Tag: جوہر برادران

  • تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما مولانا شوکت علی خان کا تذکرہ

    تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما مولانا شوکت علی خان کا تذکرہ

    اسلام اور تحریکِ خلافت کے متوالوں، برصغیر میں آزادی کی لازوال جدوجہد کے دوران ہر قسم کی قربانیاں دینے، قید و بند کی صعوبتیں اٹھانے والے مولانا شوکت علی کا نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ مولانا شوکت علی کو ان کی وفات کے بعد آج ہی کے دن 1938ء میں دہلی میں سپردِ‌ خاک کیا گیا تھا۔

    مولانا شوکت علی 10 مارچ 1873ء کو رام پور میں پیدا ہوئے۔ وہ محمد علی جوہر کے بھائی تھے۔ ان کی والدہ کو برصغیر میں بی امّاں کے نام سے پہچانا جاتا ہے جو اسلامیانِ ہند کی راہ نما اور نہایت دین دار اور ایسی خاتون تھیں جنھوں نے اپنے بیٹوں کو دینِ مبین اور حق و صداقت کے راستے میں جان کی پروا نہ کرنے کا درس دیا اور خود بھی تحریکِ آزادی کے لیے میدانِ عمل میں اتریں۔ مولانا شوکت علی نے 1895ء میں ایم اے او کالج علی گڑھ سے گریجویشن کیا اور سرکاری ملازمت اختیار کی۔ تاہم 1913ء میں یہ ملازمت ترک کرکے انجمنِ خدام کعبہ کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے پہلی عالمی جنگ کے دوران قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔

    1919ء میں انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی مولانا محمد علی جوہر کے ساتھ تحریکِ خلافت کی بنیاد رکھی۔ اسی دوران انھوں نے گاندھی جی کے ساتھ ہندو مسلم اتحاد کی ایک نئی تاریخ رقم کی، تاہم جلد ہی گاندھی کی حمایت سے دست بردار ہوگئے اور مسلم لیگ کی پالیسیوں کی حمایت کرنے لگے۔

    1937ء میں برطانوی ہند میں مولانا شوکت علی مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ انھوں نے 26 نومبر 1938ء کو وفات پائی۔

  • جدوجہدِ آزادی کی راہ نما بیگم محمد علی جوہر

    جدوجہدِ آزادی کی راہ نما بیگم محمد علی جوہر

    بیگم محمد علی جوہر آل انڈیا مسلم لیگ کی وہ راہ نما تھیں جو آزاد وطن کے لیے میدانِ عمل میں آگے آگے رہیں اور اسی عظیم مقصد کے لیے ہر قسم کی قربانیاں دینے والے اپنے شوہر کا ساتھ کچھ اس طرح نبھایا کہ وہ مثال بن گیا۔

    قرار داد پاکستان جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے علیحدہ وطن کے حصول کی منظّم تحریک شروع کی تھی، اس میں مردوں کے شانہ بہ شانہ خواتین نے بھی نمایاں کردار ادا کیا اور بیگم محمد علی جوہر انہی میں سے ایک ہیں۔

    بیگم محمد علی جوہر مارچ 1947ء میں وفات پاگئی تھیں، لیکن جدوجہد آزادی کی اس خاتون راہ نما کا نام آج بھی تاریخ میں‌ زندہ ہے۔ ان کا اصل نام امجدی بانو تھا اور تعلق ریاست رامپور سے تھا۔ 1902ء میں ان کا تحریک خلافت اور آزادی کے متوالے مولانا محمد علی جوہر کے ساتھ نکاح ہوا تھا۔

    1919ء میں جب مولانا محمد علی جوہر کو خلافت تحریک کے سلسلے میں جیل بھیجا گیا تو بیگم محمد علی جوہر عملی سیاست سے منسلک ہوگئیں۔ اسی برس انھوں نے خود بھی قید و بند کی صعوبت اٹھائی اور رہائی کے بعد عملی سیاست میں مکمل طور پر فعال ہوگئیں اور 1931ء میں مولانا محمد علی جوہر کی وفات کے بعد مسلم لیگی خواتین کو ایک پرچم تلے متحد رکھنے کے لیے کوشاں رہیں۔

    23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں انھوں نے ہندوستان کی مسلمان خواتین کی جانب سے قراردادِ لاہور کی تائید میں تقریر کی اور ہندوستان کے مسلمانوں نے طویل جدوجہد کے بعد پاکستان حاصل کر لیا۔

  • مولانا محمد علی جوہر اور ہندو رانی!

    مولانا محمد علی جوہر اور ہندو رانی!

    شملہ میں ایک کانفرنس ہو رہی تھی جس میں مولانا محمد علی جوہر بھی شریک تھے۔

    گفتگو اردو زبان ہی میں ہو رہی تھی۔ کسی موضوع پر وہاں بحث شروع ہوگئی اور الجھاؤ پیدا ہو گیا۔ جوشِ خطابت میں مولانا انگریزی زبان میں دلائل دینے لگے اور سب کو لاجواب کر دیا۔

    اس مجلس میں ایک ہندو رانی بھی موجود تھی۔ اس نے مخصوص وضع قطع والے ایک مولانا کو جب اتنی شستہ انگریزی بولتے سنا تو ششدر رہ گئی۔ اس سے رہا نہ گیا اور پوچھ بیٹھی:
    ”مولانا آپ نے اتنی اچھی انگریزی کہاں سے سیکھی؟“
    مولانا نے جواب دیا۔
    ”میں نے انگریزی ایک بہت ہی چھوٹے سے قصبے میں سیکھی ہے۔“
    ہندو رانی نے استفسار کیا تو مولانا شگفتگی سے بولے: ”آکسفورڈ میں۔