Tag: جھیل

  • جھیل میں کشتی الٹنے سے 8 افراد لقمہ اجل بن گئے

    جھیل میں کشتی الٹنے سے 8 افراد لقمہ اجل بن گئے

    کیلیفورنیا کی جھیل میں کشتی الٹنے کا المناک واقعہ پیش آیا، جس کے نتیجے میں 8 افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کیلیفورنیا کی جھیل طاہو (Tahoe) میں 2 روز قبل پیش آئے واقعے میں 8 افراد ہلاک ہوگئے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق کشتی پر سوار افراد سالگرہ منانے کے لیے جھیل کی سیر کو گئے تھے، اس دوران طوفان کے باعث کشتی الٹ گئی جس کی وجہ سے 8 افراد ہلاک ہوگئے۔

    لیبیا کشتی حادثہ:

    رواں ماہ لیبیا میں بھی تارکین وطن کی کشتیاں ڈوبنے کے دو حادثات رونما ہوئے، جس کے سبب 60 افراد لقمہ اجل بن گئے، 2 کشتی حادثات میں جاں بحق ہونے والوں میں پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔

    پناہ گزینوں کے عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ لیبیا میں پیش آنے والے 2 حادثات میں پہلا حادثہ لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں پیش آیا جس میں سمندر میں 21 افراد لاپتہ ہوئے، ڈوبنے والی بوٹ میں سوار 5 افراد کو ریسکیو کرلیا گیا۔

    رپورٹس کے مطابق بدقسمت کشتی میں ارٹیرین، پاکستانی اور مصری شہری سوار تھے۔

    کانگو: کشتی میں آگ لگنے سے ہلاکتوں کی تعداد 148 ہو گئی

    دوسرا حادثہ لیبیا کے شہر تبروک کے ساحل سے 35 کلومیٹر دور پیش آیا جس میں 39 میں سے صرف ایک شخص کو ریسکیو کیا جاسکا۔

    پناہ گزینوں کے عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ رواں سال 743 افراد مختلف بوٹ حادثات کی وجہ سے اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے۔

  • ویڈیو: کھیل کود کر انتخابی مہم چلانے والے برطانوی سیاست دان جھیل میں گر گئے

    ویڈیو: کھیل کود کر انتخابی مہم چلانے والے برطانوی سیاست دان جھیل میں گر گئے

    لندن: کھیل کود کر انتخابی مہم چلانے والے ایک برطانوی سیاست دان پیڈل بورڈ سے جھیل میں گر گئے۔

    روئٹرز کے مطابق برطانیہ کے لبرل ڈیموکریٹس کے رہنما ایڈ ڈیوی اس وقت ونڈرمیئر جھیل میں جا گرے، جب وہ انتخابی مہم کے دوران پانی میں ایک پیڈل بورڈ کےساتھ اترے اور اس پر کھڑے ہو کر توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

    58 سالہ ایڈ ڈیوی نے برطانوی انتخابی مہم میں کھیل کود اور مستی کا عنصر پیدا کر کے میڈیا کو اپنی طرف متوجہ کیا، ایڈ ڈیوی نے انتخابی مہم کا آغاز ہی رولر کوسٹر رائیڈ سے کیا تھا، پھر انھوں نے واٹر سلائیڈ پر پھسلنے کا مظاہر کیا، اور بنجی جمپ بھی کیا۔

    تاہم دو دن قبل جب برٹش لبرل ڈیموکریٹ لیڈر ایڈ ڈیوی نے جھیل میں پیڈل بورڈ پر کھڑے ہونے کی کوشش تو وہ توازن برقرار نہ رکھ سکے اور جھیل میں گر گئے۔

    جھیل ونڈرمیئر برطانیہ کی سب سے بڑی جھیل ہے، روئٹرز کے مطابق یہ حال ہی میں سیوریج سے آلودہ ہو گیا تھا۔

    واضح رہے کہ پولز نے پیش گوئی کی ہے کہ ڈیوی کی پارٹی آج 4 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں پارلیمنٹ میں برطانیہ کے تیسرے سب سے بڑے گروپ کے طور پر اپنی جگہ دوبارہ حاصل کر لے گی۔

  • وسیع و عریض جھیل خشک صحرا میں بدل گئی

    وسیع و عریض جھیل خشک صحرا میں بدل گئی

    سان تیاگو: جنوبی امریکی ملک چلی میں وسیع و عریض جھیل خشک ہوگئی، ملک میں کم بارشیں اس خشک سالی کی وجہ بنیں۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق 13 سال سے بدترین خشک سالی کے شکار جنوبی امریکی ملک چلی میں وسیع رقبے پر پھیلی جھیل اب صحرا میں تبدیل ہو چکی ہے۔

    وسطی چلی میں پینولاس ریزروائر 20 سال پہلے تک والپرائیسو شہر کے لیے پانی کا بنیادی ذریعہ تھا جس میں 38 ہزار اولمپک سائز کے سوئمنگ پولز کے لیے کافی پانی موجود تھا لیکن اب صرف دو تالابوں کا پانی باقی رہ گیا ہے۔

    خشک زمین جہاں پہلے جھیل ہوا کرتی تھی اب وہاں مچھلی کے ڈھانچے ملتے ہیں یا پانی کی تلاش میں مایوس جانور، تاریخی 13 سالہ خشک سالی کی وجہ سے اس جنوبی امریکی ملک میں بارش انتہائی کم ہوتی ہے۔

    خشک سالی نے دنیا کے سب سے بڑے تانبا پیدا کرنے والے ملک میں کان کی پیداواری صلاحیت کو متاثر کیا ہے۔

    خشک سالی نے نہ صرف لیتھیم اور کاشت کاری کے لیے پانی کے استعمال پر کشیدگی کو ہوا دی ہے بلکہ دارالحکومت سان تیاگو کو ممکنہ پانی کی تقسیم کے لیے منصوبے بنانے پر مجبور کیا ہے۔

    54 سالہ شہری امندا کاراسکو کا کہنا ہے کہ ہمیں خدا سے التجا کرنا پڑتی ہے کہ وہ ہمیں پانی بھیجے، میں نے ایسا کبھی نہیں دیکھا۔ پہلے بھی کم پانی آتا تھا لیکن ایسی صورتحال نہیں تھی۔

    والپرائیسو کو پانی فراہم کرنے والی کمپنی کے جنرل مینیجر جوز لوئس موریلو کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ صرف ایک تالاب ہے، شہر اب دریاؤں پر انحصار کرتا ہے۔

    ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ خشک سالی کے اس مسئلے کی وجہ آب و ہوا کے پیٹرن میں تبدیلی ہے۔

    ایک عالمی تحقیق کے مطابق قدرتی طور پر چلی کے ساحل کے قریب سمندر کی گرمی میں، جو طوفانوں کو آنے سے روکتی ہے، عالمی سطح پر سمندر کے درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے شدت آگئی ہے۔

    انٹارکٹک کے موسم کو متاثر کرنے والے عوامل پر تحقیق کے مطابق انٹارکٹک میں اوزون کی تہہ میں کمی اور گرین ہاؤس گیسیں موسم کے پیٹرن میں تبدیلی کی وجہ بنتی ہیں جو طوفانوں کو چلی سے دور لے جاتی ہیں۔

  • ایک سال سے روز جھیل میں غوطہ لگانے والے شخص کی بیوی نے اس کی وجہ بتا دی

    ایک سال سے روز جھیل میں غوطہ لگانے والے شخص کی بیوی نے اس کی وجہ بتا دی

    مشیگن: امریکا میں ایک شخص مسلسل ایک سال سے روزانہ جھیل میں غوطہ لگاتا ہے، اور اس میں ناغہ نہیں کرتا۔

    تفصیلات کے مطابق ایک امریکی شخص کو ’جھیل میں چھلانگ لگانے والے شخص‘ کا باقاعدہ خطاب مل گیا ہے کیوں کہ وہ روزانہ بلاناغہ مشیگن جھیل میں غوطہ لگا رہے ہیں۔

    امریکی شہری ڈین اوکونر کا کہنا ہے کہ وہ علاج کے طور پر روزانہ جھیل میں نہاتے ہیں اور یہاں سے جسمانی طور پر بہتر ہو کر باہر آتے ہیں، ان کی بیوی مارگریٹ کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر موسیقار ہیں، وبا کے بعد لاک ڈاؤن ہونے کے بعد افسردہ تھے، تو ڈین نے جھیل میں سکون اور اطمینان تلاش کر لیا۔

    53 سالہ ڈین کا کہنا تھا کہ وہ لاک ڈاؤن میں شراب نوشی کے بعد دردِ سر اور دیگر کیفیات سے پریشان تھے، شروع میں کچھ عجیب لگا لیکن پھر جھیل میں نہانے کے بعد انھیں بہت اچھا محسوس ہوا، انھوں نے بتایا میرا دل و دماغ بہت صاف اور ہلکا ہو گیا، اس کے بعد میں نے جھیل میں غوطہ لگانے کو اپنی عادت بنا لیا۔

    روز جھیل میں غوطہ لگانے کی عادت اتنی پکی ہو گئی ہے کہ ڈین اب خون جما دینے والی سردی میں بھی جھیل میں چھلانگ لگا دیتے ہیں۔

    جھیل پر آنے والے لوگ بھی اب انھیں پہچاننے لگے ہیں، ڈین ان سے کہتے ہیں کہ یہاں نہانے سے ان کا دن روشن ہو جاتا ہے، کیوں کہ اس پُر آشوب دورمیں ہر ایک کو روشنی کی تلاش ہے۔

    مارگریٹ نے بتایا کہ اب حال یہ ہے کہ ان کے شوہر ڈین کو دیکھ کر مزید کئی لوگ بھی ان کے ساتھ جھیل میں تیرتے ہیں اور روز مرہ مشکلات کو بھلا کر خوش رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔

  • پانی میں ڈوبے صدیوں پرانے گاؤں نے سیاحوں کو بے چین کر دیا (ویڈیو)

    پانی میں ڈوبے صدیوں پرانے گاؤں نے سیاحوں کو بے چین کر دیا (ویڈیو)

    ٹسکنی: پانی میں ڈوبے صدیوں پرانے اطالوی گاؤں نے سیاحت کے شعبے میں زبردست ہلچل مچا دی ہے، سیاح اس ڈوبے ہوئے تاریخی گاؤں کو دیکھنے کے لیے بے چین ہو گئے ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق 12 ویں صدی کا اطالوی گاؤں، جو پانی کے نیچے چلا گیا تھا، اب 1994 کے بعد ایک بار پھر سطح پر ابھرنے کو ہے، یہ گاؤں ایک ڈیم کے پانی میں ڈوبا ہوا ہے جسے مینٹی نینس کے لیے خالی کرایا جا رہا ہے۔

    فیبرش ڈائی کریجین نامی یہ گاؤں وسطی اٹلی کے علاقے ٹسکنی میں واقع ہے، جو 1946 میں قریب میں ایک ڈیم کی تعمیر کے بعد واگلی نامی مصنوعی جھیل کے پانی کے نیچے چلا گیا تھا، اب 26 سال بعد یہ دوبارہ سطح پر آ رہا ہے، اس سے قبل یہ 1958 میں، پھر 1974 میں اور اس کے بعد 1983، اور آخری بار 1994 ڈیم کے مینٹی نینس کے لیے خالی کرانے کی وجہ سے سطح پر ابھرا تھا۔

    گاؤں کا یہ خرابہ مکمل گھروں، ایک پُل اور ایک چرچ پر مشتمل ہے، اور یہ اسی وقت سطح پر آتا ہے جب ڈیم کے مینٹی نینس کے لیے جھیل کو خالی کرایا جاتا ہے، اب اسے اگلے برس 2021 میں خالی کرایا جائے گا۔ کہا جا رہا ہے کہ اس اقدام سے اٹلی کی سیاحت میں ایک بار پھر جان پڑ جائے گی جو کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے تباہ ہو گئی ہے۔

    گزشتہ مرتبہ جب یہ گاؤں سطح پر ابھرا تھا تو لاکھوں لوگ اسے دیکھنے کے لیے امنڈ پڑے تھے، اس بار بھی سیاحوں میں اس خبر سے ہل چل مچ گئی ہے، شہر کے سابق میئر ایلیو ڈومینیکو جارجی کی بیٹی لورینزا جارجی نے اس سلسلے میں فیس بک پر دعویٰ کیا ہے کہ باوثوق ذرایع نے کہا ہے کہ اگلے برس یہ گاؤں پھر سطح پر ابھرنے والا ہے، اس بار توقع ہے کہ ایک موسم گرما میں 10 لاکھ سے زائد سیاح اسے دیکھنے آئیں گے۔

    واضح رہے کہ لورینزا جارجی واگلی ڈائی سوٹو نامی گاؤں میں پیدا ہوئی تھی، یہ وہ گاؤں ہے جہاں فیبرش ڈائی کریجین گاؤں کے لوگوں کو بسانے کے لیے منتقل کیا گیا تھا، اور ان کے گھر زیر آب چلے گئے تھے، اب یہ گھر 34 ملین کیوبک پانی کے نیچے ہیں۔

  • وینس کی جھیلوں میں بطخیں لوٹ آئیں

    وینس کی جھیلوں میں بطخیں لوٹ آئیں

    کرونا وائرس نے جہاں دنیا بھر کے لوگوں کو دہشت زدہ کردیا ہے اور معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، وہیں اس کے ماحولیات سے متعلق کچھ خوشگوار پہلو بھی سامنے آرہے ہیں۔

    اٹلی کے معروف سیاحتی شہر وینس میں بھی ایسی ہی صورتحال دیکھنے میں آئی جہاں سیاحوں کے غائب ہوجانے کے بعد ندی، نالے اور جھیلیں آلودگی سے پاک، شفاف ترین ہوگئے اور مقامی آبی حیات ایک بار پھر یہاں بسیرا کرنے آن پہنچی۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر پوسٹ کی گئی تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وینس کی جھیلیں صاف شفاف ہوگئی ہیں اور ان میں موجود مچھلیاں صاف دکھائی دے رہی ہیں۔ کچھ جھیلوں پر بطخیں اور ہنس بھی دکھائی دے رہے ہیں۔

    وینس کے میئر کا کہنا ہے کہ ایسا اس وجہ سے ہوا کیونکہ ان جھیلیں میں کشتیوں کی آمد و رفت بالکل ختم ہوگئی جو اس شہر میں نقل و حمل کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں، یہ کشتیاں اور جھیلیں ہی اس شہر کی انفرادیت ہیں جن سے لطف اندوز ہونے کے لیے ہر سال یہاں کروڑوں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں۔

    میئر کے مطابق کشتیوں کی آمد و رفت سے جھیلوں کی آلودگی ہر وقت سطح پر موجود رہتی تھی، اب یہ آلودگی نیچے بیٹھ گئی ہے اور جھیلیں شفاف دکھائی دے رہی ہیں۔

    بعض صارفین نے دریا کی تصاویر بھی پوسٹ کیں جن میں ڈولفن تیرتی ہوئی نظر آرہی ہیں، صارفین کا کہنا تھا کہ کشتیوں کی ہلچل اور شور ان ڈولفنز کو تنگ کرتی تھیں جس کی وجہ سے وہ گہرے پانی میں ہی رہتی تھیں، اب سناٹا ہونے سے وہ اوپر آنے لگی ہیں۔

    کرونا وائرس سے ہونے والی ایک اور ماحولیاتی بہتری فضائی آلودگی میں کمی بھی ہے، ناسا کے مطابق چین میں فیکٹریز اور صنعتیں بند کیے جانے کے بعد فضائی و ماحولیاتی آلودگی میں بھی واضح کمی دیکھی گئی۔

    چین اس وقت دنیا میں کاربن اور دیگر زہریلی گیسوں کا اخراج کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، ماہرین کے مطابق چین میں کاروبار معطل ہونے سے دنیا بھر کی فضائی آلودگی میں کمی دیکھی گئی ہے۔

    یاد رہے کہ اٹلی، یورپ کا کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے، اٹلی میں اب تک 31 ہزار 506 افراد اس وائرس کا شکار ہوچکے ہیں جبکہ اس سے ڈھائی ہزار ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔

    حکام نے پورے ملک کو لاک ڈاؤن کردیا ہے اور لوگوں کے گھروں سے غیر ضروری طور پر باہر نکلنے پر پابندی عائد کردی ہے، ملک میں سیاحوں کی آمد پر بھی عارضی طور پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

  • سخت سردی میں جھیل میں کیا دکھائی دینے لگا؟

    سخت سردی میں جھیل میں کیا دکھائی دینے لگا؟

    موسم سرما میں آسمان سے گرتے برف کے گالے جہاں ایک طرف تو ٹھنڈ میں اضافہ کردیتے ہیں وہیں ہر شے کو برف کردیتے ہیں۔

    ایسا ہی کچھ حال دریاؤں اور جھیلوں کا بھی ہوجاتا ہے جن کا پانی جم کر برف بن جاتا ہے اور جمی ہوئی جھیلیں نہایت سحر انگیز منظر پیش کرتی ہیں۔

    منفی 35 ڈگری سینٹی گریڈ میں چین کے شہر موہا میں بھی ایک جھیل نہ صرف جم گئی بلکہ اس کے اندر موجود گیسیں بھی منجمد ہوکر انوکھا نظارہ پیش کرنے لگیں۔

    منجمد جھیل کے اندر ایک کے اوپر ایک چھوٹے بڑے جمے ہوئے میتھین گیس کے بلبلوں نے تجریدی آرٹ کے نمونے تخلیق کردیے۔

    یہ جمے ہوئے بلبلے جھیل کے اندر 60 میٹر گہرائی تک میں ایک کے اوپر ایک قطار بنائے چلے گئے ہیں۔ جھیل کا انوکھا نظارہ دیکھنے کے لیے دور دور سے سیاح اور مقامی افراد آنے لگے۔

  • بنگلور کی بدبو دار جھیل سے پریشان کم عمر طالبہ نے ایپ تیار کرلی

    بنگلور کی بدبو دار جھیل سے پریشان کم عمر طالبہ نے ایپ تیار کرلی

    امریکا میں مقیم کم عمر طالبہ نے پانی کی آلودگی جانچنے کی ایپ تیار کرلی، طالبہ نے یہ ایپ اپنے مقامی علاقے بنگلور (بھارت) کی بدبو دار جھیل سے پریشان ہو کر بنائی۔

    بنگلور کی یہ طالبہ ساہیتی پنگالی جو اس وقت اسکالر شپ پر امریکا میں تعلیم حاصل کر رہی ہے، اپنے شہر کی بدبو دار جھیل سے تنگ تھی۔ بنگلور کی ورتھر جھیل کو بنگلور کی بدبو دار ترین جھیل کہا جاتا ہے اور یہ جھیل ہر وقت گندے جھاگ سے بھری رہتی ہے۔

    ساہیتی کا کہنا ہے کہ جب ہم یہاں سے گزرتے تھے تو گاڑی کے شیشے اوپر کر لیتے تھے اور ناک بند کرلیتے تھے۔ ایک بار اسے ایک فیلڈ ٹرپ پر جھیل کے آس پاس کے علاقوں کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔

    ساہیتی نے دیکھا کہ یہاں ہزاروں انسان موجود تھے جو اس جھیل کے کنارے آباد تھے۔ ’جس بدبو میں ہم چند لمحے سانس نہیں لے پاتے تھے، یہ لوگ اس بدبو میں اپنی ساری عمر گزار چکے تھے‘۔

    وہ کہتی ہے کہ یہ لوگ اس جھیل کی گندگی اور بدبو کے اس قدر عادی تھے کہ وہ آرام سے یہاں سے پانی لے کر اسے مختلف کاموں میں استعمال کرتے تھے۔ یہی وہ دن تھا جب ساہیتی نے اس جھیل کے لیے کچھ کرنے کا سوچا۔

    اپنے امریکا میں قیام کے دوران ساہیتی نے واٹر مانیٹرنگ ایپ بنائی، پانی کو جانچنے کے بعد اس کا نتیجہ ایپ پر اپ لوڈ کیا جاتا ہے جس کے بعد اس نتیجے کو عالمی طور پر طے شدہ پانی کے معیار کے مطابق پرکھا جاسکتا ہے۔

    ساہیتی کہتی ہے کہ وہ جاننا چاہتی تھی کہ اس جھیل پر موجود جھاگ آخر آتا کہاں سے ہے۔ ’جب آپ کو علم ہی نہیں کہ آپ نے کون سا مسئلہ حل کرنا ہے تو آپ تبدیلی کیسے لائیں گے‘۔

    سائنس کی طالبہ ہونے کی وجہ سے ساہیتی کو اپنی ریسرچ میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی اور سارے مرحلے آسان ہوتے گئے۔

    وہ کہتی ہے، ’کچھ بھی کرنے کا پہلا اصول یہ ہے کہ چیزوں کو رد کریں۔ غلط چیزوں کو معمول کا حصہ نہ سمجھیں اور واضح طور پر کہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔ ہر بڑا کام ایک چھوٹا سا قدم اٹھانے سے شروع ہوتا ہے، چاہے وہ اس سے متعلق صرف کوئی مضمون پڑھنا ہی کیوں نہ ہو، اور آپ کو قطعی اندازہ نہیں ہوتا کہ آپ کتنا آگے جا سکتے ہیں‘۔

    ساہیتی کو ’انوینٹنگ ٹومارو‘ نامی دستاویزی فلم میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ فلم دنیا بھر سے 8 کم عمر سائنسدانوں کے بارے میں ہے جو اپنی مقامی آبادی کی بہبود کے لیے کوشاں ہیں۔

    ساہیتی کہتی ہے، ’اپنے آپ کو محدود مت کریں، ہر شخص جو دنیا کی اچھائی کے لیے کام کر رہا ہے وہ ہماری ہی طرح کا عام انسان ہے، بس فرق صرف یہ ہے کہ اس نے فکر کی اور اپنا قدم بڑھایا‘۔

  • نیگلریا کا خطرناک جراثیم آپ کے گھر میں بھی ہوسکتا ہے

    نیگلریا کا خطرناک جراثیم آپ کے گھر میں بھی ہوسکتا ہے

    معروف ثنا خواں ذوالفقار علی حسینی دماغ کی سوزش کے مرض نیگلریا کا شکار ہو کر جاں بحق ہوگئے، ماہرین نے اس موسم کے لیے نیگلیریا الرٹ جاری کرتے ہوئے لوگوں کو محتاط رہنے کی ہدایت کی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں جنرل فزیشن ڈاکٹر وجاہت نے گفتگو کرتے ہوئے اس مرض کے بارے میں بتایا۔ ڈاکٹر وجاہت کا کہنا تھا کہ یہ ایسا مرض ہے جو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیتا اور 2 سے 4 دن میں انسان کو موت کے منہ میں پہنچا دیتا ہے۔

    یہ مرض کس طرح اپنا شکار کرتا ہے؟

    ڈاکٹر وجاہت نے بتایا کہ نیگلیریا کا جراثیم بظاہر صاف دکھنے والے پانی میں موجود ہوتا ہے۔ وہ پانی جو میٹھا ہو، اور اس کا درجہ حرارت گرم ہو اس میں نیگلیریا کی موجودگی کا خطرہ ہوسکتا ہے۔ یہ جراثیم سوئمنگ پولز اور جھیلوں سمیت دیگر کھڑے ہوئے پانیوں میں ہوسکتا ہے۔

    اگر اس پانی میں نہایا جائے تو یہ ناک کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے اور دماغ کو سوزش کے مرض میں مبتلا کردیتا ہے۔ 4 سے 5 دن میں دماغ آہستہ آہستہ ختم ہوجاتا ہے جس کے بعد مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    علامات

    اس جراثیم کے حملہ آور ہونے کا فوری طور پر علم نہیں ہوتا، تاہم یاد رکھیں اس مرض کی علامات میں:

    جھیل یا سوئمنگ پول میں نہانے کے 2، 4 دن کے اندر سونگھنے کی صلاحیت میں تبدیلی آنا

    گردن توڑ بخار ہونا

    گردن میں اکڑ محسوس ہونا

    چڑچڑا پن محسوس ہونا

    اور الٹیاں ہونا شامل ہے۔

    یاد رکھیں

    مندرجہ بالا علامات اگر اس وقت محسوس ہوں جب 2 یا 3 دن قبل آپ کسی جھیل یا سوئمنگ پول میں نہائے ہوں تو فوری طور پر الرٹ ہوجائیں اور ڈاکٹر کے پاس پہنچیں۔

    ان علامات کے لیے گھریلو ٹوٹکے اپنانے سے گریز کریں۔

    اگر 2 سے 3 دن کے اندر اس مرض کی تشخیص ہوجائے اور علاج شروع کردیا جائے تو اس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔

    احتیاطی تدابیر

    ماہرین کے مطابق گرم اور مرطوب موسم نیگلیریا جراثیم کی افزائش کے لیے موزوں ترین ہے چنانچہ اس موسم میں کھڑے پانی میں نہانے سے گریز کریں۔

    سوئمنگ کرتے ہوئے ناک کے لیے نوز پیڈز کا استعمال کریں۔

    پکنک پر جاتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ جس پول میں نہا رہے ہیں اس میں کلورین کی مناسب مقدار موجود ہے۔ غیر محفوظ پولز کے قریب بھی نہ پھٹکیں۔

    کیا گھر میں بھی یہ جراثیم موجود ہوسکتا ہے؟

    ماہرین کے مطابق ہمارے گھروں میں آنے والا پانی بھی نہایت غیر محفوظ ذرائع سے ہم تک پہنچتا ہے چنانچہ اس میں بھی نیگلیریا کی موجودگی کا خطرہ ہوسکتا ہے۔

    اس سے بچنے کے لیے مرطوب موسم میں وضو کرتے ہوئے ناک میں ڈالنے کے لیے منرل واٹر یا ابلا ہوا پانی استعمال کریں۔

    گھر میں موجود پانی کے ذخائر میں مناسب مقدار میں کلورین شامل کریں۔

    کسی بھی قسم کے بخار کو معمولی مت سمجھیں اور فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

  • شدید گرمی سے یورپ کے برفانی پہاڑوں میں جھیل نمودار ہوگئی

    شدید گرمی سے یورپ کے برفانی پہاڑوں میں جھیل نمودار ہوگئی

    جنوبی وسطی یورپ کے اہم پہاڑی سلسلے الپس کی بلندیوں پر ایک جھیل دریافت کی گئی ہے جس نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    یہ جھیل برائن میسٹر نامی ایک کوہ پیما نے دریافت کی، جھیل الپس پہاڑی سلسلے کے سب سے بلند پہاڑ ماؤنٹ بلانک پر دیکھی گئی اور یہ سطح سمندر سے 11 ہزار 100 فٹ بلند ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس جھیل کی تشکیل اس ہیٹ ویو کی وجہ سے ہوئی جس نے گزشتہ ماہ پورے یورپ کو بری طرح متاثر کیا۔ کوہ پیما میسٹر کا کہنا تھا کہ یہ نہایت خطرناک صورتحال ہے۔ صرف 10 دن کی شدید گرمی نے برفانی پہاڑ کو پگھلا کر ایک جھیل تشکیل دے دی۔

    میسٹر کا کہنا تھا کہ جس وقت وہ اس مقام پر پہنچے اس سے صرف 10 دن قبل ہی ایک اور کوہ پیما اس علاقے میں پہنچا تھا۔ اس وقت یہ حصہ برف سے ڈھکا ہوا تھا اور یہاں کسی جھیل کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ صرف 10 دن میں یہاں ایک جھیل نمودار ہوگئی۔

     

    View this post on Instagram

     

    Time to sound the alarm… The problem here? These two pictures were taken only 10 days apart… It was taken earlier on June 28th, the second one was shared by Paul Todhunter. Only 10 days of extreme heat were enough to collapse, melt and form a lake at the base of the Dent du Géant and the Aiguilles Marbrées That I know, this is the first time anything like that as ever happened. Southern Europe and the Alps have been struck by a massive heatwave with temperature ranging from 40 to 50 degrees, the below 0 freezing altitude was as high as 4,700m (15,400ft) and during the day temperatures as high as 10 degrees Celsius (50 F) were felt on top of Mont Blanc 4,810m (15,780ft)… This is truly alarming glaciers all over the world are melting at an exponential speed… My interview with @mblivetv can be found here! https://montblanclive.com/radiomontblanc/article/massif-du-mont-blanc-un-petit-lac-se-forme-a-plus-de-3000-m-daltitude-48453 #climbing #climber #climb #frenchalps #savoie #savoiemontblanc #hautesavoie #outdoors #globalwarming #mountaineering #mountains #mountain #montagne #montaña #montagna #montanhismo #mountaineer #alpinist #alpinism #alpinisme #alpinismo #alpi #alps #environment #savetheplanet #climatechange #montblanc @patagonia @beal.official @millet_mountain @blueiceclimbing

    A post shared by Bryan Mestre (@bryanthealpinist) on

    انہوں نے کہا کہ یہ اس قدر بلند حصہ ہے کہ یہاں پر صرف برف کی موجودگی ممکن ہے، ’جب ہم یہاں جاتے ہیں تو ہماری بوتلوں میں موجود پانی جم جاتا ہے‘۔

    یاد رہے کہ گزشتہ دنوں یورپ میں آنے والی ہیٹ ویو کے دوران کئی شہروں میں درجہ حرارت 46 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا، شدید گرمی کے باعث کئی افراد کی ہلاکتیں بھی سامنے آئیں۔

    یہ پہلی بار نہیں ہے کہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے ہونے والی شدید گرمی کے باعث گلیشیئرز پر جھیلیں دیکھی جارہی ہیں۔ ماہرین اس سے قبل برفانی خطے انٹارکٹیکا میں بھی جھیلیں بننے کی تصدیق کر چکے ہیں۔

    کچھ عرصہ قبل برطانوی ماہرین نے سیٹلائٹ سے موصول ہونے والی ہزاروں تصویروں اور ڈیٹا کی بغور چھان بین کے بعد اس بات کی تصدیق کی تھی کہ قطب جنوبی یعنی انٹارکٹیکا میں برف کے نیچے جھیلیں بن رہی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ جھیلیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہاں موجود برف پگھلنے کے باعث اس کی تہہ کمزور ہو کر چٹخ رہی ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق سنہ 2000 سے انٹارکٹیکا کی برف نہایت تیزی سے پگھل رہی ہے اور اس عرصہ میں یہاں 8 ہزار کے قریب مختلف چھوٹی بڑی جھیلیں تشکیل پا چکی ہیں۔