Tag: جون وفات

  • صبیحہ خانم کا تذکرہ جنھیں‌ پاکستانی فلموں‌ کی ’خاتونِ اوّل‘ کہا جاتا ہے

    صبیحہ خانم کا تذکرہ جنھیں‌ پاکستانی فلموں‌ کی ’خاتونِ اوّل‘ کہا جاتا ہے

    ’سسی‘ پاکستانی فلمی صنعت کی کام یاب ترین اور یادگار فلم تھی جس پر 1954ء میں ساڑھے تین لاکھ روپے لاگت آئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب فلم ساز ایک لاکھ روپے سے کم رقم فلم پر لگاتے تھے۔ فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی جو صبیحہ خانم کے کیریئر کی بھی اہم اور یادگار فلم بن گئی۔

    پاکستانی فلموں کی ’خاتونِ اوّل‘ کے لقب سے یاد کی جانے والی صبیحہ خانم کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ تقریباً تین دہائیوں پر محیط اپنے فلمی کیریئر میں صبیحہ خانم نے فلم بینوں کے دلوں پر راج کیا۔

    صبیحہ خانم کی خوش نصیبی تھی کہ انھیں اپنے وقت منجھے ہوئے فلم سازوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جن میں داؤد چاند، ایم اے خان، سلطان کھوسٹ اور دیگر ایسے نام شامل ہیں جو برطانیہ سے فلم سازی کی تکنیک سیکھ کر آئے تھے اور خداداد صلاحیتوں کے حامل تھے۔ ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے صبیحہ خانم کی اداکاری میں بھی وقت کے ساتھ نکھار آیا۔ مذکورہ فلم میں جہاں صبیحہ خانم کی اپنی معصومانہ اداؤں کے ساتھ اسکرین پر جلوہ گر تھیں، وہیں مکالموں کی بے ساختہ ادائیگی نے شائقین کو بہت محظوظ کیا۔ کہتے ہیں فلم سسی نے 40 لاکھ روپے کا منافع کمایا۔ ملک بھر میں صبیحہ خانم کی اداکاری کی دھوم مچ گئی۔

    اس سے قبل صبیحہ خانم نے 1950 میں فلم بیلی میں کام کیا تھا جو بری طرح فلاپ ہوئی اور اس کے بعد بھی چند فلموں میں صبیحہ خانم نے ناکامی سمیٹی۔ مگر وہ اس لیے خوش قسمت تھیں‌ کہ وہ سلطان کھوسٹ اور نفیس خلیلی کی نظر میں‌ آگئی تھیں جنھوں نے یہ جان لیا تھاکہ وہ باصلاحیت ہیں۔ انھوں نے صبیحہ خانم کو اداکاری کی تربیت دی اور پھر نفیس خلیلی نے انھیں ایک ڈرامے ’بت شکن‘ میں کردار سونپ دیا۔

    صبیحہ خانم کا اصل نام مختار بیگم تھا۔ اس ڈرامے میں انھیں صبیحہ خانم کے نام سے متعارف کروایا گیا اور یہی فلمی دنیا میں ان کی پہچان بنا۔ ’بت شکن‘ کے بعد صبیحہ خانم کو ایک فلم میں‌ سائڈ ہیروئن کا رول ملا اور پھر یہ سلسلہ کئی کام یاب اور سپر ہٹ فلموں تک دراز ہوگیا۔ فلمی اعداد و شمار کے مطابق صبیحہ نے مجموعی طور پر 202 فلموں میں کام کیا۔ صبیحہ خانم نے اپنی شان دار کارکردگی پر پانچ نگار ایوارڈ بھی حاصل کیے۔ انھیں نگار ایوارڈ سات لاکھ، شکوہ، دیور بھابی میں بہترین اداکارہ، سنگ دل میں بہترین معاون اداکارہ اور اک گناہ اور سہی میں خصوصی اداکاری کے زمرے میں دیے گئے تھے۔

    صبیحہ خانم کی ذاتی زندگی پر نظر ڈالیں تو ان کا سنہ پیدائش 1935ء ہے، وہ پنجاب کے شہر گجرات کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئیں، والد کا نام محمد علی اور والدہ کا اقبال بیگم تھا جو اسٹیج اور فلم کی اداکارہ تھیں۔ کم عمری میں صبیحہ خانم اپنی والدہ کے سائے سے محروم ہوگئیں۔ صبیحہ پندرہ سال کی تھیں جب والد انھیں فلموں میں کام دلوانے کے لیے کوشش کرنے لگے۔ فلم نگری میں اپنی بیٹی کے لیے ان کی یہ بھاگ دوڑ کام یاب رہی اور صبیحہ انڈسٹری کی مقبول ہیروئن بنیں۔ فلم بیلی سے اپنی اداکاری کا آغاز کرنے والی صبیحہ خانم نے پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں اپنے کیریئر کا عروج دیکھا۔ کہتے ہیں کہ اس وقت بننے والی ہر دس فلموں میں‌ سے سات فلموں میں صبیحہ ہی ہیروئن کے روپ میں‌ نظر آتی تھیں۔ صبیحہ خانم کی اداکاری کی سب سے اچھی بات ان کی بے ساختگی اور فطری پن تھا۔

    اداکارہ کی محبّت اور شادی کی بات کریں‌ تو اس میں‌ ان کے شریکِ سفر سنتوش کمار کے علاوہ درپن کا نام بھی آئے گا۔ سنتوش کمار اپنے وقت کے مقبول فلمی ہیرو تھے جن کا اصل نام موسیٰ رضا تھا اور ان سے اداکارہ کی طوفانی محبّت کے قصّے فلمی صحافیوں کے توسط سے ان دونوں کے مداحوں تک پہنچے۔ ایک روز سنتوش کمار کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ وہ صبیحہ خانم سے نکاح کرچکے ہیں۔ یہ سنتوش کمار کی دوسری شادی تھی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس سے قبل صبیحہ خانم اور درپن کے درمیان رومان چل رہا تھا جو ستنوش کمار کے بھائی تھے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ اپنے بھائی درپن کو اداکارہ صبیحہ خانم سے شادی نہ کرنے پر قائل کرنے والے سنتوش کمار بعد میں صبیحہ خانم کی محبّت میں گرفتار ہوگئے اور ان سے شادی بھی کر لی۔ کہتے ہیں‌ کہ درپن کو سنتوش کمار نے یہ کہہ کر فلمی دنیا کی ایک لڑکی سے شادی نہ کرنے پر آمادہ کیا تھا کہ وہ ایک شریف اور سنجیدہ گھرانے کے فرد ہیں جب کہ صبیحہ فلمی دنیا سے تعلق رکھتی ہے۔ بہرحال، صبیحہ اور سنتوش حقیقی زندگی میں کام یاب رہے اور ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ صبیحہ خانم ایک باوقار اور شائستہ خاتون تھیں جو 1958ء میں‌ سنتوش جیسے کام یاب فلمی ہیرو سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ اس جوڑے کے ہاں تین بچّوں کی پیدائش ہوئی۔

    11 جون 1982ء کو سنتوش کمار انتقال کرگئے تھے جس کے بعد صبیحہ خانم بھی فلمی دنیا سے دور ہوگئی تھیں، بعد میں وہ امریکا چلی گئیں جہاں‌ ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

    فلموں کے بعد وہ ٹیلی ویژن پر اداکاری کرتی نظر آئیں۔ ان کے مشہور ٹی وی ڈراموں میں ’احساس‘ اور ‘دشت’ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ انھوں نے پاکستان ٹیلی ویژن پر اپنی آواز کا جادو بھی جگایا، اور صبیحہ خانم کے گائے ہوئے دو ملّی نغمے ’جُگ جُگ جیوے میرا پیارا وطن‘ اور ’سوہنی دھرتی اللہ رکھے‘ بھی مقبول ہیں۔

    فلمی دنیا میں کام یابی کے جھنڈے گاڑنے والی صبیحہ خانم 82 سال کی تھیں اور ذیابیطس اور بلڈ پریشر جیسے امراض کا شکار تھیں۔ لیکن اس عمر میں بھی خاصی متحرک رہیں۔ وہ زندگی کے آخری سال تک امریکا میں مختلف تقاریب میں شریک ہوتی رہیں اور تہواروں پر مسلم کمیونٹی کی جانب سے دعوت قبول کرتی تھیں۔ وہ 1999 میں امریکا، ورجینیا منتقل ہوئی تھیں۔ صبیحہ خانم 13 جون 2020ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔

    حکومتِ پاکستان کی جانب سے اداکارہ کو تمغائے حسنِ کارکردگی دیا گیا تھا۔ صبیحہ خانم کی تدفین امریکا ہی میں‌ کی گئی۔

  • مؤرخ اور ماہرِ‌ ثقافت زبیدہ یزدانی کا تذکرہ

    مؤرخ اور ماہرِ‌ ثقافت زبیدہ یزدانی کا تذکرہ

    زبیدہ یزدانی کا نام ایک مؤرخ اور ماہرِ ثقافت کی حیثیت سے نہایت اہم اور معتبر ہے۔ ان کی تصنیف کردہ کتب وقیع اور مستند تسلیم کی جاتی ہیں۔ تاریخ اور ثقافت کے میدان میں زبیدہ یزدانی کی تحقیق کا موضوع حیدرآباد دکن ہے جو ہندوستان کی ایک مرفّہ الحال ریاست تھی۔ زبیدہ یزدانی کا علمی و تحقیقی کام عالمی سطح پر ان کی پہچان کا باعث بنا۔

    مؤرخ اور ماہرِ ثقافت زبیدہ یزدانی 11 جون 1996ء کو لندن میں وفات پاگئی تھیں۔ وہ لندن میں اپنے شوہر کے ساتھ قیام پذیر تھیں۔ زبیدہ یزدانی نے ہندوستان کی تاریخ اور ثقافت پر کئی کتب اور متعدد تحقیقی مضامین سپردِ قلم کیے اور ان کا کام دنیا بھر میں ان کی شناخت بنا۔ زبیدہ یزدانی کا خاص موضوع حیدرآباد دکن تھا جس پر ان کے کام کو سند اور معتبر حوالہ مانا جاتا ہے۔

    27 اپریل 1916ء زبیدہ یزدانی نے ڈاکٹر غلام یزدانی کے گھر آنکھ کھولی جو ایک ماہرِ‌ آثارِ قدیمہ تھے اور تحقیقی کاموں کے لیے مشہور تھے۔ غلام یزدانی کی تصانیف ہندوستانی تاریخ اور ثقافت پر اہمیت کی حامل ہیں۔ وہ حیدرآباد دکن میں آثارِ قدیمہ کے ڈائریکٹر رہے اور قدیم دور کے اجنتا اور ایلورا کے غاروں‌ کی نگرانی کے ساتھ انھوں نے مختلف مذاہب کے تاریخی معبدوں کی ازسرِ نو تعمیر و مرمت کا کام بھی بخوبی کروایا۔ یوں زبیدہ یزدانی کو بچپن ہی سے تاریخ و آثار اور ہندوستانی ثقافت میں دل چسپی پیدا ہوتی چلی گئی اور انھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے اس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد خود کو اسی شعبے میں اپنے کام کی بدولت منوایا۔ زبیدہ یزدانی اکسفورڈ میں داخلہ لینے والی اوّلین ایشیائی خواتین میں سے ایک تھیں۔

    مؤرخ زبیدہ یزدانی کی پہلی کتاب "Hyderabad during the Residency of Henry Russell 1811 – 1820” تھی جب کہ دوسری اہم کتاب "The Seventh Nizam: The Fallen Empire” کے نام سے شایع ہوئی۔ انھیں‌ سماجی کاموں اور تعلیم کے فروغ کے لیے ان کی کاوشوں کے سبب بھی یاد کیا جاتا ہے۔

    زبیدہ یزدانی نے دکن میں علم و فنون کی آبیاری کے لیے مشہور درس گاہ جامعہ عثمانیہ کے وومن کالج میں بھی استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور 1976ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد برطانیہ چلی گئی تھیں۔ وہیں زبیدہ یزدانی نے اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔

  • معروف اداکار جمیل فخری کی برسی

    معروف اداکار جمیل فخری کی برسی

    جمیل فخری کو پولیس کی وردی میں جعفر حسین کے نام سے کردار نبھاتے ہوئے دیکھنے والے کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کی لازوال سیریز ’اندھیرا اجالا‘ کا یہ مقبول کردار ہمارے ذہنوں پر نقش ہے۔ جمیل فخری 9 جون 2011ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    ستّر کی دہائی میں اداکاری کا آغاز کرنے والے جمیل فخری کو اطہر شاہ خان نے ’اندر آنا منع ہے‘ نامی اسٹیج ڈرامے میں متعارف کرایا تھا جس کے بعد انھوں نے اسٹیج اور پھر ٹی وی پر متعدد ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ تاہم ان کی ملک گیر وجہِ شہرت پولیس انسپکٹر کا کردار تھا اور اسی روپ میں جمیل فخری نے مداحوں کے دلوں میں مقام بنایا۔

    یہ اس دور کی بات ہے جب چھوٹی اسکرین پاکستان بھر میں ناظرین کی تفریح کا واحد ذریعہ ہوتی تھی اور اندھیرا اجالا سماجی مسائل اور جرم و سزا پر ایک ایسی ڈرامہ تھا جو نشر ہوتا تو گویا ہر سڑک اور ہر گلی سنسان ہوجاتی۔ ناظرین ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھ جاتے تھے۔ اس ڈرامے کے دیگر مرکزی کرداروں میں‌ منجھے ہوئے اداکار قوی خان اور عرفان کھوسٹ شامل تھے۔

    پولیس انسپکٹر کے روپ میں جمیل فخری کا مخصوص لہجہ اس قدر مقبول تھا کہ لوگ ان کے انداز کی نقل کرتے اور ان کے ادا کردہ مکالمے بھی سب کی زبان پر ہوتے تھے۔

    جمیل فخری نے تیس سے زائد پاکستانی فلموں میں کام کیا۔ اگرچہ ان میں کوئی مرکزی کردار شامل نہیں ہے، لیکن انھوں نے اپنے ہر کردار کو بخوبی نبھایا اور اس کا گہرا تأثر فلم بینوں پر چھوڑا۔ اداکار جمیل فخری نے کئی اسٹیج شوز میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے، لیکن پھر خود کو پی ٹی وی کے ڈراموں تک محدود کرلیا۔

    دلدل، تانے بانے، وارث، بندھن، ایک محبت سو افسانے وہ ڈرامے تھے جن میں جمیل فخری نے بے مثال اداکاری کی۔

    اداکار جمیل فخری ذیابیطس اور بلڈ پریشر کے مریض تھے۔ ان کی وفات سے چند ماہ قبل امریکا میں ان کے بڑے بیٹے کو قتل کردیا گیا تھا جس کا انھیں شدید صدمہ پہنچا تھا۔ وہ اپنے بیٹے کی الم ناک موت کے بعد زیادہ تر خاموش رہنے لگے تھے۔

    پاکستان ٹیلی ویژن کے اس معروف اداکار کو لاہور کے ایک قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • اسد بھوپالی: لازوال فلمی گیتوں کے خالق

    اسد بھوپالی: لازوال فلمی گیتوں کے خالق

    اسد بھوپالی کے قلم سے بولی وڈ کی فلموں کے لیے یوں تو کئی گیت نکلے، لیکن ’’میں نے پیار کیا‘‘ وہ فلم تھی جس نے 1998ء میں‌ باکس آفس پر دھوم مچا دی اور ریکارڈ بزنس کرنے والی اسی فلم میں شامل اسد بھوپالی کے دو گیتوں کو بھی بلاشبہ وہ مقبولیت حاصل ہوئی جس کی کم ہی مثال دی جاسکتی ہے۔ آج فلمی نغمہ نگار اسد بھوپالی کی برسی منائی جارہی ہے۔

    بولی وڈ کے سپراسٹار سلمان خان اور اداکارہ بھاگیا شری کی مذکورہ فلم کے یہ دو گیت آج بھی ایک نسل کی یادوں کا خوب صورت حصّہ بن کر ان کی سماعتوں میں محفوظ ہیں‌۔ ان گیتوں کے بول تھے، ’’دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ‘‘ اور ’’کبوتر جا، جا جا…‘‘ اسد بھوپالی 9 جون سنہ 1990ء میں‌ اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    بھوپال میں 10 جولائی 1921ء کو آنکھ کھولنے والے اسد بھوپائی کا اصل نام اسد اللہ خاں تھا۔ انھوں نے فارسی، عربی، اردو اور انگریزی کی رسمی تعلیم حاصل کی اور شاعری کا آغاز کیا تو اسد بھوپالی کے نام سے پہچان بنائی۔ یہی سلسلہ انھیں فلمی دنیا تک لے گیا اور کئی کام یاب فلموں میں ان کے تحریر کردہ گیت بھی شامل تھے۔

    نوجوانی میں اسد بھوپالی نے بمبئی جاکر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا جہاں ان سے پہلے بھی کئی شاعر فلمی نغمہ نگار کی حیثیت سے جگہ پاچکے تھے اور نام و مقام بنا رہے تھے۔ اسد بھوپالی 28 برس کے تھے جب وہ بمبئی پہنچے اور یہ وہ زمانہ تھا جب معروف شاعر خمار بارہ بنکوی، جاں نثار اختر، مجروحؔ سلطان پوری، شکیلؔ بدایونی، حسرتؔ جے پوری اور شیلندر کا نام اور شہرہ تھا، لیکن قسمت نے یاوری کی اور اسد بھوپالی کو انہی کے درمیان اپنے فن اور صلاحیتوں کو منوانے کا موقع مل گیا۔

    یہ 1949ء کا ذکر ہے جب فضلی برادران فلم’’دنیا‘‘ بنانے کے لیے کام شروع کرچکے تھے۔ مشہور شاعر آرزو لکھنوی نے اس فلم کے دو گیت لکھے اور پھر تقسیمِ ہند کا اعلان ہوگیا تو وہ پاکستان چلے آئے۔ فضلی برادران کو اب ایک دوسرے نغمہ نگار کی تلاش تھی اور کسی نے اسد بھوپالی کا تعارف ان سے کروا دیا۔ یوں وہ پہلی مرتبہ انھیں بمبئی آنے کے بعد اپنے مقصد میں کام یابی کی امید پیدا ہوئی۔ اسد بھوپالی نے فلم کے نغمات لکھے اور ان کے دونوں گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ اس کے بعد 1950ء میں فلم ’’آدھی رات‘‘ کے لیے بھی ان سے گیت لکھوائے گئے۔ پھر بی آر چوپڑا کی مشہور فلم ’’افسانہ‘‘ کے لیے بھی اسد بھوپالی کے لکھے گئے دو گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ اس فلم کے لیے اسد بھوپالی نے چھے گیت تحریر کیے تھے۔ 1949ء سے اپنی زندگی کے آخری سال تک اسد بھوپالی نے کم و بیش 400 فلمی گیت تخلیق کیے اور بہت نام کمایا۔ انھوں نے غزلیں‌ بھی کہیں اور اپنے ہم عصروں میں نمایاں ہوئے۔

    ’’دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ‘‘ وہ گیت تھا جس پر اسد بھوپالی کو "فلم فیئر ایوارڈ” سے نوازا گیا تھا۔

  • مولوی احمد اللہ شاہ کا تذکرہ جو ‘ڈنکا شاہ’ مشہور تھے

    مولوی احمد اللہ شاہ کا تذکرہ جو ‘ڈنکا شاہ’ مشہور تھے

    ڈنکا شاہ ناکام غدر کے بعد ایک سال ہی زندہ رہ سکے۔ آخری سانس تک انگریزوں سے انتہائی جواں مردی کے ساتھ اور منظّم طریقے سے لڑنے والے اس باغی سردار کو شاہجہاں پور کی پوائياں ریاست کے راجہ نے دھوکہ دے کر قتل کروا دیا تھا۔

    مؤرخین بتاتے ہیں‌ کہ احمد اللہ شاہ نے انگریزوں کے خلاف کبھی اسلام کا نام لے کر لوگوں کو جمع نہیں کیا بلکہ ان کے گروہ میں ہر ہندوستانی مادرِ وطن کی آزادی کی جدوجہد کے لیے شامل ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ احمد اللہ شاہ کو گنگا جمنی تہذیب کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ 5 جون 1858ء کو تحریکِ‌ آزادیٔ ہند کے اس سپاہ سالار کو شہید کر دیا گیا تھا۔

    ہندوستانی مؤرخ رام شنکر ترپاٹھی ایک دل چسپ واقعہ بیان کرتے ہیں: ‘احمد اللہ شاہ ایک سپاہ سالار تھے۔ وہ ہاتھی پر ہودے میں بیٹھ کر مسافت طے کرتے تھے۔ ان آگے ایک ہاتھی چلتا تھا، جس پر ڈنکا بجایا جاتا تھا اور اسی نسبت سے لوگ انھیں ڈنکا شاہ پکارنے لگے۔’ انھیں مولوی احمد اللہ شاہ بھی کہا جاتا تھا جنھوں نے لکھنؤ، شاہجہان پور، بریلی اور اودھ کے دیگر علاقوں میں باغیوں کی قیادت کی اور انگریزوں کی فوج کو کئی محاذوں پر شکست دی۔ ترپاٹھی کے مطابق ان کی فوج میں ہندو اور مسلمان دونوں مذاہب کے پیروکار سپاہی اور سردار شامل تھے۔

    مولوی احمد اللہ شاہ کا سنہ پیدائش 1787 اور شہر مدراس (موجودہ چنئی) بتایا جاتا ہے۔ وہ ایک باعمل مسلمان تھے جنھوں نے ہندوستان پر انگریزوں کے قبضے کو کبھی قبول نہ کیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کو شکست دینے کے لیے میدان میں اترے۔ انگریزوں کے خلاف احمد اللہ شاہ کی اپنے لشکر کی منظّم قیادت اور ان کی بہادری کے چرچے ہندوستان بھر میں‌ عام تھے۔ وہ فیض آباد میں مذہبی اتحاد کا مظہر بھی تھے۔ جنگِ آزادیٔ ہند کے دوران ان کا ساتھ دینے والوں میں کئی شاہی شخصیات جیسے نانا صاحب اور خان بہادر خان روہیلہ بھی شامل تھے۔ خاص طور پر لکھنؤ اور اودھ کے خطّے میں ہونے والی تمام جنگوں میں باغی گروہوں کی قیادت احمد اللہ شاہ نے کی۔ اکثر لوگ مولوی احمد اللہ شاہ کے نام کے ساتھ فیض آبادی بھی لکھتے ہیں۔

    انگریز سرکار نے ڈنکا شاہ کو پکڑنے کے لیے چاندی کے پچاس ہزار سکّوں کا اعلان کیا تھا، لیکن وہ انھیں زندہ گرفتار نہیں کرسکے۔ راجہ جگن ناتھ سنگھ نے مولوی احمد اللہ شاہ کو قتل کرنے کے بعد ان کا سَر قلم کر کے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا تھا۔ انگریز سرکار نے اعلان شدہ انعام اسے دیا تھا۔

    احمد اللہ شاہ نے فیض آباد کی مسجد سرائے کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنایا تھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب انھوں نے فیض آباد اور اودھ کے ایک بڑے حصّے کو انگریزوں سے آزاد کرا لیا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف جنگ میں انھیں ایک بہترین جنرل کے طور پر دیکھا گیا۔ گو کہ وہ باقاعدہ تربیت یافتہ فوجی نہیں تھے، لیکن انھوں نے کانپور سے لکھنؤ اور دہلی سے بریلی اور شاہجہاں پور تک انگریزوں کے خلاف جنگ بہادری سے لڑی۔

    پوائیاں کے راجہ نے مولوی احمد اللہ شاہ کو دھوکہ دے کر اپنی مدد کے لیے بلایا اور قتل کروا دیا۔ مولوی احمد اللہ کے سَر اور جسم کو شاہجہاں پور میں مختلف مقامات پر دفن کیا گیا تھا۔

  • یومِ وفات:‌ مجیب عالم کی مدھر آواز ہمیشہ زندہ رہے گی

    یومِ وفات:‌ مجیب عالم کی مدھر آواز ہمیشہ زندہ رہے گی

    مجیب عالم کی زندگی کا سفر 2004 میں تمام ہوا تھا۔ 1967ء میں فلم’ چکوری‘ کی بدولت مجیب عالم کی آواز نے موسیقاروں اور شائقین سے سندِ قبولیت اور پذیرائی سمیٹی تھی اور ان کے گیت کے بول تھے، ’وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں…‘

    اس فلمی گیت نے مقبولیت کا ریکارڈ بنایا اور اگلے کئی برس تک مجیب عالم فلم انڈسٹری کے مصروف گلوکاروں میں شامل رہے۔ کراچی میں 2 جون کو وفات پانے والے مجیب عالم کی آج برسی ہے۔

    مجیب عالم نے فلمی دنیا کے لیے کئی یادگار گیت ریکارڈ کرائے جنھیں ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے اکثر نشر کیا جاتا تھا۔ ایک دور تھا جب سامعین کی فرمائش پر گلوکار مجیب عالم کی آواز میں‌ خوب صورت گیت ریڈیو سے نشر ہوتے تھے۔ اسی طرح ٹیلی ویژن کے لیے انھوں نے خصوصی طور پر نغمات ریکارڈ کروائے تھے جنھیں شائقین نے بہت پسند کیا۔ پی ٹی وی کے لیے ان کا گیت ’میرا ہر گیت ہے ہنستے چہروں کے نام‘ بہت مقبول ہوا۔

    جس زمانے میں مجیب عالم نے فلم انڈسٹری میں بطور گلوکار قدم رکھا، وہاں مہدی حسن اور احمد رشدی جیسے پائے کے گلوکار پہلے ہی موجود تھے، لیکن جلد ہی مجیب عالم پاکستان کے صفِ اوّل کے گلوکاروں میں شامل ہوگئے۔ ان کے مشہور گیتوں میں ’یوں کھو گئے تیرے پیار میں ہم‘، ’میں تیرے اجنبی شہر میں‘ اور ’یہ سماں پیار کا کارواں‘ سرفہرست ہیں۔

    پاکستان کے معروف گلوکار مجیب عالم ہندوستان کے شہر کانپور میں 1948ء میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیمِ ہند کے چند برس بعد ان کا خاندان ہجرت کرکے کراچی آگیا تھا جہاں وہ اپنی زندگی کی آخری سانس تک سکونت پذیر رہے۔ مجیب عالم کی آواز بے حد سریلی تھی اور وہ ریڈیو پر اپنے فن کا مظاہرہ کرچکے تھے۔ اسی سے متأثر ہوکر موسیقار حسن لطیف نے اپنی فلم نرگس کے گیت ان سے گوائے مگر یہ فلم پردے پر نمائش کے لیے پیش نہ کی جاسکی۔ تاہم ساٹھ کی دہائی میں مجیب عالم نے فلمی دنیا کو بطور گلوکار اپنا لیا تھا۔ ان کی ریلیز ہونے والی پہلی فلم مجبور تھی۔ مجیب عالم کی آواز میں 1966 میں فلم جلوہ کا گیت بھی ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس کے اگلے سال چکوری جیسی کام یاب فلم کا نغمہ ان کی آواز میں بے حد مقبول ہوا اور پھر وہ آگے بڑھتے چلے گئے۔ مجیب عالم کو اس گیت کے لیے نگار ایوارڈ دیا گیا۔ ان کے بارے میں اپنے وقت کے مایہ ناز موسیقاروں اور گلوکاروں کا کہنا تھاکہ ’مجیب مشکل گانے بھی آسانی اور روانی سے گایا کرتے تھے۔‘

    مجیب عالم نے جن فلموں کے لیے نغمات ریکارڈ کروائے ان میں دل دیوانہ، گھر اپنا گھر، جانِ آرزو، ماں بیٹا، شمع اور پروانہ، قسم اس وقت کی، میں کہاں منزل کہاں سرفہرست ہیں۔

    فلمی گیتوں کو اپنی آواز میں لازوال اور سحر انگیز بنا دینے والے مجیب عالم کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔ آج یہ خوب صورت گلوکار ہمارے درمیان موجود نہیں، مگر ان کی آواز موسیقی اور گائیکی کی دنیا میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔

  • گیتوں کی مالا اور ریاضُ الرّحمان ساغر

    گیتوں کی مالا اور ریاضُ الرّحمان ساغر

    کسی بھی فلم کی کام یابی میں جان دار اسکرپٹ اور بہترین اداکاری بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے، لیکن شاعری، موسیقی اور گلوکاری ایک فلم کو یادگار بنا دیتے ہیں۔ ریاضُ الرّحمان ساغر ایسے ہی شاعر تھے جن کے تحریر کردہ فلمی گیت ہر خاص و عام آج بھی مقبول ہیں۔

    بطور فلمی گیت نگار ساغر کی اوّلین وجہِ شہرت فلم شریکِ حیات اور سماج تھی۔ ان فلموں کے گیتوں کو شائقینِ سنیما نے بہت پسند کیا تھا۔

    معروف شاعر، کئی مقبول گیتوں کے خالق اور صحافی ریاضُ الرّحمان ساغر طویل عرصہ علیل رہنے کے بعد یکم جون 2013ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھیں کینسر کا مرض لاحق تھا۔ ریاضُ الرّحمان ساغر کا سنہ پیدائش 1941ء ہے، وہ بھارتی پنجاب کے شہر بھٹنڈہ میں پیدا ہوئے اور تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آئے۔ یہاں‌ ساغر نے رہنے بسنے اور روزگار کے حصول کے لیے بھاگ دوڑ کے دوران صحافت کو اپنے لیے موزوں پایا اور اس پیشے میں فلمی شعبہ سے منسلک رہے۔ انھوں نے شوبز رپورٹر اور شوبز ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے کالم نگاری کا سلسلہ شروع کیا جو ایک قومی روزنامے میں شایع ہوتا رہا۔

    ایک اندازے کے مطابق معروف شاعر ریاضُ الرّحمان ساغر کے فلمی گیتوں کی تعداد دو ہزار سے زائد ہے جن میں کئی سدا بہار اور مقبولِ عام نغمات شامل ہیں۔ ساغر کے فلمی گیتوں کو اپنے وقت کے مشہور و معروف گلوکاروں نے گایا اور شہرت حاصل کی۔ ریاض الرحمان ساغر کی پہلی فلم ہدایت کار اور مصنّف عزیز میرٹھی کی اردو فلم عالیہ (1967) تھی۔ موسیقار ماسٹرعنایت حسین کی دھن میں پہلا گیت تھا:

    کہو، وعدہ ہوا، رسمِ وفا ہر دم نبھانے کا۔ یہ ایک دو گانا تھا جسے احمد رشدی اور مالا نے گایا تھا اور یہ اداکار کمال اور شمیم آرا پر فلمایا گیا تھا۔ ساغر صاحب کا پہلا ہٹ گیت فلم شریکِ حیات (1968) میں شامل تھا جس کے بول تھے، میرے دل کے صنم خانے میں اک تصویر ایسی ہے، جو بالکل آپ جیسی ہے… اس گیت کو مسعود رانا نے گایا تھا اور اس کی دھن اے حمید نے بنائی تھی۔ فلم انڈسٹری میں ریاضُ الرّحمان ساغر کو بڑے فلم سازوں نے کام دیا اور ان کی شاعری کو سراہا۔

    پاکستانی فلم ’کبھی تو نظر ملاؤ‘، ’چیف صاحب‘، ’سرگم‘، ’گھونگھٹ‘، ’انتہا‘، ’محبتاں سچیاں‘، ’سمجھوتا ایکسپریس‘ اور ’عشق خدا‘ وہ کام یاب فلمیں‌ تھیں جن کے لیے ساغر نے شاعری کی اور یہ گیت مقبول ہوئے۔ ان کا مقبول ترین گیت ’میں تینوں سمجھانواں کیہ‘ فلم ’ورثہ‘ کے لیے تھا جسے راحت فتح علی خان نے گایا۔

    معروف شاعر نے پاکستانی گلوکاروں کی فرمائش پر ان کے البموں کے لیے بھی گیت تحریر کیے جن میں ’دوپٹہ میرا مل مل دا‘ اور ’یاد سجن دی آئی‘، ’کبھی تو نظر ملاؤ‘ اور پاکستان کی معروف گلوکارہ فریحہ پرویز کے البم میں شامل گیت آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔

    پاکستان کے اس معروف گیت نگار کو سنسر بورڈ کا رکن بھی بنایا گیا تھا۔ ساغر صاحب نے شاعری کے علاوہ نثر میں بھی اپنے قلم کو آزمایا ہے۔ ان کی سوانح عمری ’وہ کیا دن تھے‘ کے عنوان سے جب کہ دو سفر نامے ’کیمرہ، قلم اور دنیا‘ اور ’لاہور تا بمبئی براستہ دہلی‘ شائع ہوئے۔ انھیں‌ فلمی دنیا میں متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔

    وفات کے وقت معروف فلمی گیت نگار کی عمر 72 برس تھی۔ انھیں لاہور کے ایک قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

  • ایک مزاحیہ اداکار کا تذکرہ جنھیں‌ فلم میں ‘ہیرو’ بنایا گیا!

    ایک مزاحیہ اداکار کا تذکرہ جنھیں‌ فلم میں ‘ہیرو’ بنایا گیا!

    ایک زمانہ تھا جب غیر ناطق فلموں‌ میں اداکار اپنے چہرے کے تاثرات اور حرکات و سکنات سے شائقین کو متوجہ کرتے تھے اور داد وصول کرنے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنا پڑتی تھی۔ اسی زمانے میں نور محمد چارلی نے اپنا فلمی سفر شروع کیا اور ہندوستان میں شہرت اور مقبولیت پائی۔

    انیسویں صدی کی 30 اور 40 کی دہائی میں‌ نام کمانے والے نور محمد چارلی مشہور مزاحیہ اداکار تھے۔ وہ پہلے مزاحیہ اداکار بھی تھے جنھیں اس دور میں‌ ایک فلم کے لیے ہیرو منتخب کیا گیا اور دیگر فلموں میں بھی انھوں نے مرکزی کردار نبھائے۔ یہی نہیں بلکہ وہ اپنے دور کے مزاحیہ فن کاروں میں پہلے مزاحیہ اداکار تھے جن پر ایک گیت بھی فلمایا گیا اور خود انھوں نے بھی اپنی فلموں کے لیے گیت گائے تھے۔

    نور محمد چارلی کے فلمی سفر کا آغاز 1928ء میں ہوا تھا۔ اس زمانے کی ایک غیرناطق فلم اپ ٹو ڈیٹ میں نور محمد نے کام کیا تھا۔ اس سے اگلے برس ایک فلم انڈین چارلی پیش کی گئی جسے بعد میں 1933ء میں ناطق فلم کے طور پر بھی بنایا گیا اور اس فلم کا ٹائٹل رول نور محمد نے اس خوب صورتی سے نبھایا کہ شائقین نے انھیں ‘نور محمد چارلی’ کہنا شروع کردیا۔ چارلی ان کے نام سے آخری عمر تک جڑا رہا۔

    نور محمد چارلی نے کئی فلموں میں مرکزی کردار نبھائے جن میں سنجوگ (1943)، مسافر (1940)، چاند تارا (1945) جیسی کام یاب فلمیں شامل تھیں۔

    قیامِ پاکستان کے بعد یہ مزاحیہ اداکار ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور یہاں اپنی پہلی فلم مندری (1949) میں کام کیا، لیکن تقسیمِ ہند سے قبل شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے والے اس اداکار کو پاکستان میں سنیما پر خاص کام یابی نہیں ملی۔

    نور محمد چارلی نے اردو اور پنجابی فلموں میں بھی کام کیا اور ناکام رہے جس کے بعد تین سندھی فلموں میں خود کو آزمایا اور یہاں بھی بدقسمتی سے شائقین کی توجہ حاصل نہ کرسکے۔ ان ناکامیوں سے گھبرا کر وہ بھارت چلے گئے، جہاں انھیں تین فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا، لیکن ان کے بخت کا ستارہ اب زوال پذیر تھا، وہ مایوس ہو کر پاکستان لوٹ آئے۔ وطن واپسی کے بعد یہاں مزید دو فلموں میں کام کیا تھا۔ 30 جون 1983ء کو نور محمد چارلی کراچی میں وفات پاگئے۔

    نور محمد چارلی 7 جنوری 1911ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر گجرات کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیمِ ہند سے قبل انھوں نے جن فلموں میں کام کیا، ان میں پاک دامن، رقاصہ، زرینہ، پریمی پاگل، فرزندِ ہند، ستم گر، پاگل، رنگیلا راجہ اور ڈھنڈورا شامل ہیں۔ پاکستان میں ان کی آخری فلم استادوں کا استاد (1967) کے علاوہ ایک پنجابی فلم پلپلی صاحب (1965) بھی تھی جس میں انھوں نے ٹائٹل رول نبھایا تھا۔

  • اردو زبان کے صفِ اوّل کے طنز نگار چراغ حسن حسرت کی برسی

    اردو زبان کے صفِ اوّل کے طنز نگار چراغ حسن حسرت کی برسی

    چراغ حسن حسرتؔ کی نثر کے بارے میں شورش کاشمیری لکھتے ہیں، ’’وہ نثر کی ہر صنف پر قادر تھے، سیرت بھی لکھی، افسانے بھی تحریر کیے، تاریخ پر بھی قلم اٹھایا۔ بچّوں کا نصاب بھی لکھا۔‘‘

    26 جون 1955 کو مولانا چراغ حسن حسرت لاہور میں انتقال کر گئے تھے۔ آج اس ممتاز ادیب و شاعر اور جیّد صحافی کی برسی منائی جارہی ہے۔ مزاحیہ مضامین اور فکاہیہ کالم ان کی خاص وجہِ شہرت ہیں۔

    چراغ حسن حسرت 1904 میں کشمیر میں پیدا ہوئے تھے۔ اسکول کے زمانے میں شاعری کی طرف راغب ہوئے، فارسی پر عبور اور عربی جاننے کے ساتھ اردو زبان و بیان پر قدرت رکھتے تھے اور پاکستان ہجرت کرنے کے بعد یہاں اردو اور فارسی کی تدریس سے منسلک ہوگئے۔ اسی زمانے میں عملی صحافت کا سلسلہ شروع ہوگیا اور متعدد اخبارات میں کام کرنے کے ساتھ ادبی جرائد کے لیے لکھنے لگے اور ادارت بھی کی جن میں ’’انسان، زمیندار، شیراز اور شہباز‘‘ شامل ہیں۔ انھیں شملہ اور کلکتہ میں بھی تدریس اور صحافت کے شعبے میں اپنے تجربے اور علم و قابلیت کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا۔

    حسرت نے مختلف قلمی ناموں سے لکھا جن میں ’’کولمبس، کوچہ گرد، اور سند باد جہازی‘‘ مشہور ہیں۔ ان ناموں سے حسرت کی تحریریں ہر خاص و عام میں‌ مقبول ہوئیں اور ان کا طرزِ نگارش اور دل چسپ و شگفتہ انداز ان کی شہرت میں اضافہ کرتا چلا گیا۔

    مولانا چراغ حسن حسرت کی تصانیف اردو ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔ ان کی کتابوں میں کیلے کا چھلکا، پربت کی بیٹی، مردم دیدہ، دو ڈاکٹر اور پنجاب کا جغرافیہ و دیگر شامل ہیں۔

    چراغ حسن حسرتؔ کی نثر مختلف النّوع موضوعات پر مشتمل ہے۔ وہ سنجیدہ، خالص ادبی اور رومانوی مضامین کے ساتھ طنز و مزاح لکھتے تھے۔ اس کے علاوہ خاکہ نویسی، تراجم، تبصرے اور تحقیقی مضامین بھی ان کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔ حسرت کو ان کے فکاہیہ مضامین اور ظرافت آمیز کالموں سے خوب شہرت ملی۔ چراغ حسن حسرتؔ نے لاہور کے روزناموں سے مزاحیہ کالموں کا سلسلہ کم و بیش چودہ پندرہ برس جاری رکھا۔

    انھوں نے زیادہ تر اپنے ماحول اور اردگرد بکھرے ہوئے موضوعات کو اپنے کالموں میں پیش کیا ہے۔ وہ اپنی تحریروں میں زور اور اثر پیدا کرنے کے لیے محاورہ، تشبیہ، استعارہ اور ضربُ الامثال سے خوب کام لیتے تھے۔

    ایک ادیب، ایک صحافی، انشا پرداز اور ایک تاریخ نگار کی حیثیت سے جہاں انھوں نے قارئین کی بڑی تعداد کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا، وہیں‌ وہ علم و ادب کی دنیا اور اپنے قریبی احباب میں اپنی بادہ نوشی اور بعض عادات کی وجہ سے مطعون بھی کیے جاتے تھے۔

    اردو کے نام وَر افسانہ نگار سعادت حسن منٹو بھی چراغ حسن حسرت کے بے تکلّف دوستوں‌ میں‌ شامل تھے، اور ان کا ایک خاکہ لکھا تھا جس سے چند پارے ہم یہاں‌ نقل کررہے ہیں۔

    "مولانا چراغ حسن حسرت جنہیں اپنی اختصار پسندی کی وجہ سے حسرت صاحب کہتا ہوں۔ عجیب و غریب شخصیت کے مالک ہیں۔ آپ پنجابی محاورے کے مطابق دودھ دیتے ہیں مگر مینگنیاں ڈال کر۔ ویسے یہ دودھ پلانے والے جانوروں کی قبیل سے نہیں ہیں حالانکہ کافی بڑے کان رکھتے ہیں۔

    آپ سے میری پہلی ملاقات عرب ہوٹل میں ہوئی۔ جسے اگر فرانس کا ’’لیٹن کوارٹر‘‘ کہا جائے تو بالکل درست ہوگا۔ ان دنوں میں نے نیا نیا لکھنا شروع کیا تھا اور خود کو بزعمِ خویش بہت بڑا ادیب سمجھنے لگا تھا۔ عرب ہوٹل میں تعارف مظفر حسین شمیم نے اُن سے کرایا۔ یہ بھی حسرت صاحب کے مقابلے میں کم عجیب و غریب شخصیت نہیں رکھتے۔ میں بیمار تھا۔ شمیم صاحب کی وساطت سے مجھے ہفتہ وار’’پارس‘‘ میں جس کے مالک کرم چند تھے، ملازمت مل گئی۔ تنخواہ چالیس روپے ماہوار مقرر ہوئی مگر ایک مہینے میں بمشکل دس پندرہ روپے ملتے تھے۔ شمیم صاحب اور میں ان دنوں دوپہر کا کھانا عرب ہوٹل میں کھاتے تھے۔

    ایک دن میں نے اس ہوٹل کے باہر تھڑے پر وہ ٹوکرا دیکھا جس میں بچا کھچا کھانا ڈال دیا جاتا تھا۔ اس کے پاس ایک کتا کھڑا تھا۔ ہڈیوں اور تڑی مڑی روٹیوں کو سونگھتا، مگر کھاتا نہیں تھا۔ مجھے تعجب ہوا کہ یہ سلسلہ کیا ہے۔

    شمیم صاحب نے جب حسرت صاحب سے میرا تعارف کرایا اور ادھر ادھر کی چند باتیں ہوئیں، تو میرے استفسار پر بتایا کہ اس کتّے کی محبت ایک سانڈ سے ہے۔ مجھے بہت حیرت ہوئی لیکن میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ان دو حیوانوں میں دوستی تھی۔ سانڈ ساڑھے بارہ بجے دوپہر کو خراماں خراماں آتا، کتّا دُم ہِلا ہلا کر اس کا استقبال کرتا اور وہ ٹوکرا جس کا میں ذکر کر چکا ہوں، اس کے حوالے کردیتا۔ جب وہ اپنا پیٹ بھر لیتا جو کچھ باقی بچ جاتا اس پر قناعت کرتا۔

    اس دن سے اب تک میری اور حسرت صاحب کی دوستی، اس سانڈ اور کتّے کی دوستی ہے۔ معلوم نہیں حسرت صاحب سانڈ ہیں یا میں کتّا۔ مگر ایک بات ہے کہ ہم میں سے کوئی نہ کوئی سانڈ اور کتا ضرور ہے لیکن ہم میں اکثر لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں جو ان دو حیوانوں میں شاید نہ ہوتی ہوں۔

    حسرت صاحب بڑی پیاری شخصیت کے مالک ہیں۔ میں ان سے عمر میں کافی چھوٹا ہوں لیکن میں انہیں بڑی بڑی مونچھوں والا بچّہ سمجھتا ہوں۔ یہ مونچھیں صلاح الدین احمد صاحب کی مونچھوں سے بہت ملتی جلتی ہیں۔

    حسرت صاحب کہنے کو تو کشمیری ہیں مگر اپنے رنگ اور خدوخال کے اعتبار سے معلوم نہیں کس نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ فربہ اندام اور خاصے کالے ہیں۔ معلوم نہیں کس اعتبار سے کشمیری ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں؟

    ویسے مجھے اتنا معلوم ہے کہ آپ آغا حشر کاشمیری کے ہم جلیس تھے۔ علامہ اقبال سے بھی شرفِ ملاقات حاصل تھا جو کشمیری تھے۔ خاکسار بھی ہیں جس سے ان کی’’سانڈ اور کتے‘‘ کی دوستی ہے لیکن اس کے باوجود اگر یہ ثابت کرنا چاہیں کہ خالص کشمیری ہیں تو کوئی کشمیری نہیں مانے گا۔ حالانکہ انہوں نے کشمیر پر ایک کتاب بھی لکھی ہے۔

    یہ کتاب میں نے پڑھی ہے۔ میں عام طور پر بڑا برخود غلط انسان متصور کیا جاتا ہوں لیکن مجھے ماننا پڑتا ہے اور آپ سب کے سامنے حسرت صاحب بڑی دلفریب اندازِ تحریر کے مختار اور مالک ہیں۔ بڑی سہلِ ممتنع قسم کے فقرے اور جملے لکھتے ہیں۔ پر ان کی ان پیاری تحریروں میں مجھے ایک بات کھٹکتی ہے کہ وہ ہمیشہ استادوں کا طریقۂ تعلیم استعمال کرتے ہیں۔ ان کے بے شمار شاگرد موجود ہیں جو شاید ان کے علم میں نہ ہوں مگر ان کی خواہش ہے کہ وہ ہر بچّے، نوجوان اور بوڑھے پر رعب جمائیں اور اس کا کاندھا تھپکا کر اسے یہ محسوس کرنے پر مجبور کریں کہ وہ ان کا برخوردار ہے۔ مجھے ان کی طبیعت کا یہ رخ سخت ناپسند ہے، اسی وجہ سے میری اور ان کی لڑائی ہوتی رہی ہے۔

    اردو کے صفِ اوّل کے طنز نگار چراغ حسن حسرت لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں‌ آسودۂ خاک ہیں۔

  • لاہور کا مشہور اسٹوڈیو جو "یکے والی” کی کمائی سے بنایا گیا تھا!

    لاہور کا مشہور اسٹوڈیو جو "یکے والی” کی کمائی سے بنایا گیا تھا!

    1957ء میں یکے والی ایک ایسی فلم ثابت ہوئی جس نے بزنس کا ریکارڈ قائم کیا اور اپنی لاگت سے 45 گنا زیادہ کمائی کی۔ اسی فلم کی کمائی سے باری اسٹوڈیو تعمیر کیا گیا تھا جس کا تذکرہ آج پاکستان کی فلمی صنعت کے سنہرے دنوں کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔ یہ فلم ایم جے رانا نے بنائی تھی۔

    ایم جے رانا پاکستان کی فلمی تاریخ کے کام یاب ترین ہدایت کاروں‌ میں سے ایک تھے۔ اردو زبان میں تو انھوں نے صرف پانچ فلمیں‌ ہی بنائی تھیں، لیکن پنجابی زبان میں‌ ان کی کئی فلمیں‌ ان کے فن اور پیشہ ورانہ قابلیت و مہارت کا نمونہ ہیں۔ وہ سماجی موضوعات پر اصلاحی اور سبق آموز فلمیں بنانے کے ماہر تھے۔ ایم جے رانا 1995ء میں‌ انتقال کرگئے تھے۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس نام ور ہدایت کار کا اصل نام محمد جمیل تھا۔ ایم جے رانا نے اپنے آخری دور میں اپنی شاہکار فلم یکے والی کا ری میک تانگے والی کی صورت میں بنایا تھا لیکن یہ فلم مایوس کُن ثابت ہوئی۔ مرحوم ہدایت کار نے فلموں کے بعد لاہور اسٹیج کے لیے مشہور ڈرامہ "شرطیہ مٹھے” کی بھی ہدایات دی تھیں اور اسی ڈرامے نے اسٹیج فن کاروں امان اللہ خان، ببو برال، مستانہ اور سہیل احمد کو لازوال شہرت دی تھی۔

    ایم جے رانا کے فلمی کیرئر کا آغاز فلم مندری (1949) سے ہوا تھا جس میں وہ فلم ڈائریکٹر داؤد چاند کے معاون تھے۔ اس فلم میں انھوں نے اداکاری بھی کی تھی۔ پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی سپر ہٹ اردو فلم سسی (1954) میں بھی وہ اپنے استاد کے معاون تھے۔ 1955ء کی فلم سوہنی ان کی بطور ہدایتکار پہلی فلم تھی لیکن کام یابی اگلے سال بننے والی فلم ماہی منڈا سے ملی تھی جس میں‌ ٹائٹل رول مسرت نذیر نے ادا کیا تھا۔ ایم جے رانا کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ وہ پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی فلم جی دار کے ڈائریکٹر بھی تھے۔

    ایم جے رانا کی فلم جگ بیتی (1968) ایک بامقصد اور اصلاحی فلم تھی جسے بہت پسند کیا تھا اور اسی طرح فلم باؤ جی (1968) میں طبقاتی کشمکش، ذات پات کی تقسیم کو انھوں نے بڑی مہارت سے سلور اسکرین پر پیش کیا تھا۔ ان کی دیگر فلموں میں ماہی منڈا، شیرا، جمالو، باپ کا باپ، من موجی، یار مار، راوی پار، جوانی مستانی، چن ویر، خون دا بدلہ خون، عید دا چن، پیار دی نشانی، ماں دا لال، جانی دشمن اور سرپھرا شامل ہیں۔ 1989ء میں فلم انڈسٹری کے لیے ایم جے رانا کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں خصوصی نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔