Tag: جون وفیات

  • گلاب سنگھ ڈوگرا: جمّوں کا ویمپائر

    گلاب سنگھ ڈوگرا: جمّوں کا ویمپائر

    ہندوستان پر قبضے کے بعد انگریزوں نے جس طرح یہاں سے اجناس اور اشیاء کی تجارت اور کاروبار سے خوب خوب مالی فوائد سمیٹے ویسے ہی قدرتی وسائل سے مالا مال ریاستوں کو بھی اپنے مفاد کی بھینٹ چڑھا دیا۔ جموں‌ و کشمیر کا معاملہ کچھ ایسا ہی ہے جس میں انگریزوں‌ نے اپنے مفاد کو ترجیح دی اور وہاں کے لوگوں کا سودا کردیا۔

    جموں کا ہندو راجہ گلاب سنگھ جو اپنی رعایا پر ظلم و ستم ڈھانے کے لیے مشہور ہے، آج ہی کے دن چل بسا تھا۔ وہ سکھ سلطنت کے بانی اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی مہربانی سے جموں کا حاکم بنا تھا۔ اس کا تعلق ہندو ڈوگرا برادری سے تھا۔ یہ سنہ 1822ء کی بات ہے۔ بعد میں گلاب سنگھ نے کئی علاقوں پر اپنا تسلط قائم کرلیا جن میں راجوری، پونچھ، بدرواہ اور کشتوار اور کئی دوسرے علاقے شامل ہیں۔

    پنجاب میں قدم جمانے کے بعد انگریزوں نے گلاب سنگھ کو مہاراجہ بنا دیا اور 1846ء میں معاہدۂ امرتسر کے تحت پچھتر لاکھ روپے میں کشمیر بھی اس کو دے دیا۔ جموں و کشمیر کا مہاراجہ بن کر گلاب سنگھ نے سفاکی اور قتل و غارت گری کا ایک باب رقم کیا اور اس کے دور میں لوگوں سے غیرانسانی سلوک کی بدترین مثالیں سامنے آتی رہیں۔ گلاب سنگھ کے مظالم کا ذکر ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر جنرل سَر ہنری ہارڈنج کے اپنی بہن کے نام لکھے گئے ایک خط میں ملتا ہے جو دو مارچ 1846 کو ارسال کیا گیا تھا۔ اس خط میں وہ گلاب سنگھ کو ’ایشیا کا سب سے بڑا بدمعاش‘ لکھتے ہوئے بہن کو بتاتا ہے کہ گلاب سنگھ کو مہاراجہ بنانے کی وجہ کیا رہی اور اسے انگریز سرکار کی بدقسمتی لکھا ہے۔ اس مکتوب میں گورنر جنرل نے رقم کیا: ’بدقسمتی سے ان کی مدد کرنا لازمی ہے کیونکہ انھوں نے ہمارے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لیا اور ان کی سرحدیں ہماری سرحدوں سے ملتی ہیں، ہم بغیر کسی مشکل ان کی حفاظت کر سکتے ہیں اور سکھوں کی سلطنت میں سے انھیں ایک ٹکڑا دے کر سکھوں کے مقابلے میں ان کی طاقت کو تھوڑا بڑھا سکتے ہیں۔‘

    گلاب سنگھ کی ڈوگرا سلطنت سو برس سے زیادہ عرصہ قائم رہی جو بادشاہت پر مبنی مطلق العنان طرزِ حکومت تھا۔ برطانیہ میں بھی کشمیر کو ڈوگرا راجہ کے ہاتھوں‌ فروخت کرنے پر کڑی تنقید کی گئی تھی، کیوں کہ اس رقم کو وصول کرنے کے لیے راجہ نے عام کشمیریوں پر بہت بھاری ٹیکس لگایا اور وصولی کے لیے ہر طرح کا جبر، زبردستی اور مظالم کیے گئے۔ ظالمانہ ٹیکس نظام کے علاوہ ڈوگرا دور میں بیگار کا بھی سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس پر انگریز افسران نے بھی کڑی تنقید کی۔

    ہندوستان میں‌ برطانوی فوج کے ایک افسر رابرٹ تھورپ نے لکھا تھا کہ اس ناانصافی سے ’جدید تہذیب کی روح کی نفی ہوتی ہے اور اُس مذہب کے ہر اصول کے بالکل الٹ ہے جس کے پیروکار ہونے کا ہم دعوی کرتے ہیں۔‘

    پنجاب میں سکھ حکم راں رنجیت سنگھ نے اپنے ایک منتظم گلاب سنگھ کو اپنے لیے خدمات انجام دینے کے صلے میں جمّوں کا راجا بنایا۔ گلاب سنگھ کا باپ رنجیت سنگھ کی جانب سے جمّوں کا انتظام دیکھتا رہا تھا اور اس کی موت کے بعد گلاب سنگھ کو یہ ذمہ داری منتقل ہوئی تھی جس میں وہ کام یاب رہا اور مہاراجہ کا اعتماد حاصل کرلیا۔ بعد میں انگریزوں‌ سے وفا کر کے اس نے اپنی سلطنت قائم کر لی تھی۔

    گلاب سنگھ ڈوگرا کا سنہ پیدائش 1792ء بتایا جاتا ہے جب کہ اس کی موت 1857ء میں آج ہی کے روز ہوئی تھی۔ انگریز افسران اور برطانوی امراء کے علاوہ متعدد برطانوی مؤرخین نے بھی گلاب سنگھ کی سفاکیوں کا ذکر کیا ہے۔ اس وقت علّامہ اقبال اور دیگر مسلمان اکابرین بھی گلاب سنگھ کے رعایا پر مظالم کی مذمت کرتے ہوئے انگریز سرکار کو مطعون کیا۔ اس حوالے سے یہ تحریر ملاحظہ کیجیے۔

    "جمّوں سے تعلق رکھنے والے تین بھائی گلاب سنگھ، دھیان سنگھ اور سچیت سنگھ تھے۔ سکھ سلطنت میں یہ بااثر اور طاقت ور تھے۔ سکھ سلطنت میں کئی اہم عہدوں پر غیر سکھ رہے تھے اور جمّوں کے یہ بھائی بھی ان میں سے تھے۔ جمّوں اور پنجاب کے درمیان کوئی خاص جغرافیائی حدِ فاصل نہیں تھی۔ اور نہ ہی اس وقت سیاسی طور پر کچھ فرق تھا۔ لوگوں کا ایک دوسرے علاقے میں بہت آنا جانا تھا۔”

    "لاہور سے سری نگر کے 180 میل سفر کے نصف راستے پر جموں شہر آتا تھا۔ جمّوں سے لاہور کا سفر، جمّوں سے سری نگر کے مقابلے میں بہت آسان تھا۔ اس لیے یہاں رہنے والوں کے زیادہ معاشرتی یا تجارتی روابط کشمیر کے مقابلے میں پنجاب سے تھے۔ آج پنجاب اور جمّوں کے درمیان سیاسی رکاوٹیں ہیں، لیکن سکھ حکومت کے وقت ایسا نہیں تھا۔ یہ عملاً پنجاب کی ایکسٹینشن تھی۔ جمّوں کے حکم رانوں کی پنجاب میں زمینیں تھیں اور یہی دوسری سمت میں بھی تھا۔”

    "لاہور سکھ سلطنت کا دارُالحکومت تھا اور غیرسکھ آبادی کے لیے پرکشش شہر تھا۔ سکھ آرمی میں بہت سے مسلمان اور ہندو شامل تھے اور کچھ کرسچن بھی۔ اس میں یورپی افسر بھی شامل تھے۔ لاہور دربار میں ان سب کو ترقی کے مواقع میسّر تھے۔ اور ان ترقی کے مواقع سے گلاب اور دھیان سنگھ نے بہت فائدہ اٹھایا تھا۔ انھوں نے سکھ سلطنت کو بڑھانے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ یہ رنجیت سنگھ کے معتمد تھے۔”

    "1831ء میں ایک فرنچ مؤرخ نے لکھا ہے کہ “اگرچہ گلاب سنگھ ناخواندہ ہیں، لیکن رنجیت سنگھ کے پسندیدہ ہیں اور میرے خیال میں اگلے حکم ران بنیں گے۔” سکھ سلطنت نے ان بھائیوں کو اپنے علاقوں اور جاگیروں میں خودمختاری دی ہوئی تھی۔ (اس وقت میں سیاست کا طریقہ یہی ہوا کرتا تھا)۔”

    "جب رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کیا تھا تو گلاب سنگھ سات سال کے تھے۔ رنجیت نے 1808ء میں جموں کے علاقے پر قبضہ کر کے یہاں کی خودمختاری ختم کر دی تھی۔ اس وقت گلاب سنگھ کی عمر سترہ برس تھی اور وہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ ان کی شہرت جمّوں کی بغاوت کے دوران بڑھی۔ انھیں مقامی علاقے کا علم تھا۔ چالاکی اور سفاکی میں ان کی شہرت تھی۔ جمّوں حکومت کرنے کے لیے مشکل جگہ تھی۔ یہاں پر لوگوں پر کنٹرول رکھنا اور ٹیکس وصول کرنا آسان نہیں رہا تھا۔ اپنی دہشت کی وجہ سے گلاب سنگھ ٹیکس نکلوانے میں اتنے مؤثر رہے تھے کہ ایک مؤرخ نے انھیں “جمّوں کا ویمپائر” کہا ہے۔”

  • رنجیت سنگھ: وہ مہاراجا جس نے ایک گھوڑی کی خاطر ہزاروں سپاہی گنوا دیے

    رنجیت سنگھ: وہ مہاراجا جس نے ایک گھوڑی کی خاطر ہزاروں سپاہی گنوا دیے

    برِصغیر میں مسلمانوں کی بادشاہت کے علاوہ مختلف چھوٹی بڑی ریاستوں اور علاقوں میں بہت سے ہندو راجا اور حاکم بھی ہو گزرے، لیکن سکھ مذہب کے پیروکاروں میں صرف رنجیت سنگھ ہی تھا جس نے اپنی حکومت قائم کی اور پنجاب پر راج کیا۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کا دور ہندوستان کی تاریخ کا ناقابلِ فراموش باب ہے۔

    27 جون 1839ء کو رنجیت سنگھ چل بسا تھا جس کے بعد اگلے دس برس ہی سکھوں کا اقتدار برقرار رہ سکا۔ کہتے ہیں‌ کہ اس وقت پورے پنجاب میں سکھوں کی بارہ مثلیں (ایک لحاظ سے خود مختار ریاستیں) تھیں جو ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار تھیں۔ ان میں سے ایک مثل گوجرانوالہ کے قریب آباد تھی۔ رنجیت سنگھ 13 نومبر 1780ء کو اسی سکرچکیا مثل کے سردار مہان سنگھ کے گھر پیدا ہوا۔ اس کا نام بدھ سنگھ رکھا گیا جو آگے چل کر رنجیت سنگھ کے نام سے مشہور ہوا اور سکھ سلطنت قائم کی۔ رنجیت سنگھ کا دور 40 سال پر محیط ہے جس میں وہ فتوحات کے بعد کشمیر سے موجودہ خیبر پختونخوا اور جنوب میں سندھ کی حدود تک اپنی سلطنت کو پھیلا چکا تھا۔ 19 سالہ رنجیت سنگھ نے 1799ء میں لاہور کو فتح کر کے اس شہر کو اپنا پایۂ تخت بنایا تھا۔

    رنجیت سنگھ کی دلیری اور بہادری کے ساتھ مؤرخین نے اس کی طرزِ‌ حکم رانی کو بھی شان دار قرار دیا ہے۔ رنجیت سنگھ کو شیرِ پنجاب بھی لکھا گیا ہے۔ مہاراجا نے سکھوں کی ایک منظم فوج تیار کی تھی جسے خالصہ فوج کہا جاتا تھا۔ اس کا ہیڈ کوارٹر لاہور سے چند کلومیٹر دور شالا مار باغ کے قریب تھا، جسے ”بدھو کا آوا‘‘ کہتے تھے۔ یہ 1811ء کی بات ہے اور 1839ء تک یہ سپاہ چالیس ہزار جوانوں پر مشتمل تھی۔ اگرچہ رنجیت سنگھ کے دربار میں‌ ہندو اور مسلمان بھی اپنی قابلیت اور صلاحیتوں‌ کی بنیاد پر منصب و مقام پر فائز رہے، لیکن بعض مؤرخین نے اقلیتوں کے لیے مشکلات کا ذکر بھی کیا ہے۔ برصغیر میں بدقسمتی سے کئی بادشاہوں کو قوم و ملّت اور مذہب کی بنیاد پر مطعون بھی کیا گیا اور تعصب کی وجہ سے کئی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ ان میں کسی ایک نسل اور مذہب کے ماننے والے شامل نہیں بلکہ جہاں جس کا زور چلا اس نے کوئی بات کسی سے منسوب کردی رنجیت سنگھ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کے باوجود مؤرخین کی اکثریت متفق ہے کہ مہاراجا کے دربار میں کسی کو رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیاز حاصل نہ تھا بلکہ مذہبی رواداری اور بھائی چارے کی فضا برقرار رکھی گئی تھی۔

    رنجیت سنگھ کی ایک آنکھ ضایع ہوچکی تھی اور وہ کانا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک بار مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنے وزیر خارجہ فقیر عزیز الدین سے کہا ‘رب چاہتا ہے کہ میں ہر مذہب کو ایک نظر سے دیکھوں اس لیے رب نے مجھے صرف ایک آنکھ ہی دی ہے۔ ‘ یہ واقعہ کرتار سنگھ دوگل کی کتاب ‘ رنجیت سنگھ ، دی لاسٹ ٹو لے آرم’ (Maharaja Ranjit Singh: The Last to Lay Arms) میں درج ہے۔ فقیر عزیز الدین کی طرح کئی اور مسلمان مہاراجہ رنجیت کے دربار میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے جنھیں ان کے مذہب کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی صلاحیتوں کی وجہ سے ان عہدوں پر فائز کیا گیا تھا۔

    مہاراجہ رنجیت کا عقیدہ گروہ گرنتھ صاحب پر تھا اور وہ ایک پکا سکھ تھا، اس کے باوجود مہاراجہ رنجیت سنگھ کا رحجان کسی ایک مذہب کی طرف نہیں دیکھا گیا۔

    انگریز مؤرخ سر لیپل گرفن کے علاوہ کنہیا لال ہندی، نور احمد چشتی، ڈاکٹر مارٹن ہونی برجر اور بعد میں پتونت سنگھ، فقیر وحید الدّین و دیگر نے بھی رنجیت سنگھ کے دور حکومت پر تحقیقی مضامین سپردِ‌ قلم کیے اور ان کی کتابیں‌ رنجیت سنگھ کی ذاتی زندگی اور اس کے عہد کی لفظی تصویریں پیش کرتی ہیں۔

    رنجیت سنگھ نے کئی شادیاں‌ کی تھیں۔ اس کی بیویوں میں‌ ہندو، سکھ اور مسلمان عورتیں‌ شامل تھیں۔ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ بیس بیویوں کے علاوہ رنجیت سنگھ کی کئی داشتائیں بھی تھیں۔ محققین کے مطابق رنجیت سنگھ حسن و شباب کا رسیا تھا۔ اس کے ساتھ وہ اپنی سلطنت کو استحکام اور دوام بخشنے کے لیے چھوٹی بڑی ریاستوں میں رشتے بھی کرتا رہا۔

    مؤرخین کے مطابق اس نے سات مسلمان لڑکیوں سے شادی کی اور ان میں سے ایک امرتسر کی مسلمان رقاصہ موراں تھی جسے سب سے زیادہ شہرت ملی۔ رنجیت سنگھ نے 1802ء میں موراں سے شادی کی اور موراں اس کی پسندیدہ رانی تھی۔ فقیر وحید الدّین کے مطابق موراں سے شادی کرنے کے لیے رنجیت سنگھ نے رقاصہ کے والد کی کئی شرائط قبول کیں۔ مشہور ہے کہ ان میں ایک شرط یہ تھی کہ مہاراجا کو موراں کے گھر آکر وہاں پھونکوں سے آگ جلا کر دکھانا ہوگی اور یہ شرط بھی مہاراجا نے پوری کی۔

    مہاراجا کی موراں سے چاہت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے موراں کے کہنے پر کئی فلاحی کام کیے، مساجد و باغ اور یادگاریں تعمیر کروائیں اور اس دور کی ایک مسجد آج بھی اندرونِ لاہور میں موجود ہے۔ موراں خود بھی ایک سخی اور مہربان عورت مشہور ہوئی۔ مشہور ہے کہ وہ اپنی سلطنت میں لوگوں کی مدد کرتی اور ان کے مسائل حل کرواتی تھی۔ اسی سبب عام لوگوں نے اسے موراں سرکار کہنا شروع کردیا تھا۔ موراں سے اپنی چاہت جتاتے اور محبت نبھاتے ہوئے رنجیت سنگھ گل بہار بیگم پر فریفتہ ہوگیا۔ وہ بھی ایک مشہور رقاصہ تھی اور مشہور ہے کہ گل بہار بیگم سے شادی کے لیے رنجیت سنگھ نے اپنے ہاتھوں پر مہندی بھی لگوائی تھی۔ لاہور میں ایک کوچہ، ایک رہائشی علاقہ اور ایک باغ گل بہار بیگم سے موسوم ہیں۔

    مصنّف آروی اسمتھ کے مطابق مہاراجہ رنجیت سنگھ زندگی کے آخری برسوں میں بڑھتی عمر، اپنی بیویوں کے مابین چپقلش اور ہر وقت کے لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے تنگ آچکا تھا اور افیون کا عادی ہوگیا تھا۔ شراب نوشی کی کثرت اور فالج رنجیت سنگھ کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ اس وقت ان مذاہب میں عورتیں اپنے شوہر کے ساتھ ہی ستی ہوجاتی تھیں اور رنجیت سنگھ کی چار ہندو بیویوں سمیت سات داشتائیں بھی اسی رسم کی بھینٹ چڑھ گئی تھیں۔

    رنجیت سنگھ کے درباری طبیب مارٹن ہونی برجر نے اپنی آپ بیتی ‘مشرق میں پینتیس سال’ میں اس ستی کا احوال یوں رقم کیا کہ ’مہاراجہ کی وفات سے اگلے روز صبح سویرے کیسے رانیاں ایک ایک کر کے پہلی اور آخری مرتبہ محل سے نکل کر لوگوں میں آتی ہیں اور موت کی راہ لیتی ہیں، سادہ لباس، ننگے پاؤں، پیدل حرم سے باہر آتی ہیں، آئینہ سامنے ہے تاکہ یقین ہو کہ وہ خوف چھپا نہیں رہیں۔ سو کے قریب افراد کچھ فاصلہ رکھتے ہوئے ساتھ ہیں۔ قریب ترین ایک شخص ایک چھوٹا ڈبا اٹھائے ہوئے ہے جس میں غریبوں میں تقسیم سے بچ جانے والے زیورات ہیں۔‘

    مارٹن ہونی برجر مزید لکھتے ہیں، ’ایک رانی تو سنسار چند کی بیٹی (گڈاں) ہیں جن سے اور جن کی بہن سے رنجیت سنگھ نے اکٹھے شادی کی تھی اور جس میں، مَیں شریک بھی ہوا تھا مگر میں انھیں پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ ان کی بہن کا پہلے ہی میری عدم موجودگی میں انتقال ہو چکا ہے۔‘ گڈاں کے علاوہ مہاراجہ کی تین راجپوت بیویاں، ہردیوی، راج دیوی اور رجنو کور بھی ستی ہوئیں۔

    جنازہ اٹھنے کا منظر وہ یوں بیان کرتے ہیں ’اب جنازے کا جلوس چل رہا ہے۔ ہزاروں افراد پیدل ساتھ ہیں۔ جنازے کے پیچھے چار رانیوں کو اب کھلی پالکیوں میں لایا جا رہا ہے۔ ان کے پیچھے سات کنیزیں پیدل اور ننگے پاؤں آرہی ہیں۔ ان کی عمر چودہ پندرہ سال سے زیادہ نہیں لگتی۔ اس غم ناک منظر پر شاید ہمارے دل ان سب سے زیادہ دھڑک رہے تھے جو اس رسم کا شکار ہونے جارہی تھیں۔ برہمن اشلوک، سکھ گرنتھ صاحب پڑھتے اور مسلمان یا اللہ، یااللہ پکارتے ساتھ تھے۔ آہستہ بجتے ڈھول اور دھیمے لہجے میں بولتے لوگوں کی آوازیں ماحول کی سوگواریت میں اضافہ کر رہے ہیں۔‘

    لاہور میں 1847ء میں رنجیت سنگھ کی سمادھی تعمیر کر لی گئی اور وہاں ایک بڑے کوزے میں رنجیت سنگھ کی راکھ اور چھوٹے برتنوں میں رانیوں اور کنیزوں کی راکھ محفوظ کردی گئی۔

    رنجیت سنگھ اعلیٰ نسل کے گھوڑوں‌ کا بہت شوق رکھتا تھا۔ اس کے اصطبل میں موجود گھوڑوں میں سے ایک ہزار گھوڑے مہاراجا کے لیے مخصوص تھے۔ لیلیٰ‌ ان میں سب سے خاص گھوڑی تھی۔ رنجیت سنگھ نے اسے حاصل کرنے کے لیے نہ صرف اپنے سپاہیوں کی جانیں گنوائیں بلکہ اس گھوڑی کو پانے کے لیے خوب رقم بھی خرچ کی۔ تب مہاراجا اسپِ لیلیٰ کا مالک بنا اور اسے ہیروں اور سونے سے مزین کیا۔ اس جانور سے رنجیت سنگھ کی انسیت کا خوب چرچا ہوتا تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ لیلیٰ‌ کی موت پر اتنا رویا کہ اسے چپ کروانا مشکل ہوگیا تھا۔

  • چراغ حسن حسرت: ادب اور صحافت کی دنیا کا گوہرِ‌ تاب دار

    چراغ حسن حسرت: ادب اور صحافت کی دنیا کا گوہرِ‌ تاب دار

    ہندوستان کی تاریخ میں بہت کم ایسی شخصیات گزری ہیں جنھوں نے نثر اور نظم نگاری کے ساتھ ساتھ صحافت کے میدان میں بھی اپنے نام کا سکہ جمایا۔ مولانا ظفر علی خان اور مولانا محمد علی جوہر کے نام تو سرفہرست ہیں ہی، لیکن چراغ حسن حسرت بھی انہی خصوصیات کے حامل تھے۔ آج حسرت کی برسی منائی جا رہی ہے۔

    چراغ حسن حسرت جیّد صحافی اور عمدہ شاعر بھی تھے۔ مزاحیہ کالم نگاری میں ان کا مقام قابل رشک ہے۔ بدقسمتی سے آج حسرت کے فن و شخصیت کا تذکرہ کم ہی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ کتب بینی اور مطالعہ کا رجحان کم ہوجانا ہی نہیں بلکہ نئی نسل کی دل چسپی ادب اور ادبی مضامین میں نہ ہونا بھی ہے۔ اردو کتابیں اور اخبار پڑھنے والے پرانے لوگ حسرت کے نام اور ان کی تحریروں سے خوب واقف ہیں جو اب ایک ایک کر کے اٹھتے جارہے ہیں۔ خاص طور پر حسرت کے کالم لوگ بہت شوق سے پڑھا کرتے تھے۔ 26 جون 1955ء کو چراغ حسن حسرت لاہور میں وفات پا گئے تھے۔

    حسرت نے کئی ماہ ناموں اور یومیہ بنیاد پر شایع ہونے والے مؤقر اخبارات کی ادارت کی اور مضامین بھی لکھے۔ وہ باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے، اور فوج میں ملازمت کی وجہ سے اکثر ساتھی ان کو میجر حسرت بھی کہا کرتے تھے۔

    چراغ حسن حسرت 1904 ء میں بارہ مولا کشمیر میں پیدا ہوئے۔ زمانۂ طالب علمی میں شاعری کی طرف مائل ہوئے اور لکھنے لکھانے کا شوق وقت کے ساتھ بڑھتا چلا گیا۔ میٹرک کرنے کے بعد وہ پاکستان آ گئے۔ اپنے کیریئر کا آغاز مختلف اسکولوں میں اردو اور فارسی پڑھانے سے کیا۔ اور پھر صحافت سے منسلک ہوگئے۔ اپنے دور کے کئی روزناموں‌ میں ادارت کے ساتھ قلمی ناموں سے کالم بھی شایع کروانے لگے۔ ان میں ’’کولمبس، کوچہ گرد اور سند باد جہازی‘‘ کے نام سے ان کے کالم اور تبصرے بھی بہت پسند کیے گئے۔ کلکتہ میں اپنا قلمی سفر شروع کرنے کے بعد 1920ء میں وہ شملہ کے ایک اسکول میں فارسی کے استاد مقرر ہوئے جہاں مولانا ابوالکلام آزاد سے ملاقات ہوئی اور ان کا حسرت کے ذہن اور قلم پر بہت اثر نظر آتا ہے۔ کئی اخبارات میں کام کرنے کے بعد مولانا ظفر علی خان کی دعوت پر حسرت صاحب لاہور آگئے اور ان کے اخبار ’’زمیندار‘‘ سے وابستہ ہوئے۔ ہندوستان میں ان کا قلم اپنا زور دکھا کر کئی مداح بنا چکا تھا جن میں مشاہیر بھی شامل تھے۔ بعد میں لاہور آکر بھی انھیں کئی نابغۂ روزگار شخصیات کی رفاقت نصیب ہوئی جنھوں نے حسرت کو بہت سراہا۔

    چراغ حسن حسرتؔ کا شمار بیسویں صدی کے ان مشاہیر میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی علمی و ادبی شخصیت سے اپنے دور میں ادب اور صحافت کے شعبہ پر گہرا اثر چھوڑا۔ شاعری پر وہ توجہ بہت کم دے سکے مگر اردو نثر میں ایسے اسلوب کو متعارف کرایا جسے سبھی نے سراہا ہے۔ چراغ حسن حسرتؔ کی نثر کے بارے میں شورش کاشمیری لکھتے ہیں: ’’وہ نثر کی ہر صنف پر قادر تھے، سیرت بھی لکھی، افسانے بھی تحریر کیے، تاریخ پر بھی قلم اٹھایا۔ بچوں کا نصاب بھی لکھا۔‘‘

    حسرتؔ کی نثر میں متین و سنجیدہ، خالص ادبی و رومانی اور مزاحیہ تحریریں سبھی شامل ہیں۔ فکاہیہ مضامین کے علاوہ خاکہ نویسی، تراجم، تنقیدی تبصرے اور مضامین بھی حسرت کے قلم سے نکلے۔ ان کی تخلیقات پر مشتمل کتابیں اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔

  • قیوم نظر: اردو غزل کو نیا مزاج اور آہنگ عطا کرنے والا شاعر

    قیوم نظر: اردو غزل کو نیا مزاج اور آہنگ عطا کرنے والا شاعر

    ادب کی دنیا میں مختلف نظریات اور دبستان سے وابستہ ہونے والوں نے گروہی سرگرمیوں کے لیے تنظیموں اور اداروں کی بنیاد رکھی جن میں‌ بعض‌ پلیٹ فارم ایسے تھے جن کے ذریعے نہ صرف ادب سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوا بلکہ اس نے نئے لکھنے والوں کی راہنمائی اور تربیت کا بھی کام کیا۔ حلقۂ اربابِ ذوق ایسا ہی ایک پلیٹ فارم تھا جس کی بنیاد رکھنے والوں میں‌ قیوم نظر بھی شامل تھے۔ لیکن پھر ادبی گروہ بندیوں کی وجہ سے قیوم نظر کو تنظیم سے دور ہونا پڑا۔ وہ اردو اور پنجابی زبانوں کے معروف شاعر تھے جنھوں نے ڈرامہ بھی لکھا اور بہترین تراجم بھی کیے۔ اردو غزل گوئی میں قیوم نظر کو ایک نئے مزاج اور آہنگ کا شاعر کہا جاتا ہے۔

    قیوم نظر کا یہ تذکرہ ان کی برسی کی مناسبت سے کیا جارہا ہے۔ وہ 23 جون 1989ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    قیوم نظر نے حلقۂ اربابِ ذوق کی بنیاد رکھنے کے بعد اپنے ہم خیال ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ مل کر ادبی سرگرمیوں‌ کو فروغ دیا اور اس بینر تلے فعال رہے۔ ان کے ایک رفیق خواجہ محمد ذکریا اپنے اخباری کالم میں‌ لکھتے ہیں، قیوم نظر حلقۂ اربابِ ذوق کے ’بڑوں‘ میں بہت پہلے سے شامل تھے۔ ایک سے زیادہ دفعہ سیکرٹری بھی رہے تھے۔ تقسیم ملک کے بعد حلقے میں کچھ نئے لوگ بھی شامل ہوگئے جن میں انتظار حسین، ناصر کاظمی، شہرت بخاری وغیرہ تھے۔ قیوم نظر کا گروپ پہلے سے موجود تھا۔ دونوں گروپوں میں حلقے پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے کشمکش شروع ہوگئی۔ چند سال قیوم نظر کا گروپ غالب رہا، پھر دوسرا گروپ غالب آگیا۔ حلقے نے بہت اتار چڑھاؤ دیکھے رفتہ رفتہ قیوم نظر اور ان کے گروپ کی اہمیت کم ہوتی گئی پھر قیوم نظر کی زندگی میں پے در پے ایسے حادثات ہوئے کہ وہ مجبوراً ادبی محفلوں سے کنارہ کش ہوگئے۔ پہلا حادثہ یہ ہوا کہ ان کی نظر کمزور ہوگئی۔ ان کے عزیز دوست انجم رومانی نے انھیں اس سلسلے میں بڑے خلوص سے ایک غلط مشورہ دیا۔ انھوں نے کہا کہ آنکھوں کے کسی معالج سے علاج کروانے کی بجائے آپ مجھ سے علاج کرائیں۔ میرے پاس اس کے لیے ایک بہت عمدہ کتاب ہے جس میں آنکھوں کے علاج کے لیے بہت اچھی ’ایکسرسائز‘ بتائی گئی ہیں۔ انھوں نے ایکسرسائز کرائی تو آنکھیں متورم ہوگئیں اور بینائی ایسی خراب ہوئی کہ ایک ایک کے دو دو نظر آنے لگے۔ ماہر آئی سرجنز کے پاس گئے تو انھوں نے کہا کہ اب علاج ممکن نہیں۔ وفات تک بینائی کی یہی کیفیت رہی۔

    اس دوران پہلے ان کے بڑے بیٹے کا لندن میں انتقال ہوگیا جو کئی سال پہلے وہاں کا شہری بن چکا تھا۔ اس حادثے کو تو وہ برداشت کرگئے۔ اس کے دو تین برس بعد ان کے چھوٹے بیٹے سلمان بٹ کا ایک حادثے میں انتقال ہوگیا۔ اس حادثے نے قیوم نظر کو بالکل دل شکستہ کردیا۔ وہ لاہور سے بھی بیزار ہوگئے۔ وہ اپنی ایک بیٹی کے پاس کراچی میں رہنے لگے اور وہیں 23 جون 1989ء کو وفات پائی۔ اگلے دن تدفین ان کی وصیت کے مطابق لاہور میں ہوئی۔

    قیوم نظر لاہور میں‌ 7 مارچ 1914ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام عبدالقیوم تھا۔ وہ 1944ء سے 1955ء تک حلقہ اربابِ ذوق کے سیکرٹری رہے۔ قیوم نظر نے اردو غزل کو ایک نیا مزاج، نیا آہنگ عطا کیا۔ وہ میر تقی میر اور فانی بدایونی سے متأثر تھے۔ تاہم روایتی بندشوں کے ساتھ ان کی شاعری میں فطرت کے تجربات اچھوتے اور تازہ ہیں۔ ان کی تصانیف میں "پون جھکولے”، "قندیل”، "سویدا”، "اردو نثر انیسویں صدی میں”، "زندہ ہے لاہور "اور "امانت ” شامل ہیں۔ انھوں نے بچّوں کے لیے ایک کتاب "بلبل کا بچہ ” بھی لکھی۔

    اردو ادب کی خدمت کرنے والے قیوم نظر نے پنجابی زبان میں بھی قابل ذکر کام کیا۔ میرا جی سے ان کی بے تکلفی تھی۔ وہ ادب میں نئے نئے تجربات کے امکانات پر غور کرتے تھے، تبادلۂ خیال کرتے تھے اور پھر اپنے اپنے انداز میں معاصر شاعری میں جدّت پیدا کرنے کے لیے لکھنے میں مشغول ہوجاتے تھے۔ ان کے دوسرے ساتھیوں میں مختار صدیقی، یوسف ظفر، حفیظ ہوشیار پوری، ضیاء جالندھری وغیرہ تھے۔

    قیوم نظر نے بی اے کیا اور اے جی آفس میں کلرک بن گئے۔ پاکستان بنا تو ایم اے اردو کیا اور پھر کئی سال محکمۂ تعلیم سے وابستہ رہے، پھر ٹیکسٹ بک بورڈ میں ماہرِ مضمون کی حیثیت سے کام کیا، اس کے بعد پاکستان نیشنل سینٹر لاہور کے ڈائریکٹر بن گئے۔ آخر میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ پنجابی میں صدرِ شعبہ کی حیثیت سے کام کیا۔ یعنی معمولی ملازمتوں سے گز رکر رفتہ رفتہ اعلیٰ عہدوں تک پہنچے۔ ان مصروفیات کے ساتھ ساتھ ادب و شعر سے ہمیشہ تعلق برقرار رکھا۔ ان کی اولین اور اہم تر حیثیت تو شاعر کی تھی لیکن نثر سے بھی دامن کشاں نہیں رہے۔ تنقید لکھی، خاکہ نگاری کی طرف بھی التفات کیا اور ڈرامے بھی لکھے۔ کئی کتابیں مرتب کیں جن میں ان کی نصابی کتابیں میرے نزدیک بہت اہم ہیں۔ نصابی کتابوں کو ترتیب دینے میں وہ اپنے رفقاء سے بہت بہتر تھے۔

    شاعری میں جدید انداز کے اچھے شاعر تھے۔ موضوعات کی جدت کے ساتھ ہیئت کے تجربات کرتے رہتے تھے۔ قیوم نظر نے عمر کے آخری ایک دو برسوں میں اپنی کلیات شاعری ’قلب و نظر کے سلسلے‘ کے نام سے ترتیب دی۔ وہ جدید نظمیں تو لکھتے ہی تھے مگر اپنے بعض معاصرین کے برخلاف غزلیں بھی برابر کہتے رہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے بچوں کے لیے شاہکار نظمیں تخلیق کیں جن کے کئی مجموعے چھپ چکے ہیں۔ کسی زمانے میں پوری پوری کلاس کو یہ نظمیں یاد ہوتی تھیں جن میں خصوصاً ’بلبل کا بچہ‘ ایسی پُرتاثیر تھی کہ بچوں کے دلوں میں عمر بھر کے لیے بس جاتی تھی۔ قیوم نظر کے گیت ، ترانے اور نعتیں بھی ان کی شاعری کے تنوع کا اچھا اظہار ہیں۔

    وہ لاہور اور امرتسر دونوں شہروں میں جوان ہوئے اس لیے پنجابی تو ان کی اپنی زبان تھی لیکن زندگی بھر اردو اوڑھنا بچھونا رہی۔ اردو تحریر و تقریر میں اظہار پر یکساں قدرت رکھتے تھے لیکن شاید کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ان کی انگریزی بھی بہت اچھی تھی۔ بہت سے جدید امریکی اور برطانوی شعراء کی نظموں کے ترجمے کرتے رہتے تھے۔

    مجموعی طور پر بڑے ہنس مکھ، دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے دشمن تھے۔ انھوں نے بذلہ سنجی سے بہت سے لوگوں کو دشمن بھی بنایا لیکن بہت سے لوگ ان کے محب بھی تھے۔ اگر آخری زندگی میں دل کو پاش پاش کرنے والے صدموں سے دوچار نہ ہوتے تو کہا جاسکتا کہ انھوں نے اچھی زندگی گزاری۔ ان کے مزاج میں اگر لوگوں کو فقرہ بازی سے ناراض کرنے کی عادت نہ ہوتی تو اور زیادہ کامیاب زندگی بسر کرتے مگر انسان کا جو مزاج بن گیا سو بن گیا۔

    یہاں‌ ہم قیوم نظر کے انٹرویو سے چند اقتباسات بھی نقل کرتے ہیں‌ جس سے قیوم نظر کی زبانی انھیں جاننے کا موقع ملے گا، وہ بتاتے ہیں، ’’خود میرا یہ حال تھا کہ میرے والد خواجہ رحیم بخش سرکاری ملازم تھے۔ ان کا انتقال ہو چکا تھا۔ چار بھائیوں اور دو بہنوں کا بوجھ بہ حیثیت بڑے بھائی مجھ پر آپڑا تھا۔ میں نے ٹیوشن اور ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم مکمل کی تھی اور اورینٹل کالج لاہور سے اردو میں ایم اے کرنے کے بعد اکاؤنٹنٹ جنرل آفس میں لگا ہوا تھا۔ میں اے جی آفس کی نوکری سے سخت اکتا گیا تھا لیکن اس سے گلو خلاصی بھی ممکن نہ تھی۔ میں سخت پریشان تھا۔ اتفاق سے یونیورسٹی کے مشاعرے میں میری ملاقات گورنر پنجاب عبدالرب نشتر سے ہوگئی۔ اے جی آفس سے میری ناخوشی کا سن کر انہوں نے اپنی ذاتی کوشش سے میرا تبادلہ محکمۂ تعلیم میں کروا دیا۔‘‘

    ’’1956ء میں مجھے یونیسکو کا کریٹیو رائٹر کا فیلو شپ ملا اور اس طرح مجھے فرانس، اٹلی، اسپین، ہالینڈ، سوئٹزر لینڈ، روم وغیرہ گھومنے اور وہاں کے تخلیقی فن کاروں سے ملاقات کا موقع ملا۔‘‘

    ’’شاعری کی ابتدا میں نے کالج ہی کے زمانے سے کر دی تھی۔ میں نے ایک دن اپنے استاد شمسُ العلما تاجور نجیب آبادی صاحب سے پوچھا کہ میں کیا تخلّص رکھوں؟ بولے ’’میں اپنے شاگردوں میں اب مزید کسی باغی کا اضافہ کرنا نہیں چاہتا۔ ن م راشد، اختر شیرانی، کنور مہندر سنگھ اور دیگر کئی نامور شعرا ان کی شاگردی میں رہ چکے تھے۔) میں نے وعدہ کیا کہ میں بغاوت نہیں کروں گا اس پر مشورہ دیا کہ ’’نظر تخلّص کر لو۔‘‘

  • نادر شاہ:‌ وہ بادشاہ جو مغلیہ دلّی کا غارت گر مشہور ہے

    نادر شاہ:‌ وہ بادشاہ جو مغلیہ دلّی کا غارت گر مشہور ہے

    ایک لکڑہارے کا بادشاہ بن جانا اور اپنے دور کی بڑی مضبوط اور نہایت منظّم فوج تیار کرکے خطّے میں فتوحات حاصل کرنا حیرت انگیز اور قابلِ ذکر تو ہیں، مگر ہندوستان کی تاریخ میں اس کا نام قتل غارت گری اور تباہی کے لیے بھی لیا جاتا ہے۔ یہ قصّہ ہے مغرب میں سلطنتِ عثمانیہ میں شامل عراق اور شام کے علاقوں سے لے کر مشرق میں دلّی تک بڑی فوجی مہمات سَر کرنے والے ایرانی بادشاہ نادر شاہ افشار کا۔

    مؤرخ اور مائیکل ایکسوردی (Michael Axworthy) نادر شاہ سے متعلق اپنی ایک تصنیف میں لکھتے ہیں، ’نادر شاہ نے ایران کو افغانوں کے قبضے سے نکالا، عثمانی ترکوں کو ایران سے بے دخل کیا، روسیوں سے اپنے علاقے خالی کروائے، عثمانی سلطنت کے زیرِ تسلط علاقوں پر حملہ آور ہوئے اور انھیں شکست دے کر ایران کا بادشاہ بنے۔ افغانوں پر ان کے علاقوں میں گھس کر حملہ کیا اور وہ علاقے دوبارہ فتح کیے، پھر انڈیا پر حملہ کر کے دلّی کو فتح کیا۔ وسطی ایشیا میں داخل ہو کر ترکمان اور ازبکوں کو قابو کیا۔‘

    ایران کا بادشاہ نادر شاہ اٹھارہویں صدی میں مغلیہ عہد کے مشہور شہر دلّی کو تاراج کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں سے تختِ طاؤس اور کوہِ نور بھی لے گیا۔ اسے ایشیا کا نپولین اور سکندرِ ثانی بھی لکھا گیا ہے۔ مؤرخین کے مطابق بہت کم عرصہ میں مغرب میں سلطنتِ عثمانیہ میں شامل عراق اور شام کے علاقوں سے لے کر ہندوستان تک متعدد مہمات نادر شاہ کو ایک بہترین اور باتدبیر فوجی کمانڈر ثابت کرتی ہیں۔ لیکن وہ مضبوط اور مستحکم حکومت چھوڑ کر دنیا سے نہیں گیا۔ 19 جون 1747ء کو نادر شاہ کو قتل کر دیا گیا۔

    نادر شاہ کا تعلق کسی شاہی گھرانے یا نوابی خاندان سے نہیں تھا۔ کہتے ہیں‌ کہ وہ نوعمری میں‌ لکڑیاں کاٹ کر بیچتا تاکہ گزر بسر کرسکے۔ بعض کتابوں میں اسے گڈریا لکھا گیا ہے۔ وہ ایرانی سلطنت کے دارالحکومت سے دور ایک سرحدی علاقے میں پیدا ہوا۔ نادر شاہ باصلاحیت تھا، جس کے والد کا سایہ جلد اس کے سَر سے اٹھ گیا۔ اس کے باوجود صرف تیس برس کی عمر میں نادر شاہ تاج و تخت سنبھالنے کے ساتھ ایک طاقت ور اور منظّم فوج کا سالار بن چکا تھا۔

    نادر شاہ کی تاریخ و سنہ پیدائش پر مؤرخین میں کچھ اختلاف ہے، لیکن ایکسوردی کے مطابق یہ 1698 کا زمانہ تھا جب نادر شاہ درّہ غاز کے خطّے میں دستگرد نامی گاؤں میں پیدا ہوا۔ اس کی مادری زبان ترکی تھی لیکن قیاس ہے کہ جلد ہی نادر شاہ نے فارسی بھی سیکھ لی ہو گی۔ یہ علاقہ خراسان کے دارالحکومت مشہد سے شمال میں تھا۔

    نادر شاہ کے نام کے ساتھ اکثر افشار لکھا جاتا ہے جس کی وجہ والد کا ترکمانوں کے افشر قبیلے کے جانوروں کی نگرانی اور دیکھ بھال ہے۔ انھیں ایک چرواہا لکھا گیا ہے اور یہ بھی کہ وہ ایک باعزّت اور لائقِ اعتبار شخص تھے۔ اسی بنیاد پر بعض مؤرخین کے مطابق انھیں اپنے گاؤں کا سرپرست بنا دیا گیا تھا۔ نادر شاہ ایک دہری ثقافت میں پروان چڑھا۔ وہ ایرانی سلطنت میں ترکی زبان بولنے والا شہری تھا جس نے بعد میں فارسی ثقافت کو بھی سمجھا اور بڑا مقام و مرتبہ پایا۔

    نادر شاہ نے دس سال کی عمر میں گھڑ سواری اور شکار کرنا سیکھا۔ وہ تیر اندازی اور نیزہ بازی میں‌ ماہر تھا۔ والد کے انتقال کے بعد اس نے غربت دیکھی مگر پھر نادر شاہ پر قسمت نے یاوری کی اور وہ ایک بااثر حکم راں اور فاتح بنا۔

    اگرچہ نادر شاہ ہندوستان میں ایک ظالم اور نہایت خود سر حکم راں مشہور ہے، لیکن مؤرخ مائیکل ایکسوردی اس کی زندگی کا ایک جذباتی پہلو سامنے لاتے ہیں۔ ان کے مطابق بادشاہ بننے کے بعد اس نے اپنی غربت کے دنوں کے ایک ساتھی کو نوازتے ہوئے تلقین کی کہ ’مغرور مت ہو جانا، اپنا خچر اور وہ لکڑیاں چننا یاد رکھنا۔‘ اسی طرح جب نادر شاہ دلّی تاراج کرنے کے بعد سندھ کے راستے لوٹ رہا تھا تو ایک مقام پر اپنے ساتھیوں سے جذباتی انداز میں مخاطب ہوا اور کہا کہ کسی کو حقیر مت جانو، کیوں‌ کہ ہمّت اور حوصلے سے کام لے کر کوئی بھی بڑا مقام حاصل کرسکتا ہے۔

    مؤرخین کے مطابق نادر شاہ پندرہ سال کی عمر سے ایک مقامی سردار اور ابیورد شہر کے گورنر بابا علی بیگ کی سرپرستی میں رہا۔ بابا علی بیگ خراسان کے افشروں میں اہم سردار تھا۔ یہیں اس نے ایک تمنچی کی حیثیت سے اپنا سفر شروع کیا اور وقت کے ساتھ ساتھ سردار کا اعتماد حاصل کرلیا۔ یہیں سے نادر شاہ ایک فوج تیّار کرنے میں کام یاب ہوا اور آنے والے برسوں میں فاتح بن کر ابھرا۔ نادر شاہ کے ایک فوجی کمانڈر سے حکم ران بننے کی کہانی کئی موڑ لیتی ہے جس کی تفصیل یہاں ممکن نہیں۔ اب ہم نادر شاہ کی دلّی آمد کا احوال رقم کرتے ہیں۔

    نادر شاہ درۂ خیبر کے راستے برصغیر میں داخل ہوا اور پشاور اور لاہور کو فتح کر کے کرنال کے مقام تک پہنچا جو دلّی سے صرف 70 میل شمال میں تھا۔ مغلیہ سلطنت اس وقت اندرونی خلفشار اور شدید بدانتظامی کا شکار تھی اور کہتے ہیں کہ اس وقت کے بادشاہ محمد شاہ رنگیلا اس آندھی کا مقابلہ کرنے کے قابل ہی نہ تھے۔ نتیجتاً نادر شاہ کی فوج اور اس کے توپ خانے نے ہزاروں ہندوستانی فوجی بھون ڈالے، مگر خود ایرانی فوج کا بہت کم جانی نقصان ہوا۔ کرنال کی جنگ جیت کر نادر شاہ 1739 میں دلّی میں داخل ہوا اور دو ماہ تک وہاں قیام کیا۔ نادر شاہ یہاں اپنی حاکمیت قائم کرنے کے بجائے بہت سا مال و زر سمیٹ کر رخصت ہوگیا تھا۔

    دلّی میں قتلِ عام کی داستان کو نامی گرامی مؤرخین اور اہلِ قلم نے تصانیف میں شامل کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ نادر شاہ کی فوج پر دلّی کی گلیوں میں حملوں کے بعد شروع ہوا۔ نادر شاہ نے فوج کو اپنی ہیبت اور دھاک بٹھانے کے لیے قتلِ عام کا حکم دیا، اور پھر بڑی خوں ریزی اور لوٹ‌ مار ہوئی۔ مشہور ہے کہ اس وقت 30 ہزار ہندوستانی جن میں سپاہی، امراء اور شہری شامل تھے، جان سے گئے۔ دوسری طرف مغل بادشاہ نے نادر شاہ کو دلّی سے رخصت کرتے ہوئے سونا اور چاندی اور دریائے سندھ کے مغرب میں اپنی کئی جاگیریں بھی نذر کیں۔ اسے کوہ نور، دریائے نور اور تاج ماہ نامی ہیرے بھی تحفتاً پیش کیے گئے۔

    نادر شاہ کی مغل دربار میں آمد اور بادشاہ کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کا احوال مرزا مہدی نے اپنی تصنیف ’تاریخِ نادری‘ میں کچھ یوں لکھا ہے۔ ’اس دربار میں شہنشاہ اور اس کے امرا کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس دربار میں نادر شاہ نے اپنے ہاتھوں سے محمد شاہ کے سَر پر ہندوستان کا تاج رکھا اور جواہرات سے جڑی ایک تلوار اور بیش قیمت طلائی کمربند عطا کیا۔ شہنشاہ کے امرا کو بھی خلعت فاخرہ پیش کی گئیں۔ شہنشاہ ہند نے اپنی تاجوری کی بحالی پر اظہار تشکر کے طور پر دریائے سندھ کے مغربی کنارے کا تمام علاقہ نادر شاہ کی عملداری میں دینے کی پیشکش کی۔ یہ علاقہ تبت اور کشمیر کی سرحدوں سے لے کر دریائے سندھ کے بحیرہ عرب میں اترنے تک پھیلا ہوا تھا۔ اس میں ٹھٹہ کے اضلاع، بندرگاہیں اور قلعے بھی شامل تھے۔‘

    مصنّف نے اسی کتاب میں دلّی سے نادر شاہ کی رخصتی کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھا ہے، ’نادر نے سَر پر ایک سرخ رنگ کی ٹوپی پہن رکھی تھی جس پر قیمتی موتی جڑا تھا۔ ٹوپی کے گرد سفید کشمیری شال لپٹی تھی۔ وہ کڑیل جوان، تنومند اور سیدھی کمر کے ساتھ بیٹھا نظر آ رہا تھا۔ اس کی داڑھی اور مونچھوں کو خضاب سے کالا کیا گیا تھا۔‘

    1745 میں نادر شاہ نے ترکوں‌ کی فوج کو شکست دی تھی جسے مؤرخین اس کی آخری شان دار فتح لکھتے ہیں۔ وہ مسلسل فوجی مہمّات اور شورش کے خلاف کمربستہ رہنے کی وجہ سے تھک چکا تھا۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ چڑچڑا، شکی اور بدمزاج ہوتا گیا۔ اس نے اپنے بیٹے اور ولی عہد رضا قلی کو بھی اندھا کروا دیا تھا۔ اسے شک تھا کہ رضا قلی اس کے اقتدار کے خلاف سازش کررہا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نادر شاہ مال و دولت کی ہوس میں‌ گرفتار ہوگیا تھا۔ اسی دور میں ایران میں جگہ جگہ بغاوتیں پھوٹنے لگیں اور نادر شاہ کی مخالفت بڑھتی چلی گئی۔

    کہا جاتا ہے کہ اگر نادر شاہ نہ ہوتا تو شاید آج ایران بھی نہ ہوتا۔ بلکہ وہ ’افغانوں، روسیوں اور عثمانیوں میں تقسیم ہو جاتا۔‘ غربت کی دلدل سے نکل کر ایرانی سلطنت کا اقتدار سنبھالنے والے نادر شاہ کو محافظ دستے کے چند سپاہیوں نے قتل کر دیا تھا۔

  • فرانز کافکا:‌ وہ ادیب جسے ایک دوست کی ‘وعدہ خلافی’ نے دنیا بھر میں پہچان دی

    فرانز کافکا:‌ وہ ادیب جسے ایک دوست کی ‘وعدہ خلافی’ نے دنیا بھر میں پہچان دی

    بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں یورپ کے جن اہلِ قلم اور ادیبوں نے اپنے تخلیقی کام کی وجہ سے نام و مرتبہ پایا اور دنیا بھر میں پہچانے گئے، ان میں سے ایک فرانز کافکا بھی ہے کافکا اپنے دور کا ایک نابغہ تھا جسے ستائش کی تمنا تھی اور نہ صلے کی پروا بلکہ وہ اپنی زندگی میں گویا گوشۂ گمنامی میں رہا اور اگر اس کا ایک دوست ‘وعدہ خلافی’ نہ کرتا تو شاید دنیا کافکا کو نہ جان پاتی۔

    فرانز کافکا ایک اعلیٰ‌ پائے کا ادیب تھا۔ اس کی آرزو تھی کہ بعد از مرگ اس کی تحریریں جلا دی جائیں۔ لیکن آج وہ سب تحریریں اُس کے ایک دوست کی وجہ سے عالمی ادب کا خزانہ ہیں۔ جرمنی کے معروف ادیب فرانز کافکا نے اپنے دوست میکس بروڈ کو وصیت کی تھی کہ وہ اس کی غیر مطبوعہ تخلیقات کو نذرِ‌ آتش کر دے، لیکن میکس بروڈ نے کافکا اس کی وصیت پر عمل نہیں کیا۔

    عالمی شہرت یافتہ جرمن افسانہ نگار کی کہانیاں بشمول اردو دنیا کی متعدد زباںوں میں ترجمہ کی گئیں۔ کافکا کے چند ادھورے ناول، افسانے اور اس کے تحریر کردہ خطوط بھی دنیا کے سامنے لائے گئے اور عین جوانی میں دارِ فانی سے کوچ کر جانے والے فرانز کافکا نے جیسے دوبارہ جنم لیا۔ فرانز کافکا کے ناول ’دی ٹرائل‘ اور ’دی کاسل‘ کو قارئین نے بہت سراہا اور ان کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ اس کی تماثیل جرمنی اور دنیا بھر میں مقبول ہیں۔

    تین جون 1924ء کو کافکا چالیس سال کی عمر میں چل بسا تھا۔ کافکا کی پیدائش 1883ء میں چیکوسلاواکیہ کے ایک قصبے پراگ میں ہوئی۔ وہ یہودی گھرانے کا فرد تھا۔ کافکا نے ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ کافکا کا خیال تھا کہ والدین اسے پسند نہیں کرتے۔ وہ اپنی کئی محرومیوں اور مسائل کی وجہ سے خود کو حرماں نصیب اور بدقسمت خیال کرتا تھا۔ کافکا ذہین تھا، مگر خود اعتمادی سے محروم ہوگیا تھا۔ وہ نفیساتی طور پر حساسیت کا شکار ہوکر سب سے گریزاں رہا۔ کافکا نے شادی بھی نہیں‌ کی تھی۔

    قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کافکا نے ایک انشورنس کمپنی میں ملازمت اختیار کرلی۔اس کے ساتھ قانون کی پریکٹس بھی شروع کردی۔ لیکن اسے ہمیشہ محرومی اور کم تر ہونے کا احساس ستاتا رہا۔ اس جرمن ادیب نے ایک مرتبہ خودکشی کی کوشش بھی کی مگر بچ گیا اور پھر اس کے دوست نے اس کو سنبھالا۔ بعد میں کافکا تپِ دق کی بیماری میں‌ مبتلا ہو کر دنیا سے رخصت ہوا۔

    کافکا کی ایک تمثیل ملاحظہ کیجیے جس کے مترجم مقبول ملک ہیں۔

    ایک فلسفی ہمیشہ اسی جگہ کے ارد گرد گھومتا رہتا تھا جہاں بچے کھیلتے تھے۔ وہ جب کبھی بھی یہ دیکھتا کہ کسی بچے کے پاس لٹو ہے، تو وہ جھاڑیوں کے پیچھے تاک لگا کر بیٹھ جاتا۔ جیسے ہی لٹو گھومنے لگتا، فلسفی دوڑ کر جاتا اور اسے پکڑنے کی کوشش کرتا۔

    وہ اس بات کی کوئی پروا نہ کرتا کہ بچے اسے اپنے کھلونے سے دور رکھنے کی کوشش کرتے۔ اگر وہ لٹو کو اپنے حصار میں لینے میں کامیاب ہو جاتا، تو جب تک لٹو گھومتا رہتا، فلسفی بھی خوش رہتا۔ لیکن پھر ایک ہی لمحے میں وہ لٹو کو زمین پر پٹخ دے مارتا اور آگے بڑھ جاتا۔ اسے یقین تھا کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کا علم اور شعور، مثلاً گھومتے ہوئے لٹو کا بھی، عمومی آگہی کے لیے کافی تھا۔ اسی لیے وہ خود کو بڑے مسائل پر غور و فکر میں مصروف نہیں رکھتا تھا۔ ایسا کرنا محنت اور نتائج کے حوالے سے اسے غیر سود مند لگتا۔

    اسے لگتا تھا کہ کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کے چھوٹے پن کا بھی اگر واقعی علم ہو جائے، تو سب کچھ معلوم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے تو وہ خود کو صرف ایک گھومتے ہوئے لٹو کے ساتھ ہی مصروف رکھتا تھا۔

    یہی وجہ تھی کہ ہمیشہ جب کوئی لڑکا لٹو کو گھمانے کی تیاریوں میں مصروف ہوتا، تو اسے امید ہو جاتی کہ اب وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گا۔ اس کے بعد جب لٹو گھومتا تو اپنے اکھڑے ہوئے سانس کے ساتھ وہ جیسے جیسے اس کا پیچھا کرتا، اس کی امید شعور میں بدلتی جاتی۔

    لیکن پھر جیسے ہی وہ لکڑی کے اس فضول سے گول ٹکڑے کو ہاتھ میں لیتا تو اس کا جی متلانے لگتا۔ تب بچوں کی وہ چیخ پکار اور احتجاج بھی، جنہیں وہ تب تک سن نہیں پاتا تھا، اچانک اس کے کانوں کے بہت اندر تک پہنچنے لگتے۔ یہی چیخ پکار اور احتجاج اس کے وہاں سے فرار کا سبب بنتے، اسی طرح گرتے پڑتے، جیسے کسی لڑکے نے گھمانے کے لیے کوئی لٹو بڑے پھوہڑ انداز میں زمین پر پھینک دیا ہو۔

  • گلاب سنگھ: ’ایشیا کا سب سے بڑا بدمعاش‘

    گلاب سنگھ: ’ایشیا کا سب سے بڑا بدمعاش‘

    تاریخ کے وہ ابواب جن میں قوم اور برادری کا فخر اور برتری کا احساس غالب رہا ہے، کئی مغالطوں اور طرح طرح کے پروپیگنڈے سے بھرے پڑے ہیں، اور جس طرح‌ حکم رانوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے اور سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے ہر جائز اور ناجائز راستہ اپنایا، اسے بھی چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن حقائق کو پوری طرح مسخ نہیں تو بہرحال نہیں کیا جاسکتا۔ ریاست جموں‌ و کشمیر کا معاملہ کچھ ایسا ہی ہے جہاں ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد انگریزوں نے اپنی مفاد کے لیے وہ سب کیا جس میں عوام کو بدترین حالات سے دوچار ہونا پڑا۔ آج کے دن اسی علاقہ جموں کا راجہ گلاب سنگھ چل بسا تھا جو عوام پر اپنے ظلم و ستم کے لیے مشہور ہے۔

    سکھ سلطنت کے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ہندو ڈوگرا برادری کے گلاب سنگھ کو اس کی خدمات کے عوض جموں کا راجہ بنا دیا تھا۔ یہ سنہ 1822ء کی بات ہے۔ بعد میں گلاب سنگھ نے کئی علاقوں پر اپنا تسلط قائم کرلیا جن میں راجوری، پونچھ، بدرواہ اور کشتوار اور کئی دوسرے علاقے شامل ہیں۔

    جب برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے پنجاب میں بھی قدم جما لیے تو گلاب سنگھ کو مہاراجہ بنا دیا گیا اور 1846ء میں معاہدۂ امرتسر کے تحت پچھتر لاکھ روپے میں کشمیر بھی اس کو دے دیا۔ یوں جموں و کشمیر کے مہاراجہ بن جانے والے گلاب سنگھ کو اپنے ہی لوگوں پر ظلم ڈھانے کا موقع ملا گیا۔ وہ اپنی سفاکی اور قتل و غارت گری میں اس حد تک بڑھ گیا کہ رعایا کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا اور لوگوں سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا۔

    گلاب سنگھ کے دور میں جبر اور لوگوں پر مظالم کا ذکر ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر جنرل سَر ہنری ہارڈنج نے اپنے ایک خط میں کیا جو اس نے دو مارچ 1846 کو اپنی بہن کے نام لکھا تھا۔ اس خط میں وہ گلاب سنگھ کو ’ایشیا کا سب سے بڑا بدمعاش‘ لکھتے ہوئے بہن کو بتاتا ہے کہ گلاب سنگھ کو مہاراجہ بنانے کی وجہ کیا رہی اور اسے انگریز سرکار کی بدقسمتی لکھا ہے۔ اس مکتوب میں گورنر جنرل نے رقم کیا: ’بدقسمتی سے ان کی مدد کرنا لازمی ہے کیونکہ انھوں نے ہمارے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لیا اور ان کی سرحدیں ہماری سرحدوں سے ملتی ہیں، ہم بغیر کسی مشکل ان کی حفاظت کر سکتے ہیں اور سکھوں کی سلطنت میں سے انھیں ایک ٹکڑا دے کر سکھوں کے مقابلے میں ان کی طاقت کو تھوڑا بڑھا سکتے ہیں۔‘

    گلاب سنگھ اور ان کی ڈوگرا سلطنت سو برس سے زیادہ عرصہ قائم رہی جو بادشاہت پر مبنی مطلق العنان طرزِ حکومت تھا۔ برطانیہ میں بھی کشمیر کو ڈوگرا راجہ کے ہاتھوں‌ فروخت کرنے پر کڑی تنقید کی گئی تھی، کیوں کہ اس رقم کی وصولی کے لیے راجہ نے عام کشمیریوں پر بہت بھاری ٹیکس لگایا اور وصولی کے لیے ہر طرح کا جبر، زبردستی اور مظالم کیے گئے۔ ظالمانہ ٹیکس نظام کے ساتھ ساتھ ڈوگرا دور میں بیگار لینے کا بھی سلسلہ شروع ہوگیا جس پر انگریز افسران نے بھی کڑی تنقید کی۔

    ہندوستان میں‌ برطانوی فوج کے ایک افسر رابرٹ تھورپ نے اس وقت لکھا تھا کہ اس ناانصافی سے ’جدید تہذیب کی روح کی نفی ہوتی ہے اور اُس مذہب کے ہر اصول کے بالکل الٹ ہے جس کے پیروکار ہونے کا ہم دعوی کرتے ہیں۔‘

    گلاب سنگھ، جو اپنے پایۂ تخت لاہور میں موجود رنجیت سنگھ کا ایک منتظم کی حیثیت سے اعتماد حاصل کر چکا تھا، اب جمّوں کا راجا بنا دیا گیا۔ اس کا باپ رنجیت سنگھ کی جانب سے جمّوں کا منتظم رہا تھا اور گلاب سنگھ نے اپنے باپ ہی سے انتظامی امور اور سیاست سیکھی تھی۔ اسی کی موت کے بعد یہ اختیار گلاب سنگھ کو سونپا گیا تھا اور وہ کام یاب منتظم ثابت ہوا۔ بعد میں جہاں اس نے اپنے مربّی کے خلاف سازشیں کیں، وہیں انگریزوں‌ سے وفا کر کے اپنی سلطنت قائم کرنے میں بھی کام یاب رہا۔

    گلاب سنگھ ڈوگرا کا سنہ 1792ء بتایا جاتا ہے۔ جمّوں‌ میں پیدا ہونے والا گلاب سنگھ 30 جون 1857ء کو چل بسا تھا۔ کشمیر کی سرسبز وادی کا حسن پائمال کرنے اور لوگوں کی زندگی اجیرن کر دینے والے اس حکم راں کو انگریز انتظامیہ کے افسران اور برطانوی امراء نے بھی ظالم کہا اور برطانوی مؤرخین نے بھی اس کی سفاکیوں کو رقم کیا۔

    علّامہ اقبال اور اس وقت کے دیگر مسلم اکابرین بھی گلاب سنگھ کے رعایا پر ظلم اور بالخصوص کشمیری مسلمانوں‌ کے ساتھ وہاں ہونے والے سلوک پر اپنے غم و غصّے کا اظہار کرتے ہوئے انگریز سرکار کو مطعون کیا۔ اس حوالے سے یہ تحریر ملاحظہ کیجیے۔

    "جمّوں سے تعلق رکھنے والے تین بھائی گلاب سنگھ، دھیان سنگھ اور سچیت سنگھ تھے۔ سکھ سلطنت میں یہ بااثر اور طاقت ور تھے۔ سکھ سلطنت میں کئی اہم عہدوں پر غیر سکھ رہے تھے اور جمّوں کے یہ بھائی بھی ان میں سے تھے۔ جمّوں اور پنجاب کے درمیان کوئی خاص جغرافیائی حدِ فاصل نہیں تھی۔ اور نہ ہی اس وقت سیاسی طور پر کچھ فرق تھا۔ لوگوں کا ایک دوسرے علاقے میں بہت آنا جانا تھا۔”

    "لاہور سے سری نگر کے 180 میل سفر کے نصف راستے پر جموں شہر آتا تھا۔ جمّوں سے لاہور کا سفر، جمّوں سے سری نگر کے مقابلے میں بہت آسان تھا۔ اس لیے یہاں رہنے والوں کے زیادہ معاشرتی یا تجارتی روابط کشمیر کے مقابلے میں پنجاب سے تھے۔ آج پنجاب اور جمّوں کے درمیان سیاسی رکاوٹیں ہیں، لیکن سکھ حکومت کے وقت ایسا نہیں تھا۔ یہ عملاً پنجاب کی ایکسٹینشن تھی۔ جمّوں کے حکم رانوں کی پنجاب میں زمینیں تھیں اور یہی دوسری سمت میں بھی تھا۔”

    "لاہور سکھ سلطنت کا دارُالحکومت تھا اور غیرسکھ آبادی کے لیے پرکشش شہر تھا۔ سکھ آرمی میں بہت سے مسلمان اور ہندو شامل تھے اور کچھ کرسچن بھی۔ اس میں یورپی افسر بھی شامل تھے۔ لاہور دربار میں ان سب کو ترقی کے مواقع میسّر تھے۔ اور ان ترقی کے مواقع سے گلاب اور دھیان سنگھ نے بہت فائدہ اٹھایا تھا۔ انھوں نے سکھ سلطنت کو بڑھانے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ یہ رنجیت سنگھ کے معتمد تھے۔”

    "1831ء میں ایک فرنچ مؤرخ نے لکھا ہے کہ “اگرچہ گلاب سنگھ ناخواندہ ہیں، لیکن رنجیت سنگھ کے پسندیدہ ہیں اور میرے خیال میں اگلے حکم ران بنیں گے۔” سکھ سلطنت نے ان بھائیوں کو اپنے علاقوں اور جاگیروں میں خودمختاری دی ہوئی تھی۔ (اس وقت میں سیاست کا طریقہ یہی ہوا کرتا تھا)۔”

    "جب رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کیا تھا تو گلاب سنگھ سات سال کے تھے۔ رنجیت نے 1808ء میں جموں کے علاقے پر قبضہ کر کے یہاں کی خودمختاری ختم کر دی تھی۔ اس وقت گلاب سنگھ کی عمر سترہ برس تھی اور وہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ ان کی شہرت جمّوں کی بغاوت کے دوران بڑھی۔ انھیں مقامی علاقے کا علم تھا۔ چالاکی اور سفاکی میں ان کی شہرت تھی۔ جمّوں حکومت کرنے کے لیے مشکل جگہ تھی۔ یہاں پر لوگوں پر کنٹرول رکھنا اور ٹیکس وصول کرنا آسان نہیں رہا تھا۔ اپنی دہشت کی وجہ سے گلاب سنگھ ٹیکس نکلوانے میں اتنے مؤثر رہے تھے کہ ایک مؤرخ نے انھیں “جمّوں کا ویمپائر” کہا ہے۔”

  • جاذب قریشی: معروف شاعر، نقاد اور کالم نگار

    جاذب قریشی: معروف شاعر، نقاد اور کالم نگار

    معروف شاعر جاذب قریشی 21 جون 2021ء کو انتقال کرگئے تھے۔ انھوں نے تحقیقی اور تنقیدی کام بھی کیا اور تدریس و ادبی صحافت سے وابستہ رہے۔ آج جاذب قریشی کی برسی ہے۔

    جاذب قریشی کا آبائی شہر لکھنئو تھا۔ لیکن جاذب صاحب نے کلکتہ میں آنکھ کھولی تھی۔ وہ 3 اگست 1940ء کو پیدا ہوئے۔ جاذب قریشی کا اصل نام محمد صابر تھا۔ والد کا انتقال ہوا تو اس کنبے کو معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور بھائی کے ساتھ کم عمری میں جاذب صاحب محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہوگئے۔ انھوں نے لوہے کی ڈھلائی کا کام کیا اور سخت مشقت اور بھٹی کی تپش کو برداشت کرتے ہوئے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا۔ تقسیم سے قبل ہی شاعری کا شوق ہوگیا تھا اور لکھنؤ میں منعقد ہونے والے مشاعرہ سننے جانے لگے تھے۔ جاذب قریشی قیامِ پاکستان کے بعد لاہور ہجرت کر گئے اور بعد میں کراچی منتقل ہوگئے۔ یہاں جامعہ کراچی سے تعلیم حاصل کی اور اپنی محنت کی بدولت شعبۂ تدریس اور ادبی صحافت میں جگہ بنائی۔ شادی کی اور اپنے کنبے کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ انھیں فلم سازی کا بھی شوق تھا اور ایک فلم بھی بنائی تھی جو ناکام ہوگئی۔ مشکل وقت دیکھنے والے جاذب قریشی ملک اور بیرونِ ملک مشاعروں میں شرکت کرتے رہے اور کئی ادبی محافل کے منتظم بھی رہے۔ انھو‌ں نے کالم نگاری بھی کی۔تاہم ان کی بنیادی شناخت بطور شاعر ہی قائم رہی۔ ’’شناسائی‘‘، ’’نیند کا ریشم‘‘،’’شیشے کا درخت‘‘،’’عکس شکستہ‘‘، ’’آشوبِ جاں ‘‘،’’عقیدتیں (حمدیں، نعتیں ،منقبت)‘‘، ’’جھرنے (نغمے، گیت)‘‘، ’’اجلی آوازیں (ہائیکو)‘‘ اور ’’لہو کی پوشاک‘‘ اُن کے شعری مجموعے ہیں۔

    جاذب قریشی نے اپنی شاعری کو جدید طرزِ احساس سے آراستہ کیا اور وہ خود اپنے ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں ’’تخلیقی اور عملی تجربے اگر رک جائیں تو فرسودگی اور پرانا پن سچے ادب کو اور آسودہ زندگی کو چاٹ جاتا ہے۔‘‘ نئے استعارات، جدید تلازمات اور نامانوس لفظیات کے سبب انھیں مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ سلیم احمد نے اُن کی شاعری کو ’’آئینہ سازی کا عمل‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’ یہ آئینہ جاذب کے ہنر کا المیہ بھی ہے اور طربیہ بھی۔‘‘ اسی طرح حسین مجروح کہتے ہیں کہ ’’ہیئت سے حسیت اور اظہار سے موضوع تک، جاذب قریشی کی شاعری نئی لفظیات اور تشکیلات کی شاعری ہے۔ جاذب قریشی کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے

    جب بھی آتا ہے وہ میرے دھیان میں
    پھول رکھ جاتا ہے روشن دان میں

    سنہری دھوپ کا ٹکڑا ہوں لیکن
    ترے سائے میں چلنا چاہتا ہوں

    مرے وجود کے خوشبو نگار صحرا میں
    وہ مل گئے ہیں تو مل کر بچھڑ بھی سکتے ہیں

  • سنتوش کمار:‌ مردارنہ وجاہت اور شستہ لب و لہجہ اس اداکار کی وجہِ شہرت تھا!

    سنتوش کمار:‌ مردارنہ وجاہت اور شستہ لب و لہجہ اس اداکار کی وجہِ شہرت تھا!

    مردانہ وجاہت کا نمونہ، نفیس شخصیت کے مالک اور شستہ زبان کے حامل سنتوش کمار نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں رومانوی ہیرو کے روپ میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑے۔ وہ تقسیمِ ہند سے قبل ہی فلمی دنیا میں قدم رکھ چکے تھے اور اپنی پُرکشش شخصیت کی وجہ سے مقبول تھے۔

    اس اداکار کا اصل نام موسیٰ رضا تھا اور فلمی دنیا میں سنتوش کے نام سے شہرت پائی۔ اس بارے میں معروف صحافی اور کالم نگار مسعود اشعر 1982 کے روزنامہ امروز میں لکھتے ہیں:
    ’اس زمانے میں مسلمان اداکار اپنا اصلی نام ظاہر کرنا معیوب خیال کرتے تھے۔ اشوک کمار اور دلیپ کمار اتنے مشہور ہو چکے تھے کہ ان کے نام پر اپنا فلمی نام رکھنا لوگ اپنی عزت اور نیک شگون سمجھتے تھے۔ موسیٰ رضا نے ممبئی کی فلمی زندگی میں اس روایت کے زیرِ اثر اپنا نام سنتوش کمار رکھ لیا۔

    اداکار سنتوش کی پہلی پاکستانی فلم بیلی (1950) تھی۔ آخری مرتبہ وہ فلم آنگن (1982) میں اسکرین پر جلوہ گر ہوئے۔ سنتوش کمار کے ساتھ ایک اور نام بالخصوص پچھلی نسل کے حافظے میں محفوظ ہے اور وہ ہے صبیحہ خانم کا جو پاکستانی فلم انڈسٹری کی ایک کام یاب ہیروئن اور اپنے وقت کی مشہور اداکارہ تھیں۔ ان سے سنتوش کمار نے دوسری شادی کی تھی۔

    سنتوش کمار کا تعلق لاہور کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا۔ ان کا اصل نام سیّد موسیٰ رضا تھا۔ 25 دسمبر 1926ء کو پیدا ہونے والے سنتوش کمار کے والد کاروباری شخصیت تھے۔ وہ تقسیم سے قبل اپنے خاندان کے ساتھ حیدرآباد دکن منتقل ہوگئے تھے۔ موسیٰ رضا نے عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن سے گریجویشن کیا۔ مقابلے کا امتحان پاس کرکے تحصیل دار کے عہدے کے لیے بھی منتخب ہوگئے تھے، مگر نوکری کے بجائے فلمی دنیا سے وابستگی اختیار کی۔

    سنتوش کمار نے بمبئی کی فلمی صنعت کے لیے دو فلموں ’’اہنسا‘‘ اور ’’میری کہانی‘‘ میں کردار نبھائے۔ پاکستان ہجرت کر کے آنے کے بعد مسعود پرویز کی فلم ’’بیلی‘‘ سے اپنا کیریئر یہاں شروع کیا۔ سعادت حسن منٹو کی کہانی پر بنائی گئی اس فلم میں صبیحہ نے سائیڈ ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ ’’بیلی’’ کام یاب فلم نہیں تھی، لیکن اس کے بعد ’’دو آنسو‘‘ اور ’’چن وے‘‘ نے سنتوش کمار کے کیریئر کو بڑا سہارا دیا۔ اس سفر میں آگے بڑھتے ہوئے سنتوش نے شہری بابو، غلام، قاتل، انتقام، سرفروش، عشق لیلیٰ، حمیدہ، سات لاکھ، وعدہ، سوال، مکھڑا اور موسیقار جیسی فلموں‌ میں‌ کام کر کے خود کو بڑا اداکار ثابت کیا۔

    شادی سے پہلے سنتوش اور صبیحہ خانم نے اکٹھے فلموں‌ میں‌ کام کیا تھا، اور پھر ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا۔ پردۂ سیمیں پر اپنی بہترین پرفارمنس سے شائقین کو اپنا مداح بنانے والے ان فن کاروں کی حقیقی زندگی بھی مثالی اور قابلِ رشک ثابت ہوئی۔ صبیحہ اور سنتوش نے دو دہائیوں تک پاکستانی فلموں پر راج کیا۔ سنتوش کمار نے اپنے دور کی مشہور اداکاراؤں کے ساتھ یادگار کردار ادا کیے۔ ان میں سورن لتا، شمیم آرا، شمی، مسرت نذیر، آشا بھوسلے، مینا شوری، اور راگنی شامل ہیں جن کے ساتھ سنتوش کی درجنوں رومانوی فلموں نے شائقین کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔

    اداکار سنتوش کمار کی یادگار فلموں میں دامن، کنیز، دیور بھابی، تصویر، شام ڈھلے، انجمن، نائلہ، چنگاری، لوری، گھونگھٹ اور پاک دامن شامل ہیں۔ مجموعی طور پر 92 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے سنتوش کمار نے بہترین اداکاری پر تین نگار ایوارڈ بھی حاصل کیے۔ 1978ء میں سنتوش نے آج ہی کے دن یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

    اداکار سنتوش کمار لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔

  • چارلس ڈکنز کا تذکرہ جن کے قلم کی طاقت اور اسلوب کی جادوگری مشہور ہے!

    چارلس ڈکنز کا تذکرہ جن کے قلم کی طاقت اور اسلوب کی جادوگری مشہور ہے!

    یہ چارلس ڈکنز کے قلم کی خوبی تھی کہ اُس کی کہانیوں کو کلاسیک کا درجہ حاصل ہوا اور وہ اپنے سماج کا آئینہ قرار پائیں۔ اسی وصف کی بناء پر چارلس ڈکنز کو برطانوی معاشرے کا نبّاض بھی کہا گیا ہے۔

    ڈکنز اُن ناول نگاروں میں‌ شامل ہیں جو اپنے قلم کی طاقت اور تخلیقی صلاحیتوں سے کام لے کر سماجی برائیوں، اپنے عہد میں ریاست کے نظام کی خامیوں اور مسائل کو اجاگر کرتے رہے اور فرسودہ نظام کو بدلنے میں کردار ادا کیا۔ چارلس ڈکنز کے ناولوں اولیور ٹوئسٹ، ڈیوڈ کاپر فیلڈ، اے ٹیل آف ٹو سٹیز کو برطانوی ادب میں کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ اس نے بچّوں کے لیے کئی دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں لکھیں جو دنیا بھر میں مشہور ہیں اور مزے کی بات یہ کہ ان کہانیوں کو بچے ہی نہیں ہر عمر کے لوگ شوق سے پڑھتے ہیں۔ یہی ڈکنز کے اسلوب کا کمال ہے۔

    1870ء میں آج ہی کے دن چارلس ڈکنز چل بسے تھے۔ وہ ایک ناول نگار، مدیر، صحافی اور مصنّف تھا اور ایک صاحبِ بصیرت شخصیت کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ڈکنز نے اپنی نگارشات میں وکٹورین عہد کی مکمل تصویر پیش کی ہے جو بعد میں معاشرتی سطح پر تبدیلی لانے میں مددگار ثابت ہوئی۔

    7 فروری 1812ء کو چارلس ڈکنز نے انگلینڈ کے جنوبی ساحل پر واقع پورٹس ماؤتھ کے ایک گھر میں آنکھ کھولی۔ وہ اپنے والدین کی آٹھ اولادوں میں‌ سے دوسری اولاد تھی۔ اس کے والد جان ڈکنز بحریہ میں ایک کلرک تھے جب کہ والدہ الزبیتھ بیرو شعبۂ تدریس سے منسلک تھیں۔ 1822ء میں ڈکنز کا خاندان لندن کے ایک نچلے طبقہ کے رہائشیوں کے محلّے میں‌ منتقل ہوگیا تھا۔ اس گھرانے کے مالی حالات وقت کے ساتھ خراب ہوچکے تھے۔ اس کے والد مقروض تھے اور انھیں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں انھیں جیل جانا پڑا۔ بدحالی، تنگ دستی اور والد کی قید دیکھتے ہوئے چارلس ڈکنز بڑے ہوئے۔ ان حالات نے انھیں غور و فکر کے عادی بنا دیا تھا۔ جب والد کو جیل ہوئی تو چارلس ڈکنز کی عمر 12 سال تھی۔ ان کے جیل جانے کے بعد ڈکنز کو دریائے ٹیمز کے ساتھ قائم جوتے رنگنے والی فیکٹری میں نوکری کرنا پڑی اور اس کے لیے اسکول چھوڑنا پڑ گیا۔ فیکٹری میں کام کرتے ہوئے چارلس ڈکنز نے جبر اور استحصال کی کئی شکلیں دیکھیں اور ان کا شکار بھی ہوئے۔ ان کی زندگی کے یہ ادوار اور ان کے تجربے ان کی تخلیق ’’اولیور ٹوئسٹ‘‘ اور مزدور بچّوں کے جذبات ’’ڈیوڈ کاپر فیلڈ ‘‘ میں اور امارت و غربت کی کشمکش ’’اے کرسمن کیرول‘‘ میں نظر آتی ہے۔ بعد میں‌ چارلس کے والد نے خاندانی جائیداد بیچ کر اپنے سارے قرض ادا کر دیے اور چارلس کو اسکول بھیجنا شروع کر دیا۔ لیکن 15 سال کے ہوئے تو حالات کی ستم ظریفی نے ایک بار پھر اسکول سے نکال کر ایک دفتر میں آفس بوائے کی حیثیت سے کام پر مجبور کردیا۔ لیکن یہی ملازمت ان کے کیریئر کا اہم موڑ ثابت ہوئی اور یہیں سے چارلس کے لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

    ادبی دنیا میں چارلس ڈکنز کی اہمیت اور مرتبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی نگارشات کا ترجمہ تقریباً ہر زبان میں ہوچکا ہے اور انیسویں صدی کا بااثر ادیب گردانا جاتا ہے۔ چارلس ڈکنز نے 170 برس پہلے جن کرداروں سے ہمیں متعارف کروایا تھا وہ آج بھی معاشروں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

    کلیئر ٹامالین نے چارلس ڈکنز کی سوانح عمری تحریر کی جس میں اس نے لکھا کہ چارلس ڈکنز کی معاشرتی تصویر کشی آج بھی ان کی سوچ کے عین مطابق ہے، وہی امیر غریب میں پایا جانے والا فرق، بدعنوان سرکاری ملازم، سیاسی ریشہ دوانیاں، اور اسی نوع کی دیگر سماجی برائیاں آج کے دور میں بھی عام ہیں۔ چارلس ڈکنز نے اسی کی نشان دہی کی اور اپنی تحریروں میں اچھے بُرے لوگوں اور ان کے سچ جھوٹ کے ساتھ اُس تضاد کو نمایاں کیا جو معاشرے کو برباد کر رہا تھا۔

    رچرڈ ڈبلیو لونگ نے ایک طویل مضمون ’’انگلینڈ اور چارلس ڈکنز‘‘ کے عنوان سے لکھا اور ڈکنز کے ناولوں میں انگلینڈ اور لوگوں کے مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے’’ڈاکٹر خود فیکٹری میں کام کرتا رہا، کلرکی کی، عدالت میں رپورٹر رہا، اخبار میں کام کیا، ہوٹلوں میں مزدوری کی، اسے چائلڈ لیبر اور بچوں کو درپیش مسائل اور زیادتیوں کا ذاتی تجربہ تھا چنانچہ اس نے اپنے ناولوں میں کھل کر اس کے خلاف آواز اٹھائی اور (Reform Laws) کے لیے راستہ ہموار کیا‘‘۔