Tag: جو بائیڈن

  • بائیڈن شرمندہ ہو گئے، ویڈیو وائرل

    بائیڈن شرمندہ ہو گئے، ویڈیو وائرل

    واشنگٹن: وائٹ ہاؤس میں ایک اہم تقریب کے دوران جب لوگوں نے امریکی صدر جو بائیڈن کو بری طرح نظر انداز کیا تو ان کی حالت عجیب ہو گئی، اور وہ پریشانی اور شرمندگی میں ادھر ادھر دیکھنے لگے۔

    ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس نے انٹرنیٹ پر لوگوں کو حیران کر دیا، بارک اوباما سابق صدر ہو چکے ہیں لیکن وائٹ ہاؤس میں ان کی مقبولیت تاحال برقرار ہے، سابق اور موجودہ صدور جب منگل کو ایک تقریب میں اکھٹے ہوئے تو ہر شخص اوباما کے گرد دکھائی دیا اور بائیڈن بری طرح نظر انداز ہوئے۔

    ویڈیو میں جو بائیڈن کو کھوئے کھوئے انداز میں دیکھا جا سکتا ہے، پریس اور دیگر شہری جوبائیڈن کو نظر انداز کر کے اوباما کی طرف بھاگے، اس پر امریکی صدر حیران پریشان یہ منظر دیکھتے رہ گئے، انھوں نے ایک موقع پر پیچھے مڑ کر دیکھا اور مایوس ہو کر چل دیے۔

    ویڈیو میں 79 سالہ بائیڈن کو نرم غصے میں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، تقریب میں موجود لوگ انھیں نظر انداز کر کے 60 سالہ اوباما کو خوش آمدید کہنے کے لیے بھاگتے نظر آئے۔

    واضح رہے کہ بارک اوباما امریکا کے 43 ویں صدر تھے، اور جو بائیڈن ان کے نائب صدر کے عہدے پر فائز تھے، جو بائیڈن نے اوباما کو ان کے ادارے ‘اوباما کیئر’ کی بارہویں سالگرہ منانے کے لیے وائٹ ہاؤس میں دعوت دی تھی۔

    بری طرح نظر کیے جانے سے قبل بائیڈن اور اوباما نے ایک دوسرے کے ساتھ اپنے گزشتہ دور حکومت کے حوالے سے خوب مذاق کیا، انھوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور قہقہے بھی لگائے۔

    ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک موقع پر جب لوگوں نے اوباما کو گھیر رکھا ہے اور بائیڈن کملا ہیرس کے ساتھ پیچھے کھڑے ہیں اور بار بار کچھ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن کوئی ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، تو اس موقع پر انھوں نے اوباما کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

  • مارک فریرکس کون ہے، کیا وہ افغان طالبان کی قید میں ہے؟

    مارک فریرکس کون ہے، کیا وہ افغان طالبان کی قید میں ہے؟

    واشنگٹن: امریکی صدر جوبائیڈن نے افغانستان کی طالبان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مارک فریرکس کو رہا کر دیں، اس کے بعد طالبان کو قبول کرنے پر کوئی بات ہو سکتی ہے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق جو بائیڈن نے اتوار کو امریکی بحریہ کے ایک تجربہ کار اہل کار مارک فریرکس کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے، جو 2 سال قبل افغانستان میں یرغمال بنائے گئے تھے۔

    مارک فریرکس (Mark Frerichs) کا تعلق امریکی ریاست الینوائے کے شہر لومبارڈ سے ہے، پیشے کے لحاظ سے وہ سول انجینئر اور ٹھیکے دار ہیں، انھیں جنوری 2020 میں افغان دارالحکومت کابل سے اغوا کیا گیا تھا، اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ طالبان سے منسلک حقانی نیٹ ورک کے پاس موجود ہیں۔

    بائیڈن نے مارک فریرکس کے اغوا کے 2 سال مکمل ہونے پر ایک بیان میں کہا کہ آخری امریکی یرغمالی کو رہا نہ کرنے تک طالبان کو قبول نہیں کیا جا سکتا، طالبان فریرکس کو رہا کریں اس کے بعد قبول کرنے پر بات ہوگی، افغان طالبان کی قانونی حیثیت کی خواہش پر امریکی کی رہائی کے بعد غور ہوگا۔ واضح رہے کہ مارک فریرکس کو افغانستان میں آخری امریکی یرغمالی سمجھا جاتا ہے۔

    بائیڈن نے اغوا کی دوسری برسی کے موقع پر کہا امریکیوں یا کسی بھی بے گناہ شہری کی حفاظت کے لیے خطرہ لاحق ہونا ہمیشہ ناقابل قبول ہے، اور انھیں یرغمال بنانا ایک خاص ظلم اور بزدلی ہے۔

    انھوں نے کہا طالبان کو مارک کو فوری طور پر رہا کرنا چاہیے، اس سے پہلے کہ وہ اپنی جائز خواہشات پر غور کرنے کی توقع کر سکیں۔

    گزشتہ برس اگست میں انخلا کے بعد امریکی صدر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب افغانستان کو سنگین انسانی بحران کا سامنا ہے، طالبان زیادہ تر ملک پر اپنی حکومت قائم کر چکے ہیں، اور غیر ملکی امداد بڑی حد تک روکی جا چکی ہے، جس سے لاکھوں افغانوں کی زندگی خطرے میں پڑ چکی ہے، جو یا تو بھوک سے یا پھر سردی سے جم کر مر سکتے ہیں۔

    مارک فریرکس کے اہل خانہ کی جانب سے بیان کے لیے امریکی صدر کا شکریہ ادا کیا گیا، اور امید ظاہر کی گئی ہے کہ مارک کی محفوظ واپسی کو وہ ممکن بنا لیں گے۔

    تاہم مئی 2020 میں طالبان کی جانب سے امریکی کنٹریکٹر مارک فریرکس کی گمشدگی سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے واشنگٹن پر واضح کیا گیا تھا کہ امریکی کنٹریکٹر طالبان کی تحویل میں نہیں ہيں۔ سہیل شاہین نے گیارہ مئی کو کہا تھا کہ ہم باضابطہ طور پر اور بالواسطہ امریکی حکام کو بتا چکے ہیں کہ مارک فریرکس طالبان کے پاس نہیں ہیں۔

  • امریکی صدر نے افریقی ممالک سے سفری پابندی ہٹا دی

    امریکی صدر نے افریقی ممالک سے سفری پابندی ہٹا دی

    واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے افریقی ممالک پر عائد سفری پابندیاں ہٹانے کا اعلان کردیا، پابندی کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کا پھیلاؤ روکنے کے لیے لگائی گئی تھی۔

    امریکی میڈیا کے مطابق جو بائیڈن انتظامیہ نے اومیکرون ویرینٹ کے باعث جنوبی افریقہ اور دیگر 7 افریقی ممالک پر سفری پابندی عائد کی تھی جو اب 31 دسمبر سے ہٹا دی جائے گی۔

    جن افریقی ممالک پر پابندی عائد کی گئی تھی ان میں بوٹسوانا، زمبابوے، نمیبیا، موزمبیق اور ملاوی شامل تھے۔

    مذکورہ پابندی کے تحت امریکی شہری یا دیگر افراد ان ممالک سے امریکا کا سفر نہیں کر سکتے تھے۔

    امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ عوام کی صحت کے لیے عائد کی گئی ان سفری پابندیوں میں مزید توسیع کی ضرورت نہیں۔

  • ‘بیماری اور موت سے بھرے موسمِ سرما کے لیے تیار رہیں’

    ‘بیماری اور موت سے بھرے موسمِ سرما کے لیے تیار رہیں’

    واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے کرونا ویکسین نہ لگوانے والوں کو وارننگ دے دی ہے، انھوں نے کہا کہ ویکسین نہ لگوانے والے بیماری اور موت سے بھرے موسمِ سرما کے لیے تیار رہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے شہریوں سے کرونا ویکسین کی تیسری ڈوز لگوانے کی اپیل کرتے ہوئے ویکسین کے مخالفین کو بیماری اور موت کے خطرے سے بھرے موسم سرما سے خبردار کیا ہے۔

    وائٹ ہاؤس میں کووِڈ نائٹین کوآرڈینیشن ٹیم کے ساتھ ملاقات کے بعد جو بائیڈن کی جانب سے ذرائع ابلاغ کے لیے بیان جاری کیا گیا۔

    انھوں نے کہا کہ اگر آپ ویکسین لگواتے ہیں یا پھر آپ نے ویکسین کورس پورا کر لیا ہے، تو آپ شدید بیماری یا بیماری کے نتیجے میں موت کے خطرے سے محفوظ ہو جائیں گے۔

    امریکی صدر کا کہنا تھا حکومت کی جانب سے اختیار کردہ اقدامات کے سبب اومیکرون ویرینٹ ممکنہ حد تک تیزی سے نہیں پھیلا، لیکن اب یہ وائرس چوں کہ امریکا میں بھی پھیلنا شروع ہو گیا ہے تو اس پھیلاؤ میں آئندہ دنوں میں مزید اضافہ متوقع ہے۔

    بائیڈن نے خبردار کیا کہ بیماری اور موت سے بھرا موسم سرما ویکسین نہ لگوانے والوں کا منتظر ہے۔

    واضح رہے کہ امریکا بھر میں اس وقت پھیلے کرونا انفیکشن کے ایک تہائی کیسز کی وجہ اومیکرون ویرینٹ ہے، دنیا بھر کے صحت حکام کہہ رہے ہیں کہ اومیکرون ویرینٹ ڈیلٹا ویرینٹ کے مقابلے میں زیادہ متعدی ہے، تاہم اچھی بات یہ ہے کہ اومیکرون کی علامات ڈیلٹا کے مقابلے میں کم شدت والی ہوتی ہیں۔

  • امریکا کی پہلی خاتون قائم مقام صدر کون ہیں؟

    امریکا کی پہلی خاتون قائم مقام صدر کون ہیں؟

    امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعے کو طبی معائنے کے دوران نائب صدر کملا ہیرس کو مختصر دورانیے کے لیے اقتدار منتقل کیا جس کے بعد وہ قائم مقام صدر بن گئیں۔

    کملا ہیرس نے ایک گھنٹے اور 25 منٹ کے لیے قائم مقام صدر بن کر تاریخ رقم کر دی، وہ ملکی تاریخ کی پہلی خاتون بن گئی جنہوں نے امریکا کے صدر کے اختیارات سنبھالے۔

    وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر جو بائیڈن کی معمول کے طبی معائنے کے دوران کلونو سکوپی کی گئی جس کے لیے انہیں اینستھیزیا دیا گیا۔

    صدر جو بائیڈن اپنی 79 ویں سالگرہ کے دن جمعے کی صبح دارالحکومت واشنگٹن سے کچھ دور واقع والٹر ریڈ میڈیکل سینٹر گئے تھے۔ جو بائیڈن امریکی تاریخ میں صدارت کے منصب پر فائز ہونے والے سب سے عمر رسیدہ صدر ہیں۔

    واضح رہے کہ جنوری میں عہدہ سنبھالنے کے بعد صدر بائیڈن کا یہ پہلا طبی معائنہ ہے۔

    کلونو سکوپی کے دوران جو بائیڈن کو بے ہوش کیا گیا جس کے دوران ماضی کی طرح نائب صدر نے اقتدار سنبھالا، جس میں امریکی مسلح افواج اور جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے پر کنٹرول بھی شامل ہے۔

    قبل ازیں وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے کہا تھا کہ صدر بائیڈن مختصر مدت کے لیے نائب صدر کو اقتدار منتقل کریں گے جب وہ بے ہوشی کی حالت میں ہوں گے، نائب صدر اس دوران ویسٹ ونگ میں اپنے دفتر سے کام کریں گی۔

    57 سالہ کملا ہیرس نائب صدر کے عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون ہیں جبکہ اب انہیں امریکا کی پہلی خاتون قائم مقام صدر بننے کا بھی اعزاز حاصل ہوچکا ہے، یہی نہیں بلکہ وہ ان دونوں عہدوں پر براجمان رہنے والی پہلی سیاہ فام ایشیائی نژاد خاتون بھی ہیں۔

    امریکا کے آئین میں 25 ویں ترمیم کے مطابق جو بائیڈن نے عارضی صدر اور ایوان نمائندگان کے اسپیکر کو دستخط شدہ خط لکھ دیا تھا جس میں انہوں نے آگاہ کیا کہ وہ اینستھیزیا کے دوران وہ اپنے فرائض نبھانے سے قاصر ہوں گے لہٰذا کملا ہیرس قائم مقام صدر ہوں گی۔

    طبی معائنہ مکمل ہونے کے بعد کملا ہیرس صدارتی فرائض جو بائیڈن کو واپس کر دیں گی۔

    جین ساکی کے مطابق آئین کے تحت اقتدار کی عارضی منتقلی سال 2002 اور 2007 میں بھی ہوئی تھی جب صدر جارج ڈبلیو بش کو اسی قسم کے طبی مرحلے سے گزرنا پڑا تھا۔

  • جوبائیڈن اور شی جن پنگ نے اہم معاملے پر اتفاق کر لیا

    جوبائیڈن اور شی جن پنگ نے اہم معاملے پر اتفاق کر لیا

    واشنگٹن: امریکا اور چینی صدر نے تصادم سے بچنے پر اتفاق رائے کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ورچوئل ملاقات ہوئی، یہ قدم جو بائیڈن کی جانب سے اٹھایا گیا، ملاقات میں تعلق بہتر بنانے اور تلخیاں کم کرنے پر زور دیا گیا۔

    دونوں صدور نے تصادم سے بچنے پر اتفاق کیا، انھوں نے کہا کہ دونوں کو دنیا کی خاطر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی بھی تصادم سے بچنا چاہیے۔

    خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پیر کو ہونے والی اس ملاقات میں شی جن پنگ نے جو بائیڈن کو ’پرانا دوست‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کو درپیش چیلنجز کو حل کرنے کے لیے رابطہ کاری بڑھانی چاہیے۔

    جو بائیڈن نے کہا کہ امریکی و چینی دو طرفہ تعلق کا گہرا اثر صرف ہمارے ممالک ہی نہیں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک پر بھی ہے۔

    واضح رہے کہ چین اور امریکا کے درمیان کرونا وبا کے آغاز کے اسباب، تجارت، مسابقتی قوانین، بیجنگ کے بڑھتے جوہری معاملات اور تائیوان پر دباؤ سمیت دیگر ایشوز پر اختلافات ہیں۔

    دوسری جانب امریکی حکام کو دونوں ممالک کے درمیان ٹھوس معاہدوں کی زیادہ امید نہیں ہے، وائٹ ہاؤس کی جانب سے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا گیا کہ کیا امریکا فروری میں ہونے والے اولمپکس کے لیے اپنے حکام بیجنگ بھیجے گا۔

    امریکی قانون سازوں اور تنظیموں کے کارکنان نے جو بائیڈن پر زور دیا ہے کہ گیمز کا بائیکاٹ کیا جائے۔

  • وزیر اعظم اور امریکی صدر کا آج ورچوئل اجلاس میں آمنا سامنا متوقع

    وزیر اعظم اور امریکی صدر کا آج ورچوئل اجلاس میں آمنا سامنا متوقع

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان اور امریکی صدر کی آج ورچوئل اجلاس میں ایک ساتھ شرکت متوقع ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ذرائع نے بتایا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اقوام متحدہ کے کلائمٹ چینج سیشن میں شریک ہوں گے، موسمیاتی تبدیلی کے اجلاس میں امریکی صدر کی شرکت بھی متوقع ہے۔

    اجلاس آج شام 6 بجے سے 8 بجے تک جاری رہے گا، ذرائع کے مطابق اجلاس میں 45 سربراہان مملکت شریک ہوں گے، کلائمٹ چینج پر جی ایٹ کا یہ اجلاس یو این سیکریٹری جنرل نے بلایا ہے۔

    اجلاس کی میزبانی حکومت برطانیہ اور اقوام متحدہ مل کر کریں گے، جی 8 ممالک کے علاوہ 15 ممالک کے سربراہان بھی مدعو ہیں، پاکستان، بھارت اور انڈونیشیا کے سربراہان کو بھی مدعو کیا گیا ہے، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی مدعو ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں عمران خان 10 بلین ٹری، کلین گرین پاکستان،  متبادل توانائی، الیکٹرک وہیکلز، اور ویسٹ مینجمنٹ پر بات کریں گے، اپنی تقریر میں عمران خان آبی اور فضائی آلودگی کے خاتمے کے اقدامات اجاگر کریں گے، اس دوران معاون خصوصی ملک امین اسلم وزیر اعظم کی معاونت کریں گے۔

  • بائیڈن انتظامیہ کے لیے امیگریشن بحران درد سر بن گیا

    بائیڈن انتظامیہ کے لیے امیگریشن بحران درد سر بن گیا

    واشنگٹن: امریکی ریاست ٹیکسس کی سرحد پر 14 ہزار مہاجرین نے خیمے قائم کرلیے، اگست میں 2 لاکھ سے زائد افراد نے غیر قانونی طور پر سرحد پار کی۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق بائیڈن انتظامیہ کے لیے امیگریشن بحران درد سر بن گیا، ریاست ٹیکسس کی سرحد پر 14 ہزار مہاجرین نے خیمے بنالیے۔

    امریکی میڈیا رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ ماہ سرحد سے غیر قانونی داخلے کے واقعات میں 300 فیصد اضافہ ہوا، اگست میں 2 لاکھ سے زائد افراد نے غیر قانونی طور پر سرحد پار کی۔

    ری پبلکن سینیٹر ٹیڈ کروز کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن نے ڈی پورٹیشن فلائٹس منسوخ کردیں تاہم ہوم لینڈ سیکیورٹی کا دعویٰ ہے کہ وسطیٰ امریکا کو ڈی پورٹیشن فلائٹس جا رہی ہیں۔

  • امریکا میں سرکاری ملازمین کے لیے کرونا ویکسی نیشن لازمی قرار

    امریکا میں سرکاری ملازمین کے لیے کرونا ویکسی نیشن لازمی قرار

    واشنگٹن: امریکا میں تمام سرکاری ملازمین کے لیے کرونا ویکسین لازمی قرار دے دی گئی، صدر بائیڈن کا کہنا ہے کہ ویکسین نہ لگوانے والے لوگ پورے ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کے حوالے سے اہم فیصلہ کرتے ہوئے تمام سرکاری ملازمین کے لیے کرونا ویکسین لگوانا لازمی قرار دے دیا ہے۔

    امریکا میں 1 کروڑ سے زائد سرکاری ملازمین اور کنٹریکٹرز مختلف عہدوں پر تعینات ہیں۔

    امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ امریکا میں تاحال 8 کروڑ افراد نے کرونا ویکسین نہیں لگوائی، امریکا میں کرونا وائرس کے باعث یومیہ اموات 1 ہزار تک پہنچ گئی۔

    صدر بائیڈن کا کہنا ہے کہ ویکسین نہ لگوانے والے لوگ پورے ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

  • طالبان کے قبضے سے قبل بائیڈن اور اشرف غنی کے درمیان آخری فون کال

    طالبان کے قبضے سے قبل بائیڈن اور اشرف غنی کے درمیان آخری فون کال

    واشنگٹن: افغانستان کا کنٹرول طالبان کے ہاتھ میں‌ جانے سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن اور افغان ہم منصب اشرف غنی کے درمیان ایک آخری فون کال ہوئی تھی۔

    برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس آخری کال میں دونوں رہنماؤں نے فوجی امداد، سیاسی حکمت عملی اور پیغام رسانی کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا تھا۔

    اس گفتگو سے واضح ہوتا ہے کہ نہ تو جو بائیڈن اور نہ ہی اشرف غنی فوری طور پر کسی خطرے سے آگاہ یا اس کے لیے تیار نظر آئے، نہ وہ اس ٹیلی فونک گفتگو کے 23 دن بعد افغان حکومت کے انہدام کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ جو بائیڈن اور اشرف غنی نے 23 جولائی کو تقریباً 14 منٹ بات کی جب کہ 15 اگست کو اشرف غنی صدارتی محل چھوڑ کر نکل گئے جس کے بعد طالبان کابل میں داخل ہو گئے تھے۔

    جو بائیڈن نے کہا اگر آپ عوامی سطح پر یہ کہیں کہ آپ کے پاس افغانستان میں بگڑتی ہوئی صورت حال کو کنٹرول کرنے کا منصوبہ ہے، اگر ہمیں اس منصوبے کا علم ہو تو ہم فضائی مدد فراہم کرتے رہیں گے۔

    خیال رہے کہ اس فون کال سے کچھ دن قبل امریکا نے افغان سیکیورٹی فورسز کی مدد کے لیے فضائی حملے کیے تھے جس پر طالبان نے کہا تھا کہ یہ اقدام دوحہ امن معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

    جو بائیڈن نے اشرف غنی کو مشورہ دیا کہ وہ پیش قدمی کرنے والی فوجی حکمت عملی کے لیے طاقت ور افغانوں کو مجتمع کرنے کی کوشش کریں اور پھر اس کا انچارج ایک جنگجو کو بنائیں۔ ان کا اشارہ وزیر دفاع بسم اللہ خان محمدی کی جانب تھا۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ اب افغان افواج کی برائی کرنے والے جو بائیڈن نے اس دن فون پر افغان مسلح افواج کی تعریف کی تھی، انھوں نے کہا آپ کے پاس بہترین فوج ہے، آپ کے پاس ستر اسی ہزار کے مقابلے کے لیے تین لاکھ افراد پر مشتمل اچھی مسلح فوج ہے اور وہ بہتر انداز میں لڑنے کے قابل ہے۔

    بائیڈن نے کہا دنیا بھر اور افغانستان کے کچھ حصوں میں یہ تاثر موجود ہے کہ طالبان کے خلاف جنگ کے حوالے سے حالات ٹھیک نہیں ہیں، یہ تاثر حقیقت پر مبنی ہو یا نہیں، اس وقت ایک مختلف تصویر پیش کرنے کی ضرورت ہے، اگر افغانستان کی ممتاز سیاسی شخصیات ایک نئی عسکری حکمت عملی کی حمایت کرتے ہوئے ایک ساتھ پریس کانفرنس کریں گے تو اس سے یہ تاثر بدل جائے گا اور میرے خیال میں اس سے بہت زیادہ تبدیلی آئے گی۔

    امریکی صدر نے افغان حکومت محفوظ رکھنے کے لیے سفارتی، سیاسی اور معاشی طور پر سخت لڑائی جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا، جب کہ اشرف غنی نے طالبان کے حوالے سے ایک بار پاکستان پر الزام لگایا، تاہم واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے نے ان الزامات کی تردید کی ہے، وائٹ ہاؤس نے منگل کو اس کال پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا تھا۔

    یاد رہے کہ اشرف غنی کے بارے میں خیال یہ ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات میں موجود ہیں، ان کا آخری بیان 18 اگست کو آیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ خونریزی روکنے کے لیے افغانستان سے فرار ہوئے۔