Tag: جو بائیڈن

  • شکاگو کنونشن کے باہر فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے پر جو بائیڈن کا رد عمل

    شکاگو کنونشن کے باہر فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے پر جو بائیڈن کا رد عمل

    شکاگو: امریکی ریاست الینوائے کے شہر شکاگو میں امریکا کی حکمراں جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے نیشنل کنونشن کے باہر فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ کیا گیا۔

    ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پیر کے روز افتتاح کے موقع پر ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن کے قریب حفاظتی باڑ توڑ کر درجنوں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور غزہ میں بمباری کے خلاف آواز بلند کی۔

    فلسطینی پرچم تھامے بڑی تعداد میں لوگوں نے غزہ میں جنگ بندی اور اسرائیل کے ساتھ امریکی پالیسی بدلنے کا مطالبہ کیا، مظاہرین نے یونائیٹڈ سینٹر تک مارچ کیا جہاں کنوشن منعقد کیا جا رہا تھا، مظاہرین میں خواتین کے ساتھ اسٹرالرز پر ان کے بچے بھی تھے، طلبہ اور منتخب رہنماؤں نے بھی اس میں حصہ لیا۔

    مارچ پرامن رہا، تاہم چند لوگوں نے حفاظتی باڑ پر دھاوا بول کر توڑ پھوڑ کی، متعدد مظاہرین باڑ سے گزرنے میں کامیاب ہوئے تاہم پولیس نے انھیں حراست میں لے لیا اور ہتھکڑیاں لگا دیں۔

    اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی کی تجویز سے اتفاق کر لیا

    کاملا ہیرس کو امریکا کی 47 ویں صدر منتخب کریں گے، ہلیری کلنٹن

    صدر جو بائیڈن نے کنونشن سے خطاب میں کہا جو لوگ سڑکوں پر ہیں ان کے پاس احتجاج کرنے کا جواز ہے، دونوں جانب بڑی تعداد میں بے گناہ لوگ مارے گئے ہیں، ہماری انتظامیہ جنگ بندی کے معاہدے کے لیے 24 گھنٹے کام کر رہی ہے۔

  • غزہ جنگ بندی معاہدے کو کمزور نہ کریں، جو بائیڈن نے فریقین کو خبردار کر دیا

    غزہ جنگ بندی معاہدے کو کمزور نہ کریں، جو بائیڈن نے فریقین کو خبردار کر دیا

    دوحہ: قطر کے دارالحکومت دوحہ میں غزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے دو روزہ مذاکرات ختم ہو گئے ہیں، وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ اس بار مذاکرات گزشتہ کئی مہینوں میں سب سے زیادہ نتیجہ خیز رہے، اگلے ہفتے یہ مذاکرات قاہرہ میں دوبارہ شروع ہوں گے۔

    امریکی صدر جو بائیڈن نے مذاکرات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے خبردار کیا کہ مشرق وسطیٰ میں اب کسی کو بھی ایسا کچھ نہیں کرنا چاہیے جس سے معاہدے تک پہنچنے کی کوششوں کو نقصان پہنچے۔

    انھوں نے کہا ’’کسی بھی فریق کو غزہ جنگ بندی ڈیل تک پہنچنے کی کوششوں کو کمزور نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ بائیڈن نے کہا کہ وہ امریکی وزیر خارجہ کو اسرائیل بھیجیں گے تاکہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق معاہدے پر پیش رفت ہو سکے اور اسرائیل کے لیے امریکی صدر کی ’فولادی حمایت‘ کی یقین دہانی کرائی جا سکی۔

    جو بائیڈن نے یہ بھی کہا کہ اگرچہ وہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے بارے میں ’’پرامید‘‘ ہیں تاہم یہ مذاکرات اختتام تک پہنچنے سے ابھی دور ہیں، انھوں نے کہا کہ مذاکرات کے تازہ ترین دور کے بعد اب ہم جنگ بندی سے پہلے سے کہیں زیادہ قریب ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب امریکی صدر نے کہا ہو کہ ان کے خیال میں معاہدہ قریب ہے۔

    دوحہ میں گزشتہ دو دنوں کے دوران جو شرائط طے کی گئی ہیں، ان پر عمل درآمد کا طریقہ کار کیا ہو، اس سلسلے میں تکنیکی ٹیمیں قاہرہ میں مل بیٹھنے سے قبل مزید کام کریں گی۔ عالمی میڈیا کے مطابق امریکا نے مذاکرات میں غزہ جنگ بندی سے متعلق نئی تجویز پیش کی ہے، امریکی تجویز گزشتہ ہفتے طے پانے والے معاہدے پر مبنی تھی، امریکی حکام کے مطابق مصر اور قطر نے جنگ بندی کی نئی تجویز کی حمایت کی ہے۔

    حماس ان مذاکرات کا حصہ نہیں تھی تاہم قطری اور مصری حکام کے ساتھ رابطے میں تھی، بی بی سی کو حماس کی ایک سینیئر شخصیت نے بتایا کہ دوحہ مذاکرات کے نتائج کے بارے میں تحریک کی قیادت کو آج جو مطلع کیا گیا ہے، اس میں 2 جولائی کو جن نکات پر اتفاق کیا گیا تھا، ان پر عمل درآمد کرنے کا کوئی عہد شامل نہیں ہے۔

  • اسرائیل حماس جنگ آسانی سے علاقائی جنگ میں بدل سکتی ہے، جو بائیڈن نے خدشہ ظاہر کر دیا

    اسرائیل حماس جنگ آسانی سے علاقائی جنگ میں بدل سکتی ہے، جو بائیڈن نے خدشہ ظاہر کر دیا

    واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل حماس جنگ آسانی سے علاقائی جنگ میں بدل سکنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وائٹ ہاؤس میں ان کی مدت ختم ہونے سے پہلے غزہ میں جنگ بندی ’’اب بھی ممکن ہے۔‘‘

    گزشتہ ماہ جو بائیڈن نے اگلی مدت کے لیے اپنی انتخابی مہم ترک کر دی تھی اور صدارتی امیداوری سے دست بردار ہو گئے تھے، اس کے بعد انھوں نے یہ اپنا پہلا انٹرویو دیا ہے جس میں انھوں نے غزہ جنگ بندی سے متعلق بھی بات کی۔

    بائیڈن نے انٹرویو میں کہا ’’جو منصوبہ میں نے ترتیب دیا، جس کی G7 نے بھی توثیق کی، جس کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے توثیق کی ہے، وہ اب بھی قابل عمل ہے۔‘‘

    انھوں نے کہا ’’اور میں ہر دن اس منصوبے پر باقاعدہ کام کر رہا ہوتا ہوں، صرف میں نہیں میری پوری ٹیم بھی، اور میری اس بات پر نظر ہوتی ہے کہ یہ تنازع علاقائی جنگ میں تبدیل نہ ہو جائے، جو کہ آسانی سے تبدیل ہو سکتا ہے۔‘‘

    امریکا کا مشرق وسطیٰ میں مزید جنگی جہاز بھیجنے کا حکم

    واضح رہے کہ امریکا نے ایران کی طرف سے جواب حملے اور مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورت حال کے پیش نظر وہاں کے پانیوں میں میزائل بردار ایٹمی آب دوز ’’یو ایس ایس جارجیا‘‘ اور ابراہم لنکن طیارہ بردار جنگی بحری جہاز تعیناتی کے لیے روانہ کر دیے ہیں۔

  • امریکا میں پر امن انتقال اقتدار پر صدر جو بائیڈن کی رائے

    امریکا میں پر امن انتقال اقتدار پر صدر جو بائیڈن کی رائے

    واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن امریکی سیاست کے مستقبل سے نا امید ہو گئے ہیں، امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ نومبر میں اقتدار کی پُرامن منتقلی نہیں دیکھ رہا۔

    بدھ کے روز ’’سی بی ایس سنڈے مارننگ‘‘ کو ایک انٹرویو میں صدر جو بائیڈن نے کہا کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ ہار گئے تو انھیں خدشہ ہے کہ وہ انتخابی نتائج کو قبول نہیں کریں گے۔

    انھوں نے کہا کہ وہ یہ بات اعتماد کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ نومبر میں ٹرمپ ہار گئے تو وہ نتائج قبول کر لیں گے، اور اقتدار کی پرامن منتقلی ہوگی، کیوں کہ ریپبلکن امیدوارٹرمپ نے اپنی تقریروں میں کہا ہے کہ وہ صرف ایک ہی صورت میں ہار سکتے ہیں جب ان سے انتخابات چوری کر لیے جائیں۔

    اس انٹرویو میں معمر جو بائیڈن کی زبان پھسلنے والا واقعہ ایک بار پھر رونما ہوا، انھوں نے کہا ’’اگر ٹرمپ جیت جاتے ہیں تو نہیں، مجھے اس بات (پرامن انتقال اقتدار) پر بالکل یقین نہیں۔‘‘ اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی انھوں نے پھر کہا ’’میرا مطلب ہے کہ اگر ٹرمپ ہار جاتے ہیں تو مجھے اس بات پر بالکل یقین نہیں۔‘‘

    امریکا کے صدارتی الیکشن، سروے میں حیران کُن انکشاف

    جو بائیڈن نے کہا کہ ٹرمپ جو کہتے ہیں اس پر عمل بھی کر جاتے ہیں، اگرچہ ہم انھیں سنجیدگی سے نہیں لیتے لیکن ان کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ ’’اگر وہ ہار گئے تو خون کی ہولی کھیلی جائے گی، اور یہ الیکشن چوری شدہ الیکشن ہوگا۔‘‘ واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مارچ میں متنبہ کیا تھا کہ اگر وہ 2024 کا الیکشن ہار گئے تو امریکی آٹو انڈسٹری اور ملک میں ’’خون کی ہولی‘‘ کھیلی جائے گی۔

  • جو بائیڈن اردن کے فرماں روا شاہ عبداللہ سے آج بات کریں گے

    جو بائیڈن اردن کے فرماں روا شاہ عبداللہ سے آج بات کریں گے

    واشنگٹن: مشرقی وسطیٰ کی کشیدہ صورت حال پر امریکی صدر جو بائیڈن اردن کے فرماں روا شاہ عبداللہ سے آج بات کریں گے۔

    وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکی صدر نے مشرقی وسطیٰ کی صورت حال پر بات چیت کے لیے نیشنل سچوایشن روم کا اجلاس بھی آج طلب کر لیا ہے۔

    امریکی صدر پُرامید ہیں کہ اسرائیل پر جوابی حملے کے سلسلے میں ایران دھمکی کے باوجود پیچھے ہٹ جائے گا، امریکی میڈیا کے مطابق صحافیوں نے امریکی صدر سے سوال کیا کہ کیا ایران اسرائیل سے بدلہ لینے کے اپنے اعلان سے پیچھے ہٹ سکتا ہے؟ جو بائیڈن نے جواب دیا کہ میں نہیں جانتا لیکن امید ہے۔

    ایران کا اسرائیل پر حملہ، امریکی صدر نے بڑی امید ظاہر کر دی

    اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی، ایرانی صدر نے دو ٹوک پیغام دے دیا

    دوسری جانب علاقائی کشیدگی سے بچنے کے لیے امریکا، فرانس، برطانیہ، اٹلی اور مصر کی سفارتی کوششیں بھی جاری ہیں، امریکا کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں فوجی اقدامات کا مقصد خطے میں کشیدگی کو کم کرنا، حملوں کو روکنا، دفاع کرنا اور علاقائی تنازعات سے بچنا ہے۔

    ڈپٹی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جوناتھن فائنر نے کہا کہ امریکا اور اسرائیل ہر ممکن تیاری کر رہے ہیں، اپریل میں علاقائی تصادم کا امکان بہت قریب پہنچ چکا تھا، امریکا چاہتا ہے کہ دوبارہ ایسی صورت سے بچنے کے لیے تیاری کی جائے۔

  • ایران کا اسرائیل پر حملہ، امریکی صدر نے بڑی امید ظاہر کر دی

    ایران کا اسرائیل پر حملہ، امریکی صدر نے بڑی امید ظاہر کر دی

    واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے ایران کے اسرائیل سے بدلے کی دھمکی سے پیچھے ہٹنے کی امید ظاہر کر دی ہے۔

    روئٹرز کے مطابق صحافیوں نے امریکی صدر سے سوال کیا کہ کیا ایران اسرائیل سے بدلہ لینے کے اپنے اعلان سے پیچھے ہٹ سکتا ہے؟ جواب میں امریکی صدر نے کہا کہ امید ہے کہ ایران بدلہ لینے کی دھمکی کے باوجود پیچھے ہٹ جائے گا۔

    غزہ پر اسرائیلی وحشیانہ جارحیت اب  مشرق وسطیٰ میں ایک وسیع جنگ میں تبدیل ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے، جو بائیڈن کی امید اسی تناظر میں ہے۔

    اسرائیل نے پہلے بیروت میں حزب اللہ کے ایک سینئر فوجی کمانڈر فواد شکر کو قتل کیا، اور ایک دن بعد بدھ کے روز تہران میں اسماعیل ہنیہ کو مار دیا، اس سے علاقائی سطح پر کشیدگی عروج پر پہنچ گئی ہے، حماس اور ایران اور حزب اللہ نے مل کر اسرائیل سے بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔

    اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی، ایرانی صدر نے دو ٹوک پیغام دے دیا

    روئٹرز کے مطابق جب بائیڈن سے پوچھا گیا کہ کیا ایران پیچھے ہٹ جائے گا، تو امریکی صدر نے کہا ’’مجھے نہیں پتا، لیکن مجھے امید ہے۔‘‘

    واضح رہے کہ علاقائی کشیدگی سے بچنے کے لیے امریکا، فرانس، برطانیہ، اٹلی اور مصر کی سفارتی کوششیں بھی جاری ہیں۔

  • جو بائیڈن کی دستبرداری پر بین الاقوامی رہنماؤں کا زبردست رد عمل

    جو بائیڈن کی دستبرداری پر بین الاقوامی رہنماؤں کا زبردست رد عمل

    جو بائیڈن کی دست برداری پر بین الاقوامی رہنماؤں نے انھیں زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔

    جو بائیڈن 1968 کے بعد امریکی صدارتی دوڑ سے دست بردار ہونے والے پہلے امریکی صدر بن گئے ہیں، بین الاقوامی سطح پر ان کی جانب سے صدارت سے دست برداری کے اعلان کی تعریف کی جا رہی ہے۔ سابق صدر براک اوباما نے بائیڈن کے ریکارڈ کی تعریف کی، سوشل میڈیا پر لکھا کہ جو بائیڈن اعلیٰ ترین درجے کے محب وطن ہیں۔

    جرمنی کے چانسلر اولاف شولز نے X پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ میرے دوست نے اپنے ملک، یورپ اور دنیا کے لیے بہت کچھ حاصل کیا، بائیڈن کی بدولت آج ٹرانس اٹلانٹک تعاون قریب ہے، نیٹو مضبوط ہو گیا ہے اور امریکا ہمارے لیے ایک اچھا اور قابل اعتماد پارٹنر ہے۔ ان کا دوبارہ انتخاب نہ لڑنے کا فیصلہ قابل تعریف ہے۔

    برطانوی وزیر اعظم سر کیئر اسٹارمر نے بھی بائیڈن کے فیصلے کو سراہا، اور کہا کہ وہ اس فیصلے کا احترام کرتے ہیں، صدر بائیڈن نے اپنا فیصلہ یقیناً امریکی عوام کے بہترین مفاد کی بنیاد پر کیا ہوگا، انھوں نے اپنے شان دار کیریئر میں ہمیشہ ایسا ہی کیا۔

    امریکی صدر جوبائیڈن صدارتی انتخابات سے دستبردار

    کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے جو بائیڈن اور امریکی خاتون اوّل جِل بائیڈن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے صدر کو کینیڈا کا سچا دوست قرار دیا اور کہا کہ وہ ایک عظیم آدمی ہے، اور وہ جو کچھ بھی کرتا ہے اپنے ملک کے لیے اپنی محبت کی وجہ سے کرتا ہے۔

    پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک نے کہا جو بائیڈن نے اپنے سیاسی کیریئر میں بہت سے مشکل فیصلے کیے جن کی بدولت پولینڈ، امریکا اور دنیا محفوظ اور جمہوریت مضبوط ہوئی۔ انھوں نے کہا ’’میں جانتا ہوں کہ آپ نے اپنا تازہ ترین فیصلہ بھی اپنے ان ہی اصولوں کی رہنمائی میں کیا ہے، شاید آپ کی زندگی کا یہ سب سے مشکل فیصلہ ہے۔‘‘

    جوبائیڈن نے صدارتی انتخابات کیلیے کس کی حمایت کر دی؟

    جاپان کے وزیر اعظم فومیو کشیدا نے اپنے پیغام میں کہا کہ جو بائیڈن کی دست برداری کا فیصلہ ایک بہترین سیاسی فیصلہ ہے۔ جاپان-امریکا اتحاد ہمارے ملک کی سفارت کاری اور سلامتی کا سنگ بنیاد ہے، اس لیے ہم صورت حال پر گہری نظر رکھیں گے۔

    جمہوریہ چیک کے وزیر اعظم پیٹر فیالا نے بائیڈن کے دست برداری کے فیصلے کو ’’ذمہ دارانہ اور ذاتی طور پر مشکل تاہم بہت زیادہ قیمتی‘‘ قرار دیا۔ لیکن فیالا نے امریکا میں بڑھتی ہوئی سیاسی غیر یقینی صورت حال کو بھی تسلیم کیا اور کہا میں پوری دلچسپی کے ساتھ منتظر ہوں کہ ایک مضبوط جمہوری مقابلے میں ایک اچھا صدر سامنے آتا ہے۔

    یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا کہ وہ بائیڈن کے ’سخت لیکن مضبوط فیصلے‘ کا احترام کرتے ہیں اور ’یوکرین کی آزادی کی لڑائی کے لیے غیر متزلزل حمایت‘ پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

    امریکا سے متصادم کچھ ممالک نے بھی جو بائیڈن کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔ وینزویلا کے صدر نکولس مادورو نے اسے ’عقل مندانہ اور درست فیصلہ‘ قرار دیا۔ اور کہا مسٹر بائیڈن نے محسوس کیا کہ اس عمر میں اور کمزور صحت کے ساتھ وہ اپنے ملک کی باگ ڈور نہیں سنبھال سکتے، اس لیے صدارتی دوڑ چھوڑ دینی چاہیے۔

    کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ روس کی ترجیح اب بھی یوکرین میں اپنی جنگ پر ہوگی، انھوں نے مزید کہا کہ نومبر میں امریکی صدارتی ووٹنگ سے پہلے ’’بہت کچھ بدل سکتا ہے، ہمیں صبر اور احتیاط سے مانیٹر کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہوتا ہے۔‘‘

  • امریکی صدر جو بائیڈن اپنی جماعت کا کنٹرول کھو چکے ہیں، واشنگٹن پوسٹ

    امریکی صدر جو بائیڈن اپنی جماعت کا کنٹرول کھو چکے ہیں، واشنگٹن پوسٹ

    واشنگٹن: امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن اپنی جماعت کا کنٹرول کھو چکے ہیں۔

    واشنگٹن پوسٹ کے مطابق جو بائیڈن اور ڈیموکریٹکس کے درمیان تنازع میں شدت آ گئی ہے، ڈیموکریٹک پارٹی کا کنٹرول ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے، آئندہ ہفتے بائیڈن دست برادری کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

    مزید 12 ڈیموکریٹک اراکین نے جوبائیڈن سے صدارتی انتخابات سے دست برداری کا مطالبہ کیا ہے، ان ارکان میں ایوان نمائندگان کے 10 ارکان اور 2 سینیٹرز شامل ہیں۔

    بائیڈن کے خلاف آواز بلند کرنے والے ڈیموکریٹک اراکین کانگریس کی تعداد 35 ہوگئی ہے، جب کہ جو بائیڈن دست بردار نہ ہونے اور انتخابی مہم دوبارہ شروع کرنے کے لیے بہ ضد ہیں۔

    وائٹ ہاؤس کے باہر ڈیموکریٹس کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا، مظاہرین نے صدر بائیڈن سے الیکشن سے دست برادر ہونے کا مطالبہ کیا، شرکا نے کہا دوسرے امیدوار کو نامزد کیا جائے۔

  • ڈونلڈ ٹرمپ کو استثنیٰ کیسے دیا؟ جو بائیڈن نے سپریم کورٹ کے حوالے سے بڑی آئینی ترامیم کا اعلان کر دیا

    ڈونلڈ ٹرمپ کو استثنیٰ کیسے دیا؟ جو بائیڈن نے سپریم کورٹ کے حوالے سے بڑی آئینی ترامیم کا اعلان کر دیا

    واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے سپریم کورٹ میں بڑی تبدیلیوں کی منصوبہ بندی کر لی ہے۔

    امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر جو بائیڈن امریکی سپریم کورٹ کے ججوں کے لیے میعاد کی حدیں اور ایک قابل نفاذ اخلاقیاتی کوڈ کا مطالبہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں جس کے تحت ہائی کورٹ اور اس کے کام کرنے کے طریقے میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔

    اس حوالے سے اپنی تجاویز وہ آئندہ چند ہفتے میں پیش کریں گے، تجاویز میں ججوں کے عہدے کی معیاد مقرر کیا جانا اور اخلاقی قدروں پر لازمی عمل شامل ہوگا، صدر بائیڈن نے تجاویز پر آئینی ماہرین اور اراکین کانگریس سے صلاح مشورے بھی مکمل کر لیے ہیں۔

    امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن کا یہ مجوزہ منصوبہ سپریم کورٹ کو ڈرامائی طور پر تبدیل کر دے گا، تاہم ان تجاویز کو کانگریس کی منظوری درکار ہوگی۔ کہا جا رہا ہے کہ ان تجاویز کے نفاذ کے لیے یا تو آئینی ترمیم یا کانگریس کی کارروائی درکار ہوگی، اور یہ دونوں راستے موجودہ سیاسی ماحول میں ناممکن دکھائی دیتے ہیں۔ ماضی وہ بائیڈن خود سپریم کورٹ میں کسی بھی تبدیلی کے مخالف رہے ہیں۔

    طالبان یقینی بنائیں افغان سرزمین سے دہشتگرد حملے نہ ہوں، امریکا

    جو بائیڈن اس آئینی ترمیم پر بھی غور کر رہے ہیں کہ صدر اور آئینی عہدوں پر موجود دیگر شخصیات کو حاصل وسیع تر استثنیٰ بھی ختم کر دیا جائے۔

    صدر بائیڈن نے ٹرمپ کو آفیشل ایکٹ کے معاملے پر استثنیٰ کے عدالتی فیصلے پر کڑی تنقید کی تھی اور عدالتی فیصلے کو قانونی اصولوں پر حملہ اور قانون کی حکمرانی پر ضرب قرار دیا تھا۔

  • ویڈیو: جو بائیڈن کی زبان پھر پھسل پڑی، بیلٹ باکس کو بَیٹل باکس کہہ دیا

    ویڈیو: جو بائیڈن کی زبان پھر پھسل پڑی، بیلٹ باکس کو بَیٹل باکس کہہ دیا

    واشنگٹن: امریکی صدر 81 سالہ جو بائیڈن اب اکثر اپنے ذہن اور زبان میں تال میل قائم رکھ نہیں پاتے اور مختلف الفاظ اور ناموں پر ان کی زبان پھسل جاتی ہے۔

    گزشتہ روز ایک بار پھر اس وقت جو بائیڈن کی زبان پھسلی جب وہ ڈونلڈ ٹرمپ پر ہونے والے حملے کے بعد قوم سے خطاب کر رہے تھے، اور سیاسی ماحول کی گرما گرمی کو ٹھنڈا کرنے کا مؤقف پیش کر رہے تھے۔

    وہ کہہ رہے تھے کہ سیاسی اختلافات بیلٹ باکس سے حل ہوتے ہیں، گولی سے نہیں، لیکن ان کی زبان پھسل گئی اور انھوں نے بیلٹ باکس کو بَیٹل باکس کہہ دیا۔

    جو بائیڈن نے امریکیوں سے سیاسی ماحول ’کول ڈاؤن‘ کرنے کی اپیل کر دی

    ان کا کہنا تھا کہ تشدد سے کوئی بھی مسئلہ حل نہیں کیا جا سکتا، اگر معاملات کو درست کرنا ہے تو رائے دہی کا طریقہ ہی اختیار کرنا پڑے گا، تاہم اس مرحلے پر وہ ووٹوں کے باکس کو ’’لڑائی کا باکس‘‘ کہہ گئے۔

    ٹرمپ نے حملے کے بعد ریپبلکن کنونشن کے لیے لکھی تقریر مکمل تبدیل کر دی

    اس مختصر تقریر میں انھوں نے کہا تھا کہ گرما گرمی بہت ہوئی، اب سیاسی درجہ حرارت کو کم کیا جائے، اختلاف کا مطلب دشمنی نہیں، اسے ٹھنڈا کرنے کا وقت آ گیا ہے، انھوں نے کہا یہ مفاہمت کا وقت ہے کیوں کہ غیر ملکی ایکٹرز ہمارے درمیان اختلافات کو ہوا دے رہے ہیں، اختلافات بیلٹ باکس کے ذریعے حل کرتے ہیں، گولی سے نہیں۔