Tag: جون وفات

  • ”پیار بھرے دو شرمیلے نین…” خواجہ پرویز کی یاد دلاتے رہیں‌ گے!

    ”پیار بھرے دو شرمیلے نین…” خواجہ پرویز کی یاد دلاتے رہیں‌ گے!

    پاکستان میں فلمی صنعت کے دورِ عروج میں خواجہ پرویز نے کئی بے مثال نغمات لکھے اور ان کے کتنے ہی گیت لازوال ثابت ہوئے۔ جب انڈسٹری پر زوال آیا تو وہ اسٹیج کے لیے اسکرپٹ لکھنے لگے اور فلمی منظر نامے بھی تحریر کیے۔ آج خواجہ پرویز کی برسی ہے۔

    مسرت نذیر کے شادی بیاہ کے گیتوں کی معروف البم کے نغمے بھی خواجہ پرویز نے ہی تحریر کیے تھے۔ استاد نصرت فتح علی خان نے بھی خواجہ پرویز کے کئی گیت گائے جو بے حد مقبول ہوئے۔ ”اکھیاں اڈیک دیاں“ انہی میں سے ایک ہے۔

    فلم انڈسٹری کے صفِ اوّل کے گلوکاروں نے خواجہ پرویز کے گیت گائے ہیں۔ ملکۂ ترنم نور جہاں ، مہدی حسن اور کئی گلوکار اس میں‌ شامل ہیں جو بہت مشہور ہوئے۔ خواجہ پرویز نے نصف صدی ت پاکستانی فلمی صنعت کے لیے بطور نغمہ نگار کام کیا۔

    خواجہ پرویز 20 جون 2011ء کو وفات پاگئے تھے۔ اردو گیتوں کے ساتھ پنجابی زبان میں‌ بھی ان کے تحریر کردہ کئی نغمات مقبول ہوئے۔

    وہ 1932ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد خواجہ پرویز اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور میں گوالمنڈی کے علاقے میں آبسے۔ ان کا اصل نام خواجہ غلام محی الدّین تھا اور پرویز ان کا تخلص۔ فلمی دنیا میں انھیں خواجہ پرویز کے نام سے شہرت اور پذیرائی ملی۔

    خواجہ صاحب نے دیال سنگھ کالج سے گریجویشن کیا تھا۔ یہاں ان کی دوستی اس وقت کے معروف ہدایت کار ولی کے بیٹے سے ہوگئی۔ اسی کے توسط سے خواجہ پرویز کو ہدایت کار ولی نے جانا اور 1955ء میں انھیں اپنے اسٹنٹ کے طور پر ساتھ رکھ لیا۔ یوں خواجہ پرویز کا فلم انڈسٹری میں‌ سفر شروع ہوا۔ انھوں نے معاون ہدایت کار کے طور پر تین فلمیں‌ مکمل کروائیں، لیکن طبیعت شاعری کی طرف مائل تھی اور پھر معروف نغمہ نگار سیف الدین سیف کے ساتھ کام شروع کر دیا۔

    خواجہ پرویز سے ہدایت کار دلجیت مرزا نے اپنی فلم ’رواج‘ کے گیت لکھوائے۔ اس فلم میں مالا کی آواز میں ان کا گیت ’کہتا ہے زمانہ کہیں دل نہ لگانا‘ بہت مقبول ہوا۔ اس کے بعد وہ کام یابی کے جھنڈے گاڑتے چلے گئے۔ ان کا ہر گیت ہٹ ثابت ہوا۔

    فلم سنگ دل میں ان کا نغمہ ’سن لے او جانِ وفا‘ اور اس کے بعد ’تمہی ہو محبوب مرے میں کیوں نہ تمہیں پیار کروں‘ بہت مقبول ہوا۔ فلم آنسو کا گانا ’تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں جیسے صدیاں بیت گئیں‘ نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا اور پھر ’پیار بھرے دو شرمیلے نین‘ نے سرحد پار بھی دلوں میں جگہ پائی اور لبوں پر جاری ہوا۔

    خواجہ پرویز کے بارے میں‌ مشہور ہے کہ وہ باغ و بہار شخصیت کے مالک اور دوسروں کے مددگار اور خیرخواہ تھے۔ انھیں لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • "ماں” سے شہرت پانے والے میکسم گورکی کی کہانی

    "ماں” سے شہرت پانے والے میکسم گورکی کی کہانی

    18 جون 1936ء کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لینے والے میکسم گورکی کو "ماں” نے دنیا بھر میں شہرت عطا کی۔ اس روسی ناول نگار کی اس تخلیق کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔

    الیکسی میکسیمووچ پیشکوف المعروف میکسم گورکی نے 28 مارچ 1868ء کو روس کی ایک ریاست میں جنم لیا۔ اس کے والد کم عمری میں ساتھ چھوڑ گئے تھے اور یتیم گورکی کو معاش کے لیے مشقت کرنا پڑی۔ اس نے چھوٹے موٹے کام کیے اور غربت و افلاس سے لڑتا ہوا زندگی کی گاڑی دھکیلتا رہا۔ ایک مہربان نے تھوڑا بہت پڑھنا لکھنا سکھا دیا اور پھر وہ ادب کی جانب مائل ہوا۔ اس نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ انقلابی نظریات کو اس توانائی سے اپنے فن میں سمویا کہ اس کی شہرت روس کی سرحدوں سے باہر نکل گئی۔ وہ ایک ناول نگار ہی نہیں شاعر، ڈراما نویس اور جیّد صحافی بھی تھا۔ میکسم گوری کے ناول اور اس کی مختصر کہانیاں بہت مقبول ہوئیں۔

    ناول “ماں” 1906ء میں منظر عام پر آیا تھا۔ اس ناول کی کہانی ایک مزدور، اس کی ماں، اس کے چند دوستوں اور چند خواتین کے گرد گھومتی ہے۔ بیٹا انقلابی فکر کا حامل ہے اور گرفتاری کے بعد ماں اپنے بیٹے اور اس کے مقصد یعنی انقلاب کے لیے سختیاں برداشت کرتی ہے، وہ ان پڑھ اور سادہ عورت ہے جو بیٹے کو جیل کے دوران خود بھی ایک انقلابی بن جاتی ہے۔ اس ناول کا دنیا کی بے شمار زبانوں میں ترجمہ جب کہ گورکی کو پانچ مرتبہ ادب کے نوبیل انعام کے لیے بھی نام زد کیا گیا تھا۔

    روس کے اس ادیبِ اعظم نے اپنی آپ بیتی بھی رقم کی جس کا مطالعہ گورکی کے نظریات سے اور اس کے دور میں روس کے سیاسی اور سماجی حالات سے واقف ہونے کا موقع دیتا ہے۔

    عالمی شہرت یافتہ ناول نگار میکسم گورکی نے زندگی کی اڑسٹھ بہاریں دیکھیں اور ہمیشہ روس کے مزدور، پسے ہوئے اور محکوم طبقات کے لیے اپنے قلم کو متحرک رکھا۔

  • بھوپال کی بیدار مغز اور عوام کی خیرخواہ شاہ جہاں بیگم کا تذکرہ

    بھوپال کی بیدار مغز اور عوام کی خیرخواہ شاہ جہاں بیگم کا تذکرہ

    برصغیر کی مشہور ریاست بھوپال کی تیسری والی ایک بہترین منتظم ہی نہیں بلکہ ادب و فنون کی دلدادہ اور قابل و باصلاحیت شخصیات کی قدر دان بھی مشہور تھیں۔

    اٹھارہویں صدی میں بھوپال ہندوستان کی ایک آزاد ریاست تھی جہاں شاہ جہاں بیگم نے 1838ء میں آنکھ کھولی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے جب ہندوستان میں قدم جمائے تو بھوپال کو بھی ایک نوابی ریاست کا درجہ دے دیا گیا۔ شاہ جہاں بیگم 1901ء میں آج ہی کے دن انتقال کر گئی تھیں۔

    بھوپال کی سرزمین پر جنم لینے والی کئی شخصیات نے علم و ادب کے ساتھ فنون کے مختلف شعبہ جات میں کمال دکھایا اور نام پیدا کیا۔ ریاست کی حکم راں ہونے کے ناتے شاہ جہاں بیگم نے بھی علم و فنون کے فروغ کے علاوہ وہاں اصلاحات اور ریاست کی تعمیر و ترقّی کے لیے قابلِ ذکر اور مثالی اقدامات کیے۔

    سلطان بیگم غیر معمولی ذہانت کی حامل اور ایک بیدار مغز حکم راں تھیں۔ تعلیم کے ساتھ انھوں نے گھڑ سواری اور نشانہ بازی سیکھی اور امورِ ریاست میں‌ بھی گہری دل چسپی لی اور بعد میں‌ انتظامی امور کو نہایت خوبی سے چلایا بھی۔

    بیگم بھوپال نے قلعہ اسلام نگر میں آنکھ کھولی تھی۔ ایک حکم راں خاندان کی چشم و چراغ ہونے کے ناتے بہترین تعلیم و تربیت پائی۔ 1844ء میں ان کے والد نواب جہانگیر محمد خان کا انتقال ہوگیا جس کے بعد ریاست کی حکم راں کے طور پر ان کے نام کا اعلان کیا گیا۔ وہ کم عمر تھیں اور انتظام و انصرام ایک عرصہ ان کی والدہ نواب سکندر بیگم کے ہاتھ میں رہا۔ بعد میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھوپال کو نوابی ریاست کا درجہ دے کر اصل اختیار اور وسائل اپنے ہاتھ میں‌ لے لیے تھے۔ اسی زمانے میں بیگم صاحبہ کی والدہ کا انتقال ہوگیا اور تب شاہ جہاں بیگم کی تخت نشینی عمل میں لائی گئی۔

    شاہ جہاں بیگم کو امورِ سلطنت کی تعلیم اور تربیت دی گئی تھی، اور وہ اپنی ولی عہدی کے زمانے ہی سے ریاستی انتظامات کو دیکھتی آرہی تھیں۔ انھوں نے تخت نشینی کے بعد کئی جدید اصلاحات کیں، جن کا ذکر انھوں نے ’تاجُ الااقبال‘ کے نام سے اپنی کتاب تاریخِ بھوپال میں کیا ہے۔ ان میں وضعِ قوانین کے لیے محکمہ قائم کرنا، عدالتی اختیارات کی تقسیم، امن و امانِ عامّہ سے متعلق وسیع انتظامات اور حفظانِ صحّت سے متعلق امور پر توجہ دیتے ہوئے ہر تحصیل میں طبیب مقرر کیا۔ شہر بھوپال میں ایک بڑا شفا خانہ بنوایا۔

    بیگم بھوپال کے امورِ سلطنت اور کاموں کا تذکرہ کئی صفحات پر پھیل سکتا ہے۔ وہ اپنی رعایا کی بڑی خیر خواہ اور ہم درد تھیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس دور میں چیچک کی بیماری پھیلی تو انھوں نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر عوام کو اس کے ٹیکے لگوانے کی ہدایت کی اور اس معاملے میں شفا خانوں سے ہر قسم کا تعاون کیا۔ آج جس طرح کرونا کی ویکسینیشن سے لوگ گھبرا رہے تھے، اسی طرح چیچک سے متعلق ناقص معلومات اور بہت سی غلط باتیں‌ بھوپال کے لوگوں میں پھیلی ہوئی تھیں جنھیں شاہ جہاں بیگم نے مسترد کرتے ہوئے حفاظتی ٹیکے لگانے کی حوصلہ افزائی کی۔

    انھوں نے نہ صرف باقاعدہ چیچک کے ٹیکے لگانے کے لیے ریاست بھر میں‌ انتظامات کروائے بلکہ عوام کو اس کی ترغیب دینے اور ان کا ٹیکے سے متعلق خوف اور خدشات دور کرنے کے لیے اپنی نواسی بلقیس جہاں بیگم کو چیچک کا ٹیکہ لگوایا۔ اس کے علاوہ ریاست میں جن بچّوں کو والدین ٹیکہ لگواتے انھیں انعام دیا جاتا تھا۔

    شاہ جہاں بیگم تعلیم اور صحت کو بہت اہمیت دیتی تھیں۔ وہ رحم دل اور عوام کی فلاح و بہبود کا ہر دم خیال رکھنے والی خاتون تھیں جن کے دور میں لاوارث اور یتیم بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لیے بھی عمارتیں تعمیر ہوئیں جب کہ غریب اور معذور افراد کی مالی مدد کی جاتی تھی اور باقاعدہ وظائف مقرر تھے۔

    دینی اور علمی کاموں میں انھوں‌ نے خوب فراخ دلی دکھائی اور ایک محکمہ بنام مطبع شاہجہانی قائم کروایا جس میں قرآن مجید کی طباعت کی جاتی تھی۔ اسی طرح‌ امورِ مذہبی کا ایک جدید محکمہ قائم کیا گیا۔ کئی لاکھ روپے خرچ کر کے شہر کی اکثر مساجد کو پختہ کروایا۔ شاہ جہاں بیگم نے فن تعمیر کو بھی عروج دیا۔ تاجُ المساجد جو بھوپال کی عظیم ترین جامع مسجد ہے، کی بنیاد اُنہی کے حکم پر رکھی گئی تھی۔

    شاہ جہاں بیگم مصنفہ بھی تھیں۔ ان کی تصانیف میں تہذیبِ نسواں، خزینۃُ اللغات شامل ہیں۔ وہ فارسی زبان میں شاعری بھی کرتی تھیں۔

  • شہزادی نیلوفر کا تذکرہ جنھیں حیدرآباد کا کوہِ نور کہا جاتا تھا

    شہزادی نیلوفر کا تذکرہ جنھیں حیدرآباد کا کوہِ نور کہا جاتا تھا

    شہزادی نیلوفر کی ایک ملازمہ کی موت زچگی کے دوران طبّی سہولیات کی کمی کے سبب ہوئی تھی۔ یہ ان کی پسندیدہ ملازمہ تھی جس کی موت کی خبر سن کر شہزادی کو شدید صدمہ پہنچا تھا۔

    اس افسوس ناک واقعے کے بعد شہزادی نیلوفر نے فیصلہ کیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ زچگی کے دوران سہولیات کی کمی یا پیچیدگی کی صورت میں مناسب اور ضروری سامان کی عدم دست یابی کی وجہ سے کسی بھی حاملہ عورت یا اس کے بچّہ کی زندگی خطرے سے دوچار نہ ہو۔

    شہزادی نیلوفر فرحت بیگم صاحبہ کی والدہ ترکی کے حکم ران خاندان کی فرد تھیں۔ نیلوفر سلطان عبدالمجید خان کی بھانجی اور سلطان مراد خان مرحوم کی پوتی تھیں۔ شہزادی نے 4 جنوری 1916 کو استنبول کے ایک محل میں آنکھ کھولی۔ دو سال کی عمر میں اپنے والد کے سایۂ شفقت سے محروم ہوگئیں۔ اس زمانے میں مرفّہ الحال ریاست حیدرآباد دکن کے سلطان میر عثمان علی خان اسلامی دنیا میں اپنی سخاوت کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔ وہ دنیا کے امیر ترین شخص تھے جس نے مقاماتِ مقدسہ کی تزئین و آرائش، تعمیر و مرمّت کے لیے ذاتی دولت بے دریغ خرچ کی۔ نیلوفر کی شادی میر عثمان علی خان کے صاحب زادے سے ہوئی تھی۔

    نیلوفر نے اپنے سسر اور نظامِ دکن میر عثمان علی خان کو اپنی خادمہ کی وفات کی خبر دی اور یہ بھی بتایا کہ کس طرح زچگی کے دوران عورتوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں اور نامناسب طبّی سہولیات کی وجہ سے دکن میں اموات کی شرح بڑھ رہی ہے، جس پر ان کی خواہش ہے کہ کام کیا جانا چاہیے، اس موقع پر شہزادی نے جب جدید اسپتال قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو حضور نظام نے انھیں اجازت دی اور ہر قسم کے تعاون و امداد کا وعدہ کیا، اسی کوشش کے نتیجے میں شہزادی نیلوفر کے نام سے اسپتال کا قیام 1949 میں ممکن ہوا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ شہزادی نیلوفر خود لاولد تھیں۔

    1931ء میں شہزادی کا عقد شہزادہ والا شان نواب معظم جاہ بہادر سے ہوا تھا اور 21 سال بعد علیحدگی ہوگئی تھی۔ رخصتی کے بعد شہزادی نیلوفر حیدرآباد دکن آئیں اور یہاں‌ خواتین کی ترقی اور بہبود کے لیے کئی کام کیے جن میں عورتوں کی صحّت، علاج معالجہ اور بچّوں کی نگہداشت کے لیے مراکز کا قیام اور عملہ و سہولیات کی فراہمی بھی شامل ہیں۔

    شہزادی نیلوفر 12 جون 1989 کو پیرس میں‌ وفات پاگئی تھیں۔

  • عثمان سیمبین: پس ماندہ سماج کا سب سے روشن ستارہ

    عثمان سیمبین: پس ماندہ سماج کا سب سے روشن ستارہ

    برّاعظم افریقا کے مغرب میں واقع سینیگال سے تعلق رکھنے والے عثمان سیمبین کو دنیا بھر میں‌ ایک ناول نگار اور فلم ساز کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ فلم نویسی اور افسانہ نگاری بھی ان کی وجہ شہرت ہے۔

    وہ فلمی صنعت میں‌ پروڈیوسر، ہدایت کار کے طور پر مصروفِ عمل رہے اور اداکار کے طور پر بھی کام کیا۔ عثمان سیمبین کی کہانیوں کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا، جن میں فرانسیسی اور انگریزی سرفہرست ہیں۔

    عثمان سیمبین ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے مدرسے اور اسکول گئے۔ اسکول کی تعلیم ادھوری رہ گئی اور کچھ عرصہ والد کے ساتھ کام میں ان کا ہاتھ بٹایا۔ ان کے والد پیشے کے لحاظ سے ماہی گیر تھے۔

    1938 میں اپنے آبائی علاقے سے ملک کے دارلحکومت ’’ڈاکار‘‘ آگئے اور وہاں مختلف نوعیت کی ملازمتیں کیں۔ 1944 میں فرانسیسی فوج کی مقامی’’فری فرنچ فورسز‘‘ سے وابستہ ہوئے اور دوسری عالمی جنگ تک اپنے ملک اور دیارِ غیر میں مختلف محاذوں پر برسرپیکار رہے۔ جنگ کے خاتمے پر، وطن واپس آگئے۔

    یہ 1947 کی بات ہے جب ریلوے لائن بچھانے کا ملک گیر منصوبہ شروع ہوا تو عثمان اس کا حصّہ بن گئے۔ یہاں ہونے والے تجربات کی بنیاد پر، انہوں نے اپنا نیم سوانحی ناول ’’گاڈز بٹس آف ووڈ‘‘ لکھا، جسے بہت شہرت ملی۔

    چالیس کی دہائی کے اواخر میں عثمان فرانس چلے گئے، وہاں دورانِ ملازمت ’’فرانسیسی ٹریڈ یونین تحریک‘‘ کا حصہ بنے اور کمیونسٹ پارٹی کے مقامی دھڑے میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے افریقا سے تعلق رکھنے والے معروف انقلابی دانشور’’کلاؤڈ میکے‘‘ اور معروف مارکسسٹ ’’جیکولین رومین‘‘ کو دریافت کیا، ان کی فکر کو قبول کیا اور عملی زندگی میں اسے اپنایا بھی۔ فلم سازی کا شوق ہوا تو روس جاکر فلم سازی کی اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی اور پھر وطن واپس لوٹ آئے۔

    1956 میں عثمان کا فرانسیسی زبان میں لکھا ہوا پہلا ناول’’لی ڈوکرنوئر‘‘ اشاعت پذیر ہوا، اس کے لغوی معنی ایک کالے مزدور کے ہیں۔ عثمان نے فرانس میں بطور افریقی مزدور، جن تعصبات کا سامنا کیا، ان کو بنیاد بنا کر ناول کی کہانی ترتیب دی تھی۔ 1957میں ان کا دوسرا ناول’’اے میرے پیارے ملک اور لوگو‘‘ تھا، جو ایک کسان کی کہانی تھی۔ اس ناول کو عالمی سطح پر زبردست پذیرائی ملی، خاص طور پر کمیونسٹ ممالک سوویت یونین ، چین اور کیوبا کی طرف سے سراہا گیا۔ انہوں نے جہاں اپنی کہانیوں میں فرانسیسی آقاؤں کے تعصبات کو موضوع بنایا، وہیں افریقی اشرافیہ کی زبوں حالی پر بھی مفصّل بات کی۔

    ان کا ایک ناول ’’ژالا۔ Xala‘‘ بھی ہے، جس میں انہوں نے ایسے ہی افریقی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے کردار کو پیش کیا۔ یہ کردار ایک تاجر کا تھا، جس نے تین شادیاں کیں۔ ناول نگار نے اس کی بدعنوانی، اخلاقی گراوٹ اور بشری کمزوریوں کو نہایت خوب صورتی سے کہانی میں‌ پیش کیا ہے۔

    1973 میں یہ ناول فرانسیسی زبان میں چھپا، تین سال بعد اس کا انگریزی میں ترجمہ ہوا۔ اس ناول پر عثمان نے خود ہی فلم بنائی، جس کو 1975 میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ انہوں نے اس فلم کا اسکرپٹ لکھنے کے علاوہ ہدایات بھی دیں۔ فلم میں مقامی اداکاروں اور ہنر مندوں نے کام کیا تھا، کچھ غیر افریقی ہنرمندوں کی خدمات بھی لی گئی تھیں۔ یہ فلم افریقا کے علاوہ، روس اور امریکا میں بھی نمائش پذیر ہوئی۔ سینیگال کی تاریخ میں اس ناول اور فلم کی بے حد اہمیت ہے۔ نوآبادیاتی افریقا کی آزادی کے بعد، سنیما کی تاریخ میں، عثمان ہی وہ سب سے پہلے فلم ساز ہیں، جنہوں نے بین الاقوامی شناخت حاصل کی۔

    عثمان سیمبین نے 4 ناول اور کئی مختصر کہانیاں لکھیں، جن کے متعدد مجموعے شائع ہوئے۔ انہوں نے اپنے فلمی کیرئیر میں 13 فلموں کی ہدایات دیں، 11 فلمیں تحریر کیں، 4 فلموں میں اداکاری بھی کی، جب کہ تین فلموں کے پروڈیوسر رہے۔

    عثمان سیمبین ایک ایسے افریقی ادیب اور فلم ساز ہیں، جنہوں نے ایک پس ماندہ سماج میں رہتے ہوئے ادب اور فن کی بلندی کو چھوا۔

    یکم جنوری 1923ء کو پیدا ہونے والے اس افریقی ناول نگار اور فلم ساز کی زندگی کا سفر 09 جون 2007ء کو تمام ہوا۔

    (عثمان سیمبین پر خرّم سہیل کے مضمون سے خوشہ چینی)

  • چارلس ڈکنز: عہد ساز شخصیت، عظیم ناول نگار

    چارلس ڈکنز: عہد ساز شخصیت، عظیم ناول نگار

    شہرۂ آفاق کہانیوں کے خالق چارلس ڈکنز کو برطانوی معاشرے کا نبّاض بھی کہا جاتا ہے جنھوں نے سماجی برائیوں، اپنے عہد میں نظام کی خامیوں اور مسائل کو اپنی تخلیقات میں اجاگر کرکے فرسودہ نظام کو بدلنے میں‌ اپنا کردار ادا کیا۔ 9 جون 1870ء کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لینے والے چارلس ڈکنز کے ناول اولیور ٹوئسٹ، ڈیوڈ کاپر فیلڈ، اے ٹیل آف ٹو سٹیز کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں۔

    چارلس ڈکنز ایک ناول نگار، صحافی ہی نہیں سماج کا بڑا ناقد اور صاحبِ بصیرت شخص تھا جسے انیسویں صدی کا ایک اہم اور با اثر ادیب کہا جاتا ہے۔ اس نے اپنی نگارشات میں اپنے وکٹورین دور کی مکمل تصویر پیش کی ہے جو بعد میں معاشرتی سطح پر تبدیلی لانے میں مددگار ثابت ہوئی۔

    چارلس ڈکنز نے 7 فروری 1812ء کو انگلینڈ کے جنوبی ساحل پر واقع پورٹس ماؤتھ کے ایک گھر میں آنکھ کھولی۔ وہ اپنے والدین کی آٹھ اولادوں میں‌ سے دوسری اولاد تھی۔ اس کے والد جان ڈکنز بحریہ میں ایک کلرک تھے جب کہ والدہ الزبیتھ بیرو شعبۂ تدریس سے منسلک تھیں۔ 1822ء میں ڈکنز خاندان لندن کے ایک نچلے طبقے کے رہائشی محلّے میں‌ منتقل ہوگیا تھا۔ اس خاندان کے مالی حالات نہایت خراب ہوچکے تھے۔ والد مقروض ہوتے چلے گئے اور پھر مقدمہ ہار کر جیل جانا پڑا۔

    اس واقعے کے بعد 12 سالہ چارلس کو جوتے رنگنے والی فیکٹری میں ملازمت کرنے کی خاطر اسکول چھوڑنا پڑا۔ یوں اسے زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ فیکٹری میں کام کرتے ہوئے جبر اور استحصال بھی برداشت کیا اور یہی دکھ اور مسائل کے ساتھ معاشرتی رویّے چارلس کی تحریروں میں‌ بھی شامل ہوگئے۔

    حالات اچانک بدلے اور دوبارہ تعلیم کا سلسلہ شروع ہوگیا، لیکن پھر قسمت نے مذاق کر ڈالا اور چارلس کو ایک دفتر میں آفس بوائے کی حیثیت سے ملازمت اختیار کرنا پڑی۔ لیکن یہی ملازمت اس کی زندگی کا اہم موڑ ثابت ہوئی، چارلس نے لکھنا شروع کردیا اور خوب نام و مقام بنایا۔

    اس کی نگارشات کا ترجمہ تقریباً ہر زبان میں ہو چکا ہے جن میں‌ اردو بھی شامل ہے۔ 2012ء میں چارلس ڈکنز کی 200 ویں سال گرہ منائی گئی تھی اور اس موقع پر برطانیہ میں شان دار تقاریب منعقد کی گئی تھیں۔

  • ’’پریچنگ آف اسلام‘‘ کے مصنّف تھامس واکر آرنلڈ کا تذکرہ

    ’’پریچنگ آف اسلام‘‘ کے مصنّف تھامس واکر آرنلڈ کا تذکرہ

    برطانوی ماہرِ تعلیم اور مستشرق سَر تھامس واکر آرنلڈ کو ہندوستان اور بالخصوص برطانوی دور کے مسلمانوں میں‌ بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ سر سیّد احمد خان اور دیگر مسلمان اکابرین کے دوستوں میں‌ شامل رہے اور اسلام اور اسلامی ثقافت سے متعلق نہایت مفید مضامین اور کتب تحریر کیں۔

    پروفیسر آرنلڈ نے سر سیّد احمد خان کے اصرار ہی پر نے کتاب ’’پریچنگ آف اسلام‘‘ لکھی تھی جس کا اردو ترجمہ بہت مشہور ہوا۔ وہ شاعرِ مشرق علّامہ محمد اقبال کے استاد بھی تھے۔

    نام وَر مؤرخ اور مشہور سیرت نگار علّامہ شبلی نعمانی نے ایک سفر نامے میں اپنے اسی انگریز معاصر پروفیسر سَر تھامس واکر آرنلڈ سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ رقم کیا ہے۔ یہ بات ہے مئی 1892ء کی جب وہ عدن کے سفر کے دوران سمندری جہاز میں سوار تھے۔وہ لکھتے ہیں۔ "عدن سے چونکہ دل چسپی کے نئے سامان پیدا ہوگئے تھے، اس لیے ہم بڑے لطف سے سفر کر رہے تھے، لیکن دوسرے ہی دن ایک پُر خطر واقعہ پیش آگیا جس نے تھوڑی دیر تک مجھ کو پریشان رکھا۔ 10 مئی کی صبح کو میں سوتے سے اٹھا تو ایک ہم سفر نے کہا کہ جہاز کا انجن ٹوٹ گیا ہے، میں نے دیکھا تو واقعی کپتان اور جہاز کے ملازم گھبرائے پھرتے تھے اور اس کی درستی کی تدبیریں کر رہے تھے، انجن بالکل بیکار ہوگیا تھا اور جہاز آہستہ آہستہ ہوا کے سہارے چل رہا تھا، میں سخت گھبرایا اور نہایت ناگوار خیالات دل میں آنے لگے۔

    اس ضطراب میں اور کیا کر سکتا تھا، دوڑا ہوا مسٹر آرنلڈ کے پاس گیا، وہ اس وقت نہایت اطمینان کے ساتھ کتاب کا مطالعہ کررہے تھے، میں نے ان سے کہا کہ کچھ خبر بھی ہے؟ بولے ہاں، انجن ٹوٹ گیا ہے، میں نے کہا کہ آپ کو کچھ اضطراب نہیں؟ بھلا یہ کتاب دیکھنے کا کیا موقع ہے؟ فرمایا کہ اگر جہاز کو برباد ہی ہونا ہے، تو یہ تھوڑا سا وقت اور بھی قدر کے قابل ہے اور ایسے قابلِ قدر وقت کو رائیگاں کرنا بالکل بے عقلی ہے۔ ان کے استقلال اور جرأت سے مجھ کو بھی اطمینان ہوا، آٹھ گھنٹے کے بعد انجن درست ہوا اور بہ دستور چلنے لگا۔”

    اس ایک واقعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اہلِ علم و دانش مشکل اور کڑے وقت میں کیسے خود کو مضبوط رکھتے ہیں اور یہ کہ ان کے لیے مطالعہ کیا اہمیت رکھتا ہے۔

    پروفیسر آرنلڈ کا سنِ پیدائش 1864ء ہے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد یونانی اور لاطینی ادبِ عالیہ میں آنرز کیا۔ جرمن، اطالوی، فرانسیسی، روسی اور ہسپانوی کے علاوہ عربی، فارسی اور سنسکرت بھی سیکھی۔ 1888ء میں اس انگریز ماہرِ تعلیم نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج، علیگڑھ میں بطور استاد اپنے فرائض‌ انجام دینا شروع کیے۔ 1898ء میں وہ فلسفے کے پروفیسر کے طور پر گورنمنٹ کالج لاہور سے منسلک ہو گئے۔ 1909ء میں انھیں برطانیہ میں ہندوستانی طلبہ کا تعلیمی مشیر مقرر کر دیا گیا۔ 1921ء سے 1930ء تک انھوں نے لندن یونیورسٹی میں مشرقی علوم کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

    1921ء ہی میں برطانوی سرکار نے انھیں‌ ’’سَر‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ ہندوستان کے مسلمان سیاسی اور سماجی راہ نماؤں کے قریب رہنے والے سر آرنلڈ 1930ء میں‌ آج ہی کے دن دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

    علّامہ اقبال سے سر آرنلڈ نے ہمیشہ خصوصی شفقت کا مظاہرہ کیا۔ مشہور ہے کہ پروفیسر آرنلڈ نے ہی علّامہ اقبال کو اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ جانے کا مشورہ دیا تھا اور اس کے لیے ان کی مدد کی تھی۔ ڈاکٹر محمد اقبال بھی اپنے استاد سے بہت محبت کرتے تھے۔ پروفیسر آرنلڈ جب ہندوستان چھوڑ کر انگلستان واپس چلے گئے تو اقبال نے ایک نظم بعنوان ’’نالۂ فراق‘‘ لکھی جو بانگِ درا میں شامل ہے۔

  • اسد بھوپالی کا تذکرہ جن کے لکھے ہوئے فلمی گیت پاک و ہند میں‌ مقبول ہوئے

    اسد بھوپالی کا تذکرہ جن کے لکھے ہوئے فلمی گیت پاک و ہند میں‌ مقبول ہوئے

    ’’میں نے پیار کیا‘‘ 1998ء میں‌ ہندی سنیما کی زینت بنی تھی۔ سلمان خان اور بھاگیا شری کی اس فلم نے باکس آفس پر دھوم مچا دی اور فلم کے لیے اسد بھوپالی کے تخلیق کردہ دو گیتوں کو وہ مقبولیت حاصل ہوئی جس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

    ’’دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ‘‘ اور ’’کبوتر جا جا جا…‘‘ وہ گیت ہیں‌ جو آج بھی ایک نسل کو ان کی نوجوانی کے دنوں‌ کی یاد دلاتے ہیں۔ آج ان گیتوں کے خالق اسد بھوپالی کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 1990ء میں‌ دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    وہ 10 جولائی 1921ء کو بھوپال میں پیدا ہوئے۔ اسد بھوپائی کا اصل نام اسد اللہ خاں تھا۔ انھوں نے فارسی، عربی، اردو اور انگریزی کی رسمی تعلیم حاصل کی اور شاعری کا آغاز کیا تو اسد بھوپالی کے نام سے پہچان بنائی۔

    نوجوانی میں انھوں نے ممبئی جانے کا فیصلہ کیا جہاں وہ فلم انڈسٹری سے وابستگی اختیار کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ 28 برس کے اسد بھوپالی ممبئی پہنچے تو یہ وہ زمانہ تھا جب معروف شاعر خمار بارہ بنکوی، جاں نثار اختر، مجروحؔ سلطان پوری، شکیلؔ بدایونی، حسرتؔ جے پوری اور شیلندر کا نام اور شہرہ تھا، لیکن قسمت نے یاوری کی اور اسد بھوپالی کو اپنی تخلیقی اور فنی صلاحیتوں کو منوانے کا موقع مل گیا۔

    یہ 1949ء کا ذکر ہے جب فضلی برادران فلم’’دنیا‘‘ بنانے کے لیے کام شروع کرچکے تھے۔ مشہور شاعر آرزو لکھنوی نے اس فلم کے دو گیت لکھے اور پھر تقسیمِ ہند کا اعلان ہوگیا تو وہ پاکستان چلے آئے۔ فضلی برادران کو کسی نے اسد بھوپالی سے ملوا دیا اور یوں ممبئی آنے والے اس نوجوان کو پہلی مرتبہ فلم کے لیے نغمات لکھنے کا موقع مل گیا۔ اس فلم کے دونوں ہی گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے اور یوں اسد بھوپالی کی کام یابیوں کا بھی آغاز ہوگیا۔

    1950ء میں فلم ’’آدھی رات‘‘ کے لیے بھی انھیں دو گیت لکھنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد بی آر چوپڑا کی مشہور فلم ’’افسانہ‘‘ کے گیت لکھے۔ یہ فلم اور اس کے گیت دونوں سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ اسد بھوپالی نے اس فلم کے چھے گیت تحریر کیے تھے۔ 1949ء سے اپنی زندگی کے آخری برس تک اسد بھوپالی نے کم و بیش 400 فلمی گیت تخلیق کیے۔

    ’’دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ‘‘ وہ گیت تھا جس پر اسد بھوپالی کو "فلم فیئر ایوارڈ” سے نوازا گیا تھا۔

  • چھے نگار ایوارڈ موسیقار کمال احمد کے کمالِ فن کا اعتراف ہیں!

    چھے نگار ایوارڈ موسیقار کمال احمد کے کمالِ فن کا اعتراف ہیں!

    کمال احمد نے موسیقی کی دنیا میں اپنے کمالِ فن کی بنیاد پر خوب مرتبہ پایا اور پاکستانی فلم انڈسٹری میں اپنی دھنوں کے سبب چھے مرتبہ نگار ایوارڈ سے نوازے گئے۔ آج بھی ان کی موسیقی سے سجے ہوئے کئی گیت کمال احمد کی یاد دلاتے ہیں۔

    آپ نے یہ گیت ضرور سنا ہو گا، جسے معروف مزاحیہ اداکار رنگیلا پر فلمایا گیا تھا، ‘گا مورے منوا گاتا جارے…جانا ہے ہم کا دور۔ اسی طرح مقبول ترین فلمی گیت کس نے توڑا ہے دل حضور کا، کس نے ٹھکرایا تیرا پیار کی موسیقی بھی کمال احمد ہی نے ترتیب دی تھی۔

    پاکستان کے اس نام ور موسیقار نے 1937 کو اترپردیش میں آنکھ کھولی۔ ابتدا ہی سے موسیقی سے شغف تھا اور قسمت نے یاوری کی تو فلم ‘شہنشاہ جہانگیر کے لیے گیتوں کی دھنیں ترتیب دیں۔ بعد کے برسوں میں فلمی دنیا میں ہر طرف ان کا چرچا ہونے لگا۔ یہ سلسلہ کئی لاجواب دھنوں کے ساتھ شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے تک جاری رہا اور ‘دیا اور طوفان’ جیسی کام یاب فلم کے علاوہ انھوں نے رنگیلا، دل اور دنیا، تیرے میرے سپنے، دولت اور دنیا، وعدہ، سلسلہ پیار دا، دلہن ایک رات کی، کندن، عشق عشق، عشق نچاوے گلی گلی، اور ان داتا، آج کا دور جیسی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی۔

    کمال احمد کے گانوں سے کئی گلوکاروں نے شہرت حاصل کی اور پاکستان فلم انڈسٹری میں‌ اپنی جگہ بنانے میں‌ کام یاب ہوئے۔

    فلم نگری کے اس باصلاحیت موسیقار نے 1993 میں آج ہی کے دن اپنی زندگی کا سفر تمام کیا تھا۔ وہ لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ڈاکٹر انور سجّاد: فنون و ادب کی ایک ہمہ جہت شخصیت

    ڈاکٹر انور سجّاد: فنون و ادب کی ایک ہمہ جہت شخصیت

    فنونِ لطیفہ کے دلدادہ ڈاکٹر انور سجّاد صاحبِ مطالعہ اور علم و ادب کے رسیا تھے۔ وہ ادیب، ناول نگار اور ڈرامہ نویس اور ایک ایسے فن کار تھے جس نے مصوّری، اداکاری اور صدا کاری کے ساتھ رقص بھی کیا۔ یہی نہیں‌ تنقید اور افسانہ نگاری کے ساتھ ان کا قلم ایک مترجم کی حیثیت سے بھی رواں رہا اور خوب صورت کتابیں منظرِ عام پر آئیں۔ فن و ادب کی دنیا نے انور سجّاد کو 2019 میں‌ آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے کھو دیا تھا۔

    انور سجّاد ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے۔ انھوں نے لاہور کے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے تعلیم حاصل کی تھی۔ 27 مئی 1935 کو لاہور میں‌ پیدا ہونے والے انور سجّاد نے اپنے زمانے میں مختلف تحریکوں کا زور، سیاست کا شور اور عوام کی حالتِ زار کو دیکھا اور اسی دور میں مزدوروں کے حقوق کی ترجمانی کرنے کے علاوہ ترقی پسند فکر اور نظریات سے بھی متاثر رہے۔

    ریڈیو پاکستان اور ٹیلی وژن کے لیے ان کے تحریر کردہ ڈرامے بھی سامعین اور ناظرین میں بے حد مقبول ہوئے۔ انھوں نے ٹی وی ڈراموں‌ میں‌ اداکاری بھی کی اور ناظرین سے داد پائی۔

    وہ لاہور میں رائیونڈ روڈ کے قریب ایک چھوٹے سے گھر میں اپنی زوجہ کے ساتھ رہائش پزیر تھے۔ ان کے قریبی ساتھی بتاتے ہیں کہ مرحوم اپنے والد کی وفات تک ان کے کلینک میں بیٹھتے تھے، لیکن اس پیشے اور دوا کے نسخے لکھنے میں دل نہیں‌ لگتا تھا، والد کا انتقال ہوا تو کلینک بند کر دیا۔

    حکومتِ پاکستان نے 1989ء میں انھیں تمغہٴ حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔