Tag: جون وفات

  • ناؤروجی: وہ شخصیت جس نے برطانیہ کی لوٹ مار اور ہندوستانیوں کے استحصال کا پردہ چاک کیا

    ناؤروجی: وہ شخصیت جس نے برطانیہ کی لوٹ مار اور ہندوستانیوں کے استحصال کا پردہ چاک کیا

    دادا بھائی ناؤروجی کو آج ہم فراموش کرچکے ہیں، اور ان کا نام اور برطانوی راج میں ہندوستان کے عوام سے متعلق ان کی فکر اور دردمندی کا ذکر صرف کتابوں تک محدود ہے، مگر برطانیہ میں انھیں سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک قابلِ ذکر شخصیت سمجھا جاتا ہے اور ان کا نام عزّت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔

    آج دادا بھائی ناؤروجی کا یومِ وفات ہے۔ وہ برطانوی راج میں‌ متحدہ ہندوستان کے ایک دور اندیش اور زیرک سیاست داں ہی نہیں عوام کے بڑے خیر خواہ اور سماجی کارکن کی حیثیت سے نہایت عزّت اور احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ناؤروجی وہ پہلے ہندوستانی تھے جنھوں نے اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ تجارت کی آڑ میں‌ برطانیہ لوٹ مار اور ہندوستان کے عوام کا استحصال کر رہا ہے۔

    دادا بھائی ناؤروجی پارسی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ لبرل پارٹی سے وابستہ تھے اور انیسویں صدی میں برطانیہ میں ان کی وجہِ شہرت ہندوستان کے عوام کے ایک وکیل کے طور پر بہت زیادہ تھی۔ دادا بھائی لندن یونیورسٹی کالج میں گجراتی زبان کے استاد، ایک دانش ور کے علاوہ برطانیہ میں انڈیا کے پہلے فعال سیاست دان رہے۔ برطانیہ میں ان کو سیاسی اور سماجی شخصیت کے طور پر سوسائٹی میں بہت احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ جب دادا بھائی ناؤروجی نے 1892ء میں لبرل پارٹی کے ٹکٹ پر سینٹرل فنس بری اسکاٹ لینڈ سے انتخاب لڑنے کا اعلان کیا تو لارڈ سالسبری سے ایک حماقت سرزد ہو گئی۔ لارڈ سالسبری تین مرتبہ کنزرویٹو پارٹی کی طرف سے برطانیہ کا وزیر اعظم منتخب ہوا اور ایک ممتاز سیاست دان تھا۔ لارڈ سالسبری نے ایڈنبرا میں ایک اجتماع میں کہا کہ انسانیت نے بلندی کی کئی منازل طے کر لی ہیں اور برطانوی سیاست بھی بڑی حد تک تعصبات سے آزاد ہو چکی ہے مگر ایسا بھی نہیں کہ ہم ایک سیاہ فام بھارتی کو برطانوی پارلیمنٹ کا ممبر منتخب کر لیں۔ سالسبری کو رنگ و نسل کے اس عصب پر شدید ردّعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ ناؤروجی کو برطانوی پارلیمنٹ میں پہلے انڈین رکن منتخب کیا گیا۔ وہ دیکھتے دیکھتے انڈیا میں ایک ہیرو بن گئے۔

    دادا بھائی ناؤروجی ستمبر 1825ء کو بمبئی کے ایک غریب پارسی گھرانے میں پیدا ہوئے اور اسی شہر میں 30 جون 1917ء کو وفات پائی۔ ناؤروجی نے اپنے زمانے میں مفت ابتدائی تعلیم کے ایک منصوبے سے فائدہ اٹھایا اور اپنی قابلیت اور ذہانت کی بدولت آگے بڑھتے چلے گئے۔ وہ ایک ایمان دار اور نیک صفت انسان ہی نہیں باشعور بھی تھے اور غربت و مالی تنگی نے انھیں زیادہ حسّاس بنا دیا تھا۔ ناؤروجی نے مفت تعلیم کو خود پر قرض تصوّر کیا اور سوچ لیا کہ آگے چل کر تعلیم سمیت ہر شعبے میں عوامی خدمت کا راستہ اپنائیں گے۔ انھوں نے نسل پرستی اور ہر قسم کے امتیازی سلوک کی مخالفت کرتے ہوئے ہندوستان میں سامراجی نظام کو چیلنج کیا۔

    دادا بھائی ناؤروجی نوجوانی ہی سے عوام میں ان کے حقوق کے لیے شعور اور آگاہی پھیلانے کے ساتھ فلاحی کاموں میں مشغول ہوگئے۔ 1840ء کی دہائی کے آخر میں انھوں نے لڑکیوں کے لیے اسکول کھولے تو ہندوستان کا قدامت پسند طبقہ ان کے خلاف ہوگیا، لیکن انھوں نے اس کی پروا نہ کی۔ ان کی اسی ثابت قدمی اور خلوص کا نتیجہ تھا کہ بڑی تعداد میں طالبات اسکول آنے لگیں۔ ناؤروجی کا شمار ان مثالی ہندوستانیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اس زمانے میں صنفی مساوات پر بات کی اور کہا کہ دنیا میں عورت کو بھی مردوں کی طرح تمام حقوق حاصل ہیں اور وہ ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کرنے کا حق رکھتی ہیں۔ انھوں نے برطانیہ میں بھی عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی اور وہاں بھی باشعور لوگوں نے ان کی حمایت کی۔

    1901ء میں دادا بھائی ناؤروجی کی کتاب Poverty and Un-British Rule in India شایع ہوئی جس نے برطانوی سیاست دانوں اور افسر شاہی کو گویا مشتعل کردیا، انھوں نے اس کتاب میں تفصیلی وضاحت دی کہ نوآبادیاتی نظام میں کیسے ہندوستان کی دولت کو برطانیہ منتقل کیا جارہا ہے جب کہ ہندوستان میں غربت پنپ رہی ہے۔

    1855ء میں ناؤروجی پہلی مرتبہ برطانیہ گئے تھے جہاں ہر طبقہ کی خوش حالی دیکھنے کے بعد ہندوستانی عوام کے حالات پر غور کیا اور اس کے اسباب جاننے کی کوشش کی۔ اس کے لیے معاشی جائزہ لیتے ہوئے انھوں نے تجزیہ کرکے بتایا کہ برطانیہ ہندوستانیوں سے مخلص نہیں اور انھیں قحط کے عفریت اور دیگر مسائل کے ساتھ غربت کی چکّی میں‌ جھونک رہا ہے جس پر برطانیہ کی جانب سے انھیں‌ باغی اور سرکش کہہ کر رد کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن ان کی یہ بات خاص و عام تک پہنچی اور لوگوں نے ناؤروجی کی حمایت کی۔ ناؤروجی نے محنت کش طبقے کا ساتھ دیا، تعلیم اور دیگر شعبوں سمیت انتخابات میں عورتوں‌ کے حقِ رائے دہندگی کے لیے آواز اٹھائی اور ہندوستان میں فوری طور پر مثالی اور عوام دوست اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا جس پر برطانیہ کے سنجیدہ طبقات ان کے طرف دار ہوئے اور سیاسی میدان میں ان کی طاقت میں اضافہ ہوا۔ تاہم دادا بھائی ناؤروجی نے اشرافیہ اور بالخصوص تخت اور اس کے وفاداروں کو مشتعل کردیا تھا۔ وہ انھیں اپنا دشمن سمجھنے لگے تھے اور برطانوی سیاست داں ان کے لیے تحقیر آمیز الفاظ استعمال کرتے تھے۔ جب ناؤروجی پارلیمان کے رکن کا انتخاب لڑ رہے تھے تو یہ مخالفت اور پروپیگنڈا زور پکڑ گیا، لیکن 1892ء میں اس تمام مخالفت کے باوجود ناؤروجی لندن میں پارلیمان کے رکن منتخب ہوگئے۔ ایک موقع پر دادا بھائی ناؤروجی نے ایوان میں اپنا نظریہ اور مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ برطانوی طرزِ حکم رانی سفاکانہ ہے جس میں‌ ان کے ہم وطنوں کا استحصال اور انھیں‌ بنیادی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے۔ اس کے بعد ناؤروجی 1895ء میں دوبارہ انتخابی میدان میں‌ اترے، مگر انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

    ناؤروجی ایک ایسے راہ نما تھے جس نے اپنے سیاسی اور سماجی خدمت کے سفر میں‌ کئی بار نامساعد حالات، اپنوں کی مخالفت اور سخت رویّے کا بھی سامنا کیا، لیکن کسی بھی موقع پر گھبرا کر اپنا راستہ نہیں بدلا۔ انھیں ایک رجائیت پسند اور باہمّت شخص کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

  • اختر حسین جعفری: پُرشکوہ نظموں کا خالق

    اختر حسین جعفری: پُرشکوہ نظموں کا خالق

    اردو ادب میں یوں تو مختلف اصنافِ سخن کو ہر دور میں‌ موضوعات، اسلوب اور ہیئت کے اعتبار سے شکلیں بدلنے اور تجربات سے گزرنے کا موقع ملا، لیکن بالخصوص اردو نظم نے نئے تجربات کے ساتھ اپنا عروج و زوال دیکھا ہے۔ اختر حسین جعفری اُن شعراء میں سے ایک ہیں جنھوں نے جدید نظم نگاری میں بڑا نام پایا اور اپنے ہم عصر شعرا میں امتیاز حاصل کیا۔ اختر حسین جعفری کو اردو کے بیسویں صدی کا غالب بھی کہا گیا اور بعض نقادوں نے انھیں بیدل کے بعد ایک بلند پایہ تخلیق کار گردانا ہے۔

    اردو نظم میں عہد بہ عہد مختلف تحریکات و رجحانات کے تحت میں موضوعاتی اور ہیئت کے اعتبار سے جو تبدیلیاں رونما ہوئیں، اس کے زیرِ‌ اثر اپنے مطالعہ اور تخلیقی قوّت کے زور پر اختر حسین نے اپنی نظموں کو پُرشکوہ استعاروں اور خاص اسلوب سے اس طرح سجایا کہ وہ اپنے معنی اور مفہوم کی وسعت کے ساتھ مقصدیت سے بھرپور دکھائی دیتی ہیں۔ احمد ندیم قاسمی جیسے بڑے ادیب اور شاعر لکھتے ہیں، ’اختر حسین جعفری اپنی روشن خیالی اور انسان دوستی کے حوالے سے آمریت، فسطائیت اور مطلق العنانیت کا غیر مشروط دشمن ہے۔ اسے انسان کی فکر و نظر کی مکمل آزادی بے حد عزیز ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس نے خود کو اپنے اہلِ وطن کی ذہنیتوں کی تہذیب پر مقرر کر رکھا ہے۔’

    3 جون 1992ء کو اختر حسین جعفری یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ لاہور میں‌ زندگی کا سفر تمام کرنے والے اختر حسین جعفری اُن معدودے چند شعرا میں سے تھے جن کو بحیثیت نظم گو جو شہرت اور مقام حاصل ہوا، وہ بلاشبہ اس کے حق دار تھے۔ ان کا شعری مجموعہ آئینہ خانہ اردو شاعری میں فکری اور فنی پختگی کے ساتھ اپنے حسین لسانی پیکروں کے لیے جدید اردو شاعری کا بیش قیمت سرمایہ ہے۔ اردو زبان و ادب کا مطالعہ اور غیرملکی ادب میں دل چسپی لینے کے ساتھ اختر حسین جعفری نظریات اور نئے خیالات سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے اور اپنی شاعری میں تازہ فکر، ندرتِ خیال کا اہتمام نہایت خوب صورتی سے کیا۔ ان کی شاعری میں استعارے نہایت خوبی سے اور جابجا بکھرے ہوئے ہیں جو ان کی شاعری کو سحر انگیز بناتے ہیں۔

    اختر حسین جعفری کا تعلق ضلع ہوشیار پور سے تھا۔ انھوں نے 15 اگست 1932 کو دنیا میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم اپنے ضلع کی درس گاہ سے حاصل کی اور وظیفے کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ گجرات آگئے جہاں تعلیمی سلسلہ جاری رہا۔ تعلیم مکمل کرکے عملی زندگی میں قدم رکھنے والے اختر حسین جعفری نے سرکاری ملازمت کے دوران ترقی کرتے ہوئے ڈپٹی کلکٹر کا عہدہ حاصل کیا۔ اس عرصے میں ان کا تخلیقی سفر جاری رہا۔ اختر حسین جعفری نے اردو شاعری کو نئی جہت سے روشناس کیا اور خوب داد سمیٹی۔

    اردو کے اس ممتاز نظم گو شاعر کے شعری مجموعوں میں آئینہ خانہ اور جہاں دریا اترتا ہے شامل ہیں۔ آئینہ خانہ وہ مجموعۂ کلام ہے جسے آدم جی ایوارڈ دیا گیا۔ حکومتِ پاکستان نے 2002 میں ان کے لیے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کا اعلان کیا تھا۔

    اختر حسین جعفری کا یہ شعر دیکھیے

    اس کی خوش بُو کے تعاقب میں نکل آیا چمن
    جھک گئی سوئے زمیں لمحے کی ڈال اس کے لیے

    یہ نظم ملاحظہ کیجیے

    "آخری پیڑ کب گرے گا”
    زمیں کی یہ قوس جس پہ تو مضطرب کھڑی ہے
    یہ راستہ جس پہ میں ترے انتظار میں ہوں
    زمیں کی اس قوس پر افق پر قطار اندر قطار لمحات کے پرندے
    ہمارے حصے کے سبز پتے سنہری منقار میں لیے جاگتی خلاؤں میں
    اڑ رہے ہیں
    زمیں کی اس قوس پر افق پر ہے نا بسر کردہ زندگی کی وہ فصل جس کا
    ہمیں ہر ایک پیڑ کاٹنا ہے
    یہ چاند جس پر قدم ہے تیرا
    یہ شہد جس پر زباں ہے میری
    یہ سبز لمحے یہ کرمک شب اسی گلستاں کے موسم ابر کے ثمر ہیں
    جہاں ہواؤں کے تیز طوفان منتظر ہیں کہ آخری پیڑ
    کب گرے گا

    احمد ندیم قاسمی اختر حسین جعفری کے فنِ شاعری اور ان کی نظم گوئی کے بڑے معترف رہے ہیں اور فنون وہ شمارہ تھا جس میں اختر حسین جعفری کا کلام باقاعدگی سے شایع ہوا کرتا تھا۔ اختر نے غزلیں بھی کہیں اور خوب کہیں مگر نظم کے حوالے سے ان کا نام ہمیشہ لیا جاتا ہے۔ قاسمی صاحب لکھتے ہیں، ان دنوں میں نے نیا نیا فنون جاری کیا تھا۔ فنون کے پتے پر مجھے ان کی ایک نظم ملی تو اس نظم کے موضوع اور پھر اس کی ڈکشن اور اس میں آباد استعاروں کی ایک دنیا دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ یہ غزل گو اگر اب نظم نگاری کی طرف راغب ہوا ہے تو کس شان سے راغب ہوا ہے۔ اس کے بعد تو فنون کا شاید ہی کوئی شمارہ ایسا ہو جس میں اختر حسین جعفری اپنی کسی نہ کسی نظم کے جمال و جلال کے ساتھ موجود نہ ہوں۔

  • نمک دان والے مجید لاہوری کا تذکرہ

    نمک دان والے مجید لاہوری کا تذکرہ

    مجید لاہوری کا نام طنز و مزاح نگاری اور معروف ادبی رسالے نمک دان کے مدیر کی حیثیت سے اردو ادب میں‌ ہمیشہ زندہ رہے گا، لیکن نئی نسل کے باذوق قارئین کی اکثریت ان سے کم ہی واقف ہے۔ آج مجید لاہوری کی برسی منائی جارہی ہے۔

    مجید لاہوری پاکستان کے نام وَر مزاح نگار اور مقبول کالم نویس تھے جنھوں نے نثر اور نظم دونوں اصنافِ ادب میں اپنی ظرافت اور حسِ مزاح پر داد پائی۔ مجید لاہوری کا رنگ جداگانہ ہے اور وہ اپنے ہم عصروں میں اپنے موضوعات اور اسلوب کی وجہ سے نمایاں ہوئے۔ نمک دان پندرہ روزہ ادبی رسالہ تھا جو ملک بھر میں مقبول تھا جب کہ ان کے کالم روزنامہ جنگ میں شایع ہوتے تھے اور علمی و ادبی حلقوں‌ کے علاوہ عام لوگوں‌ میں پسند کیے جاتے تھے۔ مجید لاہوری کی تحریروں کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ عوام کی بات کرتے اور بالخصوص اپنے کالموں میں‌ مسائل پر ظریفانہ انداز میں اربابِ اختیار کی توجہ مبذول کرواتے۔

    26 جون 1957 کو مجید لاہوری کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس وقت پاکستان میں ایشین انفلوئنزا نامی وبا پھیلی تھی اور مجید لاہوری بھی اس کا شکار ہوگئے تھے۔ ان کا اصل نام عبدالمجید چوہان تھا۔ وہ 1913 میں پنجاب کے شہر گجرات میں پیدا ہوئے۔ تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے مجید لاہوری نے 1938 میں روزنامہ انقلاب، لاہور سے اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا اور اس کے بعد کئی اخبارات میں ذمہ داریاں نبھائیں۔ وہ محکمہ پبلسٹی سے بھی وابستہ رہے۔ 1947 میں کراچی آگئے اور انصاف، انجام اور خورشید میں خدمات انجام دینے کے بعد قومی سطح کے کثیرالاشاعت روزنامے سے وابستہ ہوگئے اور "حرف و حکایت” کے عنوان سے کالم لکھنا شروع کیا۔ یہ سلسلہ تادمِ مرگ جاری رہا۔ ان کا آخری کالم بھی ان کی وفات سے ایک روز قبل شایع ہوا تھا۔

    وہ لحیم شحیم، اور خوب ڈیل ڈول کے انسان تھے۔ دیکھنے والوں کو گمان گزرتا کہ وہ پہلوان رہے ہیں۔ شورش کاشمیری نے ایک مرتبہ مجید کا حلیہ اس طرح بیان کیا، ’بال کبھی مختلفُ البحر مصرعے ہوتے، کبھی اشعارِ غزل کی طرح مربوط۔ آنکھیں شرابی تھیں اور گلابی بھی۔ لیکن انہیں خوبصورت نہیں کہا جاسکتا تھا۔ چہرہ کتابی تھا۔ ناک ستواں۔ ماتھا کُھلا لیکن اتنا کشادہ بھی نہیں کہ ذہانت کا غماز ہو۔ مسکراتے بہت تھے، معلوم ہوتا لالہ زار کِھلا ہوا ہے یا پھر رم جھم بارش ہورہی ہے۔ اچکن پہن کر نکلتے تو معلوم ہوتا کہ گرد پوش چڑھا ہوا ہے۔ ورنہ سیدھے سادے اور موٹے جھوٹے کپڑوں میں اکبر منڈی لاہور کے بیوپاری معلوم ہوتے تھے۔ عمر بھر اپنی ہی ذات میں مگن رہے۔ کسی انجمن ستائش باہمی سے رابطہ پیدا کیا نہ ایسی کسی انجمن کے رکن رہے۔ وہ ان جھمیلوں سے بے نیاز تھے۔ ان کا اپنا وجود ایک انجمن تھا۔‘

    مجیدؔ لاہوری نے طنز و مزاح کے لیے نثر اور نظم دونوں اصناف کا سہارا لیا۔ ان کا ذہن اور قلم معاشرے کے سنجیدہ اور سنگین مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے طبقاتی فرق، ناہم واریوں، سیاست اور سماج کی کم زوریوں کو سامنے لاتا رہا۔ ان کی تخلیقات میں غربا کے لیے رمضانی، مذہبی سیاسی لیڈروں کے لیے گل شیر خاں، چور بازار دولت مندوں کے لیے ٹیوب جی ٹائر جی اور کمیونسٹوں کے لیے لال خاں کی علامتیں پڑھی جاسکتی ہیں جو ان کے قارئین میں بے حد مقبول ہوئیں۔

    تحریف کے وہ ماہر تھے۔ اور اس کے ذریعے نہایت شگفتہ اور لطیف پیرائے میں‌ اپنا مافی الضمیر قارئین تک پہنچا دیتے تھے۔ مجید لاہوری نے نہ صرف اپنی تحریروں سے نمک دان کو سجایا بلکہ ملک بھر سے ادیبوں اور شاعروں کی معیاری تحریروں کا انتخاب کر کے قارئین تک پہنچاتے رہے۔

    ان دنوں ملک میں گویا مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے اور مزدور پیشہ یا غریب تو روزی روٹی کو ترس ہی رہا ہے، مگر ایک برس کے دوران متوسط طبقہ اور تنخواہ دار افراد بھی اس گرانی کے سبب نڈھال ہوچکے ہیں۔ اس پس منظر میں مجید لاہوری کی یہ نمکین غزل ملاحظہ کیجیے۔

    چیختے ہیں مفلس و نادار آٹا چاہیے
    لکھ رہے ہیں ملک کے اخبار آٹا چاہیے

    از کلفٹن تا بہ مٹروپول حاجت ہو نہ ہو
    کھارا در سے تا بہ گولی مار آٹا چاہیے

    مرغیاں کھا کر گزارہ آپ کا ہو جائے گا
    ہم غریبوں کو تو اے سرکار، آٹا چاہیے

    اور یہ شعر دیکھیے۔

    فاقہ کش پر نزع کا عالم ہے طاری اے مجید
    کہہ رہے ہیں رو کے سب غم خوار آٹا چاہیے

    آج اس ملک میں رہائشی مقصد کے لیے زمین اور اس پر گھر تعمیر کروانا تنخواہ دار طبقہ کے لیے ممکن نہیں‌ رہا۔ لوگوں کی اکثریت ذاتی گھر خریدنے کا تصور بھی نہیں‌ کرسکتی اور کرائے کے گھروں میں ان کا قیام ہے۔ مجید لاہوری کا یہ شعر ایسے ہی لوگوں کی بے بسی کو اجاگر کرتا ہے۔

    چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
    رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمارا

  • بہادر یار جنگ:‌ ملنے کے نہیں نایاب ہیں…..

    بہادر یار جنگ:‌ ملنے کے نہیں نایاب ہیں…..

    آج آزادیٔ ہند کے بڑے حامی اور تحریکِ پاکستان کے عظیم راہ نما نواب بہادر یار جنگ کا یومِ وفات ہے۔ بہادر خاں نے بہت کم عمر پائی تھی۔ 1905ء میں پیدا ہوئے اور 1944ء میں اس فانی زندگی سے نجات پا گئے۔ یوں دیکھیے تو ان کے مقدّر میں زندگی کی چالیس بہاریں بھی نہ آسکیں، لیکن اسی مختصر عمر میں نام و مقام، عزّت و مرتبہ بھی حاصل کیا اور دلوں پر اپنا نقش چھوڑ گئے۔

    مسلم لیگ کے سرگرم راہ نما، مسلمانوں کے قائد اور خطیبِ سحرُ البیان کی حیثیت سے مشہور بہادر یار جنگ 25 جون 1944 کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ یہاں ہم بانیٔ کُل ہند مجلسِ تعمیرِ ملّت اور اقبال اکیڈمی کے صدر سید خلیل اللہ حسینی کی ایک تحریر نقل کررہے ہیں‌ جنھیں بہادر یار جنگ کی رفاقت نصیب ہوئی تھی۔ سید خلیل اللہ حسینی لکھتے ہیں، "بہادر خاں اگر صرف خطیب ہوتے تو اپنی ساری مشّاقیِ خطابت اور مقررانہ عظمت کے باوجود پھر بھی قائدِ ملّت نہ ہوتے۔ اگر ان کی غیر معمولی تنظیمی صلاحیت کی تعریف مقصود ہے تو بلاشبہ اس میدانِ اجتماعی میں بھی وہ اپنی نظیر آپ تھے، لیکن تنظیمی صلاحیت ان کی عظمت کا راز نہ تھی۔”

    "اگر ان کی دل موہ لینے والی قد آور شخصیت کی ستائش کی جاتی ہے تو بھی بے جا ہے کہ ایک عظیم اور پُراسرار شخصیت اپنے دلربا تبسم سے دلوں کو مٹّھی میں لے لیتی ہے اور دلوں کو مسخّر کرنے کا ان کا فن خوبانِ شہر کے لیے بھی باعثِ صد رشک و حسرت تھا لیکن یہ دلآویزیِ طبع بجائے خود عظمتِ بہادر خاں کی کلید نہیں ہے۔”

    "بہادر خان کی عظمت کا راز یہ تھا کہ وہ ایک انسان تھے، انسانوں کی دنیا میں انسان تھے اور یہی بڑی غیر معمولی بات ہے!”

    "لوگوں سے ملنے جلنے کے انداز، چھوٹوں سے محبت، اور بڑوں کا ادب، ان صفات کا پیکر میں نے تو صرف بہادر خان کو دیکھا۔ چھوٹوں سے شفقت کا تو میں بھی گواہ ہوں۔ میں ایک کم عمر طالب علم کی حیثیت سے درسِ اقبال کی محفلوں میں جاتا اور کسی کونے میں بیٹھ جاتا۔”

    "ایک مرتبہ وہ میرے قریب آئے۔ نام پوچھا، تعلیم کے بارے میں سوال کیا اور ہمّت افزائی کے چند کلمات کہے، بات آئی گئی ہو گئی۔”

    "اب اس کے بعد یہ حالت ہو گئی کہ وہ موٹر میں جارہے ہوں اور میں سائیکل پر، لیکن سلام میں پہل ہوتی موٹر میں سے۔ پہلی مرتبہ جب دار السلام روڈ پر ایسا سابقہ ہوا تو جواب دینے میں غالباً میرے دونوں ہاتھ اٹھ گئے اور میں سائیکل سے گرتا گرتا بچا۔”

    "ایک چپراسی صاحب، بہادر خان کے بڑے اعتماد کے کارکن تھے۔ ایک دفعہ جب وہ ملنے گئے اور کمرہ میں بلا لیے گئے تو بچارے ٹھٹک سے گئے۔ کیوں کہ اس وقت بہادر خان سے ان کے ناظم صاحب مصروفِ تکلم تھے۔ بہادر خان نے بات کو تاڑ لیا اور کہا کہ آپ چپراسی ہوں گے دفتر میں، میرے پاس تو سب برابر ہیں بلکہ آپ تو میرے رفیق ہیں۔ یہ کہہ کر ان کو اپنے بازو صوفہ پر بٹھا لیا۔”

    "ایسے واقعات کا انبار لگایا جا سکتا ہے اور ایسا واقعہ بہادر خان کی شرافت، خلوص، انسانی محبت اور جذبۂ خدمت کا ثبوت دیتا رہے گا۔ بہادر خاں کا حال پہاڑ کی بلند چوٹی کا سا تھا۔ دور سے دیکھیے تو جاہ و جلال کا منظر، قریب ہوتے جائیے تو آنکھوں کو ٹھنڈک، دل کو طراوت اور طبیعت کو تازگی ملتی۔ پھر دنیا کا منظر ہی کچھ اور حسین نظر آتا۔”

    پروفیسر خواجہ قطب الدّین نے ان کی برسی کے موقع پر ایک مضمون پڑھا تھا جس کے چند پارے پیشِ‌ خدمت ہیں۔ وہ لکھتے ہیں، محمد بہادر خان فروری 1905ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت کے چند دن بعد ہی ان کی والدہ وفات پاگئیں۔ بہادر خان کی نانی نے جو ایک نہایت سمجھ دار اور مذہبی خاتون تھیں ان کی پرورش کی۔ اٹھارہ سال کے ہوئے تو والد کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ والد کے انتقال کے وقت جاگیر قرضوں کے بوجھ سے دبی ہوئی تھی۔ نواب صاحب نے غیر معمولی تدبّر اور انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور تھوڑی سی مدّت میں قرضوں سے نجات حاصل کرلی۔ جاگیر کے حالات سنبھل گئے تو نواب صاحب نے حج بیتُ اﷲ کا عزم کیا۔ حج سے فارغ ہوکر مسلم ممالک کی سیاحت کی، سیّاحت سے واپسی کے بعد خاکسار تحریک سے وابستگی اختیار کرلی اور ساتھ ہی ریاست کی ایک سیاسی و مذہبی تنظیم مجلسِ اتحادُ المسلمین میں بھی شامل ہوگئے۔

    1944ء میں وہ خاکسار تحریک سے علیحدہ ہوگئے اور اپنی ساری توجہ مجلسِ اتحادُ المسلمین کی طرف مرکوز کردی۔ انھوں نے مجلس میں ایک رضاکار تنظیم قائم کی۔ بہادر یار جنگ کی قائدانہ صلاحیتوں نے مسلمانانِ حیدر آباد(دکن) میں ایک نیا قومی جذبہ پیدا کردیا۔

    سیاست میں ان کے ہیرو قائدِ اعظم تھے جن کی زندگی سے انھوں نے عزم و ثبات کا سبق سیکھا تھا۔ ان میں قائدِاعظم کی سی اصول پرستی تھی اور وہی بے باکی اور صاف گوئی۔ وہ نڈر اور جری تھے۔ مجاہد کی طرح ہر محاذ پر ڈٹ جاتے اور غازی کی طرح کام یاب اور کام ران رہتے۔

    دوسری خصوصیت ان کی خطابت تھی۔ قدرت نے انھیں یہ نعمت بطورِ خاص عطا کی تھی اور اس کا استعمال بھی انھوں نے ہر موقع اور ہر محل پر صحیح کیا۔ بغیر کسی تیاری کے وہ ہر موضوع پر بے تکان بولتے تھے۔ انھوں نے تحریکِ پاکستان کو فروغ دینے میں جس خلوص و تن دِہی سے حصہ لیا تھا اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ اسلام کے بڑے شیدائی تھے۔ ان کی دلی تمنّا تھی کہ ایک ایسی مملکت برصغیر کے اندر بنائی جائے جہاں اسلامی آئین و قوانین نافذ ہوں۔

    بہادر یار جنگ کی تحریر بھی زبردست ہوا کرتی تھی جس کا اندازہ "میں مطالعہ کس طرح کرتا تھا؟” کے عنوان سے اس عظیم راہ نما کے مضمون سے کیا جاسکتا ہے۔ ان کا یہ مضمون 1942ء میں شایع ہوا تھا۔ بہادر یار جنگ لکھتے ہیں: "میری حالت ان نوجوانوں سے مختلف نہ تھی جو ابتدائی درسی کتابوں سے فارغ ہو کر عام مطالعہ کی ابتدا کرتے ہیں۔”

    "اس عمر میں جب کہ دماغی صلاحیتیں پوری طرح ابھری ہوئی نہیں ہوتیں اچھی اور بری کتاب کی تمیز بہت کم ہوتی ہے۔ قصص اور حکایات مبتدی کی توجہ کو جلد اپنی طرف پھیر لیتے ہیں۔ میرے مطالعہ کی ابتدا بھی حکاایت و قصص سے ہوئی۔”

    "مدرسہ اور گھر پر اساتذہ کی گرفت سے چھوٹنے کے بعد جو اوقاتِ فرصت مل جاتے وہ زیادہ تر کسی ناول یا افسانہ کی نذر ہو جایا کرتے تھے۔ کھیل کود سے مجھے کچھ زیادہ دل چسپی نہ تھی۔ یا سچّی بات یہ ہے کہ کھیل کود کے قابل ہی نہیں بنایا گیا تھا۔ قد کی بلندی نے اب اعضا میں تھوڑا تناسب پیدا کر دیا ہے۔ ورنہ اپنی عنفوانِ شباب کی تصویر دیکھتا ہوں تو موجودہ متحارب اقوام کے بنائے ہوئے کسی آتش افروز بم کی تشبیہ زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔ چار قدم چلتا تھا تو ہانپنے لگتا تھا اور کھیلنے کے بجائے خود دوسروں کے لیے تماشہ بن جاتا تھا۔ اس لیے میری زندگی کا عملی دستور "اگر خواہی سلامت برکنار است” تھا۔ نگاہیں کبھی کھیلتے ہوئے احباب پر پڑتی تھیں اور کبھی صفحاتِ کتاب کے میدان میں دوڑنے لگتی تھیں اور جب پلے گراؤنڈ سے اٹھ کر گاڑی میں سوار ہوتا تو مدرسہ سے گھر پہنچنے تک ناول کے ایک دو باب ضرور ختم ہو جاتے تھے۔”

    "رفتہ رفتہ اس شوق نے جنون کی شکل اختیار کر لی۔ عمر جیسے جیسے بڑھتی گئی یہ جنون ویسے ویسے اعتدال پر آتا گیا۔ ایک طرف موضوعِ مطالعہ میں تبدیلی ہوئی اور افسانوں اور حکایات کی بجائے سوانح عمری اور سیرت کا مطالعہ شروع ہوا اور مطالعہ کے اوقات متعین و معین ہونے لگے۔”

    "بیسویں صدی عیسوی کے ہر نوجوان کی طرح شاعری کا خبط شعور کی ابتدا کے ساتھ پیدا ہو چکا تھا اور شوقِ شعر گوئی نے شعرا کے تذکروں اور دواوین کی طرف متوجہ کردیا تھا۔ آج اپنے کلام کا پرانا نمونہ سامنے آجاتا ہے تو بے اختیار ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگتی ہے۔ لیکن آج سے 25 برس قبل ہم اپنے آپ کو غالب اور ذوق سے کچھ زیادہ نہیں تو کم بھی نہ سمجھتے تھے۔ ہماری شعر گوئی اور مطالعۂ دواوین کا سب سے اچھا وقت صبح کے ابتدائی لمحات ہوا کرتے تھے۔ لیکن جیسے جیسے ادب نے ایک معیاری کیفیت پیدا کی تو خود بخود یہ احساس ہونے لگا کہ شاعر پیدا ہوتا ہے، بنتا نہیں۔ اور ہماری میز سے ہٹ کر دواوین الماریوں کی زینت بنتے گئے۔ اور بانگِ درا کے سوا میز پر کچھ باقی نہیں رہا۔ آخری دور میں اگر کسی کے کلام نے اقبال کے کلام کا ساتھ دیا تو وہ مولوی روم کی مثنوی اور سعدی کی گلستاں تھی۔”

    "مطالعہ کا طریقہ یہ تھا کہ ایک پنسل ہاتھ میں اور ایک نوٹ بک جیب میں ہوتی۔ میرے کتاب خانے میں مشکل سے کوئی کتاب ہوگی جس پر تاریخ ابتداء اور انتہائے مطالعہ درج نہ ہو۔ جو فقرے ادبی، تاریخی یا کسی اور حیثیت سے پسندیدہ ہوتے اس پر یا تو کتاب ہی میں نشان لگا دیا جاتا اور بار بار اس پر نظر ڈالی جاتی یا پھر نوٹ بک پر درج کرلیا جاتا اور اس کو یاد کرنے کی کوشش کی جاتی۔ والدِ مرحوم کی خدمت میں شمالی ہند کے اکثر اصحاب تشریف لایا کرتے تھے۔ ان کی گفتگو سن کر اپنی زبان کے نقائص کا احساس بڑھتا گیا۔ نتیجہ سب سے زیادہ توجہ زبان کی درستی پر مرکوز رہی۔ کوئی اچھی ترکیب سے کوئی نئی تشبیہ، کوئی انوکھا استعارہ نظر سے گزرتا تو سب سے بڑی فکر یہ دامن گیر ہوجاتی تھی کہ اس کو جلد سے جلد صحیح طریقے پر اپنی گفتگو میں استعمال کر لیا جائے۔”

    "جب ہم اپنے گھر میں جوان اور بڑے سمجھے جانے لگے تو ہماری بیٹھک کے کمرے الگ کر دیے گئے تھے اور احباب کی محفلیں جمنے لگی تھیں۔ لغویات سے فطرتاً نفرت تھی۔ علم و ادب زندگی کا سب سے دل چسپ مشغلہ بن گئے تھے۔ ابتداً محض تفریح کے طور پر میں نے اپنے احباب کے ساتھ مل کر مطالعہ کرنا شروع کیا۔ یعنی یہ ہوتا کہ الہلال، ہمایوں، ہزار داستان، معارف، زمانہ یا کوئی اور معیاری ادبی و علمی رسالہ یا کوئی اچھی کتاب کسی ایک صاحب کے ہاتھ میں ہوتی اور اکثر میں ہی قاری کی خدمت انجام دیا کرتا۔ ایک ایک فقرے پر اکٹھے خیال آرائیاں ہوتیں، اختلاف و اتفاق ہوتا۔ بحث و تکرار ہوتی اور یہ بحث دماغ کے صفحہ پر خیالات کے کبھی نہ مٹنے والے تسامات کا باعث بنتی۔”

    "تجربے نے بتلایا کہ خاموش اور انفرادی مطالعہ سے یہ مشترک مطالعہ کا طریقہ زیادہ مفید اور زیادہ کارآمد ہے، جب سیر و تراجم تذکرہ و تاریخ سے آگے بڑھ کر ذوقِ مطالعہ نے ٹھوس اور سنجیدہ فلسفیانہ و سیاسی، اخلاقی و مذہبی علوم کی طرف توجہ کی تو ایک اور طریقے نے مجھے بہت فائدہ پہنچایا۔ فلسفہ اور علمِ کلام یا مذہب و سیاست کے کوئی مقامات اگر سمجھ میں نہ آتے تو میں ان کو اپنی اس چھوٹی نوٹ بک میں جو میرے جیب کا مستقل سرمایہ بن گئی تھی، نوٹ کرتا اور جن بزرگوں کی نظر ان علوم پر میرے نزدیک عمیق تھی ان سے ملاقات کے جلد سے جلد مواقع تلاش کرتا اور ان سے ان اشکال کو حل کرنے کی کوشش کرتا۔ آج اپنے ان لمحات کو اپنی حیاتِ گزشتہ کا سب سے قیمتی سرمایہ سمجھتا ہوں۔”

    "لوگ صرف کتاب پڑھنے کو مطالعہ سمجھتے ہیں۔ میرے نزدیک کسی کے مطالعہ کا مطالعہ یہی سب سے اچھا مطالعہ ہے۔ جب والد مرحوم کے انتقال کی وجہ سے اٹھارہ برس کی ابتدائی عمر ہی میں میرے سَر پر گھر کی ساری ذمہ داریوں کا بوجھ پڑ گیا اور مدرسہ کی تعلیم ناقص حالت میں ختم ہوگئی۔ تو میرے مطالعہ کا سب سے بہترین طریقہ یہ تھا کہ جن لوگوں نے مختلف اصنافِ علم میں زیادہ سے زیادہ مطالعہ کیا ہو ان کو اپنے اطراف جمع کرلوں یا ان کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں اور ان کی عمر بھر کے مطالعہ کا نچوڑ ان سے سنوں اور پھر کانوں کے ذریعہ اس کا مطالعہ کروں، اسی تمنا نے آوارہ گردی و صحرا نوردی پر آمادہ کیا۔”

    "لوگ اوراقِ کاغذ کے مجموعے کو الٹنے اور اس پر لکھی ہوئی سیاہ لکیروں کو پڑھنے کا نام مطالعہ سمجھتے ہیں۔ میرے پیشِ نظر ہمیشہ سے ایک اور کتاب رہی ہے جس کے صرف دو ورق ہیں لیکن جس میں سب کچھ ہے اور یہ کتاب صحیفۂ کائنات ہے۔ آسمان اور زمین کے ان دو اوراق کے درمیان مہر و ماہ، کواکب و سیارات، شفق، قوس قزح، ابر و باد، کوہ صحرا، سمندر و ریگستان نے ایسے ایسے خطوط کھینچے ہیں جن میں فکر کرنے والی نگاہ اپنے لیے سب کچھ حاصل کرسکتی ہے۔”

    "آہ دنیا بدل گئی، فرصت کے وہ رات دن اب خود میرے لیے افسانہ بن گئے۔ اب ان کو جی ڈھونڈتا ہے مگر پا نہیں سکتا۔ قوم و ملّت کی جو ذمہ داریاں ہم نے ابتدائی اوقاتِ فرصت کو صرف کرنے کے لیے اپنی مرضی سے قبول کی تھی، اپنی زندگی کے سارے لمحات پر مسلط ہو گئیں۔ کتاب سامنے آتی ہے تو تنگیِ وقت کا تصور آہ بن کر زبان سے نکلتا ہے۔ اخبار ہی پڑھنے سے فرصت نہیں کتاب کا ذکر کیا۔ اب کتاب پڑھنے کی سب سے اچھی جگہ ریل گاڑی کا ڈبہ ہے اور سفر کی وہ منزلیں جو طے ہونے سے رہ جائیں۔”

  • سیّد محمد تقی: ممتاز فلسفی اور دانش وَر

    سیّد محمد تقی: ممتاز فلسفی اور دانش وَر

    سیّد محمد تقی کو عالمی سطح پر ایک مفکّر اور فلسفی کے طور پر پہچانا جاتا ہے جن کی تصانیف علم و دانش کے موتیوں‌ پر مشتمل خزانہ ہے۔ سیّد محمد تقی 25 جون 1999ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    سیّد محمد تقی کا شمار ان نابغۂ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے جن کے لیکچرز اور کتابیں نسلِ نو کی فکر کو سمت دینے اور نظریاتی بنیادوں پر ان کی تربیت کرنے میں اپنا کردار آج بھی ادا کررہی ہیں۔ عالمی سطح پر ایک مدبّر کے طور پر سید محمد تقی پاکستان کا روشن حوالہ ہیں۔ وہ ایسے بیدار مغز، متجسس انسان تھے جو قدیم و جدید علوم میں گہری دل چسپی رکھتے تھے اور ان کے مطالعے کی اہمیت پر زور دیتے تھے۔

    2 مئی 1917ء کو ہندوستان کے مردم خیز خطّے امروہہ میں جنم لینے والے سیّد محمد تقی کا خاندان علم و دانش، فکر و فن کے لیے مشہور رہا ہے۔ ان کے والد علّامہ شفیق حسن ایلیا ایک وسیعُ العلم اور صاحبِ مطالعہ شخص تھے جو اپنے گھر میں علمی و ادبی مجالس کا اہتمام کرتے جس میں اس وقت کی عالم فاضل شخصیات شریک ہوتیں۔ اسی ماحول نے سیّد محمد تقی کو فکری اور نظریاتی بنیاد پر توانا اور تاب دار کیا۔ نام ور صحافی، ادیب اور شاعر رئیس امروہوی اور اردو کے مقبول ترین شاعر جون ایلیا ان کے بھائی تھے۔

    سیّد محمد تقی نے بھی علم و ادب کو اوڑھنا بچھونا بنایا، صحافت بھی ان کا ایک حوالہ ہے۔ ان کی تصانیف کو علمی و ادبی حلقوں کے علاوہ باذوق اور سنجیدہ قارئین نے بھی سراہا۔ سیّد محمد تقی کی ایک مشہور تصنیف “تاریخ اور کائنات، میرا نظریہ” ہے جس میں انھوں نے اپنی فلسفیانہ اور دانش ورانہ سوچ سے ایک جامع اور مربوط نظام کو بیان کرنے کی کوشش ہے۔ ان کی دیگر تصانیف میں پراسرار کائنات، منطق، فلسفہ اور تاریخ، نہج البلاغہ کا تصور الوہیت اور روح اور فلسفہ شامل ہیں۔ کارل مارکس کی مشہور تصنیف داس کیپٹال کو سید محمد تقی نے اردو میں منتقل کیا تھا۔

    کربلا تہذیب کا مستقبل، پاکستانی فلسفی اور دانش ور سید محمد تقی کی آخری کتاب ہے جس کا مسودہ گم ہوگیا تھا اور کئی برس بعد دریافت ہونے پر اسے کتابی شکل میں‌ شایع کیا گیا۔

    انھیں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی برسی

    ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی برسی

    یہ بیسویں صدی کی ساتویں دہائی سے اردو زبان کے طنزیہ اور مزاحیہ ادب میں جو نام مقبول ہوئے، مشتاق احمد یوسفی ان میں سے ایک تھے۔ انھیں اردو زبان کا سب سے بڑا اور نہایت مقبول ادیب کہا گیا اور عہد ساز مزاح نگار تسلیم کیا گیا۔ آج مشتاق احمد یوسفی کی برسی منائی جا رہی ہے۔

    مشتاق یوسفی کے دستاویزات کے مطابق ان کی تاریخ پیدائش چار اگست سنہ 1923 ہے۔ وہ انڈیا کی ریاست راجھستان کے شہر ٹونک میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔ آگرہ یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم اے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی تعلیم مکمل کرنے والے یوسفی صاحب نے ملازمت کے لیے شعبۂ مالیات کا انتخاب کیا اور بینکار کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے ریٹائر ہوئے۔

    مشتاق احمد یوسفی کئی کتابوں کے مصنّف ہیں جن میں چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگزشت، آبِ گم بہت مقبول ہیں جب کہ وفات سے قبل ان کی آخری کتاب شام شعرِ یاراں کے نام سے شایع ہوئی تھی۔ ان کی کوئی تصنیف ربع صدی بعد سامنے آئی تھی اور یوسفی صاحب کے مداحوں کا یہ طویل انتظار مایوسی پر تمام ہوا۔ اس عرصہ میں اگرچہ یوسفی صاحب کو جو پذیرائی اور قارئین میں مقبولیت نصیب ہوئی وہ بہت کم لوگوں کے حصّے میں آتی ہے اور اسی کے زیرِ‌اثر ان سے توقعات بہت تھیں۔ مداحوں کو یوسفی صاحب کے طنز و مزاح، ان کی زبان اور تحریر کا چکسا لگ چکا تھا چنانچہ وہ نئی تصنیف کا بڑی بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔ یہ سب ان کی پچھلی کتابوں‌ کے گدگداتے جملے اور منفرد لب و لہجہ میں‌ طنز و مزاح کی وجہ سے تھا، مگر نئی کتاب محض تقریروں کا مجموعہ تھی جس میں انہی کے مضامین کے ڈھیروں اقتباس موجود تھے۔ لیکن وہ ایک عظیم مزاح نگار تھے اور کہا جاتا ہے کہ یہ مزاح کا عہدِ یوسفی ہے۔

    مشتاق احمد یوسفی پی سی ایس کا امتحان پاس کر کے 1950ء تک ہندوستان میں ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز رہے تھے۔ لیکن پھر ان کا خاندان پاکستان ہجرت کر گیا اور یہاں یوسفی صاحب نے بینک کی ملازمت کو ذریعۂ معاش بنایا۔

    مشتاق احمد یوسفی کا ادبی سفر 1955 میں اس وقت شروع ہوا جب ان کی ایک تحریر صنفِ لاغر” کے نام سے لاہور سے شایع ہونے والے رسالے’’سویرا‘‘ کی زینت بنی۔ بعد میں مختلف رسائل میں ان کے مضامین کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 1961 میں مختلف انشائیوں اور مضامین کو بہم کر کے ان کا پہلا مجموعہ ’’چراغ تلے‘‘ کے نام سے قارئین تک پہنچا۔ ان کے کل پانچ مجموعہ ہائے مضامین شائع ہوئے جن میں ’’چراغ تلے‘‘ کے بعد ’’خاکم بدہن‘‘ 1970 میں، ’’زرگزشت‘‘اگلے سال، ’’آبِ گُم‘‘1989 اور آخری کتاب ’’شامِ شعرِ یاراں‘‘شامل ہے۔

    مشتاق احمد یوسفی نے انشائیے، خاکے، آپ بیتی اور پیروڈیاں لکھی ہیں‌ جن میں زبان کی چاشنی کے ساتھ وہ پُرلطف طنز و مزاح پڑھنے کو ملتا ہے کہ ادب کا ہر قاری مشتاق احمد یوسفی کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی کی تخلیقات میں ان کی زندگی کے مختلف ادوار کا دل چسپ بیان اور شخصیات کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو ان کے قریب رہے۔

    اردو کے اس ممتاز مزاح نگار کی تحریروں پر نظر ڈالیں‌ تو ظرافت نگاری کے ساتھ انھوں‌ نے سیاست اور سماج میں پیدا ہونے والی کج روی، کم زوریوں اور عیوب پر چوٹ کی ہے۔ لیکن ان کا انداز ہمدردانہ ہے اور اس سے مقصود اصلاح ہے جب کہ یہ تحریریں ان سچائیوں کو بھی اجاگر کرتی ہیں‌ جن سے ہمارا معاشرہ براہِ راست متأثر ہورہا ہے۔ یوسفی صاحب نے اپنی تخلیقی صلاحیت سے کام لے کر کئی رنگا رنگ موضوعات کو اپنے دلکش اور شوخ انداز میں اس طرح بیان کیا کہ قارئین آج بھی ان کے طرزِ‌ تحریر کے سحر میں گرفتار ہیں۔

    یوسفی صاحب 20 جون 2018ء کو انتقال کرگئے تھے۔

  • حوزے ساراماگو: نوبیل انعام یافتہ پرتگالی ناول نگار

    حوزے ساراماگو: نوبیل انعام یافتہ پرتگالی ناول نگار

    حوزے ساراماگو کو 1998ء میں نوبیل انعام کا حق دار تسلیم کیا گیا، لیکن وہ اس سے کافی عرصہ پہلے غیر معمولی فکشن نگار کے طور پر اپنی پہچان ضرور بنا چکے تھے۔ حوزے سارا ماگو 76 برس کے تھے جب انھیں نوبیل انعام دیا گیا اور ان کا نام عالمی ادب کے افق پر چمکا۔ 18 جون 2010ء کو حوزے ساراماگو نے ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

    1947ء میں حوزے ساراماگو نے اپنا پہلا ناول شائع کروایا تھا، اور بعد کے برسوں میں ان کے متعدد ناول اور تنقیدی مضامین منظرِ عام پر آئے جن کی بدولت عالمی ادب میں حوزے ساراماگو کو زبردست تخلیقی قوت کے حامل فکشن نگار کے طور پر پہچانا گیا۔

    براعظم یورپ کے جنوب مغرب میں واقع ملک پرتگال کی تہذیبی اور ثقافتی تاریخ میں کئی نام اصنافِ ادب میں اپنے منفرد کام کی بدولت دنیا میں معروف ہوئے۔ حوزے ساراماگو انہی میں سے ایک تھے۔ وہ کمیونسٹ نظریات کے حامل تھے اور اسی بناء پر یہ بھی خیال کیا جاتا تھا کہ انھیں نوبیل انعام نہیں مل سکتا، لیکن وقت نے اس خیال کو غلط ثابت کر دیا۔ حوزے سارا ماگو کی تخلیقات کا نہ صرف کئی زبانوں بشمول اردو، ترجمہ ہوا بلکہ نوبیل انعام کی شکل میں ان کی فنی عظمت کو تسلیم اور ان کی تخلیقات کو سراہا گیا۔

    حوزے ساراماگو (Jose Saramago) نے ناول ہی نہیں تخلیق کیے بلکہ ان کے افسانے، ڈرامے، روزنامچے، سفرنامے بھی قارئین تک پہنچے اور انھیں متاثر کیا۔ اس کے علاوہ حوزے سارا ماگو کے اخباری کالم اور تنقیدی مضامین بھی پرتگالی ادب کا حصہ بنے اور بعد میں ان کا انگریزی یا دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوا اور ان کے پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ حوزے سارا ماگو 1922ء میں پرتگال میں ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی زندگی کا سفر افلاس کی آغوش میں شروع ہوا۔

    اسی غربت اور تنگ دستی کے دوران انھوں نے کسی طرح اسکول کی تعلیم مکمل کی اور اس کے بعد ایک ورکشاپ میں گاڑیوں کی مرمت کا کام سیکھنے لگے۔ انھوں نے دو سال یہی کام کیا۔ مزدوری اور مشقت کی عادت نوعمری میں پڑ گئی تھی اور ورکشاپ چھوڑنے کے بعد ضروریات پوری کرنے کے لیے مختلف نوعیت کے چھوٹے چھوٹے کام اور مزدوریاں کرتے رہے۔ حوزے ساراماگو نے پرتگال میں کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب پرتگال میں کمیونسٹ پارٹی کی سرگرمیوں کے ساتھ سیاسی میدان میں بھی تبدیلیاں بھی رونما ہورہی تھیں۔ وہ سیاسی انتشار کے ساتھ سماجی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتے رہے۔ اسی عرصہ میں انھیں ایک اشاعتی ادارے میں ملازمت ملی، لیکن نومبر 1975ء میں سیاسی بحران کے باعث یہ ملازمت چھوڑ دی۔ 1969ء میں ساراماگو کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوئے تھے اور پھر عملی سیاست میں باضابطہ حصہ لیا۔ وہ واضح اور دو ٹوک سیاسی رائے رکھتے تھے اور اس کا اظہار بھی کرتے رہے۔

    حوزے ساراماگو نے 1966ء میں اپنی نظموں کا مجموعہ بھی شائع کروایا تھا۔ اس کے بعد وہ ادبی و تنقیدی مضامین، اخباری کالموں اور ادبی تراجم میں منہمک ہوگئے۔ پرتگال میں ان کی ادبی تحریریں کی مقبولیت کے ساتھ انھیں ایک فعال ادبی شخصیت کے طور پر شہرت ملی۔ عالمی ادب میں حوزے ساراماگو کو ان کے ناول Blindness (جس کا اردو ترجمہ اندھے لوگ کے نام سے کیا گیا) نے پہچان دی۔ یہ ناول 1995ء میں سامنے آیا تھا جس کے تین برس بعد وہ نوبیل انعام کے مستحق قرار پائے تھے۔ اس پرتگالی ادیب اور ناول نگار کو ایک تنازع کا سامنا بھی کرنا پڑا اور یہ حضرت عیسٰی کی زندگی پر مبنی ناول کی وجہ سے پیدا ہوا تھا، جسے پرتگال کی حکومت نے ادبی انعام کے لیے نام زد ہونے سے روک دیا۔

    ساراماگو کی تحریر کی ایک خاص بات رمز ہے اور وہ استعارہ تشکیل کرتے ہیں اور جہاں جہاں وہ اس کی توضیح کرتے ہیں وہاں اس کے معنی کی ایک اور جہت پیدا کر دیتے ہیں۔ اس عمل میں وہ رموز اوقاف کو ثانوی سمجھتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے ناول اکثر قارئین کے لیے صبر آزما ثابت ہوتے ہیں اور کسی وجہ سے قاری کہانی پر مکمل توجہ نہ دے سکے تو الجھن کا شکار اور کردار اور مکالمے سمجھنے میں دشواری محسوس کرے گا۔

    ساراماگو کے ناول اندھے لوگ کی کہانی کے مرکزی کردار پر ایک نظر ڈالیں تو یہ ایک کار سوار کے اچانک بینائی سے محروم ہوجانے کی داستان ہے جو ایک مقام پر سگنل کے سبز ہونے کے انتظار میں ہے تاکہ آگے بڑھ سکے۔ سگنل سبز ہو جاتا ہے لیکن وہ اپنی کار آگے نہیں بڑھاتا، اور جب اس کی کار کا دروازہ کھول کر اسے باہر نکالا جاتا ہے تو وہ بتاتا ہے کہ اسے دودھیا خلا کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ بے نام شہر میں اندھا ہونے والا یہ پہلا فرد ہے۔ یہ ایک ایسی وبا کا نتیجہ تھا جس کا کوئی وجود نہ تھا۔ لیکن اس کے بعد جو صورت حال جنم لیتی ہے وہ تعجب خیز بھی ہے اور اس کے بطن سے واقعات پھوٹتے چلے جاتے ہیں، اس اندھے پن کا شکار ہونے والے پہلے فرد کے بعد اسی نوع کے اندھے پن کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ جب یہ سلسلہ پھیلنے لگتا ہے تو حکومت یہ سمجھتی ہے یہ کوئی ایسی بیماری ہے جو کسی اندھے سے دوسرے لوگوں کو لگ رہی ہے اور گویا یہ ایک وبا ہے جس پر قابو پانے کے لیے اب تک اندھے ہونے والے تمام لوگوں کو پکڑ کر ایک ایسی عمارت میں بند کر دیا جاتا ہے جو کبھی دماغی امراض کے مریضوں کے لیے مخصوص رہی تھی۔ کئی کرداروں پر مشتمل اس ناول نے حوزے ساراماگو کو آفاقی شہرت سے ہمکنار کیا۔

    ساراماگو کے تخلیقی عمل کا محور اپنے ناول میں فرض کردہ واقعات کی بنیاد پر انسانی تہذیب کی کسی کڑی کو بیان کرنا ہے جو انسانی تہذیب کا تماشا دکھاتی ہے۔ وہ اپنے فکشن میں ایک فرضی صورتِ حال اور کرداروں کے ساتھ انسانی معاشرت، سیاست، مذہب اور انسانی نفسیات کی قلعی کھولنے کا کام کرتے نظر آتے ہیں اور اِن کا قاری اختتام تک ناول پڑھے بغیر نہیں رہ پاتا۔

  • قمر ہاشمی: ادب کا لینن انعام حاصل کرنے والے شاعر اور صحافی

    قمر ہاشمی: ادب کا لینن انعام حاصل کرنے والے شاعر اور صحافی

    سید محمد اسماعیل ہاشمی نے ادب کی دنیا میں قمر ہاشمی کے نام سے پہچان بنائی۔ اردو زبان کے یہ معروف شاعر اور صحافی ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور اختر شیرانی جیسے مقبول رومانوی شاعر کے شاگرد تھے۔

    2 فروری 1922ء کو ریاست ٹونک، راجستھان میں پیدا ہونے والے قمر ہاشمی کا اصل نام سید محمد اسماعیل شہید، تخلص قمر اور قلمی نام قمر ہاشمی تھا۔ ان کے والد مولوی حکیم سید احمد ہاشمی برق اپنے دور کے جید عالم اور نباض تھے، اور مجسٹریٹ کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کا تبادلہ اٹاوہ اور پھر گوالیار کی دیوانی عدالت میں ہوا، قمر ہاشمی نے اٹاوہ ہی میں‌ انگریزی اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ میٹرک علی گڑھ سے پاس کیا۔ انٹرمیڈیٹ اور منشی فاضل کے امتحانات جامعہ پنجاب سے پاس کیے۔ وہ اسکول میں اسکاؤٹ لیڈر رہے۔قمر ہاشمی کو پہلی ملازمت سینٹرل آرڈینس ڈپو (سی او ڈی) کانپور میں ملی۔ وہ تقسیمِ ہند کے بعد اپنے بڑے بھائی کے ساتھ پاکستان منتقل آئے اور ٹنڈو آدم میں قیام پذیر ہوئے۔ قمر نے یہاں سر سید ہائی اسکول میں بطور استاد ملازمت حاصل کی اور بعد میں‌ کراچی منتقل ہوگئے جہاں ڈان اردو میں معاون مدیر کی ملازمت شروع کی۔ 1952ء میں حکیم محمد سعید کے ادارے میں شعبۂ معلومات سے وابستہ ہو گئے۔ اشتہارات کا اسکرپٹ، ماہنامہ ہمدرد نونہال کے مضامین خصوصاً نظموں کی جانچ پرکھ اور ماہنامہ ہمدرد صحت کے لیے تراجم وغیرہ کی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے ترجمان مضراب کے مدیر بھی رہے۔ ان کی تصانیف میں مرسلِ آخر (نعتیہ کلام)، ہمہ رنگ و ہمہ نظم انسان، دانائی کا آفتاب لینن، طویل نظموں پر مشتمل نروان ساگر اور نوحوں پر مشتمل مجموعہ تماشا طلب آزار شامل ہیں۔

    قمر ہاشمی کو روس (سوویت یونین) نے ادب کا لینن پرائز دیا تھا جب کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے ان کو نعتیہ مجموعے پر قومی سیرت ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    16 جون 1993ء کو قمر ہاشمی اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ ان کی تدفین کراچی کے میوہ شاہ قبرستان میں کی گئی۔

  • شہرۂ آفاق کہانیوں کے خالق چارلس ڈکنز کا تذکرہ

    شہرۂ آفاق کہانیوں کے خالق چارلس ڈکنز کا تذکرہ

    شہرۂ آفاق کہانیوں کے خالق چارلس ڈکنز کو برطانوی معاشرے کا نبّاض بھی کہا جاتا ہے۔ ڈکنز اُن ناول نگاروں میں‌ شامل ہیں جنھوں نے اپنے قلم کی طاقت اور تخلیقی صلاحیتوں سے کام لے کر سماجی برائیوں، اپنے عہد میں نظام کی خامیوں اور مسائل کو اجاگر کیا اور فرسودہ نظام کو بدلنے میں‌ اپنا کردار ادا کیا۔ چارلس ڈکنز کے ناولوں اولیور ٹوئسٹ، ڈیوڈ کاپر فیلڈ، اے ٹیل آف ٹو سٹیز کو برطانوی ادب میں کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔

    9 جون 1870ء میں چارلس ڈکنز نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ چارلس ڈکنز ایک ناول نگار، مدیر، صحافی اور مصنّف ہونے کے ساتھ ایک صاحبِ بصیرت شخص تھا۔ ڈکنز نے اپنی نگارشات میں وکٹورین عہد کی مکمل تصویر پیش کی ہے جو بعد میں معاشرتی سطح پر تبدیلی لانے میں مددگار ثابت ہوئی۔

    7 فروری 1812ء کو چارلس ڈکنز نے انگلینڈ کے جنوبی ساحل پر واقع پورٹس ماؤتھ کے ایک گھر میں آنکھ کھولی۔ وہ اپنے والدین کی آٹھ اولادوں میں‌ سے دوسری اولاد تھی۔ اس کے والد جان ڈکنز بحریہ میں ایک کلرک تھے جب کہ والدہ الزبیتھ بیرو شعبۂ تدریس سے منسلک تھیں۔ 1822ء میں ڈکنز کا خاندان لندن کے ایک نچلے طبقہ کے رہائشیوں کے محلّے میں‌ منتقل ہوگیا تھا۔ اس گھرانے کے مالی حالات وقت کے ساتھ خراب ہوچکے تھے۔ اس کے والد مقروض تھے اور انھیں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں انھیں جیل جانا پڑا۔ بدحالی، تنگ دستی اور والد کی قید دیکھتے ہوئے چارلس ڈکنز بڑے ہوئے۔ ان حالات نے انھیں غور و فکر کے عادی بنا دیا تھا۔

    والد کو جیل ہوئی تو اس وقت چارلس ڈکنز کی عمر12 سال تھی۔ اپنے والد کے جیل جانے کے بعد چارلس کو دریائے ٹیمز کے ساتھ قائم جوتے رنگنے والی فیکٹری میں نوکری کرنا پڑی اور اس کے لیے اسکول چھوڑنا پڑ گیا۔فیکٹری میں کام کرتے ہوئے چارلس ڈکنز نے جبر اور استحصال کی کئی شکلیں دیکھیں اور ان کا شکار بھی ہوئے۔ ان کی زندگی کے یہ ادوار اور ان کے تجربے ان کی تخلیق ’’اولیور ٹوئسٹ‘‘ اور مزدور بچّوں کے جذبات ’’ڈیوڈ کاپر فیلڈ ‘‘ میں اور امارت و غربت کی کشمکش ’’اے کرسمن کیرول‘‘ میں نظر آتی ہے۔ بعد میں‌ چارلس کے والد نے خاندانی جائیداد بیچ کر اپنے سارے قرض ادا کر دیے اور چارلس کو اسکول بھیجنا شروع کر دیا۔ لیکن 15 سال کے ہوئے تو حالات کی ستم ظریفی نے ایک بار پھر اسکول سے نکال کر ایک دفتر میں آفس بوائے کی حیثیت سے کام پر مجبور کردیا۔ لیکن یہی ملازمت ان کے کیریئر کا اہم موڑ ثابت ہوئی اور یہیں سے چارلس کے لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

    ادبی دنیا میں چارلس ڈکنز کی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی نگارشات کا ترجمہ تقریباً ہر زبان میں ہوچکا ہے اور انھیں ادب کی پہلی عالمی شخصیت گردانا جاتا ہے۔ چارلس ڈکنز نے 170 برس پہلے جن کرداروں سے ہمیں متعارف کروایا تھا وہ آج بھی معاشروں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس ادیب کی سوانح عمری تحریر کرنے والے کلیئر ٹامالین کے مطابق چارلس ڈکنز کی معاشرتی تصویر کشی آج بھی ان کی سوچ کے عین مطابق ہے، وہی امیر غریب میں پایا جانے والا فرق، بدعنوان سرکاری ملازم، سیاسی ریشہ دوانیاں، اور اسی نوع کی دیگر سماجی برائیاں آج کے دور میں بھی عام ہیں۔ چارلس ڈکنز نے اسی کی نشان دہی کی اور اپنی تحریروں میں اچھے بُرے لوگوں اور ان کے سچ جھوٹ کے ساتھ اُس تضاد کو نمایاں کیا جو معاشرے کو برباد کررہا تھا۔

  • سیّد ممتاز علی کا تذکرہ جنھیں‌ ‘نسوانی بیڑے کا ناخدا’ کہا گیا!

    سیّد ممتاز علی کا تذکرہ جنھیں‌ ‘نسوانی بیڑے کا ناخدا’ کہا گیا!

    متحدہ ہندوستان میں‌ شمسُ العلما مولوی سیّد ممتاز علی کا نام ان کے علمی، ادبی، صحافتی کاموں اور حقوق و تعلیمِ نسواں کے علم بردار کی حیثیت سے مشہور ہوا۔ انہی کے صحافتی ادارے دارُالاشاعت لاہور کا رسالہ ’تہذیبِ نسواں‘ ہندوستان کا سب سے پہلا خواتین کا ہفتہ وار اخبار تھا جیسا کہ اس کے سَر ورق پر درج ہے۔

    اس رسالہ کی ادارت مولوی ممتاز علی کی دوسری بیوی نے سنبھالی تھی جو ڈرامہ انار کلی کے مصنّف امتیاز علی تاج کی والدہ تھیں۔ ان کا نام محمدی بیگم تھا جن کی ادارت میں اس رسالے کا پہلا شمارہ یکم جولائی 1898 میں منظرِ عام پر آیا۔ مولوی ممتاز علی کی پہلی بیوی کا چند برس قبل انتقال ہو چکا تھا۔ انھوں نے دوسری بیوی محمدی بیگم کو ذہین اور باصلاحیت پایا تو ان کی ضروری تعلیم کا بندوبست کیا اور انھیں اس قابل بنایا کہ وہ ایک رسالے کی مدیر بنیں۔

    تہذیبِ نسواں رفتہ رفتہ ہندوستان کے مسلم گھرانوں اور اردو داں طبقے میں‌ خاصا مقبول ہوگیا۔ اس اخبار نے جہاں‌ ہندوستانی عورتوں کو بیدار مغز اور باشعور بنانے میں کردار ادا کیا، وہیں اس پرچے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہی نہیں معمولی پڑھی لکھی عورتوں میں بھی تصنیف و تالیف کا شوق پیدا ہوا۔ اخبار کی ادارت محمدی بیگم کے ذمّہ تھی جو سیّد ممتاز علی کی زوجہ تھیں۔ لیکن ایک بڑا طبقہ جن میں مسلمان ہی نہیں‌ ہندو اور دیگر مذاہب کے ماننے والے ہندوستانی شامل تھے، مولوی صاحب کے اس رسالے کے مخالف تھے۔ مولوی ممتاز علی نے تہذیب نسواں کے متعلق چھ جولائی 1935 میں چھپے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ’لوگوں کو حق اور اختیار تھا کہ وہ اخبار کو ناپسند کرتے اور نہ پڑھتے اور اپنے گھروں میں نہ آنے دیتے مگر انھوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ گالیاں دینا شروع کیں۔ گالیاں بھی اگر بند خطوط کے اندر لکھی آتیں تو اس قدر ذلّت نہ ہوتی مگر وہ تو اخبار کے پیکٹوں پر بازاری گالیاں لکھ کر اخبار واپس کرتے تھے اور خطوں میں جو کچھ لکھتے تھے کہ وہ اس قدر شرمناک ہوتا تھا کہ خط کھولنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ ہاتھ کانپتے اور دل سہما جاتا تھا۔‘ اس زبردست مخالفت کے باوجود مولوی ممتاز علی نے اپنا کام جاری رکھا۔

    سیّد ممتاز علی کی علمی و ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ وقت نے شمسُ العلما کا خطاب دیا تھا۔ وہ 15 جون 1935ء کو وفات پاگئے تھے۔ اردو کے اس معروف مصنّف اور مترجم نے متعدد علمی و ادبی مضامین تحریر کیے۔ سیّد ممتاز علی رفاہِ عام پریس کے مالک تھے اور انھیں ناشر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ وہ 1860ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر راولپنڈی میں پیدا ہوئے تھے۔ قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ انھوں نے انگریزی کی تعلیم بھی پائی۔ مولوی صاحب 1876ء میں لاہور چلے گئے اور تا دمِ مرگ وہیں‌ ان کا قیام رہا۔

    1884ء میں ان کی ملازمت پنجاب میں عدالت کے مترجم کی حیثیت سے ہوئی تھی اور 1891ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ 1898ء کو لاہور میں چھاپا خانہ قائم کیا اور نہایت بلند پایہ کتابیں شایع کیں۔ اسی برس تہذیبِ نسواں بازار میں آیا تھا جو 1949ء تک جاری رہا۔ سیّد ممتاز علی نے 1909ء میں بچّوں کا جریدہ پھول بھی جاری کیا تھا اور یہ تقسیمِ ہند کے بعد بھی شایع ہوتا رہا۔

    مولوی سیّد ممتاز علی علم و ادب میں ممتاز اور مسلمانانِ ہند کے خیر خواہ اور مصلح سرسیّد احمد خان کے رفیق بھی تھے۔ ہر کام میں‌ ان سے صلاح و مشورہ کرتے اور ان کی طرح ہندوستانیوں‌ کے لیے جدید علوم اور تعلیم و تربیت کا حصول لازمی خیال کرتے تھے۔
    ان کے اخبار تہذیبِ نسواں کا نام تہذیبُ الاخلاق سے مشابہ تھا جو سر سیّد احمد خان نے تجویز کیا تھا۔

    سیّد ممتاز علی کے مطبع خانے سے جو تصانیف شایع ہوئیں، ان میں حقوقِ نسواں (1898ء)، مولوی مرزا سلطان احمد خاں کے متفرق مضامین کا مجموعہ ریاضُ الاخلاق (1900ء) اور سراجُ الاخلاق، تفصیلُ البیان، شیخ حسن (1930ء) اور دیگر شامل ہیں۔

    محمدی بیگم کے 1908ء میں انتقال کرجانے کے بعد ان کی صاحب زادی وحیدہ بیگم نے اس اخبار کی ادارت سنبھالی جس کے بانی مولوی ممتاز علی تھے، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وحیدہ بیگم 1917ء میں خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ کچھ عرصے کے لیے مولوی ممتاز علی کی بہو نے بھی اخبار کی ادارت کی اور پھر اسے مولوی ممتاز کے صاحب زادے امتیاز علی تاج نے آگے بڑھایا جو اس کے آخری مدیر تھے اور اردو کے نام ور ادیب اور ڈرامہ نگار تھے۔