Tag: جون برسی

  • متعدد اعزازات اپنے نام کرنے والے مشہور پہلوان محمد بشیر کی برسی

    متعدد اعزازات اپنے نام کرنے والے مشہور پہلوان محمد بشیر کی برسی

    24 جون 2001ء کو پاکستان کے مشہور پہلوان محمد بشیر کو موت نے پچھاڑ کر زندگی کے پالے سے ہمیشہ کے لیے باہر کردیا۔

    محمد بشیر نے 1960ء میں منعقدہ روم اولمپکس میں کشتی کے مقابلوں میں کانسی کا تمغہ اپنے نام کیا تھا۔ کشتی کے کھیل میں اولمپک مقابلوں کے لیے اب تک کسی پاکستانی کھلاڑی کا یہ واحد تمغہ ہے۔

    محمد بشیر اس سے قبل 1958ء کے ایشیائی کھیلوں میں کشتی ہی کے کھیل میں کانسی کا تمغہ حاصل کرچکے تھے۔ بعدازاں انھوں نے 1962ء کے ایشیائی کھیلوں میں چاندی کا اور 1966ء کے ایشیائی کھیلوں میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔

    حکومتِ پاکستان نے کشتی کے کھیل میں محمد بشیر کی کام یابیوں اور فتوحات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں تمغہ امتیاز اور صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    اپنے دور کے اس مشہور پہلوان کو لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • کئی لازوال اور سدا بہار گیتوں کے خالق خواجہ پرویز کی برسی

    کئی لازوال اور سدا بہار گیتوں کے خالق خواجہ پرویز کی برسی

    پاکستان کی فلمی صنعت کے معروف نغمہ نگار خواجہ پرویز 20 جون 2011ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھوں نے فلم نگری میں اپنے چالیس سالہ کیریئر کے دوران اردو اور پنجابی زبانوں میں‌ سیکڑوں گیت لکھے جو بہت مقبول ہوئے اور اکثر گیت لازوال اور یادگار قرار پائے۔

    1932ء میں ہندوستان کے شہر امرتسر میں پیدا ہونے والے خواجہ پرویز قیامِ پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور میں گوالمنڈی کے علاقے میں آبسے۔ ان کا اصل نام خواجہ غلام محی الدّین تھا جو پرویز تخلص کرتے تھے اور فلمی دنیا میں خواجہ پرویز کے نام سے مشہور ہوئے۔

    دیال سنگھ کالج سے گریجویشن کیا اور یہیں ان کی دوستی اس وقت کے معروف ہدایت کار ولی کے بیٹے سے ہوئی جن کے طفیل خواجہ پرویز ہدایت کار ولی سے ملے۔ انھوں نے 1955ء میں خواجہ پرویز کو اپنا اسٹنٹ رکھ لیا اور یہ فلمی سفر شروع ہوا۔

    خواجہ پرویز نے معاون ہدایت کار کے طور پر تین فلمیں‌ مکمل کروائیں لیکن طبیعت شاعری کی طرف مائل تھی اور یہی وجہ ہے کہ ان کی پہچان اور مقبولیت نغمہ نگاری بنی۔ انھوں نے معروف نغمہ نگار سیف الدین سیف کے ساتھ کام شروع کردیا اور ان کے اسٹنٹ بن گئے۔

    خواجہ پرویز سے ہدایت کار دلجیت مرزا نے اپنی فلم ’رواج‘ کے گیت لکھوائے۔ اس فلم میں مالا کی آواز میں ان کا گیت ’کہتا ہے زمانہ کہیں دل نہ لگانا‘ بہت مقبول ہوا۔ اس کے بعد وہ کام یابی کے جھنڈے گاڑتے چلے گئے۔ ان کا ہر گیت گویا ہٹ ہوتا رہا۔

    فلم سنگ دل میں ان کا نغمہ ’سن لے او جانِ وفا‘ اور اس کے بعد ’تمہی ہو محبوب مرے میں کیوں نہ تمہیں پیار کروں‘ بہت مشہور ہوا۔ فلم آنسو کا گانا ’تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں جیسے صدیاں بیت گئیں‘ نے مقبولیت کا گویا ریکارڈ قائم کیا اور پھر ’پیار بھرے دو شرمیلے نین‘ نے سرحد پار بھی لاکھوں دلوں میں جگہ پائی۔

    خواجہ پرویز کے بارے میں‌ مشہور ہے کہ وہ باغ و بہار شخصیت کے مالک اور دوسروں کے مددگار اور خیرخواہ تھے۔

    ذیایبطس کے مرض میں مبتلا خواجہ پرویز کو طبیعت بگڑنے پر لاہور کے میو اسپتال میں علاج کے لیے داخل کروایا گیا تھا، جہاں انھوں نے زندگی کی آخری سانس لی اور اپنے مداحوں کو سوگوار چھوڑ گئے۔

    خواجہ پرویز لاہور میں میانی صاحب قبرستان میں مدفون ہیں۔

  • ممتاز ادیب، ڈرامہ نگار اور اداکار ڈاکٹر انور سجّاد کی برسی

    ممتاز ادیب، ڈرامہ نگار اور اداکار ڈاکٹر انور سجّاد کی برسی

    اردو کے نام وَر ادیب، ڈرامہ و افسانہ نگار، نقّاد، مترجم اور صدا کار ڈاکٹر انور سجّاد 6 جون 2019ء میں وفات پاگئے تھے۔ وہ ترقّی پسند ادیب تھے جن کے نظریات اور افکار ان کی تحریروں سے جھلکتے ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے 1989ء میں انھیں تمغہٴ حسن کارکردگی سے نوازا تھا۔

    انور سجاد نے 1935ء میں‌ لاہور میں‌ آنکھ کھولی اور ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد طبّی تدریس کے لیے مشہور لاہور کے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں‌ داخلہ لے لیا، جہاں‌ سے ایم بی بی ایس کی ڈگری لی، لیکن طبیعت اور رجحان فنون لطیفہ کی طرف مائل تھا، سو ان کی شہرت کا سبب علم و ادب کے مختلف شعبے رہے۔

    انور سجاد کی مشہور کتابوں میں چوراہا، جنم کا روپ، خوشیوں کا باغ، نیلی نوٹ بک شامل ہیں۔ وہ صدا کاری اور اداکاری کا بھی شوق رکھتے تھے۔ انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے ڈرامے تحریر بھی کیے اور خود اداکار کے طور پر اسکرین پر بھی نظر آئے۔

    ناقدین کے مطابق انور سجاد کے افسانے ہوں یا ڈرامے، ان میں استعاراتی طرزِ فکر کو انتہائی مہارت اور کام یابی سے برتا گیا ہے۔ ان کی تحریریں گہرائی اور وسعت کی حامل اور کثیرالجہت ہوتی تھیں۔

    ڈاکٹر انور سجاد کے لکھے ہوئے ٹی وی ڈرامے بھی ناظرین میں مقبول ہوئے۔ انھوں نے طویل دورانیے کے کھیل بھی تحریر کیے۔ ان کے تحریر کردہ ڈراموں میں ’’پکنک، رات کا پچھلا پہر، کوئل، صبا اور سمندر اور یہ زمیں میری ہے‘‘ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی ایک ڈرامہ سیریز ’’زرد دوپہر‘‘ بھی بہت مشہور ہوئی تھی۔

    ڈاکٹر انور سجّاد نے لاہور میں‌ وفات پائی اور وہیں‌ ایک قبرستان میں‌ آسودہ خاک ہیں۔

  • نام وَر موسیقار کمال احمد کی برسی

    نام وَر موسیقار کمال احمد کی برسی

    6 جون 1993ء کو نام وَر فلمی موسیقار کمال احمد لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ کمال احمد پاکستان فلم انڈسٹری کے ان موسیقاروں میں سے ایک تھے جن کی تیّار کردہ دھنیں بہت پسند کی گئیں اور کئی گلوکاروں کی شہرت کا سبب بنیں۔

    کمال احمد 1937ء میں گوڑ گانواں (یو پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ موسیقی سے لگاؤ نے انھیں اس فن کے اسرار و رموز سیکھنے پر آمادہ کیا اور فلم شہنشاہ جہانگیر نے انھیں بڑے پردے پر اپنے فن کو پیش کرنے کا موقع دیا۔ اس کے بعد انھوں نے فلم طوفان میں فنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور فلم سازوں کی ضرورت بن گئے۔

    کمال احمد نے متعدد فلموں میں موسیقی دی جن میں رنگیلا، دل اور دنیا، تیرے میرے سپنے، دولت اور دنیا، راول، بشیرا، وعدہ، سلسلہ پیار دا، دلہن ایک رات کی، کندن، محبت اور مہنگائی، عشق عشق، مٹھی بھر چاول، عشق نچاوے گلی گلی، سنگرام اور ان داتا شامل ہیں۔

    موسیقی کی دنیا کے اس باصلاحیت فن کار نے 6 مرتبہ نگار ایوارڈ حاصل کیا اور جہاں‌ فلم انڈسٹری میں‌ نام بنایا وہیں‌ ان کی خوب صورت دھنوں میں کئی مقبول گیت آج بھی گنگنائے جاتے ہیں جو کمال احمد کی یاد دلاتے ہیں۔ ان گیتوں میں گا میرے منوا گاتا جارے، جانا ہے ہم کا دور، کس نے توڑا ہے دل حضور کا، کس نے ٹھکرایا تیرا پیار، بتا اے دنیا والے، یہ کیسی تیری بستی ہے شامل ہیں۔

  • پی ٹی وی کی مقبول اداکارہ طاہرہ نقوی کا یومِ‌ وفات

    پی ٹی وی کی مقبول اداکارہ طاہرہ نقوی کا یومِ‌ وفات

    آج پاکستان ٹیلی وژن کی مقبول فن کارہ طاہرہ نقوی کی برسی ہے۔ وہ 2 جون 1982ء کو وفات پاگئی تھیں۔ ان کا فنی سفر مختصر ہے، لیکن اس عرصے میں‌ طاہرہ نقوی نے چھوٹے پردے پر نمایاں کردار نبھائے اور اپنی بے مثال اداکاری سے ناظرین کے دل جیتے۔

    طاہرہ نقوی کی تاریخِ پیدائش 20 اگست1956ء ہے۔ وہ سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ کے ایک گائوں آلو مہار میں پیدا ہوئی تھیں۔

    انھوں نے ریڈیو سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا اور بعد میں ٹیلی وژن کے ڈراموں میں اداکاری کر کے شہرت حاصل کی۔ انھوں نے طویل دورانیے کا ڈرامہ زندگی بندگی اور اپنے وقت کی مقبول ترین سیریل وارث میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور اپنے کرداروں کو اس خوبی سے نبھایا کہ وہ یادگار ثابت ہوئے۔

    طاہرہ نقوی کو 1981ء میں بہترین اداکارہ کا پی ٹی وی ایوارڈ بھی دیا گیا۔ انھوں نے دو فلموں میں بھی کام کیا، لیکن فلم انڈسٹری کے ماحول سے خود کو ہم آہنگ نہ کرسکیں اور مزید کام کرنے سے انکار کردیا۔

    1982ء میں انھیں‌ سرطان تشخیص ہوا، اور اسی مرض میں شدید علالت کے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ انھیں لاہور میں حضرت میاں میر کے مزار کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • یومِ وفات: اپنی قوّتِ ارادی سے کام لے کر دنیا میں مقام بنانے والی ہیلن کیلر کا تذکرہ

    یومِ وفات: اپنی قوّتِ ارادی سے کام لے کر دنیا میں مقام بنانے والی ہیلن کیلر کا تذکرہ

    ہیلن کیلر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں دنیا انھیں ایسی باہمّت اور باصلاحیت خاتون کے طور پر یاد کرتی ہے جنھوں نے بصارت اور سماعت سے محرومی کے باوجود بھرپور زندگی گزاری اور دنیا کے لیے مثال بنیں۔ ہیلن کیلر ایک ماہرِ تعلیم اور مصنّفہ کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ یکم جون 1968ء کو ہیلن کیلر نے یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    ہیلن کیلر 27 جون 1880ء کو امریکا میں پیدا ہوئیں۔ وہ پیدائشی طور پر صحّت مند اور نارمل تھیں، لیکن کم سنی میں لاحق ہونے والے ایک مرض کے سبب ان کی بینائی اور قوّتِ سماعت جاتی رہی۔ معالج ان کا مرض نہ جاسکے اور جب والدین ان کے علاج کی طرف سے مایوس ہوگئے تو ایک ایسی خاتون کی خدمات حاصل کرلیں جس نے انھیں معذوری کے ساتھ بھرپور زندگی گزارنا سکھایا۔ اس مہربان اور ماہر استاد کی بدولت ہیلن کیلر نے معمولاتِ زندگی انجام دینا سیکھے۔ لکھنا پڑھنا شروع کیا۔

    دس سال کی عمر میں ہیلن کیلر ٹائپ رائٹر استعمال کرنے لگی تھیں۔ اگلے پانچ سال بعد وہ کسی قدر بولنے کے قابل ہوگئیں اور پھر انھوں نے معذوروں‌ کے ایک اسکول میں‌ داخلہ لے لیا، کالج تک پہنچیں اور گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔

    ہیلن کیلر توانا فکر اور زرخیز ذہن رکھتی تھیں۔ انھوں نے گریجویشن کے ساتھ معذور افراد کو جینے کا حوصلہ دینے اور ان کی ہر طرح سے مدد کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ اب وہ امریکا میں معذوری کو شکست دینے والی عورت کے طور پر پہچانی جاتی تھیں اور مختلف اداروں اور تقریبات میں لیکچر دینے لگی تھیں۔ انھوں نے بینائی، سماعت اور گویائی سے محروم لوگوں‌ کے حقوق کے لیے کام کیا اور ان سے متعلق بے بنیاد باتوں اور غلط تصوّرات کو دور کرنے کی کوشش کی۔

    ہیلن کیلر نے 14 کتابیں‌ تصنیف کیں اور ان کے کئی مضامین شایع ہوئے۔ ہیلن کیلر کی تصانیف میں‌ ورلڈ آئی لِو اِن، آؤٹ آف دی ڈارک کے علاوہ ہیلن کیلرز جرنل شامل ہیں۔ امریکا میں نابینا افراد کے لیے قائم کردہ تنظیم کے پلیٹ فارم سے جڑنے کے بعد انھیں دنیا کے متعدد ممالک میں لیکچرز دینے کا موقع ملا۔ ان کی خدمات کے صلے میں انھیں‌ متعدد اعزازات سے نوازا گیا، 87 سال کی عمر میں‌ وفات پانے والی ہیلن کیلر عزم و ہمّت اور حوصلے کی علامت کے طور پر آج بھی دلوں میں زندہ ہیں۔