Tag: جون برسی

  • اسد بھوپالی: لازوال فلمی گیتوں کے خالق

    اسد بھوپالی: لازوال فلمی گیتوں کے خالق

    اسد بھوپالی کے قلم سے بولی وڈ کی فلموں کے لیے یوں تو کئی گیت نکلے، لیکن ’’میں نے پیار کیا‘‘ وہ فلم تھی جس نے 1998ء میں‌ باکس آفس پر دھوم مچا دی اور ریکارڈ بزنس کرنے والی اسی فلم میں شامل اسد بھوپالی کے دو گیتوں کو بھی بلاشبہ وہ مقبولیت حاصل ہوئی جس کی کم ہی مثال دی جاسکتی ہے۔ آج فلمی نغمہ نگار اسد بھوپالی کی برسی منائی جارہی ہے۔

    بولی وڈ کے سپراسٹار سلمان خان اور اداکارہ بھاگیا شری کی مذکورہ فلم کے یہ دو گیت آج بھی ایک نسل کی یادوں کا خوب صورت حصّہ بن کر ان کی سماعتوں میں محفوظ ہیں‌۔ ان گیتوں کے بول تھے، ’’دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ‘‘ اور ’’کبوتر جا، جا جا…‘‘ اسد بھوپالی 9 جون سنہ 1990ء میں‌ اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    بھوپال میں 10 جولائی 1921ء کو آنکھ کھولنے والے اسد بھوپائی کا اصل نام اسد اللہ خاں تھا۔ انھوں نے فارسی، عربی، اردو اور انگریزی کی رسمی تعلیم حاصل کی اور شاعری کا آغاز کیا تو اسد بھوپالی کے نام سے پہچان بنائی۔ یہی سلسلہ انھیں فلمی دنیا تک لے گیا اور کئی کام یاب فلموں میں ان کے تحریر کردہ گیت بھی شامل تھے۔

    نوجوانی میں اسد بھوپالی نے بمبئی جاکر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا جہاں ان سے پہلے بھی کئی شاعر فلمی نغمہ نگار کی حیثیت سے جگہ پاچکے تھے اور نام و مقام بنا رہے تھے۔ اسد بھوپالی 28 برس کے تھے جب وہ بمبئی پہنچے اور یہ وہ زمانہ تھا جب معروف شاعر خمار بارہ بنکوی، جاں نثار اختر، مجروحؔ سلطان پوری، شکیلؔ بدایونی، حسرتؔ جے پوری اور شیلندر کا نام اور شہرہ تھا، لیکن قسمت نے یاوری کی اور اسد بھوپالی کو انہی کے درمیان اپنے فن اور صلاحیتوں کو منوانے کا موقع مل گیا۔

    یہ 1949ء کا ذکر ہے جب فضلی برادران فلم’’دنیا‘‘ بنانے کے لیے کام شروع کرچکے تھے۔ مشہور شاعر آرزو لکھنوی نے اس فلم کے دو گیت لکھے اور پھر تقسیمِ ہند کا اعلان ہوگیا تو وہ پاکستان چلے آئے۔ فضلی برادران کو اب ایک دوسرے نغمہ نگار کی تلاش تھی اور کسی نے اسد بھوپالی کا تعارف ان سے کروا دیا۔ یوں وہ پہلی مرتبہ انھیں بمبئی آنے کے بعد اپنے مقصد میں کام یابی کی امید پیدا ہوئی۔ اسد بھوپالی نے فلم کے نغمات لکھے اور ان کے دونوں گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ اس کے بعد 1950ء میں فلم ’’آدھی رات‘‘ کے لیے بھی ان سے گیت لکھوائے گئے۔ پھر بی آر چوپڑا کی مشہور فلم ’’افسانہ‘‘ کے لیے بھی اسد بھوپالی کے لکھے گئے دو گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ اس فلم کے لیے اسد بھوپالی نے چھے گیت تحریر کیے تھے۔ 1949ء سے اپنی زندگی کے آخری سال تک اسد بھوپالی نے کم و بیش 400 فلمی گیت تخلیق کیے اور بہت نام کمایا۔ انھوں نے غزلیں‌ بھی کہیں اور اپنے ہم عصروں میں نمایاں ہوئے۔

    ’’دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ‘‘ وہ گیت تھا جس پر اسد بھوپالی کو "فلم فیئر ایوارڈ” سے نوازا گیا تھا۔

  • یومِ وفات:‌ مجیب عالم کی مدھر آواز ہمیشہ زندہ رہے گی

    یومِ وفات:‌ مجیب عالم کی مدھر آواز ہمیشہ زندہ رہے گی

    مجیب عالم کی زندگی کا سفر 2004 میں تمام ہوا تھا۔ 1967ء میں فلم’ چکوری‘ کی بدولت مجیب عالم کی آواز نے موسیقاروں اور شائقین سے سندِ قبولیت اور پذیرائی سمیٹی تھی اور ان کے گیت کے بول تھے، ’وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں…‘

    اس فلمی گیت نے مقبولیت کا ریکارڈ بنایا اور اگلے کئی برس تک مجیب عالم فلم انڈسٹری کے مصروف گلوکاروں میں شامل رہے۔ کراچی میں 2 جون کو وفات پانے والے مجیب عالم کی آج برسی ہے۔

    مجیب عالم نے فلمی دنیا کے لیے کئی یادگار گیت ریکارڈ کرائے جنھیں ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے اکثر نشر کیا جاتا تھا۔ ایک دور تھا جب سامعین کی فرمائش پر گلوکار مجیب عالم کی آواز میں‌ خوب صورت گیت ریڈیو سے نشر ہوتے تھے۔ اسی طرح ٹیلی ویژن کے لیے انھوں نے خصوصی طور پر نغمات ریکارڈ کروائے تھے جنھیں شائقین نے بہت پسند کیا۔ پی ٹی وی کے لیے ان کا گیت ’میرا ہر گیت ہے ہنستے چہروں کے نام‘ بہت مقبول ہوا۔

    جس زمانے میں مجیب عالم نے فلم انڈسٹری میں بطور گلوکار قدم رکھا، وہاں مہدی حسن اور احمد رشدی جیسے پائے کے گلوکار پہلے ہی موجود تھے، لیکن جلد ہی مجیب عالم پاکستان کے صفِ اوّل کے گلوکاروں میں شامل ہوگئے۔ ان کے مشہور گیتوں میں ’یوں کھو گئے تیرے پیار میں ہم‘، ’میں تیرے اجنبی شہر میں‘ اور ’یہ سماں پیار کا کارواں‘ سرفہرست ہیں۔

    پاکستان کے معروف گلوکار مجیب عالم ہندوستان کے شہر کانپور میں 1948ء میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیمِ ہند کے چند برس بعد ان کا خاندان ہجرت کرکے کراچی آگیا تھا جہاں وہ اپنی زندگی کی آخری سانس تک سکونت پذیر رہے۔ مجیب عالم کی آواز بے حد سریلی تھی اور وہ ریڈیو پر اپنے فن کا مظاہرہ کرچکے تھے۔ اسی سے متأثر ہوکر موسیقار حسن لطیف نے اپنی فلم نرگس کے گیت ان سے گوائے مگر یہ فلم پردے پر نمائش کے لیے پیش نہ کی جاسکی۔ تاہم ساٹھ کی دہائی میں مجیب عالم نے فلمی دنیا کو بطور گلوکار اپنا لیا تھا۔ ان کی ریلیز ہونے والی پہلی فلم مجبور تھی۔ مجیب عالم کی آواز میں 1966 میں فلم جلوہ کا گیت بھی ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس کے اگلے سال چکوری جیسی کام یاب فلم کا نغمہ ان کی آواز میں بے حد مقبول ہوا اور پھر وہ آگے بڑھتے چلے گئے۔ مجیب عالم کو اس گیت کے لیے نگار ایوارڈ دیا گیا۔ ان کے بارے میں اپنے وقت کے مایہ ناز موسیقاروں اور گلوکاروں کا کہنا تھاکہ ’مجیب مشکل گانے بھی آسانی اور روانی سے گایا کرتے تھے۔‘

    مجیب عالم نے جن فلموں کے لیے نغمات ریکارڈ کروائے ان میں دل دیوانہ، گھر اپنا گھر، جانِ آرزو، ماں بیٹا، شمع اور پروانہ، قسم اس وقت کی، میں کہاں منزل کہاں سرفہرست ہیں۔

    فلمی گیتوں کو اپنی آواز میں لازوال اور سحر انگیز بنا دینے والے مجیب عالم کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔ آج یہ خوب صورت گلوکار ہمارے درمیان موجود نہیں، مگر ان کی آواز موسیقی اور گائیکی کی دنیا میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔

  • گیتوں کی مالا اور ریاضُ الرّحمان ساغر

    گیتوں کی مالا اور ریاضُ الرّحمان ساغر

    کسی بھی فلم کی کام یابی میں جان دار اسکرپٹ اور بہترین اداکاری بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے، لیکن شاعری، موسیقی اور گلوکاری ایک فلم کو یادگار بنا دیتے ہیں۔ ریاضُ الرّحمان ساغر ایسے ہی شاعر تھے جن کے تحریر کردہ فلمی گیت ہر خاص و عام آج بھی مقبول ہیں۔

    بطور فلمی گیت نگار ساغر کی اوّلین وجہِ شہرت فلم شریکِ حیات اور سماج تھی۔ ان فلموں کے گیتوں کو شائقینِ سنیما نے بہت پسند کیا تھا۔

    معروف شاعر، کئی مقبول گیتوں کے خالق اور صحافی ریاضُ الرّحمان ساغر طویل عرصہ علیل رہنے کے بعد یکم جون 2013ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھیں کینسر کا مرض لاحق تھا۔ ریاضُ الرّحمان ساغر کا سنہ پیدائش 1941ء ہے، وہ بھارتی پنجاب کے شہر بھٹنڈہ میں پیدا ہوئے اور تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آئے۔ یہاں‌ ساغر نے رہنے بسنے اور روزگار کے حصول کے لیے بھاگ دوڑ کے دوران صحافت کو اپنے لیے موزوں پایا اور اس پیشے میں فلمی شعبہ سے منسلک رہے۔ انھوں نے شوبز رپورٹر اور شوبز ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے کالم نگاری کا سلسلہ شروع کیا جو ایک قومی روزنامے میں شایع ہوتا رہا۔

    ایک اندازے کے مطابق معروف شاعر ریاضُ الرّحمان ساغر کے فلمی گیتوں کی تعداد دو ہزار سے زائد ہے جن میں کئی سدا بہار اور مقبولِ عام نغمات شامل ہیں۔ ساغر کے فلمی گیتوں کو اپنے وقت کے مشہور و معروف گلوکاروں نے گایا اور شہرت حاصل کی۔ ریاض الرحمان ساغر کی پہلی فلم ہدایت کار اور مصنّف عزیز میرٹھی کی اردو فلم عالیہ (1967) تھی۔ موسیقار ماسٹرعنایت حسین کی دھن میں پہلا گیت تھا:

    کہو، وعدہ ہوا، رسمِ وفا ہر دم نبھانے کا۔ یہ ایک دو گانا تھا جسے احمد رشدی اور مالا نے گایا تھا اور یہ اداکار کمال اور شمیم آرا پر فلمایا گیا تھا۔ ساغر صاحب کا پہلا ہٹ گیت فلم شریکِ حیات (1968) میں شامل تھا جس کے بول تھے، میرے دل کے صنم خانے میں اک تصویر ایسی ہے، جو بالکل آپ جیسی ہے… اس گیت کو مسعود رانا نے گایا تھا اور اس کی دھن اے حمید نے بنائی تھی۔ فلم انڈسٹری میں ریاضُ الرّحمان ساغر کو بڑے فلم سازوں نے کام دیا اور ان کی شاعری کو سراہا۔

    پاکستانی فلم ’کبھی تو نظر ملاؤ‘، ’چیف صاحب‘، ’سرگم‘، ’گھونگھٹ‘، ’انتہا‘، ’محبتاں سچیاں‘، ’سمجھوتا ایکسپریس‘ اور ’عشق خدا‘ وہ کام یاب فلمیں‌ تھیں جن کے لیے ساغر نے شاعری کی اور یہ گیت مقبول ہوئے۔ ان کا مقبول ترین گیت ’میں تینوں سمجھانواں کیہ‘ فلم ’ورثہ‘ کے لیے تھا جسے راحت فتح علی خان نے گایا۔

    معروف شاعر نے پاکستانی گلوکاروں کی فرمائش پر ان کے البموں کے لیے بھی گیت تحریر کیے جن میں ’دوپٹہ میرا مل مل دا‘ اور ’یاد سجن دی آئی‘، ’کبھی تو نظر ملاؤ‘ اور پاکستان کی معروف گلوکارہ فریحہ پرویز کے البم میں شامل گیت آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔

    پاکستان کے اس معروف گیت نگار کو سنسر بورڈ کا رکن بھی بنایا گیا تھا۔ ساغر صاحب نے شاعری کے علاوہ نثر میں بھی اپنے قلم کو آزمایا ہے۔ ان کی سوانح عمری ’وہ کیا دن تھے‘ کے عنوان سے جب کہ دو سفر نامے ’کیمرہ، قلم اور دنیا‘ اور ’لاہور تا بمبئی براستہ دہلی‘ شائع ہوئے۔ انھیں‌ فلمی دنیا میں متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔

    وفات کے وقت معروف فلمی گیت نگار کی عمر 72 برس تھی۔ انھیں لاہور کے ایک قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

  • ایک مزاحیہ اداکار کا تذکرہ جنھیں‌ فلم میں ‘ہیرو’ بنایا گیا!

    ایک مزاحیہ اداکار کا تذکرہ جنھیں‌ فلم میں ‘ہیرو’ بنایا گیا!

    ایک زمانہ تھا جب غیر ناطق فلموں‌ میں اداکار اپنے چہرے کے تاثرات اور حرکات و سکنات سے شائقین کو متوجہ کرتے تھے اور داد وصول کرنے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنا پڑتی تھی۔ اسی زمانے میں نور محمد چارلی نے اپنا فلمی سفر شروع کیا اور ہندوستان میں شہرت اور مقبولیت پائی۔

    انیسویں صدی کی 30 اور 40 کی دہائی میں‌ نام کمانے والے نور محمد چارلی مشہور مزاحیہ اداکار تھے۔ وہ پہلے مزاحیہ اداکار بھی تھے جنھیں اس دور میں‌ ایک فلم کے لیے ہیرو منتخب کیا گیا اور دیگر فلموں میں بھی انھوں نے مرکزی کردار نبھائے۔ یہی نہیں بلکہ وہ اپنے دور کے مزاحیہ فن کاروں میں پہلے مزاحیہ اداکار تھے جن پر ایک گیت بھی فلمایا گیا اور خود انھوں نے بھی اپنی فلموں کے لیے گیت گائے تھے۔

    نور محمد چارلی کے فلمی سفر کا آغاز 1928ء میں ہوا تھا۔ اس زمانے کی ایک غیرناطق فلم اپ ٹو ڈیٹ میں نور محمد نے کام کیا تھا۔ اس سے اگلے برس ایک فلم انڈین چارلی پیش کی گئی جسے بعد میں 1933ء میں ناطق فلم کے طور پر بھی بنایا گیا اور اس فلم کا ٹائٹل رول نور محمد نے اس خوب صورتی سے نبھایا کہ شائقین نے انھیں ‘نور محمد چارلی’ کہنا شروع کردیا۔ چارلی ان کے نام سے آخری عمر تک جڑا رہا۔

    نور محمد چارلی نے کئی فلموں میں مرکزی کردار نبھائے جن میں سنجوگ (1943)، مسافر (1940)، چاند تارا (1945) جیسی کام یاب فلمیں شامل تھیں۔

    قیامِ پاکستان کے بعد یہ مزاحیہ اداکار ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور یہاں اپنی پہلی فلم مندری (1949) میں کام کیا، لیکن تقسیمِ ہند سے قبل شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے والے اس اداکار کو پاکستان میں سنیما پر خاص کام یابی نہیں ملی۔

    نور محمد چارلی نے اردو اور پنجابی فلموں میں بھی کام کیا اور ناکام رہے جس کے بعد تین سندھی فلموں میں خود کو آزمایا اور یہاں بھی بدقسمتی سے شائقین کی توجہ حاصل نہ کرسکے۔ ان ناکامیوں سے گھبرا کر وہ بھارت چلے گئے، جہاں انھیں تین فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا، لیکن ان کے بخت کا ستارہ اب زوال پذیر تھا، وہ مایوس ہو کر پاکستان لوٹ آئے۔ وطن واپسی کے بعد یہاں مزید دو فلموں میں کام کیا تھا۔ 30 جون 1983ء کو نور محمد چارلی کراچی میں وفات پاگئے۔

    نور محمد چارلی 7 جنوری 1911ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر گجرات کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیمِ ہند سے قبل انھوں نے جن فلموں میں کام کیا، ان میں پاک دامن، رقاصہ، زرینہ، پریمی پاگل، فرزندِ ہند، ستم گر، پاگل، رنگیلا راجہ اور ڈھنڈورا شامل ہیں۔ پاکستان میں ان کی آخری فلم استادوں کا استاد (1967) کے علاوہ ایک پنجابی فلم پلپلی صاحب (1965) بھی تھی جس میں انھوں نے ٹائٹل رول نبھایا تھا۔

  • اردو زبان کے صفِ اوّل کے طنز نگار چراغ حسن حسرت کی برسی

    اردو زبان کے صفِ اوّل کے طنز نگار چراغ حسن حسرت کی برسی

    چراغ حسن حسرتؔ کی نثر کے بارے میں شورش کاشمیری لکھتے ہیں، ’’وہ نثر کی ہر صنف پر قادر تھے، سیرت بھی لکھی، افسانے بھی تحریر کیے، تاریخ پر بھی قلم اٹھایا۔ بچّوں کا نصاب بھی لکھا۔‘‘

    26 جون 1955 کو مولانا چراغ حسن حسرت لاہور میں انتقال کر گئے تھے۔ آج اس ممتاز ادیب و شاعر اور جیّد صحافی کی برسی منائی جارہی ہے۔ مزاحیہ مضامین اور فکاہیہ کالم ان کی خاص وجہِ شہرت ہیں۔

    چراغ حسن حسرت 1904 میں کشمیر میں پیدا ہوئے تھے۔ اسکول کے زمانے میں شاعری کی طرف راغب ہوئے، فارسی پر عبور اور عربی جاننے کے ساتھ اردو زبان و بیان پر قدرت رکھتے تھے اور پاکستان ہجرت کرنے کے بعد یہاں اردو اور فارسی کی تدریس سے منسلک ہوگئے۔ اسی زمانے میں عملی صحافت کا سلسلہ شروع ہوگیا اور متعدد اخبارات میں کام کرنے کے ساتھ ادبی جرائد کے لیے لکھنے لگے اور ادارت بھی کی جن میں ’’انسان، زمیندار، شیراز اور شہباز‘‘ شامل ہیں۔ انھیں شملہ اور کلکتہ میں بھی تدریس اور صحافت کے شعبے میں اپنے تجربے اور علم و قابلیت کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا۔

    حسرت نے مختلف قلمی ناموں سے لکھا جن میں ’’کولمبس، کوچہ گرد، اور سند باد جہازی‘‘ مشہور ہیں۔ ان ناموں سے حسرت کی تحریریں ہر خاص و عام میں‌ مقبول ہوئیں اور ان کا طرزِ نگارش اور دل چسپ و شگفتہ انداز ان کی شہرت میں اضافہ کرتا چلا گیا۔

    مولانا چراغ حسن حسرت کی تصانیف اردو ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔ ان کی کتابوں میں کیلے کا چھلکا، پربت کی بیٹی، مردم دیدہ، دو ڈاکٹر اور پنجاب کا جغرافیہ و دیگر شامل ہیں۔

    چراغ حسن حسرتؔ کی نثر مختلف النّوع موضوعات پر مشتمل ہے۔ وہ سنجیدہ، خالص ادبی اور رومانوی مضامین کے ساتھ طنز و مزاح لکھتے تھے۔ اس کے علاوہ خاکہ نویسی، تراجم، تبصرے اور تحقیقی مضامین بھی ان کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔ حسرت کو ان کے فکاہیہ مضامین اور ظرافت آمیز کالموں سے خوب شہرت ملی۔ چراغ حسن حسرتؔ نے لاہور کے روزناموں سے مزاحیہ کالموں کا سلسلہ کم و بیش چودہ پندرہ برس جاری رکھا۔

    انھوں نے زیادہ تر اپنے ماحول اور اردگرد بکھرے ہوئے موضوعات کو اپنے کالموں میں پیش کیا ہے۔ وہ اپنی تحریروں میں زور اور اثر پیدا کرنے کے لیے محاورہ، تشبیہ، استعارہ اور ضربُ الامثال سے خوب کام لیتے تھے۔

    ایک ادیب، ایک صحافی، انشا پرداز اور ایک تاریخ نگار کی حیثیت سے جہاں انھوں نے قارئین کی بڑی تعداد کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا، وہیں‌ وہ علم و ادب کی دنیا اور اپنے قریبی احباب میں اپنی بادہ نوشی اور بعض عادات کی وجہ سے مطعون بھی کیے جاتے تھے۔

    اردو کے نام وَر افسانہ نگار سعادت حسن منٹو بھی چراغ حسن حسرت کے بے تکلّف دوستوں‌ میں‌ شامل تھے، اور ان کا ایک خاکہ لکھا تھا جس سے چند پارے ہم یہاں‌ نقل کررہے ہیں۔

    "مولانا چراغ حسن حسرت جنہیں اپنی اختصار پسندی کی وجہ سے حسرت صاحب کہتا ہوں۔ عجیب و غریب شخصیت کے مالک ہیں۔ آپ پنجابی محاورے کے مطابق دودھ دیتے ہیں مگر مینگنیاں ڈال کر۔ ویسے یہ دودھ پلانے والے جانوروں کی قبیل سے نہیں ہیں حالانکہ کافی بڑے کان رکھتے ہیں۔

    آپ سے میری پہلی ملاقات عرب ہوٹل میں ہوئی۔ جسے اگر فرانس کا ’’لیٹن کوارٹر‘‘ کہا جائے تو بالکل درست ہوگا۔ ان دنوں میں نے نیا نیا لکھنا شروع کیا تھا اور خود کو بزعمِ خویش بہت بڑا ادیب سمجھنے لگا تھا۔ عرب ہوٹل میں تعارف مظفر حسین شمیم نے اُن سے کرایا۔ یہ بھی حسرت صاحب کے مقابلے میں کم عجیب و غریب شخصیت نہیں رکھتے۔ میں بیمار تھا۔ شمیم صاحب کی وساطت سے مجھے ہفتہ وار’’پارس‘‘ میں جس کے مالک کرم چند تھے، ملازمت مل گئی۔ تنخواہ چالیس روپے ماہوار مقرر ہوئی مگر ایک مہینے میں بمشکل دس پندرہ روپے ملتے تھے۔ شمیم صاحب اور میں ان دنوں دوپہر کا کھانا عرب ہوٹل میں کھاتے تھے۔

    ایک دن میں نے اس ہوٹل کے باہر تھڑے پر وہ ٹوکرا دیکھا جس میں بچا کھچا کھانا ڈال دیا جاتا تھا۔ اس کے پاس ایک کتا کھڑا تھا۔ ہڈیوں اور تڑی مڑی روٹیوں کو سونگھتا، مگر کھاتا نہیں تھا۔ مجھے تعجب ہوا کہ یہ سلسلہ کیا ہے۔

    شمیم صاحب نے جب حسرت صاحب سے میرا تعارف کرایا اور ادھر ادھر کی چند باتیں ہوئیں، تو میرے استفسار پر بتایا کہ اس کتّے کی محبت ایک سانڈ سے ہے۔ مجھے بہت حیرت ہوئی لیکن میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ان دو حیوانوں میں دوستی تھی۔ سانڈ ساڑھے بارہ بجے دوپہر کو خراماں خراماں آتا، کتّا دُم ہِلا ہلا کر اس کا استقبال کرتا اور وہ ٹوکرا جس کا میں ذکر کر چکا ہوں، اس کے حوالے کردیتا۔ جب وہ اپنا پیٹ بھر لیتا جو کچھ باقی بچ جاتا اس پر قناعت کرتا۔

    اس دن سے اب تک میری اور حسرت صاحب کی دوستی، اس سانڈ اور کتّے کی دوستی ہے۔ معلوم نہیں حسرت صاحب سانڈ ہیں یا میں کتّا۔ مگر ایک بات ہے کہ ہم میں سے کوئی نہ کوئی سانڈ اور کتا ضرور ہے لیکن ہم میں اکثر لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں جو ان دو حیوانوں میں شاید نہ ہوتی ہوں۔

    حسرت صاحب بڑی پیاری شخصیت کے مالک ہیں۔ میں ان سے عمر میں کافی چھوٹا ہوں لیکن میں انہیں بڑی بڑی مونچھوں والا بچّہ سمجھتا ہوں۔ یہ مونچھیں صلاح الدین احمد صاحب کی مونچھوں سے بہت ملتی جلتی ہیں۔

    حسرت صاحب کہنے کو تو کشمیری ہیں مگر اپنے رنگ اور خدوخال کے اعتبار سے معلوم نہیں کس نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ فربہ اندام اور خاصے کالے ہیں۔ معلوم نہیں کس اعتبار سے کشمیری ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں؟

    ویسے مجھے اتنا معلوم ہے کہ آپ آغا حشر کاشمیری کے ہم جلیس تھے۔ علامہ اقبال سے بھی شرفِ ملاقات حاصل تھا جو کشمیری تھے۔ خاکسار بھی ہیں جس سے ان کی’’سانڈ اور کتے‘‘ کی دوستی ہے لیکن اس کے باوجود اگر یہ ثابت کرنا چاہیں کہ خالص کشمیری ہیں تو کوئی کشمیری نہیں مانے گا۔ حالانکہ انہوں نے کشمیر پر ایک کتاب بھی لکھی ہے۔

    یہ کتاب میں نے پڑھی ہے۔ میں عام طور پر بڑا برخود غلط انسان متصور کیا جاتا ہوں لیکن مجھے ماننا پڑتا ہے اور آپ سب کے سامنے حسرت صاحب بڑی دلفریب اندازِ تحریر کے مختار اور مالک ہیں۔ بڑی سہلِ ممتنع قسم کے فقرے اور جملے لکھتے ہیں۔ پر ان کی ان پیاری تحریروں میں مجھے ایک بات کھٹکتی ہے کہ وہ ہمیشہ استادوں کا طریقۂ تعلیم استعمال کرتے ہیں۔ ان کے بے شمار شاگرد موجود ہیں جو شاید ان کے علم میں نہ ہوں مگر ان کی خواہش ہے کہ وہ ہر بچّے، نوجوان اور بوڑھے پر رعب جمائیں اور اس کا کاندھا تھپکا کر اسے یہ محسوس کرنے پر مجبور کریں کہ وہ ان کا برخوردار ہے۔ مجھے ان کی طبیعت کا یہ رخ سخت ناپسند ہے، اسی وجہ سے میری اور ان کی لڑائی ہوتی رہی ہے۔

    اردو کے صفِ اوّل کے طنز نگار چراغ حسن حسرت لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں‌ آسودۂ خاک ہیں۔

  • مشتاق احمد یوسفی: کچھ باتیں، کچھ یادیں

    مشتاق احمد یوسفی: کچھ باتیں، کچھ یادیں

    مشتاق احمد یوسفی اپنی زبان دانی کے لیے مشہور تھے۔ وہ لفظوں کے ہیر پھیر سے ایسا مزاح پیدا کرتے ہیں جس کی گرفت کے لیے قاری کو خاصا ہشیار رہنا پڑتا ہے۔ اپنے عہد کے ایک ممتاز ادیب اور شاعر شمس الرحمٰن فاروقی نے ان کے بارے میں‌ لکھا:

    ’’مشتاق احمد یوسفی ہمارے دور کے سب سے بڑے طنز و مزاح نگار ہیں۔ ان کے مزاح میں شعر و ادب کا علم کچھ اس طرح پیوست ہے، اردو زبان کی وسعتوں پر انھیں اس قدر قابو ہے کہ اس کے باعث انھیں پڑھنے اور ان کے فن کا پورا لطف حاصل کرنے کے لیے ہمارا بالغ نظر اور وسیع مطالعہ کا حامل ہونا ضروری ہے۔ پرانی باتوں، خاص کر زمانۂ گزشتہ کے اشعار اور عبارات کو پر لطف تحریف کے ساتھ پیش کرنا یوسفی کا خاص انداز ہے۔ قاری کی نظر اگر ان پرانے حوالوں پر ہو تو وہ یوسفی کی مزاحیہ تحریف کو سمجھ سکتا ہے اور پھر وہ ان کی پہنچ اور ندرتِ خیال کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘

    مشتاق احمد یوسفی ایک ایسے مزاح نگار ہیں جن کی تحریریں قاری سے غور و خوض اور فہم و تدبّر کا تقاضا کرتی ہیں۔ ان کی عبارات سے لطف اٹھانے کے لیے انہیں کئی بار پڑھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اردو طنز و مزاح میں‌ مشتاق احمد یوسفی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ انھیں اس عہد کا سب سے بڑا مزاح نگار کہا جاتا ہے۔ آج مشتاق یوسفی کی برسی پر ان کی طنز و مزاح پر مبنی تحریروں سے اقتباس ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔

    1955ء میں مشتاق یوسفی نے ’’صنفِ لاغر‘‘ عنوان سے مضمون لکھا تھا جو مشہور رسالے ’’سویرا‘‘ میں شائع ہوا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا اور ان کی شہرت اور مقبولیت بھی پاک و ہند تک محدود نہ رہی بلکہ جہاں‌ جہاں‌ اردو زبان پڑھنے اور سمجھنے والے بستے ہیں، وہاں وہاں مشتاق احمد یوسفی کی مزاح نگاری کا لطف لیا گیا۔ 1961ء میں ان کی پہلی تصنیف ’’چراغ تلے‘‘ شائع ہوئی تھی جسے ہر خاص و عام میں سراہا گیا۔ دوسری کتاب ’’خاکم بدہن‘‘ 1970ء میں اور تیسری ’’زرگزشت‘‘ 1976ء میں منظرِ عام پر آئی اور مقبول ہوئی جب کہ ’’آبِ گم‘‘ 1989ء میں آنے والا ان کے مضامین کا مجموعہ تھا اور پانچویں کتاب کا نام ’’شامِ شعر یاراں‘‘ تھی جو 2014ء میں شایع ہوئی۔

    ان کے رشحاتِ خامہ طنز و مزاح کے ساتھ ساتھ اپنے اندر گہرائی، گیرائی، اصلاح اور فلسفہ جذب کیے ہوئے ہیں۔ ذہانت و لیاقت اور وسعتِ مطالعہ کے ساتھ لسانی بازی گری کے ذریعے مشتاق یوسفی نے طنز و مزاح نگاری کو بامِ معراج پر پہنچایا ہے اور اس پر اردو ادب ہمیشہ گراں بار رہے گا۔ اپنے طنز سے بھرپور نشتروں کے ذریعے وہ سماج میں پائی جانے والی برائیوں کی جس طرح جراحی کرتے ہیں، وہ بے مثال اور لاجواب ہے۔

    وہ ایک بینکار تھے اور موصوف کو اپنے والد کی وفات پر صرف تین دن کی چھٹیاں ملی تھیں، اس پر ستم ظریفی یہ کہ تین چھٹیوں کی تنخواہ بھی ان کی ماہانہ تنخواہ سے منہا کر دی گئی تھی۔ وہ اپنے مزاحیہ انداز میں زرگزشت میں اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

    ’’ہمیں یاد ہے جون کا مہینہ فری امپورٹ کا زمانہ تھا۔ کام بے اندازہ آدمی کم۔ ہم چار آدمیوں کے برابر کام اور آٹھ آدمیوں کے برابر غلطیاں بڑی تن دہی سے کر رہے تھے۔ ایک منحوس صبح خبر آئی کہ ٹنڈو آدم میں اخبار پڑھتے پڑھتے ابّا جان پر دل کا دورہ پڑا، اور زمیں نے اپنی امانت واپس لے لی۔ حیدر آباد میں ان کی تدفین کے سلسلہ میں تین دن کی رخصت اتفاقیہ لینے کی پاداش میں یعسوب الحسن غوری نے ہماری تنخواہ کاٹ لی۔ جو کچھ عرصہ بعد انڈرسن نے اس وارننگ پر واپس دلوا دی کہ ’’ آئندہ اس واقعہ کو نہیں دہرایا جائے گا۔‘‘

    کسی پیشے میں جب کوئی نو وارد ہوتا ہے تو اسے کئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔وہاں کے ماحول میں ڈھلنے اور اپنی ذہانت اور قابلیت کا ثبوت دینے تک ہر طرح کے طعن و تشنیع سے دوچار ہونا پڑ تا ہے۔ موصوف کو بھی بینک کی ملازمت اختیار کرنے پر ان پریشانیوں کا شکار ہونا پڑا جن کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    ’’ہم ریوڑ میں نئے نئے داخل ہوئے تھے۔ ہر ایک سینگ مارتا تھا۔ ’’کی جس سے بات اس نے ہدایت ضرور کی‘‘ یوں تو سارے جہان کی کھڑکیاں ہمارے ہی آنگن میں کھلتی تھیں لیکن یعسوب الحسن غوری کا انگوٹھا ہمارے ٹینٹوے پر ہی رہتا تھا۔ روز روز کے طعن و تشنیع سے ہمارا کلیجہ چھلنی ہو گیا تھا بلکہ چھلنی میں چھید بھی ہو گئے تھے جن میں سے اب موٹے موٹے طعنے پھسل کر نکلنے لگے تھے۔ منجملہ دیگر الزامات کے ہم پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ ہمارے دستخط گستاخانہ حد تک لمبے تھے۔‘‘

    اسی طرح ایک مضمون میں‌ خودکشی کرنے والوں کی بابت یوں شگفتہ نگاری کی ہے:
    اس زمانے میں عام آدمی کو خود کشی کے لیے طرح طرح کی صعوبتیں اُٹھانا اور کھکھیڑ اُٹھانی پڑتیں تھیں۔ گھروں کا یہ نقشہ تھا کہ ایک ایک کمرے میں دس دس اس طرح ٹُھنسے ہوتے کہ ایک دوسرے کی آنتوں کی قراقر تک سُن سکتے تھے۔ ایسے میں اتنا تخلیہ کہاں نصیب کہ آدمی پھانسی کا پھندا کڑے میں باندھ کر تنہا سکون سے لٹک جائے۔ علاوہ ازیں، کمرے میں ایک ہی کڑا ہوتا تھا جس میں پہلے ہی ایک پنکھا لٹکا ہوتا تھا۔ گرم کمرے کے مکین اس جگہ کسی اور کو لٹکنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ رہے پستول اور بندوق تو اُن کے لائسنس کی شرط تھی جو صرف امیروں، وڈیروں اور افسروں کو ملتے تھے۔ چناچہ خود کشی کرنے والے ریل کی پٹری پر دن بھر لیٹے رہتے کہ ٹرین بیس بیس گھنٹے لیٹ ہوتی تھی۔ آخر غریب موت سے مایوس ہو کر کپڑے جھاڑ کر اُٹھ کھڑے ہوتے۔

  • ”پیار بھرے دو شرمیلے نین…” خواجہ پرویز کی یاد دلاتے رہیں‌ گے!

    ”پیار بھرے دو شرمیلے نین…” خواجہ پرویز کی یاد دلاتے رہیں‌ گے!

    پاکستان میں فلمی صنعت کے دورِ عروج میں خواجہ پرویز نے کئی بے مثال نغمات لکھے اور ان کے کتنے ہی گیت لازوال ثابت ہوئے۔ جب انڈسٹری پر زوال آیا تو وہ اسٹیج کے لیے اسکرپٹ لکھنے لگے اور فلمی منظر نامے بھی تحریر کیے۔ آج خواجہ پرویز کی برسی ہے۔

    مسرت نذیر کے شادی بیاہ کے گیتوں کی معروف البم کے نغمے بھی خواجہ پرویز نے ہی تحریر کیے تھے۔ استاد نصرت فتح علی خان نے بھی خواجہ پرویز کے کئی گیت گائے جو بے حد مقبول ہوئے۔ ”اکھیاں اڈیک دیاں“ انہی میں سے ایک ہے۔

    فلم انڈسٹری کے صفِ اوّل کے گلوکاروں نے خواجہ پرویز کے گیت گائے ہیں۔ ملکۂ ترنم نور جہاں ، مہدی حسن اور کئی گلوکار اس میں‌ شامل ہیں جو بہت مشہور ہوئے۔ خواجہ پرویز نے نصف صدی ت پاکستانی فلمی صنعت کے لیے بطور نغمہ نگار کام کیا۔

    خواجہ پرویز 20 جون 2011ء کو وفات پاگئے تھے۔ اردو گیتوں کے ساتھ پنجابی زبان میں‌ بھی ان کے تحریر کردہ کئی نغمات مقبول ہوئے۔

    وہ 1932ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد خواجہ پرویز اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور میں گوالمنڈی کے علاقے میں آبسے۔ ان کا اصل نام خواجہ غلام محی الدّین تھا اور پرویز ان کا تخلص۔ فلمی دنیا میں انھیں خواجہ پرویز کے نام سے شہرت اور پذیرائی ملی۔

    خواجہ صاحب نے دیال سنگھ کالج سے گریجویشن کیا تھا۔ یہاں ان کی دوستی اس وقت کے معروف ہدایت کار ولی کے بیٹے سے ہوگئی۔ اسی کے توسط سے خواجہ پرویز کو ہدایت کار ولی نے جانا اور 1955ء میں انھیں اپنے اسٹنٹ کے طور پر ساتھ رکھ لیا۔ یوں خواجہ پرویز کا فلم انڈسٹری میں‌ سفر شروع ہوا۔ انھوں نے معاون ہدایت کار کے طور پر تین فلمیں‌ مکمل کروائیں، لیکن طبیعت شاعری کی طرف مائل تھی اور پھر معروف نغمہ نگار سیف الدین سیف کے ساتھ کام شروع کر دیا۔

    خواجہ پرویز سے ہدایت کار دلجیت مرزا نے اپنی فلم ’رواج‘ کے گیت لکھوائے۔ اس فلم میں مالا کی آواز میں ان کا گیت ’کہتا ہے زمانہ کہیں دل نہ لگانا‘ بہت مقبول ہوا۔ اس کے بعد وہ کام یابی کے جھنڈے گاڑتے چلے گئے۔ ان کا ہر گیت ہٹ ثابت ہوا۔

    فلم سنگ دل میں ان کا نغمہ ’سن لے او جانِ وفا‘ اور اس کے بعد ’تمہی ہو محبوب مرے میں کیوں نہ تمہیں پیار کروں‘ بہت مقبول ہوا۔ فلم آنسو کا گانا ’تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں جیسے صدیاں بیت گئیں‘ نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا اور پھر ’پیار بھرے دو شرمیلے نین‘ نے سرحد پار بھی دلوں میں جگہ پائی اور لبوں پر جاری ہوا۔

    خواجہ پرویز کے بارے میں‌ مشہور ہے کہ وہ باغ و بہار شخصیت کے مالک اور دوسروں کے مددگار اور خیرخواہ تھے۔ انھیں لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • "ماں” سے شہرت پانے والے میکسم گورکی کی کہانی

    "ماں” سے شہرت پانے والے میکسم گورکی کی کہانی

    18 جون 1936ء کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لینے والے میکسم گورکی کو "ماں” نے دنیا بھر میں شہرت عطا کی۔ اس روسی ناول نگار کی اس تخلیق کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔

    الیکسی میکسیمووچ پیشکوف المعروف میکسم گورکی نے 28 مارچ 1868ء کو روس کی ایک ریاست میں جنم لیا۔ اس کے والد کم عمری میں ساتھ چھوڑ گئے تھے اور یتیم گورکی کو معاش کے لیے مشقت کرنا پڑی۔ اس نے چھوٹے موٹے کام کیے اور غربت و افلاس سے لڑتا ہوا زندگی کی گاڑی دھکیلتا رہا۔ ایک مہربان نے تھوڑا بہت پڑھنا لکھنا سکھا دیا اور پھر وہ ادب کی جانب مائل ہوا۔ اس نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ انقلابی نظریات کو اس توانائی سے اپنے فن میں سمویا کہ اس کی شہرت روس کی سرحدوں سے باہر نکل گئی۔ وہ ایک ناول نگار ہی نہیں شاعر، ڈراما نویس اور جیّد صحافی بھی تھا۔ میکسم گوری کے ناول اور اس کی مختصر کہانیاں بہت مقبول ہوئیں۔

    ناول “ماں” 1906ء میں منظر عام پر آیا تھا۔ اس ناول کی کہانی ایک مزدور، اس کی ماں، اس کے چند دوستوں اور چند خواتین کے گرد گھومتی ہے۔ بیٹا انقلابی فکر کا حامل ہے اور گرفتاری کے بعد ماں اپنے بیٹے اور اس کے مقصد یعنی انقلاب کے لیے سختیاں برداشت کرتی ہے، وہ ان پڑھ اور سادہ عورت ہے جو بیٹے کو جیل کے دوران خود بھی ایک انقلابی بن جاتی ہے۔ اس ناول کا دنیا کی بے شمار زبانوں میں ترجمہ جب کہ گورکی کو پانچ مرتبہ ادب کے نوبیل انعام کے لیے بھی نام زد کیا گیا تھا۔

    روس کے اس ادیبِ اعظم نے اپنی آپ بیتی بھی رقم کی جس کا مطالعہ گورکی کے نظریات سے اور اس کے دور میں روس کے سیاسی اور سماجی حالات سے واقف ہونے کا موقع دیتا ہے۔

    عالمی شہرت یافتہ ناول نگار میکسم گورکی نے زندگی کی اڑسٹھ بہاریں دیکھیں اور ہمیشہ روس کے مزدور، پسے ہوئے اور محکوم طبقات کے لیے اپنے قلم کو متحرک رکھا۔

  • اردو کو ’زبانوں کا تاج محل‘ کہنے والے گوپی چند نارنگ کا تذکرہ

    اردو کو ’زبانوں کا تاج محل‘ کہنے والے گوپی چند نارنگ کا تذکرہ

    عصرِ حاضر میں گوپی چند نارنگ اردو زبان و ادب کا سب سے معتبر اور مستند حوالہ بنے۔ وہ بھارت ہی نہیں‌ پاکستان میں بھی اُس زبان کی پہچان ہیں جسے تقسیمِ ہند کے بعد بھی دونوں ممالک میں ادب اور فنون، تہذیب و ثقافت میں امتیاز حاصل ہے۔ گوپی چند نارنگ کو اردو کا سفیر کہا جاتا ہے۔ دانش وَر اور اردو زبان کے عظیم نقّاد گوپی چند نارنگ نے گزشتہ روز اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔

    گوپی چند نارنگ ایک تغیّر نواز اور رجحان ساز نقّاد، محقق، ادیب، ماہرِ لسانیات تھے۔ دنیا میں جہاں جہاں اُردو بولی، لکھی اور پڑھی جاتی ہے، وہاں گوپی چند نارنگ کو اردو کے بے لوث خدمت گزار کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔

    بھارت سے تعلق رکھنے والے گوپی چند نارنگ نے اپنے علمی تجزیوں اور فکری مباحث سے اردو ادبی تنقید کو علم کی ایک شاخ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے اردو کی 400 سالہ فکری اور تہذیبی تاریخ کو اپنی تحقیق اور تنقید کا موضوع بنایا۔ ان کی تخلیقات ’ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں‘ اور ’ہندوستان کی تحریکِ آزادی اور اردو شاعری‘ نے نہ صرف اردو نثر اور شاعری کی باریکیوں کو بلکہ سماجی و ثقافتی سیاق و سباق کو بھی سمجھنے کا موقع دیا۔

    گوپی چند نارنگ 11 فروری 1931 کو بلوچستان کی تحصیل دُکّی میں پیدا ہوئے۔ وہ ابھی سال بھر کے تھے کہ ان کا خاندان موسیٰ خیل چلا گیا۔ ان کے بزرگوں کا تعلق مغربی پنجاب میں‌ لیّہ اور قرب و جوار سے تھا۔ گوپی چند نارنگ نے اس بارے میں‌ لکھا ہے:

    ’’کچھ یاد نہیں دُکّی کیسا گاؤں یا شہر تھا، البتہ موسیٰ خیل کے کچھ دھندلے سے نقش ذہن کی سلوٹوں میں ابھی باقی ہیں۔ تحصیل کے مکانوں کے پیچھے کا بڑا سا باغ جس میں انار، ناشپاتی اور شفتالو کے درخت اور انگور کی بیلیں تھیں۔ چاروں طرف چھوٹے بڑے پہاڑ، مختصر سا بازار جس میں ڈاک کی لاری رُکا کرتی تھی۔ سب بچّے اسی میں چڑھ جاتے اور ڈاک گھر سے بازار تک کی سیر کرتے۔ مغرب میں پتھریلی سڑک تھی جو فورٹ سنڈے من کو جاتی تھی۔ اسی کے راستے میں ندی پر وہ پُل تھا جس کے نیچے گہرے نیلے پانی میں ہم کنکر پھینکتے تو مچھلیوں کے سنہرے پر چمکنے لگتے۔‘‘

    ان کے والد بلوچستان میں ریونیو سروس میں افسر خزانہ کے عہدے پر فائز تھے۔ انھوں نے اُردو کا پہلا قاعدہ عبدالعزیز صاحب سے پڑھا۔ پرائمری کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد لیّہ ضلع مظفر گڑھ چلے گئے۔ اُردو اُن کا لازمی مضمون تھا اور سنسکرت اختیاری۔ مڈل کا امتحان انھوں نے اچھے نمبروں سے پاس کیا اور یہاں پر اُردو کی تعلیم مولوی مرید حسین صاحب سے حاصل کی۔ گورنمنٹ ہائی اسکول میں داخلہ لیا اور تعلیم مکمل کرکے نکلے۔ بعد میں‌ سنڈے کالج کوئٹہ سے تعلیم حاصل کی۔ ایف اے اور بی اے کے بعد 1952 میں گوپی چند نارنگ نے دہلی کالج میں ایم اے اردو میں داخلہ لیا اور پھر دہلی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

    1957 میں درس و تدریس سے منسلک ہوئے اور بھارت کے کئی تعلیمی اداروں‌ میں‌ فرائض انجام دیے جب کہ ملک سے باہر بھی انھیں‌ جامعات میں‌ تدریس اور اہم عہدوں‌ پر خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ کئی اداروں کے سربراہ اور اعزازی رکن رہے اور بے شمار سیمینارز اور اردو کے حوالے سے دنیا بھر میں‌ ہونے والی تقریبات میں انھیں خاص طور پر مدعو کیا جاتا تھا۔ اردو کی محبّت میں‌ انھوں نے لکھا:

    ’’اُردو ہماری صدیوں کی تہذیبی کمائی ہے، یہ ملی جلی گنگا جمنی تہذیب کا وہ ہاتھ ہے، جس نے ہمیں بنایا اور سنوارا ہے، یہ ہماری ثقافتی شناخت ہے جس کے بغیر نہ صرف ہم گونگے بہرے ہیں بلکہ بے ادب بھی۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ اُردو کو محض ایک زبان کہنا اُردو کے ساتھ بے انصافی کرنا ہے، یہ ایک طرزِ حیات، ایک اسلوبِ زیست، ایک اندازِ نظر یا جینے کا ایک سلیقہ و طریقہ بھی ہے، اس لیے کہ اُردو صدیوں کے تاریخی ربط و ارتباط سے بنی ایک جیتی جاگتی زندہ تہذیب کا ایک ایسا روشن استعارہ ہے جس کی کوئی دوسری مثال کم از کم بر صغیر کی زبانوں میں نہیں۔

    اُردو میری مادری زبان نہیں، میری ددھیال اور ننھیال میں سرائیکی بولی جاتی تھی، میری ماں دہلی ہجرت کے بعد بھی سرائیکی بولتی تھیں جو نہایت میٹھی، نرم اور رسیلی زبان ہے۔ لیکن مجھے کبھی محسوس نہیں ہوا کہ اُردو میری مادری زبان سے دور ہے۔ اُردو نے شروع ہی سے دوئی کا نقش میرے لاشعور سے مٹا دیا۔ مجھے کبھی محسوس نہیں ہوا کہ اُردو میرے خون میں جاری و ساری نہیں۔ یہ میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ اُردو میری ہڈیوں کے گودے تک کیسے اُترتی چلی گئی، یقیناً کچھ تو جادو ہوگا۔ تاج محل کا کرشمہ مثالی ہے، میں اُردو کو ’زبانوں کا تاج محل‘ کہتا ہوں اور اکثر میں محسوس کرتا ہوں۔ زبان میرے لیے رازوں بھرا بستہ ہے۔ کیسے ہند آریائی کے بستے میں عربی فارسی ترکی کے رنگ گھلتے چلے گئے اور کیسے ایک رنگا رنگ دھنک بنتی چلی گئی کہ جنوبی ایشیا کے اکثر ممالک کے طول و عرض میں وہ آج ’لنگوافرینکا‘ بھی ہے اور ایک ایسا ادبی اظہار بھی جس کے رس اور بالیدگی کو دوسری زبانیں رشک کی نطر سے دیکھتی ہیں۔‘‘

    گوپی چند نارنگ کا تخلیقی سفر افسانہ نگاری سے شروع ہوا۔ ان کا پہلا افسانہ کوئٹہ شہر کے ہفتہ وار اخبار ’’بلوچستان سماچار‘‘ میں اُس وقت شائع ہوا تھا جب وہ اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ رسائل میں لکھنے کی لت لڑکپن میں پڑ چکی تھی۔ جب 1947 میں وہ دہلی آئے تو یہاں پر بھی اُن کے متعدد افسانے ’بیسویں صدی‘ اور ’ریاست‘ جیسے رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے۔ 1953 کے بعد گوپی چند نارنگ نے افسانہ نگاری کی دُنیا کو ترک کرکے تحقیق و تنقید کی دُنیا میں قدم رکھا۔ اُن کا اوّلین مضمون ’اکبر الٰہ آبادی سخن فہموں اور طرف داروں کے درمیان‘ رسالہ ’نگار‘ میں جون 1953 میں شائع ہوا اور اُن کا تخلیقی و تنقیدی سفر تادمِ مرگ جاری رہا۔

    ان کی پہلی تصنیف ’ہندوستانی قصّوں سے ماخوذ اردو مثنویاں‘ ہے جو پہلی بار 1959 اور دوسری بار 1961 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب پر نارنگ صاحب کو 1962 میں ’غالب ایوارڈ‘ سے نوازا گیا۔ اس کے بعد سے اب تک نارنگ صاحب کی تقریباً پانچ درجن سے زیادہ کتابیں منظرِ عام پر آچکی ہیں۔

    زندگی کی 91 بہاریں‌ دیکھنے والے گوپی چند نارنگ نے امریکا میں‌ وفات پائی۔ وہ شمالی کیرولائنا میں مقیم تھے۔

  • بھوپال کی بیدار مغز اور عوام کی خیرخواہ شاہ جہاں بیگم کا تذکرہ

    بھوپال کی بیدار مغز اور عوام کی خیرخواہ شاہ جہاں بیگم کا تذکرہ

    برصغیر کی مشہور ریاست بھوپال کی تیسری والی ایک بہترین منتظم ہی نہیں بلکہ ادب و فنون کی دلدادہ اور قابل و باصلاحیت شخصیات کی قدر دان بھی مشہور تھیں۔

    اٹھارہویں صدی میں بھوپال ہندوستان کی ایک آزاد ریاست تھی جہاں شاہ جہاں بیگم نے 1838ء میں آنکھ کھولی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے جب ہندوستان میں قدم جمائے تو بھوپال کو بھی ایک نوابی ریاست کا درجہ دے دیا گیا۔ شاہ جہاں بیگم 1901ء میں آج ہی کے دن انتقال کر گئی تھیں۔

    بھوپال کی سرزمین پر جنم لینے والی کئی شخصیات نے علم و ادب کے ساتھ فنون کے مختلف شعبہ جات میں کمال دکھایا اور نام پیدا کیا۔ ریاست کی حکم راں ہونے کے ناتے شاہ جہاں بیگم نے بھی علم و فنون کے فروغ کے علاوہ وہاں اصلاحات اور ریاست کی تعمیر و ترقّی کے لیے قابلِ ذکر اور مثالی اقدامات کیے۔

    سلطان بیگم غیر معمولی ذہانت کی حامل اور ایک بیدار مغز حکم راں تھیں۔ تعلیم کے ساتھ انھوں نے گھڑ سواری اور نشانہ بازی سیکھی اور امورِ ریاست میں‌ بھی گہری دل چسپی لی اور بعد میں‌ انتظامی امور کو نہایت خوبی سے چلایا بھی۔

    بیگم بھوپال نے قلعہ اسلام نگر میں آنکھ کھولی تھی۔ ایک حکم راں خاندان کی چشم و چراغ ہونے کے ناتے بہترین تعلیم و تربیت پائی۔ 1844ء میں ان کے والد نواب جہانگیر محمد خان کا انتقال ہوگیا جس کے بعد ریاست کی حکم راں کے طور پر ان کے نام کا اعلان کیا گیا۔ وہ کم عمر تھیں اور انتظام و انصرام ایک عرصہ ان کی والدہ نواب سکندر بیگم کے ہاتھ میں رہا۔ بعد میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھوپال کو نوابی ریاست کا درجہ دے کر اصل اختیار اور وسائل اپنے ہاتھ میں‌ لے لیے تھے۔ اسی زمانے میں بیگم صاحبہ کی والدہ کا انتقال ہوگیا اور تب شاہ جہاں بیگم کی تخت نشینی عمل میں لائی گئی۔

    شاہ جہاں بیگم کو امورِ سلطنت کی تعلیم اور تربیت دی گئی تھی، اور وہ اپنی ولی عہدی کے زمانے ہی سے ریاستی انتظامات کو دیکھتی آرہی تھیں۔ انھوں نے تخت نشینی کے بعد کئی جدید اصلاحات کیں، جن کا ذکر انھوں نے ’تاجُ الااقبال‘ کے نام سے اپنی کتاب تاریخِ بھوپال میں کیا ہے۔ ان میں وضعِ قوانین کے لیے محکمہ قائم کرنا، عدالتی اختیارات کی تقسیم، امن و امانِ عامّہ سے متعلق وسیع انتظامات اور حفظانِ صحّت سے متعلق امور پر توجہ دیتے ہوئے ہر تحصیل میں طبیب مقرر کیا۔ شہر بھوپال میں ایک بڑا شفا خانہ بنوایا۔

    بیگم بھوپال کے امورِ سلطنت اور کاموں کا تذکرہ کئی صفحات پر پھیل سکتا ہے۔ وہ اپنی رعایا کی بڑی خیر خواہ اور ہم درد تھیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس دور میں چیچک کی بیماری پھیلی تو انھوں نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر عوام کو اس کے ٹیکے لگوانے کی ہدایت کی اور اس معاملے میں شفا خانوں سے ہر قسم کا تعاون کیا۔ آج جس طرح کرونا کی ویکسینیشن سے لوگ گھبرا رہے تھے، اسی طرح چیچک سے متعلق ناقص معلومات اور بہت سی غلط باتیں‌ بھوپال کے لوگوں میں پھیلی ہوئی تھیں جنھیں شاہ جہاں بیگم نے مسترد کرتے ہوئے حفاظتی ٹیکے لگانے کی حوصلہ افزائی کی۔

    انھوں نے نہ صرف باقاعدہ چیچک کے ٹیکے لگانے کے لیے ریاست بھر میں‌ انتظامات کروائے بلکہ عوام کو اس کی ترغیب دینے اور ان کا ٹیکے سے متعلق خوف اور خدشات دور کرنے کے لیے اپنی نواسی بلقیس جہاں بیگم کو چیچک کا ٹیکہ لگوایا۔ اس کے علاوہ ریاست میں جن بچّوں کو والدین ٹیکہ لگواتے انھیں انعام دیا جاتا تھا۔

    شاہ جہاں بیگم تعلیم اور صحت کو بہت اہمیت دیتی تھیں۔ وہ رحم دل اور عوام کی فلاح و بہبود کا ہر دم خیال رکھنے والی خاتون تھیں جن کے دور میں لاوارث اور یتیم بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لیے بھی عمارتیں تعمیر ہوئیں جب کہ غریب اور معذور افراد کی مالی مدد کی جاتی تھی اور باقاعدہ وظائف مقرر تھے۔

    دینی اور علمی کاموں میں انھوں‌ نے خوب فراخ دلی دکھائی اور ایک محکمہ بنام مطبع شاہجہانی قائم کروایا جس میں قرآن مجید کی طباعت کی جاتی تھی۔ اسی طرح‌ امورِ مذہبی کا ایک جدید محکمہ قائم کیا گیا۔ کئی لاکھ روپے خرچ کر کے شہر کی اکثر مساجد کو پختہ کروایا۔ شاہ جہاں بیگم نے فن تعمیر کو بھی عروج دیا۔ تاجُ المساجد جو بھوپال کی عظیم ترین جامع مسجد ہے، کی بنیاد اُنہی کے حکم پر رکھی گئی تھی۔

    شاہ جہاں بیگم مصنفہ بھی تھیں۔ ان کی تصانیف میں تہذیبِ نسواں، خزینۃُ اللغات شامل ہیں۔ وہ فارسی زبان میں شاعری بھی کرتی تھیں۔