Tag: جوہری مذاکرات

  • ایران کا یورپ کے ساتھ جوہری مذاکرات جاری رکھنے پر اتقاق

    ایران کا یورپ کے ساتھ جوہری مذاکرات جاری رکھنے پر اتقاق

    ایرانی وزیرِخارجہ عباس عراقچی کا کہنا ہے کہ یورپ کے ساتھ جوہری مذاکرات جاری رکھے جائیں گے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران کے وزیرِخارجہ عباس عراقچی کا کہنا ہے کہ برطانوی، جرمن اور فرانسیسی وزرائے خارجہ سے جوہری مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق ہوگیا ہے۔

    رپورٹس کے مطابق ایرانی وزیرخارجہ سے ٹیلی فونک گفتگو کے دوران تینوں یورپین ممالک کے وزرائے خارجہ نے اگلے ہفتے جمعے کے روز جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

    ساتھ ہی جرمن وزیر خارجہ کی جانب سے اگلے ہفتے ہونے والی ملاقات کی تصدیق کردی گئی ہے۔

    تینوں اہم یورپی ممالک کا مشترکہ طور پر کہنا ہے کہ اگر ایران نے اپنی یورینیم افزودگی روکنے کے لیے کسی معاہدے پر مذاکرات کے لیے نہیں آیا تو اقوام متحدہ کی جانب سے لگنے والی پابندیاں دوبارہ متحرک کردی جائیں گی۔

    امریکا سمیت تینوں اہم یورپین اتحادیوں کا خیال ہے کہ ایران ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کرنے کے باوجود اپنا ایٹمی پروگرام ہتھیار بنانے کے لیے استعمال کر رہا ہے، جبکہ ایران کا دعویٰ ہے کہ اس کا پروگرام صرف توانائی کے استعمال کے لیے ہے۔

    ایران میں اسرائیل سے جنگ کے بعد فوجی مشقیں شروع

    ایران میں اسرائیل سے جنگ کے بعد پہلی فوجی مشقوں کا آغاز کردیا گیا ہے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیل سے 12 روزہ جنگ کے بعد گزشتہ روز ایران میں پہلی فوجی مشقوں کا آغاز کردیا گیا ہے، اس دوران ایرانی بحریہ کی جانب سے بحر ہند میں اہداف پر میزائل اور ڈرونز داغے گئے۔

    روسی صدر نے یوکرین جنگ کے خاتمے کیلئے شرائط رکھ دیں

    واضح رہے کہ جون میں ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد جنگ 12 روز تک جاری رہی تھی اور جنگ کے دوران امریکا نے بھی ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا۔

  • امریکا کیساتھ جوہری مذاکرات، ایران کا بڑا بیان سامنے آگیا

    امریکا کیساتھ جوہری مذاکرات، ایران کا بڑا بیان سامنے آگیا

    ایران نے واضح کیا ہے کہ امریکا کے ساتھ براہ راست جوہری مذاکرات مناسب حالات میں ممکن ہوسکتے ہیں۔

    ایرانی اول نائب صدر محمد رضا عارف نے ایرانی میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ حالات موزوں ہوں تو ایران امریکا کے ساتھ جوہری مذاکرات کر سکتا ہے۔

    اُن کا کہنا تھا کہ امریکا کا ایران سے یورینیم افزودگی کا مکمل خاتمہ کرنے کا مطالبہ ایک مذاق ہے۔

    گزشتہ روز ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے مشیر علی اکبر ولایتی نے کہا کہ ایران کو قفقاز میں امریکی راہداری منصوبہ قبول نہیں ہے، تہران اپنی سرحدوں کے قریب اس راہداری کی تعمیر کی اجازت نہیں دے گا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان امن معاہدہ کرانے کے ساتھ قفقاز میں اس منصوبے کی تجویز بھی دی، جس کو خطے کے دوسرے ممالک نے دیرپا امن کے حصول کے لیے فائدہ مند قرار دیا ہے، تاہم مشیر علی اکبر ولایتی نے کہا کہ ایران اس راہداری کو روک دے گا۔

    انھوں نے کہا خواہ روس کے ساتھ مل کر یا اس کے بغیر لیکن ہم اس اقدام کو روکیں گے، ان کا کہنا تھا کہ امریکا اس منصوبے کے تحت اپنی عسکری اور سیاسی موجودگی کو مستحکم کرنا چاہتا ہے۔

    تسنیم نیوز سے بات کرتے ہوئے ولایتی نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ قفقاز کوئی ایسی جائیداد ہے جسے وہ 99 برس کے لیے لیز پر لے سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ ٹرانسپورٹ راہداری آرمینیا اور آذربائیجان امن معاہدے میں شامل ہے۔ ولایتی نے واضح کیا کہ ”یہ گزرگاہ ٹرمپ کے کرائے کے فوجیوں کے لیے داخلی دروازہ نہیں بنے گی بلکہ یہ ان کی قبرستان ثابت ہوگی۔“

    بھارت نے مذاکرات میں لچک نہیں دکھائی، امریکا

    مشیر علی خامنہ ای نے اس منصوبے کو ’سیاسی غداری‘ قرار دیا، اور کہا اس کا مقصد آرمینیا کی علاقائی سالمیت کو نقصان پہنچانا ہے۔

    واضح رہے کہ جمعہ کو وائٹ ہاؤس میں جس معاہدے پر دستخط کیے گئے ہیں، اس کی شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ امریکا کو آرمینیا کے ایک ایسے راستے پر خصوصی ترقیاتی حقوق دیے جائیں گے جو آذربائیجان کو نخچیوان سے جوڑے گا، یہ آذربائیجان کا ایک علاقائی حصہ ہے جو باکو کے اتحادی ترکی کی سرحد سے متصل ہے۔

  • ایران کا جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا اعلان

    ایران کا جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا اعلان

    تہران : ایران کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ ایران، یورپی ممالک کے ساتھ جوہری مذاکرات جمعے کو استنبول میں ہوں گے۔

    ترجمان کے مطابق یورپی ممالک سے مذاکرات کی میزبانی ترکیہ کرے گا، برطانیہ، فرانس،جرمنی سے مذاکرات جمعے کو استنبول میں ہوں گے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایران کی جانب سے یہ پیشرفت، یورپی ممالک کی دھکمیوں کے بعد سامنے آئی ہے، ایران کو مذاکرات نہ کرنے پر عالمی پابندیاں لگائے جانے کی دھمکی دی گئی تھی۔

    ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق ایرانی ترجمان اسماعیل بقائی کا کہنا ہے کہ یہ اہم ملاقات ایران، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے نائب وزرائے خارجہ کی سطح پر ہوگی۔

    ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے ان دھمکیوں کے جواب میں کہا کہ اگر یورپی یونین یا ’ای تھری‘ کوئی مثبت کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں دھمکیوں اور دباؤ کی پُرانی پالیسی ترک کرنا ہوگی۔ اسنیپ بیک’ جیسا ہتھکنڈہ ان کے پاس نہ قانونی بنیاد رکھتا ہے اور نہ اخلاقی۔”

    یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی وہ قرارداد جو اس معاہدے کو قانونی تحفظ دیتی ہے، 18 اکتوبر کو ختم ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے ہی اگر اسنیپ بیک میکانزم فعال کیا گیا تو ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد ہوسکتی ہیں۔

  • جوہری مذاکرات سبوتاژ کرنے کا ذمہ دار اسرائیل ہے، امریکی سینیٹر

    جوہری مذاکرات سبوتاژ کرنے کا ذمہ دار اسرائیل ہے، امریکی سینیٹر

    امریکی سینیٹر برنی سینڈر نے اسرائیل کو جنگ شروع کرنے کا ذمہ دارقرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا ایران جوہری مذاکرات سبوتاژ کرنے کا ذمہ دار اسرائیل ہے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی سینیٹر برنی سینڈر نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے ایرانی جوہری مذاکرات کار کو قتل کرکے مذاکرات کا دروزاہ بند کیا۔

    اُنہوں نے کہا کہ امریکا کو فوجی اور مالی طور پر نیتن یاہو کی غیرقانونی جنگ میں شامل نہیں ہونا چاہیئے۔

    دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی شہریوں کو تہران فوری طور پر خالی کرنے کا انتباہ دے دیا ہے۔

    روئٹرز کے مطابق مسلسل پانچویں دن اسرائیل اور ایران کے ایک دوسرے پر حملے جاری ہیں، ایسے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانیوں پر زور دیا ہے کہ وہ تہران کو خالی کر دیں، ان کا کہنا تھا ایران نے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کو روکنے کے معاہدے کو مسترد کیا ہے۔

    اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹرتھ سوشل پر ایک بیان میں امریکی صدر نے کہا کہ ”ایران کو اس معاہدے پر دستخط کرنا چاہیے تھے جس پر میں نے انھیں دستخط کرنے کے لیے کہا تھا۔ کتنی شرم کی بات ہے، اور انسانی زندگی کا ضیاع۔ سادہ لفظوں میں کہا گیا، ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہو سکتے۔ میں نے بار بار کہا! ہر کسی کو فوری طور پر تہران کو خالی کر دینا چاہیے!“

    یاد رہے کہ اس سے قبل ایران نے اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب کے شہریوں کو فوری انخلا کا انتباہ دیا تھا، ایران نے عبرانی زبان میں جاری بیان میں اسرائیلی عوام کو خبردار کرتے ہوئے پیغام دیا کہ تل ابیب محفوظ نہیں رہا لہٰذا فوری چھوڑ دیں۔

    دریں اثنا، کینیڈا میں جی سیون اجلاس کے موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانوی وزیر اعظم کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو میں کہا بائیڈن انتظامیہ کی ناکام پالیسیوں کے باعث جنگیں شروع ہوئیں، ہم ایران اور اسرائیل کشیدگی کم کرنے کے لیے ہی اکٹھے ہوئے ہیں، آپ سب جانتے ہیں اسرائیل بہت اچھا کر رہا ہے، ہم نے ایران کو 60 دن دیے تھے انھوں نے انکار کیا۔

    ایران اسرائیل جنگ سے متعلق تازہ ترین خبریں یہاں پڑھیں

    ٹرمپ نے کہا میراخیال ہے نیو کلیئر ڈیل پر ایران کو سائن کرنا ہوگا، ایران نیو کلیئر ڈیل پر دستخط نہیں کر رہا وہ بے وقوف ہے۔

  • ایران کا اسرائیلی حملے کے بعد جوہری مذاکرات سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ

    ایران کا اسرائیلی حملے کے بعد جوہری مذاکرات سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ

    تہران: امریکی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ ایران نے اسرائیلی حملے کے بعد جوہری مذاکرات سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

    امریکی اخبار ’دی ہِل‘ کے مطابق ایران نے باضابطہ طور پر امریکا کے ساتھ جوہری مذاکرات سے دست برداری کا اعلان کر دیا ہے، یہ فیصلہ ایرانی جوہری اور فوجی اہداف پر اسرائیل کے بڑے پیمانے پر فضائی حملوں کے بعد آیا ہے۔

    اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا اور ایران کے جوہری مذاکرات کا چھٹا دور اتوار کو عمان میں شروع ہونا تھا، اب ایرانی رہنماؤں نے اعلان کیا ہے کہ تہران کا چھٹے مذاکراتی دور میں شرکت کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ عمان نیوز ایجنسی اور ایران کے سرکاری میڈیا نے بتایا کہ مذاکرات غیر معینہ مدت کے لیے معطل کر دیے گئے ہیں۔

    عمان کے وزیر خارجہ بدر البوسیدی نے حملوں کے بعد سوشل پلیٹ فارم X پر پوسٹ میں کہا ’’ایران پر اسرائیل کا یک طرفہ حملہ غیر قانونی، بلاجواز اور علاقائی استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہے۔‘‘ انھوں نے لکھا ’’میں اس کی مذمت کرتا ہوں اور عالمی برادری پر زور دیتا ہوں کہ وہ اسرائیلی جارحیت کو مسترد کرنے کے لیے اکٹھے ہوں اور ہم آواز ہو کر کشیدگی میں کمی اور سفارت کاری کی حمایت کریں۔‘‘


    ایران پر حملے سے قبل امریکا نے اسرائیل کو کون سے میزائل دیے؟ برطانوی میڈیا نے بھانڈا پھوڑ دیا


    واضح رہے کہ جوہری مذاکرات کا مقصد 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنا تھا، جس کے تحت ایران کو اپنی جوہری سرگرمیاں محدود کرنی تھیں اور اس کے بدلے اس پر پابندیوں میں نرمی کی جانی تھی، اس معاہدے سے امریکا کی ٹرمپ انتظامیہ 2018 میں نکل گئی تھی۔

    ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹرتھ سوشل پلیٹ فارم پر پوسٹ کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ انھوں نے 2 ماہ قبل تہران کو مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے 60 دن کا الٹی میٹم دیا تھا۔ ٹرمپ نے لکھا کہ ایران کو میز پر آ جانا چاہیے تھا، آج 61 واں دن ہے، میں نے انھیں بتایا تھا کہ کیا کرنا ہے لیکن وہ نہیں کر سکے۔ اب ان کے پاس شاید دوسرا موقع ہے!

    دریں اثنا، ڈنمارک کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ ایران سے مذاکرات کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ روسی صدر پیوٹن نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور ایرانی صدر مسعود پیزشکیان سے رابطے کیے ہیں، روسی صدر نے کہا ایٹمی پروگرام سے متعلق مسائل کو سفارتکاری سے حل کیا جانا چاہیے۔

    ایرانی صدر نے صدر پیوٹن کو پیغام پہنچایا کہ ایران ایٹمی ہتھیار حاصل نہیں کرنا چاہتا، ہم ہمیشہ ایٹمی ہتھیاروں کے مخالف رہے ہیں، اور بین الاقوامی اداروں کو بھی یقین دہانیاں دینے کو تیار ہیں۔

  • ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات، ٹرمپ نے دو دنوں‌ میں‌ اہم اعلان کا اشارہ دے دیا

    ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات، ٹرمپ نے دو دنوں‌ میں‌ اہم اعلان کا اشارہ دے دیا

    نیو جرسی: امریکی ڈونلڈ صدر ٹرمپ ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کے سلسلے میں بدستور پرامید ہیں، انھوں نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ بات چیت میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔

    امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق نیو جرسی ایئر پورٹ پر اتوار کو میڈیا سے گفتگو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اشارہ دیا کہ ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام پر پیش رفت ہوئی ہے اور ’’اگلے دو دنوں میں‘‘ اعلان آ سکتا ہے۔

    ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ امریکا اور ایران کے درمیان ہونے والی بات چیت کے سلسلے میں ثالث عمان سے بھی کہیں زیادہ پرجوش نظر آئے، انھوں نے کہا کہ دونوں ممالک نے روم میں ہونے والے مذاکرات کے پانچویں دور میں کچھ پیش رفت کی ہے۔

    ٹرمپ نے اتوار کو اپنے گالف کلب سے نکلنے کے بعد شمالی نیو جرسی میں صحافیوں سے کہا ’’ہم نے ایران کے ساتھ بہت اچھی بات چیت کی ہے، میں نہیں جانتا کہ میں اگلے دو دنوں میں آپ کو کچھ اچھا یا برا بتاؤں گا، لیکن مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں آپ کو کچھ اچھا بتاؤں گا۔‘‘


    امریکا کا بڑا مطالبہ، ایران نے بھی دوٹوک جواب دیدیا


    انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہفتے اور اتوار کو ہونے والی بات چیت میں ’’ہم نے کچھ حقیقی اور سنجیدہ پیش رفت کی ہے، اور دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ ایران کے محاذ پر ہمارے پاس کوئی اچھی خبر ہو سکتی ہے۔‘‘

    انھوں نے کہا ہم ایران سے جوہری معاہدہ کرنا چاہتے ہیں، امید ہے جلد مزید اچھی خبریں سامنے آئیں گی، اس سلسلے میں دونوں ملکوں کو مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

  • ایرانی صدر کا جوہری مذاکرات سے متعلق بڑا بیان

    ایرانی صدر کا جوہری مذاکرات سے متعلق بڑا بیان

    ایران کے صدر مسعود پزشکیان کا اپنے بیان میں کہنا ہے کہ ہم جنگ نہیں چاہتے، امریکا کے ساتھ جوہری مذاکرات جاری رکھیں گے مگر دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے امریکا ایران جوہری مذاکرات سے متعلق کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک وقت میں امن کی بات کرتے ہیں اور دھمکیاں دیتے ہیں۔

    انہوں نے ٹرمپ کے رویے پر سوال اٹھاتے ہوئے مزید کہا کہ ہم امریکی صدر کی کس بات پر یقین کریں؟

    واضح رہے کہ گزشتہ دنوں ایران نے اسرائیل کی جانب سے مسلسل اشتعال انگیزیوں اور خطے میں بڑھتے ہوئے تناؤ کے تناظر میں خبردار کیا تھا کہ اس کی سرزمین پر کسی بھی قسم جارحیت کی گئی تو فوری، فیصلہ کن ردعمل کے ساتھ جواب دیا جائے گا۔

    ایرانی افواج کے سربراہ جنرل محمد باقری کا تہران میں دیے گئے ایک بیان میں کہنا تھا کہ اگر ایران پر حملہ ہوا تو دشمن کو ایسی ناقابلِ تلافی تباہی اور نقصانات اٹھانے پڑیں گے، جو اس کے لیے ناقابلِ برداشت ہوں گے۔

    ایرانی عسکری قیادت کی جانب سے یہ بیان اُس وقت سامنے آیا ہے جب اسرائیل کے مختلف اعلیٰ حکام بارہا یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ وہ ایران کو جوہری صلاحیت حاصل نہیں کرنے دیں گے۔ اسرائیلی قیادت کی یہ تکرار خطے میں جنگ کے بادل مزید گہرے کر رہی ہے۔

    اسرائیل کی یمن کی الحدیدہ بندرگاہ پر بمباری

    واضح رہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان تہران کے جوہری پروگرام سے متعلق چوتھے دور کی بات چیت اختتام پذیر ہوئی ہے۔ جبکہ مستقبل میں مزید مذاکرات کی منصوبہ بندی بھی ہورہی ہے۔

  • ایران امریکا جوہری مذاکرات کا آج چوتھا دور، عباس عراقچی کا اہم بیان

    ایران امریکا جوہری مذاکرات کا آج چوتھا دور، عباس عراقچی کا اہم بیان

    تہران: ایران اور امریکا کے درمیان جوہری مذاکرات کا آج چوتھا دور شروع ہوگا، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ وہ واشنگٹن کے ساتھ نیک نیتی سے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔

    العربیہ کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ہفتہ کو کہا ہے کہ تہران نے امریکا کے ساتھ جوہری مذاکرات ’’نیک نیتی‘‘ سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

    آج عمان میں ایران اور امریکا کے درمیان طے شدہ جوہری مذاکرات کا ایک اور دور ہوگا، عباس عراقچی نے کہا اگر واشنگٹن کا مقصد تہران کو اس کے جوہری حقوق سے محروم کرنا ہے تو ہم اپنے کسی بھی حق سے دست بردار نہیں ہوں گے، جوہری معاہدہ اس وقت تک ممکن ہے جب تک اس کا مقصد جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنا ہو۔

    واضح رہے کہ امریکا اور ایران آج اتوار کو تہران کے جوہری پروگرام پر اپنے مذاکرات دوبارہ شروع کریں گے، بات چیت کا یہ چوتھا دور ہوگا، جس کی میزبانی سلطنت عمان کا دارالحکومت مسقط کرے گا۔


    ڈونلڈ ٹرمپ نے آج کا دن روس اور یوکرین کے لیے ممکنہ بڑا دن قرار دے دیا


    گزشتہ روز ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے تصدیق کی تھی کہ تہران نے آج اتوار کو مسقط میں اگلے دور کے انعقاد پر اتفاق کیا ہے، انھوں نے ایک ویڈیو میں کہا کہ عمانی دوستوں نے ہمیں اتوار کی تجویز دی اور ہم نے اتفاق کر لیا ہے۔

    یاد رہے کہ 12 اپریل سے واشنگٹن اور تہران نے عمانی ثالثی کے ذریعے جوہری پروگرام پر بالواسطہ مذاکرات شروع کیے تھے، انھوں نے اب تک بات چیت کے 3 دور مکمل کیے ہیں۔ پہلے دو دور مسقط میں اور ایک روم میں کیا گیا، بات چیت کے ان تینوں ادوار کو مثبت اور تعمیری قرار دیا گیا ہے۔

  • ایران کی امریکا سے جوہری مذاکرات پر مشروط رضا مندی

    ایران کی امریکا سے جوہری مذاکرات پر مشروط رضا مندی

    واشنگٹن: ایران اور امریکا کے درمیان جوہری معاہدے پر مذاکرات کا دوسرا دور آج روم میں ہوگا۔

    عرب میڈیا کے مطابق ایران نے امریکا سے جوہری مذاکرات پر مشروط رضا مندی ظاہر کر دی ہے، گزشتہ روز ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ اگر امریکا حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرے تو جوہری معاہدہ ہو سکتا ہے، امریکا کو غیر حقیقی مطالبات سے گریز کرنا ہوگا۔

    اس سے پہلے امریکی صدر ٹرمپ معاہدہ نہ کرنے پر ایران کو حملے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں۔ تاہم دوسری طرف الجزیرہ نے کہا ہے کہ ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے واشنگٹن کے ساتھ جوہری مذاکرات کا دوسرا دور شروع ہونے سے ایک روز قبل امریکا کے ارادوں پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔


    ٹرمپ انتظامیہ کے لیے گرفتار شخص کی غلط ڈیپورٹیشن درد سر بن گئی


    ایک ہفتہ قبل دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ ترین سطح کے مذاکرات ہوئے تھے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015 کے تاریخی جوہری معاہدے سے 3 سال بعد 2018 میں یک طرفہ طور پر دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔ جس کے بعد سے ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر تمام حدود کو ختم کیا، اور یورینیم کو 60 فی صد تک افزودہ کر لیا ہے، جب کہ ہتھیار بنانے کے درجے تک پہنچنے کے لیے 90 فی صد تک افزودگی درکار ہے۔

    عراقچی نے جمعہ کے روز ماسکو میں اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کے ساتھ ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا ’’اگرچہ ہمیں امریکی فریق کے ارادوں اور محرکات پر شدید شکوک و شبہات ہیں، تاہم ہم کل ہونے والے مذاکرات میں شرکت کریں گے۔‘‘

    عباس عراقچی ہفتے کے روز عمان کی ثالثی میں امریکا کے مشرق وسطیٰ کے سفیر اسٹیو وٹکوف کے ساتھ مذاکرات کے نئے دور کے لیے روم روانہ ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ ہم ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے پرامن حل کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔

    دریں اثنا، لاوروف نے کہا کہ ماسکو ’’کوئی بھی ایسا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے جو ایران کے نقطہ نظر سے مفید ہو اور جو امریکا کے لیے بھی قابل قبول ہو۔‘‘

  • ایرانی صدر لاطینی امریکا پہنچ گئے، امریکا ایران مذاکرات بحال

    ایرانی صدر لاطینی امریکا پہنچ گئے، امریکا ایران مذاکرات بحال

    تہران: ایرانی صدر ابراہیم رئیسی لاطینی امریکا کے دورے پر وینزویلا پہنچ گئے، امریکا کے ساتھ جوہری مذاکرات کی بحالی کی بھی تصدیق کر دی گئی۔

    ایرانی میڈیا کے مطابق ایرانی صدر لاطینی امریکا کے دورے پر وینزویلا پہنچ گئے ہیں، صدر ابراہیم رئیسی لاطینی امریکی ممالک کے ساتھ تعاون بڑھانے کے معاہدوں پر دستخط کریں گے۔

    ایرانی صدر کیوبا اور نکاراگوا بھی جائیں گے، لاطینی امریکا کے اپنے پہلے دورے میں، ایران کے سخت گیر صدر نے پیر کے روز اپنے وینزویلا کے ہم منصب سے ملاقات کی اور امریکا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان ایک ’’مشترکہ دشمن‘‘ موجود ہے۔

    صدر ابراہیم رئیسی کے وینزویلا کے دورے سے ٹھیک ایک سال اور ایک دن قبل وینزویلا کے صدر نکولس مادورو نے ایرا کا دورہ کیا تھا، یہ دونوں ممالک امریکی اقتصادی پابندیوں کی زد میں ہیں۔

    رئیسی نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان روابط ’’معمولی نہیں ہیں، بلکہ ایک اسٹریٹجک تعلقات ہیں‘‘، انھوں نے اس بات پر اصرار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں کے ’’مشترکہ مفادات اور ہمارے مشترکہ دشمن ہیں۔‘‘

    ایرانی میڈیا کے مطابق دوسری جانب ایران نے امریکا کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے عمان میں مذاکرات کی تصدیق کر دی ہے، ترجمان ایرانی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے عمانی حکام کی کوششوں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

    انھوں نے کہا امریکا سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو قیدیوں کے تبادلے پر بھی اتفاق کیا جا سکتا ہے، سفارتی عمل کو کبھی نہیں روکا، اور امریکا کے ساتھ خفیہ بات چیت نہیں کی۔