Tag: جھیل

  • منگولیا میں زندہ رہنے کا جشن

    منگولیا میں زندہ رہنے کا جشن

    چین اور روس کے درمیان واقع ملک منگولیا میں جسے نیلے آسمان کی سرزمین کہا جاتا ہے، ہر سال زندہ رہنے کا جشن منایا جاتا ہے۔

    ہر سال مارچ میں جب موسم سرما اپنے اختتام پر پہنچتا ہے تو منگولیا کے لوگ جشن مناتے ہیں کہ خدا نے انہیں شدید موسم سرما میں بھی محفوظ رکھا۔

    یہ جشن منگولیا کی کفگول جھیل پر منایا جاتا ہے، یہ جھیل شمالی منگولیا میں واقع ہے اور ملک کی سب سے بڑی میٹھے پانی کی جھیل ہے جو سردیوں میں برف بن جاتی ہے۔ 2 ہزار 6 سو 20 اسکوائر کلومیٹر کے رقبے پر واقع اس جھیل کو منگولیا کا نیلا موتی کہا جاتا ہے۔

    موسم سرما میں جب یہاں کا اوسط درجہ حرارت منفی 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی نیچے چلا جاتا ہے تب یہ جھیل سخت برف میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس وقت اس پر لوگ، جانور حتیٰ کہ گاڑیاں بھی سفر کرتی ہیں۔

    دن کے آغاز پر لوگ اس جھیل کو تعظیم پیش کرتے ہیں اس کے بعد اس پر اپنا سفر شروع کرتے ہیں، ان کے عقیدے کے مطابق تعظیم پیش کرنے کے بعد یہ جھیل سفر کے لیے محفوظ ہوجاتی ہے۔

    مارچ میں ملک کے دور دراز حصوں سے سفر کر کے لوگ یہاں پہنچتے ہیں اور سال کے سب سے مشکل وقت کے خاتمے کا جشن مناتے ہیں۔ دو روزہ اس جشن میں جھیل پر کئی مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں۔

    رات کے وقت ضیافت کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں گھوڑی کا دودھ اور مقامی پکوان پیش کیے جاتے ہیں۔ نہ صرف مقامی افراد بلکہ دنیا بھر سے سیاحوں کو بڑی تعداد اس جشن میں شامل ہونے کے لیے یہاں پہنچتی ہے۔

  • آسٹریلیا کی گلابی جھیل

    آسٹریلیا کی گلابی جھیل

    دنیا بھر میں پائی جانے والی جھیلیں اپنے محل وقوع کی وجہ سے کسی نہ کسی انفرادیت کی حامل ہوتی ہیں اور نہایت خوبصورت معلوم ہوتی ہیں، تاہم آسٹریلیا کی ایک جھیل دنیا کی منفرد ترین جھیلوں میں سے ایک ہے۔

    مغربی آسٹریلیا میں پائی جانے والی ہٹ لگون جھیل دنیا کی خوبصورت ترین جھیلوں میں سے ایک ہے کیونکہ اس جھیل کا رنگ گلابی ہے۔

    یہ دنیا کی واحد گلابی جھیل نہیں، دنیا بھر میں مختلف ممالک میں 8 گلابی جھیلیں پائی جاتی ہیں جن میں سے صرف آسٹریلیا میں 4 اور کینیڈا، افریقہ، اسپین اور آذر بائیجان میں ایک ایک گلابی جھیل موجود ہے۔

    آسٹریلیا کی یہ جھیل نمکین پانی کی ہے جس میں کیروٹینائڈ پیدا کرنے والی الجی پائی جاتی ہے۔ اس الجی کو فوڈ کلرنگ میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ یہ وٹامن اے کا بھی ذریعہ ہے، یہ الجی ہی اس جھیل کی گلابی رنگت کا سبب ہے۔

    ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں سیاح اور مقامی افراد اس جھیل کو دیکھنے آتے ہیں اور اس کے حسین مناظر سے دنگ رہ جاتے ہیں۔

    کیا آپ اس جھیل کی سیر کرنا چاہتے ہیں؟

  • پاکستان کی خوبصورت ترین جھیلیں

    پاکستان کی خوبصورت ترین جھیلیں

    پاکستان قدرتی وسائل اور فطری حسن سے مالا مال ایک خوبصورت ملک ہے۔ یہاں کے تمام علاقے اپنی علیحدہ جغرافیائی خصوصیات اور منفرد حسن رکھتے ہیں۔

    پاکستان کے شمالی علاقے خاص طور پر نہایت حسین ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقے سوات کو یورپی ملک سوئٹزر لینڈ کے ہم پلہ قرار دیا جاتا ہے۔

    اب چونکہ موسم گرما ہے اور تعطیلات بھی، تو بہت سے لوگ تفریحی مقامات پر گزارنے کا منصوبہ بناتے ہیں، اسی لیے آج ہم آپ کو پاکستان کی خوبصورت ترین جھیلوں کے بارے میں بتا رہے ہیں جہاں پر وقت گزارنا آپ کی تعطیلات کو نہایت یادگار اور شاندار بنا سکتا ہے۔


    سیف الملوک جھیل

    وادی کاغان میں واقع جھیل سیف الملوک سے بے شمار افسانے منسوب ہیں۔ کاغان کے علاقے ناران میں 10 ہزار 578 فٹ کی بلندی پر واقع اس جھیل کا شمار دنیا کی حسین ترین جھیلوں میں ہوتا ہے۔ صبح کے وقت ملکہ پربت اور دوسرے پہاڑوں کا عکس اس میں پڑتا ہے۔

    جھیل سیف الملوک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ رات کے وقت یہاں پریاں اترتی ہیں۔ اس کہاوت کا تعلق ایک لوک داستان سے ہے جس کے مطابق صدیوں قبل فارس کا شہزادہ جھیل پر رہنے والی پری کا دیوانہ ہوگیا۔ پری بھی اس کی محبت میں گرفتار ہوگئی۔

    پری کے تیر نظر کا شکار ایک دیو کو جب اس محبت کا پتہ چلا تو اس نے غصہ میں دونوں کو مار دیا۔ اس دن کے بعد سے رات کے وقت آسمان سے پریاں یہاں اترتی ہیں اور اپنی ساتھی کی موت پر روتی اور بین کرتی ہیں۔


    عطا آباد جھیل

    سنہ 2010 میں ایک بڑی لینڈ سلائیڈنگ سے وجود میں آنے والی عطا آباد جھیل گلگلت بلتستان کی وادی ہنزہ کے قصبہ گوجال میں واقع ہے۔ اس جھیل کا حسن اپنی مثال آپ ہے۔


    سدپارہ جھیل

    سدپارہ جھیل سطح سمندر سے 8 ہزار 5 سو فٹ کی بلندی پر اسکردو شہر سے کچھ دور واقع ہے۔ یہ خوبصورت جھیل میٹھے پانی سے لبریز ہے اور اس کے اطراف میں سنگلاخ چٹانیں ہیں۔

    یہ جھیل اسکردو کو پانی کی فراہمی کا ذریعہ بھی ہے۔


    شیوسر جھیل

    شیوسر جھیل گلگت بلتستان کے دیوسائی قومی پارک میں واقع ہے۔ یہ جھیل دنیا کی بلند ترین جھیلوں میں سے ایک ہے۔

    گہرے نیلے پانی، برف پوش پہاڑیوں، سرسبز گھاس اور رنگ برنگے پھولوں کے ساتھ یہ منفرد جھیل خوبصورتی میں بھی اپنی مثال آپ ہے۔


    دودی پت سر جھیل

    دودی پت سر صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع مانسہرہ کی وادی کاغان کے انتہائی شمال میں واقع ہے۔

    مقامی زبان میں دودی پت سر کے معنی دودھ جیسے سفید پانی والی جھیل کے ہیں، لیکن جھیل کا رنگ سفید نہیں نیلا ہے۔ درحقیقت اس سے ملحقہ برف پوش پہاڑوں کا پانی میں جھلکنے والا عکس اسے دور سے ایسا دکھاتا ہے جیسے دودھ کی نہر ہو۔


    لولوسر جھیل

    لولوسر جھیل مانسہرہ سے ساڑھے 300 کلومیٹر دور واقع ہے۔

    جھیل کا پانی شیشے کی طرح صاف ہے اور لولوسر کی برف سے ڈھکی پہاڑیوں کا عکس جب جھیل کے صاف پانی میں نظر آتا ہے تو دیکھنے والے انگشت بدانداں رہ جاتے ہیں۔


    لوئر کچورا جھیل

    لوئر کچورا جھیل جسے شنگریلا جھیل بھی کہا جاتا ہے پاکستان کی دوسری خوبصورت ترین جھیل ہے۔ اسکردو میں واقع اس جھیل کی گہرائی تقریباً 70 میٹر ہے۔ دریائے سندھ اس کے قریب ہی قدرے گہرائی میں بہتا ہے۔


    اپر کچورا جھیل

    اپر کچورا جھیل بھی اسکردو شہر سے 18 کلو میٹر کے فاصلے پر ساڑھے 7 ہزار فٹ کی اونچائی پر موجود ہے۔


    رتی گلی جھیل

    وادی نیلم میں واقع رتی گلی جھیل 12 ہزار 130 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ جھیل چاروں طرف سے گلیشیئرز میں گھری ہوئی ہے۔


    رش جھیل

    گلگت بلتستان میں واقع رش جھیل پاکستان کی بلند ترین جھیل ہے۔ یہاں تک رسائی کے لیے نگر اور ہوپر گلیشیئر کے راستوں سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے اور راستے میں نہایت ہی دلفریب مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔


    مہوڈنڈ جھیل

    مہوڈند جھیل کالام سے 40 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس جھیل میں مچھلیوں کی بہتات کی وجہ سے اسے مہوڈند جھیل یعنی مچھلیوں والی جھیل کہا جاتا ہے۔


    آنسو جھیل

    آنسو جھیل وادی کاغان میں جھیل سیف الملوک کے قریب واقع ایک چھوٹی سی جھیل ہے۔

    لگ بھگ 16 ہزار فٹ سے زائد بلندی پر واقع اس جھیل کو پانی کے قطرے جیسی شکل کی وجہ سے آنسو جھیل کا نام دیا گیا اور یہ دنیا کی خوبصورت ترین جھیلوں میں سے ایکہے۔


    کھنڈوعہ جھیل

    صوبہ پنجاب کی سوائیک جھیل جسے عام طور پر کھنڈوعہ جھیل کے نام سے پکارا جاتا ہے، ضلع چکوال اور تحصیل کلر کہار کے ایک خوبصورت پر فضا مقام پر واقع ہے۔

    پہاڑیوں کے درمیان میں چھپی اس جھیل تک پہنچنے کے لیے آپ کو ذرا اونچائی کا سفر کرنا ہوگا اور یہ سفر نہایت حسین مناظر پر مشتمل ہوگا۔ جھیل میں ایک قدرتی آبشار بھی موجود ہے جس کے ٹھنڈے پانیوں میں نہانا یقیناً زندگی کا شاندار لمحہ ہوگا۔


    ہالیجی جھیل

    صوبہ سندھ کے ضلع ٹھٹھہ سے قریب واقع ہالیجی جھیل کراچی سے 82 کلو میٹر کے فاصلے پر موجود ہے۔ ہالیجی جھیل کو دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی حکام نے محفوظ ذخیرہ آب کے طور پر تعمیر کیا تھا۔

    یہ ایشیا میں پرندوں کی سب سے بڑی محفوظ پناہ گاہ ہے۔


    کینجھر جھیل

    سندھ کی ایک اور کینجھر جھیل جو عام طور پر کلری جھیل کہلاتی ہے کراچی سے 122 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔

    یہ پاکستان میں میٹھے پانی کی دوسری بڑی جھیل ہے اور ٹھٹہ اور کراچی میں فراہمی آب کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ یہ جھیل بے شمار پرندوں کا مسکن بھی ہے۔


    منچھر جھیل

    منچھر جھیل پاکستان میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے۔ یہ دریائے سندھ کے مغرب میں واقع ضلع دادو میں موجود ہے۔ اسے دنیا کی سب سے قدیم جھیل بھی کہا جاتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پنجاب کی خوبصورت کھنڈوعہ جھیل کی سیر کریں

    پنجاب کی خوبصورت کھنڈوعہ جھیل کی سیر کریں

    پاکستان قدرتی حسن سے مالا مال ایک خوبصورت ملک ہے اور اس کا یہ حسن صرف شمالی علاقہ جات تک محدود نہیں، پورے ملک میں جا بجا قدرت کے حسین نظارے بکھرے پڑے ہیں۔

    چاہے سندھ کے صحرا ہوں، بلوچستان کی سنگلاخ پہاڑیاں ہوں، یا پنجاب کے لہلہاتے کھیت، سب ہی کچھ نہایت حسین اور قدرت کی خوبصورت صناعی کا عکاس ہے، اور خیبر پختونخواہ کے علاقے تو دنیا بھر میں اپنی خوبصورتی اور منفرد محل وقع کی وجہ سے مشہور ہیں۔

    پاکستان میں خوبصورت قدرتی مقامات کی بہتات کا یہ عالم ہے کہ ابھی تک کئی ایسے مقامات ہیں جو نظروں میں نہیں آسکے جس کی وجہ سے انہیں باقاعدہ سیاحتی مقام قرار نہیں دیا جاسکا ہے۔

    انہی میں سے ایک پنجاب کی سوائیک جھیل بھی ہے جسے عام طور پر کھنڈوعہ جھیل کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

    کھنڈوعہ ضلع چکوال اور تحصیل کلر کہار کا ایک خوبصورت پر فضا مقام ہے جہاں ایک خوبصورت جھیل اور سیر گاہ بھی ہے۔

    یہ کلر کہار سے 8 کلو میٹر، چکوال سے 36 کلومیٹر، اور اسلام آباد سے 114 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس مقام تک لاہور اور اسلام آباد کو ملانے والی ایم 2 موٹر وے پر سفر کر کے پہنچا جا سکتا ہے۔

    پہاڑیوں کے درمیان میں چھپی اس جھیل تک پہنچنے کے لیے آپ کو ذرا اونچائی کا سفر کرنا ہوگا اور یہ سفر نہایت حسین مناظر پر مشتمل ہوگا۔

    سرسبز پہاڑیوں کے بیچ جھیل کا شفاف پانی دیکھ کر آپ خود کو کسی اور ہی جہاں میں محسوس کریں گے۔

    جھیل میں ایک قدرتی آبشار بھی موجود ہے جس کے ٹھنڈے پانیوں میں نہانا یقیناً زندگی کا شاندار لمحہ ہوگا۔

    یہاں آنے والے افراد کلر کہار میں قیام کرتے ہیں اور دن کے اوقات میں جھیل پر آتے ہیں جہاں وہ ڈائیونگ اور تیراکی سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔

    پھر اگلی تعطیلات میں آپ بھی جارہے ہیں اس خوبصورت مقام پر؟


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مقبوضہ کشمیر کے نوجوان خوبصورت جھیلوں کو بچانے کے لیے کوشاں

    مقبوضہ کشمیر کے نوجوان خوبصورت جھیلوں کو بچانے کے لیے کوشاں

    سرینگر: مقبوضہ کشمیر کا علاقہ بے شمار خوبصورت جھیلوں کا مجموعہ ہے، تاہم بڑھتی ہوئی آبادی، کوڑا کرکٹ اور دیگر مختلف مسائل ان جھیلوں کا حسن تباہ کر رہے ہیں۔

    جھیلوں کے ان حسن کو بحال کرنے کے لیے دو کشمیری نوجوانوں نے قدم آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

    ان میں سے ایک جنت ہے جس کی عمر صرف 5 سال ہے۔ جنت کا گھر ڈل جھیل پر بنا ہوا ہے۔ اسے ڈل جھیل بے حد پسند ہے لیکن ساتھ ہی ڈل میں بڑھتی ہوئی آلودگی اسے دلبرداشتہ کر دیتی ہے، چنانچہ اس نے خود پہلا قدم اٹھانے کا سوچا۔

    جنت ہر روز اسکول سے آنے کے بعد کشتی میں جھیل پر چلی جاتی ہے اور جس قدر کچرا وہ سمیٹ سکتی ہے، اتنا کچرا جھیل سے نکال لاتی ہے۔

    ڈل جھیل اپنی خوبصورتی کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے، تاہم اس خوبصورت جھیل کو دو بڑے خطرات لاحق ہیں۔

    مقبوضہ کشمیر میں بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ زمینوں پر کاشت کاری کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں جھیل کے قریب زمین کو بھی زیر استعمال لایا جارہا ہے جس سے جھیل مختصر ہوتی جا رہی ہے۔

    دوسرا خطرہ اسے سیوریج سے لاحق ہے۔ ڈل جھیل میں روزانہ 11 ملین سیوریج مختلف نالوں کے ذریعے پھینکا جارہا ہے جو اس جھیل کو بے حد آلودہ کر رہا ہے۔

    ڈل جھیل سے 50 میل دور 18 سالہ نوجوان بلال احمد اپنے گھر کے قریب واقع خوبصورت وولر جھیل کو بچانے کے لیے کوشاں ہے۔

    وولر جھیل آس پاس کے علاقوں کو پینے کا پانی فراہم کرتی ہے لیکن دوسری طرف مقامی آبادیوں کا سیوریج بھی اسی جھیل میں ڈالا جاتا ہے۔

    وولر جھیل میں بڑی تعداد میں بید مجنوں کے درخت بھی اگائے جارہے ہیں جن کی لکڑی مختلف لکڑی کی مصنوعات بنانے اور ایندھن فراہم کرنے کے کام آتی ہے۔

    بید مجنوں کا درخت اگانے کے لیے نم مٹی ضروری ہے چنانچہ اسے جھیل کے اندر اگایا جارہا ہے۔ یہ درخت مختلف جانوروں خصوصاً کتے اور بلیوں کے لیے نہایت زہریلا ہوتا ہے چنانچہ وولر جھیل میں اب ہر طرف جانوروں کی لاشیں بکھری پڑی ہیں۔

    جنت اور بلال کا کہنا ہے کہ یہ جھیلیں نہ صرف ان کے علاقے کی خوبصورتی کا باعث ہیں بلکہ انہیں پینے کا پانی بھی فراہم کرتے ہیں، چنانچہ لوگوں کو اس میں کوڑا کرکٹ پھینکنے کے بجائے ان کی حفاظت کرنی چاہیئے اور ان کا خیال رکھنا چاہیئے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • گھوڑے کی نعل جیسی انوکھی آبشار

    گھوڑے کی نعل جیسی انوکھی آبشار

    چین میں مون سون کی بارشوں نے گھوڑے کے نعل جیسی انوکھی آبشار تشکیل دے ڈالی۔ منفرد آبشار کو دیکھنے کے لیے ہزاروں سیاح یہاں کا رخ کر رہے ہیں۔

    چین کے صوبہ ہیلوزی آنگ میں جگ پو جھیل کی آبشار طوفانی بارشوں کے باعث الگ ہی انداز سے بہنے لگی۔

    پانی کی بہتات اور تیز رفتاری کے باعث اب یہ آبشار کسی گھوڑے کے نعل جیسی دکھائی دیتی ہے۔

    بلند و بالا پہاڑوں پر موجود اس آبشار کا یہ خوبصورت قدرتی نظارہ سنہ 2013 میں بھی دکھائی دیا تھا جب بارشوں کے بعد یہاں سیلاب آگیا اور پانی کی سطح بلند ہوگئی تھی۔

    عموماً یہ آبشار سارا سال عام سے انداز میں بہتی ہے۔

    اس خوبصورت آبشار کو دیکھنے کے لیے ہزاروں ملکی و غیر ملکی سیاح یہاں کا دورہ کر رہے ہیں۔ وہ خود کو خوش قسمت سمجھ رہے ہیں جو اس قدر منفرد نظارہ دیکھ سکے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • گوئٹے مالا کی خوبصورت جھیل بنجر زمین میں تبدیل

    گوئٹے مالا کی خوبصورت جھیل بنجر زمین میں تبدیل

    گوئٹے مالا سٹی: وسطی امریکی ملک گوئٹے مالا میں اٹسٹمپا نامی خوبصورت جھیل موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث بنجر زمین میں تبدیل ہوگئی اور اب خشک پتھریلی زمین وقت کا نوحہ پڑھ رہی ہے۔

    یہ جھیل کلائمٹ چینج کے تباہ کن اثرات کا ناقابل تردید ثبوت ہے جو کسی زمانے میں اس علاقے کا حسن تھی۔

    پہاڑوں کے دامن میں پھیلی نیلے پانیوں کی یہ خوبصورت جھیل آہستہ آہستہ مر رہی ہے۔ اس جھیل میں جن 2 دریاؤں سے پانی آتا تھا وہ دریا سکڑ چکے ہیں جس کے باعث جھیل کو پانی کی فراہمی بے حد کم ہوچکی ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج کے باعث دریا کا رخ تبدیل

    گوئٹے مالا کا یہ علاقہ کلائمٹ چینج ہی کی وجہ سے گزشتہ برس خشک سالی کی زد میں رہا جس نے پانی کے ان ذخائر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

    یہ حصہ ایل نینو کی وجہ سے بھی متاثر ہوا جو سال 2015 سے شروع ہو کر 2016 کے وسط تک رہا۔ ایل نینو بحر الکاہل کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث پوری دنیا کے موسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    یہ عمل ہر 4 سے 5 سال بعد رونما ہوتا ہے جو گرم ممالک میں قحط اور خشک سالیوں کا سبب بنتا ہے جبکہ یہ کاربن کو جذب کرنے والے قدرتی ’سنک‘ جیسے جنگلات، سمندر اور دیگر نباتات کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے جس کے باعث وہ پہلے کی طرح کاربن کو جذب نہیں کرسکتے۔

    گوئٹے مالا اور جنوبی و وسطی امریکا کے کئی ممالک کا ساحل بحر الکاہل سے متصل ہے جس کے باعث یہ ممالک ایل نینو سے خوفناک حد تک متاثر ہوتے ہیں۔

    ذریعہ روزگار بھی تباہ

    گوئٹے مالا کی ان جھیلوں اور دریاؤں نے خشک ہو کر اس علاقے کے ذریعہ روزگار کو بھی ختم کردیا ہے۔ یہاں 3 مرکزی ذرائع روزگار تھے جو براہ راست آبی ذخائر سے تعلق رکھتے ہیں۔

    ایک ماہی گیری، یہاں کے لوگ ان دریاؤں سے مچھلی پکڑ کر روزگار کماتے تھے۔ دوسرا زراعت، جس کے لیے پانی انہی دریاؤں سے آتا تھا۔

    تیسرا ذریعہ روزگار یہاں کی سیاحت تھا۔ خشک ہونے والی خوبصورت جھیل اپنے مسحور کن محل وقوع کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی تھی جو علاقے کی معیشت کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوتے تھے۔

    تاہم کلائمٹ چینج کے ان اثرات نےمقامی آبادی کے ذرائع روزگار کو ختم کر کے انہیں غربت کی وادی میں دھکیل دیا ہے۔

    حکومت کی جانب سے مقامی آبادی کو یہاں سے منتقل ہونے پر زور دیا جارہا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ضدی ہنس کی وجہ سے ٹرین تاخیر کا شکار

    ضدی ہنس کی وجہ سے ٹرین تاخیر کا شکار

    پاکستان میں بسوں، ٹرینوں حتیٰ کہ ہوائی جہازوں کا بھی وقت مقررہ سے تاخیر کا شکار ہونا معمول کی بات ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہم پاکستانی اس کے عادی ہوچکے ہیں۔

    لیکن مغربی دنیا میں ایسا ناممکن ہے۔ مغربی دنیا کی ترقی کی ایک وجہ وہاں کی ٹرینوں، بسوں، مختلف امور اور لوگوں کا وقت کا پابند ہونا بھی ہے اور شاذ و نادر ہی وہاں کوئی تاخیر کا شکار ہوتا ہے۔

    لیکن لندن میں ایک ٹرین اسٹیشن پر مسافر اس وقت سخت جھنجھلاہٹ کا شکار ہوگئے جب ان کی مطلوبہ ٹرین رفتار پکڑنے سے معذور ہوگئی۔ اس کی وجہ یہ تھی ٹرین کے سامنے ایک ہنس چہل قدمی کر رہا تھا۔

    یہ ہنس جسے لوگوں نے ضدی ہنس کا نام دیا، نہایت آہستہ روی سے ٹریک پر چہل قدمی کرتا رہا اور اس دوران ٹرین کے مسافر تاخیر ہونے کے خیال سے پریشانی کا شکار ہوتے رہے۔

    ایک بے صبرے مسافر نے اپنے لیپ ٹاپ سے اس ہنس کو وہاں سے ہٹانے کی کوشش کی لیکن ہنس نے اپنی چہل قدمی نہ روکی۔

    بالآخر اسٹیشن کی انتظامیہ حرکت میں آئی اور ایک اہلکار نے ہنس کو پکڑ کر جھیل میں چھوڑا۔ جب ٹرین کے چلنے کی صورت پیدا ہوئی تو پریشان کھڑے مسافروں کی جان میں جان آئی اور اس کے بعد انہوں نے اس غیر متوقع صورتحال پر ہنسنا شروع کردیا۔

    بعد ازاں اسٹیشن کی انتظامیہ نے ٹوئٹر پر مزاحیہ ٹوئٹ کیا کہ جھیل میں جانے سے قبل ہنس نے ٹرین کو تاخیر کا شکار کرنے پر ہم سے معذرت طلب کی ہے۔

  • قدیم ترین جھیل پر تیرتا تباہی کا شکار قبیلہ

    قدیم ترین جھیل پر تیرتا تباہی کا شکار قبیلہ

    جامشورو: سندھ کے ضلع جامشورو میں واقع منچھر جھیل پاکستان کے بڑے آبی ذخائر میں سے ایک ہے۔ اس جھیل میں پانی کا ذریعہ مون سون کی بارشیں ہیں۔

    اس جھیل کی موجودگی کے بارے میں کوئی حتمی تاریخ موجود نہیں لیکن یہ جھیل موہن جودڑو اور ہڑپہ کی تہذیبوں سے بھی قدیم ہے، گویا دنیا کی قدیم ترین جھیلوں میں سے ایک ہے۔

    لیکن تاریخ میں اہم مقام رکھنے والی یہ جھیل اس وقت تباہی و بربادی کا شکار ہے۔

    تاریخی ورثہ برباد ہوچکا؟

    ستر کی دہائی میں سندھ کے مختلف شہروں سے بڑی بڑی نکاسی آب کی لائنیں اور نہریں نکال دی گئیں جو ان شہروں کا فضلہ، صنعتوں کا زہریلا پانی اور زراعت میں استعمال کیے جانے والے زہریلے کیمیائی مواد سے بھرپور باقیات کو اس جھیل میں لانے لگیں۔

    اسی طرح دریائے سندھ کے کناروں کو قابل کاشت بنانے کے لیے وہاں سے نمکین پانی بھی اسی جھیل میں ڈالا جانے لگا۔ یہ کام رائٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (آر بی او ڈی) سسٹم کے ذریعہ کیا جارہا تھا۔

    گو کہ بعد ازاں فیصلہ کیا گیا کہ دریائے سندھ کا نمکین پانی بحیرہ عرب میں بہا دیا جائے لیکن فنڈز کی کمی کے باعث یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا اور یہ پانی منچھر جھیل کو آلودہ اور زہریلا کرتا رہا۔

    lake-7

    سنہ 1990 میں کیے جانے والے ایک تحقیقاتی تجزیے سے پتہ چلا کہ جھیل کا پانی نمکین پانی، کیمیائی مواد اور فضلے کی آمیزش کی وجہ سے زہریلا ہوچکا ہے اور پینے کے قابل نہیں رہا۔ یہاں کی آبی حیات اور پودے مر چکے ہیں یا ان کی تعداد میں خطرناک کمی آچکی ہے جبکہ اس پانی سے زراعت بھی ممکن نہیں رہی۔

    جھیل کی آلودگی کے باعث ہجرت کر کے آنے والے پرندوں نے بھی یہاں آنا چھوڑ دیا۔

    پاکستان فشر مین فورم کے مصطفیٰ میرانی جو اس جھیل کو بچانے کے لیے سرگرداں ہیں، کہتے ہیں کہ دریائے سندھ پر بنائے جانے والے بڑے بڑے ڈیمز نے بھی جھیل میں صاف پانی کی فراہمی کو منقطع کردیا۔

    جھیل کی لہروں پر تیرتا قبیلہ

    اس جھیل کی ایک اور خوبصورتی یہاں آباد موہانا قبیلہ ہے جن کے گھر جھیل میں تیرتی کشتیوں پر آباد ہیں۔ یہ لوگ کئی نسلوں سے انہی کشتیوں پر رہ رہے ہیں۔

    lake-6

    lake-5

    کشتیوں پر رہنے والے یہ لوگ پیشے کے اعتبار سے ماہی گیر ہیں اور ان کا واحد ذریعہ روزگار مچھلیاں پکڑنا ہے۔

    لیکن برا ہو صنعی ترقی اور زراعت میں استعمال کیے جانے والے کیمیائی مادوں کا جن کی وجہ سے نہ صرف جھیل کا پانی بلکہ جھیل کی ہر شے زہریلی ہوچکی ہے۔

    ان ہی میں ایک ماہی گیر محمد یوسف پرانے دنوں کو یاد کر کے آزردہ ہوتا ہے جب ان لوگوں کی زندگی بہت خوبصورت اور خوشحال تھی۔ محمد یوسف کے لیے اب اس جھیل پر زندگی ناقابل برداشت ہوگئی ہے۔

    مزید پڑھیں: سمندر کنارے پیاسا گاؤں اور غربت کا عفریت

    وہ کہتا ہے، ’کچھ عرصہ پہلے زندگی بہت خوبصورت تھی۔ یہاں ہر قسم کی مچھلیاں دستیاب تھیں اور ہماری آمدنی بہت اچھی تھی‘۔

    وہ بتاتا ہے کہ جب اس کے والد شکار پر جایا کرتے تھے تو وہ کئی کلو مچھلی لے کر آتے تھے۔ ’لیکن اب صورتحال بدل گئی ہے۔ اب خراب پانی کی وجہ سے مچھلی ختم ہوگئی ہے‘۔

    یوسف اپنی والدہ، بیوی اور 9 بچوں کے ساتھ لکڑی سے بنی ناؤ پر رہتا ہے اور یہ جھیل اس کا گھر ہے۔

    lake-3

    یوسف اور اس جیسے بے شمار لوگ لکڑی سے بنی ان کشتیوں میں کئی نسلوں سے مقیم ہیں۔ کشتی کے اوپر بنائے گئے چھپر پر ان لوگوں کے کپڑے اور دیگر اشیائے ضروریہ موجود ہوتی ہیں۔ کھانا پکانے کے لیے کشتی کے کنارے پر ایک مٹی کا چولہا موجود ہے جس میں آبی پودوں سے آگ جلائی جاتی ہے۔

    lake-2

    یوسف نے بتایا کہ گرمیوں میں وہ چھپر کے اوپر جبکہ سردیوں میں کشتی کے اندر سوتے ہیں۔

    اس کی کشتی کے اندر دو جھولے بھی موجود ہیں۔ ایک کے اندر یوسف کا 40 دن کا بیٹا سوتا ہے جبکہ دوسرے کے اندر قرآن رکھا گیا ہے۔

    لیکن کئی نسلوں سے آباد یہ قبیلہ بھی اب اپنے خاتمے کے دہانے پر ہے۔ مصطفیٰ میرانی کے مطابق یہاں موجود افراد کی تعداد نصف ہوچکی ہے۔

    وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ چھوٹے تھے تب یہاں 400 کے قریب کشتیاں موجود تھیں جن پر ان کا قبیلہ آباد تھا۔ ان لوگوں کا کھانا پینا، سونا، حتیٰ کہ شادیاں بھی انہی کشتیوں پر انجام پاتی تھیں۔

    لیکن اب غربت کے باعث لوگ اپنی کشتیوں کی مرمت نہیں کروا پاتے جس کے باعث ان کی کشتیاں خستہ حال ہوگئی ہیں۔ مجبوراً انہیں اپنے آبائی مقام کو چھوڑ کر خشکی پر گھر بسانے پڑ رہے ہیں۔

    lake-4

    اب بمشکل ایک درجن کشتیاں ہیں جو جھیل پر تیر رہی ہیں۔

    خشکی پر قابل رحم زندگی

    خشکی پر گھر بسانے والوں میں سے ایک ضعیف شخص سائیں داد ہے جس کی کشتی ٹوٹ پھوٹ کر منچھر کی گہرائیوں کا حصہ بن چکی ہے۔ سائیں داد کنارے پر گھاس پھونس سے بنے جھونپڑے میں رہتا ہے۔

    سائیں داد کا کہنا ہے، ’ہمارے پاس پینے یا دیگر ضروریات کے لیے پانی نہیں ہے۔ ہمارے پاس کھانا پکانے کے لیے برتن تک نہیں اور کسی کو اس کی فکر نہیں‘۔

    سائیں داد کے بیٹے قریبی شہروں میں روزگار کی تلاش میں جا چکے ہیں جہاں وہ زیادہ تر بندرگاہ پر مختلف کام سر انجام دے رہے ہیں۔

    اس خوبصورت جھیل نے تیزی سے رونما ہوتی صنعتی ترقی کا تاوان اپنی استعداد سے زیادہ ادا کیا ہے۔ نہ صرف یہ جھیل بلکہ اس پر قائم یہ نایاب قبیلہ بھی اپنے زوال کی طرف گامزن ہے۔ بقول میرانی، ’یہ جھیل خدا کا تحفہ تھی۔ مگر اب اس جھیل کی خوبصورتی برباد ہوچکی ہے‘۔

  • عالمی فورم پر بھارت کی جانب سے پاکستانی پروجیکٹ مسترد

    عالمی فورم پر بھارت کی جانب سے پاکستانی پروجیکٹ مسترد

    سیئول: بھارت نے گرین کلائمٹ فنڈ کی میٹنگ میں پاکستان کا کلائمٹ چینج (موسمیاتی تغیر) سے متعلق پروجیکٹ مسترد کردیا۔ بھارتی نمائندے نے منصوبے کو ناقص قرار دیتے ہوئے دیگر تمام منصوبوں کے لیے حمایت ظاہر کردی۔

    جنوبی کوریا کے شہر سونگ ڈو میں گرین کلائمٹ فنڈ کی میٹنگ میں بھارت نے انتہائی درجے کا تعصب برتتے ہوئے پاکستان کی جانب سے پیش کیے جانے والے پروجیکٹ کو مسترد کردیا۔

    گرین کلائمٹ فنڈ اقوام متحدہ کے کلائمٹ چینج معاہدے کا حصہ ہے جس کے تحت امیر ممالک موسمیاتی تغیر کے نقصانات کا شکار ہونے والے غیر ترقی یافتہ ممالک کی مالی امداد کرتے ہیں۔ یہ امداد موسمیاتی تغیر کے اثرات سے نمٹنے والے پروجیکٹ کی فنڈنگ کی صورت میں کی جاتی ہے۔

    حکومت کا گلیشیئرز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے اہم اقدام *

    پروجیکٹ کی منظوری دینے والے بورڈ میں ایشیا پیسیفک کی نمائندگی کرنے والے 3 رکن ممالک بھارت، چین اور سعودی عرب شامل ہیں۔ بھارت میں وزارت خزانہ کے معاون خصوصی دنیش شرما اس بورڈ میں بھارت کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

    دنیش شرما نے پاکستان کی جانب سے پیش کیے جانے والے پروجیکٹ کو ناقص اور ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔ اس پروجیکٹ پر گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے ہمالیائی علاقے میں عمل درآمد کیا جانا تھا جس میں موسمیاتی تغیر سے پیدا ہونے والے خطرات سے نمٹنے کے اقدامات کیے جانے تھے۔

    flood-2

    بورڈ کے سینیئر ارکان کی جانب سے استفسار پر دنیش شرما نے بتایا کہ انہوں نے پاکستان کی جانب سے پیش کیے جانے والے منصوبے میں تکنیکی خرابیاں پائیں اور وہ کسی صورت فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتا تھا۔

    انہوں نے مختلف ممالک کی جانب سے پیش کیے جانے والے دیگر منصوبوں کو قابل عمل قرار دیتے ہوئے ان کے لیے اپنی حمایت ظاہر کی۔

    تاہم بورڈ کے دیگر ارکان نے اس معاملے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تغیر کے اثرات سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کی زیادہ سے زیادہ امداد کرنے کی ضروت ہے۔ ’یہاں ہمیں انفرادی طور پر اپنے قومی مفادات کا تحفظ نہیں کرنا چاہیئے۔ ہم سب یہاں دنیا کو کلائمٹ چینج کے خطرات سے بچانے کے لیے بیٹھے ہیں‘۔

    ارکان کی متفقہ رائے تھی کہ بھارتی نمائندے بے شک پروجیکٹ پر شرائط عائد کردیتے لیکن اس کی منظوری دے دیتے، بدقسمتی سے انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

    دنیش شرما نے پروجیکٹ میں موجود متعدد تکنیکی خرابیوں کو اپنی مخالفت کی وجہ قرار دیا۔ انہیں پیشکش کی گئی کہ وہ پاکستانی ماہرین سے مل کر اس پروجیکٹ میں تبدیلیاں کروا کر پروجیکٹ کو قابل عمل بنا سکتے ہیں۔

    تاہم انہوں نے پروجیکٹ کو بالکل ہی ناقابل عمل قرا دے کر جواز پیش کیا کہ وہ یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ متعصب نہیں، پاکستانی ماہرین سے مل سکتے ہیں، لیکن وہ جانتے ہیں کہ اس منصوبے میں مزید کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔

    شمالی علاقوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں اضافہ *

    پاکستان کی جانب سے پیش کیا جانے والا پروجیکٹ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کے تعاون سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جانا تھا۔ پروجیکٹ میں آزاد کشمیر کے شمالی علاقوں میں شدید سیلابوں سے بچاؤ کے اقدامات کیے جانے تھے۔

    یہ سیلاب گلیشیئر والی جھیلوں میں اس وقت آتے ہیں جب جھیل میں موجود پانی کو ذخیرہ کرنے والا سسٹم (جو عموماً کوئی ڈیم ہوتا ہے) اسے روکنے میں ناکام ہوجائے اور یہ پانی سیلاب کی شکل میں باہر آ کر قریبی آبادیوں کو نقصان سے دو چار کرے۔

    flood-3

    اس قسم کے سیلابوں کا سلسلہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں سارا سال جاری رہتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر یہ پروجیکٹ منظور ہوجاتا تو 7 لاکھ کے قریب افراد کو آئندہ سیلابوں سے تحفظ فراہم کیا جاسکتا تھا۔