Tag: جہیز

  • 95 سالہ خاتون نے 100 سالہ سابق شوہر سے جہیز واپس مانگ لیا

    95 سالہ خاتون نے 100 سالہ سابق شوہر سے جہیز واپس مانگ لیا

    لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں 95 سالہ معمر خاتون، طلاق کے 35 برس بعد اپنے 100 سالہ سابق شوہر سے جہیز واپس لینے کے لیے عدالت پہنچ گئیں۔

    100 سالہ بابا اسماعیل

    تفصیلات کے مطابق لاہور کی فیملی کورٹ میں جہیز واپسی کا انوکھا کیس دائر کردیا گیا، 95 سالہ معمر خاتون نے اپنے 100 سالہ شوہر سے جہیز واپسی کا دعویٰ دائر کردیا۔

    دستاویزات کے مطابق میں بابا اسماعیل کی شادی تاج بی بی کے ساتھ سنہ 1960 میں ہوئی، جوڑے میں 35 برس قبل طلاق ہوگئی۔ اب طلاق کے 35 سال بعد تاج بی بی نے جہیز واپسی کا دعویٰ دائر کردیا ہے۔

    نوٹس ملنے پر بابا اسماعیل وکیل کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ تاج بی بی کا دعویٰ جھوٹا ہے، سنہ 1960 میں تاج بی بی کو خالی ہاتھ بیاہ کر لایا تھا۔

    بابا اسماعیل کے ساتھ، ان کے نکاح کے ایک 85 سالہ بزرگ گواہ بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ نکاح میرے سامنے ہوا تھا، تاج بی بی اپنے ساتھ جہیز نہیں لائی تھیں۔

    وکیل نے عدالت میں پیشی سے قبل کہا کہ تاج بی بی کی جانب سے وہ چیزیں مانگی گئی ہیں جو اس وقت (سنہ 1960 میں) پاکستان میں کم ہی میسر تھیں، عدالت اس جھوٹے دعوے کو خارج کرے۔

  • پنجاب اسمبلی میں جہیز کے خاتمے کی قرارداد جمع

    پنجاب اسمبلی میں جہیز کے خاتمے کی قرارداد جمع

    لاہور: پنجاب اسمبلی میں جہیز کے خاتمے کے مطالبے کی قرارداد جمع کروادی گئی، قرارداد میں جہیز کی سرکاری سطح پر حد مقرر کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی رکن عظمیٰ زاہد بخاری نے جہیز کے خاتمے کے مطالبے کی قرارداد پنجاب اسمبلی میں جمع کروائی۔

    قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ جہیز جیسی لعنت کا اسلام میں کوئی تصور نہیں، جہیز کی سرکاری سطح پر ایک حد مقرر کی جائے۔

    قرارداد میں کہا گیا کہ جو جہیز کا مطالبہ کریں ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ برس خیبر پختونخواہ اسمبلی نے صوبے میں جہیز اور شادی میں نمود و نمائش و فضول اخراجات پر پابندی کے قانون کی منظوری دی تھی۔

    قانون کے مطابق شوہر کی طرف سے دیا جانے والا تحفہ بیوی کی ملکیت قرار دیا گیا جبکہ جبکہ دلہن کے گھر والں پر بھی ایک لاکھ سے زائد مالیت کا تحفہ دینے پر پابندی لگائی گئی۔

    قانون کے مطابق جہیز مانگنے پر 3 لاکھ روپے جرمانہ یا 3 ماہ قید جبکہ خلاف ورزی کرنے پر 2 لاکھ روپے جرمانہ یا 2 ماہ کی قید ہوگی جبکہ منظوری کے بعد شوہر کی طرف سے دیا جانے والا تحفہ واپس مانگنے پر شوہر کو 2 لاکھ روپے جرمانہ یا 3 ماہ کی قید ہوگی۔

  • جہیز کے بدلے لالچی شوہر نے دھوکے سے اہلیہ کا گردہ ہی فروخت کردیا

    جہیز کے بدلے لالچی شوہر نے دھوکے سے اہلیہ کا گردہ ہی فروخت کردیا

    نئی دہلی : جہیز نہ لانے پر شوہر نے دھوکہ دہی کے ذریعے اہلیہ کا گردہ نکلوا کر فروخت کردیا.

    تفصیلات کے مطابق مغرقی بنگال کے رہائشی لالچی شوہر نے چند روپوں کی خاطر اپینڈکس کے آپریشن کا بہانہ بنا کر اپنی اہلیہ کا گردہ نکال کر فروخت کردیا تاہم دو سال بعد حقیقت معلو ہونے پر 28 سالہ ریتا سرکار نے اپنے شوہر کے خلاف مقدمہ درج کرادیا.

    پولیس نے مقدمہ درج کرنے کے بعد شوہر اور دیور کو حراست میں لے لیا ہے اور دھوکہ دہی، غیر قانونی طور پر گردے کی فروخت اور جہیز طلب کرنے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا ہے.

    ریتا کماری نے پولیس کو دیئے گئے بیان میں بتایا کہ میری شادی 2008 میں ہوئی تھی جس کے بعد سے اب تک میرا شوہر جہیز زیادہ نہ لانے پر طعنے دیا کرتا تھا اور مجھے کبھی کبھی تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑتا تھا.

    ریتا کماری نے مزید بتایا کہ دو سال قبل میرے پیٹ میں شدید درد اُٹھا جسے اپینڈکس کا درد بتا کر میرے شوہر اور دیور نے آپریشن کرانے کی غرض سے اسپتال میں داخل کرایا اور اہل خانہ میں سے کسی کو آپریشن سے متعلق آگاہ کرنے سے منع کردیا.

    ریتا کماری کے والد کا کہنا تھا کہ چند روز قبل بیٹی کی طبعیت ناساز ہوئی تو مقامی اسپتال لے کر گئے جہاں انکشاف ہوا کہ ریتا کا گردہ نکالا جا چکا ہے جس پر ہم دو سال قبل اپینڈکس کا آپریشن جہاں ہوا تھا وہاں گئے لیکن کوئی سنوائی نہیں ہوئی.

    ریتا کماری کے والد کا مزید کہنا تھا کہ شادی کے وقت میں نے بیٹی کو ایک لاکھ اسی ہزار نقد اور اپنی حیثیت کے مطابق سونا اور چاندی دیا تھا لیکن لالچی داماد اور اس کے گھر والوں اسے ناکافی قرار دیتے ہوئے بیٹی پر تشدد کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا.

    خیال رہے کہ بھارت میں جہیز کی نہ ختم ہونے والی لعنت نے ہزاروں خواتین کی جان لے لی ہے اور سسرال والوں کے تشدد سے کئی خواتین کے زخمی ہونے کی اطلاعات آئے دن موصول ہوتی رہتی ہیں.


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • جہیز ایک لعنت ہے۔۔ مگر؟

    جہیز ایک لعنت ہے۔۔ مگر؟

    برصغیر پاک و ہند میں تقریباً ہر عورت نے اپنی نوجوانی میں اپنی بزرگ خواتین سے ایک جملہ ضرور سنا ہوگا، ’جو عورت سسرال میں جتنا زیادہ اور بھاری بھرکم جہیز لے کر جاتی ہے، وہ اتنی ہی زیادہ عزت سے رہتی ہے‘۔

    پرانے زمانوں کی لڑکیاں جب شادی ہو کر گئیں تو انہیں بذات خود اس بات کا تجربہ بھی ہوگیا۔ اس کے بعد اسی سوچ کو انہوں نے اپنی اگلی نسلوں میں بھی منتقل کرنا شروع کیا۔

    پھر اکیسویں صدی آئی۔ 90 کی دہائی تک پیدا ہونے والوں نے یہ جملہ اپنے بچپن میں ضرور سنا ہوگا تاہم پھر وقت بدلتا گیا، تعلیم سے واقعتاً لوگوں نے شعور بھی حاصل کرنا شروع کردیا۔

    پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب ہم نے سنا، کہ جہیز ایک لعنت ہے اور اس سلسلے میں خاص طور پر لڑکوں اور ان کے اہل خانہ کے تصور کو بدلنے کا سلسلہ چل نکلا کہ بغیر جہیز کے بھی آپ اپنا بیٹا بیاہ سکتے ہیں، آخر اس کی شادی کر رہے ہیں، اسے بھاری بھرکم جہیز کے عوض فروخت تو نہیں کر رہے۔

    گوکہ صورتحال اب پہلی جیسی بدترین اور بدنما تو نہیں رہی، تاہم کم تعلیم یافتہ علاقوں میں آج اکیسویں صدی میں بھی یہ حال ہے کہ غریب والدین جہیز دینے کی استطاعت نہ رکھنے کے باعث اپنی بیٹیوں کی شادی نہیں کر پاتے۔

    تاہم چند روز قبل پیشہ ورانہ مصروفیات کے سلسلے میں ایک دورے کے دوران یہ لعنت ایک لازمی رسم کی طرح رائج دیکھنے میں آئی جس نے سوچنے پر مجبور کردیا کہ کیا چند ہزار روپوں کی بے جان اشیا انسانی زندگیوں سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے؟

    مزید پڑھیں: دیہی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی

    کراچی سے 120 کلومیٹر کے فاصلے پر نوری آباد سے قبل واقع ایک علاقہ کوہستان، (جی ہاں ایک کوہستان سندھ میں بھی واقع ہے) دور تک پھیلے صحرا پر مشتمل ایک علاقہ ہے، جہاں سورج اپنی بھرپور تپش کے ساتھ نہایت ہی نامہرباں معلوم ہوتا ہے جب تک کہ آپ کو سر کے اوپر کوئی سایہ دار جگہ میسر نہیں آجاتی۔

    سندھ کے دیگر صحرائی علاقوں کی طرح اس صحرا میں بھی لوگ آباد ہیں۔ دور دور واقع چھوٹے چھوٹے گاؤں اور کمیونٹیز کی صورت میں، اور بنیادی سہولیات سے بالکل محروم لوگ، جن کی حالت زار دیکھ کر انسانیت پر سے بھروسہ اٹھنے لگتا ہے۔

    اس علاقے میں 34 کے قریب گاؤں آباد ہیں جن میں سے ایک گاؤں کا نام حاجی شفیع محمد ہے۔ گاؤں والوں نے مہمانوں کے لیے ایک پکا تعمیر کردہ گھر مختص کر رکھا ہے جو پورے گاؤں کا سب سے اعلیٰ تعمیر کردہ مکان تھا۔ خواتین سے بات چیت ہوئی تو وہی اذیت ناک صورتحال سامنے آئی کہ نہ پانی ہے، نہ بجلی، نہ طبی امداد دینے کے نام پر کوئی چھوٹی موٹی ڈسپنسری یا ڈاکٹر۔

    ان خواتین کی زندگیوں کا سب سے بڑا مقصد دور دراز علاقوں میں واقع پانی کے ذخیروں سے گھر کی ضروریات کے لیے پانی بھر کر لانا تھا۔ 3 سے 5 کلو میٹر تک جانا اور پانی کو بڑے بڑے ڈرموں یا برتنوں میں اٹھا کر پھر واپس لانا، اور یہ کام کم از کم دن میں 3 بار انجام دیا جاتا ہے تاکہ گھر والوں کی پانی کی ضروریات پوری ہوسکیں۔

    اندرون سندھ کے علاقوں کے دورے کرنے والے یا وہاں کی رواج و ثقافت کو سمجھنے والے جانتے ہوں گے کہ گھر کی ضروریات کے لیے پانی بھر کر لانا صرف خواتین کی ذمہ داری ہے، اور یہ ذمہ داری ایسی ہی لازمی ہے جیسے بچے پیدا کرنے کا کام مرد کسی صورت نہیں کرسکتا، صرف عورت کر سکتی ہے تو پانی بھر کر لانا بھی صرف عورت کا ہی کام ہے۔

    مرد گھر میں بے کار بھی بیٹھا ہوگا تو کبھی اس طویل سفر میں عورت کی مدد نہیں کرے گا کیونکہ اسے صدیوں سے یہی بتایا گیا ہے کہ پانی بھر کر لانا صرف عورت کی ذمہ داری ہے۔

    ان علاقوں کی کئی بچیاں پڑھنا چاہتی ہیں، لیکن وہ بھی اپنی ماؤں کے ساتھ پانی کے ڈول بھر بھر کر لاتی ہیں۔ خود ان کی مائیں حتیٰ کہ باپ اور بھائی بھی ان کی اس خواہش سے واقف ہیں لیکن ان کے سامنے سب سے بڑی مجبوری ہے کہ اگر بچیاں اسکول گئیں تو پانی کون بھر کر لائے گا۔ چھوٹی بچیاں ساتھ جا کر کم از کم اپنے حصے کا پانی تو بھر کر لے ہی آتی ہیں۔

    ابھی اسی موضوع پر بات ہو رہی تھی کہ نظر مکان کی دیوار سے ساتھ لگے بڑے سے ڈھیر پر جا ٹکی۔ چادر میں چھپائے گئے اس ڈھیر سے کچھ چمکتی ہوئی اشیا باہر جھانکتی دکھائی رہی تھیں۔

    دریافت کرنے پر خواتین نے اس ڈھیر پر سے چادر ہٹا دی۔ یہ ڈھیر سینکڑوں کی تعداد میں خوبصورت کڑھے ہوئے تکیوں، رلیوں (سندھ کی روایتی اوڑھنے والی چیز)، بالوں کی آرائشی اشیا، دیدہ زیب کشیدہ کاری سے مزین شیشوں اور دیواروں پر آویزاں کرنے کے لیے خوش رنگ روایتی کڑھائی سے تیار کی گئی اشیا پر مشتمل تھا۔

    ان عورتوں کے پاس ایسا شاندار ہنر موجود ہے، اگر انہیں شہر تک رسائی دی جائے تو ان کی بنائی یہ اشیا ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوسکتی ہیں تاہم جب اس بارے میں ان سے دریافت کیا گیا تو تمام خواتین نے ٹکا سا جواب دے دیا، ’نہیں یہ بیچنے کے لیے نہیں بنائیں‘۔

    تو پھر اس چمکتے ڈھیر کو بنانے اور جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیونکہ بظاہر کوئی گھر ایسا نظر نہیں آرہا تھا جہاں اس قسم کی دیدہ زیب اشیا عام استعمال ہوتی دکھائی دے رہی ہوں۔

    دریافت کرنے پر علم ہوا کہ یہ تمام سامان لڑکیوں کے جہیز کے لیے بنایا جاتا ہے۔

    شاد بی بی نامی ایک خاتون نے کچھ تکیے دکھاتے ہوئے بتایا کہ انہیں بنانے پر 5 ہزار روپے کی لاگت آئی ہے۔ ’یہ پیسہ تو ہم اس وقت سے جوڑنا شروع کردیتے ہیں کہ جب ہمارے گھر لڑکی پیدا ہوتی ہے۔ ہم اسے دے ہی کیا سکتے ہیں زندگی بھر، لیکن کم از کم اس کی شادی میں یہ خوبصورت اور قیمتی سامان پر مشتمل تھوڑا بہت جہیز دینا تو ضروری ہے‘۔

    گویا ایک جھونپڑی سے دوسری جھونپڑی تک رخصت ہونے والی بیٹی اپنے جہیز میں یہ قیمتی کڑھے ہوئے تکیے اور آرائشی اشیا وغیرہ اپنے ساتھ جہیز میں لے کر آتی ہے۔ مزید کچھ دینے کی استطاعت نہ تو اس کے گھر والوں میں ہے اور نہ اس کے ہونے والے شوہر کی جھونپڑی میں اتنی جگہ کہ وہ شہری جہیز یعنی ٹی وی، فریج، اے سی وغیرہ کی ڈیمانڈ کرسکے یا انہیں رکھ سکے۔

    یہ جہیز شادی کے بعد بمشکل 1 سے 2 ہفتے تک دلہن کو خوشی فراہم کرتا ہے جب اس کی ساس تمام گاؤں والوں کو جمع کر کے انہیں دکھاتی ہے کہ ’ہماری نوہنہ (بہو) یہ جہیز لائی ہے‘۔ نفاست اور خوبصورتی سے کڑھے ان تکیوں اور رلیوں پر کبھی داد و تحسین دی جاتی ہے کبھی اس میں بھی خامیاں نکالی جاتی ہیں۔

    دو ہفتے تک دلہن کو اس کی زندگی میں نئی تبدیلی ہونے کا احساس دلاتی یہ اشیا بالآخر اس وقت اپنی اہمیت کھو بیٹھتی ہیں جب دلہن پہلے کی طرح اپنے سر پر بڑے بڑے برتن اٹھائے پانی بھرنے کے سفر پر نکلتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ پہلے وہ اپنی ماں بہنوں کے ساتھ جاتی تھی، اب اپنی ساس اور نندوں کے ساتھ جاتی ہے۔

    اس کی پیدائش کے وقت سے جمع کیے جانے والے پیسوں اور ان سے بنائی گئی یہ قیمتی اشیا خراب ہونے سے بچانے کے لیے انہیں جھونپڑی کے ایک کونے میں ایک ڈھیر کی صورت رکھ دیا جاتا ہے اور اسے گرد و غبار سے بچانے کے لیے اس پر چادر ڈھانپ دی جاتی ہے۔

    ہمارے شہروں میں دیا جانے والا جہیز کم از کم استعمال تو ہوتا ہے۔ یہ جہیز تو زندگی بھر یوں ہی رکھا رہتا ہے کیونکہ بدنصیب عورتوں کو اتنی مہلت ہی نہیں ملتی کہ وہ اسے استعمال کرسکیں۔

    ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد دن میں 3 بار پانی بھر کر لانا ہے اور دن کے آخر میں جب وہ رات کو تھک کر بیٹھتی ہیں تو ان میں اتنی بھی ہمت نہیں ہوتی کہ اتنی محنت اور ماؤں کی چاہت سے بنائے گئے جہیز کو چادر ہٹا کر ایک نظر دیکھ لیں، اور خوش ہولیں۔

    اور ہاں یہ جہیز نسل در نسل منتقل نہیں ہوتا، بلکہ ہر نئی بیٹی پیدا ہونے پر اس کے والدین پھر سے پیسہ جوڑنا اور یہ اشیا بنانا شروع کردیتے ہیں تاکہ وہ اپنی بیٹی کو بھی باعزت طریقے سے رخصت کرسکیں۔

    نسل در نسل سے بیٹی کو تعلیم دینے کے بجائے اسے بے مقصد اور ناقابل استعمال جہیز دینے والے ان بے بسوں کی زندگی شاید اس وقت بدل جائے جب انہیں پانی بھرنے کے طویل سفر کی مشقت سے چھٹکارہ مل جائے، لیکن وہ وقت کب آئے گا، خدا ہی بہتر جانتا ہے۔