Tag: جوڈیشل انکوائری

  • سانحہ جڑانوالہ کی جوڈیشل انکوائری کے لیے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر

    سانحہ جڑانوالہ کی جوڈیشل انکوائری کے لیے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر

    لاہور: سانحہ جڑانوالہ کی جوڈیشل انکوائری اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے لیے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر دی گٸی۔

    تفصیلات کے مطابق گریس بائبل فیلوشپ چرچ پاکستان نے شہباز فضل سورایہ ایڈووکیٹ کی وساطت سے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس میں مسیحی برادری کے تحفظ کے لیے شریک ملزمان کو گرفتار کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

    یہ درخواست گریس بائبل فیلوشپ چرچ پاکستان کی جانب سے دائر کی گئی ہے جس میں چیف سیکریٹری، سیکریٹری داخلہ، آئی جی پنجاب و دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ جڑانوالہ واقعے میں 25 چرچ اور 200 سے زائد گھروں کو جلایا گیا، مسیحی برادری کے گھروں کو لوٹنے کے بعد تباہ کیا گیا، واقعے پر جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم تشکیل پا چکی ہے مگر اس سلسلے میں عمل میں دیر لگ سکتی ہے۔

    درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ وقوعے کے دو ہفتوں بعد بھی کئی متاثرین بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، مسیحی برادری کے تحفظ کے لیے شریک ملزمان کو گرفتار کیا جائے، اور سی سی ٹی وی کیمروں میں آنے والے ملزمان کو دھمکیاں دینے سے روکنے کے لیے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔

    درخواست میں عدالت سے یہ استدعا بھی کی گئی ہے کہ مسیحی برادری کے متاثرین کی نارمل زندگی کی بحالی کے لیے فوری انتظامی اور مالی معاونت بھی کی جائے۔

  • جوڈیشل انکوائری سے متعلق اہم عدالتی فیصلہ جاری

    جوڈیشل انکوائری سے متعلق اہم عدالتی فیصلہ جاری

    لاہور: ہائی کورٹ نے پولیس افسران کی درخواست پر پولیس مقابلوں کی جوڈیشل انکوائری مجسٹریٹس سے کروانے کو غیر قانونی قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس سہیل ناصر نے شاہدہ چودھری کی درخواست پر 18 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا ہے، درخواست گزار نے اپنے خاوند زاہد محمود اور بھائی شاہد انجم کو مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں قتل کرنے کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔

    لاہور ہائی کورٹ نے فیصلے میں تحریر کیا کہ حکومت کو ہی جوڈیشل انکوائری کی درخواست دینے کا اختیار حاصل ہے اور پولیس افسران حکومت کی تعریف میں نہیں آتے، پولیس کو جوڈیشل انکوائری کروانے کی از خود درخواست دینے کا کوئی اختیار نہیں، پولیس مقابلوں کی جوڈیشل انکوائری کروانے کی درخواستیں دے کر پولیس افسران اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے رہے ہیں۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ سیشن ججوں کو بھی سی پی او کی درخواست پر پولیس مقابلے کی جوڈیشل انکوائری کی منظوری دینے کا اختیار نہیں۔

    فیصلے میں قرار دیا گیا کہ مجسٹریٹ قتل، حادثاتی موت یا خود کشی کیس میں صرف موت کے سبب کی انکوائری کر سکتا ہے، مجسٹریٹ یہ نہیں کہہ سکتا کہ وقوعہ کا ذمہ دار کون ہے، مجسٹریٹ کو حقائق تلاش کرنے کا بھی اختیار نہیں، مجسٹریٹ انکوائری رپورٹ میں کسی کو ذمہ دار بھی نہیں ٹھہرا سکتا۔

    فیصلے میں قرار دیا گیا کہ مفاد عامہ کے وقوعہ کے حقائق کی تحقیقات محض پنجاب ٹربیونلز آف انکوائریز ایکٹ کے تحت قائم جوڈیشل کمیشن ہی کر سکتا ہے۔

    فیصلے کے مطابق سی پی او یا آر پی او حکومت کو ہی پولیس مقابلے کی جوڈیشل انکوائری کی درخواست دے سکتے ہیں، حکومت کا اختیار ہے کہ سی پی او کی جوڈیشل انکوائری کروانے کی درخواست پر انکوائری ٹربیونل بنائے یا نہ بنائے۔

    جسٹس سہیل ناصر نے عدالتی فیصلہ پنجاب کے تمام سیشن ججز کو مکمل عمل درآمد کے لیے بھجوانے کا حکم دے دیا ہے۔

  • اسامہ ستی قتل: ملزمان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلانے کی سفارش

    اسامہ ستی قتل: ملزمان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلانے کی سفارش

    اسلام آباد: اسامہ ستی قتل کیس کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ مکمل ہو گئی، رپورٹ میں متعلقہ پولیس افسران کو غیر ذمہ داری کے مرتکب قرار دے کر کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اینٹی ٹیررازم اسکواڈ کے اہل کاروں کے ہاتھوں قتل ہونے والے نوجوان اسامہ ستی کے کیس کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ مکمل ہو گئی، چیف کمشنر نے رپورٹ وزارت داخلہ میں جمع کرا دی، جوڈیشل انکوائری ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر رانا محمد وقاص نے کی۔

    چیف کمشنر نے اس کیس کی ہائی کورٹ کے جج سے جوڈیشل انکوائری کرانے کی سمری بھی وزارت داخلہ کو ارسال کر دی۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ ایس پی اور ڈی ایس پی نے غیر ذمہ داری دکھائی، دونوں افسران کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، اسامہ ستی کیس پر عوامی ردِ عمل شدید تھا، ملزمان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔

    وفاقی پولیس کا اسامہ ستی کے قتل میں ملوث 5 اہلکاروں کیخلاف بڑا ایکشن

    رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اے ٹی ایس کمانڈوز کی تعیناتی ماہر نفسیات کی رائے اور کارکردگی کی بنیاد پر ہونی چاہیے، اے ٹی ایس اہل کاروں کو فورسز کے ساتھ کام کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، اور ان کی خدمات ایس پی کی منظوری کے بغیر نہیں لی جانی چاہیے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ وائرلیس ریکارڈ اہم ہوتا ہے، آئی جی نظام کی بہتری کے لیے اقدامات کریں، آئی جی اہل کاروں کو ہدایت دیں کہ سنسنی کی بجائے حقیقی تفصیل دیں، پولیس مانیٹرنگ کا نظام کمزور ہے، سینئر افسر کو صورت حال کا کنٹرول لینا چاہیے۔

    یاد رہے 2 جنوری کو اسلام آباد جی ٹین میں اے ٹی ایس اہل کاروں کی فائرنگ سے کار سوار نوجوان 21 سالہ اسامہ ستی جاں بحق ہوگیا تھا۔ والد اسامہ ستی نے کہا کہ میرے بیٹے کو جان بوجھ کر گولیاں ماری گئیں، وفاقی پولیس نے قتل میں ملوث 5 اہل کاروں سب انسپکٹر افتخار، کانسٹیبل مصطفیٰ، شکیل، مدثر اور سعید کو قصور وار ثابت ہونے پر پولیس سروس سے برطرف کر دیا ہے۔

  • فرشتہ قتل کیس کی جوڈیشل انکوائری کا آغاز، لواحقین کے بیانات قلمبند

    فرشتہ قتل کیس کی جوڈیشل انکوائری کا آغاز، لواحقین کے بیانات قلمبند

    اسلام آباد :  فرشتہ قتل کیس کی جوڈیشل انکوائری کا آغاز کردیا گیا اور لواحقین کے بیانات قلمبند کرلئے گئے ہیں ، جوڈیشل کمیشن کو 7 روز میں انکوائری رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کے مضافاتی علاقے میں مبینہ زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی معصوم فرشتہ کے کیس کی جوڈیشل انکوائری کا آغاز کردیا گیا ہے۔

    مذکورہ کیس سے متعلق ضلعی مجسٹریٹ نے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیتے ہوئے احکامات جاری کیے تھے، تاہم اب اس کی عدالتی تحقیقات چیف کمشنر آفس میں ایڈیشنل ڈپٹی کمیشنر وسیم کر رہے ہیں۔

    انکوائری کے دوران فرشتہ کے لواحقین نے کہا کہ انہوں نے بچی کی گمشدگی کی رپورٹ جمع کروانے کے لیے 3 روز تک متعلقہ تھانے سے رابطہ کیا تاہم تھانے کے ایس ایچ او نے بات کرنے کی زحمت بھی نہیں کی گئی۔

    تحقیقات کے پہلے مرحلے میں گرفتار پولیس افسران کے بیانات بھی ریکارڈ کر لیے گئے ہیں جبکہ دوسرے مرحلے میں پولی کلینک کے ڈاکٹرز اور دیگر کے بیانات بھی لیے جائیں گے۔

    واضح رہے کہ جوڈیشل کمیشن کو 7 روز میں انکوائری رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

    مزید پڑھیں : فرشتہ زیادتی قتل کیس کی انکوائری رپورٹ وزیراعظم عمران خان کو پیش

    یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے 10 سالہ بچی فرشتہ کے اغوا، مبینہ ریپ اور قتل کے کیس میں ایس ایچ او شہزاد ٹاﺅن اسلام آباد کی گرفتاری میں تاخیر کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ڈی آئی جی آپریشنز اور انسپکٹر جنرل پولیس سے وضاحت طلب کرلی تھی۔

    اس سے قبل وزیراعظم عمران خان نے 10 سالہ بچی فرشتہ کے قتل کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی ایس پی عابد کومعطل کردیا تھا جبکہ ایس پی عمرخان کو او ایس ڈی بنادیاگیا تھا۔

    فرشتہ کےوالد ایس ایچ شہزاد ٹاؤن اور دیگراہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا، بعد ازاں فرشتہ کے زیادتی کے بعد قتل کیس میں اغوا کا مقدمہ درج نہ کرنے پر ایس ایچ شہزاد ٹاؤن کوگرفتارکرلیا گیا تھا۔

    واضح رہے ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والی ’’فرشتہ‘‘ نامی 10 سالہ بچی کو تین روز قبل اغوا کیا گیا تھا، جس کا مقدمہ والدین نے درج کروانے کی کوشش کی تاہم والدین کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے غفلت کا مظاہرہ کیا اور ہماری بچی کو تلاش نہیں کیا۔

    ملزمان فرشتہ کی لاش قریبی جنگل میں پھینک کر فرار ہوگئے تھے، جب لواحقین کو لاش ملنے کی اطلاع ملی تو انہوں نے شدید احتجاج کیا، مظاہرین کا دعویٰ تھا کہ اسپتال انتظامیہ نے بھی پوسٹ مارٹم کرنے سے انکار کیا اور مؤقف اختیار کیا کہ ساڑھے 6 بجے کے بعد وقت ختم ہوجاتا ہے۔

    اہل خانہ نے ’’فرشتہ‘‘ کے قتل اور مبینہ زیادتی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کا آغاز کیا، جس پر وفاقی وزیر داخلہ نے نوٹس لیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد سے رپورٹ طلب کی تھی۔

    آئی جی نے غفلت برتنے پر تھانہ شہزاد ٹاؤن کے ایس ایچ او کو معطل کردیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق پولیس نے زیادتی اور قتل کے الزام میں تین افراد کو گرفتار کیا جن میں سے دو کا تعلق افغانستان سے ہے۔

  • سانحہ ساہیوال: سینئرسول جج کی جانب سے فریقین کونوٹسزجاری

    سانحہ ساہیوال: سینئرسول جج کی جانب سے فریقین کونوٹسزجاری

    لاہور: سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کرنے والے سینئر سول جج نے فریقین کو 18 فروری کو طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق سانحہ ساہیوال کی عدالتی انکوائری کے لیے شکیل گورایہ کوسینئرسول جج مقررکیا گیا ہے، سول جج شکیل گورایہ ایک ماہ میں انکوائری رپورٹ پیش کریں گے۔

    سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کرنے والے سینئرسول جج شکیل گورایہ نے فریقین کو 18 فروری کو طلب کرلیا۔

    خیال رہے کہ دو روز قبل چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سانحہ ساہیوال کے حوالے سے کیس کی سماعت کی۔

    جے آئی ٹی کے سربراہ اعجازشاہ عدالت میں پیش ہوئے جبکہ مقتولین کے ورثا اور وکلا بھی موجود تھے۔

    چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کا سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کا حکم

    لاہورہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ متعلقہ سیشن جج جوڈیشل مجسٹریٹ سے ساہیوال معاملے کی انکوائری کرائیں اور جوڈیشل انکوائری رپورٹ 30 دن میں پیش کی جائے۔

    چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ نے تفتیش کے متعلق تسلی بخش جواب نہ دینے پر اعجاز شاہ پراظہار برہمی کرتے کہا تھا کیوں نا آپ کو درست کام نہ کرنے پرنوٹس جاری کیا جائے۔

    واضح رہے کہ 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی کے مبینہ جعلی مقابلے میں ایک بچی اور خاتون سمیت 4 افراد مارے گئے تھے جبکہ ایک بچہ اور دو بچیاں بچ گئی تھیں، عینی شاہدین اور سی ٹی ڈی اہل کاروں‌ کے بیانات میں واضح تضاد تھا۔

    واقعے پر ملک بھر سے شدید ردعمل آیا، جس پر وزیر اعظم نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔ جی آئی ٹی نے خلیل اور اس کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار سی ٹی ڈی افسران کو ٹھہرایا تھا جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔

  • ارشاد رانجھانی قتل کیس: جوڈیشل انکوائری کا معاملہ الجھ گیا

    ارشاد رانجھانی قتل کیس: جوڈیشل انکوائری کا معاملہ الجھ گیا

    کراچی: ارشاد رانجھانی قتل کیس پر جوڈیشل انکوائری کرانے کے معاملے پر سندھ ہائی کورٹ نے سندھ حکومت کو جوابی خط لکھ دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ارشاد رانجھانی قتل کیس میں سندھ حکومت نے ہائی کورٹ کو جوڈیشل انکوائری کی درخواست کی تھی، ہائی کورٹ نے جواب میں کہا ہے کہ براہ راست جوڈیشل انکوائری کرانے کا اختیار ہائی کورٹ کے پاس نہیں ہے۔

    [bs-quote quote=”سیشن جج خود یا ایڈیشنل سیشن جج جوڈیشل انکوائری کرا سکتا ہے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”سندھ ہائی کورٹ”][/bs-quote]

    رجسٹرار سندھ ہائی کورٹ نے خط میں لکھا کہ جوڈیشل انکوائری کا اختیار متعلقہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو ہے۔

    سندھ کی عدالتِ عالیہ نے سندھ حکومت سے کہا کہ وہ معاملے پر متعلقہ سیشن جج سے رجوع کر سکتی ہے، سیشن جج خود یا ایڈیشنل سیشن جج جوڈیشل انکوائری کرا سکتا ہے۔

    ہائی کورٹ کے خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جوڈیشل انکوائری سے متعلق رہنمائی کے لیے 2005 کا عدالتی فیصلہ موجود ہے۔

    جوابی خط کے ساتھ سندھ ہائی کورٹ نے سابقہ حکم نامہ بھی منسلک کرتے ہوئے کہا کہ 2005 کے بعد سے جوڈیشل انکوائری کے لیے متعلقہ سیشن جج کو ہی خط لکھا جاتا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  ارشاد رانجھانی قتل کیس میں پولیس بھی ملوث ہے: وزیرِ اعلیٰ سندھ

    خیال رہے کہ گزشتہ روز وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ارشاد رانجھانی قتل کیس میں پولیس کی نا اہلی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ارشاد رانجھانی قتل کیس میں پولیس بھی ملوث ہے۔

    وزیرِ اعلیٰ سندھ نے کہا کہ ارشاد رانجھانی معاملے پر 24 گھنٹے میں جوڈیشل انکوائری کی درخواست کی ہے۔

  • انتظارقتل کیس: عدالتی تحقیقات کیلئے حکومت کا سندھ ہائیکورٹ کو خط

    انتظارقتل کیس: عدالتی تحقیقات کیلئے حکومت کا سندھ ہائیکورٹ کو خط

    کراچی : صوبائی حکومت نے سندھ ہائیکورٹ سے درخواست کی ہے کہ انتظار احمد قتل کیس کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا جائے، جوڈیشل انکوائری کیلئے خط مقتول انتظار احمد کے والد کی درخواست پر بھیجا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈیفنس میں گزشتہ دنوں اے سی ایل سی اہلکاروں کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے نوجوان انتظاراحمد کا معاملہ پیچیدہ صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

    اس سلسلے میں مقدمے کی عدالتی تحقیقات کیلئے سندھ حکومت نے سندھ ہائیکورٹ کو خط لکھ دیا ہے، جوڈیشل انکوائری کیلئے مذکورہ خط وزیراعلیٰ سندھ کی ہدایت پر محکمہ داخلہ نے تحریر کیا۔

    مذکورہ خط سیکریٹری محکمہ داخلہ قاضی شاہد پرویز نے رجسٹرار سندھ ہائیکورٹ کو ارسال کیا ہے، خط میں سندھ ہائیکورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ انتظار احمد قتل کیس کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیں۔

    کسی بھی حاضر سروس جج سے انکوائری کرائی جائے، جوڈیشل انکوائری کیلئے خط مقتول انتظار احمد کے والد کی درخواست پر بھیجا گیا ہے۔

    گاڑی پر فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کا تعین ہوگیا 

    تازہ ترین اطلاعات کے مطابق فائرنگ کرنے والےاہلکاروں کا تعین ہوگیا ہے، تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ جن اہلکاروں نے گاڑی پر فائرنگ کی ان کا آپریشن ٹیم سے تعلق نہیں تھا، ان اہلکاروں نے سب سے آخر میں گرفتاری دی۔

    ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ انتظار احمد کی گاڑی پر فائرنگ کرنے والوں میں ایس ایس پی کا گارڈ اور ڈرائیور شامل تھے، جن کے نام دانیال اور بلال ہیں، دونوں اہلکاروں نے گھبراہٹ میں اچانک فائرنگ کی۔

    تفتیش میں گڑبڑ یا پیچھے کہانی ہی کچھ اور؟

    واضح رہے کہ ڈیفنس میں ہونے والے نوجوان انتظاراحمد کا قتل معمہ کی صورت اختیار کرگیا ہے، تفتیش میں گڑبڑ ہے یا پردے کے پیچھے کہانی ہی کچھ اور ہے؟ کیس میں کی جانے والی تفتیش نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔

    اوّل یہ کہ تفتیش میں اب تک گاڑی سے اتر بھاگنے والی لڑکی مدیحہ کا کوئی ذکر کیوں نہیں کیا گیا ؟ کیا اس کا بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا؟ درجنوں گولیاں گاڑی پر لگیں لیکن لڑکی کو خراش تک کیوں نہ آئی؟

    مدیحہ نامی لڑکی وہ واحد عینی شاہد ہے جو قتل کے وقت انتظار احمد کے ساتھ تھی، اس کے بیان میں اتنی ڈھیل کیوں؟ واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج اب تک منظرعام پر کیوں نہیں لائی جارہی ؟ اور فوٹیج کواب تک میڈیا سے شئیر کیوں نہیں کیا گیا ؟

    واقعے کے فوری بعد پولیس حکام نے یہ کیوں کہہ دیا کہ انتظار احمد اے سی ایل سی کے اہلکاروں کی فائرنگ سے جاں بحق ہوا؟ اے سی ایل سی کے اہلکار سادہ لباس میں کیوں تھے؟


    مزید پڑھیں: ڈیفنس میں فائرنگ، نوجوان ہلاک، گاڑی میں موجود لڑکی کابیان قلمبند


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر ضرور شیئر کریں۔

  • شہباز شریف نے قصور واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دے دیا

    شہباز شریف نے قصور واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دے دیا

    لاہور : وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے قصور ویڈیو اسکینڈل کی جوڈیشل انکوائری کا اعلان کردیا۔ آئی جی پنجاب کا کہنا ہے کہ گرفتار ملزمان کا ریمانڈ لے لیا ہے جلد حقائق تک پہنچ جائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق قصور واقعے نے انسانیت کا سر شرم سے جھُکا دیا، اے آر وائی نیوز نے جگایا تو بالآخر خادم اعلیٰ کو ہوش آ ہی گیا۔

    وزیر اعلیٰ شہبازشریف نے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا اعلان کردیا ۔ شہباز شریف نے محکمہ داخلہ کوہدایت کی ہے کہ چیف جسٹس ہائیکورٹ سے انکوائری کمیشن کی تشکیل کےلئےفوری درخواست کی جائے۔

    وزیر اعلی کی زیرصدارت اجلاس میں شہباز شریف کوسانحہ قصور کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ پیش کی گئی۔شہباز شریف نےواقعےکو گھناؤنا فعل قرار دیتے ہوئے فرارملزمان کی فوری گرفتاری کی حکم بھی دیا۔

    آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کا کہنا ہے کہ ملزمان کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی جائے گی،گرفتار ملزمان میں سے چھ کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا گیا ہے۔