Tag: جگر مراد آبادی

  • جگر مراد آبادی: اردو کے مقبول ترین شاعر اور ایک رندِ بلا نوش کا تذکرہ

    جگر مراد آبادی: اردو کے مقبول ترین شاعر اور ایک رندِ بلا نوش کا تذکرہ

    جگر مراد آبادی کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    دل میں کسی کے راہ کیے جا رہا ہوں میں
    کتنا حسیں گناہ کیے جا رہا ہوں میں

    عشق جب تک نہ کرچکے رسوا
    آدمی کام کا نہیں ہوتا

    جگر آزاد طبیعت کے مالک اور حُسن پرست تھے۔ ان کا شمار اردو کے مقبول ترین شعرا میں ہوتا ہے۔ جگر کو اپنے عہد وہ شہرت اور مقبولیت ملی جو بہت کم شاعروں کو نصیب ہوئی۔ اس میں ان کی رنگا رنگ شخصیت کے ساتھ ان کے رنگِ تغزّل اور ترنم کا بڑا دخل ہے۔ کئی شعرا نے جگر کا طرزِ شاعری اپنانے اور ان کے ترنّم کی نقل کرنے کی کوشش کی، لیکن اس مقام و مرتبے کو نہ پہنچ سکے جو جگر کا خاصّہ تھا۔

    جگر مراد آبادی کا اصل نام علی سکندر تھا۔ 6 اپریل 1890ء کو مراد آباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر اور مقامی مکتب میں ہوئی، جہاں اردو اور فارسی کے علاوہ عربی بھی سیکھی۔ رسمی تعلیم میں دھیان نہ تھا، سو اسے ادھورا چھوڑ دیا۔ شاعری ورثے میں ملی تھی، کیوں کہ ان کے والد اور چچا شاعر تھے۔ جگر نے اصغر گونڈوی کی صحبت اختیار کی اور بعد میں شعروسخن کی دنیا میں نام و مقام بنایا۔

    آج اردو کے اس نام وَر شاعر کا یومِ وفات ہے۔ 1960ء میں آج ہی کے دن جگر مراد آبادی دنیا چھوڑ گئے تھے۔

    جگر رندِ بلانوش تھے۔ ان کی زندگی اور شخصیت کے بعض پہلو ایسے بھی ہیں جنھیں بیان کرنا مناسب نہیں۔ تاہم جگر بہت مخلص، صاف گو اور ہمدرد انسان تھے۔ آخر عمر میں ترکِ مے نوشی کا انھیں خاص فائدہ نہ ہوا اور صحّت بگڑتی چلی گئی، مالی حالات دگرگوں ہوگئے اور جگر موت کے قریب ہوتے چلے گئے۔

    جگر مراد آبادی پاک و ہند کے مشاعروں کی جان ہوا کرتے تھے۔ انھیں دعوت دے کر بلایا جاتا اور منتظمین ان کی ناز برداری کرتے۔ جگر سامعین سے بے پناہ داد وصول کرتے۔ ان کے متعدد اشعار زبان زدِ عام ہوئے۔

    ’آتش گل‘، ’داغِ جگر‘ اور ’شعلۂ طور‘ ان کے مشہور شعری مجموعے ہیں۔ ان کی ایک غزل آپ کے ذوق کی نذر ہے۔

    ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دَم نہیں
    ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

    بے فائدہ الم نہیں بے کار غم نہیں
    توفیق دے خدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں

    میری زباں پہ شکوۂ اہلِ ستم نہیں
    مجھ کو جگا دیا یہی احسان کم نہیں

    یا رب ہجومِ درد کو دے اور وسعتیں
    دامن تو کیا ابھی مری آنکھیں بھی نم نہیں

    شکوہ تو ایک چھیڑ ہے لیکن حقیقتاً
    تیرا ستم بھی تیری عنایت سے کم نہیں

    ملتا ہے کیوں مزہ ستمِ روزگار میں
    تیرا کرم بھی خود جو شریکِ ستم نہیں

    مرگِ جگرؔ پہ کیوں تری آنکھیں ہیں اشک ریز
    اک سانحہ سہی مگر اتنا اہم نہیں

  • بُوئے کباب، بلبل کا دل اور جگرؔ

    بُوئے کباب، بلبل کا دل اور جگرؔ

    کسی مشاعرے میں ایک استاد اٹھے اور انھوں نے طرح کا ایک مصرع دیا۔

    ’’چمن سے آرہی ہے بوئے کباب‘‘

    بڑے بڑے شاعروں نے طبع آزمائی کی، لیکن کوئی کمال گرہ نہ لگا سکا۔ ان میں سے ایک شاعر نے قسم کھالی کہ جب تک گرہ نہ لگائیں گے، چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ اس کا طریقہ انھوں نے یہ نکالا کہ ہر صبح دریا کے کنارے چلے جاتے اور وہاں بیٹھ کر اونچی آواز سے الاپتے،’’چمن سے آرہی ہے بوئے کباب‘‘

    ایک روز وہ دریا کنارے اسی مصرع میں الجھے ہوئے بیٹھے تھے۔ قریب سے ایک نوعمر لڑکا گزر رہا تھا جس کے کان میں یہ مصرع پڑا۔ اس لڑکے نے فوراً گرہ لگائی:

    ’’کسی بلبل کا دل جلا ہوگا‘‘

    شاعر نے پلٹ کر دیکھا اور ان سے رہا نہ گیا، دوڑے اور اس لڑکے کو سینے سے لگالیا۔ معلوم ہوا اس کا نام علی سکندر ہے۔ یہی لڑکا بعد میں جہانِ سخن میں اپنے تخلّص، جگر سے مشہور ہوا۔ جگر نے اپنے تخلّص میں آبائی علاقے کی نسبت مراد آبادی کا اضافہ کیا اور جگر مراد آبادی کے نام سے استاد شاعر مشہور ہوئے۔

    (ادیبوں اور شعرا کے مشہور لطائف اور تذکروں سے انتخاب)

  • "صدر” کا حکم

    "صدر” کا حکم

    مشہور شاعر اور فلم کے لیے لازوال گیت تخلیق کرنے والے شکیل بدایونی جگر مراد آبادی کے شاگرد تھے۔

    ایک مرتبہ راندیر (سورت، انڈیا) میں شکیل بدایونی کی صدارت میں مشاعرہ منعقد ہوا جس میں جگر مراد آبادی بھی تشریف لائے۔ مشاعرہ شروع ہونے سے پہلے شکیل بدایونی نے مائک پر کہا:

    ’’چونکہ جگر صاحب میرے بزرگ ہیں اس لیے میں اس مشاعرے کی صدارت کرنے کی گستاخی نہیں کر سکتا۔‘‘

    جگر صاحب نے مائک ہاتھ میں لیا اور کہا:

    ’’اگر شکیل مجھے اپنا بزرگ تسلیم کرتے ہیں تو بحیثیت بزرگ میں انہیں حکم دیتا ہوں کہ وہ مشاعرے کی صدارت کریں۔‘‘

    وہ دور بڑی محبت، رواداری، بزرگوں کی عزت اور تکریم کرنے والا دور تھا۔ جگر صاحب کی بات سن کر شکیل بدایونی کچھ نہ کہہ سکے اور ان کی صدارت میں مشاعرہ شروع ہوا۔

    تمام شاعر کلام پڑھ چکے اور صرف دو یعنی جگر صاحب اور شکیل بدایونی کلام سنانے سے رہ گئے تو شکیل بدایونی مائک پر اپنا کلام سنانے آ گئے تاکہ جگر صاحب سب سے آخر میں کلام سنائیں۔

    یہ مشاعروں کی روایت رہی ہے کہ صدرِ محفل سب سے آخر میں‌ کلام سناتے ہیں۔

    لیکن شکیل بدایوںی کے ساتھ ہی جگر صاحب بھی اٹھ کر آگے آ گئے اور کہنے لگے:

    ’’آپ صدر ہیں آپ سب سے آخر میں اپنا کلام سنائیے گا۔‘‘

    اس پر شکیل برجستہ بولے: ’’جگر صاحب اگر آپ مجھے صدر مانتے ہیں تو میں بحیثیت صدر میرا حکم ہے کہ آپ سب سے آخر میں کلام سنائیں گے۔‘‘

    محفل میں قہقہے بلند ہوئے اور جگر صاحب کو شکیل بدایونی کی بات ماننی پڑی۔

  • خیامُ الہند کی شاعری جگر کے قدموں میں

    خیامُ الہند کی شاعری جگر کے قدموں میں

    ایک دور تھا جب شہنشاہ تغزل جگر مراد آبادی اپنے فن اور تخلیقات کی وجہ سے ہندوستان بھر میں پہچانے جاتے تھے۔ انھیں ادبی محافل اور خاص طور پر مشاعروں میں‌ مدعو کیا جاتا اور بڑی تعداد میں سامعین ان کا کلام سننے کے لیے پنڈال میں جمع ہوتے تھے۔

    آج بھی جگر کا نام اور ان کا کلام ہمارے ذوق کی تسکین کرتا ہے اور جگر کے فن اور ان کی شاعرانہ عظمت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔

    یہ ادبی تذکرہ جگر مراد آبادی کی فنی عظمت اور شعروسخن میں ان کے کمال کی ایک مثال ہے۔

    کہتے ہیں ہندوستان میں ایک مشاعرہ تھا جس میں جگر بھی مدعو تھے۔شعرا کو ردیف "دل بنا دیا” کے ساتھ اپنے تخیل کو باندھنا تھا۔

    سب سے پہلے حیدر دہلوی نے اس ردیف میں اپنا شعر پیش کیا:

    اک دل پہ ختم قدرتِ تخلیق ہوگئی
    سب کچھ بنا دیا جو مِرا دل بنا دیا

    اس شعر پر ایسا شور مچا کہ بس، لوگوں نے سوچا کہ اس سے بہتر کون گرہ لگا سکے گا؟

    لیکن پاک و ہند کے مشہور شاعر جگر مراد آبادی نے ایک گرہ ایسی لگائی کہ سب کے ذہن سے حیدر دہلوی کا شعر محو ہو گیا۔ جگر کا شعر تھا:

    بے تابیاں سمیٹ کر سارے جہان کی
    جب کچھ نہ بَن سکا تو مِرا دل بنا دیا

    حیدر دہلوی اپنے وقت کے استاد تھے اور خیامُ الہند کہلاتے تھے۔ جگر کا کلام سنتے ہی گویا سکتے کی کیفیت میں آگئے، جگر کو گلے سے لگایا، ان کے ہاتھ چومے اور وہ صفحات جن پر ان کی شاعری درج تھی جگر کے پیروں میں ڈال دیے۔

  • مشہور شاعر جسے ایک نام وَر صحافی نے لاجواب کر دیا!

    مشہور شاعر جسے ایک نام وَر صحافی نے لاجواب کر دیا!

    علم وادب کی دنیا میں شخصیات کے مابین رنجش، تنازع کے بعد حسد اور انتقام جیسے جذبات سے مغلوب ہوکر دوسرے کی توہین کرنے کا موقع تلاش کرنے کے علاوہ معاصرانہ چشمک بھی رہی ہے جن کا تذکرہ ادبی کتب میں ملتا ہے جب کہ بعض واقعات کا کوئی حوالہ اور سند نہیں، لیکن وہ بہت مشہور ہیں۔

    یہاں ہم نام ور صحافی اور اپنے دور کی ایک قابل شخصیت جمیل مہدی اور اردو کے عظیم شاعر جگر مراد
    آبادی کا ایک واقعہ نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    مرحوم جمیل مہدی کو استاد شعرا کا بہت سا کلام گویا ازبر تھا۔ ان کے سامنے کوئی شاعر جب اپنا شعر پیش کرتا تو وہ اسی مضمون میں استاد یا کسی مقبول شاعر کے کلام سے کوئی شعر سنا دیتے اور کہتے کہ یہ بات تو آپ سے پہلے فلاں شاعر کہہ گیا ہے، اس لیے اس میں کوئی خوبی اور انفرادیت نہیں ہے۔

    اس طرح وہ شعرا کو شرمندہ کرتے اور ان کی یہ عادت بہت پختہ ہوچکی تھی۔ اکثر شاعر اپنا سے منہ لے کر رہ جاتے اور دوبارہ انھیں اپنا کلام سنانے میں بہت احتیاط کرتے۔

    یہ سلسلہ وہ نوآموز، غیر معروف اور عام شعرا تک محدود رکھتے تو ٹھیک تھا، لیکن ایک بار انھوں نے جگر صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔

    ایک محفل میں جگر مراد آبادی نے انھیں اپنا یہ شعر سنایا۔

    آ جاؤ کہ اب خلوتِ غم خلوتِ غم ہے
    اب دل کے دھڑکنے کی بھی آواز نہیں ہے

    جمیل مہدی صاحب نے حاضرین کی پروا کیے بغیر جگر صاحب کو ٹوک دیا اور یہ شعر سنایا۔

    ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
    اب تو آ جا، اب تو خلوت ہو گئی

    شعر سنا کر جگر صاحب سے مخاطب ہو کر بولے، حضرت آپ سے بہت پہلے خواجہ عزیز الحسن مجذوب یہی بات نہایت خوبی اور نزاکت سے کہہ چکے ہیں۔

  • ”یہ الفاظ تجھے کس نے سکھائے؟“

    ”یہ الفاظ تجھے کس نے سکھائے؟“

    سید بدرِ عالم بھی بابائے اردو کے ایک رتن تھے، ان کے خادمِ خاص۔ بابائے اردو کی طرح انھوں نے بھی گھر بار کا جنجال نہیں پالا تھا۔

    خواجہ صاحب کے بہ قول ان کے دو شوق تھے۔ اخباروں سے فلم ایکٹریسوں کی تصویریں کاٹ کر ایک رجسٹر میں چپکانا اور اگر کوئی شخص گفتگو میں کوئی نیا لفظ استعمال کرے تو اسے یاد کر لینا اور اپنی گفتگو میں استعمال کرنا۔

    ایک دن ان کی موجودگی میں کسی صاحب نے ہیچ و پوچ، کے الفاظ استعمال کیے۔

    سید صاحب کو یہ الفاظ بڑے بھلے معلوم ہوئے اور انھوں نے یاد کرلیے، استعمال کے منتظر رہے۔

    اتفاق یہ کہ دو تین دن کے بعد جگر صاحب انجمن آئے۔ کراچی آئے ہوئے تھے تو مولوی صاحب سے ملنے آگئے۔

    مولوی صاحب نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ جگر صاحب اطمینان سے بیٹھے تو شعر خوانی کا آغاز ہوا۔ جگر صاحب کا لحن اور کلام کی رعنائی، سید صاحب مسحور ہوگئے۔ بے اختیار ہو کر بولے:

    ”ایسا ہیچ و پوچ کلام تو آج تک نہیں سنا۔“

    جگر صاحب سناٹے میں آگئے۔ مولوی صاحب نے ڈانٹا، ”کیا بکتا ہے۔“

    مگر سید صاحب بھی اپنی وضع کے ایک ہی تھے، کہنے لگے، ”چاہے مار ڈالو، مگر کلام بڑا ہیچ و پوچ ہے۔“

    مولوی صاحب نے چھڑی سنبھالی، مگر کچھ سوچ کر ٹھیرے۔ پوچھا، ”کچھ سمجھتا بھی ہے، کیا بک رہا ہے؟“

    سید صاحب نے کہا۔ ”سمجھتا کیوں نہیں۔ بڑا اعلیٰ درجے کا کلام ہے۔“

    مولوی صاحب ہنس پڑے، پوچھا، ”یہ الفاظ تجھے کس نے سکھائے؟“

    سید صاحب نے بتایا فلاں صاحب اس دن آئے تھے، انھوں نے یہ الفاظ کہے تھے، مجھے اچھے لگے، میں نے یاد کرلیے۔

    جگر صاحب یہ سُن کر مسکرائے اور سید صاحب کی گلو خلاصی ہوئی۔

    (ڈاکٹر اسلم فرخی کی تحریر سے اقتباس)