Tag: جینز

  • اسکولوں میں جینز، ہائی ہیل، میک اپ پر پابندی؟ محکمہ تعلیم کی وضاحت

    اسکولوں میں جینز، ہائی ہیل، میک اپ پر پابندی؟ محکمہ تعلیم کی وضاحت

    محکمہ تعلیم نے گزشتہ روز مرد وخواتین اساتذہ کے لباس سے متعلق ضابطہ اخلاق جاری کیا تھا جس کی اب وضاحت کر دی گئی ہے۔

    محکمہ تعلیم سندھ کی جانب سے گزشتہ روز مرد وخواتین اساتذہ کے لیے ایک ضابطہ اخلاق جاری کیا گیا تھا جس میں خواتین اساتذہ کو زیادہ میک اپ کرنے، زیادہ زیورات اور ہائی ہیل سینڈل پہننے سے گریز کرنے کا کہا گیا تھا۔

    اسی طرح مرد اساتذہ کو اسکول میں جینز اور ٹی شرٹ پہن کر نہ آنے کا کہا گیا تھا۔
    اب اس حوالے سے محکمہ تعلیم سندھ کی جانب سے وضاحت سامنے آ گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اسکولوں میں کسی بھی لباس پر پابندی عائد نہیں کی گئی۔

    ترجمان محکمہ تعلیم کے مطابق اساتذہ کے لیے گزشتہ روز جاری کیا گیا ضابطہ اخلاق کوئی حکم نامہ نہیں بلکہ رہنما اصول ہیں۔

    محکمہ تعلیم کی جانب سے اپنے وضاحتی بیان میں کہا گیا ہے کہ ضابطہ اخلاق جاری کرنے کا مقصد معیاری تعلیم، تعلیمی ماحول کی بہتری اوروسائل کا درست استعمال ہے۔

    مزید کہا گیا ہے کہ اساتذہ بچوں کے مستقبل کے معمار اور ان کی سماجی ونفسیاتی رہنمائی کرتے ہیں۔ جاری کیا گیا ضابطہ اخلاق اساتذہ تنظیموں، وکلا اور سول سوسائٹی کی مشاورت سے مرتب کیے گئے۔

    محکمہ تعلیم کا کہنا ہے کہ اس ضابطہ اخلاق میں مرد وخواتین اساتذہ کو لباس اور طرزِ عمل سے متعلق صرف مشورے دیے گئے ہیں، نہ کہ کوئی سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

    ترجمان محکمہ تعلیم نے یہ بھی واضح کیا کہ اسکولوں میں گٹکا، ماوا، چھالیہ اور سگریٹ کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کی گئی ہے تاکہ تعلیمی ماحول کو محفوظ رکھا جا سکے۔

    https://urdu.arynews.tv/female-teachers-makeup-ban-code-of-conduct/

  • ہانیہ عامر نے اپنی جینز ہی کاٹ ڈالی، ویڈیو وائرل

    ہانیہ عامر نے اپنی جینز ہی کاٹ ڈالی، ویڈیو وائرل

    پاکستانی شوبز انڈسٹری کی شوخ مزاج اداکارہ ہانیہ کی ایک نئی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے جس میں انہیں اپنی جینز کی پینٹ کاٹتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

    فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر حال ہی میں ہانیہ عامر نے ایک ویڈیو شیئر کی جس میں وہ اپنی ملازمہ ‘فری’ کو قینچی کی مدد سے جینز کاٹنے کا کہہ رہی ہیں۔

    سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہانیہ عامر نے جینز کو کاٹنے کیلئے اپنی ملازمہ کی مدد لی اس کے بعد خود ہی اپنی جینز کو کاٹنے میں مصروف ہوگئیں۔

    اداکارہ کی جانب سے شیئر کی گئی ویڈیو پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا جارہا ہے، جبکہ بعض صارفین کی جانب سے ان پر تنقید کے نشتر بھی برسائے گئے۔

    ایک صارف کا اپنے کمنٹس میں کہنا تھا کہ ”ہانیہ دوزخ جانے کی تیاری کرتے ہوئے“۔۔ایک اور صارف نے لکھا کہ ‘عرفی کے اثرات لگ رہے ہیں یہ’۔

    ایک اور صارف کا طنزیہ انداز میں کہنا تھا کہ انسان کو پیسہ اور شہرت مل جائے تو وہ ذہنی توازن کھو بیٹھتا ہے۔ دعا ہے کہ یہ جلد صحت یاب ہوجائیں۔

    اس سے قبل شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ ہانیہ عامر کی بھارتی ریپر بادشاہ کے ساتھ تصاویر وائرل ہوگئیں تھیں۔

    فوٹو اور ویڈیو شیئرنگ انسٹاگرام پر اداکارہ ہانیہ عامر نے تصاویر شیئر کی تھیں جس میں انہیں بھارتی ریپر بادشاہ کے ساتھ خوشگوار موڈ میں دیکھا جاسکتا ہے۔

  • 142 سال قدیم جینز دریافت، آج بھی پہننے کے قابل

    142 سال قدیم جینز دریافت، آج بھی پہننے کے قابل

    امریکا میں ایک غار سے 142 سال قدیم جینز کی پینٹ دریافت کرلی گئی، ماہرین کا کہنا ہے کہ معمولی رفو گری کے بعد اسے دوبارہ پہننے کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق مغربی امریکا میں ایک غار سے دریافت یہ جینز سنہ 1880 کی تیار شدہ ہے۔

    اس نایاب جینز کو زیپ اسٹیونسن نامی شخص نے 87 ہزار 400 امریکی ڈالرز (لگ بھگ 1 کروڑ 90 لاکھ پاکستانی روپے) میں خریدا ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Denim Doctors (@denimdoctors)

    جینز کمپنی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جس وقت کی یہ جینز ہے اس وقت کی بنائی گئی چند ایک جینز ہی اس وقت دستیاب ہیں۔

    جینز کے ٹیگ پر لکھا ہے، ’یہ قسم سفید فام ورکرز کی تیار کردہ ہے‘، یہ اس وقت جینز کمپنی کی ٹیگ لائن تھی جب سنہ 1882 میں پاس کیے گئے ایک ایکٹ کے تحت چینی شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔

    ماہرین کے مطابق چند معمولی رفو گریوں اور مرمت کے بعد اس جینز کو دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔

  • کووڈ 19 کی شدت بڑھانے والے متعدد جینز دریافت

    کووڈ 19 کی شدت بڑھانے والے متعدد جینز دریافت

    اسکاٹ لینڈ میں ہونے والی ایک تحقیق میں سائنسدانوں نے ایسے 16 جینز کو شناخت کیا ہے جو لوگوں میں کووڈ 19 کی شدت کو بڑھانے کا باعث بنتی ہے۔

    ایڈنبرگ یونیورسٹی کی تحقیق کے نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد میں ایسے جینز ہوتے ہیں جو مختلف مسائل جیسے وائرس کے نقول بنانے کی صلاحیت کو محدود کرنے، شدید ورم یا بلڈ کلاٹس کی روک تھام نہیں کرپاتے۔

    ماہرین نے کہا کہ ان نتائج کی بنیاد پر ایسے علاج تشکیل دینے میں مدد مل سکے گی جو مریضوں کو سنگین پیچیدگیوں سے بچانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

    انہوں نے کہا کہ اس سے یہ پیش گوئی کرنے میں بھی مدد مل سکے گی کہ کون سے مریض زیادہ بیمار ہوسکتے ہیں۔

    اس تحقیق کے دوران برطانیہ میں کووڈ کے باعث آئی سی یو میں زیر علاج رہنے والے مریضوں کے 56 ہزار کے لگ بھگ نمونوں کا جینیاتی تجزیہ کیا گیا تھا۔

    جب ان کا موازنہ بیماری سے محفوظ رہنے والے یا معمولی بیمار ہونے والے گروپس سے کیا گیا تو ایسے 16 جینز کی شناخت ہوئی جن کا پہلے علم نہیں تھا۔

    ماہرین نے بتایا کہ نئی دریافت سے ماہرین کو اس وقت دستیاب ادویات کو تلاش کرنے میں مدد مل سکے گی جو کووڈ 19 کے علاج میں ممکنہ طور پر مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔

    مثال کے طور پر ماہرین نے دریافت کیا کہ ایسے بنیادی جینز میں بیماری کے دوران تبدیلیاں آتی ہیں جو ایک پروٹین فیکٹر VIII کو ریگولیٹ کرتے ہیں جو بلڈ کلاٹس بننے کے عمل کا حصہ ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ بلڈ کلاٹس ان چند بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے کووڈ کے مریضوں کو آکسیجن کی کمی کا سامان ہوتا ہے، تو ایسا ممکن ہے کہ ایسے حصوں کو ہدف بنایا جائے جس سے بلڈ کلاٹس کو بننے سے روکا جاسکے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ مگر ہم ٹرائلز کے بغیر یہ نہیں جان سکتے کہ یہ ادویات کام کریں گی یا نہیں۔

  • جینز پر لگے داغ دھبوں کو کیسے نکالا جائے؟

    جینز پر لگے داغ دھبوں کو کیسے نکالا جائے؟

    جینز پر گہرے داغ لگ جائیں تو انہیں دھونا بہت مشکل ہوتا ہے، ایسی صورت میں جینز نہایت بدنما لگنے لگتی ہے اور بیکار ہوجاتی ہے۔

    ذیل میں کچھ ایسے طریقے بتائے جا رہے ہیں جن کی مدد سے آپ جینز پر لگنے والے داغ دھو کر اسے بے کار ہونے سے بچا سکتے ہیں۔

    ٹھنڈے پانی یا الکحل سے وہ جگہ اچھی طرح دھوئیں جہاں داغ لگا ہو۔

    ایک لیٹر پانی میں آدھا چمچ ڈش واشنگ مائع اور ایک چمچ گھریلو امونیا ملا لیں اور جینز کو 15 منٹ کے لیے اس میں بھگو دیں۔

    اس کے بعد داغ کو اچھی طرح رگڑیں اور دوبارہ پچھلے محلول میں آدھے گھنٹے کے لیے ڈال دیں۔

    جینز کو ٹھنڈے پانی میں بھگو دیں، اس میں آکسیجن بلیچ شامل کریں اور 8 گھنٹے کے لیے چھوڑ دیں۔

    یاد رکھیں اس میں کچھ احتیاط کی ضرورت بھی ہوتی ہے خصوصاً سخت کیمیکل استعمال کرتے وقت بلیچنگ پاؤڈر اور امونیا کو مکس نہیں کرنا چاہیئے، اسی طرح انہیں کسی ایک برتن میں بھی بار بار استعمال نہ کریں۔

    یہ بات بھی یاد رکھیں کہ امونیا کو کلورین بلیچ سے مکس کرنے کی صورت میں زہریلا دھواں پیدا ہو سکتا ہے۔

    جب جینز سے داغ دھلنے لگیں تو اسے عام طریقہ کار کے مطابق واشنگ مشین میں دھوئیں اور کھلی ہوا میں خشک کریں، ڈرائر استعمال کرنے سے گریز کریں۔

    داغ دھونے میں جتنی جلدی کریں گے اسی قدر اسے دھونا آسان ہوگا، جب جینز پر مائع داغ نظر آئے اسے نچلی طرف کر دیں اور غسل خانے میں لے جا کر ٹھنڈے پانی کے نل کے نیچے رکھ دیں یا پھر اسے مزید پھیلنے یا گہرا ہونے سے بچانے کے لیے داغ کی جگہ پر الکحل ڈال دیں۔

    داغ کو دھونے کے لیے مندرجہ بالا طریقوں کو کئی بار بھی آزمایا جا سکتا ہے تاکہ داغ اچھی طرح صاف ہو جائے۔

  • ہماری جینز کا نیلا رنگ کہاں سے آیا؟

    ہماری جینز کا نیلا رنگ کہاں سے آیا؟

    رنگ مختلف خاصیتوں کے حامل ہوتے ہیں، کچھ رنگ خوشی، خوشحالی، محبت اور سکون کا استعارہ ہوتے ہیں تو کچھ غم و الم، مایوسی اور ناامیدی کی علامت ہوتے ہیں۔

    نیلا بھی ایسا ہی رنگ ہے جو بھروسے، وفاداری اور ذہانت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں اس رنگ کی کچھ ایسی خصوصیات بھی ہیں جو ہم آج سے قبل نہیں جانتے تھے؟

    ہماری نیلے رنگ کی جینز، اور نیلے رنگ کے مختلف ملبوسات آج کے دور میں مختلف کیمیکلز سے رنگے جاتے ہیں۔ آئیے آج ہم آپ کو اس رنگ کے اصل خطے اور اس کی تاریخ کے بارے میں بتاتے ہیں۔

    جاپان کے جنوب مغرب میں واقع مضافاتی شہر ٹوکو شیما نیلا رنگ پیدا کرنے والے پودوں انڈیگوفیرا ٹنکوریا کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس شہر میں یوشینو گاوا نامی دریا ہے جو زیر زمین بہتا ہے اور مٹی کو حرارت فراہم کرتا ہے۔

    ان پودوں سے حاصل ہونے والا نیلا رنگ سنہ 1600 سے مقبول ہونا شروع ہوا۔ اس سے قبل جاپان کا سمورائی قبیلہ اس رنگ کو عام استعمال کرتا تھا۔

    دراصل اس نیلے رنگ سے جب کاٹن کو رنگا جاتا تھا تو وہ کاٹن سخت ہوجاتا تھا، یہ کپڑا دیگر کپڑوں کی نسبت بدبو اور دھول مٹی سے کم خراب ہوتا تھا۔ چنانچہ سخت مشقت کرنے والے اور سخت جان سمورائیوں کے لیے یہ ایک پسندیدہ رنگ تھا۔

    پودوں سے حاصل ہونے والا یہ نیلا رنگ جسم کے مختلف زخموں کو بھی جلد مندمل کردیتا تھا کیونکہ یہ رنگ زخم کو مختلف بیکٹریا سے محفوظ رکھتا تھا۔

    یہ رنگ اس وقت فائر فائٹرز کے لباس کا بھی رنگ تھا، کیونکہ (خالص) نیلا رنگ 1500 ڈگری فارن ہائیٹ کے شعلوں سے بھی بچا سکتا ہے۔

    تاہم اس رنگ کا حصول اتنا آسان بھی نہیں تھا۔

    اس رنگ کو حاصل کرنے کے لیے مخصوص پودے کے پتوں کو پودے سے الگ کیا جاتا ہے، اس کے بعد اسے دھوپ میں سکھایا جاتا ہے۔ ان پتوں کو ہر تھوڑی دیر بعد پلٹ کر دھوپ لگانی ضروری ہوتی ہے۔

    اچھی طرح دھوپ میں رہنے کے بعد ان پتوں کا رنگ نیلا مائل ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد اس سے رنگ تیار کیا جاتا ہے۔ یہ سارا عمل تقریباً 1 سال میں مکمل ہوتا ہے۔

    اس رنگ کو حاصل کرنے میں درپیش محنت اور طوالت کی وجہ سے اب اس رنگ کے لیے کیمیکلز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جب مارکیٹ میں اصل رنگ کی مانگ کم ہوئی تو اس کی افزائش سے وابستہ کسانوں نے بھی ان پودوں کو اگانا چھوڑ کر کوئی دوسرا ذریعہ معاش تلاش کرلیا۔

    ٹوکو شیما میں اب گنتی کے صرف 5 کسان ہیں جو ابھی بھی اس پودے کی افزائش کر رہے ہیں۔

    اس رنگ سے کپڑوں کو رنگنا بھی کوئی آسان کام نہیں، رنگ سازوں کو اس رنگ میں رنگی ایک شے تیار کرنے میں کم از کم 10 دن لگ جاتے ہیں۔

    طویل عرصے تک اس رنگ سے کھیلنے کے بعد زیادہ تر رنگ سازوں کے ناخن بھی مستقل اسی رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔

    خالص اور کیمیکل ملے رنگ میں کیا فرق ہے؟

    یہ بات تو طے ہے کہ جب کوئی شے خالص اور قدرتی اشیا سے تیار کی جاتی ہے تو اس کی الگ ہی چھب ہوتی ہے۔

    اس رنگ کے کاروبار سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ کیمیکل والے رنگ سے جب کپڑے کو رنگا جاتا ہے تو وہ اسی وقت خوبصورت معلوم ہوتا ہے، اور کچھ عرصے بعد اس کی یہ خوبصورتی ماند پڑ جاتی ہے۔

    اس کے برعکس اصل رنگ سے رنگی اشیا کی خوبصورتی وقت کے ساتھ نکھر کر آتی ہے اور یہ دیرپا بھی ہوتی ہے۔

    ایک ماہر رنگریز پودوں سے حاصل کیے گئے نیلے رنگ سے مختلف شیڈز تخلیق کر سکتا ہے، وہ اسے سیاہی مائل نیلا بھی بنا سکتا ہے، اور سمندر جیسا پرسکون نیلگوں بھی۔

    کیا آپ یہ خالص رنگ پہننا چاہیں گے؟

  • جنوبی افریقہ میں خواتین فیکٹری ورکرز سے زبردستی جنسی روابط قائم کرنے کا انکشاف

    جنوبی افریقہ میں خواتین فیکٹری ورکرز سے زبردستی جنسی روابط قائم کرنے کا انکشاف

    جنوبی افریقہ میں برانڈڈ گارمنٹس کی فیکٹری میں کام کرنے والی خواتین کو زبردستی جنسی روابط قائم کرنے پر مجبور کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے جس کے بعد مذکورہ برانڈز متحرک ہوگئے۔

    امریکا کے 3 بڑے ملبوسات برانڈز نے لیسوتھو فیکٹریز میں جنسی استحصال کے خلاف کریک ڈاؤن پر زور دیا ہے، مذکورہ فیکٹریز میں خواتین کو نوکری پر رہنے کے لیے جنسی روابط قائم کرنے پر مجبور کیے جانے کا انکشاف ہوا تھا۔

    معروف برانڈز لیوائی اسٹراس اینڈ کمپنی، کونتور برانڈز جو رینگلر اور لی جینز کی بھی مالک ہیں اور دی چلڈرنز پلیس نے جنوبی افریقہ کے چھوٹے سے ملک میں 5 فیکٹریوں سے جنسی ہراسانی کے خاتمے کے لیے معاہدہ کیا جہاں 10 ہزار خواتین ان برانڈز کے لیے کپڑے تیار کرتی ہیں۔

    ورکر رائٹز کنزورشیم (ڈبلیو آر سی) کی سینیئر پروگرام ڈائریکٹر رولا ابی مورچڈ کا کہنا تھا کہ یہ معاہدے دیگر کپڑوں کا کاروبار کرنے والے اداروں کے لیے ہراسانی اور تشدد کے مسائل کو حل کرنے کے لیے مثالی ہیں۔

    ڈبلیو آر سی کی تحقیقات کے مطابق تائیوان کی عالمی جینز بنانے والی کمپنی نیئن ہسنگ ٹیکسٹائل کی ملکیت میں امریکی برانڈز کے لیے جینز بنانے والی 3 فیکٹریوں میں خواتین کو اپنے سپروائزرز سے روزانہ جنسی روابط قائم کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے تاکہ ان کی نوکری برقرار رہے۔ یہ کمپنی افریقی ملک میں گارمنٹ کے شعبے میں مزدوروں کی ایک تہائی تعداد رکھتی ہے۔

    ڈبلیو آر سی نے ایک خاتون کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ میرے ڈپارٹمنٹ میں تمام خواتین کے ساتھ سپروائزر نے جنسی روابط قائم کیے ہیں، خواتین کے لیے یہ زندگی اور موت کا سوال ہے، اگر آپ انکار کریں تو آپ کو نوکری نہیں ملے گی یا آپ کے کنٹریکٹ کی تجدید نہیں کی جائے گی۔

    نیئن ہسنگ سے طے کیے گئے معاہدے کے مطابق 5 ٹریڈ یونین اور 2 خواتین کے حقوق کے ادارے سمیت ایک خود مختار کمیٹی ان شکایات کو دیکھے گی اور خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرے گی۔ نیئن ہسنگ خود مختار سول سوسائٹی کے اراکین کو بھی فیکٹریوں تک رسائی فراہم کرے گی جہاں وہ مزدوروں سے بات کریں گے اور مینیجرز سے شکایت لانے والے مزدوروں کو روکنے سے منع کریں گے۔

    جینز بنانے والوں کا کہنا تھا کہ ہم مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے پر عزم ہیں۔ ’ہمارا ماننا ہے کہ اس معاہدے سے طویل المدتی تبدیلی آئے گی اور ان فیکٹریوں میں ایک مثبت ماحول پیدا ہوگا جو یہاں کام کرنے والے تمام لوگوں کے لیے مثبت اثر چھوڑ جائے گا‘۔

  • جینز پہننے والی خواتین کے ہاں مخنث پیدا ہوتے ہیں: ہندو پروفیسر کا مضحکہ خیز دعویٰ

    جینز پہننے والی خواتین کے ہاں مخنث پیدا ہوتے ہیں: ہندو پروفیسر کا مضحکہ خیز دعویٰ

    کیرالا: ایک ہندو پروفیسر نے یہ عجیب و غریب دعویٰ کیا ہے کہ جینز پہننے والی خواتین کے ہاں مخنث پیدا ہوتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کیرالا سے تعلق رکھنے والے متنازع ماہر نباتات پروفیسر رجیت کمار نے دعویٰ کیا ہے کہ جو خواتین جینز اور مردانہ طرز کے کپڑے پہنتی ہیں، ان کے مخنث بچوں کی پیدائش کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    انھوں نے ان خیالات کا اظہار اپنے ایک لیکچر میں کیا، جس میں طلبا و طالبات کی بڑی تعداد موجود تھی۔ ان کاکہنا تھا کہ ”جینز اور شرٹ پہننے والی خواتین کے ہاں خواجہ سرا پیدا ہوتے ہیں اور اس وقت کیرالا میں ان کی بڑھتی تعداد کا یہی سبب ہے۔ “

    یاد رہے کہ اس وقت کیرالا میں چھ لاکھ سے زائد خواجہ سرا ہیں، جو اپنے حقوق کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ کیرالا کا شمار بھارت کی ان ریاستوں میں ہوتا ہے، جہاں تعلیم کی شرح سب سے بلند ہے۔

    پروفیسر رجیت نے مزید کہا کہ جو جوڑے اپنی صنفی شناخت کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں، ان ہی کے ہاں نیک اولاد پیدا ہوتی ہے۔جن والدین کے کردار میں نقص ہوتا ہے، ان کے بچے بڑے ہو کر ملحد بن جاتے ہیں ۔

    پروفیسر رجیت کمار کے اس تبصرے پر شدید عوامی ردعمل آیا۔ سوشل میڈیا پر بھی انھیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ خواتین کی سماجی تنظیموں نے بھی پروفیسر رجیت کمار کو آڑے ہاتھ لیا۔

    یاد رہے کہ پروفیسر رجیت کمار ماضی میں بھی اپنے متنازع بیانات کی وجہ سے خبروں کی زینت بنتے رہے ہیں۔ وہ مذہبی عقائد اور خواتین سے متعلق اپنے انتہا پسندانہ نظریات کی وجہ سے ناپسندیدہ شخصیت تصور کیے جاتے ہیں۔ 

    کیرالا کی حکومت ان کے عوامی بیانات پر پابندی لگا دی ہے۔


    بھارت، ہندو اساتذہ کا مسلمان طالب علموں کے ساتھ امتیازی سلوک


  • پاکستانی ماہرین کی ذہنی معذوری پیدا کرنے والے جینز کی دریافت

    پاکستانی ماہرین کی ذہنی معذوری پیدا کرنے والے جینز کی دریافت

    اسلام آباد: پاکستانی طبی محققین نے 30 ایسے جینز کی دریافت کی ہے جو ذہنی معذوری کا سبب بنتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ دریافت ذہنی امراض کے علاج میں ایک اہم پیش رفت ثابت ہوگی۔

    یہ دریافت شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کے 12 پروفیسرز نے نیدر لینڈز اور امریکی ماہرین کے ساتھ مل کر کی ہے۔ یہ تحقیق اور دریافت غیر ملکی سائنسی و طبی جریدوں میں بھی شائع ہوچکی ہے۔

    ماہرین اس تحقیق پر گزشتہ 5 برسوں سے کام کر رہے تھے۔

    szbmu
    ڈاکٹر جاوید اکرم

    تحقیق میں شامل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خاندان میں شادی کے باعث ذہنی معذوری کی شرح دیگر دنیا سے نسبتاً بلند ہے۔ ’خاندانوں میں آپس میں شادیاں مختلف جینیاتی و ذہنی بیماریوں کا سبب بنتی ہیں‘۔

    ان کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم کا ارادہ ہے کہ حکومت پاکستان پر زور دیں کہ وہ شادی سے قبل چند جینیاتی ٹیسٹوں کو ضروری بنائیں اور اس کو قانون کو حصہ بنائیں تاکہ نئی آنے والی نسلوں کو مختلف ذہنی امراض سے بچایا جاسکے اور ان کی پیدائش سے قبل ان امراض کی روک تھام یا ان کا علاج کیا جاسکے۔

    واضح رہے کہ جسمانی و ذہنی معذوری پیدا کرنے والے یہ جین کچھ خاندانوں میں پائے جاتے ہیں اور اگر اس خاندان کے کسی فرد کی شادی ایسے ہی جین رکھنے والے کسی شخص سے کی جائے تو پیدا ہونے والے بچوں میں مخلتف امراض جیسے اندھا پن، بہرا پن اور ذہنی معذوری کا 100 فیصد خطرہ موجود ہوتا ہے۔