Tag: جون وفیات

  • معروف کلاسیکی گلوکار استاد ذاکر علی خان کا یومِ وفات

    معروف کلاسیکی گلوکار استاد ذاکر علی خان کا یومِ وفات

    6 جون 2003ء کو پاکستان کے معروف کلاسیکی گلوکار استاد ذاکر علی خان نے ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔ ان کا تعلق موسیقی اور گائیکی کے لیے مشہور شام چوراسی گھرانے سے تھا۔

    استاد ذاکر علی خان 1945ء میں ضلع جالندھر کے مشہور قصبے شام چوراسی میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ استاد نزاکت علی خان، سلامت علی خان کے چھوٹے بھائی تھے۔ ذاکر علی خان اپنے بڑے بھائی اختر علی خان کے ساتھ مل کر گایا کرتے تھے۔ 1958ء میں جب وہ 13 برس کے تھے تو پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان ملتان پر گائیکی کا مظاہرہ کیا۔ بعدازاں انھیں آل پاکستان میوزک کانفرنس میں مدعو کیا جاتا رہا۔

    استاد ذاکر علی خان نے بیرونِ ملک بھی کئی مرتبہ پرفارمنس دی۔ خصوصاً 1965ء میں کلکتہ میں ہونے والی آل انڈیا میوزک کانفرنس میں ان کی پرفارمنس کو یادگار کہا جاتا ہے۔ اس کانفرنس میں فن کا مظاہرہ کرنے پر انھیں ٹائیگر آف بنگال کا خطاب بھی دیا گیا تھا۔ دنیائے موسیقی اور فنِ گائیکی کے لیے شہرت پانے والے استاد ذاکر علی خان نے ایک کتاب نو رنگِ موسیقی بھی لکھی تھی جو بہت مشہور ہے۔

    استاد ذاکر علی خان لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یومِ وفات: یونس پہلوان کو "ستارۂ پاکستان” کا خطاب دیا گیا تھا

    یومِ وفات: یونس پہلوان کو "ستارۂ پاکستان” کا خطاب دیا گیا تھا

    ستارۂ پاکستان کا خطاب پانے والے یونس پہلوان 6 جون1964ء کو انتقال کر گئے تھے۔ آج پاکستان کے اس مشہور پہلوان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا اصل نام یونس خان تھا جو تن سازی کے شوق اور کشتی کے کھیل کے سبب ہر خاص و عام میں یونس پہلوان مشہور ہوگئے۔

    یونس خان 30 دسمبر 1925ء کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ وہ رستمِ ہند رحیم پہلوان سلطانی والا کے شاگرد تھے۔ انھوں نے پہلا دنگل 1941ء میں لڑا تھا اور اس کے اگلے برس رستم پنجاب چراغ نائی پہلوان سے مقابلہ کیا جس میں حریف کو شکست دے کر رستمِ پنجاب کا ٹائٹل اپنے نام کرنے میں کام یاب ہوئے۔

    رستمِ پنجاب کا خطاب پانے کے بعد انھوں نے متعدد مقابلوں میں پہلوانوں کو یکے بعد دیگرے شکست دی۔ 1948ء میں منٹو پارک لاہور میں یونس نے بھولو پہلوان سے مقابلہ کیا جس میں ناکام رہے۔ 1949ء میں یہ دونوں پہلوان ایک مرتبہ پھر کراچی میں‌ آمنے سامنے تھے، لیکن قسمت نے یاوری نہ کی اور یونس پہلوان اس مرتبہ بھی بھولو کو نہ ہرا سکے اور رستمِ پاکستان کا اعزاز ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ تاہم ایک زور آور اور بہترین کھلاڑی کی حیثیت سے یونس پہلوان نے اپنی شہرت قائم رکھی تھی۔

    یونس پہلوان گوجرانوالہ کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • نام وَر موسیقار کمال احمد کی برسی

    نام وَر موسیقار کمال احمد کی برسی

    6 جون 1993ء کو نام وَر فلمی موسیقار کمال احمد لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ کمال احمد پاکستان فلم انڈسٹری کے ان موسیقاروں میں سے ایک تھے جن کی تیّار کردہ دھنیں بہت پسند کی گئیں اور کئی گلوکاروں کی شہرت کا سبب بنیں۔

    کمال احمد 1937ء میں گوڑ گانواں (یو پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ موسیقی سے لگاؤ نے انھیں اس فن کے اسرار و رموز سیکھنے پر آمادہ کیا اور فلم شہنشاہ جہانگیر نے انھیں بڑے پردے پر اپنے فن کو پیش کرنے کا موقع دیا۔ اس کے بعد انھوں نے فلم طوفان میں فنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور فلم سازوں کی ضرورت بن گئے۔

    کمال احمد نے متعدد فلموں میں موسیقی دی جن میں رنگیلا، دل اور دنیا، تیرے میرے سپنے، دولت اور دنیا، راول، بشیرا، وعدہ، سلسلہ پیار دا، دلہن ایک رات کی، کندن، محبت اور مہنگائی، عشق عشق، مٹھی بھر چاول، عشق نچاوے گلی گلی، سنگرام اور ان داتا شامل ہیں۔

    موسیقی کی دنیا کے اس باصلاحیت فن کار نے 6 مرتبہ نگار ایوارڈ حاصل کیا اور جہاں‌ فلم انڈسٹری میں‌ نام بنایا وہیں‌ ان کی خوب صورت دھنوں میں کئی مقبول گیت آج بھی گنگنائے جاتے ہیں جو کمال احمد کی یاد دلاتے ہیں۔ ان گیتوں میں گا میرے منوا گاتا جارے، جانا ہے ہم کا دور، کس نے توڑا ہے دل حضور کا، کس نے ٹھکرایا تیرا پیار، بتا اے دنیا والے، یہ کیسی تیری بستی ہے شامل ہیں۔

  • ممتاز نقّاد، افسانہ نگار، مترجم اور ماہرِ تعلیم مجنوں گورکھپوری کی برسی

    ممتاز نقّاد، افسانہ نگار، مترجم اور ماہرِ تعلیم مجنوں گورکھپوری کی برسی

    اردو کے ممتاز نقّاد، محقق، مترجم، ماہرِ تعلیم اور افسانہ نگار مجنوں گورکھ پوری 4 جون 1988ء کو اس جہانِ‌ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج اردو زبان کی اس نام وَر شخصیت کی برسی ہے۔

    مجنوں گورکھپوری کا اصل نام احمد صدیق تھا۔ وہ 10 مئی 1904ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر گورکھ پور میں پیدا ہوئے تھے۔ علم و ادب کی دنیا میں مجنوں نے اپنی قابلیت اور فن کی بدولت بڑا نام پیدا کیا اور مقام بنایا۔

    ان کا شمار اردو کے چند بڑے نقّادوں میں ہوتا ہے جنھوں نے نقوش و افکار، نکاتِ مجنوں، تنقیدی حاشیے، تاریخِ جمالیات، ادب اور زندگی، غالب شخص اور شاعر جیسا سرمایہ کتابی شکل میں چھوڑا ہے۔

    مجنوں گورکھ پوری ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے۔ ان کے افسانوں کے مجموعے خواب و خیال، مجنوں کے افسانے، سر نوشت، سوگوار شباب اور گردش کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ کراچی میں بطور استاد خدمات انجام دیں۔

    انگریزی زبان و ادب پر بھی مجنوں گورکھ پوری کی گہری نظر تھی۔ انھوں نے شیکسپیئر، ٹالسٹائی، بائیرن، برنارڈ شا اور جان ملٹن کی تخلیقات کو بھی اردو کے قالب میں ڈھالا تھا۔

    مجنوں گورکھ پوری کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یومِ‌ وفات:‌ معروف شاعرہ سارہ شگفتہ نے کہا تھا، "موت کی تلاشی مت لو!”

    یومِ‌ وفات:‌ معروف شاعرہ سارہ شگفتہ نے کہا تھا، "موت کی تلاشی مت لو!”

    4 جون 1984ء کو سارہ شگفتہ نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا تھا۔ وہ اردو اور پنجابی زبان میں شاعری کرتی تھیں۔ اصنافِ سخن میں سارہ کو نثری نظم مرغوب تھی۔

    سارہ شگفتہ 31 اکتوبر 1954ء کو گوجرانوالہ میں‌ پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا تعلق ایک غریب اور تعلیم سے بے بہرہ خاندان سے تھا، سارہ پڑھنا چاہتی تھیں، مگر گھریلو حالات اور شدید اتار چڑھاؤ کے ساتھ ذاتی مسائل کے باعث میٹرک بھی نہ کرسکیں۔ زندگی سے مایوس ہو جانے والی سارہ شگفتہ نے کراچی میں‌ ٹرین کے نیچے آکر اپنی جان دے دی تھی۔

    خود کُشی کے بعد جہاں سارہ کی زندگی کے حالات، حوادث اور المیے زیرِ بحث آئے، وہیں ان کی شاعری کو ایک نئی جہت بھی ملی۔ وفات کے بعد ان کی شخصیت پر نام ور ناول نگار اور پنجابی زبان کی مشہور شاعرہ امرتا پرتیم نے ’ایک تھی سارہ‘، صحافی اور ادیب انور سن رائے نے ’ذلّتوں کے اسیر‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جب کہ پاکستان ٹیلی ویژن نے ڈرامہ سیریل پیش کیا جس کا نام ’آسمان تک دیوار‘ تھا۔

    سارہ کی نثری نظمیں ان کے منفرد اور خوش رنگ اسلوب سے مرصع ہیں۔ اردو زبان میں ان کا مجموعہ کلام آنکھیں اور نیند کا رنگ اشاعت پذیر ہوئے جب کہ پنجابی زبان میں ان کی شاعری بھی کتابی شکل میں محفوظ ہے۔

  • یومِ وفات: کافکا نہیں‌ چاہتا تھا کہ اس کی کہانیاں پڑھی جائیں!

    یومِ وفات: کافکا نہیں‌ چاہتا تھا کہ اس کی کہانیاں پڑھی جائیں!

    فرانز کافکا کو بیسویں صدی کے بہترین ناول نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ تین جون 1924ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔

    کافکا نے 1883ء میں چیکوسلاواکیہ کے ایک قصبے پراگ میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے کافکا نے قانون میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ وہ یہودی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور یہی اس کا مذہب رہا۔ کافکا نے شادی نہیں‌ کی تھی۔

    فرانز کافکا ناول نگار اور کہانی کار تھا۔ اس کی کہانیوں میں تمثیلی انداز متاثر کن ہے۔ مشہور ہے کہ کافکا نے اپنی کچھ تخلیقات کو خود نذرِ آتش کردی تھیں جب کہ اپنے ایک دوست کو یہ وصیت کی تھی کہ وفات کے بعد اس کے مسوّدے جلا دے، لیکن دوست نے اس کی وصیّت پر عمل نہیں‌ کیا۔ شاید وہ نہ چاہتا ہو کہ اس کی تخلیقات پڑھی جائیں لیکن موت کے بعد جب یہ تخلیقات سامنے آئیں تو ان کی ادبی حیثیت اور کافکا کے مرتبے پر بھی بات ہوئی۔

    فرانز کافکا کے ناولوں ’دی ٹرائل‘ اور ’دی کاسل‘ کو دنیا بھر میں سراہا گیا اور یہ ناول کئی زبانوں میں ترجمہ ہوئے۔

    کافکا نے زندگی کی فقط 40 بہاریں دیکھیں اور پھر دنیا سے منہ موڑ لیا۔ یہاں ہم کافکا کی ایک مشہور تمثیل نقل کررہے ہیں جسے جرمن زبان سے مقبول ملک نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔

    "ایک شاہی پیغام”
    بادشاہ نے، کہتے یہی ہیں، تمہیں، فردِ واحد کو، جو اس کی رعایا کا ادنیٰ سا حصہ ہے، بادشاہت کے سورج سے فرار ہو کر زیادہ سے زیادہ ممکن دوری پر پناہ لے چکے انتہائی چھوٹے سے حقیر سائے کو، ہاں تمہیں، تمہیں ہی تو، بادشاہ نے اپنے بسترِ مرگ سے ایک پیغام بھجوایا ہے۔

    بادشاہ کے اشارے پر قاصد نے شاہی بستر کے پاس زمین پر اپنے گھٹنے ٹیکے تو انتہائی علیل بادشاہ نے قاصد کو تمہارے نام اپنا یہ پیغام سرگوشی میں دیا۔ بادشاہ کے لیے یہ پیغام انتہائی اہم تھا۔ اسی لیے قاصد سے کہا گیا کہ وہ سرگوشی میں یہی پیغام بادشاہ کے کان میں دہرائے۔ جب قاصد یہ پیغام دہرا چکا تو بادشاہ نے جو کچھ سرگوشی میں سنا تھا، اس کے درست ہونے کی سر ہلا کر تصدیق بھی کر دی۔

    اس وقت بادشاہ کو مرتے دیکھنے والے جتنے بھی لوگ وہاں موجود تھے، ان کے اور بادشاہ کے درمیان رکاوٹ بننے والی تمام چلمنیں ہٹا دی گئی تھیں، تمام رکاوٹی پردے گرائے جا چکے تھے اور سامنے دور اوپر تک جانے والی گول سیڑھیوں پر دائرے کی شکل میں سلطنت کے تمام شہزادے کھڑے تھے۔ ان سب کے سامنے قاصد نے خود کو فوراً سفر کے لیے تیار کیا اور وہاں سے چل پڑا۔

    قاصد ایک مضبوط جسم والا ایسا شخص تھا جو کبھی تھکتا نہیں تھا۔ وہ حاضرین کے ہجوم کو کبھی اپنے دائیں اور کبھی بائیں بازو سے پیچھے ہٹاتے اور اپنے لیے راستہ بناتے ہوئے وہاں سے گزر رہا تھا۔ جہاں کہیں اسے کچھ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا، وہ اپنے سینے پر چمکتا سورج کا نشان دکھا دیتا۔ وہ اتنی آسانی سے آگے بڑھ رہا تھا، جتنی کسی دوسرے کے لیے ممکن ہی نہیں تھی۔

    لیکن ہجوم بہت ہی بڑا تھا۔ عام لوگوں کے تو محل سے باہر گھروں کے سلسلے بھی بڑے طویل تھے۔ اگر وہ جلد ہی کسی کھلی جگہ پہنچ جاتا، تو وہ اتنی تیزی سے سفر کرتا، جیسے اڑ رہا ہو۔ اور پھر جلد ہی تم یہ آواز سنتے کہ وہ اپنی ہتھیلیوں کے مُکے بنا کر تمہارے دروازے پر زبردست انداز میں دستک دے رہا ہوتا۔

    لیکن اس کے بجائے وہ تو ابھی تک محل کے سب سے اندرونی حصے کے مختلف کمروں سے گزرتے ہوئے اپنے لیے راستہ بنانے میں ہی مصروف تھا۔ اس کی یہ کاوش بالکل بے نتیجہ ہوتی جا رہی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ وہ ان کمروں سے نکلنے میں کبھی کام یاب نہیں ہو پائے گا۔ اور اگر کام یاب ہو بھی گیا، تو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا، کیوں کہ اسے ابھی سیڑھیاں اترنے کے لیے بھی لڑائی کرنا تھی۔

    اگر وہ سیڑھیاں اترنے میں کام یاب ہو بھی گیا، تو اس کا بھی کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ اس لیے کہ سیڑھیوں کے بعد اسے کئی وسیع و عریض برآمدے بھی عبور کرنا تھے۔ ان دالانوں کے بعد ایک دوسرا محل تھا جس نے اس محل کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا جہاں سے نکلنے کی قاصد کوشش کر رہا تھا۔ اس دوسرے محل کے بعد بھی، پھر سیڑھیاں اور برآمدے تھے اور پھر ایک اور محل۔

    یہ جدوجہد یونہی جاری رہی۔ ہزاروں سال تک۔ وہ قاصد بالآخر محل کے سب سے بیرونی دروازے سے باہر نکلنے میں کام یاب ہو سکا؟ کبھی نہیں۔ ایسا تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔ قاصد اگر کبھی محل سے باہر نکلتا بھی، تو پہلے اس کے سامنے شاہی دارالحکومت ہوتا، دنیا کا مرکز، اپنی ہی مٹی میں اس طرح دفن جیسے پھٹنے کو ہو۔

    یہاں سے تو کبھی کوئی گزر ہی نہیں سکتا۔ کسی مردے کا پیغام لے کر جانے والا تو کبھی بھی نہیں۔ تم لیکن اپنے گھر کی کھڑکی کے پاس بیٹھے ہو، جب شام گہری ہونے لگے، تو تم بس اس پیغام کے ملنے کے خواب ہی دیکھتے رہنا۔

  • اختر حسین جعفری: تشبیہ اور تلمیح کے خورشید سے آراستہ نظموں کے خالق کی برسی

    اختر حسین جعفری: تشبیہ اور تلمیح کے خورشید سے آراستہ نظموں کے خالق کی برسی

    اردو کے جدید نظم نگاروں میں‌ ایک معتبر اور ممتاز نام اختر حسین جعفری کا ہے جو 3 جون 1992ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کا شمار بیسویں صدی کے اہم شعرا میں کیا جاتا ہے۔

    اختر حسین جعفری ان معدودے چند شعرا میں سے تھے جنھیں بحیثیت نظم گو جو شہرت اور پذیرائی ملی، انھوں نے خود کو اس کا حق دار بھی ثابت کیا اور اپنی منفرد تخلیقات سے اردو ادب کو مالا مال کیا۔

    وہ 15 اگست 1932ء کو ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہوئے تھے۔ اختر حسین جعفری نے شاعری کا آغاز کیا تو غزل اور نظم دونوں اصنافِ‌ سخن میں طبع آزمائی کی اور بعد کے برسوں‌ میں نظم گو شاعر کے طور پر مشہور ہوئے۔ اختر کو ایک اہم شاعر کا درجہ حاصل ہے جنھوں نے اردو شاعری اور بالخصوص نظم کو نئی جہات سے روشناس کیا۔

    ان کے شعری مجموعوں میں آئینہ خانہ اور جہاں دریا اترتا ہے شامل ہیں۔ آئینہ خانہ وہ شعری مجموعہ تھا جس میں شامل تخلیقات کو نقّادوں نے حسین لسانی پیکروں سے آراستہ اور جدید شاعری کا سرمایۂ افتخار قرار دیا۔

    حکومتِ پاکستان نے اختر حسین جعفری کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر 2002ء میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا جب کہ کتاب آئینہ خانہ پر انھیں آدم جی ادبی انعام بھی دیا گیا۔ ان کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    سب خیال اس کے لیے ہیں سب سوال اس کے لیے
    رکھ دیا ہم نے حسابِ ماہ و سال اس کے لیے

    اس کی خوشبو کے تعاقب میں نکلا آیا چمن
    جھک گئی سوئے زمیں لمحے کی ڈال اس کے لیے

    شاخِ تنہائی سے پھر نکلی بہارِ فصلِ ذات
    اپنی صورت پر ہوئے ہم پھر بحال اس کے لیے

    وصل کے بدلے میں کیا داغِ ستارہ مانگنا
    اس شبِ بے خانماں سے کر سوال اس کے لیے

    لاہور میں‌ وفات پانے والے اختر حسین جعفری شادمان کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • یومِ‌ وفات: راج کپور نے فلموں میں تفریح کے ساتھ سماج میں عدم مساوات اور ناانصافی کو بھی اجاگر کیا

    یومِ‌ وفات: راج کپور نے فلموں میں تفریح کے ساتھ سماج میں عدم مساوات اور ناانصافی کو بھی اجاگر کیا

    راج کپور 2 جون 1988ء کو انتقال کرگئے تھے۔ بولی وڈ کے لیجنڈری اداکار نے بطور فلم ساز اور ہدایت کار بھی خود کو منوایا اور انڈسٹری میں نام و مقام بنانے کے ساتھ سنیما بینوں‌ کے دلوں‌ پر راج کیا۔

    راج کپور کا اصل نام رنبیر راج کپور تھا۔ وہ 14 دسمبر 1924ء کو پشاور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد بھی مشہور اداکار اور فلم ساز تھے جن کا نام پرتھوی راج کپور تھا۔

    1935ء میں بطور چائلڈ ایکٹر فلم نگری میں قدم رکھنے والے راج کپور خوب رُو اور خوش قامت تھے۔ ہیرو کے روپ میں ان کی خوب پذیرائی ہوئی۔ ہدایت کار کی حیثیت سے سفر کا آغاز کیا تو تیسری فلم ’آوارہ‘ نے حقیقی معنوں میں انھیں شہرت دی۔ اس کے بعد برسات، چوری چوری اور جاگتے رہو جیسی کئی فلمیں‌ سپر ہٹ ثابت ہوئیں۔

    لیجنڈری اداکار راج کپور نے دو نیشنل فلم ایوارڈ اور 9 فلم فیئر ایوارڈ اپنے نام کیے اور 1988ء میں انھیں‌ فلم سازی کے لیے بھارت کا اعلیٰ ترین اعزاز دادا صاحب پھالکے دیا گیا۔

    راج کپور نے اپنی فلموں میں‌ شائقینِ سنیما کی تفریح کو ضرور مدّنظر رکھا، لیکن ان کی کوشش ہوتی تھی کہ کسی سماجی مسئلے جیسے ناانصافی اور طبقاتی اونچ نیچ کی نشان دہی بھی کریں‌۔ اسی وجہ سے وہ مساوات کے پرچارک فلم ساز کی حیثیت سے بھی مشہور تھے۔

    بطور ہدایت کار ان کی آخری فلم ’’حنا‘‘ تھی جو ان کی وفات کے بعد ریلیز کی گئی اور یہ فلم بھی کام یاب رہی۔

    اس اداکار کی زندگی اور فنی سفر سے متعلق جاننے کے بعد یہ واقعہ بھی آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے نام ور اداکار، فلم ساز اور ہدایت کار سیّد کمال بھارتی اداکار راج کپور سے گہری مشابہت رکھتے تھے۔ راج کپور سے ان کی دوستی بھی تھی۔

    بھارت میں‌ کسی فلم کی شوٹنگ کی غرض سے راج کپور ایک شہر کے مقامی ہوٹل میں‌ ٹھیرے ہوئے تھے، وہ ہندوستان بھر میں‌ ہیرو کے طور پر شہرت حاصل کرچکے تھے۔ ان کی ہوٹل میں‌ موجودگی کا علم مقامی لوگوں کو ہوا تو وہ ہوٹل کے باہر جمع ہوگئے۔ مداحوں کا اصرار تھا کہ راج کپور انھیں‌ اپنا دیدار کروائیں۔

    اُس روز راج کپور کی طبیعت کچھ ناساز تھی۔ وہ بستر سے اٹھنے کو تیّار نہیں تھے۔ اتفاق سے سیّد کمال ان کے ساتھ تھے۔ نیچے ہجوم کا اصرار بڑھ رہا تھا۔ راج کپور نے کمال کی طرف دیکھا اور کہا کہ وہ بالکونی میں جائیں اور ہاتھ ہلا کر لوگوں سے محبّت کا اظہار اور ان کا شکریہ ادا کریں۔ یوں اداکار کمال نے راج کپور بن کر ان کے مداحوں کو خوش کیا اور کوئی نہیں‌ جان سکا کہ بالکونی میں راج کپور نہیں بلکہ پاکستانی اداکار کمال کھڑے ہیں۔ اسی دن اداکار کمال نے راج کپور بن کر ان کے مداحوں کو آٹو گراف بھی دیا۔

  • پی ٹی وی کی مقبول اداکارہ طاہرہ نقوی کا یومِ‌ وفات

    پی ٹی وی کی مقبول اداکارہ طاہرہ نقوی کا یومِ‌ وفات

    آج پاکستان ٹیلی وژن کی مقبول فن کارہ طاہرہ نقوی کی برسی ہے۔ وہ 2 جون 1982ء کو وفات پاگئی تھیں۔ ان کا فنی سفر مختصر ہے، لیکن اس عرصے میں‌ طاہرہ نقوی نے چھوٹے پردے پر نمایاں کردار نبھائے اور اپنی بے مثال اداکاری سے ناظرین کے دل جیتے۔

    طاہرہ نقوی کی تاریخِ پیدائش 20 اگست1956ء ہے۔ وہ سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ کے ایک گائوں آلو مہار میں پیدا ہوئی تھیں۔

    انھوں نے ریڈیو سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا اور بعد میں ٹیلی وژن کے ڈراموں میں اداکاری کر کے شہرت حاصل کی۔ انھوں نے طویل دورانیے کا ڈرامہ زندگی بندگی اور اپنے وقت کی مقبول ترین سیریل وارث میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور اپنے کرداروں کو اس خوبی سے نبھایا کہ وہ یادگار ثابت ہوئے۔

    طاہرہ نقوی کو 1981ء میں بہترین اداکارہ کا پی ٹی وی ایوارڈ بھی دیا گیا۔ انھوں نے دو فلموں میں بھی کام کیا، لیکن فلم انڈسٹری کے ماحول سے خود کو ہم آہنگ نہ کرسکیں اور مزید کام کرنے سے انکار کردیا۔

    1982ء میں انھیں‌ سرطان تشخیص ہوا، اور اسی مرض میں شدید علالت کے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ انھیں لاہور میں حضرت میاں میر کے مزار کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • پاکستانی فلم انڈسٹری کے معروف گلوکار مجیب عالم کی برسی

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے معروف گلوکار مجیب عالم کی برسی

    پاکستان کے نام وَر گلوکار مجیب عالم کی زندگی کا سفر 2004 میں تمام ہوا۔ 2 جون کو فلم نگری میں پسِ پردہ گائیکی کے لیے مشہور اس فن کار نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ آج مجیب عالم کی برسی منائی جارہی ہے۔

    ہندوستان کے شہر کان پور سے تعلق رکھنے والے مجیب عالم 1948ء میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ بے حد سریلی آواز کے مالک تھے۔ پہلی بار موسیقار حسن لطیف نے انھیں اپنی فلم نرگس میں گائیکی کا موقع دیا مگر یہ فلم ریلیز نہ ہوسکی۔ تاہم فلمی دنیا میں‌ ان کا سفر شروع ہوگیا تھا اور فلم مجبور کے گانے ان کی آواز میں‌ شائقین تک پہنچے۔ 1966ء میں انھوں نے فلم جلوہ اور 1967ء میں چکوری کا ایک نغمہ ریکارڈ کروایا جو بہت مقبول ہوا۔ اس نغمے کے بول تھے، وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں….

    مجیب عالم کو اس گیت کے لیے نگار ایوارڈ عطا کیا گیا۔ اس کے بعد کئی فلموں میں مجیب عالم نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور یہ نغمات بہت مقبول ہوئے۔ ان کی آواز میں‌ جن فلموں کے گیت ریکارڈ کیے گئے ان میں دل دیوانہ، گھر اپنا گھر، جانِ آرزو، ماں بیٹا، شمع اور پروانہ، قسم اس وقت کی، میں کہاں منزل کہاں سرفہرست ہیں۔

    1960 کی دہائی میں مجیب عالم نے اس وقت اپنا فنی سفر شروع کیا تھا جب مہدی حسن اور احمد رشدی جیسے گلوکار انڈسٹری میں جگہ بنا رہے تھے۔ مجیب عالم نے یوں کھو گئے تیرے پیار میں ہم اور میں تیرے اجنبی شہر میں جیسے خوب صورت اور سدا بہار نغمات کو اپنی آواز دے کر امر کر دیا۔ “میرا ہر گیت ہے ہنستے چہروں کے نام” مجیب عالم کی آواز میں‌ نشر ہونے والا وہ نغمہ تھا جو بے حد مقبول ہوا۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس نام وَر گلوکار کو کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا تھا۔