Tag: جو بائیڈن

  • جوبائیڈن صدارت تک کیسے پہنچے؟

    جوبائیڈن صدارت تک کیسے پہنچے؟

    واشنگٹن: زندگی بھر صدر بننے کا خواب دیکھنے والا نوجوان دھن کا پکا نکلا، طویل جدوجہد کے بعد آخر کار جو بائیڈن وائٹ ہاؤس تک بہ طور امریکی صدر پہنچ ہی گئے۔

    تفصیلات کے مطابق 50 سال کی سیاسی جدوجہد کے بعد آخرکار تیسری کوشش میں جوبائیڈن امریکی صدر بننے میں کامیاب ہو گئے، جوبائیڈن صدارت تک کیسے پہنچے، جانتے ہیں اس رپورٹ میں۔

    کہا جاتا ہے کہ جو بائیڈن جب شادی کے لیے رشتہ لے کر گئے تو سسر نے پوچھا کیا کام کروگے؟ مستقبل میں کیا بنوگے؟ تب نوجوان بائیڈن نے کہا تھا امریکی صدر بنوں گا، اور 56 سال بعد جوبائیڈن کا یہ خواب سچ ہوگیا۔

    78 سالہ جوبائیڈن امریکی تاریخ کے سب سے معمر اور سب سے زیادہ ووٹ لینے والے صدر ہیں، وہ پیشے سے وکیل ہیں اور گزشتہ 50 سال سے کسی نہ کسی حیثیت میں سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔

    کملا دیوی کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    جوبائیڈن دو بار نائب صدر بھی رہے ہیں، اور طویل عرصے تک سینیٹر رہے، بائیڈن خارجہ پالیسی کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، پچاس سے زیادہ ممالک کا دورہ کر چکے ہیں۔

    انھوں نے 1988 اور 2008 میں صدارت کے لیے کوششیں کیں لیکن کامیاب نہ ہوئے، جوبائیڈن سابق امریکی صدر اوباما کے بہت اچھے دوست بھی ہیں، اوباما نے ان کو صدارتی میڈل آف ٖریڈم سے نوازا تھا جو امریکا کے اعلیٰ ترین اعزاز میں سے ایک ہے۔

    بائیڈن کو طویل سیاسی سفر میں مسلسل المیوں کا سامنا رہا، پہلی بار سینیٹر بنے تو حلف اٹھانے کے دن حادثے میں بیوی اور بیٹی کو کھو دیا، ایک بیٹا دماغ کے کینسر کی جنگ لڑتے ہوئے زندگی ہار گیا، ابھی ایک بیٹا اور ایک بیٹی حیات ہیں۔

  • صدر ٹرمپ اپنی ضد پر قائم

    صدر ٹرمپ اپنی ضد پر قائم

    واشنگٹن: امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی ضد پر بدستور قائم ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن کو زیادہ ووٹ ڈلوانے کا انتظام کیاگیا۔

    تفصیلات کے مطابق اپنے ایک ٹویٹ میں صدر ٹرمپ بہ ضد دکھائی دے رہے ہیں کہ وہ انتخابات میں ہارے نہیں بلکہ جو بائیڈن کو دھاندلی سے جتوایا گیا ہے۔

    انھوں نے ٹویٹ میں لکھا کہ بائیڈن کسی صورت 8 کروڑ ووٹ نہیں لے سکتے، موجودہ انتخابات 100 فی صد دھاندلی زدہ تھے۔ ادھر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر کی انتظامیہ نے صدر ٹرمپ کے ٹویٹ میں دعووں کو متنازع قرار دے دیا ہے۔

    دوسری طرف بائیڈن کو چینی صدر شی جن پنگ نے الیکشن جیتنے پر مبارک باد دے دی ہے، انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ چین امریکا تعلقات میں بہتری کی امید ہے۔ خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ مسلسل چین پر تنقید کرتے آ رہے ہیں بالخصوص کرونا وبا کے حوالے سے انھوں نے تواتر کے ساتھ چین کو قصور وار قرار دیا جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات خراب رہے۔

    جیتنے کے ثبوت موجود ہیں، صرف اچھے جج کی ضرورت ہے، ٹرمپ

    جو بائیڈن کو روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے تاحال مبارک باد نہیں دی ہے، امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ پیوٹن کے لیے جوبائیڈن اب تک صرف صدارتی امیدوار ہیں۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز پنسلوانیا میں عوامی سماعت کے دوران فون پر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ہمارے پاس انتخابات جیتنے کے کافی ثبوت موجود ہیں اور اب دلائل سننے کے لیے صرف ایک اچھے جج کی ضرورت ہے۔

    واضح رہے کہ امریکا میں حلف برداری کی تقریب 20 جنوری کو منعقد ہوگی۔

  • ٹرمپ کا ایک بار پھر انتخابات میں شکست تسلیم کرنے سے انکار

    ٹرمپ کا ایک بار پھر انتخابات میں شکست تسلیم کرنے سے انکار

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر صدارتی انتخابات میں شکست تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔

    اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر کہا کہ جوبائیڈن اس لیے جیتے کہ انتخابات دھاندلی زدہ تھے، ووٹ کو دیکھنے والوں اور مبصرین کو آنے نہیں دیا گیا۔

    ٹرمپ نے الزام عائد کیا کہ ریڈیکل لیفٹ کی نجی کمپنی نے ووٹوں کو تبدیل کیا، نااہل مشینری ٹیکساس کے قابل ہی نہیں تھی، میں ٹیکساس میں بڑے مارجن سے جیت چکا ہوں۔

    مزید پڑھیں: ٹرمپ کے مسلح حامی بھی سامنے آ گئے

    امریکی صدر نے کہا کہ انتخابات کی رات خراب مشینری کے ذریعے ووٹ چوری کیے گئے، ووٹ چوری کرنے والے پکڑے نہیں گئے۔

    انہوں نے لکھا کہ ڈاک کے ذریعے ووٹ ایک بیمار مذاق ہے، بائیڈن صرف جعلی میڈیا کی نظر میں جیتے ہیں، ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ مجھے شکست نہیں ہوئی، ابھی ہمیں بہت آگے جانا ہے، یہ دھاندلی زدہ انتخابات تھے۔

    ٹویٹر نے امریکی صدر ٹرمپ کی ٹویٹ کو ٹیگ کردیا، ٹویٹر کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ متنازع ہے۔

  • صدر ٹرمپ کا عہدہ چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں: امریکی میڈیا

    صدر ٹرمپ کا عہدہ چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں: امریکی میڈیا

    واشنگٹن: امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتخابات کے نتائج کو لے کر قانونی جنگ لڑنا چاہتے ہیں، ان کا فی الحال عہدہ چھوڑنے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا۔

    امریکی میڈیا کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتخاب ہارنے کے بعد سخت بے چینی کا شکار ہیں اور تاحال انتخابی نتائج قبول نہیں کرسکے۔

    امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نو منتخب صدر جو بائیڈن کو وائٹ ہاؤس مدعو کرنے کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں رکھتے اور نہ ان کے عہدہ چھوڑنے کا کوئی ارادہ ہے۔

    نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ انتخابات کے نتائج کو لے کر عدالت جانا چاہتے ہیں اور اسے کئی ماہ تک طول دینا چاہتے ہیں۔

    سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کا فیصلہ بھی کیا ہے، تحقیقات میں ایف بی آئی کو بھی شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    ٹرمپ نے گزشتہ روز امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر کو بھی برطرف کردیا ہے، ان کی جگہ کرسٹوفر ملر کو قائم مقام وزیر دفاع مقرر کیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ 3 نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن نے 279 الیکٹورل ووٹ لے کر ٹرمپ کو شکست دے دی، ٹرمپ نے 214 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے۔

    جو بائیڈن کی نائب صدر کمالہ ہیرس بھی امریکا کی پہلی خاتون نائب صدر منتخب ہوگئی ہیں۔

  • ’سنہ 2020 ٹرمپ کے لیے بہت برا ثابت ہوا‘

    ’سنہ 2020 ٹرمپ کے لیے بہت برا ثابت ہوا‘

    امریکا میں 3 دن بعد صدارتی انتخابات کا حتمی نتیجہ آنے کے بعد سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پھر سے سوشل میڈیا صارفین کے طنز کی زد میں آگئے، سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر بائے بائے ٹرمپ کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے لگا۔

    امریکا میں صدارتی انتخاب کے 3 دن بعد حتمی نتائج جاری کردیے گئے، ڈیموکریٹس کے امیدوار جو بائیڈن کو امریکی عوام نے اپنا نیا صدر چن لیا جبکہ نائب صدارتی امیدوار کمالہ ہیرس بھی پہلی خاتون نائب صدر بننے جارہی ہیں۔

    اس دوران دنیا بھر کے لوگ بے یقینی کی کیفیت میں رہے اور سوشل میڈیا پر بھی مختلف ٹرینڈز چلتے رہے، تاہم جو بائیڈن کی فتح کا اعلان ہوتے ہی ٹویٹر پر الوداع ٹرمپ (بائے بائے ٹرمپ) کا ٹرینڈ چلنے لگا۔

    لوگوں نے میمز کے ذریعے اپنی خوشی کا اظہار کیا کہ انہیں جو بائیڈن کی فتح سے زیادہ ٹرمپ کی شکست کی خوشی ہے۔

    ایک صارف کا کہنا تھا کہ سنہ 2020 صدر ٹرمپ کے لیے کچھ زیادہ ہی برا ثابت ہوا۔ انہیں کوویڈ 19 ہوا، اس کے بعد ان کی ملازمت (صدارت) چلی گئی اور اب انہیں بے دخل بھی ہونا پڑے گا۔

    جو بائیڈن کو ایک معتدل شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی فتح کو دنیا بھر میں خوش آئند قرار دیا جارہا ہے۔ دنیا بھر سے لوگ جو بائیڈن کے امریکا کے نئے صدر چنے جانے پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔

  • صدر عارف علوی کی نو منتخب امریکی ہم منصب کو مبارک باد

    صدر عارف علوی کی نو منتخب امریکی ہم منصب کو مبارک باد

    اسلام آباد: صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کو مبارک باد دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں صدر مملکت نے کہا میں نو منتخب صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کمالہ ہیرس کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

    صدر عارف علوی نے کہا میں عالمی امن بالخصوص افغانستان اور اس پورے خطے میں امن کے لیے بہتر امریکی کردار کا منتظر ہوں، پاکستان امریکا سے طویل مدتی دوستی اور باوقار تعلقات کا خواہاں ہے۔

    گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے بھی جوبائیڈن کو امریکی صدر منتخب ہونے پر مبارک باد دی تھی اور اپنے پیغام میں انھوں نے کہا میں جوبائیڈن کی طرف سے جمہوریت سے متعلق عالمی اجلاس کا منتظر ہوں، ٹیکس چوری، ملکی دولت لوٹنے والوں کے خلاف مل کر کام کریں گے، افغانستان اور خطے میں امن کے لیے بھی مل کر کام کریں گے۔

    وزیراعظم کی جوبائیڈن اور کملا ہیرس کو مبارک باد

    امریکی میڈیا کے مطابق جوبائیڈن اپنے حریف ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دے کر امریکی صدر متنخب ہوگئے ہیں، نو منتخب صدر جوبائیڈن نے ٹرمپ کے 214 ووٹس کے مقابلے میں 290 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے ہیں، جوبائیڈن جنوری 2021 میں امریکی صدر کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔

  • ٹرمپ اور جوبائیڈن میں صدارتی مباحثہ بدنظمی کا شکار

    ٹرمپ اور جوبائیڈن میں صدارتی مباحثہ بدنظمی کا شکار

    اوہائیو: 3 نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخاب 2020 کے سلسلے میں امریکی صدارتی امیدواروں میں ہونے والا پہلا براہ راست مباحثہ بدنظمی اور تکرار کا شکار ہو گیا۔

    تفصیلات کے مطابق اگلے امریکی صدارتی انتخاب میں ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک پارٹی کے سابق نائب صدر جوبائیڈن کے درمیان ہوگا، اس سلسلے میں دونوں کا اوہائیو  کے شہر میں پہلا صدارتی مباحثہ ہوا۔ مباحثے کے دوران دونوں ایک دوسرے سے الجھتے رہے۔

    واضح رہے کہ امریکی صدارتی انتخاب کے ٹاکرے میں یہ مباحثے کا مرحلہ سخت ترین سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ اس میں صرف صدارتی امیدوار ہی آمنے سامنے ہوتے ہیں، اس مباحثے میں میزبان کا فریضہ فاکس نیوز کے سینئر صحافی کرس والیس نے ادا کیا۔ ریاست اوہائیو کے شہر کلیولینڈ میں ہونے والے ٹی وی مباحثے میں صدر ٹرمپ اور جوبائیڈن نے ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری کی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بھرپور کوشش کی۔

    مباحثے کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا کہ انھیں جج منتخب کرنے کا اختیار ہے لیکن جوبائیڈن نے انھیں جھوٹا قرار دے دیا۔مباحثے کے دوران میزبان نے بار بار مداخلت کر کے فریقین کو ضابطے کے مطابق جوابات دینے کی تلقین کی، جوبائیڈن نے مباحثے کے دوران ایک موقع پر انشاء اللہ بھی کہا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی بار جوبائیڈن کی گفتگو میں مخل ہونے کی کوشش کی جس پر میزبان نے انھیں خاموش کرایا، جوبائیڈن سے دوبدو سوالات پر بھی میزبان کو انھیں کئی بار روکنا پڑا۔

    ٹرمپ نے جوبائیڈن کے بیٹے پر کرپشن کے الزامات لگائے، بائیڈن نے الزامات مسترد کر دیے، میزبان نے صدر ٹرمپ سے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ آپ نے 2016 اور 2017 میں فیڈرل انکم ٹیکس کی مد میں صرف 750 ڈالر ادا کیے، ٹرمپ نے جواب دیا کہ ’میں نے کئی لاکھ ڈالر ادا کیے، میں نے تین کروڑ 80 لاکھ ڈالر ایک سال اور دو کروڑ 70 لاکھ ڈالر دوسرے سال میں ادا کیے۔‘ جو بائیڈن نے انھیں چیلنج کیا کہ وہ اپنا ٹیکس ظاہر کریں، ٹرمپ نے کہا آپ انھیں دیکھ لیں گے جب آڈٹ ختم ہو جائے گا۔

    سفید فام نسل پرستی اور مسلح گروہوں کی حمایت یا مخالفت کے بارے میں دونوں امیدواروں سے پوچھا گیا تو ٹرمپ نے کہا جو کچھ ہو رہا ہے وہ بائیں بازو کی جانب سے ہے، دائیں بازو کی طرف سے نہیں۔ تاہم جو بائیڈن اور کرس والیس دونوں نے صدر ٹرمپ پر سفید فام نسل پرستوں کی مذمت کرنے کے لیے زور دیا تھا۔ ٹویٹر صارفین کا خیال تھا کہ ٹرمپ نے مکمل طور پر سفید فام نسل پرستوں کی مخالفت نہیں کی۔ ووٹر پینل کا اس بات پر اتفاق تھا کہ دونوں امیدواروں نے نسل پرستی کے سوال کا گول مول جواب دیا۔

    جوبائیڈن نے کہا کہ ٹرمپ کے پاس ہیلتھ کیئر کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، ٹرمپ صحت سے متعلق مسائل پر جھوٹ بولتے رہے ہیں، جس کے جواب میں ٹرمپ نے کہا کہ بارک اوبامہ کا ہیلتھ کیئر پلان بے کار اور بہت مہنگا تھا۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکی طبی ماہرین کہتے ہیں کہ ہماری حکومت نے عوام کی جانیں بچائی ہیں، ہم نے کرونا وائرس کے خلاف بہترین کام کیا مگر جعلی میڈیا نے اسے رپورٹ نہیں کیا۔

    جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ صرف ماسک پہننے سے وائرس کا خطرہ آدھا رہ جاتا ہے مگر ٹرمپ نے اس پر توجہ نہیں دی، اگر فروری کے مہینے میں ماسک پہننے کی پابندی عائد کی جاتی تو ایک لاکھ زندگیاں بچائی جاسکتی تھیں، جس پر ٹرمپ نے جواب دیا کہ میری جیب میں ہر وقت ماسک موجود ہوتا ہے، ضرورت ہوتی ہے تو پہن لیتا ہوں۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جوبائیڈن نے 47 سال سے امریکا کے لیے کچھ بہتر نہیں کیا، کاروبار بند کر کے ڈیموکریٹ سمجھ رہے ہیں یہ ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں، در حقیقت یہ لوگ ہمیں نہیں امریکی عوام کو نقصان پہنچا رہے ہیں، عوام اپنے بچوں کو اسکول جاتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ جوبائیڈن نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے بچوں کی زندگیاں بھی داؤ پر لگا دیں، پہلے کرونا وبا پر قابو پائیں پھر معیشت کو دیکھیں۔

    دوسرا مباحثہ

    امریکی صدارتی انتخاب کے سلسلے میں تین مباحثے ایجنڈے کا حصہ ہیں، اس سلسلے کا دوسرا اور تیسرا مباحثہ اکتوبر میں ہوگا۔ 15 اکتوبر کو فلوریڈا کے شہر میامی میں جب کہ 22 اکتوبر کو ٹینیسی کے شہر نیش وِل میں مباحثہ منعقد ہوگا۔

  • امریکی صدر پر قوم کو نسلی بنیاد پر تقسیم کرنے کی تنقید

    امریکی صدر پر قوم کو نسلی بنیاد پر تقسیم کرنے کی تنقید

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر قوم کو نسلی بنیاد پر تقسیم کرنے کے حوالے سے تنقید بھی سامنے آ گئی ہے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کے مخالف امیدوار جوبائیڈن نے صدر ٹرمپ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیانات ایسے ہیں جیسے مشن پورا ہو گیا ہو، صدر ٹرمپ رنگ نسل کی بنیاد پر قوم کو تقسیم کر رہے ہیں۔

    جوزف روبینیٹ بائیڈن نے اپنے بیان میں کہا کہ لاکھوں نوکریاں آنے پر میں بھی خوش ہوں، تاہم امریکی معیشت کی بحالی کے لیے ابھی بہت کام کرنا باقی ہے، 2 کروڑ افراد اب بھی بے روزگار ہیں۔

    انھوں نے کہا اس حوالے سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا رویہ قابل فکر ہے، میز پر کھانا لانے کے لیے لوگ اب بھی جدوجہد کر رہے ہیں، بے روزگاری کی شرح اب بھی بلند ترین سطح پر ہے، صدر ٹرمپ وبا کی صورت حال میں بری طرح ناکام ہوئے، انھیں اب بھی معاملات کی سمجھ نہیں آ رہی۔

    امریکی معیشت کے لیے اچھی خبریں آنا شروع، مارکیٹ میں لاکھوں نوکریاں

    واضح رہے کہ امریکی صدر نے سیاہ فام غیر مسلح شہری جارج فلائیڈ کی پولیس اہل کار کے ہاتھوں قتل کے بعد واشنگٹن میں ہونے والے مظاہرے ختم کرنے کے لیے نیشنل گارڈز کو مسلح کرنے کا بھی حکم دے دیا تھا، جسے امریکی محکمہ دفاع نے مسترد کر دیا۔

    امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے نیشنل گارڈزکو غیر مسلح کرنے کا حکم دے دیا ہے، اور انھوں نے یہ فیصلہ وائٹ ہاؤس کی مشاورت کے بغیر کیا، اور واشنگٹن میں فوج کو تعینات کرنے کی بجائے واپس بھیج دیا گیا۔