Tag: جون وفات

  • یومِ وفات: صفی لکھنوی کلاسیکی دور کے ممتاز اور مقبول شاعر تھے

    یومِ وفات: صفی لکھنوی کلاسیکی دور کے ممتاز اور مقبول شاعر تھے

    لکھنؤ کے دبستانِ شاعری میں صفی لکھنوی کا نام ان کے کلام کی شیرینی، تنوع، لطافت، شگفتگی اور سادگی کے سبب نمایاں‌ ہے اور ان کی شاعری لکھنؤ کی ادبی فضا اور ماحول کی عکاس ہے جو انھیں ہم عصر شعرا میں ممتاز کرتی ہے۔ صفی لکھنوی 24 جون 1950ء کو وفات پا گئے تھے۔

    صفی لکھنوی جن کا اصل نام سید علی نقی زیدی تھا۔ وہ 3 جنوری 1862ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ زمانے کے دستور کے مطابق فارسی اور عربی سیکھی اور انگریزی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کالج میں‌ داخل ہوئے۔ امتحان پاس کرنے کے بعد 1879ء میں تدریس سے وابستہ ہوگئے اور انگریزی پڑھانے پر مامور ہوئے۔ بعد ازاں محکمہ دیوانی میں ملازم ہوگئے اور اسی ادارے سے ریٹائر ہوئے۔

    صفی نے 13 سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ انھوں نے مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی اور لکھنؤ کی بزمِ ادب کو اپنے فن سے رونق بخشی۔ صفی نے لکھنؤ کے عام شعری مزاج سے ہٹ کر شاعری کی، جس نے انھیں منفرد اور نمایاں‌ شناخت دی۔ مولانا حسرت موہانی انھیں ’مصلحِ طرزِ لکھنؤ‘ کہا کرتے تھے۔

    صفی نے غزل کی عام روایت سے ہٹ کر نظم کو اپنی قوّتِ متخیّلہ سے سجایا اور قومی نظمیں بھی کہیں جو خاص طور سے ان کے عہد کے سماجی، سیاسی اور تہذیبی مسائل کی عکاس ہیں۔ اس کے علاوہ قصیدہ، رباعی اور مثنوی جیسی اصناف میں بھی طبع آزمائی کی۔

    صفی لکھنوی کو شاعری کے کلاسیکی دور کا آخری اہم اور مقبول شاعر بھی مانا جاتا ہے۔ انھوں نے شعر و ادب کا بڑا وقیع سرمایہ یادگار چھوڑا ہے۔

    صفی لکھنوی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    جانا، جانا جلدی کیا ہے؟ ان باتوں کو جانے دو
    ٹھہرو، ٹھہرو دل تو ٹھہرے، مجھ کو ہوش میں آنے دو

    پانو نکالو خلوت سے آئے جو قیامت آنے دو
    سیارے سر آپس میں ٹکرائیں اگر ٹکرانے دو

    بادل گرجا، بجلی چمکی، روئی شبنم، پھول ہنسے
    مرغِ سحر کو ہجر کی شب کے افسانے دہرانے دو

    ہاتھ میں ہے آئینہ و شانہ پھر بھی شکن پیشانی پر
    موجِ صبا سے تم نہ بگڑو زلفوں کو بل کھانے دو

    کثرت سے جب نام و نشاں ہے کیا ہوں گے گم نام صفیؔ
    نقش دلوں پر نام ہے اپنا نقشِ لحد مٹ جانے دو

  • جدوجہدِ‌ آزادی کے عظیم راہ نما اور شعلہ بیاں مقرر بہادر یار جنگ کی برسی

    جدوجہدِ‌ آزادی کے عظیم راہ نما اور شعلہ بیاں مقرر بہادر یار جنگ کی برسی

    نواب بہادر یار جنگ جدوجہدِ آزادی کے نام وَر راہ نما، مسلمانوں‌ کے خیر خواہ اور قائدِ اعظم کے رفیقِ خاص تھے جن کی برسی آج منائی جارہی ہے۔ انھیں خورشیدِ دکن اور شعلہ بیاں مقرر بھی کہا جاتا ہے۔

    نواب بہادر یار جنگ کا اصل نام محمد بہادر خان تھا۔ وہ 3 فروری 1905ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ وہ شروع ہی سے فکر و تدبّر کے عادی تھے اور مسلمانانِ ہند کی اخلاقی، سیاسی اور سماجی حالت میں بہتری اور سدھار لانے کے خواہش نے انھیں میدانِ عمل میں اترنے پر آمادہ کیا۔

    بہارد یار جنگ کا تعلق حیدر آباد دکن سے تھا جو تاجدارِ دکن میر عثمان علی خاں کی فیاضی و سخاوت، علم دوستی کی وجہ سے برصغیر کی ایک عظیم اور مشہور ریاست تھی جہاں ہندوستان کے کونے کونے سے یکتائے زمانہ اور یگانہ روزگار ہستیاں آکر فکر و فن اور علم و ادب میں اپنی قابلیت، ذہانت اور صلاحیتوں کا اظہار کرنا اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتی تھیں، اسی سرزمین کے بہادر یار جنگ جیسے صاحبِ بصیرت، دانا، قول و فکر میں ممتاز راہ نما نے عالمِ اسلام بالخصوص ہندوستان کے اکابرین اور عام مسلمانوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔

    جدوجہدِ آزادی کے اس عظیم راہ نما کو بے مثل خطیب اور شعلہ بیاں مقرر مانا جاتا ہے، جن کی تقاریر نے ہندوستان کے مسلمانوں میں‌ جذبہ حریت جگایا۔ ان کی تقاریر اور جلسوں میں‌ ان کی موجودگی اس وقت کے مسلمانوں کے لیے بڑی اہمیت رکھتی تھی۔ لوگ انھیں سننے کے لیے دور دور سے آتے اور جلسوں میں شرکت کرتے تھے۔

    بہادر یار جنگ نے 1927ء میں مجلسِ تبلیغِ اسلام کے نام سے ایک جماعت قائم کی۔ بعدازاں خاکسار تحریک اور مجلسِ اتحادُ المسلمین کے پلیٹ فارم سے سرگرم رہے۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اہم راہ نمائوں میں شامل تھے اور قائداعظم محمد علی جناح کے قریبی رفقا میں شامل تھے۔

    مارچ 1940 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جس اجلاس میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی اس میں آپ کی تقریر معرکہ آرا تھی۔ آپ کو بہارد یار جنگ، قائدِ ملت اور لسانُ الامت کے خطابات سے نوازا گیا۔ وہ شاعر بھی تھے، انھوں‌ نے نعتیں‌ بھی لکھیں جنھیں آج بھی نہایت عقیدت اور احترام سے سنا اور پڑھا جاتا ہے۔

    ہندوستان کے اس بے مثل خطیب، آفتابِ علم و چراغِ حکمت و عرفاں کی موت پراسرار انداز میں ہوئی اور آج بھی معمّہ ہے۔ یہ ساںحہ اس وقت پیش آیا جب مسلمانوں کی آزادی کی تحریک تیزی سے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی تھی اور جدوجہدِ آزادی کے متوالوں کو ان جیسے قائدین کی ضرورت تھی۔ ان کی ناگہانی موت سے ہندوستان بھر میں مسلمانوں کو صدمہ پہنچا اور عرصے تک فضا سوگوار رہی۔

  • پاکستان کے نام وَر فلسفی اور دانش وَر سیّد محمد تقی کی برسی

    پاکستان کے نام وَر فلسفی اور دانش وَر سیّد محمد تقی کی برسی

    آج پاکستان کے ممتاز فلسفی، مفکّر اور دانش ور سیّد محمد تقی کا یومِ وفات منایا جارہا ہے۔ 25 جون 1999ء کو دنیا سے رخصت ہوجانے والے سیّد محمد تقی کا شمار ان نابغہ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے جنھوں نے نسلِ نو کی فکری راہ نمائی اور نظریاتی بنیادوں پر تربیت کی اور کتابی شکل میں بیش قیمت سرمایہ یادگار چھوڑا۔ انھیں‌ عالمی سطح پر بھی ایک مدبّر اور فلسفی کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔

    2 مئی 1917ء کو ہندوستان کے مردم خیز خطّے امروہہ میں جنم لینے والے سیّد محمد تقی کا خاندان علم و دانش، فکر و فن کے لیے مشہور رہا ہے۔ ان کے والد علّامہ شفیق حسن ایلیا ایک وسیعُ العلم اور صاحبِ مطالعہ شخص تھے جو اپنے گھر میں علمی و ادبی مجالس کا اہتمام کرتے جس میں اس وقت کی عالم فاضل شخصیات شریک ہوتیں۔ اسی ماحول نے سیّد محمد تقی کو فکری اور نظریاتی بنیاد پر توانا اور تاب دار کیا۔ نام ور صحافی، ادیب اور شاعر رئیس امروہوی اور اردو کے مقبول ترین شاعر جون ایلیا ان کے بھائی تھے۔

    سیّد محمد تقی نے بھی علم و ادب کو اوڑھنا بچھونا بنایا، صحافت بھی ان کا ایک حوالہ ہے۔ ان کی تصانیف کو علمی و ادبی حلقوں کے علاوہ باذوق اور سنجیدہ قارئین نے بھی سراہا۔ سیّد محمد تقی کی ایک مشہور تصنیف “تاریخ اور کائنات، میرا نظریہ” ہے جس میں انھوں نے اپنی فلسفیانہ اور دانش ورانہ سوچ سے ایک جامع اور مربوط نظام کو بیان کرنے کی کوشش ہے۔ ان کی دیگر تصانیف میں پراسرار کائنات، منطق، فلسفہ اور تاریخ، نہج البلاغہ کا تصور الوہیت اور روح اور فلسفہ شامل ہیں۔ کارل مارکس کی مشہور تصنیف داس کیپٹال کو سید محمد تقی نے اردو میں منتقل کیا تھا۔

    ان کی ایک کتاب کربلا تہذیب کا مستقبل کا گم شدہ مسودہ بعد میں برآمد ہوا تو اسے کتابی شکل میں‌ شایع کردیا گیا اور یوں یہ سیّد محمد تقی کی آخری کتاب ہے۔

    سیّد محمد تقی سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • متعدد اعزازات اپنے نام کرنے والے مشہور پہلوان محمد بشیر کی برسی

    متعدد اعزازات اپنے نام کرنے والے مشہور پہلوان محمد بشیر کی برسی

    24 جون 2001ء کو پاکستان کے مشہور پہلوان محمد بشیر کو موت نے پچھاڑ کر زندگی کے پالے سے ہمیشہ کے لیے باہر کردیا۔

    محمد بشیر نے 1960ء میں منعقدہ روم اولمپکس میں کشتی کے مقابلوں میں کانسی کا تمغہ اپنے نام کیا تھا۔ کشتی کے کھیل میں اولمپک مقابلوں کے لیے اب تک کسی پاکستانی کھلاڑی کا یہ واحد تمغہ ہے۔

    محمد بشیر اس سے قبل 1958ء کے ایشیائی کھیلوں میں کشتی ہی کے کھیل میں کانسی کا تمغہ حاصل کرچکے تھے۔ بعدازاں انھوں نے 1962ء کے ایشیائی کھیلوں میں چاندی کا اور 1966ء کے ایشیائی کھیلوں میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔

    حکومتِ پاکستان نے کشتی کے کھیل میں محمد بشیر کی کام یابیوں اور فتوحات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں تمغہ امتیاز اور صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    اپنے دور کے اس مشہور پہلوان کو لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • یومِ وفات: معروف شاعر اور ڈراما نگار قیوم نظر حلقۂ اربابِ ذوق کے بانیوں میں سے تھے

    یومِ وفات: معروف شاعر اور ڈراما نگار قیوم نظر حلقۂ اربابِ ذوق کے بانیوں میں سے تھے

    اردو اور پنجابی کے ممتاز شاعر، نقّاد، مترجم اور ڈرامہ نگار قیوم نظر 23 جون 1989ء کو کراچی میں وفات پا گئے تھے۔ ان کا شمار اردو ادب کی ان شخصیات میں ہوتا ہے جنھوں نے حلقۂ اربابِ ذوق جیسی تنظیم کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔

    قیوم نظر 7 مارچ 1914ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عبدالقیوم تھا۔ وہ 1944ء سے 1955ء تک حلقہ اربابِ ذوق کے سیکرٹری رہے۔ تدریس کے پیشے سے منسلک رہنے والے قیوم نظر گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ اردو اور پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ پنجابی میں طلبا کو نصابی تعلیم اور ان کی فکری راہ نمائی کا کام انجام دیتے رہے۔

    قیوم نظر کی شاعری میں اردو کی کلاسیکی شاعری کا گہرا اثر نظر‌ آتا ہے۔ انھوں نے اردو غزل کو ایک نیا مزاج، نیا آہنگ عطا کیا۔ وہ میر تقی میر اور فانی بدایونی سے متاثر تھے۔ تاہم روایتی بندشوں کے ساتھ ان کی شاعری میں فطرت کے تجربات اچھوتے اور تازہ ہیں۔

    قیوم نظر کی تصانیف میں "پون جھکولے”، "قندیل”، "سویدا”، "اردو نثر انیسویں صدی میں”، "زندہ ہے لاہور "اور "امانت ” شامل ہیں۔ انھوں نے بچّوں کے لیے ایک کتاب "بلبل کا بچہ ” بھی لکھی۔

    قیوم نظر کو لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • پنجابی فلموں کے کام یاب ہدایت کار ایم جے رانا کی برسی

    پنجابی فلموں کے کام یاب ہدایت کار ایم جے رانا کی برسی

    20 جون 1995ء کو وفات پانے والے ایم جے رانا فلم اور اسٹیج کے معروف ہدایت کار تھے۔

    ایم جے رانا کا اصل نام محمد جمیل رانا تھا جو شوبزنس کی دنیا میں ایم جے رانا مشہور ہوئے۔ دائود چاند کے معاون ہدایات کار کی حیثیت سے فلم نگری میں اپنا سفر شروع کرنے والے ایم جے رانا نے اپنی صلاحیتوں کو جلد منوا لیا۔ انھیں فلم ساز جے سی آنند نے اپنی فلم ’’سوہنی‘‘ کے لیے بطور ہدایت کار منتخب کیا۔ فلم تو باکس آفس پر کام یاب نہ ہوسکی، مگر ایم جے رانا نے ضرور اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔

    انھوں نے ایک اردو فلم کے لیے ہدایت کار کے طور پر کام کیا جب کہ دیگر تمام فلمیں‌ پنجابی زبان میں‌ بنائیں۔ 1989ء میں ایم جے رانا کو فلمی صنعت کے لیے خدمات پر خصوصی نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کی سپر ہٹ فلم ماہی منڈا اور یکّے والی تھی جس نے کام یاب ہدایت کاروں‌ کی صف میں لا کھڑا کیا، بعد میں جمالو، باپ کا باپ، من موجی، جی دار، اباجی، یار مار، راوی پار، خون دا بدلہ خون، عید دا چن، پیار دی نشانی، ماں دا لال، میرا ماہی اور رانی خان جیسی فلموں‌ نے دھوم مچا دی۔

    ایم جے رانا نے چند اسٹیج ڈراموں کے لیے بھی ہدایات دیں لیکن ان کی وجہِ‌ شہرت پنجابی فلمیں‌ ہیں‌۔ ان کی وفات دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔

  • کئی لازوال اور سدا بہار گیتوں کے خالق خواجہ پرویز کی برسی

    کئی لازوال اور سدا بہار گیتوں کے خالق خواجہ پرویز کی برسی

    پاکستان کی فلمی صنعت کے معروف نغمہ نگار خواجہ پرویز 20 جون 2011ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھوں نے فلم نگری میں اپنے چالیس سالہ کیریئر کے دوران اردو اور پنجابی زبانوں میں‌ سیکڑوں گیت لکھے جو بہت مقبول ہوئے اور اکثر گیت لازوال اور یادگار قرار پائے۔

    1932ء میں ہندوستان کے شہر امرتسر میں پیدا ہونے والے خواجہ پرویز قیامِ پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور میں گوالمنڈی کے علاقے میں آبسے۔ ان کا اصل نام خواجہ غلام محی الدّین تھا جو پرویز تخلص کرتے تھے اور فلمی دنیا میں خواجہ پرویز کے نام سے مشہور ہوئے۔

    دیال سنگھ کالج سے گریجویشن کیا اور یہیں ان کی دوستی اس وقت کے معروف ہدایت کار ولی کے بیٹے سے ہوئی جن کے طفیل خواجہ پرویز ہدایت کار ولی سے ملے۔ انھوں نے 1955ء میں خواجہ پرویز کو اپنا اسٹنٹ رکھ لیا اور یہ فلمی سفر شروع ہوا۔

    خواجہ پرویز نے معاون ہدایت کار کے طور پر تین فلمیں‌ مکمل کروائیں لیکن طبیعت شاعری کی طرف مائل تھی اور یہی وجہ ہے کہ ان کی پہچان اور مقبولیت نغمہ نگاری بنی۔ انھوں نے معروف نغمہ نگار سیف الدین سیف کے ساتھ کام شروع کردیا اور ان کے اسٹنٹ بن گئے۔

    خواجہ پرویز سے ہدایت کار دلجیت مرزا نے اپنی فلم ’رواج‘ کے گیت لکھوائے۔ اس فلم میں مالا کی آواز میں ان کا گیت ’کہتا ہے زمانہ کہیں دل نہ لگانا‘ بہت مقبول ہوا۔ اس کے بعد وہ کام یابی کے جھنڈے گاڑتے چلے گئے۔ ان کا ہر گیت گویا ہٹ ہوتا رہا۔

    فلم سنگ دل میں ان کا نغمہ ’سن لے او جانِ وفا‘ اور اس کے بعد ’تمہی ہو محبوب مرے میں کیوں نہ تمہیں پیار کروں‘ بہت مشہور ہوا۔ فلم آنسو کا گانا ’تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں جیسے صدیاں بیت گئیں‘ نے مقبولیت کا گویا ریکارڈ قائم کیا اور پھر ’پیار بھرے دو شرمیلے نین‘ نے سرحد پار بھی لاکھوں دلوں میں جگہ پائی۔

    خواجہ پرویز کے بارے میں‌ مشہور ہے کہ وہ باغ و بہار شخصیت کے مالک اور دوسروں کے مددگار اور خیرخواہ تھے۔

    ذیایبطس کے مرض میں مبتلا خواجہ پرویز کو طبیعت بگڑنے پر لاہور کے میو اسپتال میں علاج کے لیے داخل کروایا گیا تھا، جہاں انھوں نے زندگی کی آخری سانس لی اور اپنے مداحوں کو سوگوار چھوڑ گئے۔

    خواجہ پرویز لاہور میں میانی صاحب قبرستان میں مدفون ہیں۔

  • عہد ساز ادیب اور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی برسی

    عہد ساز ادیب اور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی برسی

    آج اردو کے صاحبِ طرز ادیب اور معروف مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 20 جون 2018ء کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔

    مشتاق یوسفی 4 اگست 1923ء کو بھارت کی ریاست راجھستان میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان ہجرت کی اور کراچی میں سکونت اختیار کرلی۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم جے پور سے حاصل کی تھی جب کہ 1945ء گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم اے کیا اور اوّل پوزیشن حاصل کی۔

    اردو نثر اور مزاح نگاری میں انھوں نے خود کو صاحبِ‌ طرز ثابت کیا اور اعلیٰ معیار کی تخلیقات قارئین کو دیں۔ ان کے ادبی شہ پاروں میں پہلی کتاب ’’چراغ تلے‘‘ 1941ء میں، دوسری ’’خاکم بدہن‘‘ 1949ء، جب کہ ’’زرگزشت‘‘ 1974ء اور ’’آبِ گم‘‘ 1990ء میں‌ منظرِ عام پر آئی، اس عہد ساز مزاح نگار کی آخری کتاب ’’شامِ شعرِ یاراں‘‘2014ء میں شایع ہوئی تھی۔

    مشتاق یوسفی کی کتابیں ان کے وسیع ذخیرۂ الفاظ اور وسیع تر مطالعے کا ثبوت ہیں۔ وہ ایسے مزاح نگار تھے جن کے ہر ہر فقرے کو بڑی توجہ سے پڑھا جاتا ہے اور اس کا لطف اٹھایا جاتا ہے۔ ان کی تحریروں میں‌ گہرائی اور لطیف انداز میں فلسفے کی آمیزش ہے۔ یہاں‌ ہم ان کے مزاحیہ مضامین سے چند جملے آپ کے ذوق کی نذر کررہے ہیں:

    • چھٹتی نہیں ہے منھ سے یہ ‘کافی’ لگی ہوئی۔

    • مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔

    • صاحب، میں ماکولات میں معقولات کا دخل جائز نہیں سمجھتا۔

    مشتاق احمد یوسفی کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں‌ حکومتِ پاکستان کی جانب سے ستارۂ امتیاز اور ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا تھا۔

    وہ طویل عرصے سے علیل تھے اور 95 برس کی عمر میں کراچی میں انتقال کیا۔

  • 18 جون: لکشمی بائی جس نے وطن کی حرمت و ناموس پر جان قربان کردی

    18 جون: لکشمی بائی جس نے وطن کی حرمت و ناموس پر جان قربان کردی

    لکشمی بائی جنگِ آزادیٔ ہند کا وہ کردار ہے جس کی لازوال قربانی، فہم و فراست اور بہادری کی داستان خطّے کی تاریخ میں‌ ہمیشہ زندہ رہے گی۔ یہ کردار آنے والی نسلوں کو اپنے وطن سے محبّت اور دھرتی کی حرمت و ناموس پر مَر مٹنے کا راستہ دکھاتا رہے گا۔

    لکشمی بائی ہندوستان کی ایک چھوٹی سی ریاست جھانسی کی رانی تھی۔ 1817ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے جھانسی کے راجہ کی وفات کے بعد وہاں اپنا قبضہ جمانے کی کوشش کی تو نوجوان بیوہ رانی لکشمی بائی نے انگریزوں کی طاقت کو للکارا اور اعلانِ جنگ کر دیا۔ اس وقت ہندوستان کا ہر بسنے والا بلاتفریقِ رنگ و نسل اور مذہب انگریزوں سے نفرت اور ان کے قبضے کے خلاف مزاحمت پر آمادہ تھا۔

    رانی نے فارسی اور اردو بھی پڑھی تھی، لیکن لکھنے پڑھنے کے ساتھ شمشیر زنی، نشانہ بازی اور گھڑ سواری اور دوسرے فنونِ حرب کی تربیت بھی حاصل کی تھی۔ وہ بہترین نشانے باز تھی۔ مشہورہ ہے کہ اس کی بندوق کا نشانہ کبھی خطا نہ جاتا تھا۔

    وہ ایک خوب صورت دوشیزہ تھی اور جب جھانسی کے گنگا دھر کی طرف سے شادی کا پیغام آیا تو والدین نے قبول کرلیا۔ اسے تعلیم و تربیت کے وہ تمام مواقع ملے جو راج کماروں اور راج کماریوں کے لیے مخصوص ہوتے تھے، یوں وہ جھانسی کی رانی بن گئی۔ راجہ نے اسے رانی لکشمی بائی کا خطاب دیا تھا۔

    غدر کے سال بھر بعد 18 جون 1858ء کو انگریز گوالیار پر حملہ آور ہوئے تو رانی نے مختصر فوج کے ساتھ ان کے حملے کا بھرپور جواب دیا۔ مردانہ لباس میں وہ دشمن پر برق بن کر کوندی۔ لیکن ایک موقع پر جب انگریز سپاہی نے عقب سے تلوار ماری تو زندگی کا سفر تمام ہو گیا۔

    مشہور ہے کہ اس نے مرتے ہوئے وصیّت لاش کو انگریزوں کے ہاتھ نہ لگنے دینے کی وصیّت کی تھی اور اسی لیے اس کے جسدِ خاکی کو اسی مقام پر نذرِ آتش کردیا گیا جہاں اس نے زندگی کی آخری سانسیں‌ لی تھیں۔

  • جنگِ طرابلس: 11 سالہ فاطمہ مسلمان سپاہیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہوگئی تھیں

    جنگِ طرابلس: 11 سالہ فاطمہ مسلمان سپاہیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہوگئی تھیں

    آج عالمِ اسلام کی ایک کم سن بیٹی فاطمہ بنتِ عبداللہ کی شہادت کا دن ہے۔ انھوں نے 18 جون 1912ء کو جنگِ طرابلس میں مجاہدین کو پانی پلاتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا تھا۔

    فاطمہ بنت عبداللہ لیبیا کے شہر طرابلس میں 1898ء میں پیدا ہوئیں۔ اسلامی ماحول میں تعلیم و تربیت پانے والی فاطمہ عرب قبیلے کے سردار کی اکلوتی بیٹی تھیں۔

    اطالوی اور سلطنتِ عثمانیہ کی افواج کے مابین لڑی گئی اس جنگ میں اگرچہ طاقت اور تعداد میں مسلمان کم تھے، لیکن مسلمان سپاہی ہی نہیں ان کے ساتھ عرب عورتیں بھی دشمن کی طاقت اور عددی برتری سے بے نیاز اور جذبہ شہادت سے سرشار میدان میں نظر آئیں۔ کئی خواتین نے دورانِ جنگ زخمی سپاہیوں کی مرہم پٹّی اور دیکھ بھال کی ذمہ داری نبھائی تھی جن میں فاطمہ بھی شامل تھیں۔

    شاعرِ‌ مشرق علّامہ اقبال نے اسی کم عمر شہید پر ایک نظم بھی لکھی تھی جو بانگِ درا میں شامل ہے، لیکن اس کلام میں اقبال نے جہاں فاطمہ کو ان کی جرات اور بہادری پر سلام پیش کیا ہے، وہیں امّتِ مسلمہ کے ظاہری امراض کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو لائقِ توجہ ہے۔

    18 جون کو دشمن سے ایک جھڑپ کے دوران جب فاطمہ بنتِ عبدُ اللہ چند زخمی مجاہدوں کو پانی پلا رہی تھیں تو اطالوی سپاہی نے انھیں گولیوں‌ کا نشانہ بنایا تھا۔

    اس ننّھی مجاہدہ پر لکھی گئی اقبال کی نظم پڑھیے۔

    "فاطمہ بنت عبدُاللہ”
    فاطمہ! تو آبروئے امّتِ مرحوم ہے
    ذرہ ذرّہ تيری مشتِ خاک کا معصوم ہے

    يہ سعادت، حورِ صحرائی! تری قسمت ميں تھی
    غازيانِ ديں کی سقّائی تری قسمت ميں تھی

    يہ جہاد اللہ کے رستے ميں بے تيغ و سپر
    ہے جسارت آفريں شوقِ شہادت کس قدر

    يہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر ميں تھی
    ایسی چنگاری بھی یارب، اپنی خاکستر ميں تھی!

    اپنے صحرا ميں بہت آہو ابھی پوشيدہ ہيں
    بجلياں برسے ہوئے بادل ميں بھی خوابيدہ ہيں!

    فاطمہ! گو شبنم افشاں آنکھ تيرے غم ميں ہے
    نغمۂ عشرت بھی اپنے نالۂ ماتم ميں ہے

    رقص تیری خاک کا کتنا نشاط انگيز ہے
    ذرّہ ذرّہ زندگی کے سوز سے لبريز ہے

    ہے کوئی ہنگامہ تيری تربتِ خاموش ميں
    پَل رہی ہے ايک قومِ تازہ اس آغوش ميں

    بے خبر ہوں گرچہ ان کی وسعتِ مقصد سے ميں
    آفرينش ديکھتا ہوں ان کی اس مرقد سے ميں

    تازہ انجم کا فضائے آسماں ميں ہے ظہور
    ديدۂ انساں سے نامحرم ہے جن کی موجِ نور

    جو ابھی ابھرے ہيں ظلمت خانۂ ايّام سے
    جن کی ضو ناآشنا ہے قيدِ صبح و شام سے

    جن کی تابانی ميں اندازِ کہن بھی، نو بھی ہے
    اور تيرے کوکبِ تقدير کا پَرتو بھی ہے