Tag: جیمز ویب ٹیلی اسکوپ

  • دو کہکشاؤں کی نئی خوبصورت تصویر نے دنیا کو حیران کردیا

    دو کہکشاؤں کی نئی خوبصورت تصویر نے دنیا کو حیران کردیا

    واشنگٹن : امریکی خلائی ادارے ناسا اور اس کے یورپی و کینیڈین شراکت داروں کے اشتراک سے خلا میں بھیجے جانے والی ’جیمز ویب ٹیلی اسکوپ‘ کی تصاویر نے دنیا کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا۔

    جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کی دوسری سالگرہ کے موقع پر ’پینگوئن‘ اور ’ایگ‘ نامی کہکشاؤں کی تصویر جاری کی گئی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ دو سال قبل اپنے خلائی سفر کے آغاز سے اب تک کئی حیرت انگیز دریافتیں کرچکی ہے۔

    سائنسدانوں کی ٹیم نے جوڑی کہکشاؤں کی نئی تصاویر جاری کی ہیں جس میں دونوں کہکشاؤں کو پہلے سے کہیں زیادہ واضح کیا گیا ہے۔

    galaxies

    جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کی جانب سے لی گئی ایک حیرت انگیز تصویر میں این جی سی 2936 اور این جی سی 2937 کہکشائیں جنہیں پینگوئن اور ای جی جی (ایگ) کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک دوسرے کے قریب موجود ان کہکشاؤں کو اے آر پی 142 کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق یہ دونوں کہکشائیں زمین سے 32 کروڑ 60 لاکھ نوری برسوں کے فاصلے پر واقع ہیں اور جیمز ویب اسپیس نے ان کی تصویر انٹرایکٹیو لائٹ کی مدد سے کھینچی ہے۔

    interacting

    یہ دونوں کہکشائیں ڈھائی سے ساڑھے 7 کروڑ لاکھ سال قبل قریب آنا شروع ہوئی تھیں، دونوں کہکشاؤں کی قربت سے مدھم جگمگاہٹ پیدا ہو رہی ہے۔

    ناسا کے فلکی طبیعیات ڈویژن کے ڈائریکٹر مارک کلیمپن کا کہنا تھا کہ ٹیلی اسکوپ ابتدائی کائنات کے بارے میں رازوں سے متعلق بصیرت فراہم کر رہی ہے اور دور دراز کے خطوں کے مطالعے کا ایک نئے دور کا آغاز کر رہی ہے۔

  • کاینات کی ابتدائی کہکشاؤں کا سراغ، 10 ارب ڈالر کی جدید ترین ٹیلی اسکوپ لانچ

    کاینات کی ابتدائی کہکشاؤں کا سراغ، 10 ارب ڈالر کی جدید ترین ٹیلی اسکوپ لانچ

    امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے کاینات کی ابتدائی کہکشاؤں کا سراغ لگانے کے لیے 10 ارب ڈالر کی لاگت سے تیار کر دہ جدید ترین ٹیلی اسکوپ لانچ کر دی ہے۔

    ناسا کی جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ ہفتے کے روز صبح جنوبی امریکا میں فرنچ گیانا میں یورپ کے اسپیس پورٹ سے ایک راکٹ آریانے فائیو کے ذریعے لانچ کیا گیا، ناسا کی یہ ٹیلی اسکوپ کائنات کی پہلی کہکشاؤں اور دور دراز کی دنیا کو دیکھنے کے لیے لانچ کی گئی ہے۔

    یورپی اسپیس ایجنسی اور کینیڈین اسپیس ایجنسی کے ساتھ مشترکہ کوشش کرنے والی یہ Webb آبزرویٹری ابتدائی کائنات میں بالکل پہلی کہکشاؤں کی روشنی تلاش کرنے، اپنے نظام شمسی، اور دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگانے والے سیاروں سے متعلق تحقیق کے لیے ناسا کا انقلابی مشن ہے۔

    زمین پر موجود ٹیموں نے ویب (Webb) لانچ ہونے کے تقریباً پانچ منٹ بعد ہی ٹیلی میٹری ڈیٹا حاصل کرنا شروع کیا، آریانے فائیو راکٹ نے توقع کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ کیا، پرواز کے 27 منٹ میں آبزرویٹری سے الگ ہوا، اس آبزرویٹری کو تقریباً 75 میل (120 کلومیٹر) کی بلندی پر چھوڑا گیا تھا، لانچ کے تقریباً 30 منٹ بعد ویب نے اپنی شمسی پینلز کو کھولا اور مشن منیجرز نے تصدیق کی کہ شمسی پینلز رصد گاہ کو توانائی فراہم کر رہی ہے۔

    شمسی پینلز کھلنے کے بعد اب مشن آپریٹرز کینیا میں مالندی گراؤنڈ اسٹیشن کے ذریعے آبزرویٹری کے ساتھ ایک مواصلاتی رابطہ قائم کریں گے، اور بالٹی مور میں اسپیس ٹیلی اسکوپ سائنس انسٹیٹیوٹ کا زمینی کنٹرول خلائی جہاز کو پہلی کمانڈ بھیجے گا۔

    دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے پیچیدہ خلائی سائنس آبزرویٹری اب خلا میں 6 ماہ تک کام شروع کرے گی، کمیشننگ کے اختتام پر ویب اپنی پہلی تصاویر فراہم کرے گا۔ ویب کے پاس بے مثال ریزولوشن کے انتہائی حساس انفراریڈ ڈیٹیکٹر کے ساتھ چار جدید ترین سائنسی آلات ہیں۔