Tag: جون وفیات

  • نام وَر ہندوستانی مؤرخ اور ماہرِ آثار و ثقافت زبیدہ یزدانی کی برسی

    نام وَر ہندوستانی مؤرخ اور ماہرِ آثار و ثقافت زبیدہ یزدانی کی برسی

    نام وَر مؤرخ اور ماہرِ ثقافت زبیدہ یزدانی 11 جون 1996ء کو لندن میں وفات پاگئی تھیں۔ انھوں نے ہندوستان کی تاریخ پر کتب اور متعدد علمی مضامین لکھے اور پیشہ وَر مؤرخ کی حیثیت سے مشہور ہوئیں۔ زبیدہ یزدانی کا خاص موضوع حیدرآباد دکن تھا جس پر ان کے کام کو سند اور معتبر حوالہ مانا جاتا ہے۔

    27 اپریل 1916ء کو پیدا ہونے والی زبیدہ یزدانی کے والد ڈاکٹر غلام یزدانی بھی ماہرِ‌ آثارِ قدیمہ کی حیثیت سے مشہور تھے۔ ہندوستان میں تاریخ اور ثقافت کے حوالے سے ان کا اہم کردار رہا جب کہ ان کی تصنیف کردہ کتب یادگار اور اہم تاریخی حوالہ ثابت ہوئیں۔ وہ حیدرآباد، دکن میں نظام کے دور میں آثارِ قدیمہ کے ڈائریکٹر تھے اور اجنتا اور ایلورا کے غاروں‌ کے تحفظ کے لیے کام کرنے کے علاوہ مختلف مذاہب کے تاریخی معبدوں کی ازسرِ نو تعمیر و مرمت بھی اپنی نگرانی میں کروائی۔ زبیدہ یزدانی نے بھی اپنے والد کی طرح تاریخ و آثار، تہذیب و ثقافت میں دل چسپی لی اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے اس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی، وہ اکسفورڈ میں داخلہ لینے والی اوّلین ایشیائی خواتین میں سے ایک تھیں۔

    زبیدہ یزدانی کی پہلی کتاب "Hyderabad during the Residency of Henry Russell 1811 – 1820” تھی جب کہ دوسری اہم کتاب "The Seventh Nizam: The Fallen Empire” کے نام سے شایع ہوئی تھی۔ زبیدہ یزدانی سماجی اور تعلیمی کاموں کے لیے بھی مشہور تھیں۔

    حیدرآباد دکن کی تاریخ اور ثقافت کی ماہر زبیدہ یزدانی نے اسی مردم خیز خطّے میں علم و فنون کی آبیاری کے لیے مشہور اور عظیم درس گاہ جامعہ عثمانیہ کے ویمن کالج میں استاد کی حیثیت سے وقت گزارا اور اس دوران اپنا علمی اور تحقیقی کام بھی جاری رکھا۔ انھوں نے 1976ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے شوہر میر یٰسین علی خان کے ساتھ برطانیہ میں سکونت اختیار کرلی تھی اور وہیں انتقال کیا۔

  • یومِ وفات: پنجابی فلموں‌ کے مقبول اداکار اکمل زندگی کی محض 38 بہاریں‌ دیکھ سکے

    یومِ وفات: پنجابی فلموں‌ کے مقبول اداکار اکمل زندگی کی محض 38 بہاریں‌ دیکھ سکے

    خوش قامت اور خوب رُو اکمل فلم نگری کے میک اَپ آرٹسٹ تھے جب کہ ان کے بھائی مشہور و معروف اداکار۔ فلم نگری سے وابستگی کے سبب اکمل کے لیے بہ طور اداکار قسمت آزمانا کچھ مشکل نہ تھا۔ انھوں نے ‘ایکسٹرا’ کے طور پر اپنا سفر شروع کیا اور ایک وقت آیا جب وہ پنجابی فلموں کے مقبول اور مصروف ترین اداکار بنے۔

    آج اداکار اکمل کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 11 جون 1967ء کو محض 38 سال کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔

    اکمل نے 1956ء میں فلم جبرو میں ہیرو کا رول نبھایا اور بڑے پردے کے شائقین اور فلم سازوں سے قبولیت اور پسندیدگی کی توقع کرنے لگے، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اگلے 8 برس تک اکمل کو درجن سے زائد فلموں میں ہیرو یا مرکزی رول نبھانے کے باوجود خاص پذیرائی نہیں‌ مل سکی۔ اس ناکامی سے مایوس اکمل نے ہمّت نہ ہاری اور سفر جاری رکھا۔

    اکمل پنجابی فلموں کے پہلے ہیرو تھے جنھوں نے ایک فلمی سالم میں 10 سے زائد فلموں میں کام کیا اور یہ سلسلہ مزید دو سال جاری رہا جس سے اکمل کی مقبولیت اور مصروفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اداکارہ فردوس کے ساتھ ان کی جوڑی کو بہت شہرت ملی تھی۔ بعد میں انھوں نے شادی کرلی تھی، لیکن جلد علیحدگی ہوگئی۔

    اداکار اکمل کا اصل نام محمد آصف خان تھا۔ وہ 1929ء میں پیدا ہوئے تھے۔ اکمل نے مجموعی طور پر 64 فلموں میں کام کیا۔ اس سفر میں اکمل کی مقبولیت اور کام یابی پنجابی فلموں تک محدود رہی اور اردو زبان میں بننے والی متعدد فلموں میں انھوں نے ناکامی کا سامنا کیا۔

    اداکار اکمل کی آخری فلم ’’بہادر کسان‘‘ تھی جو 1970ء میں نمائش پذیر ہوئی۔ ان کی دیگر فلموں میں چوڑیاں، زمیندار، پیدا گیر، بچہ جمہورا، بہروپیا، چاچا خواہ مخواہ، ہتھ جوڑی، کھیڈن دے دن، ہیر سیال، جگری یار، بانکی نار، وارث شاہ، ڈھول سپاہی، بھرجائی، من موجی، ملنگی، خاندان سرِفہرست ہیں۔

    کہتے ہیں مشہور فلمی اداکارہ فردوس سے ازدواجی تعلق ختم کرنے کے بعد اکمل بہت دکھی اور تکلیف میں مبتلا تھے، اور انھو‌ں نے اپنا غم غلط کرنے کے لیے مے نوشی کا سہارا لیا جس کی زیادتی نے انھیں نوجوانی اور اپنے زمانہ عروج میں زندگی سے محروم کردیا۔

  • نام وَر اداکار اور پاکستانی فلموں کے مقبول ہیرو سنتوش کمار کی برسی

    نام وَر اداکار اور پاکستانی فلموں کے مقبول ہیرو سنتوش کمار کی برسی

    11 جون 1982ء کو پاکستانی فلم نگری کے مقبول ہیرو اور نام وَر اداکار سنتوش کمار نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔ سنتوش کمار نے صبیحہ خانم سے شادی کی تھی جو اپنے وقت کی مشہور اداکارہ تھیں۔

    سنتوش کمار کا تعلق ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا۔ ان کا اصل نام سید موسیٰ رضا تھا۔ وہ 25 دسمبر 1926ء کو پیدا ہوئے تھے۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے والے سنتوش کمار نے اپنے ایک دوست کے اصرار پر ایک فلم میں ہیرو کا رول قبول کیا اور بمبئی کی فلمی صنعت کی دو فلموں ’’اہنسا‘‘ اور ’’میری کہانی‘‘ میں کام کیا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان چلے آئے جہاں مسعود پرویز کی فلم ’’بیلی‘‘ سے اپنا سفر شروع کیا۔ سعادت حسن منٹو کی کہانی پر بنائی گئی اس فلم میں صبیحہ نے سائیڈ ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ ’’بیلی’’ کام یاب فلم نہیں تھی، لیکن اس کے بعد ’’دو آنسو‘‘ اور ’’چن وے‘‘ نے سنتوش کمار کے کیریئر کو بڑا سہارا دیا۔ اس سفر میں آگے بڑھتے ہوئے سنتوش نے شہری بابو، غلام، قاتل، انتقام، سرفروش، عشق لیلیٰ، حمیدہ، سات لاکھ، وعدہ، سوال، مکھڑا اور موسیقار جیسی فلموں‌ میں‌ کام کرکے خود کو بڑا اداکار ثابت کردیا۔

    شادی سے پہلے سنتوش اور صبیحہ خانم نے اکٹھے فلموں‌ میں‌ کام کیا تھا، اور جہاں پردۂ سیمیں پر اپنی بہترین پرفارمنس سے شائقین کو اپنا مداح بنایا تھا، وہیں حقیقی زندگی میں بھی ان کی جوڑی مثالی اور قابلِ رشک ثابت ہوئی۔

    سنتوش کمار کی دیگر اہم فلموں میں دامن، کنیز، دیور بھابی، تصویر، شام ڈھلے، انجمن، نائلہ، چنگاری، لوری، گھونگھٹ اور پاک دامن شامل ہیں۔ مجموعی طور پر 92 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے سنتوش کمار نے بہترین اداکاری پر تین نگار ایوارڈ بھی حاصل کیے۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس نام وَر اداکار کو لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • عہد ساز شخصیت اور عظیم ناول نگار چارلس ڈکنز کا تذکرہ

    عہد ساز شخصیت اور عظیم ناول نگار چارلس ڈکنز کا تذکرہ

    عہد ساز شخصیت اور شہرۂ آفاق ناولوں کے خالق چارلس ڈکنز کو برطانوی معاشرے کا نبّاض بھی کہا جاتا ہے جو سماجی برائیوں، خامیوں اور مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے نظام کو بدلنے میں‌ مددگار ثابت ہوا۔ اس عظیم تخلیق کار نے 9 جون 1870ء کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔

    باذوق قارئین اور ناول کے شیدائیوں‌ نے چارلس ڈکنز کے ناول اولیور ٹوئسٹ، ڈیوڈ کاپر فیلڈ، اے ٹیل آف ٹو سٹیز جیسی کہانیاں‌ ضرور پڑھی ہوں گی، یہ ناول عالمی ادب میں کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں اور آج بھی کیمبرج کے نصاب کا حصّہ ہیں۔

    چارلس ڈکنز نے 7 فروری 1812ء کو انگلینڈ کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اس کے والد بحریہ میں کلرک تھے جب کہ والدہ تدریس کے شعبے سے منسلک تھیں۔ اس کے باوجود اس کنبے کے مالی حالات کچھ بہتر نہ تھے اور 1822ء میں حالات اس وقت مزید بگڑے جب ڈکنز کے والد فضول خرچی اور عیّاشی کے ہاتھوں‌ مجبور ہو کر مقروض ہوگئے اور پھر انھیں‌ جیل جانا پڑا۔

    12 سالہ چارلس ڈکنز کو اس واقعے کے بعد فیکٹری میں ملازمت کرنا پڑی۔ اس کا بچپن فیکٹری میں دن رات کام کرتے گزرا، اسے کم اجرت ملتی تھی جب کہ جبر و استحصال کا بھی سامنا کرنا پڑا اور اس کے ذہن پر اس کا گہرا اثر پڑا۔ اس دور کی جھلکیاں اس کے ناول ’’اولیور ٹوئسٹ‘‘ اور ’’ڈیوڈ کاپر فیلڈ‘‘ میں نظر آتی ہیں۔

    15 سال کی عمر میں‌ چارلس ڈکنز نے آفس بوائے کی حیثیت سے ایک ادارے میں ملازمت اختیار کر لی اور یہیں اس نے لکھنا شروع کیا۔ بعد کے برسوں‌ میں‌ وہ برطانیہ کا مقبول ترین فکشن نگار اور سماجی دانش وَر بنا۔ دنیا بھر کی زبانوں‌ میں‌ اس کے ناولوں‌ کا ترجمہ ہوا۔ چارلس ڈکنز نے اپنی کہانیوں کے لیے جو کردار تخلیق کیے وہ آج بھی مقبول ہیں۔ ان کے ناول پر ایک فلم Great Expectations بھی بنائی گئی تھی جسے شائقین نے بہت پسند کیا۔ چارلس ڈکنز کو ایک عظیم تخلیق کار ہی نہیں برطانوی سماج کا محسن بھی مانا جاتا ہے جس نے معاشرے میں سدھار لانے اور مثبت تبدیلیوں کا راستہ ہموار کیا۔

  • مقبول ترین فلمی گیتوں کے خالق اسد بھوپالی کی برسی

    مقبول ترین فلمی گیتوں کے خالق اسد بھوپالی کی برسی

    9 جون 1990ء کو بھارتی فلمی صنعت کے مشہور نغمہ نگار اور معروف شاعر اسد بھوپالی وفات پاگئے تھے۔ اسد بھوپالی نے جہاں اپنے تحریر کردہ گیتوں سے فلم انڈسٹری میں نام و مقام بنایا، وہیں ان کے تخلیق کردہ گیت کئی فلموں کی کام یابی کا سبب بھی بنے۔

    وہ متحدہ ہندوستان کی ریاست بھوپال کے ایک گھرانے میں 10 جولائی 1921ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام اسد اللہ خاں تھا۔ فارسی، عربی اور انگریزی کی رسمی تعلیم حاصل کی، شروع ہی سے شاعری کا شوق رکھتے تھے اور 28 برس کی عمر میں ممبئی چلے گئے جہاں نغمہ نگار کے طور پر انڈسٹری میں قدم رکھا۔ یہ وہ دور تھا جب خمار بارہ بنکوی، جاں نثار اختر، راجندر کرشن اور پریم دھون جیسے گیت نگاروں کا بڑا زور تھا اور ان کے علاوہ مجروح سلطان پوری، شکیل بدایونی، حسرت جے پوری بھی اپنے فن اور قسمت کو آزما رہے تھے، لیکن اسد بھوپالی ان کے درمیان جگہ بنانے میں کام یاب ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بھوپال کے پہلے شاعر تھے جس نے فلم نگری میں قدم رکھا اور گیت نگاری شروع کی۔

    انھیں‌ 1949ء میں فلم ’’دنیا‘‘ کے دو نغمات لکھنے کا موقع ملا جن میں سے ایک گیت محمد رفیع نے گایا جس کے بول تھے، ’’رونا ہے تو چپکے چپکے رو، آنسو نہ بہا، آوازنہ دے‘‘ اور دوسرا گیت ثرّیا کی آواز میں مقبول ہوا جس کے بول ’’ارمان لٹے دل ٹوٹ گیا، دکھ درد کا ساتھی چھوٹ گیا‘‘ تھے۔ یہ دونوں گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے۔

    چند فلموں کے لیے مزید گیت لکھنے کے بعد اسد بھوپالی کو بی آر چوپڑا کی مشہور فلم ’’افسانہ‘‘ کے نغمات تحریر کرنے کا موقع ملا جو بہت مقبول ہوئے۔ تاہم بعد میں ان کے کیریئر کو زوال آیا اور وہ غیرمقبول شاعر ثابت ہوئے۔

    1949ء سے 1990ء تک اسد بھوپالی نے لگ بھگ سو فلموں کے لیے نغمات تخلیق کیے۔ ’’پارس منی‘‘ وہ فلم تھی جس کے گیتوں نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا، اور بعد میں ’’استادوں کے استاد‘‘ کے گیت امر ہوگئے۔ 1989ء میں اسد بھوپالی نے فلم ’’میں نے پیار کیا‘‘ کے نغمات تخلیق کیے جنھیں پاک و ہند میں‌ شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔

    اردو کے ممتاز شاعر اور فلمی نغمہ نگار اسد بھوپالی کے لکھے ہوئے یہ دو گیت برصغیر کی تاریخ میں‌ امر ہوچکے ہیں اور آج بھی سرحد کے دونوں اطراف ان کی گونج سنائی دیتی ہے۔ ان کے بول ہیں، دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ، اور دوسرا گیت ہے، کبوتر جا، جا جا، کبوتر جا….

    انھوں نے دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ جیسا خوب صورت گیت تخلیق کرنے پر بھارت کی فلمی صنعت کا سب سے بڑا فلم فیئر ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔

  • یومِ‌ وفات: مشہور مصوّر ایم ایف حسین جن کا فن پارہ خود اُن کی زندگی کے لیے خطرہ بن گیا

    یومِ‌ وفات: مشہور مصوّر ایم ایف حسین جن کا فن پارہ خود اُن کی زندگی کے لیے خطرہ بن گیا

    عالمی شہرت یافتہ مصوّر مقبول فدا حسین 9 جون 2011ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کی عمر 95 برس تھی۔ انھیں بھارت کا ‘پکاسو’ بھی کہا جاتا ہے۔

    وہ بھارت اور دنیا بھر میں ایم ایف حسین کے نام سے مشہور پہچانے گئے۔ ایم ایف حسین کو ان کے بعض نظریات اور بیانات کی وجہ سے قدامت پرستوں کی جانب سے تنقید اور شدید ناپسندیدگی کا سامنا بھی کرنا پڑا جب کہ ان کے بعض فن پارے بھارت میں‌ مذہبی تنازع کا باعث بنے، ان پر ہندو دیوی دیوتاؤں کی توہین کا الزام لگایا گیا اور ایم ایف حسین پر مقدمات کیے گئے۔ اسی تنازع میں انھیں انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے قتل کی دھمکیاں ملیں‌ اور وہ خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔

    ایم ایف حسین 17 ستمبر سن 1915ء کو بھارت میں پندھر پور میں پیدا ہوئے۔ ان کی زندگی کا بیش تر حصّہ ممبئی شہر میں گزرا۔ انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز فلموں کے بڑے بڑے بورڈ پینٹ کرنے سے کیا اور پھر وہ وقت آیا کہ ان کے فن پارے لاکھوں کروڑوں میں فروخت ہونے لگے۔ ایم ایف حسین بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں ایک مشہور مصوّر بن چکے تھے۔

    سن 2008ء میں ہندو مذہبی داستانوں پر مبنی ان کا ایک فن پارہ تقریباً دو ملین ڈالر میں فروخت ہوا، جو اُس وقت تک جنوبی ایشیا میں کسی جدید فن پارے کے لیے ادا کی گئی ریکارڈ رقم تھی۔

    ایم ایف حسین نے چند فلمیں بھی بنائیں، جن میں معروف بھارتی اداکارہ مادھوری ڈکشٹ کے ساتھ بنائی گئی فلم ’گج گامنی‘ بھی شامل ہے۔ ’ایک مصوّر کی آنکھ سے‘ اُن کی پہلی فلم تھی، جو انہوں نے سن 1967ء میں بنائی تھی اس فلم نے برلن، جرمنی کے بین الاقوامی فلمی میلے میں بہترین مختصر فلم کا گولڈن بیئر اعزاز جیتا تھا۔

    ایم ایف حسین عارضۂ قلب کے باعث زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ انھیں‌ علاج کی غرض‌ سے لندن کے ایک اسپتال میں‌ داخل کروایا گیا تھا، لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔

  • پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف اداکار جمیل فخری کی برسی

    پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف اداکار جمیل فخری کی برسی

    آج پاکستان ٹیلی ویژن کے نام وَر اداکار جمیل فخری کی برسی ہے۔ وہ 9 جون 2011ء کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

    جمیل فخری پی ٹی وی کے اُن فن کاروں‌ میں سے ایک ہیں جو ‘جعفر حسین’ کے نام سے آج بھی مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ جعفر حسین پی ٹی وی کی مشہور ڈرامہ سیریز اندھیرا اجالا کا ایک ایسا کردار تھا جس نے جمیل فخری کو لازوال شہرت اور مقبولیت دی۔

    اس دور میں چھوٹی اسکرین پاکستان بھر میں ناظرین کی تفریح کا واحد ذریعہ ہوتی تھی اور اندھیرا اجالا سماجی مسائل اور جرم و سزا پر ایک ایسی ڈرامہ ثابت ہوا جس نے ناظرین کے دل جیت لیے۔ نام وَر اداکار قوی خان اور عرفان کھوسٹ کے کرداروں کے علاوہ پولیس انسپکٹر کے روپ میں مرحوم جمیل فخری کا مخصوص لب و لہجہ اور ان کا انداز سبھی کو بھایا اور ان کی اداکاری کو بے حد سراہا گیا۔

    جمیل فخری نے ستّر کی دہائی میں اداکاری کا آغاز کیا تھا۔ معروف اداکار، اسکرپٹ رائٹر اور مزاح گو شاعر اطہر شاہ خان نے انھیں ’اندر آنا منع ہے‘ نامی اسٹیج ڈرامے میں متعارف کرایا تھا جس کے بعد جمیل فخری کو پی ٹی وی پر ’اندھیرا اجالا‘ میں کردار ادا کرنے کا موقع ملا اور یہی کردار ان کی پہچان بنا۔

    جمیل فخری نے ڈراموں کے علاوہ فلم میں بھی کام کیا جب کہ کئی اسٹیج شوز میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے، لیکن خود کو اسٹیج کی دنیا سے ہم آہنگ نہ کرسکے اور الگ ہو گئے۔ پی ٹی وی پر دلدل، تانے بانے، وارث، بندھن، ایک محبت سو افسانے میں انھوں‌ نے بے مثال اداکاری کی۔

    وہ ذیابیطس اور بلڈ پریشر کے مریض تھے اور وفات سے چند ماہ قبل امریکا میں ان کے بڑے بیٹے کے قتل کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا تھا، جس کے بعد جمیل فخری زیادہ تر خاموش رہنے لگے تھے۔ انھیں لاہور کے قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • اسٹیج کی دنیا کے نام وَر ڈرامہ نگار اور ہدایت کار حبیب تنویر کی برسی

    اسٹیج کی دنیا کے نام وَر ڈرامہ نگار اور ہدایت کار حبیب تنویر کی برسی

    ہندوستان میں تھیٹر کو نیا روپ اور زندگی دینے کے لیے مشہور حبیب احمد خان تنویر 8 جون 2009ء کو اس دارِ‌ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ ان کا شمار بھارت کے نام ور ڈرامہ نگاروں میں‌ کیا جاتا ہے جنھوں نے تھیٹر ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی یادگار کام کیا۔

    حبیب تنویر ہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے۔ وہ ڈرامہ نویس اور ہدایت کار ہی نہیں، ایک اچّھے اداکار، شاعر، موسیقار اور اسٹیج ڈیزائنر بھی تھے۔

    انھوں نے تھیٹر کی دنیا میں معروف ناموں کے بجائے لوک فن کاروں اور مقامی آرٹسٹوں کو موقع دیا اور اپنے ڈراموں میں ان گلیوں اور بازاروں کو اسٹیج بنایا جن سے جڑی ہوئی کہانی وہ بیان کر رہے تھے۔ حبیب تنویر نے یہ تجربہ "آگرہ بازار” سے کیا جو نذیرؔ اکبر آبادی کی زندگی اور ان کی تخلیقات پر مبنی تھا۔ اس ڈرامے کے ذریعے انھوں‌ نے کلاسیکی دور کے اس ممتاز شاعر کو خراجِ تحسین پیش کیا تھا۔

    حبیب تنویر یکم ستمبر سن 1923ء کو رائے پور(ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام حبیب احمد خان تھا۔ انھوں‌ نے شاعری کا آغاز کیا تو اپنا تخلص تنویر رکھا جو بعد میں‌ ان کے نام کا مستقل حصّہ بن گیا۔

    وہ ممبئی میں‌ آل انڈیا ریڈیو سے بہ حیثیت پروڈیوسر وابستہ ہوئے اور اسی عرصے میں انھوں نے ہندی فلموں کے لیے گیت لکھے اور چند فلموں میں اداکاری بھی کی۔

    پچاس کے عشرے میں انھوں‌ نے برطانیہ کا رُخ کیا اور وہاں ڈرامہ اور اس آرٹ کی تعلیم اور تربیت کے لیے داخلہ لے لیا۔ اسی زمانے میں انھیں جرمنی کے شہر برلن میں قیام کا موقع ملا، جہاں انھوں‌ نے نام ور ڈرامہ نگار بیرتھولٹ بریشت کے ڈرامے دیکھے اور ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ بریشت نے ان کے فن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

    اسی کے بعد 1954ء میں انھوں‌ نے ’’آگرہ بازار‘‘ کے نام سے اسٹیج ڈرامہ لکھا تھا۔ 1959ء میں انھوں نے بھوپال میں ’’نیا تھیٹر‘‘ کے نام سے ایک تھیٹر کمپنی کی بنیاد رکھی۔

    1975ء میں حبیب تنویر کا ڈرامہ ’’چرن داس چور‘‘ کے نام سے سامنے آیا اور بے حد مقبول ہوا۔ اِسی ڈرامے پر انھیں 1982ء میں ایڈنبرا انٹرنیشنل ڈرامہ فیسٹیول میں ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ انھیں بھارتی حکومت اور مختلف ادبی تنظیموں کی جانب سے متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں پدم شری اور پدم بھوشن ایوارڈ بھی شامل ہیں۔

  • یومِ‌ وفات: بالی جٹّی کا تذکرہ جنھیں لوگ "ببر شیرنی” کہتے تھے

    یومِ‌ وفات: بالی جٹّی کا تذکرہ جنھیں لوگ "ببر شیرنی” کہتے تھے

    ایک زمانے میں جب آج کی طرح تفریح کے ذرایع میّسر نہ تھے تو لوگ میلوں ٹھیلوں میں عوامی تھیٹر سے وابستہ آرٹسٹوں کی پرفارمنس سے محظوظ ہوتے تھے۔ یہ میلہ بڑے میدان اور کھلی جگہ پر منعقد ہوتا تھا۔ سن اسّی کی دہائی تک خصوصاً پنجاب کے چھوٹے شہروں اور دیہات میں‌ میلوں ٹھیلوں کا یہ سلسلہ جاری رہا جن میں عوامی تھیٹر تفریح کا ایک مقبول ذریعہ تھا۔

    پاکستان میں‌ شہروں شہروں مجمع لگانے اور عوامی تھیٹر کو اپنی پرفارمنس سے سجانے والے مرد فن کاروں میں عالم لوہار، عنایت حسین بھٹی اور عاشق جٹ کے علاوہ بھی کئی نام لیے جاسکتے ہیں، لیکن بالی جٹّی اور دیگر آرٹسٹوں کا نام شاذ ہی لیا جاتا ہے۔

    یہاں‌ ہم بالی جٹّی کا تذکرہ کررہے ہیں جو 8 جون 1996ء کو دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔ عوامی تھیٹر کی اس باکمال آرٹسٹ کا اصل نام عنایت بی بی تھا۔ وہ 1937ء میں ساہیوال میں پیدا ہوئیں۔ 1958ء میں پنجاب کے لوک تھیٹروں کا حصّہ بن کر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے لگیں اور متعدد ڈراموں میں پرفارم کیا۔ وہ گلوکارہ بھی تھیں اور ان کی آواز میں‌ گائے ہوئے پنجاب کے لوک گیت آج بھی عوام میں مقبول ہیں۔

    بالی جٹّی نے 1967ء کی ایک پنجابی فلم منگیتر میں بھی کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم میں‌ وہ اپنے وقت کے مشہور اداکار منور ظریف کے ساتھ نظر آئی تھیں۔

    بالی جٹّی کے ڈراموں میں ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہینوال، مرزا صاحباں، لیلیٰ مجنوں، شیریں فرہاد، سلطانہ ڈاکو اور نورِ اسلام سرفہرست ہیں۔ وہ ڈراموں میں اداکاری کے ساتھ ساتھ گلوکاری بھی کرتی تھیں۔ اس زمانے میں عوامی تھیٹر کے ان آرٹسٹوں کی شہرت اور مقبولیت میلوں ٹھیلوں کے شرکا کے دَم سے قائم رہتی تھی۔ بالی جٹّی بھی اپنی عمدہ پرفارمنس کے سبب پنجاب بھر میں‌ مشہور تھیں۔ کہتے ہیں ان کی گرج دار آواز نے بھی انھیں تھیٹر کی دنیا میں‌ دیگر فن کاروں سے ممتاز کیا جب کہ تھیٹر کے شائقین نے انھیں ببر شیرنی کا خطاب دیا تھا۔

    عوامی تھیٹر کی یہ مقبول اداکارہ اور گلوکارہ لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ممتاز ادیب، ڈرامہ نگار اور اداکار ڈاکٹر انور سجّاد کی برسی

    ممتاز ادیب، ڈرامہ نگار اور اداکار ڈاکٹر انور سجّاد کی برسی

    اردو کے نام وَر ادیب، ڈرامہ و افسانہ نگار، نقّاد، مترجم اور صدا کار ڈاکٹر انور سجّاد 6 جون 2019ء میں وفات پاگئے تھے۔ وہ ترقّی پسند ادیب تھے جن کے نظریات اور افکار ان کی تحریروں سے جھلکتے ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے 1989ء میں انھیں تمغہٴ حسن کارکردگی سے نوازا تھا۔

    انور سجاد نے 1935ء میں‌ لاہور میں‌ آنکھ کھولی اور ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد طبّی تدریس کے لیے مشہور لاہور کے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں‌ داخلہ لے لیا، جہاں‌ سے ایم بی بی ایس کی ڈگری لی، لیکن طبیعت اور رجحان فنون لطیفہ کی طرف مائل تھا، سو ان کی شہرت کا سبب علم و ادب کے مختلف شعبے رہے۔

    انور سجاد کی مشہور کتابوں میں چوراہا، جنم کا روپ، خوشیوں کا باغ، نیلی نوٹ بک شامل ہیں۔ وہ صدا کاری اور اداکاری کا بھی شوق رکھتے تھے۔ انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے ڈرامے تحریر بھی کیے اور خود اداکار کے طور پر اسکرین پر بھی نظر آئے۔

    ناقدین کے مطابق انور سجاد کے افسانے ہوں یا ڈرامے، ان میں استعاراتی طرزِ فکر کو انتہائی مہارت اور کام یابی سے برتا گیا ہے۔ ان کی تحریریں گہرائی اور وسعت کی حامل اور کثیرالجہت ہوتی تھیں۔

    ڈاکٹر انور سجاد کے لکھے ہوئے ٹی وی ڈرامے بھی ناظرین میں مقبول ہوئے۔ انھوں نے طویل دورانیے کے کھیل بھی تحریر کیے۔ ان کے تحریر کردہ ڈراموں میں ’’پکنک، رات کا پچھلا پہر، کوئل، صبا اور سمندر اور یہ زمیں میری ہے‘‘ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی ایک ڈرامہ سیریز ’’زرد دوپہر‘‘ بھی بہت مشہور ہوئی تھی۔

    ڈاکٹر انور سجّاد نے لاہور میں‌ وفات پائی اور وہیں‌ ایک قبرستان میں‌ آسودہ خاک ہیں۔