Tag: جوہری معاہدہ

  • امریکا سے معاہدہ قریب تھا، نیتن یاہو نے سب کچھ برباد کردیا، عباس عراقچی

    امریکا سے معاہدہ قریب تھا، نیتن یاہو نے سب کچھ برباد کردیا، عباس عراقچی

    ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ امریکا سے جوہری معاہدہ قریب تھا، نیتن یاہو نے سب کچھ برباد کردیا۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے نیتن یاہو پر امریکا سے جوہری مذاکرات سبوتاژ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو نے دانستہ حملے سے مذاکرات ناکام بنانے کی کوشش کی۔

    اُنہوں نے کہا کہ جب تک اسرائیلی حملے جاری ہیں مذاکرات نہیں ہونگے، ایرانی ردعمل مکمل ہونے تک امریکا سے بات چیت ممکن نہیں۔

    ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ایران سفارتکاری کیلئے سنجیدہ ہے، مذاکرات کی میز کبھی نہیں چھوڑی، اس وقت تہران کا فوکس اسرائیلی جارجیت سے نمٹنے پر ہے۔

    اس سے پہلے بیان میں ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو جیسے شخص کو روکنے کیلیے واشنگٹن سے ایک فون کال کافی ہے، اگر ٹرمپ جنگ روکنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو اگلے اقدامات نتیجہ خیز ہونے چاہئیں۔

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایرانی ٹی وی چینل پر بمباری اسرائیل کی بدحواسی کو ظاہر کرتا ہے۔

    دوسری جانب پاسداران انقلاب کے سربراہ کے مشیر بریگیڈیئر جنرل احمد واحدی نے اسرائیل کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تہران طویل جنگ کیلئے پوری طاقت کے ساتھ تیار ہے۔

    جنرل احمد واحدی کا کہنا تھا کہ ضرورت پڑی تو جدید اسلحہ جنگ میں استعمال کیا جائے گا، اسرائیل کو خبردار کر دیا گیا ہے۔

    اُنہوں نے کہا کہ تہران ہر قسم کی جنگ کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہے، ایران جلد اپنی نئی ایجادات سامنے لائے گا، ایران نے میزائل طاقت کو تاحال اسٹریٹیجک طور پر تعینات نہیں کیا۔

    ایران اسرائیل جنگ سے متعلق تازہ ترین خبریں یہاں پڑھیں

    جنرل احمد واحدی کا مزید کہنا تھا کہ جدید ترین ہتھیار مناسب وقت پر استعمال کیے جائیں گے، دنیا آئندہ چند روز میں ایرانی ایجادات کا مشاہدہ کریگی۔

  • ’ٹرمپ کیساتھ جوہری معاہدہ کرو یا اسرائیلی حملے کا خطرہ مول لو‘ سعودی عرب کا ایران کو پیغام

    ’ٹرمپ کیساتھ جوہری معاہدہ کرو یا اسرائیلی حملے کا خطرہ مول لو‘ سعودی عرب کا ایران کو پیغام

    سعودی عرب کے وزیر دفاع نے ایران کو کہا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جوہری معاہدے پر بات چیت کی پیشکش کو سنجیدگی سے لیں۔

    رائٹرز کے مطابق سعودی وزیر دفاع نے گزشتہ ماہ تہران کا دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے ایرانی حکام کو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا دو ٹوک پیغام پہنچایا تھا، جس میں انہون نے کہا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جوہری معاہدے پر بات چیت کی پیشکش کو سنجیدگی سے لیں ورنہ اسرائیل حملہ کرسکتا ہے۔

    سعودی وزیر دفاع نے ایرانی حکام کو کہا تھا کہ امریکا سے مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں اسرائیل کے حملے کے امکان کا سامنا کرنے سے بہتر ہو گا کہ امریکا کے ساتھ جوہری معاہدہ کر لیا جائے۔

    https://urdu.arynews.tv/saudi-defense-minister-meets-iran-khamenei/

    سعودی وزیر دفاع نے ایران کو پیغام میں مزید کہا تھا کہ پہلے ہی غزہ اور لبنان تنازعات کی زد میں ہے اور یہ خطہ مزید کشیدگی برداشت نہیں کر سکتا ہے۔

    یاد رہے کہ تہران میں بند کمرہ اجلاس 17 اپریل کو صدارتی احاطے میں منعقد ہوا تھا، جس میں ایرانی صدر مسعود پیزشکیان، مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف محمد باقری اور وزیر خارجہ عباس عراقچی موجود تھے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میڈیا نے وزیر دفاع کے دورے کی کوریج کی تھی لیکن شاہ سلمان کے خفیہ پیغام کو پہلے رپورٹ نہیں کیا گیا۔

    سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے چھوٹے بھائی شہزادہ خالد کا یہ دورہ دو دہائیوں سے زائد عرصے میں سعودی شاہی خاندان کے کسی سینئر رکن کا پہلا دورہ تھا۔

  • امریکا ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے قریب پہنچ گیا، ٹرمپ کا بڑا دعویٰ

    امریکا ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے قریب پہنچ گیا، ٹرمپ کا بڑا دعویٰ

    دبئی: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکا ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے قریب پہنچ گیا ہے۔

    روئٹرز کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو کہا کہ امریکا ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کرنے کے بہت قریب پہنچ گیا ہے، اور یہ کہ تہران نے ’’ایک طرح سے‘‘ شرائط پر اتفاق کر لیا ہے۔

    اے ایف پی کی مشترکہ پول رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے خلیج کے دورے پر کہا ’’ہم طویل مدتی امن کے لیے ایران کے ساتھ بہت سنجیدہ مذاکرات کر رہے ہیں۔‘‘

    امریکی صدر نے کہا ’’ہم ایک معاہدے کے قریب پہنچ رہے ہیں، اور ایسا کرنے کے دو راستے ہیں ایک بہت اچھا راستہ ہے جب کہ دوسرا پرتشدد ہے، لیکن میں یہ دوسرا راستہ اپنانا نہیں چاہتا۔‘‘ دوسری طرف مذاکرات سے واقف ایک ایرانی ذریعے نے کہا کہ امریکا کے ساتھ مذاکرات میں ابھی بھی خلا باقی ہے۔


    ایران نے انتہائی افزودہ یورینیم ترک کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی، اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کی شرط


    تہران کے جوہری پروگرام پر تنازعات کو حل کرنے کے لیے ایرانی اور امریکی مذاکرات کاروں کے درمیان اتوار کو عمان میں مذاکرات کا ایک دور ہوا تھا، جس میں فیصلہ ہوا تھا کہ مزید مذاکرات کی منصوبہ بندی کی جائے گی۔

    منگل کے روز ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے ٹرمپ کے اس بیان پر کہ ’’تہران مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ تخریبی طاقت ہے‘‘ پر رد عمل میں کہا تھا ’’ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ وہ ہم پر پابندیاں لگا سکتے ہیں اور دھمکیاں دے سکتے ہیں اور پھر انسانی حقوق کی بات کر سکتے ہیں، لیکن تمام جرائم اور علاقائی عدم استحکام تو امریکا ہی کی وجہ سے ہے، اور وہ ایران کے اندر بھی عدم استحکام پیدا کرنا چاہتا ہے۔‘‘

    یہ بھی یاد رہے کہ امریکی حکام نے عوامی طور پر کہا ہے کہ ایران کو یورینیم کی افزودگی روک دینی چاہیے، یہ وہ مؤقف ہے جسے ایرانی حکام نے ’’سرخ لکیر‘‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ایرانی سرزمین پر یورینیم کی افزودگی کے اپنے حق کو ترک نہیں کریں گے، تاہم، انھوں نے انتہائی افزودہ یورینیم کی مقدار کو کم کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔

  • ایران نے انتہائی افزودہ یورینیم ترک کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی، اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کی شرط

    ایران نے انتہائی افزودہ یورینیم ترک کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی، اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کی شرط

    تہران: ایران نے انتہائی افزودہ یورینیم ترک کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی، تاہم تہران نے تمام امریکی اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کی شرط بھی رکھ دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایران کے سپریم لیڈر کے ایک اعلیٰ مشیر نے بدھ کو این بی سی نیوز کو بتایا کہ ایران اقتصادی پابندیاں ہٹانے کے بدلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ بعض شرائط کے ساتھ جوہری معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہے۔

    خامنہ ای کے سینئر مشیر علی شمخانی نے کہا ایران افزودہ یورینیم کا موجودہ ذخیرہ ترک کر دے گا، امریکا ایرانی شرائط کو تسلیم کرے، اگر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد اقتصادی پابندیاں مکمل طور پر ختم کر دی جائیں تو تہران جوہری معاہدے پر دوبارہ دستخط کر دے گا۔

    علی شمخانی نے مزید کہا اگر سمجھوتہ ہو جاتا ہے تو ایران بین الاقوامی معائنہ کاروں کو اپنی جوہری تنصیبات تک رسائی دینے پر بھی آمادہ ہوگا۔


    ایران کسی بدمعاش کے سامنے نہیں جھکے گا، مسعود پزشکیان


    واضح رہے کہ علی شمخانی ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے اعلیٰ سیاسی، فوجی اور جوہری مشیر ہیں، جو جاری بات چیت کے بارے میں عوامی سطح پر بات کرنے والے اعلیٰ ترین ایرانی عہدیداروں میں سے ایک ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ ایران کبھی بھی ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے گا، اور انتہائی افزودہ یورینیم کے اپنے ذخیرے سے چھٹکارا حاصل کر لے گا جس سے ہتھیار بنایا جا سکتا ہے، تاہم یورینیم کو صرف نچلی سطح تک افزودہ کرنے پر اتفاق کرے گا جو شہری استعمال کے لیے درکار ہے۔

    یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ایران آج معاہدے پر دستخط کرنے پر راضی ہو جائے گا اگر ان شرائط کو پورا کیا جائے تو شمخانی نے جواب دیا ’’ہاں۔‘‘

    یاد رہے کہ اس سے قبل ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے صدر ٹرمپ کو کہا تھا کہ آپ کیا یہاں ہمیں ڈرانے آئے ہیں، اگر آپ سوچتے ہیں کہ یہاں آ کر ہمیں ڈرا سکتے ہیں تو شہادت بستر پر موت سے زیادہ پیاری ہے، ہم کسی کی غنڈہ گردی کے آگے نہیں جھکیں گے۔

  • امریکا سے دوطرفہ مذاکرات نہیں ہوں گے، ایرانی وزارت خارجہ

    امریکا سے دوطرفہ مذاکرات نہیں ہوں گے، ایرانی وزارت خارجہ

    ویانا : آج سے آسٹریا میں ایران کے عالمی طاقتوں کیساتھ جوہری معاہدے سے متعلق مذاکرات کا آغاز ہورہا ہے تاہم ایران نے امریکا سے دوطرفہ مذاکرات کا امکان مسترد کردیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایران اور امریکا کے تعلقات مذاکرات کی میز پر بھی سرد مہری کا شکار ہیں، یورپی یونین کے رکن ملک آسٹریا میں آج 29 نومبر سے چھ عالمی طاقتوں اور ایران کے مابین جوہری معاہدے کیلئے ایک مرتبہ پھر مذاکرات کا آغاز ہورہا ہے۔

    ان مذاکرات میں برطانیہ، روس، ایران، چین، فرانس اور جرمنی شامل ہوں گے جب کہ امریکا بالواسطہ مذاکرات کا حصّہ ہوگا۔

    مذاکرات سے متعلق ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب نے واضح کیا ہے کہ جوہری معاہدے کےلیے ہونے والی ملاقات میں امریکی وفد کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات نہیں ہوں گے۔

    خیال رہے کہ سخت گیر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور حکومت میں ایران کیساتھ 2015 میں ہونے والا جوہری معاہدہ یک طرفہ طور پر 2018 میں منسوخ کرکے دوبارہ پابندیاں عائد کردی تھیں۔

    امریکا کی جانب سے معاہدے سے علیحدگی کے بعد ایران نے بھی معاہدے پر عمل درآمد روک دیا تھا۔

  • امریکا ایران جوہری معاہدے سے متعلق روسی مندوب کا دعویٰ

    امریکا ایران جوہری معاہدے سے متعلق روسی مندوب کا دعویٰ

    ویانا: روسی مندوب نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے سے متعلق مذاکرات آئندہ جمعے کو ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں واپس لانے کے لیے ویانا میں ایک اجلاس منعقد کیا گیا، اجلاس میں چین، جرمنی، فرانس، روس اور برطانیہ کے اعلیٰ سفارت کاروں کے مابین ہونے والے مذاکرات میں اس معاہدے پر توجہ مرکوز کی گئی۔

    روسی مندوب نے اس اجلاس کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے سے متعلق مذاکرات آئندہ جمعے کو ہوں گے، تاہم پیش رفت کی جلد توقع نہیں کرنی چاہیے۔

    ایرانی حکام نے کہا ہے کہ ویانا مذاکرات میں ایران پر سے پابندیاں اٹھانے پر اتفاق ہو گیا ہے، آئل، بینکنگ اور دیگر سیکٹرز پر عائد پابندیاں ختم ہو جائیں گی۔

    واضح رہے کہ ویانا میں ہونے والی سفارت کاروں کی اس ملاقات کے دوران امریکا کا کوئی نمائندہ موجود نہیں تھا۔

    ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران کے چیف جوہری مذاکرات کار نے ہفتے کے روز کہا کہ تہران توقع کرتا ہے کہ ویانا مذاکرات میں اب تک معاہدوں کی بنیاد پر تیل، بینکوں اور بیش تر افراد اور اداروں پر امریکی پابندیاں ختم کر دی جائیں گی۔

    اس دوران روس اور مغربی یورپی طاقتوں نے آگے آنے والی بات چیت میں ایران اور امریکا کو 2015 کے جوہری معاہدے کی مکمل تعمیل میں لانے کے ہدف کے سلسلے میں متضاد رائے دی ہے، فی الوقت یہ مذاکرات چھ دن کے لیے ملتوی کر دیے گئے ہیں۔

  • جوہری معاہدہ: حسن روحانی کی نئے امریکی صدر کو پیشکش

    جوہری معاہدہ: حسن روحانی کی نئے امریکی صدر کو پیشکش

    تہران: ایران کے صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ اگر واشنگٹن ایران کے 2015 کے جوہری معاہدے پر واپس آجاتا ہے تو ہم بھی اس معاہدے کے تحت اپنے وعدوں کا پوری طرح احترام کریں گے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق ایران کے صدر حسن روحانی نے بدھ کے روز امریکا کے نو منتخب صدر جو بائیڈن پر زور دیا کہ وہ سنہ 2015 کے جوہری معاہدے پر واپس آجائیں اور اسلامی جمہوریہ ایران پر عائد معاشی پابندیاں ختم کریں۔

    بدھ کے روز امریکہ کا اقتدار سنبھالنے والے نئے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ اگر ایران جوہری کام پر پابندیوں کے اس معاہدے پر سختی سے کاربند رہتا ہے تو امریکا بھی معاہدے پر عمل درآمد کرے گا۔

    ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنی کابینہ کے ساتھ ایک اجلاس میں کہا کہ اب گیند امریکی کورٹ میں ہے، اگر واشنگٹن ایران کے 2015 کے جوہری معاہدے پر واپس آجاتا ہے تو ہم بھی اس معاہدے کے تحت اپنے وعدوں کا پوری طرح احترام کریں گے۔

    روحانی نے کہا کہ ہم اس بات کی توقع کرتے ہیں کہ آج آنے والی امریکی انتظامیہ قانون کی حکمرانی کی طرف ضرور واپس آئے گی اور اس پر قائم بھی رہے گی، امید ہے کہ امریکا کے آئندہ چار سالہ دور میں گذشتہ چار سال کے لگے کالے دھبوں کو ختم کیا جائے گا۔

    یاد رہے کہ تہران اور واشنگٹن کے مابین سنہ 2018 سے تناؤ میں اضافہ ہوا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور 6 عالمی طاقتوں کے مابین معاہدے سے باہر نکلتے ہوئے تہران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے اور اسے جوہری ہتھیاروں کی ترقی کو روکنے کی کوشش کی تھی۔

    اس تناؤ کے سبب واشنگٹن کی جانب سے ایران پر ایسی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں جن سے ایران کی معیشت کو بڑا دھچکا لگا ہے۔

    جو بائیڈن کی جانب سے منتخب کردہ امریکی سیکریٹری برائے خارجہ انتھونی بلنکن کے مطابق امریکا ایران کے ساتھ اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے کے بارے میں کسی قسم کا فوری فیصلہ نہیں کرے گا۔

  • برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے رہنماؤں نے ایران سے مشترکہ اپیل کر دی

    برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے رہنماؤں نے ایران سے مشترکہ اپیل کر دی

    لندن: برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے رہنماؤں نے ایران سے نیوکلیئر ڈیل کے سلسلے میں مشترکہ اپیل کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے رہنماؤں نے ایران سے اپیل کی ہے کہ تہران یورپ کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل کی پاس داری کرے، ہم ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو بچانا چاہتے ہیں۔

    خیال رہے کہ امریکا گزشتہ برس ایران کے ساتھ جوہری ڈیل سے دست بردار ہو گیا تھا، ٹرمپ نے عراق میں امریکی کیمپ حملے کے بعد ڈیل سے علیحدہ ہونے کی اپیل کی تھی۔ یورپی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ وہ تہران کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کا معاہدہ قائم رکھنا چاہتے ہیں، انھیں ایران کے اقدامات پر بھی تحفظات ہیں۔

    جوہری معاہدہ منسوخ، ایران کا یورینیم افزودگی جاری رکھنے کا اعلان

    مشرق وسطیٰ میں حالیہ ایران امریکا کشیدگی کے سلسلے میں بھی یورپی رہنماؤں نے مشترکہ اپیل کی تھی کہ ایران اور امریکا تحمل کا مظاہرہ کریں، ایک نیا بحران عراق میں قیام امن کی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ جرمن چانسلر میرکل، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کی طرف سے ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا، جس میں ان رہنماؤں نے زور دیا کہ کشیدگی میں کمی کی ہنگامی ضرورت ہے اور عراق میں تشدد کا موجودہ سلسلہ لازمی طور پر ختم ہو جانا چاہیے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ برس ستمبر میں ان رہنماؤں نے 14 ستمبر کو سعودی عرب میں تیل کی دو تنصیبات پر حملوں کا ذمے دار متفقہ طور پر ایران کو ٹھہرایا تھا اور تہران سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اشتعال انگیزی کی بہ جائے بات چیت کے آپشن کو غالب رکھے۔

  • ایران اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کے ساتھ تعاون کرے، یورپی ممالک

    ایران اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کے ساتھ تعاون کرے، یورپی ممالک

    برسلز : یورپی طاقتوں نے ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے جوہری معائنہ کاروں کے ساتھ تعاون کرے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق یورپی ممالک کی جانب سے مذکورہ بیان اس وقت سامنے آیا جب تہران نے دھمکی دی تھی کہ امریکا اور اسرائیل کے غیرضروری دباؤ کے نتیجے میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی ایران میں سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوسکتی ہیں۔

    برطانیہ، فرانس، جرمنی اور یورپی یونین کے خارجہ پالیسی چیف نے مشترکہ اعلامیے میں کہا کہ تہران آئی اے ای اے کے ساتھ مسائل کے تحفظ سمیت تمام امور پر تعاون کرے۔

    مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ انہیں ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق تشویش لاحق ہے کہ تہران 2015 کے جوہری معاہدے میں طے شدہ مقدار سے زیادہ جدید سینٹری فیوجز لگا رہا ہے۔

    یورپی ممالک نے خدشہ ظاہر کیا کہ تہران کے مذکورہ اقدام سے جوہری معاہدے کومزید نقصان پہنچ سکتا ہے،انہوں نے ایران پر زور دیا کہ وہ جوہری معاہدے سے بڑھ کر تمام اقدامات واپس لے۔

    خیال رہے کہ امریکا اور ایران کے مابین جوہری معاہدے کا تنازع کئی عرصے سے جاری ہے۔

    واشنگٹن کی جانب سے جوہری معاہدہ منسوخ کیے جانے کے بعد تہران پر متعدد اقتصادی پابندیاں عائد کردی گئی تھیں تاہم ایران کو معاہدے کے دو نکات پر تجارتی استثنیٰ حاصل تھا۔

    امریکا کے اس فیصلے کے بعد بھی چین، فرانس، روس، برطانیہ اور جرمنی کے ایران کے ساتھ معاہدے متاثر نہیں ہوئے تھے،اسی دوران امریکا نے ایران کی پاسداران انقلاب کو عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دے دیابعد ازاں امریکا نے تجارتی استثنیٰ میں توسیع سے بھی انکار کردیا۔

    ادھر ایران نے تجارتی استثنیٰ نہ ملنے پر معاہدے کے فریقین ممالک کو 2 ماہ کی مہلت دی تھی کہ اگر وہ جوہری معاہدے سے متعلق تنازع حل کرنے میں ناکام ہوئے تو یورینیم کی افزودگی دوبارہ شروع کردے گا۔

    خیال رہے کہ ایران، امریکی صدر کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کی تجویز کو مسترد کرچکا ہے اور اس سلسلے میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا کہنا تھا کہ امریکی جارحیت ناقابلِ قبول ہے۔

  • جوہری معاہدہ، ایرانی وزیرخارجہ نے یورپی یونین کو خبردار کردیا

    جوہری معاہدہ، ایرانی وزیرخارجہ نے یورپی یونین کو خبردار کردیا

    تہران: جوہری معاہدے میں وعدے پورے نہ ہونے پر ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے یورپی یونین کو خبردار کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق ایران نے یورپی یونین کو خبردار کیا ہے کہ اگر انہوں نے امریکا کی جانب سے پابندی عائد کرنے کے بعد تہران کی معیشت کو استحکام دینے میں مدد نہ کی تو وہ 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت اپنے وعدوں کو مزید کم کردے گا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ان خیالات کا اظہار انہوں نے دبئی میں اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاروف کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔

    ایران کے وزیر خارجہ محمد جاوید ظریف نے کہا کہ جوہری معاہدے میں جو وعدے کیے گئے اگر وہ پورے نہ ہوئے تو تہران کی طرف سے معاہدے پر یکطرفہ عمل کرنا بے معنی ہوگا۔

    ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی یہی بات دہراتے ہوئے کہا کہ اگر یورپی ممالک 2015 کے جوہری معاہدے کی حفاظت کے لیے اگر کوئی اقدامات نہیں کرتے تو تہران اپنے وعدوں کو کم کرنے کے لیے مزید سخت اقدامات اٹھانے کے لیے تیار ہے۔

    ایران سے خطرہ، جہاز رانی کے تحفظ کیلئے برطانیہ کا ڈرون طیاروں کے استعمال پر غور

    وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی کا کہنا تھا کہ ایران نے اپنا تیسرا اقدام ترتیب دے دیا ہے جو پہلے اور دوسرے اقدام سے بھی زیادہ مضبوط ہے جس کا مقصد ایرانی حقوق اور نیوکلیئر معاہدے کے درمیان توازن بنانا ہے۔

    دوسری جانب ایران سے حالیہ کشیدگی کے بعد خطرے کے پیش نظر خلیج میں جہاز رانی کے تحفظ کے لیے برطانیہ ڈرون طیاروں کے استعمال پر غور کررہا ہے۔