Tag: جڑی بوٹیاں

  • بارکھان: کوہ جاندران میں آگ بے قابو، سیکڑوں قیمتی جڑی بوٹیاں جل کر خاکستر ہوگئیں

    بارکھان: کوہ جاندران میں آگ بے قابو، سیکڑوں قیمتی جڑی بوٹیاں جل کر خاکستر ہوگئیں

    کوہلو اور بارکھان کے سنگم پر واقع کوہ جاندران میں آگ لگنے سے سیکڑوں درخت و قیمتی جڑی بوٹیاں جل کر خاکستر ہوگئیں۔

    تفصیلات کے مطابق بارکھان میں پہاڑی سلسلے کوہ جاندران کے جنگلات میں لگی آگ شدت اختیار کرگئی، دشوار گزار علاقہ ہونے کی وجہ سے آگ پرتاحال قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔

    ذرائع کے مطابق کوہ جاندران میں آگ ہفتے کی دوپہر لگی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے سیکڑوں درخت اور قیمتی ونایاب جڑی بوٹیوں کو اپنی لپیٹ میں لیا، آگ کئی کلو میٹر تک ملحقہ علاقے میں پھیل گئی ہے۔

    وزیراعلیٰ بلوچستان نے محکمہ پی ڈی ایم اے کو فوری طور پر آگ بجھانے کیلئے امدادی کارروائیاں شروع کرنے کی ہدایت کی ہے۔

    دوسری جانب ڈی جی پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے ڈپٹی کشمنر بارکھان کی درخواست پر بارہ کور سے ہیلی کاپٹر مانگ لیا ہے، ہیلی کاپٹر میں بامبی بکٹ نصب کر کے آگ پر قابو پانے کی کوشش کی جائے گی۔

    پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ کوہ جاندران سطح سمندر سے چھ ہزار سات سو فٹ بلندی پر واقع دشوار گزار پہاڑی سلسلہ ہے، آگ کو مزید پھیلنے سے روکنے کیلئے اقدامات کیے جارہے ہیں۔

  • ہاتھی کے کانوں والا پودا

    ہاتھی کے کانوں والا پودا

    یہ پودا آپ نے بھی اکثر بڑی کیاریوں، دفاتر اور گھروں کے اندر اور باہر بڑے بڑے گملوں‌ اور کشادہ جگہ پر رکھا ہوا دیکھا ہو گا۔ اسے عموماً خوب صورتی اور سجاوٹ کی غرض سے رکھا جاتا ہے۔ عام طور پر اسے Elephant Ear Plant کہتے ہیں۔

    اس پودے کے بڑے بڑے پتّوں‌ پر شبنم یا بارش کے قطرے ٹھہر جاتے ہیں اور بہت خوب صورت منظر پیش کرتے ہیں۔ سبز کے علاوہ بھی اس پودے کے مختلف رنگ ہوتے ہیں۔ اس کے صاف اور سبز رنگ کے چمکتے ہوئے پتّے دیکھ کر خوش گوار احساس پیدا ہوتا ہے۔

    سائنسی دنیا میں‌ اس کا نام Colocasia ہے۔ ماہرینِ نباتات کے مطابق دنیا میں‌ اس پودے کی 3000 سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں۔

    یہ برّاعظم ایشیا کے جنوب مشرقی ممالک جن میں انڈونیشیا، ملائیشیا ویت نام، لاؤس، جاپان وغیرہ شامل ہیں، ان کے ٹراپیکل (Tropical) خطّے میں پایا جاتا ہے۔ یاد رہے دنیا کے نقشے پر ٹراپیکل سے مراد وہ علاقے ہیں جہاں تقریباً سارا سال بارش ہوتی ہے اور موسم گرم رہتا ہے۔ آج بڑے اور پھیلے ہوئے پتّوں والا یہ پودا پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر میں‌ دیکھا جاسکتا ہے۔

    یہ پودا کیوں اتنا عام ہے؟
    اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بہت آسانی سے جڑ پکڑ لیتا ہے اور تیزی سے نشوونما پاتا ہے جس کے بعد خوب صورت اور بڑے پتّے دیکھنے والوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔ یہ موسم کی سختیاں برداشت کرلیتا ہے اور مٹّی کا بھی عادی ہوتا ہے۔ اسے پودوں‌ کے لیے ضروری مٹّی اور باقاعدہ پانی کافی ہوتا ہے البتہ زرخیز زمین اور سازگار ماحول میں‌ اس پودے میں‌ جان پڑ جاتی ہے۔ اس کے بڑے اور خراب ہو جانے والے پتّوں کو الگ کردیا جائے تو نئے پتّوں کو اگنے کا موقع ملتا ہے۔ اس کا تنا بلندی کی طرف بڑھتا ہے جس سے نکلنے والی شاخوں‌ پر یہ خوب صورت پتّے موجود ہوتے ہیں۔

    کیا یہ پودا اور اس کے پتّے زہریلے ہوتے ہیں؟
    جی ہاں۔ اس کے پتّے کافی زہریلے ہیں اور اس کی وجہ ان میں موجود کیلشیم آکسیلیٹ کیمیکل ہے۔ اس پودے کے تنے اور پتّوں میں یہ کیمیکل لمبی لمبی نہ نظر آنے والی سوئیوں (Needle Like Crystals) کی طرح ہر جگہ موجود ہے۔ جب کوئی جانور یا انسان اس پودے کے پتّوں کو چھوتا یا کھاتا ہے تو یہ کیمیکل جلد میں گھس جاتا ہے اور سوجن پیدا کرتا ہے۔ اگر منہ میں چلا جائے تو ہونٹ اور حلق سوج جاتے ہیں‌ اور سانس لینا یا نگلنا دشوار ہوجاتا ہے۔

    کیا یہ انسانوں‌ کے لیے کسی طرح‌ مفید ہے؟
    یہ پودا ہماری فضا کو آکسیجن فراہم کرتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس سے سالن اور پکوڑے بھی بنتے ہیں۔ جی ہاں! اس پودے کے تنے اور پتّوں میں سے کیلشیئم آکسیلیٹ نکال کر انہیں کھایا جاتا ہے۔ اس زہریلے کیمیکل کو نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ پتّے کا چھلکا اور اس کی نسیں (Veins) کاٹی جاتی ہیں، پتّوں کو ٹھنڈے پانی میں تھوڑی دیر بھگویا جاتا ہے۔ اس کے بعد ابال کے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے تنے اسفنج کی طرح ہوتے ہیں اور زیادہ تر اسے مچھلی کے ساتھ پکایا جاتا ہے۔ اس کی جڑ جو آلو کی طرح موٹی ہوتی ہے اسے آلو ہی کی طرح کاٹ کر تلا جاتا ہے یا سالن میں ڈال کر پکایا جاتا ہے۔

    بہت سے ممالک میں اس کی جڑ سے میٹھی ڈش(Desert) بنتی ہے جو بہت لذیذ ہوتی ہے۔ اس کے پتّوں میں وٹامن سی، بی1، اور بی 2 شامل ہیں جب کہ جڑ میں امینو ایسڈ اور نشاستہ موجود ہوتے ہیں۔ یہ جسم کے پٹھے مضبوط کرتے اور جسم کو فربہ بناتے ہیں۔

    اس پودے سے لوگ لاکھوں روپے کماتے ہیں، کیوں‌ کہ ان کی بعض اقسام بہت مشکل سے دست یاب ہوتی ہیں اور یہ منہگے داموں فروخت کی جاتی ہیں۔

    اس پودے کو گھروں میں لگائیں تو بچّوں کو اس سے دور رکھیں اور اگر کھائیں تو اس کی سب سے محفوظ چیز یعنی جڑ کھائیں۔

  • بابچی یا باکوچی: وہ پودا جس کا بیج متعدد بیماریوں سے نجات دلا سکتا ہے‌ ‌

    بابچی یا باکوچی: وہ پودا جس کا بیج متعدد بیماریوں سے نجات دلا سکتا ہے‌ ‌

    چین اور ہندوستان میں‌ صدیوں‌ سے مختلف جسمانی تکالیف اور امراض کے علاج میں بابچی (Psoralea corylifolia) کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

    یہ پودا ہندوستان، سری لنکا میں پتھریلی زمین، کھیت کی باڑوں اور کھنڈرات میں پایا جاتا ہے اور امریکا میں بھی پیدا ہوتا ہے۔

    بابچی کو باکوچی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا پودا 3 فٹ یا اس سے زیادہ اونچا ہوسکتا ہے۔ اس کے پتّے سبز رنگ کے اور چوڑے ہوتے ہیں اور ہر پتّے کی جڑ میں شہتوت سے ملتا جلتا ایک خوشہ ہوتا ہے۔ اس میں چھوٹے چھوٹے سفید اور گلابی رنگ کے پھول ہوتے ہیں۔ اس کے بیج بادامی رنگ کے سیاہی مائل ہوتے ہیں۔ یہ نہایت سخت ہوتے ہیں۔ ان کا ذائقہ تلخ ہوتا ہے۔ ان پر ایک چپکنے والی رطوبت ہوتی ہے اور یہ بیج ہی دوا کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔

    بابچی کے بیجوں کا سفوف برص کی بیماری کے علاج میں مفید بتایا جاتا ہے۔ اس کے بیج سانپ، بچھو کے کاٹنے اور جلدی بیماریوں کے علاج میں‌ استعمال کیے جاتے ہیں۔

    حکیم اسے خون صاف کرنے، معدہ کی درستی اور طاقت، پیٹ کے کیڑوں کے خاتمے اور بلغم دور کرنے کے لیے مفید بتاتے ہیں۔