Tag: جون برسی

  • شہزادی نیلوفر کا تذکرہ جنھیں حیدرآباد کا کوہِ نور کہا جاتا تھا

    شہزادی نیلوفر کا تذکرہ جنھیں حیدرآباد کا کوہِ نور کہا جاتا تھا

    شہزادی نیلوفر کی ایک ملازمہ کی موت زچگی کے دوران طبّی سہولیات کی کمی کے سبب ہوئی تھی۔ یہ ان کی پسندیدہ ملازمہ تھی جس کی موت کی خبر سن کر شہزادی کو شدید صدمہ پہنچا تھا۔

    اس افسوس ناک واقعے کے بعد شہزادی نیلوفر نے فیصلہ کیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ زچگی کے دوران سہولیات کی کمی یا پیچیدگی کی صورت میں مناسب اور ضروری سامان کی عدم دست یابی کی وجہ سے کسی بھی حاملہ عورت یا اس کے بچّہ کی زندگی خطرے سے دوچار نہ ہو۔

    شہزادی نیلوفر فرحت بیگم صاحبہ کی والدہ ترکی کے حکم ران خاندان کی فرد تھیں۔ نیلوفر سلطان عبدالمجید خان کی بھانجی اور سلطان مراد خان مرحوم کی پوتی تھیں۔ شہزادی نے 4 جنوری 1916 کو استنبول کے ایک محل میں آنکھ کھولی۔ دو سال کی عمر میں اپنے والد کے سایۂ شفقت سے محروم ہوگئیں۔ اس زمانے میں مرفّہ الحال ریاست حیدرآباد دکن کے سلطان میر عثمان علی خان اسلامی دنیا میں اپنی سخاوت کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔ وہ دنیا کے امیر ترین شخص تھے جس نے مقاماتِ مقدسہ کی تزئین و آرائش، تعمیر و مرمّت کے لیے ذاتی دولت بے دریغ خرچ کی۔ نیلوفر کی شادی میر عثمان علی خان کے صاحب زادے سے ہوئی تھی۔

    نیلوفر نے اپنے سسر اور نظامِ دکن میر عثمان علی خان کو اپنی خادمہ کی وفات کی خبر دی اور یہ بھی بتایا کہ کس طرح زچگی کے دوران عورتوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں اور نامناسب طبّی سہولیات کی وجہ سے دکن میں اموات کی شرح بڑھ رہی ہے، جس پر ان کی خواہش ہے کہ کام کیا جانا چاہیے، اس موقع پر شہزادی نے جب جدید اسپتال قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو حضور نظام نے انھیں اجازت دی اور ہر قسم کے تعاون و امداد کا وعدہ کیا، اسی کوشش کے نتیجے میں شہزادی نیلوفر کے نام سے اسپتال کا قیام 1949 میں ممکن ہوا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ شہزادی نیلوفر خود لاولد تھیں۔

    1931ء میں شہزادی کا عقد شہزادہ والا شان نواب معظم جاہ بہادر سے ہوا تھا اور 21 سال بعد علیحدگی ہوگئی تھی۔ رخصتی کے بعد شہزادی نیلوفر حیدرآباد دکن آئیں اور یہاں‌ خواتین کی ترقی اور بہبود کے لیے کئی کام کیے جن میں عورتوں کی صحّت، علاج معالجہ اور بچّوں کی نگہداشت کے لیے مراکز کا قیام اور عملہ و سہولیات کی فراہمی بھی شامل ہیں۔

    شہزادی نیلوفر 12 جون 1989 کو پیرس میں‌ وفات پاگئی تھیں۔

  • عثمان سیمبین: پس ماندہ سماج کا سب سے روشن ستارہ

    عثمان سیمبین: پس ماندہ سماج کا سب سے روشن ستارہ

    برّاعظم افریقا کے مغرب میں واقع سینیگال سے تعلق رکھنے والے عثمان سیمبین کو دنیا بھر میں‌ ایک ناول نگار اور فلم ساز کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ فلم نویسی اور افسانہ نگاری بھی ان کی وجہ شہرت ہے۔

    وہ فلمی صنعت میں‌ پروڈیوسر، ہدایت کار کے طور پر مصروفِ عمل رہے اور اداکار کے طور پر بھی کام کیا۔ عثمان سیمبین کی کہانیوں کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا، جن میں فرانسیسی اور انگریزی سرفہرست ہیں۔

    عثمان سیمبین ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے مدرسے اور اسکول گئے۔ اسکول کی تعلیم ادھوری رہ گئی اور کچھ عرصہ والد کے ساتھ کام میں ان کا ہاتھ بٹایا۔ ان کے والد پیشے کے لحاظ سے ماہی گیر تھے۔

    1938 میں اپنے آبائی علاقے سے ملک کے دارلحکومت ’’ڈاکار‘‘ آگئے اور وہاں مختلف نوعیت کی ملازمتیں کیں۔ 1944 میں فرانسیسی فوج کی مقامی’’فری فرنچ فورسز‘‘ سے وابستہ ہوئے اور دوسری عالمی جنگ تک اپنے ملک اور دیارِ غیر میں مختلف محاذوں پر برسرپیکار رہے۔ جنگ کے خاتمے پر، وطن واپس آگئے۔

    یہ 1947 کی بات ہے جب ریلوے لائن بچھانے کا ملک گیر منصوبہ شروع ہوا تو عثمان اس کا حصّہ بن گئے۔ یہاں ہونے والے تجربات کی بنیاد پر، انہوں نے اپنا نیم سوانحی ناول ’’گاڈز بٹس آف ووڈ‘‘ لکھا، جسے بہت شہرت ملی۔

    چالیس کی دہائی کے اواخر میں عثمان فرانس چلے گئے، وہاں دورانِ ملازمت ’’فرانسیسی ٹریڈ یونین تحریک‘‘ کا حصہ بنے اور کمیونسٹ پارٹی کے مقامی دھڑے میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے افریقا سے تعلق رکھنے والے معروف انقلابی دانشور’’کلاؤڈ میکے‘‘ اور معروف مارکسسٹ ’’جیکولین رومین‘‘ کو دریافت کیا، ان کی فکر کو قبول کیا اور عملی زندگی میں اسے اپنایا بھی۔ فلم سازی کا شوق ہوا تو روس جاکر فلم سازی کی اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی اور پھر وطن واپس لوٹ آئے۔

    1956 میں عثمان کا فرانسیسی زبان میں لکھا ہوا پہلا ناول’’لی ڈوکرنوئر‘‘ اشاعت پذیر ہوا، اس کے لغوی معنی ایک کالے مزدور کے ہیں۔ عثمان نے فرانس میں بطور افریقی مزدور، جن تعصبات کا سامنا کیا، ان کو بنیاد بنا کر ناول کی کہانی ترتیب دی تھی۔ 1957میں ان کا دوسرا ناول’’اے میرے پیارے ملک اور لوگو‘‘ تھا، جو ایک کسان کی کہانی تھی۔ اس ناول کو عالمی سطح پر زبردست پذیرائی ملی، خاص طور پر کمیونسٹ ممالک سوویت یونین ، چین اور کیوبا کی طرف سے سراہا گیا۔ انہوں نے جہاں اپنی کہانیوں میں فرانسیسی آقاؤں کے تعصبات کو موضوع بنایا، وہیں افریقی اشرافیہ کی زبوں حالی پر بھی مفصّل بات کی۔

    ان کا ایک ناول ’’ژالا۔ Xala‘‘ بھی ہے، جس میں انہوں نے ایسے ہی افریقی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے کردار کو پیش کیا۔ یہ کردار ایک تاجر کا تھا، جس نے تین شادیاں کیں۔ ناول نگار نے اس کی بدعنوانی، اخلاقی گراوٹ اور بشری کمزوریوں کو نہایت خوب صورتی سے کہانی میں‌ پیش کیا ہے۔

    1973 میں یہ ناول فرانسیسی زبان میں چھپا، تین سال بعد اس کا انگریزی میں ترجمہ ہوا۔ اس ناول پر عثمان نے خود ہی فلم بنائی، جس کو 1975 میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ انہوں نے اس فلم کا اسکرپٹ لکھنے کے علاوہ ہدایات بھی دیں۔ فلم میں مقامی اداکاروں اور ہنر مندوں نے کام کیا تھا، کچھ غیر افریقی ہنرمندوں کی خدمات بھی لی گئی تھیں۔ یہ فلم افریقا کے علاوہ، روس اور امریکا میں بھی نمائش پذیر ہوئی۔ سینیگال کی تاریخ میں اس ناول اور فلم کی بے حد اہمیت ہے۔ نوآبادیاتی افریقا کی آزادی کے بعد، سنیما کی تاریخ میں، عثمان ہی وہ سب سے پہلے فلم ساز ہیں، جنہوں نے بین الاقوامی شناخت حاصل کی۔

    عثمان سیمبین نے 4 ناول اور کئی مختصر کہانیاں لکھیں، جن کے متعدد مجموعے شائع ہوئے۔ انہوں نے اپنے فلمی کیرئیر میں 13 فلموں کی ہدایات دیں، 11 فلمیں تحریر کیں، 4 فلموں میں اداکاری بھی کی، جب کہ تین فلموں کے پروڈیوسر رہے۔

    عثمان سیمبین ایک ایسے افریقی ادیب اور فلم ساز ہیں، جنہوں نے ایک پس ماندہ سماج میں رہتے ہوئے ادب اور فن کی بلندی کو چھوا۔

    یکم جنوری 1923ء کو پیدا ہونے والے اس افریقی ناول نگار اور فلم ساز کی زندگی کا سفر 09 جون 2007ء کو تمام ہوا۔

    (عثمان سیمبین پر خرّم سہیل کے مضمون سے خوشہ چینی)

  • چارلس ڈکنز: عہد ساز شخصیت، عظیم ناول نگار

    چارلس ڈکنز: عہد ساز شخصیت، عظیم ناول نگار

    شہرۂ آفاق کہانیوں کے خالق چارلس ڈکنز کو برطانوی معاشرے کا نبّاض بھی کہا جاتا ہے جنھوں نے سماجی برائیوں، اپنے عہد میں نظام کی خامیوں اور مسائل کو اپنی تخلیقات میں اجاگر کرکے فرسودہ نظام کو بدلنے میں‌ اپنا کردار ادا کیا۔ 9 جون 1870ء کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لینے والے چارلس ڈکنز کے ناول اولیور ٹوئسٹ، ڈیوڈ کاپر فیلڈ، اے ٹیل آف ٹو سٹیز کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں۔

    چارلس ڈکنز ایک ناول نگار، صحافی ہی نہیں سماج کا بڑا ناقد اور صاحبِ بصیرت شخص تھا جسے انیسویں صدی کا ایک اہم اور با اثر ادیب کہا جاتا ہے۔ اس نے اپنی نگارشات میں اپنے وکٹورین دور کی مکمل تصویر پیش کی ہے جو بعد میں معاشرتی سطح پر تبدیلی لانے میں مددگار ثابت ہوئی۔

    چارلس ڈکنز نے 7 فروری 1812ء کو انگلینڈ کے جنوبی ساحل پر واقع پورٹس ماؤتھ کے ایک گھر میں آنکھ کھولی۔ وہ اپنے والدین کی آٹھ اولادوں میں‌ سے دوسری اولاد تھی۔ اس کے والد جان ڈکنز بحریہ میں ایک کلرک تھے جب کہ والدہ الزبیتھ بیرو شعبۂ تدریس سے منسلک تھیں۔ 1822ء میں ڈکنز خاندان لندن کے ایک نچلے طبقے کے رہائشی محلّے میں‌ منتقل ہوگیا تھا۔ اس خاندان کے مالی حالات نہایت خراب ہوچکے تھے۔ والد مقروض ہوتے چلے گئے اور پھر مقدمہ ہار کر جیل جانا پڑا۔

    اس واقعے کے بعد 12 سالہ چارلس کو جوتے رنگنے والی فیکٹری میں ملازمت کرنے کی خاطر اسکول چھوڑنا پڑا۔ یوں اسے زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ فیکٹری میں کام کرتے ہوئے جبر اور استحصال بھی برداشت کیا اور یہی دکھ اور مسائل کے ساتھ معاشرتی رویّے چارلس کی تحریروں میں‌ بھی شامل ہوگئے۔

    حالات اچانک بدلے اور دوبارہ تعلیم کا سلسلہ شروع ہوگیا، لیکن پھر قسمت نے مذاق کر ڈالا اور چارلس کو ایک دفتر میں آفس بوائے کی حیثیت سے ملازمت اختیار کرنا پڑی۔ لیکن یہی ملازمت اس کی زندگی کا اہم موڑ ثابت ہوئی، چارلس نے لکھنا شروع کردیا اور خوب نام و مقام بنایا۔

    اس کی نگارشات کا ترجمہ تقریباً ہر زبان میں ہو چکا ہے جن میں‌ اردو بھی شامل ہے۔ 2012ء میں چارلس ڈکنز کی 200 ویں سال گرہ منائی گئی تھی اور اس موقع پر برطانیہ میں شان دار تقاریب منعقد کی گئی تھیں۔

  • ’’پریچنگ آف اسلام‘‘ کے مصنّف تھامس واکر آرنلڈ کا تذکرہ

    ’’پریچنگ آف اسلام‘‘ کے مصنّف تھامس واکر آرنلڈ کا تذکرہ

    برطانوی ماہرِ تعلیم اور مستشرق سَر تھامس واکر آرنلڈ کو ہندوستان اور بالخصوص برطانوی دور کے مسلمانوں میں‌ بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ سر سیّد احمد خان اور دیگر مسلمان اکابرین کے دوستوں میں‌ شامل رہے اور اسلام اور اسلامی ثقافت سے متعلق نہایت مفید مضامین اور کتب تحریر کیں۔

    پروفیسر آرنلڈ نے سر سیّد احمد خان کے اصرار ہی پر نے کتاب ’’پریچنگ آف اسلام‘‘ لکھی تھی جس کا اردو ترجمہ بہت مشہور ہوا۔ وہ شاعرِ مشرق علّامہ محمد اقبال کے استاد بھی تھے۔

    نام وَر مؤرخ اور مشہور سیرت نگار علّامہ شبلی نعمانی نے ایک سفر نامے میں اپنے اسی انگریز معاصر پروفیسر سَر تھامس واکر آرنلڈ سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ رقم کیا ہے۔ یہ بات ہے مئی 1892ء کی جب وہ عدن کے سفر کے دوران سمندری جہاز میں سوار تھے۔وہ لکھتے ہیں۔ "عدن سے چونکہ دل چسپی کے نئے سامان پیدا ہوگئے تھے، اس لیے ہم بڑے لطف سے سفر کر رہے تھے، لیکن دوسرے ہی دن ایک پُر خطر واقعہ پیش آگیا جس نے تھوڑی دیر تک مجھ کو پریشان رکھا۔ 10 مئی کی صبح کو میں سوتے سے اٹھا تو ایک ہم سفر نے کہا کہ جہاز کا انجن ٹوٹ گیا ہے، میں نے دیکھا تو واقعی کپتان اور جہاز کے ملازم گھبرائے پھرتے تھے اور اس کی درستی کی تدبیریں کر رہے تھے، انجن بالکل بیکار ہوگیا تھا اور جہاز آہستہ آہستہ ہوا کے سہارے چل رہا تھا، میں سخت گھبرایا اور نہایت ناگوار خیالات دل میں آنے لگے۔

    اس ضطراب میں اور کیا کر سکتا تھا، دوڑا ہوا مسٹر آرنلڈ کے پاس گیا، وہ اس وقت نہایت اطمینان کے ساتھ کتاب کا مطالعہ کررہے تھے، میں نے ان سے کہا کہ کچھ خبر بھی ہے؟ بولے ہاں، انجن ٹوٹ گیا ہے، میں نے کہا کہ آپ کو کچھ اضطراب نہیں؟ بھلا یہ کتاب دیکھنے کا کیا موقع ہے؟ فرمایا کہ اگر جہاز کو برباد ہی ہونا ہے، تو یہ تھوڑا سا وقت اور بھی قدر کے قابل ہے اور ایسے قابلِ قدر وقت کو رائیگاں کرنا بالکل بے عقلی ہے۔ ان کے استقلال اور جرأت سے مجھ کو بھی اطمینان ہوا، آٹھ گھنٹے کے بعد انجن درست ہوا اور بہ دستور چلنے لگا۔”

    اس ایک واقعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اہلِ علم و دانش مشکل اور کڑے وقت میں کیسے خود کو مضبوط رکھتے ہیں اور یہ کہ ان کے لیے مطالعہ کیا اہمیت رکھتا ہے۔

    پروفیسر آرنلڈ کا سنِ پیدائش 1864ء ہے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد یونانی اور لاطینی ادبِ عالیہ میں آنرز کیا۔ جرمن، اطالوی، فرانسیسی، روسی اور ہسپانوی کے علاوہ عربی، فارسی اور سنسکرت بھی سیکھی۔ 1888ء میں اس انگریز ماہرِ تعلیم نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج، علیگڑھ میں بطور استاد اپنے فرائض‌ انجام دینا شروع کیے۔ 1898ء میں وہ فلسفے کے پروفیسر کے طور پر گورنمنٹ کالج لاہور سے منسلک ہو گئے۔ 1909ء میں انھیں برطانیہ میں ہندوستانی طلبہ کا تعلیمی مشیر مقرر کر دیا گیا۔ 1921ء سے 1930ء تک انھوں نے لندن یونیورسٹی میں مشرقی علوم کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

    1921ء ہی میں برطانوی سرکار نے انھیں‌ ’’سَر‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ ہندوستان کے مسلمان سیاسی اور سماجی راہ نماؤں کے قریب رہنے والے سر آرنلڈ 1930ء میں‌ آج ہی کے دن دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

    علّامہ اقبال سے سر آرنلڈ نے ہمیشہ خصوصی شفقت کا مظاہرہ کیا۔ مشہور ہے کہ پروفیسر آرنلڈ نے ہی علّامہ اقبال کو اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ جانے کا مشورہ دیا تھا اور اس کے لیے ان کی مدد کی تھی۔ ڈاکٹر محمد اقبال بھی اپنے استاد سے بہت محبت کرتے تھے۔ پروفیسر آرنلڈ جب ہندوستان چھوڑ کر انگلستان واپس چلے گئے تو اقبال نے ایک نظم بعنوان ’’نالۂ فراق‘‘ لکھی جو بانگِ درا میں شامل ہے۔

  • اسد بھوپالی کا تذکرہ جن کے لکھے ہوئے فلمی گیت پاک و ہند میں‌ مقبول ہوئے

    اسد بھوپالی کا تذکرہ جن کے لکھے ہوئے فلمی گیت پاک و ہند میں‌ مقبول ہوئے

    ’’میں نے پیار کیا‘‘ 1998ء میں‌ ہندی سنیما کی زینت بنی تھی۔ سلمان خان اور بھاگیا شری کی اس فلم نے باکس آفس پر دھوم مچا دی اور فلم کے لیے اسد بھوپالی کے تخلیق کردہ دو گیتوں کو وہ مقبولیت حاصل ہوئی جس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

    ’’دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ‘‘ اور ’’کبوتر جا جا جا…‘‘ وہ گیت ہیں‌ جو آج بھی ایک نسل کو ان کی نوجوانی کے دنوں‌ کی یاد دلاتے ہیں۔ آج ان گیتوں کے خالق اسد بھوپالی کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 1990ء میں‌ دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    وہ 10 جولائی 1921ء کو بھوپال میں پیدا ہوئے۔ اسد بھوپائی کا اصل نام اسد اللہ خاں تھا۔ انھوں نے فارسی، عربی، اردو اور انگریزی کی رسمی تعلیم حاصل کی اور شاعری کا آغاز کیا تو اسد بھوپالی کے نام سے پہچان بنائی۔

    نوجوانی میں انھوں نے ممبئی جانے کا فیصلہ کیا جہاں وہ فلم انڈسٹری سے وابستگی اختیار کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ 28 برس کے اسد بھوپالی ممبئی پہنچے تو یہ وہ زمانہ تھا جب معروف شاعر خمار بارہ بنکوی، جاں نثار اختر، مجروحؔ سلطان پوری، شکیلؔ بدایونی، حسرتؔ جے پوری اور شیلندر کا نام اور شہرہ تھا، لیکن قسمت نے یاوری کی اور اسد بھوپالی کو اپنی تخلیقی اور فنی صلاحیتوں کو منوانے کا موقع مل گیا۔

    یہ 1949ء کا ذکر ہے جب فضلی برادران فلم’’دنیا‘‘ بنانے کے لیے کام شروع کرچکے تھے۔ مشہور شاعر آرزو لکھنوی نے اس فلم کے دو گیت لکھے اور پھر تقسیمِ ہند کا اعلان ہوگیا تو وہ پاکستان چلے آئے۔ فضلی برادران کو کسی نے اسد بھوپالی سے ملوا دیا اور یوں ممبئی آنے والے اس نوجوان کو پہلی مرتبہ فلم کے لیے نغمات لکھنے کا موقع مل گیا۔ اس فلم کے دونوں ہی گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے اور یوں اسد بھوپالی کی کام یابیوں کا بھی آغاز ہوگیا۔

    1950ء میں فلم ’’آدھی رات‘‘ کے لیے بھی انھیں دو گیت لکھنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد بی آر چوپڑا کی مشہور فلم ’’افسانہ‘‘ کے گیت لکھے۔ یہ فلم اور اس کے گیت دونوں سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ اسد بھوپالی نے اس فلم کے چھے گیت تحریر کیے تھے۔ 1949ء سے اپنی زندگی کے آخری برس تک اسد بھوپالی نے کم و بیش 400 فلمی گیت تخلیق کیے۔

    ’’دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ‘‘ وہ گیت تھا جس پر اسد بھوپالی کو "فلم فیئر ایوارڈ” سے نوازا گیا تھا۔

  • چھے نگار ایوارڈ موسیقار کمال احمد کے کمالِ فن کا اعتراف ہیں!

    چھے نگار ایوارڈ موسیقار کمال احمد کے کمالِ فن کا اعتراف ہیں!

    کمال احمد نے موسیقی کی دنیا میں اپنے کمالِ فن کی بنیاد پر خوب مرتبہ پایا اور پاکستانی فلم انڈسٹری میں اپنی دھنوں کے سبب چھے مرتبہ نگار ایوارڈ سے نوازے گئے۔ آج بھی ان کی موسیقی سے سجے ہوئے کئی گیت کمال احمد کی یاد دلاتے ہیں۔

    آپ نے یہ گیت ضرور سنا ہو گا، جسے معروف مزاحیہ اداکار رنگیلا پر فلمایا گیا تھا، ‘گا مورے منوا گاتا جارے…جانا ہے ہم کا دور۔ اسی طرح مقبول ترین فلمی گیت کس نے توڑا ہے دل حضور کا، کس نے ٹھکرایا تیرا پیار کی موسیقی بھی کمال احمد ہی نے ترتیب دی تھی۔

    پاکستان کے اس نام ور موسیقار نے 1937 کو اترپردیش میں آنکھ کھولی۔ ابتدا ہی سے موسیقی سے شغف تھا اور قسمت نے یاوری کی تو فلم ‘شہنشاہ جہانگیر کے لیے گیتوں کی دھنیں ترتیب دیں۔ بعد کے برسوں میں فلمی دنیا میں ہر طرف ان کا چرچا ہونے لگا۔ یہ سلسلہ کئی لاجواب دھنوں کے ساتھ شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے تک جاری رہا اور ‘دیا اور طوفان’ جیسی کام یاب فلم کے علاوہ انھوں نے رنگیلا، دل اور دنیا، تیرے میرے سپنے، دولت اور دنیا، وعدہ، سلسلہ پیار دا، دلہن ایک رات کی، کندن، عشق عشق، عشق نچاوے گلی گلی، اور ان داتا، آج کا دور جیسی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی۔

    کمال احمد کے گانوں سے کئی گلوکاروں نے شہرت حاصل کی اور پاکستان فلم انڈسٹری میں‌ اپنی جگہ بنانے میں‌ کام یاب ہوئے۔

    فلم نگری کے اس باصلاحیت موسیقار نے 1993 میں آج ہی کے دن اپنی زندگی کا سفر تمام کیا تھا۔ وہ لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ڈاکٹر انور سجّاد: فنون و ادب کی ایک ہمہ جہت شخصیت

    ڈاکٹر انور سجّاد: فنون و ادب کی ایک ہمہ جہت شخصیت

    فنونِ لطیفہ کے دلدادہ ڈاکٹر انور سجّاد صاحبِ مطالعہ اور علم و ادب کے رسیا تھے۔ وہ ادیب، ناول نگار اور ڈرامہ نویس اور ایک ایسے فن کار تھے جس نے مصوّری، اداکاری اور صدا کاری کے ساتھ رقص بھی کیا۔ یہی نہیں‌ تنقید اور افسانہ نگاری کے ساتھ ان کا قلم ایک مترجم کی حیثیت سے بھی رواں رہا اور خوب صورت کتابیں منظرِ عام پر آئیں۔ فن و ادب کی دنیا نے انور سجّاد کو 2019 میں‌ آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے کھو دیا تھا۔

    انور سجّاد ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے۔ انھوں نے لاہور کے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے تعلیم حاصل کی تھی۔ 27 مئی 1935 کو لاہور میں‌ پیدا ہونے والے انور سجّاد نے اپنے زمانے میں مختلف تحریکوں کا زور، سیاست کا شور اور عوام کی حالتِ زار کو دیکھا اور اسی دور میں مزدوروں کے حقوق کی ترجمانی کرنے کے علاوہ ترقی پسند فکر اور نظریات سے بھی متاثر رہے۔

    ریڈیو پاکستان اور ٹیلی وژن کے لیے ان کے تحریر کردہ ڈرامے بھی سامعین اور ناظرین میں بے حد مقبول ہوئے۔ انھوں نے ٹی وی ڈراموں‌ میں‌ اداکاری بھی کی اور ناظرین سے داد پائی۔

    وہ لاہور میں رائیونڈ روڈ کے قریب ایک چھوٹے سے گھر میں اپنی زوجہ کے ساتھ رہائش پزیر تھے۔ ان کے قریبی ساتھی بتاتے ہیں کہ مرحوم اپنے والد کی وفات تک ان کے کلینک میں بیٹھتے تھے، لیکن اس پیشے اور دوا کے نسخے لکھنے میں دل نہیں‌ لگتا تھا، والد کا انتقال ہوا تو کلینک بند کر دیا۔

    حکومتِ پاکستان نے 1989ء میں انھیں تمغہٴ حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • فرانز کافکا کا تذکرہ جس کی ایک وصیت پر عمل نہیں کیا گیا

    فرانز کافکا کا تذکرہ جس کی ایک وصیت پر عمل نہیں کیا گیا

    فرانز کافکا جرمنی کا ایک مشہور ناول نگار اور کہانی کار تھا۔ اس کا تماثیل بہت مقبول ہوئیں اور پسِ مرگ اس کی شہرت کا سبب بنیں۔ اسے بیسویں صدی کے بہترین ناول نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ تین جون 1924ء کو کافکا نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔

    وہ 1883ء میں چیکوسلاواکیہ کے ایک قصبے پراگ میں پیدا ہوا۔ اس کا تعلق ایک یہودی گھرانے سے تھا، ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے کافکا نے قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ سمجھتا تھا کہ اس کے والدین اسے زیادہ نہیں‌ چاہتے اور اپنی کئی محرومیوں اور مسائل کی وجہ سے کافکا خود کو حرماں نصیب اور بدقسمت خیال کرتا تھا۔ اس ادیب نے کبھی شادی نہیں‌ کی اور مشہور ہے کہ اس نے اپنی کچھ تخلیقات کو نذرِ آتش کردیا تھا اور کئی مسوّدے اپنے ایک دوست کے سپرد کرتے ہوئے وصیت کی تھی کہ اس کی موت کے بعد انھیں آگ میں جھونک دے، لیکن اس دوست نے کافکا کی وصیّت پر عمل نہ کیا۔ کافکا نہیں‌ چاہتا تھا کہ اس کی تخلیقات پڑھی جائیں لیکن ایسا نہ ہوسکا اور جب یہ تخلیقات دنیا کے سامنے آئیں تو انھیں بہت سراہا گیا اور کافکا کی تخلیقی اور ادبی صلاحیتوں کا سبھی نے اعتراف کیا۔

    زندگی کی فقط 40 بہاریں دیکھنے والے کافکا نے قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک انشورنس کمپنی میں کام کیا اور قانون کی پریکٹس بھی کی۔ ایک موقع پر اس نے خودکشی کی کوشش بھی کی، مگر اس کے دوست نے کسی طرح اسے سنبھال لیا۔ وہ تپِ دق کی بیماری میں‌ مبتلا تھا۔

    فرانز کافکا کے ناول ’دی ٹرائل‘ اور ’دی کاسل‘ کو علمی و ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی اور کئی زبانوں میں ان کا ترجمہ کیا گیا۔

  • اپنا ہر گیت ہنستے چہروں کے نام کرنے والے مجیب عالم کا تذکرہ

    اپنا ہر گیت ہنستے چہروں کے نام کرنے والے مجیب عالم کا تذکرہ

    مجیب عالم نے گیت اور غزل کو بھی اپنی خوب صورت آواز میں نہایت مہارت سے گایا۔ وہ ایک منجھے ہوئے گلوکار تھے جن کی آواز میں کئی فلمی گیت مقبول ہوئے اور آج بھی سماعتوں‌ میں‌ تازہ ہیں۔

    پاکستان کے اس مشہور گلوکار نے رومانوی نغمات اور درد بھری شاعری کو نہایت خوب صورتی سے اپنی آواز میں شائقین تک پہنچایا۔ ان کے مشہور گیتوں میں ’یوں کھو گئے تیرے پیار میں ہم‘، ’میں تیرے اجنبی شہر میں‘ اور ’یہ سماں پیار کا کارواں‘ شامل ہیں۔ پی ٹی وی کے لیے انھوں نے ’میرا ہر گیت ہے ہنستے چہروں کے نام‘ ریکارڈ کروایا تھا جو بہت مقبول ہوا۔

    مجیب عالم کو پاکستان فلم انڈسٹری کے صفِ اوّل کے گلوکاروں میں‌ شمار کیا جاتا ہے جن کی آواز اور انداز کو اپنے وقت کے بڑے موسیقاروں اور مشہور گلوکاروں نے بھی سراہا۔1967 میں‌ فلم ’چکوری‘ کے لیے انھوں نے ایک گایا تھا جسے شائقینِ سنیما نے بہت پسند کیا اور اسی کے بعد فلم انڈسٹری میں‌ ہر طرف ان کا شہرہ ہونے لگا۔ اس گیت کے بول تھے، ’وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں…‘

    2004ء میں مجیب عالم نے آج ہی کے دن یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی۔ آج اس نام ور گلوکار کی برسی ہے۔ انھیں کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    بھارت کے شہر کان پور میں پیدا ہونے والے مجیب عالم کی آواز بچپن ہی سے بے حد سریلی تھی اور موسیقار حسن لطیف نے انھیں سنا تو اپنی فلم نرگس میں گائیکی کا موقع دیا مگر یہ فلم نمائش کے لیے پیش نہ کی جاسکی۔ اور پھر فلم مجبور نے پہلی مرتبہ مجیب عالم کی آواز سنیما بینوں تک پہنچائی۔

    فلم ’مجبور‘ کے علاوہ مجیب عالم کی سُریلی آواز ’جان پہچان، لوری، جلوہ جیسی فلموں میں کئی گیتوں کو یادگار بنا گئی۔ اردو فلموں کے علاوہ مجیب عالم نے پنجابی فلموں میں بھی اپنی آواز کا جادو جگایا۔ انھوں نے کئی دوگانے بھی ریکارڈ کروائے تھے۔

  • ماہرِ علومِ اسلامیہ و شرقیہ فؤاد سزگین کا یومِ وفات

    ماہرِ علومِ اسلامیہ و شرقیہ فؤاد سزگین کا یومِ وفات

    پروفیسر فؤاد سزگین (Fuat Sezgin) کو دنیا ایک ایسے محقق، مؤرخ اور ماہرِ‌ علومِ اسلامی کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جس کا خصوصی موضوع مسلم عہدِ وسطیٰ رہا۔پروفیسر فؤاد سزگین 30 جون 2018ء کو وفات پاگئے تھے۔

    ترکی کے شہر استنبول میں وفات پانے والے پروفیسر فؤاد سزگین نے زندگی کی 94 بہاریں دیکھیں اور آخر وقت تک علمی و تحقیقی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ انھیں عصرِ حاضر کا ایک اہم اسلامی اسکالر مانا جاتا ہے جن کا سب سے اہم ترین کارنامہ Geschichte des Arabischen Shrifttums (تاریخِ علومِ عربیہ و اسلامیہ) ہے۔

    فؤاد سزگین 1924ء میں ترکی کے ایک شہر میں پیدا ہوئے اور ثانوی تعلیم کی تکمیل کے بعد استنبول منتقل ہوگئے جہاں جامعۂ استنبول میں معروف جرمن مستشرق ہیلمٹ رٹر (Hellmut Ritter) کے زیرِاثر ادبیات اور علومِ اسلامیہ و شرقیہ کی تحصیل پر مائل ہوئے۔ 1951ء میں ادبیات میں گریجویشن کے بعد 1954ء میں عربی ادبیات میں اپنے مقالے پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

    ڈاکٹریٹ کے بعد استنبول یونیورسٹی کے کلیۂ ادبیات میں تدریس سے منسلک ہوگئے۔ 1961ء میں ترکی میں فوجی بغاوت کے بعد جرمنی جانے پر مجبور ہو گئے جہاں 1965ء میں فرینکفرٹ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی اور اسی جامعہ میں پروفیسر مقرر ہوگئے۔ جرمنی میں قیام کے دوران ہی شادی کرلی، ان کی اکلوتی بیٹی اسی جرمن خاتون کے بطن سے پیدا ہوئی۔

    فؤاد سزگین کی شاہ کار تصنیف تاریخِ علومِ عربیہ و اسلامیہ دراصل جرمن محقّق، کارل بروکلمان کی اسی نام سے لکھی گئی کتاب کی تکمیل ہے۔ انھوں نے اس کتاب پر کام کا آغاز 1947ء میں کیا تھا جس کی متعدد جلدیں‌ شایع ہوئیں، وفات کے وقت پروفیسر سزگین اس کی اٹھارہویں جلد پر کام کررہے تھے۔

    یہ ان کی تصنیف اور مدّون کردہ وہ کتاب ہے جو اسلامی علمی و تہذیبی تاریخ پر عظیم سرمایہ ہے، جس میں عربی زبان و ادب، قرآنِ پاک، تفسیر، حدیث، تاریخ، فقہ، علمِ کلام، طب، علمِ حیوان، کیمیا، زراعت، نباتات، ریاضیات، علمِ فلک و نجوم، نقشے اور عربی مخطوطات کا مطالعہ اور ان پر علمی مواد شامل ہے۔

    پروفیسر فؤاد سزگین عربی، انگریزی، جرمن کے ساتھ عبرانی، سریانی اور لاطینی زبانیں جانتے تھے۔

    دینی اور سائنسی علوم و فنون کی تاریخ پروفیسر فؤاد سزگین کی تحقیق کا محور و مرکز رہا۔ انھوں نے عرب اسلامی ادوار کے سائنسی آلات، اوزار اور نقشوں کی نقلیں بھی تیار کیں جو فرینکفرٹ اور استنبول کے عجائب گھر میں محفوظ ہیں۔ فؤاد سزگین نے احادیث پر غیر معمولی تحقیقی کام کیا، جس میں صحیح بخاری کے تحریری مآخذ کی نشان دہی ان کا عظیم کارنامہ ہے۔

    عالمِ اسلام کے اس عظیم اسکالر اور دانش ور کو ان کی علمی و تحقیقی کاوشوں پر متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں 1978ء میں کنگ فیصل انٹرنیشنل پرائز اور آرڈر آف میرٹ آف فیڈرل ریپبلک آف جرمنی شامل ہیں۔