Tag: جھنگ

  • آلو سے بھرا ٹرک اور کار حادثے کا شکار، 2 افراد جاں بحق

    آلو سے بھرا ٹرک اور کار حادثے کا شکار، 2 افراد جاں بحق

    جھنگ میں بائی پاس پر آلو سے بھرا ٹرک کار پر الٹ گیا اس افسوسناک حادثے میں دو افراد جاں بحق ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق جھنگ میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے جہاں ایک لوٖڈ ٹرک کار پر الٹ گیا جس کے نیتجے میں 2 افراد اپنی جان کی بازی ہار گئے۔

    ریسکیو حکام کے مطابق حادثہ تیز رفتاری کے باعث پیش آیا، جس کے نتیجے میں ٹرک ڈرائیور سے ٹرک بے قابو ہو کر کار پر الٹ گیا۔

    دوسری جانب گھوٹکی میں ایم فائیو موٹر وے پر مسافر کوچ الٹ گئی اس حادثے میں تین افراد جاں بحق اور پندرہ زخمی ہوگئے۔

    پولیس حکام کے مطابق افسوسناک حادثہ قاضی واہ نہر کے قریب پیش آیا، زخمیوں میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں، جنہیں اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔

     پولیس نے بتایا کہ حادثہ ڈرائیور کو نیند آنے کے باعث پیش آیا، کوچ پنچاب سے کراچی آرہی تھی۔

    https://urdu.arynews.tv/sukhiki-interchange-husband-wife-die-in-accident/

  • جھنگ سے آکسفورڈ پہنچنے والا غریب طالب علم

    جھنگ سے آکسفورڈ پہنچنے والا غریب طالب علم

    آکسفورڈ: جھنگ شہر کے پس ماندہ علاقے کنڈل کھوکھرا کے غربت میں گھرے گھر میں پیدا ہونے والا جابر علی دنیا کی اعلیٰ ترین علمی درس گاہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں پہنچ گیا۔

    والد کی مزدوری اور والدہ کے زیورات فروخت کر کے جھنگ میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے والے جابر علی نے ایگریکلچر یونیورسٹی فیصل آباد سے اپنی محنت اور قابلیت کے بل بوتے پر گریجویشن اور ماسٹرز ڈگری حاصل کی، جس کے بعد انھیں دو مرتبہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ تو مل گیا لیکن مالی معاونت نہ ملنے کی وجہ سے وہ آکسفورڈ نہیں پہنچ پائے۔

    اس دوران آکسفورڈ یونیورسٹی پروگرام ان کی مدد کو پہنچی اور تیسری کوشش میں داخلے کے ساتھ ساتھ مالی معاونت بھی مل گئی، اس طرح ایک نہایت پس ماندہ گھر کا ہونہار نوجوان اپنے روشن مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے دنیائے علم کی عظیم درس گاہ آکسفورڈ یونیورسٹی تک پہنچ گیا۔

    جابر علی کا کہنا تھا کہ آکسفورڈ پاکستان پروگرام نے انھیں میرٹ پر اعلیٰ ترین اسکالر شپ دے کر ان کے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے میں بڑی مدد فراہم کی ہے۔

    جابر کا کہنا ہے کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کر کے ملک و قوم کا نام روشن کرنا چاہتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے تعلیمی نظام میں بنیادی تبدیلیوں کے لیے بھی مدد کرنا چاہتے ہیں، جن کی وجہ سے قابلیت اور صلاحیت ہونے کے باوجود مالی وسائل اعلیٰ تعلیم کے حصول میں رکاوٹ بنے رہتے ہیں۔

  • سیوریج کے پانی سے سبزیوں کی کاشت کا انکشاف

    سیوریج کے پانی سے سبزیوں کی کاشت کا انکشاف

    جھنگ: پنجاب کے شہر جھنگ میں سیوریج کے پانی سے سبزیوں کی کاشت کا انکشاف ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فوڈ اتھارٹی جھنگ نے سیوریج کے پانی سے سبزیوں کی کاشت کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ایک ایکڑ سے زائد فصل کو تلف کر دیا۔

    ڈی جی فوڈ اتھارٹی کا کہنا تھا کہ تلف کی گئی فصل میں سیوریج کے پانی سے سبزیوں کی کاشت کی جا رہی تھی، یہ سبزیاں منڈی میں سپلائی کی جانی تھیں۔

    ڈی جی فوڈ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ قوانین کی خلاف ورزی پر کاشتکاروں کو سخت وارننگ جاری کی گئی ہے۔

  • پنجاب اور کے پی میں بی آئی ایس پی قسط کی ادائیگی شروع، شدید گرمی میں خواتین بے ہوش، لاٹھی چارج

    پنجاب اور کے پی میں بی آئی ایس پی قسط کی ادائیگی شروع، شدید گرمی میں خواتین بے ہوش، لاٹھی چارج

    چارسدہ/جھنگ: پنجاب اور خیبر پختون خوا میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کی قسط کی ادائیگی شروع ہو گئی، تاہم شدید گرمی میں عدم سہولیات کی وجہ سے خواتین رُل گئی ہیں، چارسدہ میں مصیبت زدہ خواتین پر پولیس نے لاٹھی چارج بھی کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق کے پی کے شہر چارسدہ میں بینک کا سسٹم بند ہونے سے بی آئی ایس پی کی امدادی رقوم وصولی کے لیے آنے والی خواتین رُل گئیں، شدید گرمی اور پینے کے پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے خواتین مشکلات کا شکار رہیں۔

    بابڑہ ہائی اسکول پر خواتین کو منتشر کرنے کے لیے بے رحم اور بے حس پولیس اہل کاروں نے لاٹھی چارج بھی کیا، جس پر ڈی پی او چارسدہ نے نوٹس لیتے ہوئے 2 پولیس اہل کاروں کو معطل کر دیا ہے۔

    ادھر پنجاب کے شہر جھنگ میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ ایک لاکھ 90 ہزار سے زائد خواتین کو قسط کی ادائیگی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، تاہم خواتین کے لیے قائم کیمپوں میں شدید گرمی اور بنیادی سہولیات نہ ہونے سے خواتین شدید مشکلات کا شکار ہیں، اور پہلے ہی روز 3 خواتین بے ہوش ہو گئیں۔

    خواتین کا کہنا ہے کہ کیمپوں میں پینے کا پانی تک نہیں ہے اور انھیں سارا سارا دن شدید گرمی میں دھکے کھانے پڑتے ہیں، خواتین نے مطالبہ کیا ہے کہ شاپس کا پرانا سسٹم بحال کیا جائے تاکہ وہ با عزت طریقے سے بینظیر انکم سپورٹ کی قسط وصول کر سکیں۔

  • علّامہ اقبال کے خاص ملازم علی بخش کی ایک مربع زمین

    علّامہ اقبال کے خاص ملازم علی بخش کی ایک مربع زمین

    ایک روز میں کسی کام سے لاہور گیا ہوا تھا۔ وہاں پر ایک جگہ خواجہ عبدالرّحیم صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ علّامہ اقبال کے دیرینہ اور وفادار ملازم علی بخش کو حکومت نے اس کی خدمات کے سلسلے میں لائل پور میں ایک مربع زمین عطا کی ہے۔

    وہ بچارا کئی چکر لگا چکا ہے، لیکن اسے قبضہ نہیں ملتا، کیوں کہ کچھ شریر لوگ اس پر ناجائز طور پر قابض ہیں۔ خواجہ صاحب نے فرمایا۔” جھنگ لائل پور کے بالکل قریب ہے۔ کیا تم علی بخش کی کچھ مدد نہیں کرسکتے؟”

    میں نے فوراََ جواب دیا، "میں آج ہی اسے اپنی موٹر کار میں جھنگ لے جاؤں گا اور کسی نہ کسی طرح اس کو زمین کا قبضہ دلوا کے چھوڑوں گا۔”

    خواجہ صاحب مجھے "جاوید منزل” لے گئے اور علی بخش سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا۔ "یہ جھنگ کے ڈپٹی کمشنر ہیں۔ تم فوراََ تیار ہو کر ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ جاؤ۔ یہ بہت جلد تمہاری زمین کا قبضہ دلوا دیں گے۔”

    علی بخش کسی قدر ہچکچایا، اور بولا، ” سوچیے تو سہی میں زمین کا قبضہ لینے کے لیے کب تک مارا مارا پھروں گا؟ قبضہ نہیں متا تو کھائے کڑھی۔ لاہور سے جاتا ہوں تو جاوید کا نقصان ہوتا ہے۔ جاوید بھی کیا کہے گا کہ بابا کن جھگڑوں میں پڑ گیا”؟

    لیکن خواجہ صاحب کے اصرار پر وہ میرے ساتھ ایک آدھ روز کے لیے جھنگ چلنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ جب وہ میرے ساتھ کار میں بیٹھ جاتا ہے تو غالباََ اس کے دل میں سب سے بڑا وہم یہ ہے کہ شاید اب میں بھی بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح علّامہ اقبال کی باتیں پوچھ پوچھ کر اس کا سر کھاؤں گا۔ لیکن میں نے بھی عزم کر رکھا ہے کہ میں خود علی بخش سے حضرت علّامہ کے بارے میں کوئی سوال نہیں کروں گا۔ اگر واقعی وہ علی بخش کی زندگی کا ایک جزو ہیں، تو یہ جوہر خودبخود عشق اور مشک کی طرح ظاہر ہو کے رہے گا۔

    میری توقع پوری ہوتی ہے اور تھوڑی سی پریشانی کُن خاموشی کے بعد علی بخش مجھے یوں گھورنے لگتا ہے کہ یہ عجیب شخص ہے جو ڈاکٹر صاحب کی کوئی بات نہیں کرتا۔ آخر اس سے رہا نہ گیا اور ایک سنیما کے سامنے بھیڑ بھاڑ دیکھ کر وہ بڑبڑانے لگا۔ "مسجدوں کے سامنے تو کبھی ایسا رش نظر نہیں آتا۔ ڈاکٹر صاحب بھی یہی کہا کرتے تھے۔”

    ایک جگہ میں پان خریدنے کے لیے رکتا ہوں، تو علی بخش بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے، ڈاکٹر صاحب کو پان پسند نہیں تھے۔”

    پھر شاید میری دلجوئی کے لیے وہ مسکرا کر کہتا ہے۔” ہاں حقّہ خوب پیتے تھے۔ اپنا اپنا شوق ہے پان کا ہو یا حقّہ کا۔”

    شیخو پورہ سے گزرتے ہوئے علی بخش کو یاد آتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک بار یہاں بھی آئے ہیں۔ یہاں پر ایک مسلمان تحصیل دار تھے جو ڈاکٹر صاحب کے پکّے مرید تھے۔ انہوں نے دعوت دی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کو پلاؤ اور سیخ کباب بہت پسند تھے۔ آموں کا بھی بڑا شوق تھا۔ وفات سے کوئی چھے برس پہلے جب ان کا گلا پہلی بار بیٹھا تو کھانا پینا بہت کم ہو گیا۔”

    اب علی بخش کا ذہن بڑی تیزی سے اپنے مرکز کے گرد گھوم رہا ہے۔ اور وہ بڑی سادگی سے ڈاکٹر صاحب کی باتیں سناتا آتا ہے۔ ان باتوں میں قصوں اور کہانیوں کا رنگ نہیں بلکہ ایک نشے کی سی کیفیت ہے۔ جب تک علی بخش کا یہ نشہ پورا نہیں ہوتا، غالباََ اسے ذہنی اور روحانی تسکین نہیں ملتی۔

    "صاحب، جب ڈاکٹر صاحب نے دَم دیا ہے، میں ان کے بالکل قریب تھا، صبح سویرے میں نے انہیں فروٹ سالٹ پلایا اور کہا کہ اب آپ کی طبیعت بحال ہوجائے گی، لیکن عین پانچ بج کر دس منٹ پر ان کی آنکھوں میں ایک تیز تیز نیلی نیلی سی چمک آئی، اور زبان سے اللہ ہی اللہ نکلا۔ میں نے جلدی سے ان کا سَر اٹھا کر اپنے سینے پر رکھ لیا اور انہیں جھنجھوڑنے لگا، لیکن وہ رخصت ہوگئے تھے۔”

    کچھ عرصہ خاموشی طاری رہتی ہے۔ پھر علی بخش کا موڈ بدلنے کے لیے میں بھی اس سے ایک سوال کر ہی بیٹھتا ہوں۔

    "حاجی صاحب کیا آپ کو ڈاکٹر صاحب کے کچھ شعر یاد ہیں”؟

    علی بخش ہنس کر ٹالتا ہے۔ "میں تو ان پڑھ جاہل ہوں۔ مجھے ان باتوں کی بھلا کیا عقل۔”

    "میں نہیں مانتا۔ ” میں نے اصرار کیا، "آپ کو ضرور کچھ یاد ہوگا۔”

    ” کبھی اے حکیکتِ منتجر والا کچھ کچھ یاد ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس کو خود بھی بہت گنگنایا کرتے تھے۔”

    ” ڈاکٹر صاحب عام طور پر مجھے اپنے کمرے کے بالکل نزدیک سُلایا کرتے تھے۔ رات کو دو ڈھائی بجے دبے پاؤں اٹھتے تھے اور وضو کر کے جائے نماز پر جا بیٹھتے تھے۔ نماز پڑھ کر وہ دیر تک سجدے میں پڑے رہتے تھے۔ فارغ ہو کر بستر پر آ لیٹتے تھے۔ میں حقّہ تازہ کر کے لا رکھتا تھا۔ کبھی ایک کبھی دو کش لگاتے تھے۔ کبھی آنکھ لگ جاتی تھی۔ بس صبح تک اسی طرح کروٹیں بدلتے رہتے تھے۔”

    میرا ڈرائیور احتراماََ علی بخش کو سگریٹ پیش کرتا ہے۔ لیکن وہ غالباََ حجاب میں آکر اسے قبول نہیں کرتا۔

    "ڈاکٹر صاحب میں ایک عجیب بات تھی۔ کبھی کبھی رات کو سوتے سوتے انہیں ایک جھٹکا سا لگتا تھا اور وہ مجھے آواز دیتے تھے۔ انہوں نے مجھے ہدایت کر رکھی تھی کہ ایسے موقع پر میں فوراََ ان کی گردن کی پچھلی رگوں اور پٹھوں کو زور زور سے دبایا کروں۔ تھوڑی دیر بعد وہ کہتے تھے بس۔ اور میں دبانا چھوڑ دیتا تھا۔ اسی وجہ سے وہ مجھے اپنے نزدیک سلایا کرتے تھے۔”

    ہر چند میرا دل چاہتا ہے کہ میں علی بخش سے اس واردات کے متعلق کچھ مزید استفسار کروں لیکن میں اس کے ذہنی ربط کو توڑنے سے ڈرتا ہوں۔

    "ڈاکٹر صاحب بڑے دریش آدمی تھے۔ گھر کے خرچ کا حساب کتاب میرے پاس رہتا تھا۔ میں بھی بڑی کفایت سے کام لیتا تھا۔ ان کا پیسہ ضائع کرنے سے مجھے بڑی تکلیف ہوتی تھی۔ لیکن ڈاکٹر صاحب ناراض ہوجاتے تھے۔ کہا کرتے تھے، علی بخش انسان کو ہمیشہ وقت کی ضرورت کے مطابق چلنا چاہیے۔ خواہ مخواہ ایسے ہی بھوکے نہ رہا کرو۔ اب اسی مربع کے ٹنٹنے کو دیکھ لیجیے، لائل پور کے ڈپٹی کمشنر صاحب، مال افسر صاحب اور سارا عملہ میری بڑی آؤ بھگت کرتے ہیں۔ بڑے اخلاق سے مجھے اپنے برابر کرسی پر بٹھاتے ہیں۔

    ایک روز بازار میں ایک پولیس انسپکٹر نے مجھے پہچان لیا اور مجھے گلے لگا کر دیر تک روتا رہا۔ یہ ساری عزّت ڈاکٹر صاحب کی برکت سے ہے۔ مربع کی بھاگ دوڑ میں میرے پر کچھ قرضہ بھی چڑھ گیا ہے۔ لیکن میں اس کام کے لیے بار بار لاہور کیسے چھوڑوں۔ جاوید کا نقصان ہوتا ہے۔”

    "سنا ہے اپریل میں جاوید چند مہینوں کے لیے ولایت سے لاہور آئے گا۔ جب وہ چھوٹا سا تھا، ہر وقت میرے ساتھ ساتھ رہتا تھا۔ اللہ کے کرم سے اب بڑا ہوشیار ہو گیا ہے۔ جب اس کی والدہ کا انتقال ہوا تو وہ اور منیرہ بی بی بہت کم عمر تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے نرس کے لیے اشتہار دیا۔ بے شمار جواب آئے۔ ایک بی بی نے تو یہ لکھ دیا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ شادی کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔ ڈاکٹر صاحب کسی قدر پرشان ہوئے اور کہنے لگے علی بخش دیکھو تو سہی اس خاتوں نے کیا لکھا ہے۔ میں بڈھا آدمی ہوں۔ اب شادی کیا کروں گا۔ لیکن پھر علی گڑھ سے ایک جرمن لیڈی آگئی۔”

    علی بخش کا تخیّل بڑی تیز رفتاری سے ماضی کے دھندلکوں میں پرواز کر رہا ہے۔ زندگی کے ہر موڑ پر اسے اپنے ڈاکٹر صاحب یا جاوید یا منیرہ بی بی کی کوئی نہ کوئی خوش گوار یاد آتی رہتی ہے۔ جھنگ پہنچ کر میں اسے ایک رات اپنے ہاں رکھتا ہوں۔ دوسری صبح اپنے ایک نہات قابل اور فرض شناس مجسٹریٹ کپتان مہابت خان کے سپرد کرتا ہوں۔

    کپتان مہابت خان، علی بخش کو ایک نہایت مقدس تابوت کی طرح عقیدت سے چھو کر اپنے سینے سے لگا لیتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ وہ علی بخش کو آج ہی اپنے ساتھ لائل پور لے جائے گا اور اس کی زمین کا قبضہ دلا کر ہی واپس لوٹے گا۔” حد ہوگئی۔ اگر ہم یہ معمولی سا کام بھی نہیں کرسکتے تو ہم پر لعنت ہے۔”

    (قدرت اللہ شہاب کی مشہور تصنیف شہاب نامہ سے ایک پارہ)

  • سگے بھائیوں نے بہن کی آنکھوں میں تیزاب ڈال دیا

    سگے بھائیوں نے بہن کی آنکھوں میں تیزاب ڈال دیا

    جھنگ: صوبہ پنجاب کے شہر جھنگ میں سگے بھائیوں نے شقی القلبی کا بدترین مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی شادی شدہ بہن کی آنکھوں میں تیزاب ڈال دیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق جھنگ میں سگے بھائیوں نے دوسری شادی کرنے والی اپنی بہن شہناز مائی کی آنکھوں میں تیزاب ڈال دیا، بھائیوں نے ان کے شوہر اور بیٹے کو بھی اغوا کر لیا ہے۔

    خاتون شہناز مائی انصاف کے لیے لاہور ہائی کورٹ پہنچ گئی، جہاں جج نے ان کے شوہر اور بچے کی بازیابی کا حکم دے دیا۔

    رپورٹ کے مطابق خاتون شہناز مائی نے اپنے خاوند اور 2 سالہ بچے کی بازیابی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے، جس میں خاتون نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ پہلے خاوند کی وفات کے بعد مرضی سے مظہر عباس سے شادی کی تھی۔

    انھوں نے بتایا کہ 10 روز قبل بھائیوں نے مجھے خاوند اور بیٹے سمیت اغوا کر لیا، بھائیوں نے تشدد کے بعدمیری آنکھوں میں تیزاب بھی ڈال دیا جس سے ایک آنکھ ضائع ہو گئی ہے۔

    درخواست گزار خاتون کے مطابق تیزاب سے ان کا بیٹا فرمان حیدر بھی جھلس گیا ہے اور وہ زخمی ہے۔

    خاتون کا کہنا تھا کہ وہ بھائیوں کی قید سے بھاگ کر جھنگ سے لاہور آ گئی ہیں، تاہم شوہر اور بیٹا تاحال بھائیوں کے پاس قید ہیں۔ خاتون نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کے شوہر اور بیٹے کو بھائیوں کی قید سے بازیاب کرایا جائے۔

    جسٹس شہرام سرور چوہدری نے ایس ایچ او شورکوٹ اور احمد پور سیال کو خاتون کے شوہر اور بچے کو بازیاب کراتے ہوئے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

  • سرکاری اسپتال کا ڈاکٹر آپے سے باہر، نرس پر تھپڑوں کی بارش کر دی

    سرکاری اسپتال کا ڈاکٹر آپے سے باہر، نرس پر تھپڑوں کی بارش کر دی

    جھنگ: پنجاب کے شہر جھنگ کے سرکاری اسپتال میں سینئر ڈاکٹر آپے سے باہر ہو گیا اور نرس پر تھپڑوں سے بارش کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر کو اس کے فرائض منصبی یاد دلانا اسٹاف نرس کو مہنگا پڑ گیا، جھنگ کے علاقے شور کورٹ کے تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال میں معمولی تلخ کلامی پر ڈاکٹر آپے سے باہر ہو گیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سینئر ڈاکٹر صفدر نے اسٹاف نرس کو غصے سے بے قابو ہو کر تشدد کا نشانہ بنا لیا، واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی میڈیا پر مشتہر ہو گئی، جس کے بعد اسپتال کے ایم ایس نے کہا کہ تشدد میں ملوث ڈاکٹر کے خلاف کارروائی کے لیے رپورٹ بھیج دی گئی ہے۔

    انسانیت سے عاری ڈاکٹر نے کافی دیر تک نرس اسٹاف روم میں نرس کو تشدد کا بنایا، وقفے وقفے سے اس پر حملہ آور ہوتا، رہا، اور تھپڑ مارتا جس سے نرس نیچے بھی گر پڑی، لیکن ڈاکٹر انھیں مارنے سے باز نہ آیا۔ ڈاکٹر نے دوسری نرس کو بھی دھکا دیا۔

    فوٹیج کے مطابق ڈاکٹر صفدر قواعد و ضوابط بالائے طاق رکھ کر نرسنگ آفس میں داخل ہوا اور روبینہ نامی ایک نرس پر تھپڑوں کی بارش کر دی، اطلاعات کے مطابق نرس روبینہ نے ڈاکٹر کو ایک مریض کی طبیعت خراب ہونے پر وزٹ کا کہہ دیا تھا جب کہ ڈاکٹر نے وزٹ سے انکار کیا، اس پر معمولی تکرار نے سینئر ڈاکٹر کو آپے سے باہر کر دیا۔

    واقعے کے بعد ڈاکٹر صفدر کو اپنے فعل پر شرمندی کا احساس بھی نہ ہوا، فوٹیج کے مطابق وہ نرسنگ آفس سے سینہ تان کر نکلے۔ واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ سینئر ڈاکٹر کو اخلاقیات سمیت قواعد و ضوابط کی بھی کوئی پروا نہیں۔

    اسپتال ذرایع کے مطابق ڈاکٹر صفدر کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کی جائے گی۔

  • بچوں سے زیادتی اور قتل کے واقعات، چھوٹے طلبہ نے ہتھیار اٹھا لیے

    بچوں سے زیادتی اور قتل کے واقعات، چھوٹے طلبہ نے ہتھیار اٹھا لیے

    جھنگ: پڑھے لکھے پنجاب کے دعوے کرتی انتظامیہ کی ناکامی کے بعد اپنی حفاظت کے لیے چھوٹے طلبہ نے ہتھیار اٹھا لیے۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب کے ضلع جھنگ میں تھانہ قادرپور کی حدود میں طلبہ اپنی حفاظت کے لیے اسلحہ ساتھ لے کر چلنے لگے ہیں، رواں سال بچوں سے زیادتی اور قتل کے واقعات پر طلبہ میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔

    طلبہ کا کہنا ہے کہ پولیس انھیں تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے، جان کا خطرہ ہے اس لیے ہتھیار ساتھ لے کر چلنے لگے ہیں۔ موٹر سائیکل پر اسکول جاتے ایک طالب علم نے پستول دکھاتے ہوئے کہا کہ اس کے بھائی کو قتل کیا گیا لیکن پولیس قاتل کو نہیں پکڑ سکی، انصاف نہیں ملا، مجھے بھی مار سکتے ہیں، اس لیے ہتھیار اٹھا لیا۔

    خیال رہے کہ پنجاب میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے واقعات تواتر کے ساتھ پیش آ رہے ہیں، 28 نومبر کو ضلع جھنگ کی تحصیل شورکوٹ کے محلہ عباس پورہ کے رہایشی 18 سالہ نوجوان کو قتل کیا گیا تھا، ورثا کا کہنا تھا کہ مقتول کو زیادتی کے بعد تشدد کر کے قتل کیا گیا۔ قتل کے واقعے کے خلاف ورثا نے جھنگ ملتان روڈ بلاک کر کے احتجاج بھی کیا۔

    جھنگ، تھانہ سٹی کے علاقے میں 14 سالہ بچی تصدق شازیہ کو اغوا کے بعد گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا، جو تین دسمبر کو اغوا کاروں کے چنگل سے 7 ماہ بعد بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئی۔ پولیس نے خبر میڈیا کی زینت بننے کے بعد تھانہ سٹی میں ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا۔

    نومبر کے وسط میں جھنگ ہی میں پولیس کو ایک بوری بند لاش ملی، جس کی تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ شازیہ نامی بچی کو آصف نامی درندے نے بہلا پھسلا کر گھر بلایا اور زبردستی کرنے کی کوشش کی لیکن مزاحمت پر اس نے بچی کو پھندا ڈال کر قتل کر دیا۔

    28 نومبر کو جھنگ کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر عطا الرحمان نے آفیسرز سائنس کالج میں بچوں کے جنسی استحصال کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ والدین اپنے بچوں کے ساتھ کمیونی کیشن کو مضبوط بنائیں اور انھیں جسمانی شعور دیں۔

  • کبیروالا میں ایک سال قبل اغوا ہونے والی شادی شدہ خاتون کو زندہ جلا دیا گیا

    کبیروالا میں ایک سال قبل اغوا ہونے والی شادی شدہ خاتون کو زندہ جلا دیا گیا

    کبیروالا: پنجاب کے ضلع خانیوال کے علاقے کبیر والا سے ایک سال قبل اغوا ہونے والی خاتون کو زندہ جلا دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق ضلع خانیوال میں کبیروالا کے علاقے گوپال پور سے مبینہ طور پر اغوا ہونے والی شادی شدہ خاتون حمیرا کو احمد پور سیال میں زندہ جلا دیا گیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق شادی شدہ خاتون حمیرا کو ایک سال قبل پنجاب کے ضلع خانیوال میں کبیر والا کے علاقے گوپال پور سے اغوا کیا گیا تھا، گزشتہ روز خاتون کو ضلع جھنگ کے علاقے احمد پور سیال میں اغواکاروں نے پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ حمیرا نامی خاتون کے اغوا اور زندہ جلائے جانے کے واقعے کا مقدمہ مبینہ اغوا کاروں کے خلاف درج کر لیا گیا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  اوکاڑہ: 70 سالہ خاتون پر بہیمانہ تشدد، ملزمان ویڈیو بھی بناتے رہے

    اطلاعات کے مطابق آگ لگنے کی وجہ سے حمیرا بری طرح جھلس کر جاں بحق ہو گئی تھی جس کے بعد حمیرا بی بی کو دفنایا جا رہا تھا تاہم پولیس احمد پور سیال نے اطلاع ملنے پر کارروائی کرتے ہوئے تدفین رکوا دی۔

    یاد رہے گزشتہ روز صوبہ پنجاب کے شہر ضلع اوکاڑہ کے ایک نواحی گاؤں میں 70 سال کی خاتون، ان کی بیٹی اور پوتے پر بہیمانہ تشدد کی ویڈیو وائرل ہو گئی تھی، شقی القلب ملزمان کو معمر خاتون پر بھی بہیمانہ تشدد سے کوئی چیز نہ روک سکی، بد بخت ملزمان تشدد کی ویڈیو بھی بناتے رہے۔

  • سانحہ کرائسٹ چرچ، شہدا سے اظہار یکجہتی کے لیے جھنگ میں ہزاروں افراد کا انوکھا اقدام

    سانحہ کرائسٹ چرچ، شہدا سے اظہار یکجہتی کے لیے جھنگ میں ہزاروں افراد کا انوکھا اقدام

    جھنگ: سانحہ کرائسٹ چرچ کے شہدا سے اظہار یکجہتی کے لیے جھنگ میں بیس ہزار افراد نے خود کو مسجد النور کے خاکے میں ڈھال لیا.

    تفصیلات کے مطابق سانحہ کرائسٹ چرچ کو ایک ماہ مکمل ہونے پر شہدا کو جھنگ کے شہریوں نے انوکھے انداز میں خراج عقیدت پیش کیا.

    ہزاروں افراد نے متاثرین سے اظہار یکجہتی کرنے کے لیے کرائسٹ چرچ کی مسجد النور کے خاکے میں‌ ڈھال کر پیغام دیا کہ مساجد امن کی جگہ ہے اور اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے۔

    دربار سلطان باہو میں بیس ہزار افراد اکٹھے ہوئے، جنھوں نے سفید عمامہ اور سنہری ٹوپیاں پہن رکھی تھیں، ان افراد نے کمال ترتیب کا مظاہر کرتے ہوئے خو دکو نیوزی لینڈ کی النور مسجد کی شکل میں ڈھالا.

    اس موقع پر فضا اللہ اکبر اور دوردو سلام سے فضا گونج اٹھی، ہزاروں افراد نے یک آواز ہو کر دنیا کو بتایا کہ اسلام پرامن مذہب ہے، اس موقع پر شہداء کی تصاویر لگائی گئیں اور ان کے لیے دعا کرائی گئی.

    سانحہ کرائسٹ چرچ، نیوزی لینڈ میں‌ جدید اسلحہ رکھنے پر پابندی کا بل منظور

    یاد رہے کہ 15 مارچ کو نیوزی لینڈ کے علاقے کرائسٹ چرچ میں واقع دو مساجد میں دہشت گرد حملے ہوئے تھے جس کے نتیجے میں خواتین وبچوں سمیت 50 نمازی شہید اور 20 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

    اس واقعے کے نیوزی لینڈ کی حکومت اور عوام کی جانب سے شدید ردعمل آیا اور واقعے کو دہشت گردی قرار دیا تھا.