Tag: جون وفات

  • رودبارِ انگلستان عبور کرنے والے بروجن داس کا تذکرہ

    رودبارِ انگلستان عبور کرنے والے بروجن داس کا تذکرہ

    پاکستان کے مشہور کالم نویس، مصنّف اور ڈراما نگار منو بھائی ایک مرتبہ ڈھاکہ (مشرقی پاکستان) گئے تو ایئر پورٹ پر صحافیوں اور علمی و ادبی شخصیات کے درمیان بروجن داس بھی ان کے استقبال کے لیے موجود تھے اور وہی گاڑی ڈرائیو کر کے منو بھائی کو ڈھاکہ میں ان کی اگلی منزل کی طرف لے گئے تھے۔

    منو بھائی نے اپنے ایک کالم میں اس سفر کی یاد تازہ کرتے ہوئے لکھا تھا، ہم ڈھاکہ ایئرپورٹ سے پریس کلب جانے کے لیے ایک گاڑی میں سوار ہوئے تو میں نے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میری گاڑی بروجن داس چلا رہے ہیں۔

    بروجن داس مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے مشہور تیراک تھے جنھوں نے ملکی سطح پر کئی مقابلوں میں‌ حصّہ لیا اور متعدد ریکارڈ قائم کیے۔

    9 دسمبر 1927ء کو مشرقی بنگال کے ایک گاؤں بکرم پور میں پیدا ہونے والے بروجن داس کو کم عمری ہی میں‌ تیراکی کا شوق ہو گیا تھا۔ ایک وقت آیا جب دریا اور سمندر کی لہروں کا سامنا کرنے والے بروجن داس تند و تیز موجوں کا مقابلہ کرنے لگے۔ تیراکی کا شوق انھیں فری اسٹائل مقابلوں تک لے گیا۔ انھوں نے 1951ء سے 1957ء کے دوران تیراکی کے مقابلوں میں ریکارڈ بنائے اور اس کھیل میں نام پیدا کیا۔

    23 اگست 1958ء کو بروجن داس 14 گھنٹے 57 منٹ میں رودبارِ انگلستان عبور کرکے پہلے ایشیائی تیراک کا اعزاز اپنے نام کرنے میں‌ کام یاب رہے۔ انھوں نے چھے مرتبہ اس رودبار کو عبور کیا۔

    رودبار کسی بڑے دریا، بڑی نہری گزر گاہ یا آبنائے کو کہتے ہیں۔ رودبارِ انگلستان یا انگلش چینل دراصل بحرِ اوقیانوس کا ایک حصّہ ہے جو برطانیہ کو شمالی فرانس سے جدا اور بحیرۂ شمال کو بحرِ اوقیانوس سے جوڑتا ہے۔ یہ 563 کلومیٹر طویل اور زیادہ سے زیادہ 240 کلومیٹر چوڑی رودبار ہے۔

    یہ رودبار تاریخی اعتبار سے بھی اہمیت کی حامل ہے اور کئی جنگوں کی شاہد ہے۔ ان میں قدیم اور دورِ جدید میں مختلف ممالک اور اقوام کے درمیان ہونے والی جنگیں شامل ہیں۔

    پاکستانی تیراک بروجن داس 22 ستمبر 1961ء کو ایک مرتبہ پھر رودبارِ انگلستان میں ریکارڈ بنانے کا عزم لے کر اترے اور اس مرتبہ 10 گھنٹے 35 منٹ میں اس رودبار کو عبور کرلیا اور ایک نیا عالمی ریکارڈ بنایا۔

    23 مارچ 1960 ء کو حکومتِ پاکستان نے اس ماہر تیراک کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ سانحۂ مشرقی پاکستان کے بعد وہ اپنے آبائی وطن میں رہے جہاں 1997ء میں‌ کینسر کی تشخیص کے بعد علاج کی غرض سے وہ بھارت کے شہر کولکتہ چلے گئے تھے تاہم اس کے اگلے سال 1998ء میں آج ہی کے دن بروجن داس کا انتقال ہوگیا۔ ان کے جسدِ خاکی کو بنگلہ دیش منتقل کیا گیا جہاں 3 جون کو ان کی تدفین کردی گئی۔

  • جان لوگی بیئرڈ کا حیران کُن تجربہ جو ایک نہایت اثر انگیز ایجاد کی بنیاد بنا

    جان لوگی بیئرڈ کا حیران کُن تجربہ جو ایک نہایت اثر انگیز ایجاد کی بنیاد بنا

    انیسویں صدی میں اپنی حیرت انگیز ایجاد کے ایک خوش گوار تجربے کے بعد جان لوگی بیئرڈ دنیا بھر میں‌ مشہور ہوگیا۔ اس کی یہ ایجاد آواز کے ساتھ تصویر کو بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا سکتی تھی۔

    یہ سائنسی تجربہ ٹیلی وژن کی ایجاد کا موجب بنا اور یوں اسکاٹ لینڈ کے سائنس دان جان لوگی بیئرڈ (Jhon Logie Baired) اس کے موجد مشہور ہیں۔ وہ 1888ء میں‌ پیدا ہوئے اور 1946ء تک زندہ رہے۔

    اس زمانے میں ریڈیو تو ایجاد ہوچکا تھا، لیکن آواز کے ساتھ تصویر کو بھی ہوا کے دوش پر دور تک پہنچانے کے لیے سائنس دان تجربات کررہے تھے۔ بیئرڈ کو فوٹو گرافی کا شوق تھا اور وہ مختلف تجربات کے علاوہ تصویروں اور بجلی کے تاروں پر بھی تجربات کرچکا تھا۔ ایک روز ریڈیو سنتے ہوئے اس نے ارادہ کیا کہ اسی طرز وہ ہوا کی لہروں کی مدد سے تصویریں بھیج کر رہے گا۔

    بیئرڈ نے اگلے ہی دن کچھ بیٹریاں، بجلی کے تار، پرانی موٹر، اور موم کے علاوہ ضرورت کی تمام اشیا اکھٹی کرلیں اور ایک عرصہ تک تجربات کے بعد وہ ایک پردے پر تصویر دیکھنے میں‌ کام یاب ہوا جو کچھ زیادہ صاف نہ تھی۔ وہ بہت خوش تھا۔ پھر اس نے مزید بیٹریوں کے ساتھ کئی دنوں تک تجربات جاری رکھے جس کے بعد پردے پر ظاہر ہونے والی تصویریں‌ بہت زیادہ صاف تھیں۔ تب، اس نے اپنے اس کارنامے کا اعلان کیا اور اگلے ہی دن 1926ء میں برطانیہ کے تمام اخبارات میں اس کا یہ کارنامہ بیئرڈ کی زندگی کے حالات کے ساتھ شایع ہوا۔

    تین برس بعد بیئرڈ کی اسی ایجاد کی بدولت بی بی سی لندن نے ٹیلی وژن کا پہلا پروگرام پیش کیا۔ تاہم جلد ہی اس ایجاد میں‌ متعدد ایسی تبدیلیاں کی گئیں جس نے اسے مزید بہتر اور شان دار بنا دیا۔

    بیئرڈ کے مکینیکل ٹیلی ویژن کے بعد الیکٹرونک ٹیلیویژن ایجاد ہوا، جس میں چرخی، موٹر اور دوسرے پرزوں کی جگہ کیتھوڈ ٹیوب استعمال کی گئی۔ یہ بلیک اینڈ وائٹ نشریات کا دور تھا۔

    1953ء میں رنگین ٹی وی متعارف کروایا گیا۔ ٹیلیوژن دو الفاظ کا مجموعہ ہے جس میں‌ یونانی زبان کا لفظ ٹیلی جس سے مراد ’’دور یا بعید‘‘ ہے اور وژن انگریزی زبان کا ہے، جس کا مطلب ’’نظر‘‘ ہے۔ آج اگرچہ یہ بڑا سا ڈبّہ اور موٹی اسکرین کے ساتھ چینل بدلنے یا ٹیونگ کرنے والے لیور، اور آواز بڑھانے اور گھٹانے کے بٹنوں کی جگہ دیوار کی اسمارٹ اسکرین اور جدید ٹیکنالوجی والا ریموٹ لے چکا ہے، لیکن بیئرڈ کا نام ہمیشہ اس کے موجد کے طور پر زندہ رہے گا۔

  • دادا بھائی ناؤروجی: عظیم سیاسی اور سماجی راہ نما جن کے لیے برطانوی سیاست دانوں نے تحقیر آمیز الفاظ استعمال کیے

    دادا بھائی ناؤروجی: عظیم سیاسی اور سماجی راہ نما جن کے لیے برطانوی سیاست دانوں نے تحقیر آمیز الفاظ استعمال کیے

    آج دادا بھائی ناؤروجی کا یومِ وفات ہے جنھیں متحدہ ہندوستان میں دور اندیش اور زیرک سیاست داں اور عوام کے خیر خواہ کی حیثیت سے نہایت عزّت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ اوّلین ہندوستانی تھے جس نے اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ تجارت کی آڑ میں‌ برطانیہ لوٹ مار اور ہندوستان کے عوام کا استحصال کر رہا ہے۔

    دادا بھائی ناؤروجی ستمبر 1825ء کو بمبئی کے ایک پارسی گھرانے میں پیدا ہوئے اور اسی شہر میں 30 جون 1917ء کو وفات پائی۔

    ناؤروجی ایک غریب گھرانے کے فرد تھے اور یہی وجہ تھی کہ انھیں مفت ابتدائی تعلیم کے ایک منصوبے سے فائدہ اٹھانا پڑا۔ وہ نیک صفت اور باشعور تو تھے ہی، لیکن مالی تنگی اور مسائل نے انھیں زیادہ حسّاس بنا دیا تھا، انھوں نے اس مفت تعلیم کو خود پر قرض تصوّر کیا اور سوچ لیا کہ آگے چل کر تعلیم سمیت ہر شعبے میں عوامی خدمت کا راستہ اپنائیں گے۔ وہ ایک ایسے ہندوستانی راہ نما تھے جس نے نسل پرستی اور ہر قسم کے امتیاز کی مخالفت کرتے ہوئے سامراجی نظام کو چیلنج کیا۔

    دادا بھائی ناؤروجی چھوٹی عمر ہی سے شعور اور آگاہی کے ساتھ فلاحی مقاصد کے فروغ کے لیے سرگرم رہے۔ 1840ء کی دہائی کے آخر میں انھوں نے لڑکیوں کے لیے اسکول کھولے تو ہندوستان کا قدامت پسند طبقہ ان کے خلاف ہوگیا، لیکن انھوں نے اس کی پروا نہ کی۔ ان کی اسی ثابت قدمی اور خلوص کا نتیجہ تھا کہ بڑی تعداد میں طالبات اسکول آنے لگیں۔

    ناؤروجی کا شمار ان مثالی ہندوستانیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اس زمانے میں صنفی مساوات پر بات کی اور کہا کہ دنیا میں عورت کو بھی مردوں کی طرح تمام حقوق حاصل ہیں اور وہ ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کرنے کا حق رکھتی ہیں۔

    1901ء میں دادا بھائی ناؤروجی کی کتاب Poverty and Un-British Rule in India شایع ہوئی جس نے برطانوی سیاست دانوں اور افسر شاہی کو گویا مشتعل کردیا، انھوں نے اس کتاب میں تفصیلی وضاحت دی کہ نوآبادیاتی نظام میں کیسے ہندوستان کی دولت کو برطانیہ منتقل کیا جارہا ہے جب کہ ہندوستان میں غربت پنپ رہی ہے۔

    1855ء میں ناؤروجی پہلی مرتبہ برطانیہ گئے اور ان کی دولت اور خوش حالی دیکھنے کے بعد ہندوستان کے حالات اور عوام کی کس مپرسی کے اسباب جاننے کی کوشش کی اور اس کے لیے معاشی جائزہ اور مالی تجزیہ پر کام شروع کیا۔ انھوں نے بتایا کہ برطانیہ ہندوستانیوں سے مخلص نہیں اور انھیں قحط کے عفریت اور دیگر مسائل کے ساتھ غربت کی چکّی میں‌ جھونک رہا ہے جس پر برطانیہ کی جانب سے انھیں‌ باغی اور سرکش کہہ کر رد کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن ان کی یہ بات خاص و عام تک پہنچ چکی تھی۔

    ان کے خیالات نے مغرب کے باشعور طبقے، ترقی پسند مکتبہ فکر سمیت یورپ کے اشتراکیت پسندوں کو متاثر کیا۔ انھوں نے محنت کش طبقے کا ساتھ دیا، تعلیم اور دیگر شعبوں سمیت انتخابات میں عورتوں‌ کے حقِ رائے دہندگی کے لیے آواز اٹھائی اور ہندوستان میں فوری طور پر مثالی اور عوام دوست اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا جس پر انھیں سنجیدہ طبقات کی حمایت حاصل ہوگئی۔

    یہ ان کا گویا وہ جرم تھا جس پر برطانوی سیاست دانوں نے ان کے لیے تحقیر آمیز الفاظ استعمال کیے۔ لیکن اس مخالفت اور پروپیگنڈے کے باوجود وہ دن آیا جب 1892ء میں وہ لندن میں پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے اور ایک موقع پر دادا بھائی ناؤروجی نے ایوان میں اپنا نظریہ اور مؤقف پیش کیا۔ انھوں نے کہاکہ برطانوی طرزِ حکم رانی سفاکانہ ہے جس میں‌ ان کے ہم وطنوں کا استحصال اور انھیں‌ بنیادی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے، اس کے بعد ناؤروجی 1895ء میں دوبارہ انتخابی میدان میں‌ اترے، مگر انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم اس وقت تک ان کی فکر اور آواز برطانیہ سمیت دنیا کے دیگر ممالک تک پہنچ چکی تھی جس کا بہت فائدہ ہوا۔ وہ پہلے ایشیائی تھے جو رکنِ پارلیمان منتخب ہوئے۔

    ناؤروجی ایک ایسے راہ نما تھے جس نے اپنے سیاسی اور سماجی خدمت کے سفر میں‌ کئی بار نامساعد حالات، اپنوں کی مخالفت اور سخت رویّے کا بھی سامنا کیا، لیکن کسی بھی موقع پر گھبرا کر اپنا راستہ نہیں بدلا اور خود کو رجائیت پسند اور باہمّت ثابت کیا۔

  • ماہرِ علومِ اسلامیہ و شرقیہ فؤاد سزگین کا یومِ وفات

    ماہرِ علومِ اسلامیہ و شرقیہ فؤاد سزگین کا یومِ وفات

    پروفیسر فؤاد سزگین (Fuat Sezgin) کو دنیا ایک ایسے محقق، مؤرخ اور ماہرِ‌ علومِ اسلامی کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جس کا خصوصی موضوع مسلم عہدِ وسطیٰ رہا۔پروفیسر فؤاد سزگین 30 جون 2018ء کو وفات پاگئے تھے۔

    ترکی کے شہر استنبول میں وفات پانے والے پروفیسر فؤاد سزگین نے زندگی کی 94 بہاریں دیکھیں اور آخر وقت تک علمی و تحقیقی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ انھیں عصرِ حاضر کا ایک اہم اسلامی اسکالر مانا جاتا ہے جن کا سب سے اہم ترین کارنامہ Geschichte des Arabischen Shrifttums (تاریخِ علومِ عربیہ و اسلامیہ) ہے۔

    فؤاد سزگین 1924ء میں ترکی کے ایک شہر میں پیدا ہوئے اور ثانوی تعلیم کی تکمیل کے بعد استنبول منتقل ہوگئے جہاں جامعۂ استنبول میں معروف جرمن مستشرق ہیلمٹ رٹر (Hellmut Ritter) کے زیرِاثر ادبیات اور علومِ اسلامیہ و شرقیہ کی تحصیل پر مائل ہوئے۔ 1951ء میں ادبیات میں گریجویشن کے بعد 1954ء میں عربی ادبیات میں اپنے مقالے پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

    ڈاکٹریٹ کے بعد استنبول یونیورسٹی کے کلیۂ ادبیات میں تدریس سے منسلک ہوگئے۔ 1961ء میں ترکی میں فوجی بغاوت کے بعد جرمنی جانے پر مجبور ہو گئے جہاں 1965ء میں فرینکفرٹ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی اور اسی جامعہ میں پروفیسر مقرر ہوگئے۔ جرمنی میں قیام کے دوران ہی شادی کرلی، ان کی اکلوتی بیٹی اسی جرمن خاتون کے بطن سے پیدا ہوئی۔

    فؤاد سزگین کی شاہ کار تصنیف تاریخِ علومِ عربیہ و اسلامیہ دراصل جرمن محقّق، کارل بروکلمان کی اسی نام سے لکھی گئی کتاب کی تکمیل ہے۔ انھوں نے اس کتاب پر کام کا آغاز 1947ء میں کیا تھا جس کی متعدد جلدیں‌ شایع ہوئیں، وفات کے وقت پروفیسر سزگین اس کی اٹھارہویں جلد پر کام کررہے تھے۔

    یہ ان کی تصنیف اور مدّون کردہ وہ کتاب ہے جو اسلامی علمی و تہذیبی تاریخ پر عظیم سرمایہ ہے، جس میں عربی زبان و ادب، قرآنِ پاک، تفسیر، حدیث، تاریخ، فقہ، علمِ کلام، طب، علمِ حیوان، کیمیا، زراعت، نباتات، ریاضیات، علمِ فلک و نجوم، نقشے اور عربی مخطوطات کا مطالعہ اور ان پر علمی مواد شامل ہے۔

    پروفیسر فؤاد سزگین عربی، انگریزی، جرمن کے ساتھ عبرانی، سریانی اور لاطینی زبانیں جانتے تھے۔

    دینی اور سائنسی علوم و فنون کی تاریخ پروفیسر فؤاد سزگین کی تحقیق کا محور و مرکز رہا۔ انھوں نے عرب اسلامی ادوار کے سائنسی آلات، اوزار اور نقشوں کی نقلیں بھی تیار کیں جو فرینکفرٹ اور استنبول کے عجائب گھر میں محفوظ ہیں۔ فؤاد سزگین نے احادیث پر غیر معمولی تحقیقی کام کیا، جس میں صحیح بخاری کے تحریری مآخذ کی نشان دہی ان کا عظیم کارنامہ ہے۔

    عالمِ اسلام کے اس عظیم اسکالر اور دانش ور کو ان کی علمی و تحقیقی کاوشوں پر متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں 1978ء میں کنگ فیصل انٹرنیشنل پرائز اور آرڈر آف میرٹ آف فیڈرل ریپبلک آف جرمنی شامل ہیں۔

  • یومِ وفات: نور محمد چارلی ہندوستانی فلم انڈسٹری کے پہلے مزاحیہ اداکار تھے جنھیں ‘ہیرو’ بنایا گیا

    یومِ وفات: نور محمد چارلی ہندوستانی فلم انڈسٹری کے پہلے مزاحیہ اداکار تھے جنھیں ‘ہیرو’ بنایا گیا

    نور محمد چارلی برصغیر پاک و ہند کی فلمی صنعت کے معروف مزاحیہ فن کار تھے جنھیں گزشتہ صدی میں 30 اور 40 کی دہائی میں‌ خاصی مقبولیت ملی۔ وہ 30 جون 1983ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    نور محمد چارلی کو ہندوستانی فلم نگری کا اوّلین مزاحیہ اداکار بھی کہا جاتا ہے جسے ‘ہیرو’ بننے اور فلموں میں مرکزی کردار نبھانے کا موقع ملا۔ کہا جاتا ہے کہ چارلی پہلے مزاحیہ اداکار تھے جن پر ایک گیت بھی فلمایا گیا اور خود ان کی آواز میں چند فلموں کے لیے گانے بھی ریکارڈ کیے گئے۔

    نور محمد چارلی 7 جنوری 1911ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر گجرات کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ وہ خاموش فلموں کا دور تھا جب نور محمد نے ایک فلم ساز ادارے سے وابستہ ہوکر اداکاری کا آغاز کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہاں چلے آئے اور فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔ تقسیمِ ہند سے قبل ان کی مشہور فلموں میں پاک دامن، رقاصہ، زرینہ، پریمی پاگل، فرزندِ ہند، ستم گر، پاگل، رنگیلا راجہ اور ڈھنڈورا شامل تھیں۔

    اس دور میں شائقین پردے پر رنگوں اور آواز کے بغیر کہانی کے مطابق فن کاروں کو اپنا کردار نبھاتا دیکھتے اور یہی ان کی سب سے بڑی تفریح تھی اور ‌آرٹسٹ اور فن کار اپنے چہرے کے تاثرات اور حرکات و سکنات سے شائقین کو محظوظ کرتے جو نہایت مشکل کام تھا۔ اس دور میں کسی فن کار کا ستائش اور مقبولیت حاصل کرنا اس کے کمالِ فن سے مشروط تھا۔ نور محمد چارلی نے اپنی فن کارانہ صلاحیتوں اور محنت سے یہ مرحلہ طے کیا۔ انھیں تقسیم سے قبل اپنے ہم عصر مزاحیہ فن کاروں کی نسبت زیادہ شہرت اور مقبولیت ملی۔ وہ مشہورِ زمانہ کامیڈین چارلی چپلن کے بڑے مداح تھے اور اس کے بہروپ میں اکثر کردارو‌ں میں رنگ بھرتے نظر آئے۔

    چارلی کے فلمی سفر کا آغاز 1928ء میں ہوا تھا۔ اس زمانے کی ایک غیر ناطق فلم اپ ٹو ڈیٹ میں نور محمد نے کام کیا۔ ‘دی انڈین چارلی’ 1933ء کی وہ ناطق فلم تھی جس نے انھیں‌ ٹائٹل رول کی نسبت نور محمد سے نور محمد چارلی مشہور کردیا اور ‘چارلی’ کا لاحقہ ہمیشہ کے لیے ان کے نام کا حصّہ بن گیا۔

    پاکستان میں ان کی پہلی فلم مندری تھی۔ ان کی مشہور فلموں میں پلپلی صاحب، عمر ماروی، پرائی زمین، مس 56، استادوں کے استاد، اکیلی اور ستاروں کی دنیا شامل ہیں۔

    نور محمد چارلی نے اردو کے ساتھ پنجابی اور تین سندھی زبان میں‌ بننے والی فلموں میں بھی کام کیا، لیکن چند ابتدائی کام یابیوں کے بعد وہ شائقین کی توجہ حاصل نہ کرسکے۔ فلم نگری میں ناکامیوں سے گھبرا کر انھوں نے ہندوستان جانے کا فیصلہ کیا، مگر وہاں بھی مطمئن نہ ہوئے اور پاکستان لوٹ آئے جہاں بعد میں چند ہی فلموں میں کام حاصل کرسکے۔

    نور محمد چارلی کے صاحبزادے لطیف چارلی اور بہو معصومہ لطیف بھی پاکستان ٹیلی وژن کے ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھا چکے ہیں۔

  • کیتھرین ہیپبرن: ہالی وڈ اداکارہ جسے ‘آئیکون’ کا درجہ حاصل تھا

    کیتھرین ہیپبرن: ہالی وڈ اداکارہ جسے ‘آئیکون’ کا درجہ حاصل تھا

    ہالی وڈ، فیشن اور اسٹائل کی دنیا پر ایک عرصے تک راج کرنے والی اداکارہ کیتھرین ہیپبرن امریکی معاشرے اور ثقافت میں ایک بااثر خاتون کی حیثیت سے بھی شہرت رکھتی ہیں۔

    29 جون 2003ء کو ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہوجانے والی ہیپبرن کو غیر روایتی انداز کی حامل آزاد اور خود مختار خاتون کہا جاتا ہے جس نے اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کی۔

    کیتھرین ہیپبرن کو ہالی وڈ میں 66 سالہ کیریئر کے دوران کئی ایوارڈز سے نوازا گیا جن میں آسکر بھی شامل ہے۔ ہالی وڈ کی اس اداکارہ نے 4 آسکر ایوارڈ اپنے نام کیے اور فلم نگری کے اس معتبر ترین ایوارڈ کے لیے 12 مرتبہ نام زد کی گئی۔
    آسکر کے علاوہ فلمی صنعت کے متعدد ایوارڈ حاصل کرنے والی اس اداکارہ نے فیشن اور اسٹائل کی دنیا سے بھی اعزازات سمیٹے۔

    ہیپبرن خوب صورت اور سحر انگیز شخصیت کی مالک تھی جس نے فیشن اور اپنے منفرد انداز کے سبب بھی شہرت حاصل کی۔ اس کا نام بیسویں صدی عیسوی کی ان خواتین کی فہرست میں‌ شامل رہا ہے جنھوں‌ نے اپنے فن اور کارناموں کے سبب دنیا کی معاشرت اور امریکا کی ثقافت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ یہ فہرست شوبزنس اور فیشن انڈسٹری سے متعلق اپنے وقت کے متعدد مشہور رسائل اور معتبر جرائد نے شایع کی تھی۔

    امریکی ثقافت میں بے حد پذیرائی کے سبب اسے ایک ‘آئیکون’ کا درجہ حاصل ہوگیا جب کہ 1999ء میں امریکی فلم انسٹیٹیوٹ نے ہیپبرن کو عظیم اداکارہ قرار دیا تھا۔

    کیتھرین ہیپبرن کو یہ یقین تھا کہ موت کے بعد اسے ضرور یاد رکھا جائے گا۔ اس نے کئی مواقع پر اس بات کا اظہار بھی کیا۔

    کیتھرین ہیپبرن کا تعلق امریکا کے ایک امیر اور خوش حال گھرانے سے تھا۔ وہ 12 مئی 1907ء کو پیدا ہوئی۔ والد مشہور سرجن تھے جب کہ والدہ کو امریکا میں انسانی حقوق کی علم بردار اور سماجی کارکن کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا۔

    ہیپبرن اپنے والدین کی چھٹی اولاد تھی اور اس کی پرورش ایک ایسے ماحول میں ہوئی تھی جہاں بولنے اور سوال کرنے کی آزادی تھی اور صلاحیتوں کا اظہار کرنے پر بچّوں حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ اس ماحول کی پروردہ ہیپبرن بھی پُراعتماد اور باہمّت تھی۔

    گریجویشن کے بعد اسے اسٹیج کی دنیا میں قدم رکھنے کا موقع ملا اور یوں اس کے شوبز کیریئر کا آغاز ہوا۔ نیو یارک کے مشہور براڈوے تھیٹر سے منسلک رہتے ہوئے اس نے متعدد ڈراموں میں چھوٹے بڑے کردار نبھائے اور پہچان بناتی چلی گئی۔ اس نے 1928ء میں شادی کی تھی لیکن چند سال بعد یہ تعلق ختم کردیا۔

    کیتھرین نے اپنی اداکاری سنیما کے شائقین کو ہی نہیں ناقدین کو بھی متاثر کیا۔ اس کی پہلی فلم 1932ء میں پردے پر پیش کی گئی۔ اداکاری کے ابتدائی ایّام میں اس نے حقوقِ نسواں کی علم بردار عورت کے مختلف کردار نبھائے اور پھر ہالی وڈ کی فلموں میں مختلف کردار قبول کرکے خود کو منوانے میں کام یاب رہی۔ اداکارہ نے جہاں فیچر فلموں میں‌ اپنی اداکاری سے شائقین کے دل جیتے، وہیں‌ اسٹیج اور ٹیلی ویژن پر کام کر کے بھی خود کو منوایا۔

    کیتھرین ہیپبرن کی چند مشہور فلموں میں مارننگ گلوری، فلاڈلفیا اسٹوری، دی افریقن کوئین، لٹل وومن، ہالی ڈے، وومن آف دی ایئر شامل ہیں۔ فلاڈلفیا اسٹوری کو ہالی وڈ کی کلاسیکی فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔

    ہیپبرن نے 96 سال کی عمر میں‌ زندگی سے اپنا ناتا توڑا تھا۔

  • یومِ وفات: فارسی زبان و ادب کے ممتاز عالم وزیرُ الحسن عابدی غالب شناس بھی تھے

    یومِ وفات: فارسی زبان و ادب کے ممتاز عالم وزیرُ الحسن عابدی غالب شناس بھی تھے

    29 جون 1979ء کو فارسی زبان و ادب کے ممتاز عالم، محقق اور مترجم وزیرُ الحسن عابدی وفات پاگئے تھے۔ انھیں غالب شناس بھی تسلیم کیا جاتا ہے جنھوں نے اردو ادب کو اپنی علمی اور تحقیقی تصانیف اور تراجم سے مالا مال کیا۔

    وزیرُ الحسن عابدی یکم اگست 1913ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر بجنور کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم بجنور ہی سے حاصل کی اور بی اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد اینگلو عربک سوسائٹی دہلی کے قائم کردہ اسکول میں فارسی کے استاد مقرر ہوگئے۔ بعد میں دہلی یونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور اینگلو عربک کالج میں فارسی کے استاد مقرّر ہوئے۔

    تقسیمِ ہند سے قبل وظیفہ پر اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے تہران یونیورسٹی چلے گئے جہاں پانچ سال زیرِ تعلیم رہے، لیکن یونیورسٹی اورینٹل کالج کے شعبہ فارسی سے پیش کش پر واپس آئے اور جامعہ میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر مصروف ہوگئے اور اسی نشست سے ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد شعبہ تاریخِ ادبیات مسلمانانِ پاکستان و ہند سے منسلک ہو گئے۔

    وزیر الحسن عابدی فارسی زبان و ادبیات کے علاوہ الٰہیات، تاریخ، فلسفہ، نفسیات کا علم بھی رکھتے تھے۔ انھوں نے غالب کی دو نایاب کتابیں دریافت کرکے مع مفصل حواشی و تعلیقات شایع کیں۔ اس کے علاوہ غالب کی فارسی کتابوں کو بڑی محنت سے مرتب کیا۔ ان کی چند اہم اور یادگار تصانیف اور تالیفات میں افاداتِ غالب، یادداشت ہائے مولوی محمد شفیع، اقبال کے شعری مآخذ مثنوی رومی میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے کئی علمی و تحقیقی مضامین اور مقالات بھی مختلف رسائل و جرائد میں شایع ہوئے۔

    ڈاکٹر وزیرُ الحسن عابدی کو میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • کلاسیکی رقّاص مہاراج غلام حسین کتھک کی برسی

    کلاسیکی رقّاص مہاراج غلام حسین کتھک کی برسی

    فنونِ لطیفہ کی مختلف اصناف میں جہاں‌ موسیقی، سُر تال، راگ راگنیاں اور گلوکاری نمایاں ہیں، وہیں رقص بھی انسانی جذبات اور احساسات کے اظہار کی ایک دل کش شکل ہے جسے اعضا کی شاعری بھی کہا جاتا ہے۔

    رقص، آرٹ کی وہ قدیم شکل ہے جسے دنیا کی ہر تہذیب نے اپنایا اور اسے فروغ دیا جس سے اس کی رنگارنگی اور ثقافتی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستان میں صدیوں سے رائج رقص کی مختلف شکلوں کو وہ باکمال فن کار نصیب ہوئے جنھوں نے اس فن کو نیا آہنگ، انداز اور قرینہ عطا کیا اور اسے نکھارا۔ پاکستان میں کلاسیکی رقص کے حوالے سے غلام حسین کتھک ایک ممتاز اور نمایاں نام ہے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    وہ 29 جون 1998ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں‌ مہاراج غلام حسین کتھک کے نام سے پکارا اور پہچانا جاتا ہے جنھوں نے دنیا بھر میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور رقص کی باریکیوں اور نزاکتوں کو سمجھنے والوں اور شائقین سے داد وصول کی۔

    مہاراج غلام حسین کتھک 4 مارچ 1899ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد علم و ادب اور آرٹ میں نام وَر رابندر ناتھ ٹیگور کے احباب میں سے ایک تھے جن کے مشورے پر اپنے بیٹے کو مصوّری اور اداکاری سیکھنے پر آمادہ کیا اور بعد میں کلاسیکی رقص کی تربیت دلوائی۔ غلام حسین نے لکھنؤ کتھک اسکول کے بانی اچھن مہاراج سے اس فن کی تربیت لی۔

    تقسیم کے بعد 1950ء میں مہاراج غلام حسین کتھک ہجرت کرکے پاکستان آگئے جہاں انھوں نے پہلے کراچی اور پھر لاہور میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ شائقین کو کلاسیکی رقص کی تربیت دینا شروع کی۔ پاکستان میں ان کے کئی شاگردوں نے اس فن میں‌ نام کمایا اور مقام بنایا۔ ان کے معروف شاگردوں میں ریحانہ صدیقی، ناہید صدیقی، نگہت چوہدری، جہاں آرا اخلاق شامل ہیں۔

    مہاراج غلام حسین کتھک نے مشہور فلم سرگم میں بھی کام کیا تھا۔ انھوں نے اس فلم کے بہترین معاون اداکار کا نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیا تھا جب کہ حکومتِ پاکستان نے رقص کے فن میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا۔

    مہاراج غلام حسین میانی صاحب کے قبرستان میں‌ ابدی نیند سو رہے ہیں۔

  • یومِ وفات: لئیق اختر کی فلم ”صاعقہ” نے 9 نگار ایوارڈ اپنے نام کیے تھے

    یومِ وفات: لئیق اختر کی فلم ”صاعقہ” نے 9 نگار ایوارڈ اپنے نام کیے تھے

    پاکستان کے ممتاز فلمی ہدایت کار لئیق اختر 28 جون 1990ء کو وفات پا گئے تھے۔ بہ طور ہدایت کار ان کی پہلی فلم صاعقہ تھی جسے نو مختلف زمروں میں نگار ایوارڈز سے نوازا گیا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد ملک میں فلمیں بننے کا سلسلہ شروع ہوا تو لاہور کے بعد کراچی اور مشرقی پاکستان کا شہر ڈھاکا فلمی صنعت کا مرکز تھے اور اس زمانے میں‌ فلم سازوں نے عوام کو تفریح کے ساتھ معاشرتی موضوعات پر نہایت شان دار فلمیں دیں‌ جنھیں لئیق اختر جیسے ہدایت کاروں کی بدولت کام یابی ملی۔

    لئیق اختر کا تعلق دہلی سے تھا جہاں انھوں نے 1935ء میں آنکھ کھولی۔ تقسیم کے بعد پاکستان ہجرت کی اور یہاں فلم کنواری بیوہ کے لیے نجم نقوی کے ساتھ معاون ہدایت کار کے طور پر کام کیا۔ اس فلم سے انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور بعد میں فرض، ملاقات، مستانی محبوبہ، جان کی بازی، نورین، جانِ من، موت کے سوداگر، ایثار، خلش اور زندگی یا موت جیسی فلمیں‌ بنائیں اور شائقینِ سنیما نے انھیں‌ بہت پسند کیا۔

  • مائیکل جیکسن اور پاپ میوزک گویا ایک ہی بات تھی!

    مائیکل جیکسن اور پاپ میوزک گویا ایک ہی بات تھی!

    وہ ایک ساحر تھا، دلوں کو مسخّر کرنا جانتا تھا۔ دنیا اس کی آواز کے طلسم، رقص اور اس کی اسٹیج پرفارمنس کے سحر میں‌ گرفتار رہی۔ اس کی موت کی خبر آئی تو لاکھوں پرستاروں کی آنکھیں نم ہوگئیں۔

    25 جون 2009ء کو "کنگ آف پاپ” مائیکل جیکسن نے دنیا میں آخری سانس لی اور اس کے ساتھ ہی پاپ میوزک کا ایک درخشاں باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔

    مائیکل جیکسن ہمہ جہت اور تخلیقی انفرادیت کا حامل فن کار تھا جس نے گلوکار اور میوزک پروڈیوسر کی حیثیت سے شہرت اور مقبولیت کے ہفت آسمان طے کیے۔

    اپنے زمانے میں کنسرٹ کے تصوّر کو یک سَر بدل کر رکھ دینے والے مائیکل جیکسن نے زندگی میں کئی نشیب و فراز دیکھے۔ اس کے اوراقِ زیست بتاتے ہیں‌ کہ وہ کئی بار ٹوٹا، بکھرا اور ہر بار ہمّت کر کے اسٹیج پر پہنچا جہاں اس نے برقی قمقموں اور محفل کی رنگا رنگی میں خود کو گم کرلیا اور یوں اپنی زندگی کی تلخیوں‌، محرومیوں اور کرب کو کم کرنے کی کوشش کی۔

    اپنی بے مثال گائیکی اور رقص کی غیر معمولی صلاحیت کے علاوہ مائیکل جیکسن کی پُراسرار شخصیت اور اس کا طرزِ زندگی بھی دنیا بھر میں‌ مشہور ہے۔

    1982ء میں ’تھرلر‘ نامی البم نے مائیکل جیکسن کو دنیا میں متعارف کروایا اور یہ تعارف ایسا زبردست تھا کہ وہ راتوں رات پاپ اسٹار بن گیا۔ اس البم کی 41 ملین سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئیں جو ایک ریکارڈ ہے۔

    مائیکل جیکسن 19 اگست 1958 کو امریکا میں پیدا ہوا۔ بچپن ہی سے اسے موسیقی سے شغف ہوگیا تھا اور وہ اپنے چار بڑے بھائیوں کے ساتھ جیکسن فائیو نامی میوزک بینڈ کے ساتھ پرفارم کرنے لگا اور بعد میں‌ اپنا البم مارکیٹ میں‌ پیش کیا۔

    ‘تھرلر‘ سے پہلے اس گلوکار کا ایک سولو البم ’آف دا وال‘ بھی منظرِ عام پر آچکا تھا جو بہت مقبول ہوا، لیکن اس کی وجہِ شہرت ’تھرلر‘ بنا۔ اس البم کے بعد ’بیڈ‘ سامنے آیا جس کی بیس ملین کاپیاں فروخت ہوئیں۔ پھر ’ڈینجرس‘ ریلیز ہوا جسے بے حد پزیرائی حاصل ہوئی۔

    مائیکل نے نوّے کی دہائی میں ایک لڑکے سے جنسی زیادتی کے الزام کا سامنا کیا اور موت سے کچھ عرصہ قبل اس پر بچّوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا ایک اور مقدمہ بھی بنا تھا جس میں وہ بری کردیا گیا۔ مائیکل جیکسن نے متعدد بار چہرے کی پلاسٹک سرجری کروائی جس کا بہت چرچا ہوا۔

    1994ء میں مائیکل جیکسن نے ماضی کے مشہور پاپ اسٹار ایلوس پریسلی کی بیٹی لیسا پریسلی سے شادی کی جو صرف دو برس قائم رہ سکی۔

    چند برسوں کے دوران مائیکل جیکسن کو تنازعات اور مالی مشکلات نے گھیر لیا تھا۔

    25 جون کو شہرہ آفاق گلوکار کو سانس لینے میں دشواری کی شکایت پر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں اس نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔