Tag: جون وفیات

  • جمیل فخری:‌ فن کی دنیا کا ایک باوقار نام

    جمیل فخری:‌ فن کی دنیا کا ایک باوقار نام

    پاکستان میں ٹیلی ویژن کے کئی اداکاروں کو ان کے فنی سفر کے ابتدا میں ہی وہ کردار ملے جن کی بدولت انھوں نے راتوں رات شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں کو چُھو لیا، لیکن وہ زیادہ عرصہ اس کام یابی کو برقرار نہ رکھ سکے، جب کہ کچھ ایسے فن کار بھی ہیں کہ اپنی شہرت کو آخری دَم تک نہ صرف قائم رکھا بلکہ فن کی دنیا میں لازوال پہچان بنائی۔ ان میں ایک نام اداکار جمیل فخری کا بھی ہے جنھوں نے ہر کردار کو بخوبی نبھایا اور اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا۔

    1970ء میں اداکاری کا آغاز کرنے والے جمیل فخری کو پولیس کی وردی میں جعفر حسین کا کردار نبھاتے ہوئے دیکھنے والے کبھی فراموش نہیں کرے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کی لازوال سیریز ’اندھیرا اجالا‘ کا یہ مقبول کردار ہمارے ذہنوں پر نقش ہے۔ جمیل فخری 9 جون 2011ء کو انتقال کر گئے تھے۔

    جمیل فخری نے کمر عمری میں تھیٹر ڈرامے سے اداکاری کا آغاز کیا تھا اور ستّر کی دہائی میں وہ ٹیلی ویژن پر نظر آئے۔ جمیل فخری نے اپنے طویل کریئر میں مزاحیہ، سنجیدہ اور منفی کردار بھی ادا کیے اور ہر رنگ میں اپنا منفرد انداز برقرار رکھا جمیل فخری کو اطہر شاہ خان نے ’اندر آنا منع ہے‘ نامی اسٹیج ڈرامے میں متعارف کرایا تھا جس کے بعد انھوں نے اسٹیج اور پھر ٹی وی کے کئی ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ جعفر حسین کے پولیس انسپکٹر کے کردار میں جمیل فخری نے ملک گیر شہرت ہی نہیں پائی بلکہ ان کا یہ کردار لازوال ثابت ہوا۔

    یہ اس دور کی بات ہے جب چھوٹی اسکرین پاکستان بھر میں ناظرین کی تفریح کا واحد ذریعہ ہوتی تھی اور اندھیرا اجالا سماجی مسائل اور جرم و سزا پر ایک ایسی ڈرامہ تھا جو نشر ہوتا تو گویا ہر سڑک اور ہر گلی سنسان ہو جاتی۔ ناظرین ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھ جاتے تھے۔ اس ڈرامے کے دیگر مرکزی کرداروں میں‌ منجھے ہوئے اداکار قوی خان اور عرفان کھوسٹ شامل تھے۔ پولیس انسپکٹر کے روپ میں جمیل فخری کا مخصوص لہجہ اس قدر مقبول تھا کہ لوگ ان کے انداز کی نقل کرتے اور ان کے ادا کردہ مکالمے بھی سب کی زبان پر ہوتے تھے۔

    جمیل فخری نے تیس سے زائد پاکستانی فلموں میں بھی کام کیا۔ اگرچہ ان میں کوئی مرکزی کردار شامل نہیں ہے، لیکن انھوں نے اپنے ہر کردار کو بخوبی نبھایا اور اس کا گہرا تأثر فلم بینوں پر چھوڑا۔ اداکار جمیل فخری نے کئی اسٹیج شوز میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے، لیکن پھر خود کو پی ٹی وی کے ڈراموں تک محدود کرلیا۔ دلدل، تانے بانے، وارث، بندھن، ایک محبت سو افسانے وہ ڈرامے تھے جن میں جمیل فخری نے بے مثال اداکاری کی۔

    اداکار جمیل فخری ذیابیطس اور بلڈ پریشر کے مریض تھے۔ جمیل فخری کے انتقال سے چند ماہ قبل امریکا میں اپنے بڑے بیٹے کو قتل کردیا گیا تھا جس کے بعد وہ نہایت غم زدہ اور پریشان رہنے لگے تھے۔ ایک باپ کی حیثیت سے یہ وہ صدمہ تھا جسے سہنا ان کے لیے یقیناً‌ آسان نہیں‌ تھا۔ ان کے احباب کے مطابق بیٹے کی یوں الم ناک موت نے انھیں توڑ کر رکھ دیا تھا اور وہ بھی زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکے۔

    معروف اداکار جمیل فخری کو لاہور کے ایک قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • کافکا، جس کی تخلیقات عالمی ادب کا خزانہ ہیں!

    کافکا، جس کی تخلیقات عالمی ادب کا خزانہ ہیں!

    کافکا کی بیش تر تحریریں اُس کے ایک دوست کی وجہ سے آج عالمی ادب کا خزانہ ہیں۔ جرمنی کے معروف ادیب فرانز کافکا نے اپنی موت سے قبل اپنے دوست میکس بروڈ کو وصیت کی تھی کہ وہ اس کی غیر مطبوعہ تخلیقات کو نذرِ‌ آتش کر دے، لیکن میکس بروڈ نے اس پر عمل نہیں کیا تھا!

    جرمنی کے اس معروف افسانہ نگار اور کہانی کار کے متعدد ادھورے ناول، افسانوں اور خطوط کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا اور عین جوانی میں دم توڑنے والے کافکا اور اس کی تخلیقات کو دنیا بھر میں‌ شہرت ملی۔ جرمنی میں کافکا کی تماثیل آج بھی بہت مقبول ہیں۔ بیسویں صدی کے اس بہترین افسانہ نگار کی وفات تین جون 1924ء کو ہوئی۔ اس کی عمر 40 سال تھی۔ وہ 1883ء میں چیکوسلاواکیہ کے ایک قصبے پراگ میں پیدا ہوا۔ اس کا تعلق ایک یہودی گھرانے سے تھا، ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے کافکا نے قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ سمجھتا تھا کہ اس کے والدین اسے زیادہ نہیں‌ چاہتے اور اپنی کئی محرومیوں اور مسائل کی وجہ سے کافکا خود کو حرماں نصیب اور بدقسمت خیال کرتا تھا۔ وہ ذہین تھا، مگر خود اعتمادی سے محروم اور نفیساتی طور پر حساسیت کا شکار ہوچکا تھا۔ اس نے شادی نہیں‌ کی تھی۔

    زندگی کی فقط 40 بہاریں دیکھنے والے کافکا نے قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک انشورنس کمپنی میں کام کیا اور قانون کی پریکٹس بھی کی۔ اس نے زندگی میں ایک مرتبہ خودکشی کی کوشش بھی کی تھی، مگر بچ گیا تھا اور بعد میں‌ اس کے دوست نے اسے سنبھالا۔ کافکا تپِ دق کی بیماری میں‌ مبتلا تھا اور اس دور میں‌ اس مرض کے ہاتھوں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے تھے۔

    فرانز کافکا کے ناول ’دی ٹرائل‘ اور ’دی کاسل‘ کو علمی و ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی اور کئی زبانوں میں ان کا ترجمہ کیا گیا۔

    کافکا نہیں‌ چاہتا تھا کہ اس کی تخلیقات پڑھی جائیں لیکن ایسا نہ ہوسکا اور جب یہ تخلیقات دنیا کے سامنے آئیں تو انھیں بہت سراہا گیا اور کافکا کی تخلیقی اور ادبی صلاحیتوں کا سبھی نے اعتراف کیا۔

  • سکند علی وجد جن کی شاعری تصویریت اور نغمگی سے معمور ہے!

    سکند علی وجد جن کی شاعری تصویریت اور نغمگی سے معمور ہے!

    جو لوگ وجد صاحب کو جانتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ رقص، مصوری اور موسیقی سے ان کو بے پناہ لگاؤ رہا ہے اور یہی وجہ ہے ان کی شاعری اکثر تصویریت اور نغمگی سے معمور نظر آتی ہے۔ وسیع المطالعہ اور فنونِ لطیفہ کے کئی شعبوں کے شناسا وجد نے کئی خوب صورت نظموں کے علاوہ غزلیں بھی کہی ہیں۔

    سکندر علی ان کا نام اور تخلّص وجد تھا۔ ان کے قریبی دوستوں نے انھیں آتش مزاج بھی لکھا، انا پرست بھی۔ لیکن وہ خوش مزاج اور وضع دار بھی مشہور تھے۔ وجد نفیس شخصیت کے مالک، تہذیب یافتہ اور بڑے رکھ رکھاؤ والے آدمی تھے۔ ان کی آواز بھی سریلی تھی اور گانے کے ساتھ وجد کو اداکاری کا شوق بھی تھا۔ شاعری کے میدان میں سکندر علی وجد کی نظمیں خاص طور پر قارئین میں مقبول ہوئیں۔

    نظم نگار کی حیثیت سے دکن کے دامن میں پوشیدہ تہذیبی خزانے یعنی اجنتا اور ایلورا کے غاروں پر ان کی شاعری کو بہت پسند کیا گیا۔ تاہم وجد کا کلام اسلوب یا کسی خوبی اور لفظیات کے تعلق سے متاثر کن نہیں ہے۔ وجد کو بھی اس بات کا احساس تھا اور ایک موقع پر انھوں نے اپنی شاعری کے بارے میں کہا، "ہر آرٹ کی طرح شاعری بھی شاعر سے پوری زندگی کا مطالبہ کرتی ہے، جو شاعر اس مطالبے کی تکمیل نہیں کرتا اس کی شاعری تشنہ رہ جاتی ہے، مجھے اکثر اس تشنگی کا احساس ہوا ہے، میں‌ اپنی شاعری کو کوئی ادبی کارنامہ نہیں سمجھتا۔ میں اس کی کمزوریوں سے اچھی طرح واقف ہوں۔ اس حقیقت کا بھی شدید احساس ہے کہ یہ شاعری وقت کی ضرورتوں، حوصلوں اور آرزوؤں کی پوری ترجمانی نہیں کرتی۔ اس فرض کو ادا کرنے کے لیے اندازِ فکر، اسلوب، سخن اور زبانِ شعر میں‌ انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے۔”

    سکند علی وجدؔ نے 1914ء میں اورنگ آباد میں آنکھ کھولی۔ وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور عثمانیہ یونیورسٹی سے بی۔ اے کرنے کے بعد سول سروس کے امتحان میں کام یاب ہو کر سرکاری ملازم ہوگئے، وہ ترقی کر کے ڈسٹرکٹ سیشن جج کے منصب تک پہنچے۔ لہو ترنگ، آفتابِ تازہ، اوراقِ مصور، بیاضِ مریم کے نام سے ان کی شاعری کتابی شکل میں شایع ہوئی۔ وجد 16 جون 1983ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    وجدؔ نے غزلیں بھی کہیں جن کا موضوع حسن و عشق اور قلبی واردات ہے لیکن اصلاً وہ نظم کے شاعر ہیں۔ اپنے عہد کے سیاسی معاملات اور طبقاتی کشمکس کو بہت خوب صورتی سے وجد نے نظموں میں پیش کیا لیکن ان کی نظموں کے موضوعات محدود نہیں۔ ان کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے۔ وجدؔ کہتے ہیں، ’’میں نے اظہارِ خیال کے لیے کلاسیکی اسلوب منتخب کیا اور فن شعر کے اصولوں کی پابندی کرنے کی بھی امکانی کوشش کی ہے۔ شاعری میں نئے تجربے کرنے کی مجھے فرصت نہیں ملی۔ میری شاعری، میری زندگی، انسان کی عظمت اور ترقی ہندوستان کی تاریخ و سیاست اور یہاں کے فنون لطیفہ سے طاقت اور حسن حاصل کرتی رہی ہے۔‘‘ رقاصہ، نیلی ناگن، آثارِ سحر، خانہ بدوش، معطر لمحے سکندر علی وجد کی دل کش نظمیں ہیں۔

    سکندر علی وجد کی یہ نظم اجنتا کے غاروں کی بہترین عکاسی کرتی ہے:

    بہانہ مل گیا اہل جنوں کو حسن کاری کا

    اثاثہ لوٹ ڈالا شوق میں فصل بہاری کا

    چٹانوں پر بنایا نقش دل کی بے قراری کا

    سکھایا گر اسے جذبات کی آئینہ داری کا

    دل کہسار میں محفوظ اپنی داستاں رکھ دی

    جگر داروں نے بنیاد جہان جاوداں رکھ دی

    یہ تصویریں بظاہر ساکت و خاموش رہتی ہیں

    مگر اہل نظر پوچھیں تو دل کی بات کہتی ہیں

    گلستان اجنتا پر جنوں کا راج ہے گویا

    یہاں جذبات کے اظہار کی معراج ہے گویا

  • خان محبوب طرزی: بسیار نویس اور اردو کا مفلوک الحال ادیب

    خان محبوب طرزی: بسیار نویس اور اردو کا مفلوک الحال ادیب

    اردو زبان میں رومانوی کہانیاں، تاریخی اور سماجی موضوعات پر ناولوں کے ساتھ جاسوسی ادب خوب لکھا گیا، اور اس میدان میں کئی نام گنوائے جاسکتے ہیں جن کو تقسیمِ ہند سے قبل اور بعد میں‌ بڑی مقبولیت حاصل ہوئی، لیکن سائنس فکشن کا معاملہ کچھ مختلف رہا ہے۔ اگرچہ تقسیمِ ہند سے قبل بھی اردو زبان میں سائنس فکشن لکھا گیا اور مقبول بھی ہوا، لیکن اس میدان میں کم ہی نام سامنے آئے۔ انہی میں ایک خان محبوب طرزی بھی ہیں جن سے اردو ادب اور ناول کے قارئین کی اکثریت واقف نہیں ہے۔

    خان محبوب طرزی کی حیات، ان کے فن اور نگارشات کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ جان لیں‌ کہ وہ تقسیمِ ہند کے بعد چند برس ہی زندہ رہے اور اس وقت تک سائنس فکشن صرف تجسس اور مہم جوئی تک محدود تھا اور سائنسی نظریات یا کسی خاص تھیوری سے متأثر ہو کر بہت کم ناول لکھے گئے، لیکن دنیا بھر میں سائنس فکشن اور بامقصد ادب تخلیق ہو رہا تھا۔ اردو میں بہت بعد میں‌ سائنسی نظریات اور ان کی بنیاد پر ہونے والی ایجادات پر کہانیاں لکھی گئیں۔ کچھ ادیبوں‌ نے اپنے قاری کی دل چسپی اور توجہ حاصل کرنے کے لیے خاص طور پر سائنسی مفروضے، چونکا دینے والے آلات یا انوکھی مشینوں کو اپنے ناولوں یا افسانوں میں پیش کیا اور چند ایسے تھے جنھوں نے اپنے تخیل کے سہارے ایسی حیران کن کہانیاں لکھیں جن کا ایک عام آدمی اس زمانے میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔

    خان محبوب طرزی کا سنہ پیدائش 1910ء ہے۔ وہ اردو کے ان اوّلین مصنّفین میں سے ہیں جو اپنے سائنس فکشن ناولوں کی بدولت مقبول تھے۔ اس کے علاوہ وہ کئی تاریخی، جاسوسی اور مہم جوئی پر مبنی ناولوں کے بھی خالق تھے۔ محبوب طرزی ہندوستان کے مشہور نسیم بک ڈپو، لکھنؤ سے وابستہ رہے۔

    ان کا تعلق افغانستان کے تاتارزئی قبیلے سے تھا اور اسی نسبت سے وہ اپنے نام کے ساتھ طرزی لکھتے تھے۔ ان کے آبا و اجداد بعد میں ہجرت کر کے لکھنؤ چلے گئے تھے اور وہیں محلہ حسین گنج میں خان محبوب طرزی نے آنکھ کھولی تھی۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم ویسلی مشن اسکول میں حاصل کی اوراس کے بعد اسلامیہ کالج سے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ بعد میں‌ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی گئے جہاں سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ علی گڑھ میں ہی وہ لکھنے کی طرف مائل ہوئے اور افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔ ان کے افسانے اپنے دور کے معروف ادبی پرچوں‌ اور جرائد میں شایع ہونے لگے۔

    خان محبوب طرزی کو ایک بسیار نویس کہا جاتا ہے اور اس کی ایک وجہ بڑے کنبے کی وہ مالی ضرویات بھی تھیں جن کو ایک سربراہ کی حیثیت سے محبوب طرزی کو بہرحال پورا کرنا تھا۔ سو، انھوں نے کئی کہانیاں دوسروں کے نام سے بھی لکھیں۔ انھوں نے کچھ عرصہ کے لیے قفل سازی کے ایک کارخانے میں سپر وائزر کے طور پر کام کیا۔ فوج میں اسٹور کیپر رہے، فلم سازی اور ہدایت کاری میں بھی خود کو آزمایا۔ کلکتہ کی کار دار کمپنی میں اسسٹنٹ کے طور پر کام کیا اور آر پی بھارگو کے ساتھ رقص و موسیقی کا پروگرام’’پرستان‘‘ کے نام سے پیش کیا۔ کچھ مدت تک لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے وابستہ رہے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر انھوں نے سائنیٹون فلم کمپنی میں ملازمت کی۔ پھر 1948ء میں خود فلم کمپنی قائم کی مگر کام یابی نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ نسیم انہونوی ان کے ایک ایسے شناسا تھے جو سمجھتے ہیں: "طرزی صاحب میرے خیال سے جس کام کے لیے پیدا ہوئے تھے وہ انھیں نہ مل سکا۔ وہ کام تھا فلم کا ڈائریکشن۔ میں نے طرزی صاحب سے بار بار کہا کہ طرزی صاحب ایک بار بال بچّوں کو بھول کر گھر سے راہِ فرار اختیار کیجیے اور بمبئی کی فلم کمپنیوں میں رسوخ حاصل کرنے کی کوشش کیجیے۔” طرزی صاحب یہ نہیں‌ کر سکے اور اخراجات کی فکر سے ہلکان ہوتے رہے۔

    خان محبوب طرزی کی علمی اور ادبی دل چسپیوں میں ترجمہ نگاری اور صحافت بھی شامل تھی۔ انھوں نے روزنامہ اودھ، روزنامہ اردو اور بعض دیگر اخبارات میں بھی کام کیا۔ یہاں بھی آسودگی ان کا مقدر نہ بنی۔ اور پھر وہ ناول نگاری میں پوری طرح مشغول ہوگئے۔ امین سلونوی جن سے خان محبوب طرزی کا بہت قریبی تعلق رہا، وہ کہتے ہیں: "وہ کہیں بھی رہے ناول نگار ہی رہے۔

    اگر اسے طرزی صاحب کا امتیازی وصف کہنا غلط نہ ہو تو وہ ایک ساتھ کئی ناول لکھنے والے بسیار نویس تھے۔ مائل ملیح آبادی کے بقول: "وہ بے پناہ لکھنے والے تھے۔ ان کا ہاتھ ٹائپ رائٹر تھا۔ لکھنے لگتے تھے تو لکھے ہوئے کاغذوں کا ڈھیر لگا دیتے۔ سب لوگ باتیں کرتے رہیں لیکن طرزی صاحب وہیں بیٹھے لکھتے رہیں گے اور کاغذ کے بعد کاغذ قلم کے نیچے سے نکلتا رہے گا… انہوں نے گھنٹوں کے حساب سے بھی دو تین سو صفحات کے ناول لکھے ہیں۔ لگ بھگ بارہ سو صفحات کا ناول مہینہ ڈیڑھ مہینہ میں کسی دوسرے مصنّف کے نام سے لکھ ڈالا۔ پھر اس کے بعد ہی سترہ اٹھارہ سو صفحات کسی اور مصنّف کے نام سے لکھ دیے۔”

    طرزی کی ناول نگاری کے بارے میں سلامت علی مہدی کہتے ہیں: "دنیا کی کسی زبان میں ایسا کوئی ناول نگار نہیں ہے جو تاریخی ناول بھی لکھے اور جاسوسی ناول بھی۔ جو دن کے ابتدائی حصے میں کسی سائنسی ناول کا مسودہ لکھے، دن کے آخری حصّہ میں کسی معاشرتی ناول کا حصّہ پورا کرے اور رات کو کسی رومانی ناول میں عورت کے حسن اور اس کے محبت بھرے دل کی کوئی نغمگیں کہانی بیا ن کرے۔”

    بیک وقت تین چار مختلف موضوعات پر کہانیاں بُننا بھی طرزی صاحب ہی کا کمال تھا۔ ہندوستانی ادیب احمد جمال پاشا نے لکھا ہے: ’’بات لکھنے لکھانے پر آئی تو عرض کرنے دیجیے کہ وہ دو تین دن میں چار پانسو صفحات کا ناول لکھ لیتے تھے جب کہ دوسرا محض لکھا ہوا ناول اس مدت میں نقل بھی نہیں کر سکتا۔ لطف یہ ہے کہ ان کے روز مرہ کے معمولات میں بھی فرق نہ آنے پاتا۔ خود بقول ان کے وہ لکھتے کیا تھے، اپنی تھکن اتارتے تھے۔ اسی کے ساتھ ساتھ سائنسی موضوعات و اسلامی سیاست پر مضامین بھی لکھتے رہتے۔ تقریباً تین سو کتابیں وہ ہیں جو خود ان کے نام سے چھپیں اور کتنے ناول لوگوں نے خرید کر اپنے نام سے چھپوا لیے اور مصنّف کہلائے۔‘‘

    خان محبوب طرزی کے قلم سے سیکڑوں ناول نکلے اور بڑی تعداد میں فروخت بھی ہوئے، لیکن بحیثیت ایک قلم کار وہ آسودگی ان کا مقدر نہیں بن سکی جس کے لیے وہ دن رات لکھنے میں مشغول رہے۔ اس مقبول ناول نگار نے 25 جون 1960ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    ان کا ایک ناول "اڑن طشتری” 1952 میں شایع ہوا تھا جس میں انھوں نے مسلمانوں کی شان دار تاریخ اور اسلاف کے کارناموں کو رجائیت پسندی کے ساتھ پیش کیا۔ اس ناول کا مرکزی خیال یہ تھا کہ نویں صدی عیسوی کے آخر میں اندلسی مسلمانوں کی سائنسی ایجادات سے دنیا ششدر رہ گئی ہے۔ اور موجودہ دور کے سائنس داں بھی ان ایجادات پر دنگ ہیں۔ ایک اندلسی انجنیئر اڑن طشتری بناتا ہے اور اپنے چالیس ساتھیوں کے ساتھ اس کے ذریعے ایک نئی دنیا میں جا کر آباد ہوجاتا ہے۔ پھر دورِ حاضر کا ایک سائنس داں ٹیلی ویژن کی مدد سے اس سیارہ کا پتہ لگا کر اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو لے کر وہاں پہنچتا ہے۔ ان کے اس ناول کے زیادہ تر کردار مسلمان ہی ہیں۔ ان کا یہ ناول ان کے مذہبی تشخص اور اس تفاخر کو اجاگر کرتا ہے جس کا بحیثیت مسلمان وہ شکار رہے کہ دوسرے سیارے پر بھی مسلمان ہی غالب ہیں اور بڑی فصیح و بلیغ عربی بولتے ہیں۔ اس ناول کے اہم کرداروں میں ایک مولوی، مولوی عبدالسلام بھی ہیں جو خلا نوردوں کی راہ نمائی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں خلائی سفر کے دوران بلکہ دوسرے سیارے پر باجماعت نماز بھی انہی مولوی کی اقتداء میں پڑھی جاتی ہے۔ ناول میں جابجا عربی مارکہ اردو اصطلاحات بھی ہیں جو اکثر مضحکہ خیز اور عام قاری کے لیے ان کو سمجھنا مشکل ہے۔ اس ناول کی چند کم زوریوں اور خامیوں کو نظر انداز کر دیا جائے تو یہ اس دور کا ایک دل چسپ ناول تھا، اور مزے کی بات یہ کہ ناول نگار نے خواتین خلا نوردوں کو بھی اس میں پیش کیا ہے مگر روایتی ملبوس اور بناؤ سنگھار میں مصروف دکھا کر خاصی حد تک مضحکہ خیزی پیدا کردی ہے۔

    محبوب خان طرزی سے متعلق اس تحریر میں اب ہم اردو کے ممتاز نقاد، ادیب اور شاعر شمسُ الرحمٰن فاروقی کے مضمون سے چند اقتباسات شامل کررہے ہیں جو ان کے فن اور تخلیقات پر روشنی ڈالتا ہے۔ فاروقی صاحب لکھتے ہیں: "آج کا زمانہ ہوتا تو خان محبوب طرزی پر دو چار رسالوں کے نمبر نکل چکے ہوتے، یا نمبر نہ سہی گوشے ضرورہوتے۔ ایک دو کتابیں بھی ان پر آچکی ہوتیں۔ لیکن وہ زمانہ اور تھا، اردو معاشرے میں تمول کی اتنی فراوانی نہ تھی، اور ہمارے ادیبوں کو بھی اپنی تشہیر سے زیادہ اپنی تحریر کی فکر تھی، کہ اچھے سے اچھا لکھا جائے۔ شہرت تو حاصل ہوتی رہے گی۔

    خان محبوب طرزی ہمارے ان ادیبوں میں تھے جنھوں نے قلیل معاوضے پر اپنی صلاحیتیں قربان کر دیں۔ اردو کا مفلوک الحال ادیب، کا یہ فقرہ ان پر صادق آتا ہے۔ وہ زمانہ بھی ایسا ہی تھا، اردو کو پوچھنے والے کم تھے اور کم ہوتے جارہے تھے۔ ایسے حالات میں اردو فکشن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے والے خان محبوب طرزی کو داد دینی پڑتی ہے۔ اردو میں سائنس فکشن کا انھیں موجد کہا جاسکتا ہے، اور اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ خان محبوب طرزی جیسا سائنس فکشن اردو میں پھر نہ لکھا گیا۔ اسرار اور مہم جوئی بھی ان کا ایک میدان تھا۔ پھر بچارے کو وہی وہانوی کے نام سے فحش یا نیم فحش افسانے اور مختصر ناول بھی لکھنے پڑے۔ مجھے وہی وہانوی کا کوئی ناول یاد نہیں آتا، لیکن اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ان ناولوں میں کوئی شاق انگیز بات نہ تھی اور آج کے معیاروں سے انھیں فحش شاید نہ بھی قرار دیا جائے۔

    طرزی صاحب کا پہلا ناول جو مجھے یاد ہے، "برق پاش” تھا۔ اس میں ایک تھوڑے سے جنونی سائنس داں نے لیسر کی طرح کی شعاعوں کو دور سے مار کرنے والے ہتھیار کی شکل میں تبدیل کر دیا تھا۔ تفصیل ٹھیک سے یاد نہیں، لیکن لیسر کا اس میں ذکر شاید نہ تھا، ہاں فاصلے سے بجلی کی طرح گرنے اور ہدف کو بے دریغ ہلاک کرنے کا مضمون ضرور تھا۔ اس سائنس داں نے کچھ طریقہ ایسا ایجاد کیا تھا کہ وہ لیسر کی قوت کو اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی میں مرتکز کر کے انگلی کے اشارے سے قتل کی واردات انجام دیتا تھا۔ ایک طرح سے اسے انگریزی کے ایک فرضی لیکن مقبول کردار "دیوانہ سائنس داں” کا نقشِ اول کہا جا سکتا ہے۔ پھر میں نے تلاش کر کے، اور کبھی کبھی خود خرید کر کے خان محبوب طرزی کے کئی ناول پڑھے۔ان میں سائنسی ناول "دو دیوانے” مجھے خاص طور پر یاد ہے کیونکہ اس کے مرکزی سائنس داں کردار نے دعویٰ کیا تھا کہ میں اپنے خلائی جہاز میں ابدُ الآباد کائنات کا چکر لگاتا رہوں گا اور سورج کی شعاعوں سے اپنی غذا حاصل کروں گا۔ اس کا انجام مجھے یاد نہیں، لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ سورج کی شعاعوں سے غذا حاصل کرنے کا تصور اس زمانے میں بالکل نیا تھا اور سائنس نے شاید اس وقت اتنی ترقی بھی نہ کی تھی کہ ایسا ممکن ہوسکے۔ اس ناول میں ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ خلا کے سفر کے دوران اس سائنس داں کو یہ بات معلوم ہوئی کہ آواز کبھی مرتی نہیں، مختلف طرح کی اور مختلف زبانوں کی تقریریں اور خطاب کائنات کے مختلف گوشوں میں اب بھی سنے جا سکتے ہیں۔ یہ خیال بھی، جہاں تک میں جانتا ہوں، بالکل نیا تھا۔ ایک اور ناول "سفرِ زہرہ” کا عنوان میرے ذہن میں رہ گیا ہے لیکن اس کے بارے میں اور کچھ مجھے یاد نہیں آتا۔

    "شہزادی شب نور” ناول میں مہم جوئی، اسرار اور جستجو کے کئی عنا صر موجود تھے۔ پورے ناول پر ایک خاموش، پر اسرار فضا چھائی ہوئی محسوس ہوتی تھی جن ناولوں کا میں ذکر رہا ہوں، انھیں میں نے آج سے کوئی ستر بہتر برس پہلے پڑھا تھا۔ ان کا دل کش نقش اب بھی باقی ہے، اگرچہ مطالعے کا ذوق مجھے جلد ہی انگریزی ادب کی طرف لے گیا۔

    میں سمجھتا تھا کہ طرزی صاحب کو آج کوئی نہیں جانتا اور مجھے اس کا رنج بھی تھا کہ اس زمانے میں اردو نے کئی مقبول ناول نگار دنیا کو دیے تھے: رشید اختر ندوی، رئیس احمد جعفری، قیسی رامپوری، اے۔ آر۔ خاتون، اور ان سے ذرا پہلے منشی فیاض علی اور ایم۔ اسلم۔ اِن میں کوئی ایسا نہ تھا جو خان محبوب طرزی کی طرح کا ابداع اور تنوع رکھتا ہو۔”

    دوسری طرف طرزی صاحب کے بارے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ بسیار نویسی نے ان کے ناولوں کو معیار سے دور کر دیا تھا۔ اس ضمن میں سید احتشام حسین لکھتے ہیں: ’’ یہ ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے کہ بعض مصنفوں کو تاریخ اپنے دامن میں جگہ نہیں دیتی لیکن اس کے پڑھنے والے اس کی تحریروں کے منتظر رہتے ہیں۔ ادبی تنقید کا یہ بڑا پیچیدہ مسئلہ ہے اور ادیب کی وقتی مقبولیت اس کی کام یابی ہے یا تھوڑے سے ایسے لوگوں کا متاثر ہونا جو ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ محبوب طرزی اعلیٰ ادبیات سے دل چسپی لینے والوں میں مقبول نہیں تھے لیکن ان کی کتابیں چھپتی اور بکتی تھیں اور بعض کتابیں اتنی مقبول تھیں کہ ان کے کئی کئی اڈیشن شائع ہوئے۔

  • باسو چٹر جی:‌ وہ ہدایت کار جس نے سنیما پر ‘حقیقت نگاری’  کو اہمیت دی

    باسو چٹر جی:‌ وہ ہدایت کار جس نے سنیما پر ‘حقیقت نگاری’ کو اہمیت دی

    ہندی سنیما کے لیے موضوعات کبھی اساطیر سے لیے گئے، کسی نے جنگ و جدل کو موضوع بنایا، کسی نے ناول کو پردے کے مطابق ڈھالا اور کسی فلم ساز نے سیاسی یا سماجی تحریک کے زیرِ اثر فلمیں بنا کر شائقین کو متوجہ کرنا چاہا، لیکن بھاری سرمائے یا کم بجٹ میں بنائی گئی فلمیں ہوں، بہ طور ہدایت کار باسو چٹر جی ان کی کام یابی یا ناکامی سے خوف زدہ نہیں ہوئے اور حقیقی زندگی کو بڑے پردے پر پیش کیا۔

    پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ناقدین کے مطابق ہندوستانی سنیما کو جتنے بڑے فن کار اور آرٹسٹ ملے، اتنی ہی زور دار فلمیں بھی سامنے آئیں۔ یہ بہترین فلمیں، ان کے یادگار نغمات اور لازوال موسیقی آج بھی اُس دور کے ایسے فلم سازوں اور ہدایت کاروں کی یاد تازہ کر دیتی ہیں، جن کے تخلیقی وفور اور صلاحیتوں نے شاہ کار فلمیں بنائیں۔ ہدایت کار اور اسکرین پلے رائٹر باسو چٹر جی انہی میں سے ایک تھے۔

    اُن کے کام کی بات کی جائے تو سارا آکاش، رجنی گندھا، چھوٹی سی بات، اس پار، کھٹا میٹھا، باتوں باتوں میں، ایک رکا ہوا فیصلہ اور چنبیلی کی شادی جیسی فلمیں ان کا تعارف و روشن حوالہ بنیں۔

    رجنی گندھا (1974) اور چھوٹی سی بات (1975) کی وہ فلمیں تھیں جن کی بدولت ان کا نام ایک فلم ساز اور اسکرین پلے رائٹر کے طور پر مشہور ہوا۔ باسو چٹر جی 93 سال تک زندہ رہے اور 2020ء میں ممبئی میں دَم توڑا۔ ان کی اکثر فلمیں متوسط طبقے کے گھرانوں کی عکاس ہیں اور ان فلموں میں شادی شدہ جوڑوں کی زندگی، اتار چڑھاؤ اور پیار محبت دیکھا جاسکتا ہے۔

    بہ طور ہدایت کار باسو چٹر جی کی پہلی فلم 1969 میں ریلیز ہوئی تھی جس کا نام سارا آکاش تھا۔ اس فلم کو بعد میں بہترین اسکرین پلے کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا تھا۔ شائقین نے بھی اس فلم کو بہت پسند کیا تھا۔ باسو چٹرجی وہ فلم ساز تھے جنھوں نے اس دور کے کئی آرٹسٹوں کو ایسے رول دیے، جن سے انھیں شہرت ملی اور ان کے فنی سفر میں وہ کردار ایک اچھا اضافہ تھے۔ انھوں نے متھن چکرورتی کے ساتھ فلم بنام شوقین بنائی۔ ونود مہرا کے ساتھ اُس پار، جیتندر اور نیتو سنگھ کے ساتھ پریتما، دیو آنند کے ساتھ من پسند، دھرمیندر اور ہیما مالنی کو دل لگی میں کردار دیا اور امیتابھ بچن کے ساتھ فلم منزل بنائی تھی۔ باسو چٹر جی کی فلموں نے سماجی موضوعات پر بہترین فلموں کے متعدد ایوارڈز اپنے نام کیے۔

    وہ ہندی فلموں کے ایک بنگالی نژاد ہدایت کار تھے جنھوں نے ہلکے پھلکے اور عام فہم انداز میں اہم موضوعات پر فلمیں بنا کر شہرت حاصل کی۔ باسو چٹر جی 1930ء میں اجمیر (راجستھان) میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ 50ء کی دہائی میں قسمت آزمانے بمبئی منتقل ہوگئے۔ ان کا ایک حوالہ وہ کارٹون بھی ہیں، جو انھوں نے نوجوانی میں بنانا شروع کیے تھے اور ان کی اشاعت ہفت روزہ "بلٹز” میں باقاعدگی سے ہوتی تھی۔ انھوں نے دس بارہ سال تک کارٹونسٹ کے طور پر بھی کام کیا۔

    بمبئی آنے کے بعد باسو چٹرجی کو جلد ہی بہ طور ہدایت کار فلم مل گئی۔ 1969ء میں ان کی فیچر فلم "سارا آکاش” ریلیز ہوئی جو نہ صرف کام یاب ہوئی بلکہ اسے لاجواب فوٹوگرافی کا ایوارڈ بھی ملا۔ اس کے بعد ان کی دو جذباتی اور حساس موضوعات پر فلمیں سامنے آئیں اور پھر وہ دل چسپ اور مزاحیہ انداز میں "رجنی گندھا” اور "چھوٹی سی بات” جیسی عام لوگوں کے مسائل پر فلمیں تخلیق کرنے لگے اور کام یاب رہے۔

    چٹرجی ایک باکمال کے ہدایت کار تھے جنھوں نے فارمولہ فلموں میں بھی جذبات و احساسات کی نمائش بہت سلیقے سے کی۔ وہ ایک منجھے ہوئے ہدایت کار اور تجربہ کار فلم ساز تھے جس نے 1993ء تک جتنی بھی فلمیں اور ٹی وی سیریل بنائے، وہ کام یاب اور بے حد مقبول بھی رہے۔ ان کے کام نے نہ صرف عام آدمی کو متاثر کیا بلکہ اعلیٰ طبقے میں بھی ان کی فلمیں بہت پسند کی گئیں۔ باسو چٹر جی نے کُل 42 فلمیں بنائیں اور یہ سب کسی نہ کسی حوالے سے یادگار ثابت ہوئیں۔

    باسو کے والد اُتر پردیش کے شہر متھرا میں بسلسلہ ملازمت اقامت پذیر تھے۔ باسو نے وہیں اپنی زندگی کو محسوس کیا اور نوجوانی میں فلمیں دیکھتے ہوئے وقت گزارا۔ اسی فلم بینی نے ان کے اندر چھپے فن کار اور باصلاحیت نوجوان کو بمبئی جانے پر اکسایا اور وہ بیس اکیس برس کے تھے جب بمبئی میں ایک ملٹری اسکول میں لائبریرین مقرر ہوگئے۔ اسی دور میں کارٹونسٹ ہوئے اور وہ وقت بھی آیا جب باسو چٹر جی نے اطالوی، فرانسیسی اور دوسرے ممالک کی فلمیں دیکھ کر یہ جانا کہ اس میڈیم کا دائرہ بہت وسیع ہے اور تفریح تفریح میں فلم کی طاقت سے کوئی کام لیا جاسکتا ہے۔

    باسو چٹر جی خود کو ایک عام آدمی کہتے تھے اور ان کے مطابق وہ عام لوگوں میں رہتے تھے، بس میں سفر کیا کرتے تھے۔ اس دوران وہ اپنے ارد گر لوگوں کی خوشیوں کو دیکھتے، اور ان کا دکھ درد اور غم بھی سنتے رہے۔ یہی ان کے نزدیک زندگی تھی اور پھر وہ اس سے باہر نہیں نکل سکے۔ ان سے وہ فلمیں نہیں بنیں جن میں ایک آدمی جسے فلم میں ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اپنے سے بھاری بھرکم اور طاقت ور دکھائی دینے والے دس، پندرہ لوگوں سے بھڑ جاتا ہے، اور جیت اُسی کی ہوتی ہے۔ انھوں نے زندگی کو جیسا دیکھا، کوشش کی کہ اُسی طرح فلم کے پردے پر بھی پیش کردیں۔

  • حوزے ساراماگو: نوبیل انعام یافتہ پرتگالی ناول نگار

    حوزے ساراماگو: نوبیل انعام یافتہ پرتگالی ناول نگار

    حوزے ساراماگو کو 1998ء میں نوبیل انعام کا حق دار تسلیم کیا گیا، لیکن وہ اس سے کافی عرصہ پہلے غیر معمولی فکشن نگار کے طور پر اپنی پہچان ضرور بنا چکے تھے۔ حوزے سارا ماگو 76 برس کے تھے جب انھیں نوبیل انعام دیا گیا اور ان کا نام عالمی ادب کے افق پر چمکا۔ 18 جون 2010ء کو حوزے ساراماگو نے ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

    1947ء میں حوزے ساراماگو نے اپنا پہلا ناول شائع کروایا تھا، اور بعد کے برسوں میں ان کے متعدد ناول اور تنقیدی مضامین منظرِ عام پر آئے جن کی بدولت عالمی ادب میں حوزے ساراماگو کو زبردست تخلیقی قوت کے حامل فکشن نگار کے طور پر پہچانا گیا۔

    براعظم یورپ کے جنوب مغرب میں واقع ملک پرتگال کی تہذیبی اور ثقافتی تاریخ میں کئی نام اصنافِ ادب میں اپنے منفرد کام کی بدولت دنیا میں معروف ہوئے۔ حوزے ساراماگو انہی میں سے ایک تھے۔ وہ کمیونسٹ نظریات کے حامل تھے اور اسی بناء پر یہ بھی خیال کیا جاتا تھا کہ انھیں نوبیل انعام نہیں مل سکتا، لیکن وقت نے اس خیال کو غلط ثابت کر دیا۔ حوزے سارا ماگو کی تخلیقات کا نہ صرف کئی زبانوں بشمول اردو، ترجمہ ہوا بلکہ نوبیل انعام کی شکل میں ان کی فنی عظمت کو تسلیم اور ان کی تخلیقات کو سراہا گیا۔

    حوزے ساراماگو (Jose Saramago) نے ناول ہی نہیں تخلیق کیے بلکہ ان کے افسانے، ڈرامے، روزنامچے، سفرنامے بھی قارئین تک پہنچے اور انھیں متاثر کیا۔ اس کے علاوہ حوزے سارا ماگو کے اخباری کالم اور تنقیدی مضامین بھی پرتگالی ادب کا حصہ بنے اور بعد میں ان کا انگریزی یا دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوا اور ان کے پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ حوزے سارا ماگو 1922ء میں پرتگال میں ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی زندگی کا سفر افلاس کی آغوش میں شروع ہوا۔

    اسی غربت اور تنگ دستی کے دوران انھوں نے کسی طرح اسکول کی تعلیم مکمل کی اور اس کے بعد ایک ورکشاپ میں گاڑیوں کی مرمت کا کام سیکھنے لگے۔ انھوں نے دو سال یہی کام کیا۔ مزدوری اور مشقت کی عادت نوعمری میں پڑ گئی تھی اور ورکشاپ چھوڑنے کے بعد ضروریات پوری کرنے کے لیے مختلف نوعیت کے چھوٹے چھوٹے کام اور مزدوریاں کرتے رہے۔ حوزے ساراماگو نے پرتگال میں کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب پرتگال میں کمیونسٹ پارٹی کی سرگرمیوں کے ساتھ سیاسی میدان میں بھی تبدیلیاں بھی رونما ہورہی تھیں۔ وہ سیاسی انتشار کے ساتھ سماجی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتے رہے۔ اسی عرصہ میں انھیں ایک اشاعتی ادارے میں ملازمت ملی، لیکن نومبر 1975ء میں سیاسی بحران کے باعث یہ ملازمت چھوڑ دی۔ 1969ء میں ساراماگو کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوئے تھے اور پھر عملی سیاست میں باضابطہ حصہ لیا۔ وہ واضح اور دو ٹوک سیاسی رائے رکھتے تھے اور اس کا اظہار بھی کرتے رہے۔

    حوزے ساراماگو نے 1966ء میں اپنی نظموں کا مجموعہ بھی شائع کروایا تھا۔ اس کے بعد وہ ادبی و تنقیدی مضامین، اخباری کالموں اور ادبی تراجم میں منہمک ہوگئے۔ پرتگال میں ان کی ادبی تحریریں کی مقبولیت کے ساتھ انھیں ایک فعال ادبی شخصیت کے طور پر شہرت ملی۔ عالمی ادب میں حوزے ساراماگو کو ان کے ناول Blindness (جس کا اردو ترجمہ اندھے لوگ کے نام سے کیا گیا) نے پہچان دی۔ یہ ناول 1995ء میں سامنے آیا تھا جس کے تین برس بعد وہ نوبیل انعام کے مستحق قرار پائے تھے۔ اس پرتگالی ادیب اور ناول نگار کو ایک تنازع کا سامنا بھی کرنا پڑا اور یہ حضرت عیسٰی کی زندگی پر مبنی ناول کی وجہ سے پیدا ہوا تھا، جسے پرتگال کی حکومت نے ادبی انعام کے لیے نام زد ہونے سے روک دیا۔

    ساراماگو کی تحریر کی ایک خاص بات رمز ہے اور وہ استعارہ تشکیل کرتے ہیں اور جہاں جہاں وہ اس کی توضیح کرتے ہیں وہاں اس کے معنی کی ایک اور جہت پیدا کر دیتے ہیں۔ اس عمل میں وہ رموز اوقاف کو ثانوی سمجھتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے ناول اکثر قارئین کے لیے صبر آزما ثابت ہوتے ہیں اور کسی وجہ سے قاری کہانی پر مکمل توجہ نہ دے سکے تو الجھن کا شکار اور کردار اور مکالمے سمجھنے میں دشواری محسوس کرے گا۔

    ساراماگو کے ناول اندھے لوگ کی کہانی کے مرکزی کردار پر ایک نظر ڈالیں تو یہ ایک کار سوار کے اچانک بینائی سے محروم ہوجانے کی داستان ہے جو ایک مقام پر سگنل کے سبز ہونے کے انتظار میں ہے تاکہ آگے بڑھ سکے۔ سگنل سبز ہو جاتا ہے لیکن وہ اپنی کار آگے نہیں بڑھاتا، اور جب اس کی کار کا دروازہ کھول کر اسے باہر نکالا جاتا ہے تو وہ بتاتا ہے کہ اسے دودھیا خلا کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ بے نام شہر میں اندھا ہونے والا یہ پہلا فرد ہے۔ یہ ایک ایسی وبا کا نتیجہ تھا جس کا کوئی وجود نہ تھا۔ لیکن اس کے بعد جو صورت حال جنم لیتی ہے وہ تعجب خیز بھی ہے اور اس کے بطن سے واقعات پھوٹتے چلے جاتے ہیں، اس اندھے پن کا شکار ہونے والے پہلے فرد کے بعد اسی نوع کے اندھے پن کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ جب یہ سلسلہ پھیلنے لگتا ہے تو حکومت یہ سمجھتی ہے یہ کوئی ایسی بیماری ہے جو کسی اندھے سے دوسرے لوگوں کو لگ رہی ہے اور گویا یہ ایک وبا ہے جس پر قابو پانے کے لیے اب تک اندھے ہونے والے تمام لوگوں کو پکڑ کر ایک ایسی عمارت میں بند کر دیا جاتا ہے جو کبھی دماغی امراض کے مریضوں کے لیے مخصوص رہی تھی۔ کئی کرداروں پر مشتمل اس ناول نے حوزے ساراماگو کو آفاقی شہرت سے ہمکنار کیا۔

    ساراماگو کے تخلیقی عمل کا محور اپنے ناول میں فرض کردہ واقعات کی بنیاد پر انسانی تہذیب کی کسی کڑی کو بیان کرنا ہے جو انسانی تہذیب کا تماشا دکھاتی ہے۔ وہ اپنے فکشن میں ایک فرضی صورتِ حال اور کرداروں کے ساتھ انسانی معاشرت، سیاست، مذہب اور انسانی نفسیات کی قلعی کھولنے کا کام کرتے نظر آتے ہیں اور اِن کا قاری اختتام تک ناول پڑھے بغیر نہیں رہ پاتا۔

  • سنتوش کمار: فلمی دنیا کا باوقار نام، مقبول ہیرو

    سنتوش کمار: فلمی دنیا کا باوقار نام، مقبول ہیرو

    سنتوش، پاکستان فلم انڈسٹری کے ایک کام یاب فن کار تھے اور فلم بینوں میں اپنی پُرکشش شخصیت کی وجہ سے مقبول تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد فلمی صنعت کے ابتدائی دور میں سنتوش ایک مقبول اور کام یاب ہیرو کے طور پر سامنے آئے۔ آج پاکستان کے اس نام ور اداکار کی برسی ہے۔

    اداکار سنتوش کی پاکستانی فلم انڈسٹری میں‌ پہلی فلم بیلی (1950) تھی۔ آخری مرتبہ وہ فلم آنگن (1982) میں اسکرین پر جلوہ گر ہوئے تھے۔ سنتوش کمار کے ساتھ ایک اور نام بالخصوص پچھلی نسل کے حافظے میں محفوظ ہے اور وہ ہے صبیحہ خانم جو پاکستانی فلم انڈسٹری کی ایک کام یاب ہیروئن اور اپنے وقت کی مشہور اداکارہ تھیں۔ سنتوش کمار نے انہی سے شادی کی تھی۔ ان کی یہ جوڑی جہاں‌ فلمی صنعت میں اپنی اداکاری اور کام یاب فلموں کی وجہ سے مشہور ہوئی، وہیں اپنے حسنِ اخلاق، تہذیب و شائستگی کے لیے بھی مثال ہے۔

    سنتوش کمار کا تعلق لاہور کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا۔ ان کا اصل نام سیّد موسیٰ رضا تھا۔ فلم نگری میں‌ وہ سنتوش کمار کے نام سے پہچانے گئے، 25 دسمبر 1926ء کو پیدا ہونے والے سنتوش کمار نے عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا، اور اپنے ایک دوست کے اصرار پر فلم میں ہیرو کے طور پر رول قبول کر لیا۔ یہ سفر متحدہ ہندوستان کے زمانے میں شروع ہوا تھا جس میں سنتوش نے بمبئی کی فلمی صنعت کے لیے دو فلموں ’’اہنسا‘‘ اور ’’میری کہانی‘‘ میں کردار نبھائے۔ بعد میں وہ پاکستان ہجرت کر کے آگئے تھے اور یہاں بھی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوئے۔

    پاکستان میں انھوں نے مسعود پرویز کی فلم ’’بیلی‘‘ سے اپنا سفر شروع کیا۔ سعادت حسن منٹو کی کہانی پر بنائی گئی اس فلم میں صبیحہ نے سائیڈ ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ ’’بیلی’’ کام یاب فلم نہیں تھی، لیکن اس کے بعد ’’دو آنسو‘‘ اور ’’چن وے‘‘ نے سنتوش کمار کے کیریئر کو بڑا سہارا دیا۔ اس سفر میں آگے بڑھتے ہوئے سنتوش نے شہری بابو، غلام، قاتل، انتقام، سرفروش، عشق لیلیٰ، حمیدہ، سات لاکھ، وعدہ، سوال، مکھڑا اور موسیقار جیسی فلموں‌ میں‌ کام کر کے خود کو بڑا اداکار ثابت کیا۔

    شادی سے پہلے سنتوش اور صبیحہ خانم نے اکٹھے فلموں‌ میں‌ کام کیا تھا، اور پھر ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا۔ پردۂ سیمیں پر اپنی بہترین پرفارمنس سے شائقین کو اپنا مداح بنانے والے ان فن کاروں کی حقیقی زندگی بھی مثالی اور قابلِ رشک ثابت ہوئی۔

    سنتوش کمار کی دیگر اہم فلموں میں دامن، کنیز، دیور بھابی، تصویر، شام ڈھلے، انجمن، نائلہ، چنگاری، لوری، گھونگھٹ اور پاک دامن شامل ہیں۔ مجموعی طور پر 92 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے سنتوش کمار نے بہترین اداکاری پر تین نگار ایوارڈ بھی حاصل کیے۔ 1978ء میں سنتوش نے آج ہی کے دن یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔ انھیں لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • لاہور کا مشہور اسٹوڈیو جو "یکے والی” کی کمائی سے بنایا گیا تھا!

    لاہور کا مشہور اسٹوڈیو جو "یکے والی” کی کمائی سے بنایا گیا تھا!

    1957ء میں یکے والی ایک ایسی فلم ثابت ہوئی جس نے بزنس کا ریکارڈ قائم کیا اور اپنی لاگت سے 45 گنا زیادہ کمائی کی۔ اسی فلم کی کمائی سے باری اسٹوڈیو تعمیر کیا گیا تھا جس کا تذکرہ آج پاکستان کی فلمی صنعت کے سنہرے دنوں کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔ یہ فلم ایم جے رانا نے بنائی تھی۔

    ایم جے رانا پاکستان کی فلمی تاریخ کے کام یاب ترین ہدایت کاروں‌ میں سے ایک تھے۔ اردو زبان میں تو انھوں نے صرف پانچ فلمیں‌ ہی بنائی تھیں، لیکن پنجابی زبان میں‌ ان کی کئی فلمیں‌ ان کے فن اور پیشہ ورانہ قابلیت و مہارت کا نمونہ ہیں۔ وہ سماجی موضوعات پر اصلاحی اور سبق آموز فلمیں بنانے کے ماہر تھے۔ ایم جے رانا 1995ء میں‌ انتقال کرگئے تھے۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس نام ور ہدایت کار کا اصل نام محمد جمیل تھا۔ ایم جے رانا نے اپنے آخری دور میں اپنی شاہکار فلم یکے والی کا ری میک تانگے والی کی صورت میں بنایا تھا لیکن یہ فلم مایوس کُن ثابت ہوئی۔ مرحوم ہدایت کار نے فلموں کے بعد لاہور اسٹیج کے لیے مشہور ڈرامہ "شرطیہ مٹھے” کی بھی ہدایات دی تھیں اور اسی ڈرامے نے اسٹیج فن کاروں امان اللہ خان، ببو برال، مستانہ اور سہیل احمد کو لازوال شہرت دی تھی۔

    ایم جے رانا کے فلمی کیرئر کا آغاز فلم مندری (1949) سے ہوا تھا جس میں وہ فلم ڈائریکٹر داؤد چاند کے معاون تھے۔ اس فلم میں انھوں نے اداکاری بھی کی تھی۔ پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی سپر ہٹ اردو فلم سسی (1954) میں بھی وہ اپنے استاد کے معاون تھے۔ 1955ء کی فلم سوہنی ان کی بطور ہدایتکار پہلی فلم تھی لیکن کام یابی اگلے سال بننے والی فلم ماہی منڈا سے ملی تھی جس میں‌ ٹائٹل رول مسرت نذیر نے ادا کیا تھا۔ ایم جے رانا کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ وہ پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی فلم جی دار کے ڈائریکٹر بھی تھے۔

    ایم جے رانا کی فلم جگ بیتی (1968) ایک بامقصد اور اصلاحی فلم تھی جسے بہت پسند کیا تھا اور اسی طرح فلم باؤ جی (1968) میں طبقاتی کشمکش، ذات پات کی تقسیم کو انھوں نے بڑی مہارت سے سلور اسکرین پر پیش کیا تھا۔ ان کی دیگر فلموں میں ماہی منڈا، شیرا، جمالو، باپ کا باپ، من موجی، یار مار، راوی پار، جوانی مستانی، چن ویر، خون دا بدلہ خون، عید دا چن، پیار دی نشانی، ماں دا لال، جانی دشمن اور سرپھرا شامل ہیں۔ 1989ء میں فلم انڈسٹری کے لیے ایم جے رانا کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں خصوصی نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

  • مشتاق احمد یوسفی: کچھ باتیں، کچھ یادیں

    مشتاق احمد یوسفی: کچھ باتیں، کچھ یادیں

    مشتاق احمد یوسفی اپنی زبان دانی کے لیے مشہور تھے۔ وہ لفظوں کے ہیر پھیر سے ایسا مزاح پیدا کرتے ہیں جس کی گرفت کے لیے قاری کو خاصا ہشیار رہنا پڑتا ہے۔ اپنے عہد کے ایک ممتاز ادیب اور شاعر شمس الرحمٰن فاروقی نے ان کے بارے میں‌ لکھا:

    ’’مشتاق احمد یوسفی ہمارے دور کے سب سے بڑے طنز و مزاح نگار ہیں۔ ان کے مزاح میں شعر و ادب کا علم کچھ اس طرح پیوست ہے، اردو زبان کی وسعتوں پر انھیں اس قدر قابو ہے کہ اس کے باعث انھیں پڑھنے اور ان کے فن کا پورا لطف حاصل کرنے کے لیے ہمارا بالغ نظر اور وسیع مطالعہ کا حامل ہونا ضروری ہے۔ پرانی باتوں، خاص کر زمانۂ گزشتہ کے اشعار اور عبارات کو پر لطف تحریف کے ساتھ پیش کرنا یوسفی کا خاص انداز ہے۔ قاری کی نظر اگر ان پرانے حوالوں پر ہو تو وہ یوسفی کی مزاحیہ تحریف کو سمجھ سکتا ہے اور پھر وہ ان کی پہنچ اور ندرتِ خیال کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘

    مشتاق احمد یوسفی ایک ایسے مزاح نگار ہیں جن کی تحریریں قاری سے غور و خوض اور فہم و تدبّر کا تقاضا کرتی ہیں۔ ان کی عبارات سے لطف اٹھانے کے لیے انہیں کئی بار پڑھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اردو طنز و مزاح میں‌ مشتاق احمد یوسفی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ انھیں اس عہد کا سب سے بڑا مزاح نگار کہا جاتا ہے۔ آج مشتاق یوسفی کی برسی پر ان کی طنز و مزاح پر مبنی تحریروں سے اقتباس ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔

    1955ء میں مشتاق یوسفی نے ’’صنفِ لاغر‘‘ عنوان سے مضمون لکھا تھا جو مشہور رسالے ’’سویرا‘‘ میں شائع ہوا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا اور ان کی شہرت اور مقبولیت بھی پاک و ہند تک محدود نہ رہی بلکہ جہاں‌ جہاں‌ اردو زبان پڑھنے اور سمجھنے والے بستے ہیں، وہاں وہاں مشتاق احمد یوسفی کی مزاح نگاری کا لطف لیا گیا۔ 1961ء میں ان کی پہلی تصنیف ’’چراغ تلے‘‘ شائع ہوئی تھی جسے ہر خاص و عام میں سراہا گیا۔ دوسری کتاب ’’خاکم بدہن‘‘ 1970ء میں اور تیسری ’’زرگزشت‘‘ 1976ء میں منظرِ عام پر آئی اور مقبول ہوئی جب کہ ’’آبِ گم‘‘ 1989ء میں آنے والا ان کے مضامین کا مجموعہ تھا اور پانچویں کتاب کا نام ’’شامِ شعر یاراں‘‘ تھی جو 2014ء میں شایع ہوئی۔

    ان کے رشحاتِ خامہ طنز و مزاح کے ساتھ ساتھ اپنے اندر گہرائی، گیرائی، اصلاح اور فلسفہ جذب کیے ہوئے ہیں۔ ذہانت و لیاقت اور وسعتِ مطالعہ کے ساتھ لسانی بازی گری کے ذریعے مشتاق یوسفی نے طنز و مزاح نگاری کو بامِ معراج پر پہنچایا ہے اور اس پر اردو ادب ہمیشہ گراں بار رہے گا۔ اپنے طنز سے بھرپور نشتروں کے ذریعے وہ سماج میں پائی جانے والی برائیوں کی جس طرح جراحی کرتے ہیں، وہ بے مثال اور لاجواب ہے۔

    وہ ایک بینکار تھے اور موصوف کو اپنے والد کی وفات پر صرف تین دن کی چھٹیاں ملی تھیں، اس پر ستم ظریفی یہ کہ تین چھٹیوں کی تنخواہ بھی ان کی ماہانہ تنخواہ سے منہا کر دی گئی تھی۔ وہ اپنے مزاحیہ انداز میں زرگزشت میں اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

    ’’ہمیں یاد ہے جون کا مہینہ فری امپورٹ کا زمانہ تھا۔ کام بے اندازہ آدمی کم۔ ہم چار آدمیوں کے برابر کام اور آٹھ آدمیوں کے برابر غلطیاں بڑی تن دہی سے کر رہے تھے۔ ایک منحوس صبح خبر آئی کہ ٹنڈو آدم میں اخبار پڑھتے پڑھتے ابّا جان پر دل کا دورہ پڑا، اور زمیں نے اپنی امانت واپس لے لی۔ حیدر آباد میں ان کی تدفین کے سلسلہ میں تین دن کی رخصت اتفاقیہ لینے کی پاداش میں یعسوب الحسن غوری نے ہماری تنخواہ کاٹ لی۔ جو کچھ عرصہ بعد انڈرسن نے اس وارننگ پر واپس دلوا دی کہ ’’ آئندہ اس واقعہ کو نہیں دہرایا جائے گا۔‘‘

    کسی پیشے میں جب کوئی نو وارد ہوتا ہے تو اسے کئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔وہاں کے ماحول میں ڈھلنے اور اپنی ذہانت اور قابلیت کا ثبوت دینے تک ہر طرح کے طعن و تشنیع سے دوچار ہونا پڑ تا ہے۔ موصوف کو بھی بینک کی ملازمت اختیار کرنے پر ان پریشانیوں کا شکار ہونا پڑا جن کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    ’’ہم ریوڑ میں نئے نئے داخل ہوئے تھے۔ ہر ایک سینگ مارتا تھا۔ ’’کی جس سے بات اس نے ہدایت ضرور کی‘‘ یوں تو سارے جہان کی کھڑکیاں ہمارے ہی آنگن میں کھلتی تھیں لیکن یعسوب الحسن غوری کا انگوٹھا ہمارے ٹینٹوے پر ہی رہتا تھا۔ روز روز کے طعن و تشنیع سے ہمارا کلیجہ چھلنی ہو گیا تھا بلکہ چھلنی میں چھید بھی ہو گئے تھے جن میں سے اب موٹے موٹے طعنے پھسل کر نکلنے لگے تھے۔ منجملہ دیگر الزامات کے ہم پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ ہمارے دستخط گستاخانہ حد تک لمبے تھے۔‘‘

    اسی طرح ایک مضمون میں‌ خودکشی کرنے والوں کی بابت یوں شگفتہ نگاری کی ہے:
    اس زمانے میں عام آدمی کو خود کشی کے لیے طرح طرح کی صعوبتیں اُٹھانا اور کھکھیڑ اُٹھانی پڑتیں تھیں۔ گھروں کا یہ نقشہ تھا کہ ایک ایک کمرے میں دس دس اس طرح ٹُھنسے ہوتے کہ ایک دوسرے کی آنتوں کی قراقر تک سُن سکتے تھے۔ ایسے میں اتنا تخلیہ کہاں نصیب کہ آدمی پھانسی کا پھندا کڑے میں باندھ کر تنہا سکون سے لٹک جائے۔ علاوہ ازیں، کمرے میں ایک ہی کڑا ہوتا تھا جس میں پہلے ہی ایک پنکھا لٹکا ہوتا تھا۔ گرم کمرے کے مکین اس جگہ کسی اور کو لٹکنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ رہے پستول اور بندوق تو اُن کے لائسنس کی شرط تھی جو صرف امیروں، وڈیروں اور افسروں کو ملتے تھے۔ چناچہ خود کشی کرنے والے ریل کی پٹری پر دن بھر لیٹے رہتے کہ ٹرین بیس بیس گھنٹے لیٹ ہوتی تھی۔ آخر غریب موت سے مایوس ہو کر کپڑے جھاڑ کر اُٹھ کھڑے ہوتے۔

  • عثمان سیمبین: پس ماندہ سماج کا سب سے روشن ستارہ

    عثمان سیمبین: پس ماندہ سماج کا سب سے روشن ستارہ

    برّاعظم افریقا کے مغرب میں واقع سینیگال سے تعلق رکھنے والے عثمان سیمبین کو دنیا بھر میں‌ ایک ناول نگار اور فلم ساز کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ فلم نویسی اور افسانہ نگاری بھی ان کی وجہ شہرت ہے۔

    وہ فلمی صنعت میں‌ پروڈیوسر، ہدایت کار کے طور پر مصروفِ عمل رہے اور اداکار کے طور پر بھی کام کیا۔ عثمان سیمبین کی کہانیوں کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا، جن میں فرانسیسی اور انگریزی سرفہرست ہیں۔

    عثمان سیمبین ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے مدرسے اور اسکول گئے۔ اسکول کی تعلیم ادھوری رہ گئی اور کچھ عرصہ والد کے ساتھ کام میں ان کا ہاتھ بٹایا۔ ان کے والد پیشے کے لحاظ سے ماہی گیر تھے۔

    1938 میں اپنے آبائی علاقے سے ملک کے دارلحکومت ’’ڈاکار‘‘ آگئے اور وہاں مختلف نوعیت کی ملازمتیں کیں۔ 1944 میں فرانسیسی فوج کی مقامی’’فری فرنچ فورسز‘‘ سے وابستہ ہوئے اور دوسری عالمی جنگ تک اپنے ملک اور دیارِ غیر میں مختلف محاذوں پر برسرپیکار رہے۔ جنگ کے خاتمے پر، وطن واپس آگئے۔

    یہ 1947 کی بات ہے جب ریلوے لائن بچھانے کا ملک گیر منصوبہ شروع ہوا تو عثمان اس کا حصّہ بن گئے۔ یہاں ہونے والے تجربات کی بنیاد پر، انہوں نے اپنا نیم سوانحی ناول ’’گاڈز بٹس آف ووڈ‘‘ لکھا، جسے بہت شہرت ملی۔

    چالیس کی دہائی کے اواخر میں عثمان فرانس چلے گئے، وہاں دورانِ ملازمت ’’فرانسیسی ٹریڈ یونین تحریک‘‘ کا حصہ بنے اور کمیونسٹ پارٹی کے مقامی دھڑے میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے افریقا سے تعلق رکھنے والے معروف انقلابی دانشور’’کلاؤڈ میکے‘‘ اور معروف مارکسسٹ ’’جیکولین رومین‘‘ کو دریافت کیا، ان کی فکر کو قبول کیا اور عملی زندگی میں اسے اپنایا بھی۔ فلم سازی کا شوق ہوا تو روس جاکر فلم سازی کی اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی اور پھر وطن واپس لوٹ آئے۔

    1956 میں عثمان کا فرانسیسی زبان میں لکھا ہوا پہلا ناول’’لی ڈوکرنوئر‘‘ اشاعت پذیر ہوا، اس کے لغوی معنی ایک کالے مزدور کے ہیں۔ عثمان نے فرانس میں بطور افریقی مزدور، جن تعصبات کا سامنا کیا، ان کو بنیاد بنا کر ناول کی کہانی ترتیب دی تھی۔ 1957میں ان کا دوسرا ناول’’اے میرے پیارے ملک اور لوگو‘‘ تھا، جو ایک کسان کی کہانی تھی۔ اس ناول کو عالمی سطح پر زبردست پذیرائی ملی، خاص طور پر کمیونسٹ ممالک سوویت یونین ، چین اور کیوبا کی طرف سے سراہا گیا۔ انہوں نے جہاں اپنی کہانیوں میں فرانسیسی آقاؤں کے تعصبات کو موضوع بنایا، وہیں افریقی اشرافیہ کی زبوں حالی پر بھی مفصّل بات کی۔

    ان کا ایک ناول ’’ژالا۔ Xala‘‘ بھی ہے، جس میں انہوں نے ایسے ہی افریقی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے کردار کو پیش کیا۔ یہ کردار ایک تاجر کا تھا، جس نے تین شادیاں کیں۔ ناول نگار نے اس کی بدعنوانی، اخلاقی گراوٹ اور بشری کمزوریوں کو نہایت خوب صورتی سے کہانی میں‌ پیش کیا ہے۔

    1973 میں یہ ناول فرانسیسی زبان میں چھپا، تین سال بعد اس کا انگریزی میں ترجمہ ہوا۔ اس ناول پر عثمان نے خود ہی فلم بنائی، جس کو 1975 میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ انہوں نے اس فلم کا اسکرپٹ لکھنے کے علاوہ ہدایات بھی دیں۔ فلم میں مقامی اداکاروں اور ہنر مندوں نے کام کیا تھا، کچھ غیر افریقی ہنرمندوں کی خدمات بھی لی گئی تھیں۔ یہ فلم افریقا کے علاوہ، روس اور امریکا میں بھی نمائش پذیر ہوئی۔ سینیگال کی تاریخ میں اس ناول اور فلم کی بے حد اہمیت ہے۔ نوآبادیاتی افریقا کی آزادی کے بعد، سنیما کی تاریخ میں، عثمان ہی وہ سب سے پہلے فلم ساز ہیں، جنہوں نے بین الاقوامی شناخت حاصل کی۔

    عثمان سیمبین نے 4 ناول اور کئی مختصر کہانیاں لکھیں، جن کے متعدد مجموعے شائع ہوئے۔ انہوں نے اپنے فلمی کیرئیر میں 13 فلموں کی ہدایات دیں، 11 فلمیں تحریر کیں، 4 فلموں میں اداکاری بھی کی، جب کہ تین فلموں کے پروڈیوسر رہے۔

    عثمان سیمبین ایک ایسے افریقی ادیب اور فلم ساز ہیں، جنہوں نے ایک پس ماندہ سماج میں رہتے ہوئے ادب اور فن کی بلندی کو چھوا۔

    یکم جنوری 1923ء کو پیدا ہونے والے اس افریقی ناول نگار اور فلم ساز کی زندگی کا سفر 09 جون 2007ء کو تمام ہوا۔

    (عثمان سیمبین پر خرّم سہیل کے مضمون سے خوشہ چینی)