Tag: جو بائیڈن

  • امریکی صدر اچانک غیر مقبول ہو گئے

    امریکی صدر اچانک غیر مقبول ہو گئے

    واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن اچانک غیر مقبول ہو گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک سروے میں معلوم ہوا ہے کہ افغانستان کی صورت حال سنبھالنےمیں ناکامی اور انخلامیں جلد بازی کی وجہ سے جو بائیڈن کی مقبولیت میں ڈرامائی کمی آ گئی ہے۔

    سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکیوں کی ایک نمایاں اکثریت کو شک ہے کہ افغانستان کی جنگ مفید تھی، یہاں تک کہ صدر بائیڈن خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کو جس طرح لے کر چل رہے ہیں، اس پر امریکا کہیں زیادہ تقسیم نظر آ رہا ہے۔

    سروے کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کی مقبولیت کا گراف 50 فی صد سے بھی نیچے آ گیا ہے، اور امریکا کے صرف 25 فی صد عوام جو بائیڈن کی افغان پالیسی کے حق میں ہیں۔

    بائیڈن نے کابل حکومت کی حفاظت کے لیے 2500 فوجی کیوں نہ چھوڑے؟

    سروے میں دو تہائی نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ امریکا کی طویل ترین جنگ مفید تھی، جب کہ 47 فی صد نے بین الاقوامی امور کے انتظام کے لیے بائیڈن کی توثیق کی، اور 52 فی صد نے قومی سلامتی کے حوالے سے بائیڈن کی حمایت کی۔

    یہ سروے 12 سے 16 اگست کو کیا گیا تھا، ایسے میں کہ افغانستان میں دو دہائیوں کی جنگ ختم ہو گئی ہے، اورطالبان دوبارہ اقتدار میں آ گئے ہیں، انھوں نے دارالحکومت کابل پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔

    طالبان نے مجموعی طور پر معاہدے کی پاسداری کی، جوبائیڈن

    اس صورت حال پر بائیڈن کو واشنگٹن میں دو طرفہ مذمت کا سامنا کرنا پڑا ہے، کیوں کہ طالبان کی تیز رفتار پیش قدمی کے سلسلے میں کوئی تیاری نہیں کی گئی تھی جس سے ایک انسانی بحران نے جنم لیا ہے۔

  • افغانستان میں جنگ ختم کرنے کے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں: جو بائیڈن

    افغانستان میں جنگ ختم کرنے کے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں: جو بائیڈن

    واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ہمارا مشن کبھی بھی قوم کی تعمیر نو نہیں تھا، افغان فوج کو سب کچھ دیا لیکن لڑنے کا جذبہ نہیں دے سکتے، افغان فورسز لڑنے کو تیار نہیں، امریکی فوجی کیوں اپنی جانیں گنوائیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی قوم سے خطاب کیا، اپنے خطاب میں جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ افغانستان جانے کا مقصد تعمیر نو نہیں تھا، افغانستان میں ہمارا مشن دہشت گردی کی روک تھام تھا۔

    امریکی صدر کا کہنا تھا کہ میرے پاس بطور صدر 2 ہی راستے تھے، امن معاہدے پر عمل پیرا ہوتا یا دوبارہ افغانستان میں لڑائی کرتا، ہم نے افغان فوج پر اربوں ڈالرخرچ کیے، ہر طرح کے ہتھیار فراہم کیے، افغانستان سے فوج واپسی کا فیصلہ درست ہے۔

    انہوں نے کہا کہ افغان حکومت کا تیزی سے خاتمہ حیرت کی بات ہے، افغان فورسز کی تنخواہیں تک ہم ادا کرتے تھے، افغان فوج خود لڑنے کے لیے تیار نہیں تھی، انہوں نے سرینڈر کردیا، افغان فورسز خود نہیں لڑنا چاہیں تو امریکی فوج کیا کر سکتی ہے۔

    جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ اشرف غنی کو مشورہ دیا تھا افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کریں، اشرف غنی نے ہماری تجویز مسترد کی اور کہا افغان فوج لڑے گی، افغان طالبان کے ساتھ معاہدہ سابق صدر ٹرمپ نے کیا تھا، دوسروں کی غلطیوں کو ہم نے نہیں دہرانا تھا۔

    انہوں نے کہا کہ چین اور روس نے افغانستان کے لیے کچھ نہیں کیا، چین اور روس کی خواہش ہوگی کہ امریکا افغانستان میں مزید ڈالر خرچ کرے، امریکی فوج وہ جنگ نہیں لڑ سکتی جو افغان فوج خود اپنے لیے نہ لڑے، افغان عوام کی حفاظت کے لیے اقدامات اٹھاتے رہیں گے۔

    جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ افغان فوج کو سب کچھ دیا لیکن لڑنے کا جذبہ نہیں دے سکتے، افغان فورسز لڑنے کو تیار نہیں، امریکی فوجی کیوں اپنی جانیں گنوائیں۔ افغان جنگ میں مزید امریکی نہیں جھونک سکتے، افغانستان سے اتحادی افغان شہریوں کو نکال رہے ہیں، اگر انخلا روکنے کی کوشش کی گئی تو سخت جواب دیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ افغانستان میں موجود امریکیوں کو واپس لایا جائے گا، انسانی حقوق ہماری خارجہ پالیسی کی ترجیح ہونی چاہئیں، انخلا مکمل ہونے پر امریکا کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ ہوجائے گا، افغانستان میں جنگ ختم کرنے کے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں، افغانستان سے انخلا کا فیصلہ درست اور امریکی عوام کے مفاد میں ہے۔

    جو بائیڈن کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں اپنا سفارتخانہ بند کر دیا ہے اور عملے کو واپس بلا لیا ہے، اگر طالبان نے امریکی مفادات پر حملے کیے تو سخت جواب دیں گے، افغان عوام کی حمایت جاری رکھیں گے۔

    بعد ازاں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ہمارا مشن کبھی بھی قوم کی تعمیر نو نہیں تھا، ہم 20 سال پہلے واضح اہداف کے ساتھ افغانستان گئے تھے، ہمارا ہدف 11 ستمبر کو حملے کرنے والوں کو پکڑنا تھا اور القاعدہ کو حملوں کے لیے افغانستان کو بطور بیس استعمال سے روکنا تھا۔

    ٹویٹ میں صدر بائیڈن نے مزید کہا کہ ہم نے ایک دہائی پہلے ہی افغانستان میں اہداف حاصل کر لیے تھے، افغانستان میں جو واقعات دیکھ رہے ہیں وہ افسوسناک ہیں، امریکی فوج کی چاہے کتنی بھی تعداد ہو وہ افغانستان کو مستحکم و محفوظ نہیں بنا سکتی، جو آج ہو رہا ہے وہ 5 سال پہلے بھی ہو سکتا تھا اور 15 سال بعد بھی۔

  • جو بائیڈن کی افغان طالبان کو وارننگ

    جو بائیڈن کی افغان طالبان کو وارننگ

    واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے افغان طالبان کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان افغانستان میں موجود امریکیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے سے باز رہیں۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے افغان طالبان کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان امریکیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے سے باز رہیں، افغانستان میں ایسے کسی بھی اقدام کا جواب فوجی طاقت سے دیا جائے گا۔

    امریکی صدر کا کہنا تھا کہ میری انتظامیہ نے قطر میں طالبان حکام کو آگاہ کر دیا ہے۔

    جو بائیڈن نے افغانستان سے انخلا میں معاونت کے لیے مزید امریکی افواج بھیجنے کی منظوری دے دی، انہوں نے کہا کہ انخلا میں معاونت کے لیے افغانستان میں 5 ہزار فوجی تعینات کر رہے ہیں۔

    یاد رہے کہ طالبان اب تک افغانستان کے 20 صوبائی دارالحکومتوں پر کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔

    افغان میڈیا کے مطابق 70 فیصد افغانستان پر طالبان قابض ہوچکے ہیں، افغان صدر اشرف غنی کا آبائی صوبہ لوگر کا دارالحکومت پل علم بھی طالبان کے قبضے میں چلا گیا۔

    جن صوبوں پر طالبان نے قبضہ کیا ہے ان میں نمروز، جوزجان، سریل، تخار، قندوز، سمنگان، فراہ، بغلان، بدخشاں، غزنی، ہرات، بادغیس، قندھار، ہلمند، غور، اروزگان، زاہل، لوگر، پکتیکا اور کنڑ شامل ہیں۔

  • 2030 تک امریکا میں پچاس فی صد گاڑیاں الیکٹرک ہوں گی

    2030 تک امریکا میں پچاس فی صد گاڑیاں الیکٹرک ہوں گی

    واشنگٹن: صدر بائیڈن نے الیکٹرک گاڑیاں متعارف کرانے کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے۔

    تفصیلات کے مطابق جمعرات کو امریکی صدر جو بائیڈن نے 2030 تک امریکا میں 50 فی صد الیکٹرک گاڑیاں متعارف کرانے کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے۔

    یہ قدم بائیڈن کے موسمیاتی تبدیلی سے لڑنے کے وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے، جس کے تحت کاروں اور ٹرکوں سے آلودگی کے اخراج کا مسئلہ حل کیا جانا ہے، دوسری طرف چین کے برقی گاڑیوں کی مارکیٹ پر حاوی ہونے کے پیش نظر امریکا کو انڈسٹری لیڈر بنانا بھی ہے۔

    امریکی شاہراہوں پر چلنے والی گاڑیوں کو 50 فی صد الیکٹرک پر لانے کے اس ہدف کو امریکی اور غیر ملکی آٹومیکرز کی حمایت حاصل ہو چکی ہے، تاہم اس کے ہدف کے حصول کے لیے اربوں ڈالرز کی سرکاری فنڈنگ درکار ہوگی۔

    صدر بائیڈن کا کہنا ہے کہ دنیا ماحول دوست گاڑیاں بنانے میں آگے ہے، ہمیں بھی آگے بڑھنا ہوگا، امریکا ٹیکنالوجی میں آگے ہونے کے باوجود الیکٹرک گاڑیوں میں چین سے پیچھے ہے۔

    وائٹ ہاؤس کے جنوبی لان میں جو بائیڈن نے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کے بعد وہاں انتظار میں کھڑی الیکٹرک جیب کی طرف رخ کیا اور اسے چلا کر گراؤنڈ کے چکر لگائے۔

  • کرونا وائرس اصلی ہے یا لیبارٹری میں تیار شدہ؟ امریکی صدر کو بھی تشویش

    کرونا وائرس اصلی ہے یا لیبارٹری میں تیار شدہ؟ امریکی صدر کو بھی تشویش

    کرونا وائرس شروع سے ہی متنازعہ رہا ہے اور اسے لیبارٹری میں تیار کیا گیا وائرس قرار دیا جاتا رہا ہے، اب اس حوالے سے امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی اہم ہدایات جاری کردی ہیں۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کو حکم دیا ہے کہ وہ کرونا وائرس کی اصلیت کا دوبارہ جائزہ لینے کے لیے ایک رپورٹ تیار کریں اور معلوم کریں کہ یہ بیماری کسی لیب میں تیار کی گئی ہے یا کس متاثرہ جانور سے انسان میں پھیلی ہے۔

    روس میں نووسبیرسک اسٹیٹ یونیورسٹی کی لیبارٹری کے سربراہ اور روسی اکیڈمی آف سائنسز (آر اے ایس) کے رکن سیرگئی نیتسوف نے بتایا ہے کہ عالمی سطح پر کورونا وبائی وائرس کے اصل حقیقت کا پتہ لگانے میں دو سال لگ سکتے ہیں۔

    سیرگئی نیتسوف کا کہنا ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ اس میں دنوں یا مہینوں کے بجائے ایک یا دو سال لگ سکتے ہیں۔ ریفریڈ اسٹڈی کے پاس اور بھی بہت کچھ ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ سارس وائرس جیسی تباہی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ مختلف ممالک کے ماہرین اس راز کو حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں کہ جانوروں سے پیدا ہونے والا وائرس انسانوں میں کیسے پھیل گیا۔

    اس سے قبل گزشتہ جنوری میں بین الاقوامی ماہرین بھی چین کے شہر ووہان گئے تھے، ان کا خیال تھا کہ کرونا وائرس وہاں سے شروع ہوا، انہوں نے اسپتالوں، بازاروں اور لیبارٹری میں مختلف ٹیسٹ کیے۔

    ماہرین نے مارچ میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کووڈ 19 کے ووہان میں ایک لیبارٹری سے نکلنے کے امکان کو کم قرار دیا تھا۔

  • افغانستان دنیا میں دہشت گردی کا مرکز نہیں رہا: جو بائیڈن

    افغانستان دنیا میں دہشت گردی کا مرکز نہیں رہا: جو بائیڈن

    واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکی اہداف پورے ہو گئے، افغانستان دنیا میں دہشت گردی کا مرکز نہیں رہا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس میں کہا افغانستان میں امریکا کے اہداف پورے ہو گئے، اسامہ بن لادن کی ہلاکت ساتھ ہی مشن مکمل ہوگیا تھا، افغانستان دنیا میں اب دہشت گردی کا مرکز نہیں رہا۔

    انھوں نے کہا امریکا کی ایک اور نسل کو افغانستان نہیں بھیجوں گا، 11 ستمبر تک تمام امریکی فوجی واپس آ جائیں گے، تاہم امریکا امن عمل کی حمایت اور افغان فورسز کی مدد جاری رکھے گا۔

    جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ طالبان کا مکمل افغانستان پر کنٹرول مشکل ہے، ہمارا کام ختم ہو گیا، اب افغان عوام کا حق ہے وہ جسے منتخب کریں، اُن پر اپنی مرضی کی حکومت مسلط نہیں کر سکتے۔

    امریکی صدر کا 31 اگست تک افغان جنگ ختم کرنے کا اعلان

    واضح رہے کہ امریکی فورسز کے انخلا کے ساتھ طالبان نے تیزی کے ساتھ افغانستان کے اضلاع پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے، آج ماسکو میں موجود طالبان وفد نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان افغانستان پر قبضے کے قریب پہنچ گئے ہیں، اور 85 فی صد ملک پر قبضہ کیا جا چکا ہے۔

    وفد نے دعویٰ کیا کہ وہ 398 میں سے 250 اضلاع میں حکومت بنا چکے ہیں، طالبان نے ایران کے ساتھ سرحدی گزرگاہ اسلام قلع بھی فتح کر لیا ہے، سو سے زائد افغان فوجی اہل کار چیک پوسٹ چھوڑ کر ایران بھاگ گئے۔

    ہرات میں بھی جنگجوؤں نے پیش قدمی کی، ایک کے بعد ایک ضلعے میں داخل ہو رہے ہیں، جب کہ افغان اہل کار ہتھیار ڈال کر فرار یا طالبان کے ماتحت ہونے لگے ہیں، ترکمانستان کی سرحد پر بھی طالبان کا کنٹرول قائم ہو گیا ہے، تاجکستان کی سرحدی گزرگاہ پر طالبان کے جھنڈے کے لہرانے کی فوٹیج بھی سامنے آ چکی ہے۔

    افغانستان کے 85 فیصد علاقے پر کنٹرول حاصل کرلیا، طالبان کا دعویٰ

    طالبان ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ اضلاع کا کنٹرول رضاکارانہ مل رہا ہے، افغان فوج خود ہتھیار ڈال رہی ہے۔

    یاد رہے کہ ایران کی میزبانی میں انٹرا افغان ڈائیلاگ میں طالبان نے یقین دلایا تھا کہ کابل پر بھی بزور طاقت قبضہ نہیں کریں گے، دوسری طرف طالبان نے افغان فضائیہ کے پائلٹس کی ٹارگٹ کلنگ شروع کر دی ہے، چند دن میں 7 پائلٹ ہلاک کیے جا چکے ہیں، طالبان کا کہنا ہے یہ پائلٹ اپنے ہی لوگوں پر بم گراتے ہیں، اس لیے ٹارگٹ کر رہے ہیں۔

    ادھر وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ دوحہ مذاکرات کے بعد طالبان بدل چکے ہیں، طالبان کا لباس سادہ لیکن وہ ذہین اور قابل لوگ ہیں، پاکستان کو اس بدلتی صورت حال کے لیے تیار ہونا پڑے گا، اشرف غنی طالبان کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں لیکن طالبان کو اشرف غنی پر اعتراضات ہیں۔

    شاہ محمود نے کہا بھارت افغان امن عمل خراب کر رہا ہے، بھارت چاہتا ہے پاکستان اور افغانستان میں عدم استحکام رہے، ہم اکیلے افغانستان کے ٹھیکے دار نہیں، افغانستان کی صورت حال کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانا جائز نہیں، پاکستان مزید مہاجرین کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔

  • کرونا وائرس کے ماخذ کے حوالے سے نیا انکشاف

    کرونا وائرس کے ماخذ کے حوالے سے نیا انکشاف

    نیویارک: ایک امریکی اخبار نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ کروناو ائرس کے ماخذ کا جائزہ شاید فیصلہ کن نہ ہو۔

    تفصیلات کے مطابق وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کے ماخذ کے جائزے سے شاید کوئی واضح فیصلہ نہیں ہو سکتا۔

    کرونا وبا پوری دنیا میں پھیلنے کے بعد سے مستقل طور پر یہ تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ یہ وائرس کہاں سے پھیلا، اور اس کا ماخذ کیا تھا، اس حوالے سے رپورٹ کے مطابق واشنگٹن نے بھی اس بات کا جائزہ لینے کے لیے انٹیلیجنس ایجنسیوں کو متحرک کیا تھا، کہ آیا کرونا وائرس متاثرہ جانور سے آیا تھا یا وائرولوجی لیب سے خارج کیا گیا تھا۔

    امریکا میں اس سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کے حوالے سے انتظامیہ کے ایک سینئر عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بائیڈن اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں کہ 90 دن کے جائزے کے بعد بھی شاید ہمارے پاس قطعی جواب نہ ہو، تاہم امریکی صدر ایک مرکوز ، جامع اور وقت پر مبنی کوشش کرنا چا ہتے ہیں۔

    کرونا وائرس کا پہلا کیس کب سامنے آیا تھا؟

    رپورٹ کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کو جولائی کے وسط میں تازہ ترین اطلاع موصول ہونے کی امید ہے، جس میں گزشتہ 45 دنوں کے دوران کی گئی تحقیقات کی پیش رفت کے نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔

    واضح رہے کہ سائنس دانوں نے سائنسی طریقوں کی مدد سے کو وِڈ 19 کے پہلے کیس کے دورانیے کا تخمینہ لگایا ہے، اس تخمینے کے مطابق دنیا میں کو وِڈ نائنٹین کا پہلا کیس چین میں اوائل اکتوبر سے نومبر 2019 کے وسط میں سامنے آیا ہوگا، اور دنیا میں پہلا فرد ممکنہ طور پر 17 نومبر 2019 کو وائرس سے متاثر ہوا ہوگا۔

  • امریکی صدر اور اشرف غنی کی ملاقات

    امریکی صدر اور اشرف غنی کی ملاقات

    واشنگٹن: افغانستان کے صدر اشرف غنی کے دورہ امریکا کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن سے ان کی ملاقات ہوئی، جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کا وقت آگیا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن اور افغان صدر اشرف غنی کے درمیان ملاقات ہوئی، ملاقات میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

    افغان صدر کے ساتھ چیئرمین قومی مفاہمتی عمل عبداللہ عبداللہ بھی موجود تھے۔ دونوں افغان رہنماؤں کی امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن سے بھی ملاقات ہوئی۔

    امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کا وقت آگیا ہے، افغانستان کی مدد جاری رکھیں گے۔ افغانوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے۔

    بعد ازاں افغان صدر امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی سے بھی ملے۔

    دوسری جانب وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت افغانستان کی امداد جاری رکھے گی تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ یہ ملک کبھی بھی دہشت گرد گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہ بن پائے جو امریکا کے لیے خطرہ ہو۔

    وائٹ ہاؤس کا مزید کہنا تھا کہ امریکا امن عمل کی مکمل حمایت کرتا ہے اور تمام افغان فریقین کو تنازعات کے خاتمے کے لیے مذاکرات میں معنی خیز حصہ لینے کی ترغیب دیتا ہے۔

  • جو بائیڈن نے ٹرمپ کا ایک اور ایگزیکٹو آرڈر واپس لے لیا

    جو بائیڈن نے ٹرمپ کا ایک اور ایگزیکٹو آرڈر واپس لے لیا

    واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے مقبول ایپس ٹک ٹاک اور وی چیٹ پر پابندی کی کوشش پر مبنی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرز کو واپس لے لیا۔

    امریکی میڈیا کے مطابق وائٹ ہاؤس کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ وہ چین سے منسلک سافٹ ویئر ایپلی کیشنز کا جائزہ لیں گے اور قومی سلامتی کے خدشات کی نشاندہی کریں گے۔

    نئے ایگزیکٹو آرڈر میں امریکا کے محکمہ تجارت کو ہدایت دی گئی ہے کہ چین کی جانب سے تیار کی جانے والی یا سپلائی یا کنٹرول کی جانے والی ایپس میں ملوث لین دین کا ثبوت پر مبنی تجزیہ کریں۔

    حکام کو خاص طور پر ایسی ایپس کے بارے میں تشویش لاحق ہے جو صارفین کا ذاتی ڈیٹا اکٹھا کرتی ہیں یا چینی فوجی یا انٹیلی جنس سرگرمیوں سے منسلک ہیں۔

    سینئر انتظامی عہدیداران کے مطابق امریکی محکمہ تجارت امریکیوں کی جینیاتی اور ذاتی صحت سے متعلق معلومات کی مزید حفاظت سے متعلق سفارشات پیش کرے گا اور چین یا دیگر مخالفین سے منسلک کچھ سافٹ ویئر ایپس کے خطرات کو حل کرے گا۔

    جوبائیڈن انتظامیہ کا یہ اقدام اس تشویش کی عکاسی کرتا ہے کہ امریکی شہریوں کے ذاتی ڈیٹا کو چین سے منسلک مقبول ایپس کے ذریعے بے نقاب کیا جاسکتا ہے، جو امریکا کا ایک اہم اقتصادی اور سیاسی حریف ہے۔

    گزشتہ روز سینیٹ نے بھی ایک بل منظور کیا تھا جس کا مقصد بڑھتے ہوئے بین الاقوامی مقابلے کا سامنا کرنے کے لیے امریکی سیمی کنڈکٹر کی تیاری، مصنوعی ذہانت اور دیگر ٹیکنالوجی کی ترقی کو فروغ دینا ہے۔

    رواں برس کے آغاز میں امریکی انتظامیہ نے مقبول ویڈیو ایپ ٹک ٹاک پر پابندی سے متعلق سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں کی حمایت کی تھی اور عدالت سے قانونی تنازع ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ امریکی حکومت نے چینی ٹیکنالوجی کمپنیوں سے درپیش قومی سلامتی کے خطرات کا وسیع جائزہ لینا شروع کردیا تھا۔

  • امریکا کے لیے ریسکیو پلان متعارف، بائیڈن کا روس اور چین سے متعلق اہم بیان

    امریکا کے لیے ریسکیو پلان متعارف، بائیڈن کا روس اور چین سے متعلق اہم بیان

    واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکا کے لیے ریسکیو پلان متعارف کرا دیا، انھوں نے کہا امریکا پھر سے دنیا کی قیادت کے لیے تیار ہے، روس سے کشیدگی اور چین سے تصادم نہیں چاہتے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے پہلے خطاب میں کہا امریکی ملازمتوں کا پروگرام امریکا کی تعمیر نو کا پلان ہے، امریکا پھر سے دنیا کی قیادت کے لیے تیار ہے، مجھے بحران سے دوچار ملک ورثے میں ملا۔

    انھوں نے کہا امریکا چین سے تصادم نہیں چاہتا، روس سے بھی کشیدگی بڑھانا نہیں چاہتے، امریکا اب دوبارہ ترقی کی راہ پر ہے، 20 لاکھ خواتین کرونا وبا کے دوران بے روزگار ہوئیں، ہمیں روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے، امریکی روزگار منصوبے کا مطلب ہے کہ امریکی مصنوعات خریدیں، اس سے روزگار کے مواقع بڑھیں گے، امریکا میں مزدور کی کم از کم اجرت 15 ڈالر فی گھنٹہ ہوگی، اب 40گھنٹے کام کرنے والا غربت کی لکیر سے نیچے نہیں رہے گا۔

    امریکی صدر نے کہا ریسکیو پیکج کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں، ہم نے پہلے 100 دن میں 22 کروڑ کرونا ڈوزز فراہم کیے، سولہ سال اور اس سے بڑے ہر فرد کے لیے ویکسین دستیاب ہے، 16 برس سے زائد عمر کا ہر نوجوان ویکسین لگوا سکتا ہے، انھوں نے امریکی عوام سے اپیل کی کہ جائیں اور اپنے آپ کو ویکسین لگوائیں۔

    بائیڈن کا کہنا تھا پہلے 100 دن کے دوران معیشت نے 13 لاکھ روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے، امریکا میں صحت تک رسائی ہر ایک کا حق ہونا چاہیے، کینسر اور ذیابیطس پر بھی قابو پانے کے لیے کام کرنا ہوگا، بہتر تعلیم تک سب کو رسائی ہونی چاہیے، جب کہ کرونا کو شکست دینے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔

    امریکی صدر نے کہا امریکی قیادت نے افغانستان میں جنگ ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، افغانستان میں تعینات ایسے فوجی بھی ہیں جو 911 کو پیدا بھی نہیں ہوئے تھے، اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی فوج افغانستان سے واپس بلا لیں۔

    انھوں نے کہا ہمیں اپنے حصے کا کام کرنا چاہیے، اسی سے جمہوریت مضبوط ہوگی، اکیسویں صدی کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم متحد ہیں۔