Tag: جہیز

  • جہیز کا لالچ ایک اور معصوم کی جان لے گیا، ملزم گرفتار

    جہیز کا لالچ ایک اور معصوم کی جان لے گیا، ملزم گرفتار

    بھارت کے امروہہ میں ایک انتہائی افسوسناک واقعہ رونما ہوا، جہیز کے لالچ نے ایک اور معصوم بیٹی کی جان لے لی۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق حسن پور کے علاقے کی رہائشی 23 سالہ گلفشا کی شادی ایک سال قبل بڑے دھوم دھام سے ہوئی تھی، شادی کے بعد سسرال والوں نے اس پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا کہ وہ اپنے والدین کے گھر سے 10 لاکھ روپے نقد اور ایک کار لے کر آئے۔

    رپورٹس کے مطابق لڑکی کے گھر والوں نے الزام عائد کیا کہ مانگ پوری نہ ہوئی تو شوہر پرویز اور اس کے گھر والوں نے ظلم و زیادتی کی انتہا کر دی۔ چند روز قبل گلفشا کو زبردستی تیزاب پلا دیا گیا جس کے بعد اس کی حالت نازک ہو گئی۔ اسے فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ 17 دن تک زندگی اور موت کے درمیان جدوجہد کرتی رہی۔

    گزشتہ رات علاج کے دوران گلفشا جان کی بازی ہار گئی، افسوسناک واقعہ کے بعد پولیس حرکت میں آئی اور ملزم شوہر پرویز کو گرفتار کرلیا، پولیس کے مطابق دیگر سسرالی رشتہ داروں کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے اور تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔

    اس سے قبل بھارت کے گجرات میں نوجوان نے سوشل میڈیا پر بلاک کرنے پر اپنی گرل فرینڈ کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق نوجوان اور لڑکی کے درمیان پہلے بھی محبت کا رشتہ قائم تھا۔ تاہم لڑکی نے حال ہی میں اس سے دوری اختیار کرکے اس کا نمبر بلاک کر دیا تھا۔ اس بات سے ناراض ہو کر نوجوان نے اس پر حملہ کر دیا۔

    رپورٹس کے مطابق لڑکی مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی۔ تاہم نوجوان نہیں چاہتا تھا کہ لڑکی بھج میں رہ کر مزید تعلیم حاصل کرے، لڑکے کی خواہش تھی کہ لڑکی گاندھی دھام واپس آجائے۔

    قتل کی اندوہناک واردات شام کے وقت انجام دی گئی، لڑکی کالج سے فارغ ہوکر مزید اسٹڈی کے لیے ہاسٹل جا رہی تھی۔ ایسے میں نوجوان نے اسے فون کیا اور ملنے کے لیے بلایا۔

    دادا نے کالا جادو کے دوران اپنے پوتے کو مار ڈالا

    رپورٹس کے مطابق لڑکی نے گاندھی دھام کا علاقہ چھوڑ دیا تھا اور مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھج چلی گئی۔ نوجوان کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ وہ لڑکی کو بار بار فون کرتا رہا اور اسے گاندھی دھام واپس آنے پر اصرار کرتا رہا، جب بات نہ بنی تو اس نے لڑکی کو ملاقات کے لیے بلایا اور چاقو کے وار سے اسے قتل کردیا۔

  • منہ مانگا جہیز نہ دینے پر سسرالیوں نے بہو کو ’’ایڈز‘‘ کا ٹیکا لگا دیا

    منہ مانگا جہیز نہ دینے پر سسرالیوں نے بہو کو ’’ایڈز‘‘ کا ٹیکا لگا دیا

    بھارت میں حوا کی بیٹی کے ساتھ ایک اور غیر انسانی سلوک سامنے آیا ہے جہاں من پسند جہیز نہ ملنے پر سسرالیوں نے بہو کو جان لیوا وائرس ایڈز کا انجکشن لگا دیا۔

    بھارت میں جہاں اقلیت کے ساتھ ہندو خواتین بھی ظلم کا شکار ہیں اور وہاں آئے دن جہیز اور دیگر معاملات پر خواتین کو قتل، زندہ جلانے سے واقعات سامنے آتے ہیں۔ اب ایسا خوفناک واقعہ پیش آیا ہے جس نے سننے والوں کے دل دہلا دیے ہیں۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق یہ غیر انسانی واقعہ ریاست اترپردیش میں پیش آیا جہاں سونال سائنی نامی خاتون کو اس کے سسرالیوں نے صرف اس وجہ سے ’’ایڈز متاثرہ انجکشن‘‘ لگا کر زندہ درگور کر دیا کہ اس کے والدین نے منہ مانگا جہیز نہیں دیا تھا۔

    رپورٹ کے مطابق متاثرہ خاتون کے والد نے اپنے داماد اور اس کے گھر والوں کے خلاف مقدمہ درج کرایا ہے۔

    متاثرہ خاتون کے والد کا کہنا ہے کہ انہوں نے 2023 میں اپنی بیٹی سونال سائنی کی شادی اتراکھنڈ کے رہائشی ابھیشیک سے کی تھی اور شادی کے موقع پر دلہے کے خاندان کو جہیز میں ایک کار اور 15 لاکھ روپے نقد ادا کیے تھے۔

    مقدمہ کے مدعی کے بتایا کہ داماد اور سسرالیوں نے کچھ عرصہ بعد بیٹی کو میکے بھیج کر ایک گاڑی اور 25 لاکھ روپے کا مطالبہ کر دیا۔ پنجایت کی مداخلت کے بعد لڑکی کو واپس اپنے سسرال میں بھیج دیا لیکن سسرالیوں نے مطالبہ پورا نہ ہونے پر ان کی بیٹی پر ذہنی اور جسمانی تشدد کیا۔

    سونال کے والدین نے کہا کہ ان کی بیٹی کو سسرالیوں نے ایڈز (ایچ آئی وی) سے آلودہ انجکشن لگا کر زندہ درگور کر دیا ہے۔ بیٹی کی طبعیت خراب ہونے پر جب اس کا ٹیسٹ کرایا تو ایچ آئی وی پازیٹو آیا جب کہ داماد کا ٹیسٹ نگیٹو آیا۔

    لڑکی کے خاندان نے پولیس کو شکایت درج کرائی، لیکن لڑکے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ یہ شکایت جب مقامی عدالت میں پہنچی تو عدالت کے حکم پر پولیس نے ابھیشک اور اس کے گھر والوں کے خلاف جہیز کے مطالبے، ہراسیت، تشدد اور اقدامِ قتل سمیت کئی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔

     

  • ’’دلہن لاتی ہے بارات، دولہا کو ملتا ہے جہیز‘‘ یہ انوکھی شادی کہاں ہوتی ہے؟

    ’’دلہن لاتی ہے بارات، دولہا کو ملتا ہے جہیز‘‘ یہ انوکھی شادی کہاں ہوتی ہے؟

    بارات ہمیشہ دولہا لاتا ہے لیکن ایک جگہ ایسی بھی ہے جہاں بارات دلہن لاتی ہے جب کہ جہیز دولہا کو دیا جاتا ہے۔

    شادی کی یہ غیر روایتی رسومات بھارت کے علاقے جھارکھنڈ کے آدیواسی کمیونٹی میں رائج ہے اور اس کو برصغیر میں رائج شادی کی روایات کے بالکل الٹ کہا جا سکتا ہے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق آدیواسی کمیونٹی میں دلہن بارات لے کر آتی ہے جب کہ دولہا کو جہیز دیا جاتا ہے اور یہ روایت برسوں سے اب تک قائم ہے۔

    دولہا والے دلہن کے خاندان کو جہیز کے طور پر تحائف اور نقد رقم دیتے ہیں۔ کم سے کم ایک جوڑا بیل، گائے اور کم سے کم 101 روپے نقد رقم کنیا دھن کے طور پر دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دولہا کے رشتہ دار کچھ اور دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔

    اس حوالے سے مذکورہ کمیونٹی کے ہیرا نامی شخص کا کہنا ہے کہ ہماری برادری میں خواتین کو عزت اور بلند درجہ دیا جاتا ہے۔ اس لیے شادی میں یہ رسمیں بھی انہیں عزت اور احترام دینے کے لیے کی جاتی ہیں۔

    https://urdu.arynews.tv/valentines-day-proposing-on-her-will-result-in-jail/

  • ’بیٹی ہے یا کوئی سزا؟‘ اداکار عاصم محمود نے جہیز کیخلاف آوازبلند کردی

    ’بیٹی ہے یا کوئی سزا؟‘ اداکار عاصم محمود نے جہیز کیخلاف آوازبلند کردی

    پاکستان کے معروف اداکار عاصم محمود نے جہیز اور لڑکی والوں کی جانب سے کیے جانے والے اضافی شادی کے اخراجات کے خلاف مہم شروع کی ہے۔

    فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام ہر اداکارہ عاصم محمود نے اسٹوری پوسٹ کی ہے جس میں انہوں نے معاشرے میں جہیز کے نام پر لڑکی والوں کے غیر ضروری اخراجات کے خلاف آواز بلند کی ہے۔

    اداکار نے اسٹوری میں لکھا کہ لڑکی والوں کو 30 لاکھ کا جہیز، 5 لاکھ کا کھانا، دلہا کی گھڑی، انگوٹھی، پھر ولیمے کے بعد ہونے والے مکلاوے کا کھانا، ولیمے کے دن کا ناشتہ، بیٹی کے ساتھ سسرالیوں کے کپڑے بھیجنا پڑتے ہیں۔

    اداکار عاصم محمود نے لکھا کہ جب دلہا والے بارات واپس لے کر جارہے ہوتے ہیں تو انہیں باراتیوں کو واپسی پر کھانا بھی بھیجا جاتا ہے، یہ ’بیٹی ہے یا پھر کوئی سزا؟‘۔

    اداکار نے صارفین کو بھی جہیز کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے کہا اور ایک اسٹوری میں لکھا کہ اگر آپ میرے ساتھ ہیں تو میری اسٹوریز کو ری پوسٹ کریں، انہوں نے اسٹوری میں ’say no to Dowry‘ کے ہیش ٹیگ کا استعمال کیا ہے۔

  • جہیز کا مطالبہ سامنے آنے پر دلہا دلہن شادی کی تقریب سے بھاگ کھڑے ہوئے

    جہیز کا مطالبہ سامنے آنے پر دلہا دلہن شادی کی تقریب سے بھاگ کھڑے ہوئے

    بھارت کے شہر بنارس میں لڑکے کے گھر والوں نے جہیز کا مطالبہ پورا نہ کرنے پر شادی سے انکار کردیا، جس پر دلہا اور دلہن تقریب چھوڑ کر فرار ہوگئے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ واقعہ بنارس شہر میں پیش آیا جہاں تقریب کے دوران دولہے والوں نے دلہن والوں سے جہیز کا مطالبہ کیا اور اس کے علاوہ بھی کچھ مطالبات پیش کئے۔

    لڑکی کے گھر والوں نے جہیز کا مطالبہ پورا کرنے سے انکار کیا تو لڑکے والوں نے شادی رکوادی، تاہم ایک دوسرے سے پیار کرنے والے دلہا اور دلہن نے خاندان کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا اور تقریب چھوڑ کر فرار ہوگئے۔

    دوسری جانب بھارت کی ریاست تلنگانہ میں افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں لڑکے نے شادی کی پیشکش ٹھکرانے پر لڑکی کو موت کے گھات اتار دیا۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق 23 سالہ مقتولہ کی شناخت شیتپلی الیکھیا کے نام سے ہوئی جسے خانپارہ میں سریکانت نامی ملزم نے کلہاڑی کے وار کر کے قتل کیا۔

    مقتولہ خانپارہ مارکیٹ سے اپنی بھابھی اور بھانجے کے ساتھ شاپنگ کر کے گھر لوٹ رہی تھی کہ اس کا سامنا سریکانت سے ہوا۔ ملزم نے کچھ روز قبل مقتولہ کو شادی کی پیشکش کی تھی لیکن لڑکی نے انکار کیا تھا۔

    ملزم نے مارکیٹ میں کلہاڑی کے وار سے لڑکی کو قتل کیا جبکہ اس کی بھابھی اور بھانجے کو بھی شدید زخمی کیا۔شیتپلی کے والدین نے اس کی شادی کہیں اور طے کی تھی اور اسی سلسلے میں وہ شاپنگ کر رہی تھی۔

    بھارت: 70سالہ شخص نے 6 سال کی بچی کو بھی نہ بخشا

    پولیس نے ملزم کے خلاف مقدمہ درج کر کے معاملے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا۔ ملزم کی گرفتاری کیلیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

  • جہیز ایک لعنت : مہنگائی میں متوسط طبقہ کیا کرے؟

    جہیز ایک لعنت : مہنگائی میں متوسط طبقہ کیا کرے؟

    شادی کا بندھن صرف لڑکے اور لڑکی کے تعلق کا ہی نام نہیں بلکہ یہ رشتہ دو خاندانوں کے درمیان نئے تعلق کو جنم دیتا ہے۔

    دُنیا کے ہرخطے میں شادی کے موقع پر مخصوص رسم و رواج کو پورا کرنے کا خاص طور پر اہتمام کیا جاتا ہے اگر کسی بھی خطے میں ہونے والی شادی میں ان رسومات کو پورا نہ کیا جائے تو شادی کو ادھورا سمجھا جاتا ہے۔

    ان ہی رسومات میں جہیز بھی خاص اہمیت کا حامل ہے ہمارے معاشرے میں ویسے تو سب لوگ جہیز کو معیوب کہتے ہیں لیکن عملی طور پر اسے مانگنا یا لینا برا نہیں سمجھتے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں رشتے کروانے والی خاتون (میچ میکر) شازیہ رحمان نے شرکت کی اور جہیز سے متعلق رشتوں میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے بارے میں ناظرین کو آگاہ کیا۔

    انہوں نے کہا کہ جہیز لینے اور دینے کے بارے میں جیسے پہلے سوچا جاتا تھا آج بھی وہی صورتحال ہے بس فرق صرف اتنا ہے کہ طریقہ واردات بدل گیا ہے، یعنی جہیز مانگنے کا انداز نیا اپنا لیا گیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں امیر ہو یا غریب سب ہی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں اور کسی نہ کسی بہانے سے اپنی بات دوسرے کے کانوں تک پہنچا دیتے ہیں۔

    شازیہ رحمان نے بتایا کہ صرف لڑکے والے نہیں بلکہ لڑکی والے بھی اپنی شرائط رکھتے ہیں کہ ہماری لڑکی جوائنٹ فیملی میں نہیں رہے گی یا ہنی مون منانے کہاں لے کر جائیںگے۔

    اس موقع پر اسلامی نظریاتی کونسل کے سینئر ریسرچر مفتی غلام ماجد نے جہیز کی لعنت کے حوالے سے شرعی اور آئینی قوانین پر روشنی ڈالی۔

    انہوں نے بتایا کہ جہیز کا قانون 1976 میں بنایا گیا اس قانون میں تین موضوعات بیان کیے ہیں پہلا جہیز دوسرا دلہن کے تحائف و ملبوسات اور تیسرا شادی کے مجموعی اخراجات، جس کیلئے چند ہزار روپے مختص کیے گئے ہیں۔

    اس قانون کو تمام فریقین نے پسند کیا لیکن بد قسمتی سے اس پر عمل درآمد کوئی نہیں کرتا، انہوں نے کہا کہ امیر طبقہ اگر اپنے بچوں کی اس طرح سادگی سے شادیاں کرے تو ممکن ہے کہ اس عمل سے معاشرے میں شادیاں کرنا آسان ہوجائے گا، بصورت دیگر یہ مسئلہ حل نہیں ہو پائے گا۔

  • جہیز میں موٹر سائیکل نہ دینے پر سسرال والوں نے بہو کو زندہ جلادیا

    جہیز میں موٹر سائیکل نہ دینے پر سسرال والوں نے بہو کو زندہ جلادیا

    جہیز کی فرسودہ رسم عرصہ دراز سے چلی آرہی ہے، امیر گھرانے سے لے کر غریب طبقے تک ہر کوئی اس رسم کو نبھاتا چلا جاتا ہے، کہیں کم  تو کہیں زیادہ لیکن ہر صورت ماں باپ اپنی بیٹی کو جہیز دے کر ہی رخصت کرتے ہیں۔

    لیکن آج کے دور میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو کم جہیز آنے پر اسے اپنی شان اور عزت کے خلاف سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے ظلم اور تشدد جیسے جرائم جنم لے رہے ہیں۔

    ایسی ہی ایک ظلم بھارت کی ریاست راجستھان کے سوائی مادھو پور میں پیش آیا ہے جہاں ایک گاؤں میں سسرال والوں نے مبینہ طور پر جہیز کے مطالبہ پر اپنی بہو کو زندہ جلا دیا۔

    دولہے کو جہیز میں موٹرسائیکل مانگنا مہنگا پڑگیا، ویڈیو وائرل

    اس واقع کی اطلاع ملنے پر  مذکورہ لڑکی کو اسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان کی بازی ہار گئی۔

     پولیس کے مطابق  متاثرہ لڑکی کے والد نے رپورٹ درج کروائی جس میں بتایا گیا ہےکہ لڑکی کی شادی 6 ماہ قبل ہوئی تھی ۔

    والد نے بیان میں کہا کہ ‘ میں نے اپنی بیٹی کو ضرورت کی تمام چیزیں دی تھیں،  لیکن سسرال والوں نے مزید ایک موٹرسائیکل اور 50 ہزار روپے کا مطالبہ کرتے ہوئے میری بیٹی کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا جس کے بعد میری بیٹی کو  زندہ جلا دیا۔

    اطلاعات کے مطابق مذکورہ  لڑکی  کے سسرال والوں پر قتل کا مقدمہ درج کردیا گیا ہے جبکہ  لڑکی کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے بعد لواحقین کے حوالے کر دیا گیا۔

  • جہیز: اپر چترال کے عوام کا بڑا فیصلہ

    جہیز: اپر چترال کے عوام کا بڑا فیصلہ

    چترال: اپر چترال کے عوام نے جہیز سے بائیکاٹ کا فیصلہ کر لیا ہے، لڑکی کے گھر والوں سے جہیز مانگنے والوں کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق اپر چترال کے گاؤں لاسپور کے رہائشیوں نے شادی میں جہیز سے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے۔ علاقے کے بزرگوں نے ایک جرگہ منعقد کر کے جہیز کے غیر ضروری رواج کو ختم کرنے پر اتفاق کیا، اور ایک متفقہ قرار داد پیش کر کے اسے متفقہ طور پر منظور کر لیا۔

    علاقے کے بزرگوں نے فیصلہ کیا ہے کہ شادی میں دلہن کے گھر والوں سے کوئی مطالبہ نہیں کیا جائے گا، اور لڑکے کے گھر والے بھی غیر ضروری اخراجات کا بوجھ نہیں اٹھائیں گے۔

    قرارداد میں کہا گیا کہ مہنگائی سے لوگ پہلے ہی سے پریشان ہیں، شای بیاہ کے دعوت میں کھانوں پر کم سے کم خرچہ کیا جائے گا، فضول خرچی سے گریز کیا جائے گا، اور جو لڑکی کے گھر والوں سے جہیز کا مطالبہ کرے گا اس سے سماجی بائیکاٹ کیا جائے گا۔

    لاسپور سے تعلق رکھنے والے سید صاحب جان نے بتایا کہ جہیز اور غیر ضروری اخراجات کی وجہ سے والدین اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے پریشان رہتے ہیں، بہت سے ایسی لڑکیاں ہیں جن کی رخصتی جہیز کے لیے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہو پاتیں۔

    انھوں نے کہا جب کسی کی بیٹی کا رشتہ طے ہو جاتا ہے تو پھر لڑکے کے گھر والے اتنے ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ لڑکی کے گھر والوں کو وہ پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا، لڑکی کے گھر والوں سے جہیز کا مطالبہ کرنا غیر اسلامی اور غیر اخلاقی ہے۔

    صاحب جان کا کہنا تھا کہ اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ کوئی لڑکی کے گھر والوں سے جہیز کا مطالبہ نہیں کرے گا، ہم نے اس فرسودہ روایت کو اب ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو بھی لڑکی کے گھر والوں سے جہیز کا مطالبہ کرے گا، اور جو اس قرار داد کی خلاف ورزی کرے گا، اس سے ہم بائیکاٹ کریں گے۔

    علاقہ مکینوں نے ضلعی انتظامیہ سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ جرگے کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے تعاون کرے۔

  • جہیز میں لڑکے کے والدین نے ایسی چیزیں مانگ لیں، جس سے لڑکی والے دنگ رہ گئے

    جہیز میں لڑکے کے والدین نے ایسی چیزیں مانگ لیں، جس سے لڑکی والے دنگ رہ گئے

    مہاراشٹر: بھارت میں جہیز میں لڑکے کے والدین نے ایسی عجیب و غریب چیزیں مانگ لیں، جس سے لڑکی والے دنگ رہ گئے، مجبوراً لڑکی والوں نے پولیس کے پاس شکایت درج کرا دی۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست مہاراشٹر کے شہر اورنگ آباد میں دو خاندانوں کے درمیان ایک طے شدہ شادی کا معاملہ اس بات پر خراب ہو گیا، کہ لڑکے والوں کی جانب سے اچانک عجیب و غریب چیزوں کی فرمائش ہونے لگی۔

    لڑکے کے والدین نے مطالبہ کیا کہ لڑکی والے جہیز کے طور پر 21 ناخنوں والا کچھوا اور مخصوص نسل کا سیاہ کتا بھی دیں۔

    خیال رہے کہ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی بیٹی کا رشتہ اچھے خاندان میں طے ہو، اسی بات کے پیش نظر اورنگ آباد کے ایک کاروباری نے اپنی بیٹی کا رشتہ ناسک کے ایک ریٹائرڈ فوجی کے بیٹے سے طے کیا، اور 2 لاکھ روپے جہیز کی رقم اور ایک بُلیٹ موٹر سائیکل پر باہمی رضامندی ہوگئی۔

    تاہم لڑکی کے والد کا الزام ہے کہ رشتہ طے ہونے کے بعد لڑکے والوں کی مانگ بڑھتی گئی، جس میں رقم کے علاوہ عجیب وغریب مطالبات شامل تھے، لڑکی کے والد کے دعوے کے مطابق لڑکے والوں نے جہیز میں 21 ناخنوں والا کچھوا اور مخصوص نسل کا کالا کتا بھی مانگ لیا۔

    عجیب و غریب مطالبات سے پریشان ہو کر لڑکی والے پولیس اسٹیشن پہنچ گئے، اور انھوں نے عثمان پورہ تھانے میں ایف آئی آر درج کرا دی، جس پر پولیس یہ تفتیش کر رہی ہے کہ ملزمان نے عجیب وغریب مطالبہ کیوں کیا؟ کہیں جادو ٹونا اس کی وجہ تو نہیں، یا پھر رشتہ طے نہ ہونے کی صورت میں لڑکی والوں کی طرف سے بے بنیاد الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔

  • بیٹی کے جہیز میں 50 تکیوں اور 40 رلیوں کی کہانی

    بیٹی کے جہیز میں 50 تکیوں اور 40 رلیوں کی کہانی

    رحمت بی بی کی جھونپڑی میں آج گویا عید کا دن تھا، صرف ایک ان کی جھونپڑی کیا آس پاس کی تمام جھونپڑیوں میں ایک ہلچل مچی ہوئی تھی کیونکہ آج رحمت بی بی کی سب سے بڑی بیٹی شادی ہو کر رخصت ہونے جارہی تھی۔

    شادی کے لیے رحمت بی بی نے اپنی حیثیت کے مطابق بہت کچھ جوڑ لیا تھا۔ وہ سامان جو مستقبل میں نہ صرف ان کی بیٹی بلکہ اس کے نئے گھر والوں کے بھی کام آنا تھا۔ کپڑے، برتن، ڈھیروں سجانے کی اشیا جو سب ہاتھ سے کڑھی ہوئی تھیں، ہاتھ کے پنکھے اور اس تمام سامان کو رکھنے کے لیے لوہے کے صندوق (جنہیں پیٹی بھی کہا جاتا ہے)۔ رحمت بی بی کا ایک بیٹا شہر میں ملازمت کرتا تھا سو ان کی حیثیت دیگر گاؤں والوں کے مقابلے میں کچھ بہتر تھی لہٰذا وہ بیٹی کو جہیز میں ایک عدد بکری بھی دے رہی تھیں۔ اور سب سے اہم چیز جو سب کو دکھانے کے لیے سامنے ہی رکھی تھی، 50 عدد تکیے۔

    یہ 50 عدد تکیے وہ اہم شے تھی جس کی تیاری رحمت بی بی اور ان کے گاؤں کی ہر ماں بیٹی کے پیدا ہونے کے ساتھ ہی شروع کردیتی تھی۔ کراچی کے علاقے گڈاپ ٹاؤن کی حدود میں واقع اس گاؤں مٹھو گوٹھ میں بیٹی کی شادی میں اور کچھ ہو یا نہ ہو مگر 50 تکیے لازمی تھے۔

    جہیز میں دیے گئے سامان پر ہاتھ سے کشیدہ کاری کی جاتی ہے

    مٹھو گوٹھ صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ کی قدرتی سرحد یعنی کیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں ایک پہاڑ پر آباد ہے۔ اس گاؤں میں تقریباً 100 گھر ہیں اور ہر گھر میں 8 سے 10 افراد موجود ہیں جن میں سے نصف تعداد خواتین کی ہے۔

    گاؤں کا انحصار زراعت پر ہے، یہاں چھوٹے پیمانے پر گندم، گوار اور مختلف سبزیاں اگائی جاتی ہیں جو نہ صرف ان گاؤں والوں کے اپنے کام آتی ہیں بلکہ اسے شہر میں لے جا کر فروخت بھی کیا جاتا ہے۔ گاؤں والوں نے مویشی بھی پال رکھے ہیں جن میں زیادہ تعداد بکریوں کی ہے، ان کا دودھ بھی شہر میں فروخت کیا جاتا ہے۔ تاہم اس سب کا انحصار بارش پر ہے۔ گاؤں میں پانی کا کوئی خاص انتظام موجود نہیں، بارش ہوتی ہے تو ہی ان کی فصلوں کو پانی ملتا ہے، اور جانور چارہ کھا سکتے ہیں۔ جس سال بارش کم ہو، اس سال یہاں خشک سالی ہوجاتی ہے اور یہاں کے لوگ عارضی طور پر ہجرت کر کے کسی دوسرے گاؤں یا شہر کے قریب جا رہتے ہیں، لیکن بارشیں ہوتے ہی واپس اپنے گاؤں مٹھو گوٹھ آجاتے ہیں۔

    ایک مٹھو گوٹھ ہی کیا سندھ کے طول و عرض میں آباد مختلف ذاتوں، قبیلوں اور برادریوں میں جہاں مختلف روایات دیکھنے کو ملتی ہے، انہی میں ایک روایت بیٹی کو جہیز میں ڈھیروں ڈھیر بستر دینا بھی ہے، البتہ یہ روایت پورے سندھ کی برادریوں میں نہیں ہے۔

    جن برادریوں میں یہ رواج ہے وہاں کم از کم 20 سے 30 کے قریب کڑھی ہوئی چادریں، تکیے اور رلیاں (کپڑے کے ٹکڑے جوڑ کر بنایا گیا متنوع رنگوں کا سندھ کا روایتی بچھونا) دی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہاتھ سے تیار سجاوٹ کی ایسی اشیا جو دیوار پر آویزاں کی جاسکیں، ازار بند اور پہننے کے لیے کڑھے ہوئے کپڑے ان کے علاوہ ہوتے ہیں۔

    تاہم بستروں پر اس قدر زور کیوں؟ اس بارے میں اندرون سندھ کی زندگی کو قریب سے دیکھنے والی پرھ قاضی نے اپنی معلومات سے آگاہ کیا، پرھ اندرون سندھ کام کرنے والی مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ منسلک رہ چکی ہیں۔

    پرھ کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ تو سندھ کی مہمان نوازی ہے، سندھ دھرتی کی مہمان نوازی جو بیرون ملک سے آنے والوں کو بھی اپنائیت سے سرشار کردیتی ہے، سندھ کے رہنے والوں کی سادہ سی زندگی کا اہم حصہ ہے۔ سندھ کے لوگ اپنے گھر آنے والوں کی بے انتہا آؤ بھگت کرتے ہیں۔ بہترین پکوان جو گھر کے شاندار برتنوں میں سرو کیا جاتا ہے، تمام وقت مہمان کا خیال رکھنا (جس میں بجلی نہ ہو تو انہیں پنکھا جھلنا بھی شامل ہے)، رات سونے کے لیے نئے بستر بچھانا، اور وقت رخصت مہمانوں کو روایتی تحائف دینا سندھ کے لوگوں کا خاصہ ہے۔

    رحمت بی بی نے بیٹی کے جہیز کے لیے ڈھیروں بستر تیار کیے

    خاندانوں کا اکثر ایک دوسرے سے ملنے کے لیے جانا اور رات قیام کرنا عام بات ہے اور یہی وجہ ہے کہ ڈھیروں بستر ہر گھر کی ضرورت ہیں۔ اکثر گھروں میں اسی حساب سے چارپائیاں بھی رکھی جاتی ہیں جن پر بچھانے کے لیے چادریں اور تکیے درکار ہوتے ہیں جبکہ فرشی نشست کی صورت میں بھی یہی سامان درکار ہے۔ ایسے میں اگر بہو کے جہیز کے بستر مہمانوں کو بھلے لگیں اور وہ اس کی تعریف کردیں تو نہ صرف سسرال والوں کا سر فخر سے اونچا ہوجاتا ہے بلکہ گھر میں بہو کی اہمیت میں بھی مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔

    پرھ نے بتایا کہ ایک رجحان جسے بظاہر ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے وہ رخصتی سے قبل جہیز کی نمائش کرنا ہے تاکہ ہر شخص دیکھ سکے کہ ماں باپ نے اپنی بیٹی کو کیا کیا دیا ہے۔ ’برادری والے باقاعدہ سوال پوچھتے ہیں کہ کتنے جوڑے دیے ہیں، کتنے بھرے ہوئے (کڑھائی والے)، اور کتنے سادہ ہیں، کتنی رلیاں ہیں، کتنے تکیے ہیں۔ ایسے میں جب بتایا جاتا ہے کہ 40 رلیاں ہیں، یا 50 تکیے، تو نہ صرف بتانے والے والدین کا سینہ چوڑا ہوجاتا ہے بلکہ سسرال والے بھی فخر سے اتراتے ہیں کہ دیکھو ہماری بہو اتنا کچھ لے کر آرہی ہے‘۔

    بیٹی کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کے جہیز کی تیاری کرنا، بظاہر والدین کے کندھوں پر بوجھ لگتا ہے، لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ پرھ نے بتایا کہ بیٹی کو شادی کر کے رخصت کرنے تک ایک بھاری ذمہ داری سمجھنا تو برصغیر پاک و ہند میں عام ہے، لیکن اگر اس خاص پس منظر میں جہیز کی تیاری کی بات کی جائے تو یہ ذمہ داری سے زیادہ والدین اور خصوصاً ماں کے لیے وقت گزاری کا ذریعہ بھی ہے۔

    ان کے مطابق گھر کے تمام کاموں سے فرصت پا کر کڑھائی اور کشیدہ کاری کرنا دیہی سندھ کی خواتین کا خصوصی مشغلہ ہے۔ یہ ان کے لیے ایک سماجی تفریح بھی ہے کیونکہ کڑھائی کرنے اور سیکھنے کے بہانے دو چار گھروں کی خواتین ایک گھر میں جمع ہوجاتی ہیں، اس دوران گپ شپ اور کھانے پینے کا سلسلہ چلتا ہے جبکہ ایک سے ایک کشیدہ کاری کے نمونے بھی تیار ہوجاتے ہیں۔ دن کے اختتام پر جب سارا کام سمیٹا جاتا ہے تو ماں اس نئے تیار شدہ سامان کو ایک محفوظ جگہ رکھ دیتی ہے اور سوچتی ہے کہ یہ بیٹی کی شادی میں کام آئے گا۔ اور صرف جہیز پر ہی کیا موقوف، اس بیٹھک کے دوران گھر کی سجاوٹ کی اشیا اور گھر کے مردوں کے لیے کڑھے ہوئے ازار بند بھی بنائے جاتے ہیں جو چند دن بعد ہی استعمال میں لے لیے جاتے ہیں۔

    سلائی کڑھائی کرنا گاؤں کی خواتین کے لیے مل بیٹھنے کا ایک بہانہ ہے

    سینئر صحافی اور محقق اختر بلوچ اس بارے میں کہتے ہیں کہ جہیز میں بستروں کا یہ رواج سندھ کی ثقافت کا ایک حصہ ہے جو والدین اور بیٹی دونوں کے لیے خوشی کا باعث ہے۔ چونکہ دیہی سندھ میں جہیز کا سامان بازار سے خریدنے کے بجائے اپنے ہاتھ سے تیار کیا جاتا ہے لہٰذا یہ سہل بھی لگتا ہے اور خوشی بھی فراہم کرتا ہے۔

    ان کے مطابق گھر میں اگر بہت مہمان زیادہ آجائیں تو پڑوس کے گھروں سے بھی بستر یا چارپائیاں ادھار لے لی جاتی ہیں، ایسے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں کے گھر کی رلیاں بہت اچھی ہیں یا فلاں کے گھر کے تکیے بہت خوبصورت ہیں، یہ تعریف اس سامان کے مالکوں کی خوشی میں بے پناہ اضافہ کردیتی ہے۔

    گھریلو استعمال کی بھی کئی اشیا ہاتھ سے بنائی اور سجائی جاتی ہیں

    سندھ کی ثقافت پر عبور رکھنے والے سینئر صحافی امر گرڑو بتاتے ہیں کہ سندھ کا ایک قبیلہ باگڑی اپنی ہر شادی میں ہزاروں مہمانوں کو مدعو کرتا ہے، اتنے مہمانوں کے قیام کے لیے اتنے ہی بستروں کی ضرورت ہے، اب ہر گھر میں سو یا 200 بستر بھی ہوں تو میزبانوں کا کام چل جاتا ہے۔

    ان کے مطابق شہر اور گاؤں کے درمیان فاصلہ ہونا ایک ایسی وجہ ہے جس کے باعث شہری سندھ کے لوگوں کو دیہی سندھ کے باسیوں کی کئی عادات نامانوس لگتی ہیں۔ گاؤں کے لوگ جب شہر جاتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اشیائے ضرورت خرید کر اسٹاک کرلیں تاکہ بار بار اتنی دور کا سفر نہ کرنا پڑے، ایسے میں مہمانوں کی آمد کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے کہ اچانک مہمان آجائیں تو کسی شے کی کمی نہ ہو۔ بہت زیادہ تعداد میں بستر جمع کرنا بھی اسی عادت کا حصہ ہے۔

    امر نے بتایا کہ سندھ کی یہ روایت کچھ علاقوں میں ہے، جہیز کے حوالے سے پورے سندھ میں مختلف روایات دیکھنے کو ملیں گی۔ سندھ کی ایک برادری ایسی ہے جو بیٹی کو جہیز میں کچھ نہیں دیتی، تھر میں جوگیوں کا قبیلہ بیٹی کو جہیز میں سانپ دیتا ہے۔ سندھ کے مختلف علاقوں کے جغرافیائی حالات، وہاں کا ماحول اور آب و ہوا وہاں رہنے والوں کی ثقافت و روایات پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، شہر والوں کے لیے جو روایت بہت اجنبی ہوسکتی ہے وہ کسی دوسرے سندھی قبیلے یا سندھی برادری کے لیے بھی اتنی ہی اجنبی ہوسکتی ہے کیونکہ ان کے درمیان جغرافیے کا فرق ہے۔