Tag: جگن ناتھ آزاد

  • انقلابی شاعر علی سردار جعفری کا آزاد کے نام خط

    انقلابی شاعر علی سردار جعفری کا آزاد کے نام خط

    ایک زمانہ تھا جب ہر خاص و عام خطوط میں سلام و پیام، اپنا مدعا، غرض اور حال احوال دور دراز بسنے والے اپنے عزیز و اقارب اور احباب تک پہنچاتے تھے۔

    خط نویسی اور پیغام رسانی کا یہ طور اردو ادب میں مکتوب نگاری کے طور پر یوں اپنایا گیا کہ اسے خاص اہمیت اور مشاہیر و اہم تخلیق کاروں کے خطوط کو ایک دستاویز کا درجہ حاصل ہو گیا، اردو ادب میں اپنے وقت کے نام ور ادیب، شعرا اور علم و فنون سے وابستہ شخصیات کے خطوط مشہور ہوئے۔ پیشِ نظر خط ہندوستان کے مشہور انقلابی شاعر اور ترقی پسند ادیب علی سردار جعفری کا ہے جو انھوں نے معروف شاعر اور تخلیق کار پروفیسر جگن ناتھ آزاد کے نام تحریر کیا تھا۔ اس خط کی خاص بات علی سردار جعفری کی جانب سے فیض احمد فیض کے ایک انٹرویو کا حوالہ ہے جو باذوق اور ادب شناس قارئین کی دل چسپی کا باعث ہو گا۔

    برادرم آزاد تسلیم
    13 ستمبر، 1984

    ایک عرصے سے آپ کی خیریت معلوم نہیں ہوئی۔ اب شاید ملاقات کی صورت پیدا ہوئی ہے۔ 23 ستمبر کو جالندھر میں ٹیلی ویژن کا ایک مشاعرہ ہے۔ میں شریک ہورہا ہوں۔ یقین ہے کہ آپ بھی مدعو ہوں گے۔

    وہاں سے میں آٹھ دس دن کے لیے جموں آنا چاہتا ہوں۔ وسط اکتوبر میں دہلی یونیورسٹی میں نظام خطبات پیش کرنے ہیں، لیکن ابھی تک ایک خطبہ بھی مکمل نہیں کرسکا۔ وجہ یہ ہے کہ بمبئی میں مکروہات بہت زیادہ ہیں۔ اگر یونیورسٹی کے مہمان خانے میں آٹھ دس دن کے لیے ایک کمرہ مل جائے تو وہاں بیٹھ کر خطبات لکھ لوں گا۔ 11 اکتوبر کو سری نگر میں کشمیر یونیورسٹی کی طرف سے بھی مشاعرہ ہے۔ اس میں بھی شریک ہونا ہے۔

    میں نے اپنی منظوم آپ بیتی نومبر میرا گہوارہ کے کچھ اور حصے لکھے ہیں۔ جموں کی آب و ہوا راس آئی تو شاید کچھ اور تخلیق ہوجائے۔ آپ تو اس زمانے میں وہاں ہوں گے۔ ملاقات ہوتی رہے گی۔

    میں نے یونیورسٹی کے مہمان خانے میں کمرہ کے لیے وائس چانسلر صاحب کو خط نہیں لکھا ہے۔ آپ میری طرف سے بات کرکے انتظام کر دیجیے اور مجھے تار کے ذریعے سے اطلاع دے دیجیے کہ انتظام ہوگیا۔ میں 19 ستمبر تک بمبئی میں رہوں گا۔ 20 کو دہلی پہنچ جاؤں گا اور دوگل کے گھر قیام کروں گا۔ 22 کی شام تک جالندھر۔ مشاعرہ 23 کو ہے۔ اس کے معنی ہیں کہ آپ 24 سے31 ستمبر تک کے لیے کمرے کا انتظام کردیجیے۔

    کراچی سے صہبا لکھنوی کا پیام آیا ہے۔ ”افکار” کے سردار جعفری نمبر کے لیے یہاں کے مضامین مانگ رہے ہیں۔ کچھ چیزیں ان کے پاس پہنچ گئی ہیں، مثلاً ڈاکٹر وحید اختر کا مضمون۔ آپ کا مضمون اب تک نہیں ملا ہے۔ آپ نے شاید کوئی مضمون میرے جموں کے قیام پر لکھا ہے سہیل کے لیے۔ اگر آپ نیا مضمون نہ لکھیں تو وہ پاکستان میں بھی شایع ہوسکتا ہے۔

    کشمیر کے کوئی نصرت چودھری ہیں، ان کا ایک انٹرویو جو انہوں نے فیض سے لیا ہے کتاب نما کے تازہ شمارہ میں شایع ہوا ہے۔ انہوں نے ایک سوال یہ بھی کیا کہ ”سردار جعفری کی آج کی شاعری پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ آ پ کے رنگ میں شاعری کررہے ہیں۔ ”فیض نے اپنے انداز میں اس کی تصدیق بھی کی اور یہ بھی اشارہ کردیا کہ آج کے دور میں سب شعرا انہی کے رنگ میں شاعری کررہے ہیں۔ انٹرویو پڑھ کر جی خوش ہوا۔سوچا کہ اس مسرت میں آپ کو بھی شریک کرلوں۔

    امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے ۔

    آپ کا
    سردار جعفری

    پس نوشت: پوری صاحب سے میرا سلام کہیے گا۔ شعبہ اردو کے تمام احباب کو بھی آداب۔ کالرا صاحب کا عید کارڈ آیا تھا اس کا شکریہ اب تک ادا نہیں کیا۔ اب آؤں گا تو ذاتی طور سے شکریہ ادا کردوں گا۔

  • بیدی کی شگفتہ بیانی

    بیدی کی شگفتہ بیانی

    اردو کے مختلف ادیبوں اور مشہور شعرا کے حالاتِ زندگی کے ساتھ ہمیں‌ ادبی تذکروں‌ میں ان کی ادبی مجالس اور نشستوں کا احوال بھی پڑھنے کو ملتا ہے، اور روداد نویسوں نے ان ادبی شخصیات سے متعلق مختلف سنجیدہ اور بعض دل چسپ واقعات بھی رقم کیے ہیں۔

    ہم اکثر ادبی تذکروں‌ میں مشہور شعرا سے متعلق لطائف پڑھتے رہتے ہیں جو ان کی شگفتہ مزاجی، بذلہ سنجی اور ظرافت کے ساتھ ان کی علمیت اور حاضر دماغی کا ثبوت ہیں۔

    کنور مہندر سنگھ بیدی جن کا تخلص سحر تھا، ہندوستان کے مشہور شعرا میں سے ایک ہیں۔ ایک مشاعرے میں‌ ان کی نظامت سے متعلق تذکرہ کچھ یوں‌ کیا گیا ہے۔ چیمسفورڈ کلب میں‌ منعقدہ مشاعرہ میں سینئر اور مشہور شعرائے کرام مدعو تھے اور نظامت کے فرائض بیدی صاحب انجام دے رہے تھے۔

    ایک شاعر اپنا کلام سنا چکے تو کنور صاحب نے عرش ملسیانی کو دعوت دی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھے اور مائیک اٹھانے کے لیے بڑھے تو بیدی صاحب کی آواز شرکا اور سامعین کی سماعتوں سے ٹکرائی۔ انھوں نے مدعو شاعر کے نام کی رعایت سے شعر پڑھ دیا اور داد سمیٹی۔ شعر یہ تھا۔

    عرش کو فرش پر بٹھاتا ہوں
    معجزہ آپ کو دکھاتا ہوں

    اسی مشاعرے کے دوران ایک اور شاعر کو دعوتِ کلام دینے پہلے سامعین سے مخاطب ہوئے اور شاعر کا تعارف کچھ اس طرح‌ کروایا۔

    کیا ستم ظریفی ہے کہ اب میں ایک ایسے شاعر کو مدعو کررہا ہوں جو ہر طرف سے گھرا ہوا ہے اور قافیہ ردیف کا بھی پابند ہے۔ اس پر ستم یہ کہ سرکاری ملازم بھی ہے اور تخلص ہے ’آزاد۔‘ اس پر معروف شاعر جگن ناتھ آزاد مسکرائے، اپنی نشست سے اٹھے اور کلام پیش کرنے کے لیے مائیک تھام لیا۔

  • چائے میں چینی اور کیمرے سے تصویر!

    چائے میں چینی اور کیمرے سے تصویر!

    جگن ناتھ آزاد کو ادبی دنیا ایک خوب صورت شاعر اور نثر نگار کے ساتھ ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے جانتی ہے۔ ان سے متعلق دو شگفتہ واقعات آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہیں۔

    ایک مرتبہ جگن ناتھ آزاد اٹلانٹا گئے جہاں ایک جاننے والے نے انھیں اپنے گھر دعوت پر بلالیا۔

    میزبان نے گپ شپ کے دوران ان کی طرف چائے بڑھانے سے پہلے پوچھا کہ آزاد صاحب چینی کتنی لیں گے؟

    انھوں نے جواب دیا: ’’اپنے گھر تو ایک ہی چمچ لیتا ہوں، لیکن باہر چائے پینے پر دو، تین چمچ سے کم چینی نہیں لیتا۔‘‘

    یہ سن کر میزبان نے چائے کی پیالی میں ایک چمچ چینی ڈالی اور ان کی طرف بڑھاتے ہوئے ظرافت سے کہا:

    ’’آزاد صاحب! اسے اپنا ہی گھر سمجھیے۔‘‘

    اسی طرح یہ واقعہ بھی ادبی دنیا میں بہت مشہور ہے کہ اٹلانٹا ہی میں جگن ناتھ آزاد، محسن بھوپالی اور حمایت علی شاعر ایک روز اسٹون فائونڈیشن دیکھنے نکلے، اور جب حمایت علی شاعر وہاں کی سیر کے وہ لمحات کیمرے میں قید کرنے لگے تو کچھ سوچ کر اپنے ساتھیوں سے بولے۔

    کیمرہ تصویر تو لے لے گا، لیکن ہے ذرا پرانا۔

    آزاد نے اس پر برجستہ کہا:

    ’’ہمیں کون سا خریدنا ہے۔‘‘