمیق تھی ان سے ملاقات کے جلد سے جلد مواقع تلاش کرتا اور ان سے ان اشکال کو حل کرنے کی کوشش کرتا۔ آج اپنے ان لمحات کو اپنی حیاتِ گزشتہ کا سب سے قیمتی سرمایہ سمجھتا ہوں۔”

    "لوگ صرف کتاب پڑھنے کو مطالعہ سمجھتے ہیں۔ میرے نزدیک کسی کے مطالعہ کا مطالعہ یہی سب سے اچھا مطالعہ ہے۔ جب والد مرحوم کے انتقال کی وجہ سے اٹھارہ برس کی ابتدائی عمر ہی میں میرے سَر پر گھر کی ساری ذمہ داریوں کا بوجھ پڑ گیا اور مدرسہ کی تعلیم ناقص حالت میں ختم ہوگئی۔ تو میرے مطالعہ کا سب سے بہترین طریقہ یہ تھا کہ جن لوگوں نے مختلف اصنافِ علم میں زیادہ سے زیادہ مطالعہ کیا ہو ان کو اپنے اطراف جمع کرلوں یا ان کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں اور ان کی عمر بھر کے مطالعہ کا نچوڑ ان سے سنوں اور پھر کانوں کے ذریعہ اس کا مطالعہ کروں، اسی تمنا نے آوارہ گردی و صحرا نوردی پر آمادہ کیا۔”

    "لوگ اوراقِ کاغذ کے مجموعے کو الٹنے اور اس پر لکھی ہوئی سیاہ لکیروں کو پڑھنے کا نام مطالعہ سمجھتے ہیں۔ میرے پیشِ نظر ہمیشہ سے ایک اور کتاب رہی ہے جس کے صرف دو ورق ہیں لیکن جس میں سب کچھ ہے اور یہ کتاب صحیفۂ کائنات ہے۔ آسمان اور زمین کے ان دو اوراق کے درمیان مہر و ماہ، کواکب و سیارات، شفق، قوس قزح، ابر و باد، کوہ صحرا، سمندر و ریگستان نے ایسے ایسے خطوط کھینچے ہیں جن میں فکر کرنے والی نگاہ اپنے لیے سب کچھ حاصل کرسکتی ہے۔”

    "آہ دنیا بدل گئی، فرصت کے وہ رات دن اب خود میرے لیے افسانہ بن گئے۔ اب ان کو جی ڈھونڈتا ہے مگر پا نہیں سکتا۔ قوم و ملّت کی جو ذمہ داریاں ہم نے ابتدائی اوقاتِ فرصت کو صرف کرنے کے لیے اپنی مرضی سے قبول کی تھی، اپنی زندگی کے سارے لمحات پر مسلط ہو گئیں۔ کتاب سامنے آتی ہے تو تنگیِ وقت کا تصور آہ بن کر زبان سے نکلتا ہے۔ اخبار ہی پڑھنے سے فرصت نہیں کتاب کا ذکر کیا۔ اب کتاب پڑھنے کی سب سے اچھی جگہ ریل گاڑی کا ڈبہ ہے اور سفر کی وہ منزلیں جو طے ہونے سے رہ جائیں۔”

  • سیّد محمد تقی: ممتاز فلسفی اور دانش وَر

    سیّد محمد تقی: ممتاز فلسفی اور دانش وَر

    سیّد محمد تقی کو عالمی سطح پر ایک مفکّر اور فلسفی کے طور پر پہچانا جاتا ہے جن کی تصانیف علم و دانش کے موتیوں‌ پر مشتمل خزانہ ہے۔ سیّد محمد تقی 25 جون 1999ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    سیّد محمد تقی کا شمار ان نابغۂ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے جن کے لیکچرز اور کتابیں نسلِ نو کی فکر کو سمت دینے اور نظریاتی بنیادوں پر ان کی تربیت کرنے میں اپنا کردار آج بھی ادا کررہی ہیں۔ عالمی سطح پر ایک مدبّر کے طور پر سید محمد تقی پاکستان کا روشن حوالہ ہیں۔ وہ ایسے بیدار مغز، متجسس انسان تھے جو قدیم و جدید علوم میں گہری دل چسپی رکھتے تھے اور ان کے مطالعے کی اہمیت پر زور دیتے تھے۔

    2 مئی 1917ء کو ہندوستان کے مردم خیز خطّے امروہہ میں جنم لینے والے سیّد محمد تقی کا خاندان علم و دانش، فکر و فن کے لیے مشہور رہا ہے۔ ان کے والد علّامہ شفیق حسن ایلیا ایک وسیعُ العلم اور صاحبِ مطالعہ شخص تھے جو اپنے گھر میں علمی و ادبی مجالس کا اہتمام کرتے جس میں اس وقت کی عالم فاضل شخصیات شریک ہوتیں۔ اسی ماحول نے سیّد محمد تقی کو فکری اور نظریاتی بنیاد پر توانا اور تاب دار کیا۔ نام ور صحافی، ادیب اور شاعر رئیس امروہوی اور اردو کے مقبول ترین شاعر جون ایلیا ان کے بھائی تھے۔

    سیّد محمد تقی نے بھی علم و ادب کو اوڑھنا بچھونا بنایا، صحافت بھی ان کا ایک حوالہ ہے۔ ان کی تصانیف کو علمی و ادبی حلقوں کے علاوہ باذوق اور سنجیدہ قارئین نے بھی سراہا۔ سیّد محمد تقی کی ایک مشہور تصنیف “تاریخ اور کائنات، میرا نظریہ” ہے جس میں انھوں نے اپنی فلسفیانہ اور دانش ورانہ سوچ سے ایک جامع اور مربوط نظام کو بیان کرنے کی کوشش ہے۔ ان کی دیگر تصانیف میں پراسرار کائنات، منطق، فلسفہ اور تاریخ، نہج البلاغہ کا تصور الوہیت اور روح اور فلسفہ شامل ہیں۔ کارل مارکس کی مشہور تصنیف داس کیپٹال کو سید محمد تقی نے اردو میں منتقل کیا تھا۔

    کربلا تہذیب کا مستقبل، پاکستانی فلسفی اور دانش ور سید محمد تقی کی آخری کتاب ہے جس کا مسودہ گم ہوگیا تھا اور کئی برس بعد دریافت ہونے پر اسے کتابی شکل میں‌ شایع کیا گیا۔

    انھیں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • قیوم نظر:‌ ”دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے دشمن!‘‘

    قیوم نظر:‌ ”دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے دشمن!‘‘

    آج اردو اور پنجابی زبانوں کے معروف شاعر، مترجم اور ڈرامہ نگار قیوم نظر کی برسی ہے۔ 23 جون 1989ء کو قیوم نظر کراچی میں وفات پاگئے۔ حلقۂ اربابِ ذوق کی بنیاد رکھنے میں ان کا اہم کردار رہا اور اپنے ہم عصروں کے ساتھ وہ ادبی سرگرمیوں‌ میں مشغول رہے۔

    قیوم نظر 7 مارچ 1914ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عبدالقیوم تھا۔ وہ 1944ء سے 1955ء تک حلقہ اربابِ ذوق کے سیکرٹری رہے۔ قیوم نظر نے اردو غزل کو ایک نیا مزاج، نیا آہنگ عطا کیا۔ وہ میر تقی میر اور فانی بدایونی سے متأثر تھے۔ تاہم روایتی بندشوں کے ساتھ ان کی شاعری میں فطرت کے تجربات اچھوتے اور تازہ ہیں۔ ان کی تصانیف میں "پون جھکولے”، "قندیل”، "سویدا”، "اردو نثر انیسویں صدی میں”، "زندہ ہے لاہور "اور "امانت ” شامل ہیں۔ انھوں نے بچّوں کے لیے ایک کتاب "بلبل کا بچہ ” بھی لکھی۔

    ان کے ایک رفیق خواجہ محمد ذکریا اپنے اخباری کالم میں‌ لکھتے ہیں، قیوم نظر حلقۂ اربابِ ذوق کے ’بڑوں‘ میں بہت پہلے سے شامل تھے۔ ایک سے زیادہ دفعہ سیکرٹری بھی رہے تھے۔ تقسیم ملک کے بعد حلقے میں کچھ نئے لوگ بھی شامل ہوگئے جن میں انتظار حسین، ناصر کاظمی، شہرت بخاری وغیرہ تھے۔ قیوم نظر کا گروپ پہلے سے موجود تھا۔ دونوں گروپوں میں حلقے پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے کشمکش شروع ہوگئی۔ چند سال قیوم نظر کا گروپ غالب رہا، پھر دوسرا گروپ غالب آگیا۔ حلقے نے بہت اتار چڑھاؤ دیکھے رفتہ رفتہ قیوم نظر اور ان کے گروپ کی اہمیت کم ہوتی گئی پھر قیوم نظر کی زندگی میں پے در پے ایسے حادثات ہوئے کہ وہ مجبوراً ادبی محفلوں سے کنارہ کش ہوگئے۔ پہلا حادثہ یہ ہوا کہ ان کی نظر کمزور ہوگئی۔ ان کے عزیز دوست انجم رومانی نے انھیں اس سلسلے میں بڑے خلوص سے ایک غلط مشورہ دیا۔ انھوں نے کہا کہ آنکھوں کے کسی معالج سے علاج کروانے کی بجائے آپ مجھ سے علاج کرائیں۔ میرے پاس اس کے لیے ایک بہت عمدہ کتاب ہے جس میں آنکھوں کے علاج کے لیے بہت اچھی ’ایکسرسائز‘ بتائی گئی ہیں۔ انھوں نے ایکسرسائز کرائی تو آنکھیں متورم ہوگئیں اور بینائی ایسی خراب ہوئی کہ ایک ایک کے دو دو نظر آنے لگے۔ ماہر آئی سرجنز کے پاس گئے تو انھوں نے کہا کہ اب علاج ممکن نہیں۔ وفات تک بینائی کی یہی کیفیت رہی۔

    اس دوران پہلے ان کے بڑے بیٹے کا لندن میں انتقال ہوگیا جو کئی سال پہلے وہاں کا شہری بن چکا تھا۔ اس حادثے کو تو وہ برداشت کرگئے۔ اس کے دو تین برس بعد ان کے چھوٹے بیٹے سلمان بٹ کا ایک حادثے میں انتقال ہوگیا۔ اس حادثے نے قیوم نظر کو بالکل دل شکستہ کردیا۔ وہ لاہور سے بھی بیزار ہوگئے۔ وہ اپنی ایک بیٹی کے پاس کراچی میں رہنے لگے اور وہیں 23 جون 1989ء کو وفات پائی۔ اگلے دن تدفین ان کی وصیت کے مطابق لاہور میں ہوئی۔

    قیوم نظر نے اردو ادب کی بہت خدمت کی ہے اور پنجابی ادب میں بھی ان کے کام کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ حلقۂ اربابِ ذوق کے قیام کے فوراً بعد اس تنظیم سے جو لوگ وابستہ ہوئے ان میں قیوم نظر پیش پیش تھے۔ میرا جی سے ان کی بے تکلفی تھی۔ وہ ادب میں نئے نئے تجربات کے امکانات پر غور کرتے تھے، تبادلۂ خیال کرتے تھے اور پھر اپنے اپنے انداز میں معاصر شاعری میں جدّت پیدا کرنے کے لیے لکھنے میں مشغول ہوجاتے تھے۔ ان کے دوسرے ساتھیوں میں مختار صدیقی، یوسف ظفر، حفیظ ہوشیار پوری، ضیاء جالندھری وغیرہ تھے۔

    قیوم نظر نے بی اے کیا اور اے جی آفس میں کلرک بن گئے۔ پاکستان بنا تو ایم اے اردو کیا اور پھر کئی سال محکمۂ تعلیم سے وابستہ رہے، پھر ٹیکسٹ بک بورڈ میں ماہرِ مضمون کی حیثیت سے کام کیا، اس کے بعد پاکستان نیشنل سینٹر لاہور کے ڈائریکٹر بن گئے۔ آخر میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ پنجابی میں صدرِ شعبہ کی حیثیت سے کام کیا۔ یعنی معمولی ملازمتوں سے گز رکر رفتہ رفتہ اعلیٰ عہدوں تک پہنچے۔ ان مصروفیات کے ساتھ ساتھ ادب و شعر سے ہمیشہ تعلق برقرار رکھا۔ ان کی اولین اور اہم تر حیثیت تو شاعر کی تھی لیکن نثر سے بھی دامن کشاں نہیں رہے۔ تنقید لکھی، خاکہ نگاری کی طرف بھی التفات کیا اور ڈرامے بھی لکھے۔ کئی کتابیں مرتب کیں جن میں ان کی نصابی کتابیں میرے نزدیک بہت اہم ہیں۔ نصابی کتابوں کو ترتیب دینے میں وہ اپنے رفقاء سے بہت بہتر تھے۔

    شاعری میں جدید انداز کے اچھے شاعر تھے۔ موضوعات کی جدت کے ساتھ ہیئت کے تجربات کرتے رہتے تھے۔ قیوم نظر نے عمر کے آخری ایک دو برسوں میں اپنی کلیات شاعری ’قلب و نظر کے سلسلے‘ کے نام سے ترتیب دی۔ وہ جدید نظمیں تو لکھتے ہی تھے مگر اپنے بعض معاصرین کے برخلاف غزلیں بھی برابر کہتے رہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے بچوں کے لیے شاہکار نظمیں تخلیق کیں جن کے کئی مجموعے چھپ چکے ہیں۔ کسی زمانے میں پوری پوری کلاس کو یہ نظمیں یاد ہوتی تھیں جن میں خصوصاً ’بلبل کا بچہ‘ ایسی پُرتاثیر تھی کہ بچوں کے دلوں میں عمر بھر کے لیے بس جاتی تھی۔ قیوم نظر کے گیت ، ترانے اور نعتیں بھی ان کی شاعری کے تنوع کا اچھا اظہار ہیں۔

    وہ لاہور اور امرتسر دونوں شہروں میں جوان ہوئے اس لیے پنجابی تو ان کی اپنی زبان تھی لیکن زندگی بھر اردو اوڑھنا بچھونا رہی۔ اردو تحریر و تقریر میں اظہار پر یکساں قدرت رکھتے تھے لیکن شاید کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ان کی انگریزی بھی بہت اچھی تھی۔ بہت سے جدید امریکی اور برطانوی شعراء کی نظموں کے ترجمے کرتے رہتے تھے۔

    مجموعی طور پر بڑے ہنس مکھ، دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے دشمن تھے۔ انھوں نے بذلہ سنجی سے بہت سے لوگوں کو دشمن بھی بنایا لیکن بہت سے لوگ ان کے محب بھی تھے۔ اگر آخری زندگی میں دل کو پاش پاش کرنے والے صدموں سے دوچار نہ ہوتے تو کہا جاسکتا کہ انھوں نے اچھی زندگی گزاری۔ ان کے مزاج میں اگر لوگوں کو فقرہ بازی سے ناراض کرنے کی عادت نہ ہوتی تو اور زیادہ کامیاب زندگی بسر کرتے مگر انسان کا جو مزاج بن گیا سو بن گیا۔

    یہاں‌ ہم قیوم نظر کے انٹرویو سے چند اقتباسات بھی نقل کرتے ہیں‌ جس سے قیوم نظر کی زبانی انھیں جاننے کا موقع ملے گا، وہ بتاتے ہیں، ’’خود میرا یہ حال تھا کہ میرے والد خواجہ رحیم بخش سرکاری ملازم تھے۔ ان کا انتقال ہو چکا تھا۔ چار بھائیوں اور دو بہنوں کا بوجھ بہ حیثیت بڑے بھائی مجھ پر آپڑا تھا۔ میں نے ٹیوشن اور ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم مکمل کی تھی اور اورینٹل کالج لاہور سے اردو میں ایم اے کرنے کے بعد اکاؤنٹنٹ جنرل آفس میں لگا ہوا تھا۔ میں اے جی آفس کی نوکری سے سخت اکتا گیا تھا لیکن اس سے گلو خلاصی بھی ممکن نہ تھی۔ میں سخت پریشان تھا۔ اتفاق سے یونیورسٹی کے مشاعرے میں میری ملاقات گورنر پنجاب عبدالرب نشتر سے ہوگئی۔ اے جی آفس سے میری ناخوشی کا سن کر انہوں نے اپنی ذاتی کوشش سے میرا تبادلہ محکمۂ تعلیم میں کروا دیا۔‘‘

    ’’1956ء میں مجھے یونیسکو کا کریٹیو رائٹر کا فیلو شپ ملا اور اس طرح مجھے فرانس، اٹلی، اسپین، ہالینڈ، سوئٹزر لینڈ، روم وغیرہ گھومنے اور وہاں کے تخلیقی فن کاروں سے ملاقات کا موقع ملا۔‘‘

    ’’شاعری کی ابتدا میں نے کالج ہی کے زمانے سے کر دی تھی۔ میں نے ایک دن اپنے استاد شمسُ العلما تاجور نجیب آبادی صاحب سے پوچھا کہ میں کیا تخلّص رکھوں؟ بولے ’’میں اپنے شاگردوں میں اب مزید کسی باغی کا اضافہ کرنا نہیں چاہتا۔ ن م راشد، اختر شیرانی، کنور مہندر سنگھ اور دیگر کئی نامور شعرا ان کی شاگردی میں رہ چکے تھے۔) میں نے وعدہ کیا کہ میں بغاوت نہیں کروں گا اس پر مشورہ دیا کہ ’’نظر تخلّص کر لو۔‘‘

  • ’کسوٹی‘ والے عبید اللہ بیگ کا تذکرہ

    ’کسوٹی‘ والے عبید اللہ بیگ کا تذکرہ

    عبید اللہ بیگ کی پہچان ’کسوٹی‘ بنا جو پاکستان ٹیلی ویژن کا مقبول ترین پروگرام تھا۔ ذہانت، قوی حافظے اور وسیع مطالعے کے ساتھ عبید اللہ بیگ ایک لائق فائق اور وسیع علم کے ساتھ اپنے شفیق روّیے اور انکسار کے سبب ہر دل عزیز ٹھیرے۔ انھیں پاکستان کے علمی و ادبی حلقوں اور ذرائع ابلاع میں وہ احترام حاصل تھا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ آج عبید اللہ بیگ کی برسی ہے۔

    مداحوں کے لیے معلوماتِ عامہ کا میدان عبیداللہ بیگ کی بنیادی شناخت بنا۔ لیکن وہ ایک مدیر، صدا کار، دستاویزی فلم ساز، ناول اور ڈرامہ نگار، فیچر رائٹر، سیاح اور شکاری بھی تھے۔ ٹیلی ویژن کے بعد وہ ماحولیات کے تحفظ کی غیر سرکاری تنظیم سے منسلک ہوئے اور بقائے ماحول کے لیے رپورٹنگ کے ساتھ بطور ماہرِ ابلاغ تربیت دینے کا کام کیا۔ انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے صدر دفتر میں شعبۂ تعلقاتِ عامّہ میں بھی خدمات انجام دیں اور ایک جریدہ ’’ٹی وی نامہ‘‘ بھی جاری کیا۔

    عبید اللہ بیگ کا اصل نام حبیب اللہ بیگ تھا۔ ان کے والد محمود علی بیگ بھی علم دوست شخصیت تھے اور یوں گھر ہی میں مطالعے کی طرف رجحان ہوا اور کتابیں پڑھنے کا شوق پروان چڑھا۔ ان کا خاندان بھارت کے شہر رام پور سے نقل مکانی کر کے پاکستان آیا تھا۔ یہ بات ہے 51ء کی۔ عبید اللہ بیگ نے کراچی میں سکونت اختیار کی۔ ان کا بچپن اور نو عمری کا دور رام پور اور مراد آباد میں گزرا۔ ان کا خاندان شکار کا شوقین تھا اور عبید اللہ بیگ بھی گھر کے بڑوں کے ساتھ اکثر شکار کھیلنے جایا کرتے تھے۔ اسی نے ان کے اندر سیر و سیاحت کا شوق پیدا کیا۔

    کسوٹی وہ پروگرام تھا جس میں افتخار عارف، قریش پور اور غازی صلاح الدین جیسی نام ور اور قابل شخصیات بھی ان کے ساتھ رہیں۔ عبید اللہ بیگ نے پاکستان ٹیلی وژن کے متعدد پروگراموں کی کمپیئرنگ بھی کی جن میں پگڈنڈی، منزل، میزان، ذوق آگہی اور جواں فکر کے علاوہ اسلامی سربراہ کانفرنس بھی شامل ہیں۔حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی دیا گیا تھا۔

    عبید اللہ بیگ ریڈیو پاکستان سے بھی وابستہ رہے۔ ٹی وی پر کسوٹی سے پہلے ‘سیلانی’ بھی ان کا ایک فلمی دستاویزی سلسلہ تھا جو بہت مشہور ہوا۔ تاہم یہ پروگرام چند وجوہ کی بناء پر بند کردیا گیا، پی ٹی وی کے لیے عبید اللہ بیگ نے تین سو سے زائد دستاویزی فلمیں بنائی تھیں جن کو عالمی سطح پر سراہا گیا اور عبید اللہ بیگ کو ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کی فلم وائلڈ لائف اِن سندھ کو 1982ء میں 14 بہترین فلموں میں سے ایک قرار دیا گیا تھا۔ عورتوں کے مسائل پر ایک فلم کو 18 زبانوں میں ڈھال کر پیش کیا گیا۔ سندھ میں قدرتی حیات اور ماحول سے متعلق ان کی دستاویزی فلمیں بہت شان دار ہیں اور اس کام پر انھیں ایوارڈ بھی دیے گئے۔

    قلم اور کتاب سے ان کا تعلق فکر و دانش اور معلوماتِ عامہ کی حد تک نہیں تھا بلکہ وہ ایک ادیب بھی تھے جن کا پہلا ناول ’اور انسان زندہ ہے‘ ساٹھ کی دہائی میں شائع ہوا تھا۔ دوسرا ناول ’راجپوت‘ 2010ء میں نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد نے شائع کیا۔

    عبید اللہ بیگ فارسی، عربی اور انگریزی زبانیں بھی جانتے تھے۔ ہمہ جہت شخصیت کے مالک عبید اللہ بیگ علم و ادب کے شیدائیوں کے لیے یونیورسٹی کا درجہ رکھتے تھے۔ فلسفہ، تاریخ، تہذیب و تمدن، سیاحت، ماحولیات، ادب کے ہر موضوع پر عبیداللہ بیگ کے بات کرنے کا انداز بھی منفرد اور دل چسپ تھا۔

    22 جون 2012ء کو عبید اللہ بیگ نے دارِ فانی کو خیرباد کہا تھا۔ وہ دل کے عارضے میں مبتلا تھے اور وفات سے چند ماہ پہلے پیٹ کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔ وہ ڈی ایچ اے گزری قبرستان میں سپردِ خاک کیے گئے۔

  • سیّد ممتاز علی کا تذکرہ جنھیں‌ ‘نسوانی بیڑے کا ناخدا’ کہا گیا!

    سیّد ممتاز علی کا تذکرہ جنھیں‌ ‘نسوانی بیڑے کا ناخدا’ کہا گیا!

    متحدہ ہندوستان میں‌ شمسُ العلما مولوی سیّد ممتاز علی کا نام ان کے علمی، ادبی، صحافتی کاموں اور حقوق و تعلیمِ نسواں کے علم بردار کی حیثیت سے مشہور ہوا۔ انہی کے صحافتی ادارے دارُالاشاعت لاہور کا رسالہ ’تہذیبِ نسواں‘ ہندوستان کا سب سے پہلا خواتین کا ہفتہ وار اخبار تھا جیسا کہ اس کے سَر ورق پر درج ہے۔

    اس رسالہ کی ادارت مولوی ممتاز علی کی دوسری بیوی نے سنبھالی تھی جو ڈرامہ انار کلی کے مصنّف امتیاز علی تاج کی والدہ تھیں۔ ان کا نام محمدی بیگم تھا جن کی ادارت میں اس رسالے کا پہلا شمارہ یکم جولائی 1898 میں منظرِ عام پر آیا۔ مولوی ممتاز علی کی پہلی بیوی کا چند برس قبل انتقال ہو چکا تھا۔ انھوں نے دوسری بیوی محمدی بیگم کو ذہین اور باصلاحیت پایا تو ان کی ضروری تعلیم کا بندوبست کیا اور انھیں اس قابل بنایا کہ وہ ایک رسالے کی مدیر بنیں۔

    تہذیبِ نسواں رفتہ رفتہ ہندوستان کے مسلم گھرانوں اور اردو داں طبقے میں‌ خاصا مقبول ہوگیا۔ اس اخبار نے جہاں‌ ہندوستانی عورتوں کو بیدار مغز اور باشعور بنانے میں کردار ادا کیا، وہیں اس پرچے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہی نہیں معمولی پڑھی لکھی عورتوں میں بھی تصنیف و تالیف کا شوق پیدا ہوا۔ اخبار کی ادارت محمدی بیگم کے ذمّہ تھی جو سیّد ممتاز علی کی زوجہ تھیں۔ لیکن ایک بڑا طبقہ جن میں مسلمان ہی نہیں‌ ہندو اور دیگر مذاہب کے ماننے والے ہندوستانی شامل تھے، مولوی صاحب کے اس رسالے کے مخالف تھے۔ مولوی ممتاز علی نے تہذیب نسواں کے متعلق چھ جولائی 1935 میں چھپے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ’لوگوں کو حق اور اختیار تھا کہ وہ اخبار کو ناپسند کرتے اور نہ پڑھتے اور اپنے گھروں میں نہ آنے دیتے مگر انھوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ گالیاں دینا شروع کیں۔ گالیاں بھی اگر بند خطوط کے اندر لکھی آتیں تو اس قدر ذلّت نہ ہوتی مگر وہ تو اخبار کے پیکٹوں پر بازاری گالیاں لکھ کر اخبار واپس کرتے تھے اور خطوں میں جو کچھ لکھتے تھے کہ وہ اس قدر شرمناک ہوتا تھا کہ خط کھولنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ ہاتھ کانپتے اور دل سہما جاتا تھا۔‘ اس زبردست مخالفت کے باوجود مولوی ممتاز علی نے اپنا کام جاری رکھا۔

    سیّد ممتاز علی کی علمی و ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ وقت نے شمسُ العلما کا خطاب دیا تھا۔ وہ 15 جون 1935ء کو وفات پاگئے تھے۔ اردو کے اس معروف مصنّف اور مترجم نے متعدد علمی و ادبی مضامین تحریر کیے۔ سیّد ممتاز علی رفاہِ عام پریس کے مالک تھے اور انھیں ناشر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ وہ 1860ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر راولپنڈی میں پیدا ہوئے تھے۔ قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ انھوں نے انگریزی کی تعلیم بھی پائی۔ مولوی صاحب 1876ء میں لاہور چلے گئے اور تا دمِ مرگ وہیں‌ ان کا قیام رہا۔

    1884ء میں ان کی ملازمت پنجاب میں عدالت کے مترجم کی حیثیت سے ہوئی تھی اور 1891ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ 1898ء کو لاہور میں چھاپا خانہ قائم کیا اور نہایت بلند پایہ کتابیں شایع کیں۔ اسی برس تہذیبِ نسواں بازار میں آیا تھا جو 1949ء تک جاری رہا۔ سیّد ممتاز علی نے 1909ء میں بچّوں کا جریدہ پھول بھی جاری کیا تھا اور یہ تقسیمِ ہند کے بعد بھی شایع ہوتا رہا۔

    مولوی سیّد ممتاز علی علم و ادب میں ممتاز اور مسلمانانِ ہند کے خیر خواہ اور مصلح سرسیّد احمد خان کے رفیق بھی تھے۔ ہر کام میں‌ ان سے صلاح و مشورہ کرتے اور ان کی طرح ہندوستانیوں‌ کے لیے جدید علوم اور تعلیم و تربیت کا حصول لازمی خیال کرتے تھے۔
    ان کے اخبار تہذیبِ نسواں کا نام تہذیبُ الاخلاق سے مشابہ تھا جو سر سیّد احمد خان نے تجویز کیا تھا۔

    سیّد ممتاز علی کے مطبع خانے سے جو تصانیف شایع ہوئیں، ان میں حقوقِ نسواں (1898ء)، مولوی مرزا سلطان احمد خاں کے متفرق مضامین کا مجموعہ ریاضُ الاخلاق (1900ء) اور سراجُ الاخلاق، تفصیلُ البیان، شیخ حسن (1930ء) اور دیگر شامل ہیں۔

    محمدی بیگم کے 1908ء میں انتقال کرجانے کے بعد ان کی صاحب زادی وحیدہ بیگم نے اس اخبار کی ادارت سنبھالی جس کے بانی مولوی ممتاز علی تھے، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وحیدہ بیگم 1917ء میں خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ کچھ عرصے کے لیے مولوی ممتاز علی کی بہو نے بھی اخبار کی ادارت کی اور پھر اسے مولوی ممتاز کے صاحب زادے امتیاز علی تاج نے آگے بڑھایا جو اس کے آخری مدیر تھے اور اردو کے نام ور ادیب اور ڈرامہ نگار تھے۔

  • صبیحہ خانم کا تذکرہ جنھیں‌ پاکستانی فلموں‌ کی ’خاتونِ اوّل‘ کہا جاتا ہے

    صبیحہ خانم کا تذکرہ جنھیں‌ پاکستانی فلموں‌ کی ’خاتونِ اوّل‘ کہا جاتا ہے

    ’سسی‘ پاکستانی فلمی صنعت کی کام یاب ترین اور یادگار فلم تھی جس پر 1954ء میں ساڑھے تین لاکھ روپے لاگت آئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب فلم ساز ایک لاکھ روپے سے کم رقم فلم پر لگاتے تھے۔ فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی جو صبیحہ خانم کے کیریئر کی بھی اہم اور یادگار فلم بن گئی۔

    پاکستانی فلموں کی ’خاتونِ اوّل‘ کے لقب سے یاد کی جانے والی صبیحہ خانم کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ تقریباً تین دہائیوں پر محیط اپنے فلمی کیریئر میں صبیحہ خانم نے فلم بینوں کے دلوں پر راج کیا۔

    صبیحہ خانم کی خوش نصیبی تھی کہ انھیں اپنے وقت منجھے ہوئے فلم سازوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جن میں داؤد چاند، ایم اے خان، سلطان کھوسٹ اور دیگر ایسے نام شامل ہیں جو برطانیہ سے فلم سازی کی تکنیک سیکھ کر آئے تھے اور خداداد صلاحیتوں کے حامل تھے۔ ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے صبیحہ خانم کی اداکاری میں بھی وقت کے ساتھ نکھار آیا۔ مذکورہ فلم میں جہاں صبیحہ خانم کی اپنی معصومانہ اداؤں کے ساتھ اسکرین پر جلوہ گر تھیں، وہیں مکالموں کی بے ساختہ ادائیگی نے شائقین کو بہت محظوظ کیا۔ کہتے ہیں فلم سسی نے 40 لاکھ روپے کا منافع کمایا۔ ملک بھر میں صبیحہ خانم کی اداکاری کی دھوم مچ گئی۔

    اس سے قبل صبیحہ خانم نے 1950 میں فلم بیلی میں کام کیا تھا جو بری طرح فلاپ ہوئی اور اس کے بعد بھی چند فلموں میں صبیحہ خانم نے ناکامی سمیٹی۔ مگر وہ اس لیے خوش قسمت تھیں‌ کہ وہ سلطان کھوسٹ اور نفیس خلیلی کی نظر میں‌ آگئی تھیں جنھوں نے یہ جان لیا تھاکہ وہ باصلاحیت ہیں۔ انھوں نے صبیحہ خانم کو اداکاری کی تربیت دی اور پھر نفیس خلیلی نے انھیں ایک ڈرامے ’بت شکن‘ میں کردار سونپ دیا۔

    صبیحہ خانم کا اصل نام مختار بیگم تھا۔ اس ڈرامے میں انھیں صبیحہ خانم کے نام سے متعارف کروایا گیا اور یہی فلمی دنیا میں ان کی پہچان بنا۔ ’بت شکن‘ کے بعد صبیحہ خانم کو ایک فلم میں‌ سائڈ ہیروئن کا رول ملا اور پھر یہ سلسلہ کئی کام یاب اور سپر ہٹ فلموں تک دراز ہوگیا۔ فلمی اعداد و شمار کے مطابق صبیحہ نے مجموعی طور پر 202 فلموں میں کام کیا۔ صبیحہ خانم نے اپنی شان دار کارکردگی پر پانچ نگار ایوارڈ بھی حاصل کیے۔ انھیں نگار ایوارڈ سات لاکھ، شکوہ، دیور بھابی میں بہترین اداکارہ، سنگ دل میں بہترین معاون اداکارہ اور اک گناہ اور سہی میں خصوصی اداکاری کے زمرے میں دیے گئے تھے۔

    صبیحہ خانم کی ذاتی زندگی پر نظر ڈالیں تو ان کا سنہ پیدائش 1935ء ہے، وہ پنجاب کے شہر گجرات کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئیں، والد کا نام محمد علی اور والدہ کا اقبال بیگم تھا جو اسٹیج اور فلم کی اداکارہ تھیں۔ کم عمری میں صبیحہ خانم اپنی والدہ کے سائے سے محروم ہوگئیں۔ صبیحہ پندرہ سال کی تھیں جب والد انھیں فلموں میں کام دلوانے کے لیے کوشش کرنے لگے۔ فلم نگری میں اپنی بیٹی کے لیے ان کی یہ بھاگ دوڑ کام یاب رہی اور صبیحہ انڈسٹری کی مقبول ہیروئن بنیں۔ فلم بیلی سے اپنی اداکاری کا آغاز کرنے والی صبیحہ خانم نے پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں اپنے کیریئر کا عروج دیکھا۔ کہتے ہیں کہ اس وقت بننے والی ہر دس فلموں میں‌ سے سات فلموں میں صبیحہ ہی ہیروئن کے روپ میں‌ نظر آتی تھیں۔ صبیحہ خانم کی اداکاری کی سب سے اچھی بات ان کی بے ساختگی اور فطری پن تھا۔

    اداکارہ کی محبّت اور شادی کی بات کریں‌ تو اس میں‌ ان کے شریکِ سفر سنتوش کمار کے علاوہ درپن کا نام بھی آئے گا۔ سنتوش کمار اپنے وقت کے مقبول فلمی ہیرو تھے جن کا اصل نام موسیٰ رضا تھا اور ان سے اداکارہ کی طوفانی محبّت کے قصّے فلمی صحافیوں کے توسط سے ان دونوں کے مداحوں تک پہنچے۔ ایک روز سنتوش کمار کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ وہ صبیحہ خانم سے نکاح کرچکے ہیں۔ یہ سنتوش کمار کی دوسری شادی تھی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس سے قبل صبیحہ خانم اور درپن کے درمیان رومان چل رہا تھا جو ستنوش کمار کے بھائی تھے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ اپنے بھائی درپن کو اداکارہ صبیحہ خانم سے شادی نہ کرنے پر قائل کرنے والے سنتوش کمار بعد میں صبیحہ خانم کی محبّت میں گرفتار ہوگئے اور ان سے شادی بھی کر لی۔ کہتے ہیں‌ کہ درپن کو سنتوش کمار نے یہ کہہ کر فلمی دنیا کی ایک لڑکی سے شادی نہ کرنے پر آمادہ کیا تھا کہ وہ ایک شریف اور سنجیدہ گھرانے کے فرد ہیں جب کہ صبیحہ فلمی دنیا سے تعلق رکھتی ہے۔ بہرحال، صبیحہ اور سنتوش حقیقی زندگی میں کام یاب رہے اور ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ صبیحہ خانم ایک باوقار اور شائستہ خاتون تھیں جو 1958ء میں‌ سنتوش جیسے کام یاب فلمی ہیرو سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ اس جوڑے کے ہاں تین بچّوں کی پیدائش ہوئی۔

    11 جون 1982ء کو سنتوش کمار انتقال کرگئے تھے جس کے بعد صبیحہ خانم بھی فلمی دنیا سے دور ہوگئی تھیں، بعد میں وہ امریکا چلی گئیں جہاں‌ ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

    فلموں کے بعد وہ ٹیلی ویژن پر اداکاری کرتی نظر آئیں۔ ان کے مشہور ٹی وی ڈراموں میں ’احساس‘ اور ‘دشت’ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ انھوں نے پاکستان ٹیلی ویژن پر اپنی آواز کا جادو بھی جگایا، اور صبیحہ خانم کے گائے ہوئے دو ملّی نغمے ’جُگ جُگ جیوے میرا پیارا وطن‘ اور ’سوہنی دھرتی اللہ رکھے‘ بھی مقبول ہیں۔

    فلمی دنیا میں کام یابی کے جھنڈے گاڑنے والی صبیحہ خانم 82 سال کی تھیں اور ذیابیطس اور بلڈ پریشر جیسے امراض کا شکار تھیں۔ لیکن اس عمر میں بھی خاصی متحرک رہیں۔ وہ زندگی کے آخری سال تک امریکا میں مختلف تقاریب میں شریک ہوتی رہیں اور تہواروں پر مسلم کمیونٹی کی جانب سے دعوت قبول کرتی تھیں۔ وہ 1999 میں امریکا، ورجینیا منتقل ہوئی تھیں۔ صبیحہ خانم 13 جون 2020ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔

    حکومتِ پاکستان کی جانب سے اداکارہ کو تمغائے حسنِ کارکردگی دیا گیا تھا۔ صبیحہ خانم کی تدفین امریکا ہی میں‌ کی گئی۔

  • مجاہدِ اردو اور گنگا جمنی تہذیب کے امین گلزار دہلوی کا تذکرہ

    مجاہدِ اردو اور گنگا جمنی تہذیب کے امین گلزار دہلوی کا تذکرہ

    گلزار دہلوی اپنے طرز کے واحد انسان تھے۔ انھیں اردو زبان و تہذیب کا نمائندہ شاعر کہا جاتا ہے۔ گلزار دہلوی 95 سال کی عمر میں آج ہی کے دن 2020ء میں دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    وہ جب تک زندہ رہے، ان کی شخصیت دہلوی تہذیب کا نمونہ اور وہ ہر مذہب، مسلک کے ماننے والوں کے لیے فراخ دل ثابت ہوئے اور رواداری کی مثال بنے رہے۔ ہر طبقۂ فکر کو اتحاد و اتفاق، یگانگت کا درس اور ہر سطح پر رواداری کو فروغ دینے والے گلزار دہلوی کا نام بھی ان کے اسی نظریے کا عکاس ہے۔ وہ اپنا پورا نام ڈاکٹر پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی نظامی لکھا کرتے تھے۔ ان کی انہی صفات کی بنیاد پر انھیں مجاہدِ اردو، سراجِ اردو، پرستارِ اردو، شاعرِ قوم، گلزارِ خسرو، بلبلِ دلّی کے خطاب اور القاب سے یاد کیا جاتا تھا۔

    اس ہمہ صفت اور باکمال شاعر نے ہندوستان میں اردو کے سچّے عاشق اور اس زبان کے زبردست حامی کے طور پر مقدمہ لڑتے ہوئے عمر گزار دی۔ انھوں نے بھارت میں اردو کو اس کا جائز حق دلانے کے لیے اخلاص سے کوششیں جاری رکھیں اور اپنی شاعری سے بھی اردو کی شمع روشن کیے رکھی۔ گویا زبان اور تمام مذاہب کا احترام ان کی ادائے خاص رہی۔ برصغیر میں انھیں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے منفرد نمائندے کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔

    پنڈت آنند موہن زتشی کا قلمی نام گلزار دہلوی تھا۔ وہ نسلاً کشمیری تھے۔ سات جولائی سنہ 1926ء کو پیدا ہونے والے گلزار دہلوی مجاہدِ آزادی اور ایک اہم انقلابی شاعر تھے۔ انھوں نے غالباً 1942ء سے شعر و سخن کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، وہ تا عمر جاری رہا۔ گلزار دہلوی ہندوستان کے علاوہ دنیا بھر میں اردو زبان کے عالمی مشاعروں میں بھی شریک ہوتے رہے۔ انھیں متعدد تمغہ جات اور ادبی اعزازات سے نوازا گیا تھا جن میں پاکستان کا نشانِ امتیاز، غالب ایوارڈ، اندرا گاندھی میموریل قومی ایوارڈ کے علاوہ مختلف اعزازات شامل ہیں۔

    گلزار دہلوی نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھاکہ وہ نوعمری ہی میں شعر کہنے لگے تھے اور اپنا کلام اپنے والد حضرت زار دہلوی کو دکھایا کرتے تھے جو دہلی کے ایک کالج میں برس ہا برس تک اردو اور فارسی کے استاد رہے تھے۔

    مشہور ہے کہ 1936ء میں جب انجمن ترقیٔ اردو ہند کے لیے کُل ہند کانفرنس دہلی میں منعقد ہوئی تو اس کا افتتاح گلزار دہلوی کی نظم سے ہوا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد بھی گلزار دہلوی کی شاعری کے معترف تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ گلزار دہلوی ایک شاعر اور ادب سے وابستہ ہونے کے باوجود سائنس سے بھی شغف رکھتے تھے۔ اور یہ امر اکثر قارئین کے لیے تعجب خیز ہو کہ وہ ایک سائنسی رسالے کے مدیر بھی رہے۔ انھیں "کونسل آف سائنٹفک انڈسٹریل ریسرچ سنٹر” کا ڈائریکٹر بھی مقرر کیا گیا تھا۔ اسی ادارے کے تحت گلزار دہلوی نے "سائنس کی دنیا” نامی اردو رسالہ جاری کیا۔ باوصف اس کے وہ "سائنسی شاعر” مشہور تھے۔

    اردو کے قادرالکلام شاعر جوش ملیح آبادی نے گلزار دہلوی کے متعلق کہا تھا:
    میاں گلزار میرے محترم بزرگ حضرت زار دہلوی کے قابلِ ناز فرزند اور نہایت ہونہار شاعر ہیں۔ ان کی جو روش سب سے زیادہ مجھ کو پسند ہے وہ ان کی اردو سے والہانہ شگفتگی اور مردانہ وار تبلیغ ہے۔ اسی طرح جگر مرادآبادی نے گلزار دہلوی کے بارے میں لکھا تھا: پنڈت آنند موہن زتشی گلزار ایک خاندانی و موروثی شاعر ہیں، اہلِ زبان ہیں، دلّی کی ٹکسالی زبان بولتے ہیں۔ انہیں ہر صنفِ سخن پر قدرت حاصل ہے۔ غزل، نظم، رباعی، قطعہ، نعت و منقبت ہر میدان میں انہوں نے دادِ سخن سمیٹی ہے۔ وہ اردو کے مجاہد ہیں، برصغیر ہند و پاک میں ہر جگہ مقبول ہیں۔ اللہ نے انہیں ایک درد مند اور انصاف پسند دل بھی عطا کیا ہے۔ میں نے انہیں ہر صحبت میں مہذب، نیک انسان، روادار اور عاشقِ رسول پایا ہے۔ اردو پر تو ان کی رباعیاں بے مثال ہیں۔ گلزار صاحب نہ صرف ایک کام یاب اور مقبول غزل گو شاعر ہیں بلکہ اعلیٰ انسانی قدروں اور اردو کی ہچکولے کھاتی نیا کے محافظ بھی ہیں۔

    گلزار صاحب کے پاکستان کے دورے کے متعلق اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے کہا تھا: گلزار صاحب کراچی کیا آئے گویا بہار آ گئی کہ دلّی کی اردو سراپا ہو کر ان کی صورت میں کراچی کی ادبی محفلوں میں چھا گئی۔ کراچی والے ان کی زبان دانی اور قدرتِ بیان پر حیران بھی تھے اور داد و تحسین بھی کر رہے تھے۔

    گلزار دہلوی کا ایک مشہور قطعہ ہے:
    دونوں کی رگ و پے میں خون اپنا ہی جاری ہے
    اردو بھی ہماری ہے، ہندی بھی ہماری ہے
    اردو سے مگر غفلت کس واسطے ہے ہمدم
    تہذیب کی ضامن یہ خسرو کی دلاری ہے

    گلزار دہلوی کے پورے وجود سے پرانی دلّی کی تہذیب مترشح ہوتی تھی۔ رہن سہن، وضع قطع اور بولی سب کچھ ’بزبانِ دلّی‘ تھا۔ ان کے آبا و اجداد میں سنسکرت، عربی، فارسی اور انگریزی کے معلّم اور مصنّف بھی گزرے تھے۔ددھیال و ننھیال دونوں طرف شعرا ادبا تھے۔ ماموں پنڈت گردھاری لعل کول صاحب دیوان شاعر تھے۔ والد پنڈت تربھون ناتھ زتشی المتخلّص بہ زار دہلوی، داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ والدہ کو بھی شاعری سے شغف تھا۔ بھائی بھی شاعر تھے۔ گویا اطراف و جوانب میں سخن ور ہی سخن ور تھے۔ گلزار دہلوی نے مختلف رنگ و آہنگ کے شعرا سے اکتسابِ ہنر کر کے اپنے فن کو رنگا رنگ کیا۔ گلستاں، بوستاں، انوار سہیلی، اخلاق محسنی جیسی اہم اساسی کتابیں انھیں والدہ نے پڑھائی تھیں۔ پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی سے زبان و بیان کے رموز و نکات اور انقلابی و قومی نظمیں لکھنا سیکھا۔ نواب سراج الدین احمد خاں سائل سے اسلامی تصوف اور دینیات کی آگہی کے ساتھ ساتھ دلّی کے شعری تہذیب و تمدّن کا انجذاب کیا اور پھر ہر صنف میں‌ اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کیا۔

  • سنتوش کمار: فلمی دنیا کا باوقار نام، مقبول ہیرو

    سنتوش کمار: فلمی دنیا کا باوقار نام، مقبول ہیرو

    سنتوش، پاکستان فلم انڈسٹری کے ایک کام یاب فن کار تھے اور فلم بینوں میں اپنی پُرکشش شخصیت کی وجہ سے مقبول تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد فلمی صنعت کے ابتدائی دور میں سنتوش ایک مقبول اور کام یاب ہیرو کے طور پر سامنے آئے۔ آج پاکستان کے اس نام ور اداکار کی برسی ہے۔

    اداکار سنتوش کی پاکستانی فلم انڈسٹری میں‌ پہلی فلم بیلی (1950) تھی۔ آخری مرتبہ وہ فلم آنگن (1982) میں اسکرین پر جلوہ گر ہوئے تھے۔ سنتوش کمار کے ساتھ ایک اور نام بالخصوص پچھلی نسل کے حافظے میں محفوظ ہے اور وہ ہے صبیحہ خانم جو پاکستانی فلم انڈسٹری کی ایک کام یاب ہیروئن اور اپنے وقت کی مشہور اداکارہ تھیں۔ سنتوش کمار نے انہی سے شادی کی تھی۔ ان کی یہ جوڑی جہاں‌ فلمی صنعت میں اپنی اداکاری اور کام یاب فلموں کی وجہ سے مشہور ہوئی، وہیں اپنے حسنِ اخلاق، تہذیب و شائستگی کے لیے بھی مثال ہے۔

    سنتوش کمار کا تعلق لاہور کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا۔ ان کا اصل نام سیّد موسیٰ رضا تھا۔ فلم نگری میں‌ وہ سنتوش کمار کے نام سے پہچانے گئے، 25 دسمبر 1926ء کو پیدا ہونے والے سنتوش کمار نے عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا، اور اپنے ایک دوست کے اصرار پر فلم میں ہیرو کے طور پر رول قبول کر لیا۔ یہ سفر متحدہ ہندوستان کے زمانے میں شروع ہوا تھا جس میں سنتوش نے بمبئی کی فلمی صنعت کے لیے دو فلموں ’’اہنسا‘‘ اور ’’میری کہانی‘‘ میں کردار نبھائے۔ بعد میں وہ پاکستان ہجرت کر کے آگئے تھے اور یہاں بھی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوئے۔

    پاکستان میں انھوں نے مسعود پرویز کی فلم ’’بیلی‘‘ سے اپنا سفر شروع کیا۔ سعادت حسن منٹو کی کہانی پر بنائی گئی اس فلم میں صبیحہ نے سائیڈ ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ ’’بیلی’’ کام یاب فلم نہیں تھی، لیکن اس کے بعد ’’دو آنسو‘‘ اور ’’چن وے‘‘ نے سنتوش کمار کے کیریئر کو بڑا سہارا دیا۔ اس سفر میں آگے بڑھتے ہوئے سنتوش نے شہری بابو، غلام، قاتل، انتقام، سرفروش، عشق لیلیٰ، حمیدہ، سات لاکھ، وعدہ، سوال، مکھڑا اور موسیقار جیسی فلموں‌ میں‌ کام کر کے خود کو بڑا اداکار ثابت کیا۔

    شادی سے پہلے سنتوش اور صبیحہ خانم نے اکٹھے فلموں‌ میں‌ کام کیا تھا، اور پھر ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا۔ پردۂ سیمیں پر اپنی بہترین پرفارمنس سے شائقین کو اپنا مداح بنانے والے ان فن کاروں کی حقیقی زندگی بھی مثالی اور قابلِ رشک ثابت ہوئی۔

    سنتوش کمار کی دیگر اہم فلموں میں دامن، کنیز، دیور بھابی، تصویر، شام ڈھلے، انجمن، نائلہ، چنگاری، لوری، گھونگھٹ اور پاک دامن شامل ہیں۔ مجموعی طور پر 92 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے سنتوش کمار نے بہترین اداکاری پر تین نگار ایوارڈ بھی حاصل کیے۔ 1978ء میں سنتوش نے آج ہی کے دن یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔ انھیں لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔