Tag: جون وفیات

  • میکسم گورکی: وہ ناول نگار جسے "ماں” نے دنیا بھر میں لازوال شہرت عطا کی

    میکسم گورکی: وہ ناول نگار جسے "ماں” نے دنیا بھر میں لازوال شہرت عطا کی

    18 جون 1936ء کو دنیا سے رخصت ہوجانے والے نام ور روسی ادیب اور شاعر میکسم گورکی کو "ماں” نے دنیا بھر میں لازوال شہرت عطا کی اور یہ ناول شہرۂ آفاق ثابت ہوا۔

    روسی ادب میں ناول ماں کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے جس نے الیکسی میکسیمووچ پیشکوف المعروف میکسم گورکی کو اپنے ہم عصروں‌ میں ممتاز کیا۔ اس نے 28 مارچ 1868ء کو روس میں جنم لیا، والد کا سایہ کم عمری میں‌ سر سے اٹھ گیا، گورکی نے چھوٹے موٹے کام کیے، اور غربت و افلاس دیکھا، ایک مہربان نے تھوڑا بہت پڑھنا لکھنا سکھا دیا اور پھر وہ علم و ادب کی جانب مائل ہوا۔ آج اسے ایک انقلابی کے طور پر پہچانا جاتا ہے جو توانا اور تازہ فکر شاعر، باکمال ناول نگار، ڈراما نویس اور مستند صحافی بھی تھا۔ اس کے ناول اور مختصر کہانیاں بہت مقبول ہوئیں۔

    میکسم گورکی کا ناول “ماں” 1906ء میں منظر عام پر آیا تھا۔ اس ناول کی کہانی ایک مزدور، اس کی ماں، اس کے چند دوستوں اور چند خواتین کے گرد گھومتی ہے۔ بیٹا انقلابی فکر کا حامل ہے اور گرفتاری کے بعد ماں اپنے بیٹے اور اس کے مقصد یعنی انقلاب کے لیے سختیاں برداشت کرتی ہے، وہ ان پڑھ اور سادہ عورت ہے جو بیٹے کو جیل کے دوران خود بھی ایک انقلابی بن جاتی ہے۔ اس ناول کا دنیا کی بے شمار زبانوں میں ترجمہ جب کہ گورکی کو پانچ مرتبہ ادب کے نوبیل انعام کے لیے بھی نام زد کیا گیا تھا۔

    روس کے اس ادیبِ اعظم نے اپنی آپ بیتی بھی رقم کی جس کا مطالعہ گورکی کے نظریات سے اور اس کے دور میں روس کے حالات سے واقف ہونے کا موقع دیتا ہے، اس آپ بیتی میں کئی اہم سیاسی اور سماجی اور دل چسپ نوعیت کے واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔

  • یومِ وفات: استاد علی اکبر خان نے دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منوایا

    یومِ وفات: استاد علی اکبر خان نے دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منوایا

    کلاسیکی موسیقی میں استاد کا مرتبہ پانے والے علی اکبر خان کا شمار ان فن کاروں میں کیا جاتا ہے جنھوں نے مغرب کو مشرقی موسیقی سے آشنا کیا۔ 18 جون 2009ء کو اس نام وَر اور باکمال فن کار نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔

    علی اکبر خان نے 1922ء میں بنگال کے شہر کومیلا کے ایک قصبے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد علاءُ الدّین بھی فنِ‌ موسیقی میں استاد مشہور تھے اور انہی کے زیرِ سایہ علی اکبر خان نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اس کے بنیادی رموز سیکھے۔ بعدازاں تربیت کے لیے ‘سنیہ میہار گھرانے ’ سے وابستہ ہوگئے۔

    علی اکبر خان 22 سال کے ہوئے تو ریاست جودھ پور میں دربار سے بحیثیت موسیقار وابستہ ہوگئے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ بھارت میں رہے، لیکن 1967ء میں امریکا منتقل ہوگئے اور ریاست کیلی فورنیا میں سکونت اختیار کرلی، بعد میں انھوں نے برکلے میں علی اکبر کالج آف میوزک قائم کیا، جس میں اُن کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔

    سرود کے علاوہ استاد علی اکبر خان ستار، طبلہ اور ڈرم بھی مہارت اور خوبی سے بجاتے تھے۔ سرود کی تعلیم انھوں نے اپنے والد سے اور طبلے کی تربیت اپنے چچا فقیر آفتاب الدّین سے لی تھی۔

    کہتے ہیں ‘سُر بہار’ پیش کرنے میں ان کا کوئی ثانی ہی نہ تھا۔ استاد علی اکبر خان نے بھارت سمیت دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منوایا۔

    1989ء میں انھیں بھارت کا دوسرا بڑا شہری اعزاز عطا کیا گیا، جب کہ 1997ء میں انھیں امریکا میں روایتی فنون کے لیے معروف ‘ہیریٹیج فیلوشپ’ دی گئی۔ ان کی اہمیت اور اپنے فن کے سبب عالمی سطح پر پذیرائی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ انھیں 5 مرتبہ گریمی ایوارڈ کے لیے بھی نام زد کیا گیا تھا۔

    امریکا کے شہر سان فرانسسکو میں وفات پانے والے استاد علی اکبر خان کو برصغیر ہی نہیں‌ بلکہ دنیا بھر میں پہچانا جاتا ہے۔

  • یومِ وفات: فلمی موسیقار واجد علی ناشاد نے پی ٹی وی کے کئی مقبول ڈراموں‌ کے ٹائٹل سانگ بھی بنائے

    یومِ وفات: فلمی موسیقار واجد علی ناشاد نے پی ٹی وی کے کئی مقبول ڈراموں‌ کے ٹائٹل سانگ بھی بنائے

    پاکستان کی فلم نگری کے ممتاز موسیقار واجد علی ناشاد 18 جون 2008ء کو دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کے والد شوکت علی ناشاد بھی فلمی موسیقار تھے۔

    واجد علی ناشاد کا سنِ پیدائش 1953ء ہے۔ ان کا تعلق ممبئی سے تھا۔ ان کے والد 1964ء میں اپنے کنبے کے ساتھ ہجرت کرکے لاہور چلے آئے۔ ہجرت سے قبل واجد جس اسکول میں زیرِ تعلیم تھے، وہاں انھوں نے میوزک ٹیچر پیٹر ہائیکین سے پیانو بجانا سیکھا تھا۔

    واجد علی ناشاد کو اپنے والد کی وجہ سے موسیقی کا شوق تو تھا ہی، بعد میں انھوں نے خود اس فن میں دل چسپی لی اور مہارت حاصل کی۔ انھوں نے پاکستان میں کئی فلموں میں اپنے والد کے ساتھ بطور اسٹنٹ میوزک ڈائریکٹر کام کرتے ہوئے کلاسیکل گیت سنگیت کو سیکھا اور مغربی میوزک کا مطالعہ بھی کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ترتیب دی ہوئی دھنیں منفرد اور مقبول ثابت ہوئیں۔

    واجد علی ناشاد نے تقریباً 50 فلموں کے لیے بطور موسیقار کام کیا جب کہ تقریباً 300 فلموں کا بیک گراؤنڈ میوزک بھی دیا۔ انھوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کے مشہور ڈراموں ’’دشت ‘‘، ’’دوریاں‘‘، ’’ باغی ‘‘ ، ’’پراندہ ‘‘ ، ’’سلسلہ‘‘ ، ’’لنڈا بازار ‘‘ سمیت کئی سیریلوں کے ٹائٹل سانگ بھی بنائے۔

    واجد علی ناشاد نے 1977ء میں فلم ’’پرستش‘‘ کی موسیقی ترتیب دے کر اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔

  • معروف فلمی نغمہ نگار ناظم پانی پتی کی برسی

    معروف فلمی نغمہ نگار ناظم پانی پتی کی برسی

    18 جون 1998ء کو معروف فلمی نغمہ نگار ناظم پانی پتی وفات پاگئے۔ ان کا شمار متحدہ ہندوستان کے اُن تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جن کی فنی عظمت کو سبھی نے تسلیم کیا اور تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آجانے کے باوجود ان کا نام اور ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا بھارتی فلم انڈسٹری میں تذکرہ ہوتا رہا۔ انھوں نے فلم نگری کو دل میرا توڑا، کہیں کا نہ چھوڑا اور چندا کی نگری سے آ جا ری نندیا جیسے مقبول گیت دیے تھے۔

    ناظم پانی پتی کا اصل نام محمد اسماعیل تھا۔ 15 نومبر 1920 کو لاہور میں پیدا ہونے والے ناظم پانی پتی کے بڑے بھائی ولی صاحب اور ان کی بھاوج ممتاز شانتی کا تعلق فلمی دنیا سے تھا۔ ناظم پانی پتی نے لاہور سے فلموں کے لیے نغمہ نگاری شروع کی۔ خزانچی، پونجی، یملا جٹ، چوہدری، زمین دار اور شیریں فرہاد جیسی فلموں کے لیے انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور نام و مقام حاصل کیا۔

    وہ لگ بھگ دس سال تک بمبئی میں رہے جہاں 25 سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے۔ ان کی مشہور فلموں میں مجبور، بہار، شیش محل، لاڈلی، شادی، ہیر رانجھا اور دیگر شامل ہیں۔

    پاکستان میں انھوں نے جن فلموں کے لیے یادگار نغمات تحریر کیے ان میں لختِ جگر، شاہی فقیر، سہیلی، بیٹی اور انسانیت سرفہرست ہیں۔ انھوں نے اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں بھی گیت نگاری کی اور متعدد فلموں کا اسکرپٹ بھی لکھا۔

    ناظم پانی پتی لاہور میں ماڈل ٹائون کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یومِ‌ وفات: استاد لطافت حسین گائیکی کے ساتھ ہارمونیم، سرمنڈل اور تانپورہ بجانے میں اختصاص رکھتے تھے

    یومِ‌ وفات: استاد لطافت حسین گائیکی کے ساتھ ہارمونیم، سرمنڈل اور تانپورہ بجانے میں اختصاص رکھتے تھے

    آج کلاسیکی موسیقی کے استاد لطافت حسین کی برسی ہے۔ وہ گائیکی کے ساتھ ہارمونیم بجانے میں‌ اختصاص رکھتے تھے۔ استاد لطافت حسین 17 جون 2005ء کو وفات پاگئے تھے۔

    کلاسیکی موسیقی میں استاد کا مرتبہ حاصل کرنے والے لطافت حسین کا تعلق شام چوراسی گھرانے سے تھا جو برصغیر میں اس فن کے حوالے سے مشہور رہا ہے اور اس گھرانے نے پاکستان کو وہ نام دیے جو سُر اور ساز کی دنیا میں معروف ہوئے اور اپنے وطن کی پہچان بنے۔ استاد لطافت حسین فنِ موسیقی میں نام ور استاد سلامت علی خان کے فرزند اور استاد نزاکت علی خان کے بھتیجے تھے۔

    ان کا خاندان خیال، دھرپد اور کلاسیکی موسیقی کے حوالے سے برصغیر میں معروف ہے۔ استاد لطافت حسین خان گائیکی کے علاوہ ہارمونیم، سرمنڈل اور تانپورہ بجانے میں اختصاص رکھتے تھے۔

    استاد لطافت حسین کے بھائیوں میں شرافت علی خان، سخاوت علی خان اور شفقت علی خان بھی کلاسیکی گائیکی کے حوالے سے نام و پہچان رکھتے ہیں‌ اور مقبول گلوکار رفاقت علی خان بھی ان کے عزیز ہیں۔

  • نام ور پاکستانی سائنس داں آئی ایچ عثمانی کی برسی

    نام ور پاکستانی سائنس داں آئی ایچ عثمانی کی برسی

    پاکستان کے نام وَر سائنس داں ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی 17 جون 1992ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    15 اپریل 1917ء کو پیدا ہونے والے عشرت حسین عثمانی نے بمبئی یونیورسٹی سے بی ایس سی آنرز، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ایم ایس سی اور لندن کی جامعہ سے مشہور نوبیل انعام یافتہ سائنس داں جی پی ٹامسن کے زیرِ نگرانی اپنا پی ایچ ڈی مکمل کیا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے سول سروس میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دیں جن میں سب سے اہم عہدہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی چیئرمین شپ تھا۔ ان کے دور میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھی گئی اور کراچی میں کینپ کا نیوکلیئر پاور پلانٹ نصب کیا گیا۔ 1972ء میں وہ وزارتِ سائنس اور ٹیکنالوجی کے سیکریٹری مقرر ہوئے جو انہی کی تجویز پر قائم کی گئی تھی۔

    حکومتِ پاکستان نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ستارۂ پاکستان اور نشانِ امتیاز عطا کیے تھے۔

    آئی ایچ عثمانی کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • جادو بیاں اور ہر دل عزیز، طارق عزیز کی پہلی برسی

    جادو بیاں اور ہر دل عزیز، طارق عزیز کی پہلی برسی

    آج طارق عزیز کی پہلی برسی منائی جارہی ہے جنھوں نے ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلم نگری تک بے مثال کام کیا اور ان کے منفرد اندازِ میزبانی نے پروگرام کے شائقین کو ان کا پرستار بنا دیا۔ پچھلے سال 17 جون کو طارق عزیز نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔

    علم و ادب، فنونِ لطیفہ بالخصوص پرفارمنگ آرٹ کی دنیا میں طارق عزیز کی خاص پہچان ان کی منفرد آواز اور شستہ و شائستہ لب و لہجہ اور طرزِ گفتگو تھا۔ نیلام گھر نے انھیں ہفت آسمان مقبولیت دی۔ وہ پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ میں کئی دہائیوں تک جاری رہنے والے اس معلوماتی اور ذہنی آزمائش کے پروگرام کے میزبان تھے۔ وہ اپنے پروگرام کا آغاز مخصوص انداز میں اس جملے سے کرتے، ’دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام‘ جو بہت مشہور ہوا۔ انھوں نے پروگرام کے حاضرین اور ناظرین کی تفریح اور دل چسپی کو بھی مدنظر رکھا۔ وہ حاضر باش اور طباع تھے اور اکثر اس طرح‌ شوخیِ اظہار سے کام لیتے کہ سبھی مسکرانے پر مجبور ہو جاتے۔

    چار دہائیوں تک جاری رہنے والے اس پروگرام کو ’بزمِ طارق عزیز‘ ہی کا نام دے دیا گیا تھا۔

    طارق عزیز ایسے فن کار تھے جو علم دوست اور شائقِ مطالعہ بھی تھے، وہ مختلف موضوعات پر جامع اور مدلّل طریقے سے اظہارِ خیال کرتے اور ان کی گفتگو سے علمیت، قابلیت اور ذہانت جھلکتی تھی۔ برجستہ اور موقع کی مناسبت سے کوئی مشہور قول سنانا یا شعر کا سہارا لے کر اپنی بات کو آگے بڑھانے والے طارق عزیز اہلِ محفل کو متوجہ کرنے کا ہنر جانتے تھے۔

    طارق عزیز نے اپنے فن کا سفر ریڈیو پاکستان سے شروع کیا اور جب پاکستان میں ٹیلی ویژن نشریات کا آغاز ہوا تو وہی پہلے میزبان کے طور پر اسکرین پر نظر آئے۔

    طارق عزیز 28 اپریل 1936ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے وقت ان کا خاندان پاکستان آگیا جہاں طارق عزیز کا بچپن ساہیوال میں گزرا اور وہیں ابتدائی تعلیم بھی حاصل کی۔

    انھوں نے فلموں میں بھی اداکاری کی۔ ان کی پہلی فلم انسانیت 1967ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی جب کہ سال گرہ، قسم اس وقت کی، ہار گیا انسان میں بھی انھیں‌ بطور اداکار دیکھا گیا۔ طارق عزیز نے سیاست میں بھی حصہ لیا اور 1997ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔

    وہ ادیب اور شاعر بھی تھے۔ انھیں بے شمار اشعار بھی ازبر تھے۔ کالم نویسی بھی کی اور اپنے پروگراموں کا اسکرپٹ بھی لکھا، ان کے کالموں کا ایک مجموعہ داستان کے نام سے جب کہ پنجابی شاعری کا مجموعہ ہمزاد دا دکھ شایع ہوچکا ہے۔ اردو زبان میں ان کا یہ شعر بہت مشہور ہوا:

    ہم وہ سیہ نصیب ہیں طارق کہ شہر میں
    کھولیں دکاں کفن کی تو سب مرنا چھوڑ دیں

    لاہور میں انتقال کرجانے والے طارق عزیز نے زندگی کے 84 سال اس عالمِ فانی میں بسر کیے۔

    1992ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • معروف لوک گلوکار سائیں اختر حسین کی برسی

    معروف لوک گلوکار سائیں اختر حسین کی برسی

    16 جون 1987ء کو پاکستان کے معروف لوک گلوکار سائیں اختر حسین وفات پاگئے تھے۔ وہ کافیاں اور لوک گیت گانے کے علاوہ فلموں‌ کے معاون گلوکار کی حیثیت سے مشہور تھے۔

    سائیں اختر حسین کو مزارات اور خانقاہوں پر عرس اور دیگر روحانی محافل میں‌ عارفانہ کلام اور کافیاں گانے کے لیے بلایا جاتا تھا جب کہ انھوں نے متعدد پاکستانی فلموں‌ میں دھمال اور قوالیوں کے مناظر کے دوران بھی پرفارم کیا۔ وہ اپنے الاپ اور لمبی تانوں کی وجہ سے مشہور تھے۔

    سائیں اختر حسین 1920ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے موسیقی کی تربیت استاد بھائی لعل محمد سے حاصل کی۔ 1962ء میں انھوں نے فلم ’’عشق پر زور نہیں‘‘ کے ایک گیت ’’دل دیتا ہے رو رو دہائی …کسی سے کوئی پیار نہ کرے‘‘ کے لیے پس منظر میں الاپ دیا اور بہت شہرت پائی۔ سائیں اختر حسین نے اندرونِ ملک ہی نہیں دنیا کے مختلف ممالک میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے حضرت نظام الدین اولیاؒ، حضرت امیر خسروؒ، حضرت مخدوم صابر ؒ اور خواجہ معین الدین چشتی جیسے بزرگوں اور اولیا اللہ کے مزارات پر عرس کی بڑی تقریبات میں عارفانہ کلام پیش کیا۔

    سائیں اختر نے 1956ء میں پہلی بار فلم کے لیے پسِ پردہ آواز دی تھی۔ اس کے بعد متعدد فلموں کے گیتوں‌ کے لیے جب ان کی مخصوص آواز کی ضرورت محسوس کی گئی تو سائیں اختر دھن ساز کی توقع پر پورے اترے۔ انھوں نے سولو گیت بہت کم گائے اور اس کی وجہ ان کی وہ مخصوص آواز تھی جو بہرحال فلمی گائیکی کے لیے موزوں نہیں تھی۔ ان کی آواز کو ایک کُھلے گلے اور اونچے سُروں میں گانے والے گلوکار کے طور پر فلمی دھمالوں اور قوالیوں میں شامل کیا جاتا تھا۔

    ان کے غیر فلمی گیتوں میں سے ایک "دل والا روگ نئیں کسے نوں سنائی دا، اپنی سوچاں وچ آپ مر جائی دا۔۔” بڑا مقبول گیت تھا۔

    سائیں اختر حسین لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ وفات کے بعد حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی ان کے نام کیا گیا۔

  • سید ممتاز علی: ہندوستان میں تعلیم و حقوقِ نسواں کے اوّلین علم بردار

    سید ممتاز علی: ہندوستان میں تعلیم و حقوقِ نسواں کے اوّلین علم بردار

    ہندوستان میں عورتوں کی تعلیم کے اوّلین علم برداروں میں ایک نام سیّد ممتاز علی کا تھا جو مشہور ہفتہ وار اخبار تہذیبِ نسواں کے بانی تھے۔ علمی و ادبی میدان میں‌ خدمات پر متحدہ ہندوستان کی حکومت نے انھیں شمسُ العلما کا خطاب دیا تھا۔

    تہذیبِ نسواں ہندوستان کے مسلم گھرانوں اور اردو داں طبقے میں‌ خاصا مقبول تھا۔ اس اخبار نے جہاں‌ ہندوستانی عورتوں کو بیدار مغز اور باشعور بنانے میں کردار ادا کیا، وہیں اس پرچے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہی نہیں معمولی پڑھی لکھی عورتوں میں بھی تصنیف و تالیف کا شوق پیدا ہوا۔ اخبار کی ادارت محمدی بیگم کے ذمّہ تھی جو سیّد ممتاز علی کی زوجہ تھیں۔

    سیّد ممتاز علی 15 جون 1935ء کو وفات پاگئے تھے۔ اردو زبان کے اس معروف مصنّف اور مترجم نے متعدد علمی و ادبی مضامین تحریر کیے۔ سیّد ممتاز علی رفاہِ عام پریس کے مالک تھے اور انھیں ناشر کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔

    سیّد ممتاز علی 1860ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی اور انگریزی کی تعلیم بھی پائی۔ 1876ء میں لاہور چلے گئے جہاں‌ تا دمِ مرگ قیام رہا۔

    1884ء میں انھوں نے پنجاب میں عدالتی مترجم کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی اور 1891ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ 1898ء کو لاہور میں چھاپا خانہ قائم کیا اور نہایت بلند پایہ کتابیں شایع کیں۔ اسی برس تہذیبِ نسواں بازار میں آیا تھا جو 1949ء تک جاری رہا۔ سیّد ممتاز علی نے 1909ء میں بچّوں کا جریدہ پھول بھی جاری کیا تھا اور یہ تقسیمِ ہند کے بعد بھی شایع ہوتا رہا۔

    مولوی سیّد ممتاز علی علم و ادب میں ممتاز اور مسلمانانِ ہند کے خیر خواہ اور مصلح سرسیّد احمد خان کے رفیق بھی تھے۔ ہر کام میں‌ ان سے صلاح و مشورہ کرتے اور ان کی طرح ہندوستانیوں‌ کے لیے جدید علوم اور تعلیم و تربیت کا حصول لازمی خیال کرتے تھے۔
    اِن کے اخبار تہذیبِ نسواں کا پہلا شمارہ یکم جولائی 1898ء کو منظر عام پر آیا تھا۔ اس اخبار کا نام تہذیبُ الاخلاق سے مشابہ تھا جو سر سیّد احمد خان نے تجویز کیا تھا۔

    1934ء میں شمس العلما کا خطاب پانے والے سیّد ممتاز علی کے مطبع خانے سے جو تصانیف شایع ہوئیں، ان میں حقوقِ نسواں (1898ء)، مولوی مرزا سلطان احمد خاں کے متفرق مضامین کا مجموعہ ریاضُ الاخلاق (1900ء) اور سراجُ الاخلاق، تفصیلُ البیان، شیخ حسن (1930ء) اور دیگر شامل ہیں۔

    مولوی سیّد ممتاز علی کی جواں سال زوجہ محمدی بیگم 1908ء میں انتقال کرگئی تھیں۔ ان کی وفات کے بعد صاحب زادی وحیدہ بیگم نے اس اخبار کی ادارت سنبھالی، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وحیدہ بیگم 1917ء میں خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ کچھ عرصے کے لیے مولوی ممتاز علی کی بہو نے اخبار کی ادارت کی اور پھر اس اخبار کو مولوی ممتاز کے صاحب زادے اور اردو کے نام وَر ادیب امتیاز علی تاج نے سنبھالا۔ وہ اس کے آخری مدیر تھے۔

  • یومِ‌ وفات: نڈر، بے باک اور باضمیر، ضمیر نیازی صحافت کی آبرو تھے

    یومِ‌ وفات: نڈر، بے باک اور باضمیر، ضمیر نیازی صحافت کی آبرو تھے

    پاکستان کے نام وَر صحافی، مصنّف اور آزادیٔ صحافت کے علم بردار ضمیر نیازی 11 جون 2004ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ وہ پاکستانی میڈیا کی تاریخ لکھنے والے پہلے صحافی تھے۔ انھوں نے نہ صرف پاکستانی صحافت کی تاریخ مرتّب کی بلکہ اس موضوع پر متعدد کتابیں بھی لکھیں جو اس شعبے میں راہ نما اور اہم سمجھی جاتی ہیں۔

    ضمیر نیازی کی مشہور کتابوں میں ’پریس ان چینز‘، ’پریس انڈر سیج‘ اور ’ویب آف سنسر شپ‘ شامل ہیں۔ جنرل ضیاءُ الحق کے دورِ حکومت میں ان کی کتاب ’پریس ان چینز‘ پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ یہ کتاب بے حد مقبول ہوئی اور اس کے متعدد ایڈیشن اور تراجم شامل ہوئے۔ پی پی پی کے دور میں جب شام کے چند اخبارات پر پابندی لگی گئی تو انھوں نے احتجاجاً حکومت کی جانب سے دیا گیا تمغہ برائے حسنِ کارکردگی واپس کر دیا۔ انھیں جامعہ کراچی نے بھی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دینے کا اعلان کیا تھا، مگر ضمیر نیازی نے اس کے لیے گورنر ہائوس جانے سے انکار کردیا تھا۔

    ضمیر نیازی 1932ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر ممبئی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام ابراہیم جان محمد درویش تھا۔ ضمیر نیازی نے صحافتی زندگی کا آغاز ممبئی کے ایک اخبار انقلاب سے کیا۔ بعد میں‌ ہجرت کر کے پاکستان آ گئے اور کراچی میں سکونت اختیار کر لی جہاں صحافتی سفر دوبارہ شروع کیا۔ ڈان اور بزنس ریکارڈر سے منسلک رہنے کے بعد عملی صحافت چھوڑ کر خود کو تحقیق اور تصنیف تک محدود کرلیا تھا۔

    ضمیر نیازی کی دیگر تصانیف میں باغبانِ صحرا، انگلیاں فگار اپنی اور حکایاتِ خونچکاں شامل ہیں۔ اس نڈر اور بے باک صحافی کو کراچی کے قبرستان میں‌ آسودہ خاک کیا گیا۔